• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قراء ات کا مفہوم، ارتقاء اور شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طریقہ اَفراد
ہر اِمام کے ہر ہر راوی کے رِوایت کو الگ الگ علی الترتیب پڑھنا خواہ کسی وجہ میں رُواۃ کا اِتحاد ہی کیوں نہ ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طریقہ جمع
جمع قراء ات میں شرعاً اِختیار ہے جس کو چاہیں مقدم و مؤخر کریں۔مگر قراء میں معمول یوں ہے کہ جس ترتیب سے قراء ِ رواۃ، شاطبیہ میں مرتب ہیں اسی ترتیب سے پڑھنا۔ اس کی مخالفت، فن کی نا واقفی، غلطی اور واجب اِستحسانی کا ترک سمجھا جاتا ہے۔
جمع قراء ات کے تین طریقے مروّج ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الف جمع وقفی
اِس کی کیفیت یہ ہے کہ سب سے پہلے قالون کی رِوایت پڑھنا شروع کریں اور کسی آیت یا علامت وقف پر وقف کرکے دیکھیں کہ ان کے ساتھ شروع سے آخر تک کوئی شریک ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شریک ہوتو اُسے بھی ساتھ ہی فراغت ہوگئی اَب باقی جتنے رہ گئے ہیں اُن میں سے جو ترتیب میں مقدم ہے اس کے لیے پھر وہیں سے شروع کریں جہاں سے پہلے شروع کیا تھا اور وہیں وقف کریں جہاں پہلے وقف کیا تھا یہاں بھی دیکھیں کہ اَوّل سے آخر تک کوئی شریک ہے یا نہیں؟ جو شریک ہو اسے بھی فارغ سمجھیں۔ پھرباقی میں سے جو ترتیب میں مقدم ہو اُس کے لیے بھی وہیں سے پڑھیں۔ غرض اِس طرح سب کے لیے پھر پڑھیں جو شریک ہوتا جائے۔ اُسے چھوڑتے جائیں یہاں تک کہ تمام قراء کا اِختلاف پورا ہوجائے۔ یہ اَہل شام کا مذہب ہے۔
محقق﷫ فرماتے ہیں:
’’یہ مذہب اِختلافات کے اِستحضار میں اَضبط و اَوثق اور بلحاظ زمانہ اَطول ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فائدہ
جمع وقفی اور قراء تِ منفردہ میں فرق
ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ جمع وقفی میں جن حضرات کی قراء ت بوجہ شرکت و موافقت پڑھی ہوئی قراء ت میں مندرج ہوجائے گی اُن کے لیے دوبارہ نہیں پڑھا جائے گا جبکہ قراء تِ منفردہ میں موافقت کے باوجود مندرج نہیں ہوتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ب جمع حرفی
اِس کی کیفیت یہ ہے کہ قالون کے لیے پڑھنا شروع کریں اور جب لفظ مختلف فیہٖ پر پہنچیں تو جمیع قراء کے اِختلاف کو ترتیب وار پورا کرکے آگے پڑھیں اس طرح ہر لفظ مختلف فیہٖ پر پہنچ کر اُسی لفظ کو لوٹاتے رہیں یہاں تک کہ تمام قراء کا اِختلاف پورا ہوجائے اور ہر لفظ میں ترتیب کا لحاظ رکھیں (اور ہرلفظ مختلف فیہٖ میں سب سے پہلے اس قاری کی وجہ پڑھے جس کی وجہ اِس سے پہلے لفظ میں سب کے اَخیر میں پڑھی تھی تاکہ خلط پیدا نہ ہو) اور اگر کہیں اِختلاف دو کلموں سے متعلق ہو جسے خلف مرتب کہتے ہیں تو دونوں کلموں کو ملا کر اختلاف پورا کرنا واجب ہے مثلاً ’فتلقیٰ آدم‘ میں رفع و نصب دونوں ہیں لیکن یہ اِختلاف ’کلماتٍ‘ پرموقوف ہے۔ جو آدم کا رفع پڑھتے ہیں کلمات کا نصب پڑھتے ہیں اور اس کے برعکس۔ یہ اَہل مصر کا مذہب ہے۔
محقق﷫ فرماتے ہیں:
’’اَدائے اِختلاف کلمات کے لیے یہ مذہب مضبوط تر اور بلحاظ اَخذ نہایت آسان و سہل اور مختصر ہے مگر اس میں رونق تلاوت اور حسن اَدا باقی نہیں رہتا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ج جمع الجمع یا جمع مرکب یا جمع عطفی
اِس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے قالون کے لیے صحیح جگہ پر وقف کریں اور غور کریں کہ من أَولہ إلی آخرہ کون موافق ہے اور کون کون سی جگہ مختلف فیہٖ ہے؟ جو بالکل موافق ہو اُس کی روایت سے فراغت ہوئی ،پھر جو مختلف فیہٖ ہوں اُن میں دیکھیں کہ محل وقف کے زیادہ قریب کس کا اِختلاف ہے جس کا ہو اُس کے لیے محل اِختلاف سے محل وقف تک پڑھیں پھر باقیوں کے لیے بھی اِسی طرح۔
اگر ایک ہی جگہ سے کئی قاریوں کا اِختلاف شروع ہورہا ہو تو اُس وقت جو ترتیب میں مقدم ہوگا اُس کے لیے پڑھیں اور دیکھیں کہ اِس کا کوئی موافق ہوا یا نہیں جو موافق ہوا اُس سے فراغت ہوئی اور مختلفین میں جس کا اِختلاف محل وقف کے زیادہ قریب ہو اُس کے لیے پڑھیں۔ الغرض محل مختلف فیہٖ میں ترتیب الأقرب فالأقرب اور محلِ واحد میں ترتیبِ رجال واجب ہے۔ اور اگر ایک شخص کی دو وجوہ ایک ہی کلمہ میں ہو تو حکماً وہ دو شخصوں کے قائم مقام ہوگا اور دو وجہوں کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو دو مختلف شخصوں کی مختلف رِوایتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ان دو وجہوں کی ترتیب بھی قراء کے نزدیک واجبِ اِستحسانی ہے اور یہ طریقہ پہلے دو طریقوں سے مرکب ہے جو علماء مصر و شام نے اِختیار کیا ہے۔
اِن مذکورہ طریقوں میں اصل تو پہلا ہی ہے لیکن آج کل اِختصار کی غرض سے اکثر جمع الجمع ہی پڑھتے ہیں۔ جزری﷫ کے دور سے یہی طریقہ رائج ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع الجمع کی چار ضروری شرائط
(١) خوبی وقف
مطلب یہ کہ وقف نامناسب موقع پر نہ ہو چنانچہ ’وما من إلہ إلا إلہ واحد‘ اور ’وما أرسلنٰک إلا رحمۃ للعلمین‘ ہر دو مقامات میں ’إلا‘ سے پہلے وقف کرکے وجوہ پوری نہ کی جائیں کیونکہ معنی نامناسب ہوگا۔
(٢) خوبی اِبتداء
یعنی نامناسب مواقع سے اِبتداء بھی نہ ہو۔ چنانچہ إن اﷲ فقیر، وإیاکم أن تؤمنوا، إن اﷲ ثالث وغیرہ سے اِبتداء کرنا درست نہیں کیونکہ معنی مرادِ الٰہی کے مخالف ہونے کا وہم ہوتا ہے۔
(٣) حسنِ اَدا اور تجوید
حسن اَداء اور تجوید کی پوری پوری رِعایت اور پابندی کی جائے۔
(٤) خلطِ قراء ات
قراء ات میں ترکیب اور خلط نہ ہونے پائے۔
نوٹ: ’جمع کے طریقے اُستادِ محترم قاری محمد اِبراہیم میر محمدی ﷾ کی کتاب ’المدخل إلی علم القراء ات والقصیدۃ الشاطبیۃ‘ سے ماخوذ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمعِ قراء ات کا تاریخی اِرتقاء
موجودہ تاریخی مصادر میں اِس بات کی تصریح موجود نہیں کہ جمع قراء ات کا آغاز کب ہوا۔ اِمام جزری﷫ نے قراء کے حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے جمع قراء ت کے زمانہ کی تعیین کی کوشش کی ہے مگر وہ بھی اس میں حتمی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔یہ کہنا شاید ممکن ہے کہ اُنہوں نے صدرِ اوّل سے اپنے زمانے (اَواخر آٹھویں صدی ہجری تک اَوائل نویں صدی ہجری) کو سامنے رکھتے ہوئے قراء کے حالات اپنی اَہم کتاب ’طبقات القراء ‘ میں ذکر کیے ہیں۔ لیکن جمع قراء ت کی کوئی متعین تاریخ کا علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے اُنہوں نے تقریباً چوتھی صدی ہجری کی بات کی ہے۔یہ بات ’منجد المقرئین‘ اور ’النشر‘ میں موجود ہے کہ قراء ت کے جمع کی اِبتداء پانچویں صدی ہجری میں ہوئی جو کہ اَبوعمرو عثمان بن سعید دانی﷫ (۴۴۴ھ؍۱۰۵۲م)، اَبوالفتح عبدالواحد بن حسین بغدادی المعروف ابن شیطا ﷫ (۴۰۵ھ؍۱۰۱۴م)، اَبو علی حسن بن علی اَہوازی (۴۴۶ھ؍۱۰۵۴م) اور اَبوالقاسم یوسف بن علی ہذلی (۴۶۵ھ ؍ ۱۰۷۲م) کا زمانہ ہے۔
بعض محققین کا کہنا ہے کہ جمع قراء ات کے اَوّلین بانی اُندلسی ہیں لیکن اِس میں بھی بانی کے نام کا تعین نہیں۔ حقیقت میں اس بارے میں مزید علمی تحقیق کی ضرورت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع قراء ات کا سبب
مجلس واحد یا ختم واحد میں جمع کا سبب یہ ہے کہ فنِ قراء ت کے طلباء اور شوق رکھنے والے متاخرین کے لیے سلف کا تعلیمی طریقہ بہت گراں تھا۔سلف تو فرداً فرداً تمام قراء ات و رِوایات کو پڑھتے پڑھاتے تھے۔ اس میں مشقت تھی کہ ہر ایک قاری اور راوی کے لمبے چوڑے قواعد و ضوابط کو یاد کرنا اور اس کام کے لیے کئی کئی سال صرف کرنا پڑتے تھے۔ اس قد رلمبا عرصہ اَب ہر طالب علم کیلئے پڑھنا ممکن نہ تھا۔ اس وجہ سے فنِ قراء ت میں رغبت رکھنے والے اَیسے لوگ بہت کم ہوگئے۔ یہاں تک خطرہ لاحق ہوا کہ اس فرض کفایہ کی اَدائیگی کرنے والے لوگ بھی میسر نہ ہوں۔ اسی وجہ سے علماء قراء ت نے جدید تعلیمی نہج اَپنایا جو دونوں چیزوں کا جامع تھا۔ اس میں فن قراء ات کے طلباء کے لیے بھی آسانی ہے اور علم قراء ت کی آسانی بھی ہے تاکہ کم وقت میں قراء ت حاصل کی جاسکیں اور قراء ت کی حفاظت کا فریضہ بھی سرانجام دیا جاسکے۔ اس کی عملی صورت جمع قراء ت کی شکل میں سامنے آئے۔ اس جمع کی خاص کیفیت اور مخصوص شرائط میں جیسا کہ ہم پہلے نقل کرچکے ہیں۔
نوٹ: یہ بات ذِہن میں رہے کہ جمع مذکورہ کی صورت میں اِفراد کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ اِفراد کی پہچان کے بغیر جمع قراء ات ناممکن ہے۔ حقیقت میں جمع قراء ت سلف و خلف کے مذاہب ؍طریقہ تعلیم کا حسین اِمتزاج ہے۔
قدیم قراء نے اپنی کتابوں میں ’صغراوی‘ کی جمع قراء ات کے بارے میں بحث کا جواب نہیں دیا اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ روایت اور جمع قراء ت کی عملی تطبیق میں مشغول تھے۔ ذیل میں ہم اس موضوع پر چند کتب کا تذکرہ کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) ترتیب الأداء وبیان الجمع في الإقراء اَز ابوالحسن علی بن سلیمان اَنصاری قرطبی﷫ (۷۳۰ھ؍۱۳۲۹م) المعروف علی قرطبی۔ آپ قاس کے شیخ القراء تھے۔ یہ کتاب تاحال مخطوطہ کی شکل میں ہے۔ اِمام جزری﷫ نے قرطبی کے ذکر میں اِس کتاب کا تذکرہ کیاہے یہ شاید اِس موضوع پرپہلی کتاب تھی۔
(٢) الجوھر الفرد المصون في جمع الأوجہ من الضحی إلی قولہ ’’ وَأُوْلٰٓـپکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ اَز ابوالعزائم سلطان بن اَحمد مزاحی﷫ (۱۰۷۵ھ؍۱۶۶۴م) یہ کتاب بھی تاحال مخطوط ہے۔
(٣) نزھۃ الناظر والسامع في إتقان الأرداف والأداء للجامع اَز ابوالعلاء اِدریس بن محمد حسنی المعروف منجرۃ﷫ (۱۱۳۷ھ؍۱۷۲۴م) یہ کتاب بھی تاحال مخطوط شکل میں ہے۔ اس میں زیادہ تر ’ترتیب الأدائ‘ اس علی قرطبی کے سائل کی تلخیص ہے۔
(٤) قالون الجمع والأرداف اَز ابوعبداللہ محمد بن محمد بن محمد بن قاسم زفری سرینی حسینی۔ آپ بارہویں تیرہویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ آپ کا تعلق مغرب اقصیٰ میں قصر کبیر نامی شہر کے قریب بسنے والے قبیلہ آل سرین سے تھا آپ شیخ محمد بن عبدالسلام قاسی﷫ (۱۲۱۴ھ؍۱۷۹۹م) کے شاگرد ہیں۔
یہ منظوم کتاب تقریباً ۲۲۳ اَشعار پر مشتمل ہے۔ تاحال مخطوطہ ہے۔
 
Top