• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قراء ات کا مفہوم، ارتقاء اور شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) التوضیح والإنکشاف في حل قالون الجمع والإرداف اَز ابوالعباس اَحمد بن مکی بن محمد بن عمر سیرمانی سماتی﷫ المتوفی اَوائل ۱۴ھ۔ یہ مذکورہ کتاب کی ۳۹ صفحات پرمشتمل شرح ہے۔ تاحال مخطوطہ ہے۔
(٦) عمدۃ القارئین والمقرئین في الرد علی ما أنکر مشروعیۃ الجمع بین السعادۃ في ختمۃ واحدۃ في القرآن المبین اَز ابوالعباس احمد بن احمد شقانصی تونسی﷫ (۱۲۲۸۔۱۲۳۵ھ ؍۱۸۱۳۔ ۱۸۱۹م)۔ یہ بہت اَہم کتاب ہے۔اس کتاب میں مؤلف نے شیخ صالح الکواش کے فتویٰ جمع قراء ات مجلس واحد یا ختم واحد میں حرام اور بدعت کا رد کیا ہے۔
(٧) تحفۃ المقرئین والقارئین في بیان حکم جمع القراء ات في کلام رب العلمین اَز ابراہیم بن احمد مارغنی﷫ (۱۳۴۹ھ؍۱۹۳۰م)
اِس کتاب کا علمائے مصر کی طرف سے قراء ات کے جمع سے متعلق اُٹھائے گئے سوال کا جواب ہے۔ علماء نے اس جواب کو پسند کیا اور ۱۳۴۵ھ میں اِسے دوسرے کئی رسائل کے ساتھ طبع کیا گیا۔یہ کتاب ایک مقدمہ، ایک مقالہ اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں جمع قراء ات اور ترکیب کا فرق بیان کیا ہے۔ مقالہ میں جمع قراء ات کا حکم بیان کیا ہے جبکہ خاتمہ میں ان کے تو سنہ میں موجودگی کے وقت شیخ صالح اور شیخ شقانصی وغیرہ مشاوک زیتونہ کا واقعہ بیان کیا ہے۔
(٨) ھدیۃ القراء والمقرئین اَز خلیل محمد غنیم الجنایني (آپ چودہویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں)
اِس کتاب کا سبب تالیف یہ ہے کہ شیخ خلف حسینی نے اَپنے زمانہ میں جمع قراء ت کے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ اس رائے کو بعض نے پسند اور بعض نے ناپسند کیا۔ ۱۳۴۰ھ میں جامع اَزھر کے شیخ نے ایک علمی مجلس کا اِنعقاد کیا جس میں تمام حاضرین نے شیخ کی رائے سے اِتفاق کیا اور اُنہوں نے جمع قراء ات کو ممنوع قرار دیا۔ تب خلیل جناینی نے یہ کتاب لکھی اور اس میں جمع قراء ات مجلس واحد کے جواز کا فتویٰ دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٩) الآیات البینات في حکم جمع القراء ات اَز ابوبکر حسینی﷫ (آپ چودہویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں) یہ کتاب خلیل جناینی کی کتاب ’ھدیۃ القراء‘ کے رد میں ہے۔ یہ جمع قراء ت کی اِجازت نہیں دیتے۔
(١٠) البرھان الوقاد في الردّ علی ابن الحداد اَز خلیل محمد غنیم جناینی۔ یہ کتاب اَبوبکر حداد کی کتاب ’الآیات البنات‘ کے ردّ میں ہے۔ اِس میں جمع قراء ت کے جواز کی تائید کی گئی ہے۔
(١١) أَفحام أھل العناد بتأیید ابن الحداد اَز محمد سعودی ابراہیم (چودہویں صدی ہجری)
اِس کتاب میں ایک ختم میں جمع قراء ت کو جائز کہنے والوں کا ردّ ہے۔
(١٢) الأدلۃ العقلیۃ في حکم جمع القرائات النصلیۃ اَز عبدالفتاح ھندی (چوہودیں صدی ہجری)
ان کے نزدیک مجلس واحد میں جمع قراء ت جائز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک مجلس میں جمع قراء ات کا حکم شرعی
ایک ہی مجلس یا ختم میں بطریقہ جمع الجمع قرآن مجید کی تلاوت کے حکم شرعی کے بارہ میں علماء کے دو گروہ ہیں:
(١) قائلین (٢) مانعین
اِس اختلاف کا سبب کتاب و سنت میں جمع سے متعلق کوئی واضح نص نہ ہونا ہے۔ جمع الجمع کا طریقہ چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں رِواج پذیر ہوا۔جس کا لازمی نتیجہ اس بارہ میں بحث و تمحیص کا جنم لینا تھا۔لہٰذا اس کے حکم شرعی کی وضاحت کے لیے قراء خاص کر میدان عمل میں آئے۔
ذیل میں ہم مذکورہ دونوں گروہوں کے دلائل و اِستدلال کاتذکرہ کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین اور اُن کے دلائل
جمہور علماء و محققین سلف و خلف نے ایک مجلس یا ختم میں جمع الجمع کے طریقہ سے تلاوت کو جائز قرار دیا ہے مثلاً ابن مہران (۳۸۱ھ؍۹۹۱م)، مکی بن اَبی طالب (۴۳۷ھ؍۱۰۴۵م)، اَبوعمرو دانی (۴۴۴ھ؍۱۰۵۲م)، اَبوالقاسم شاطبی (۵۹۰ھ؍۱۱۹۳م)، جعبری (۷۳۲ھ؍۱۳۳۱م)، قسطلانی (۹۲۳ھ؍۱۵۱۷م)، اَبوعبداللہ محمد بن عبدالسلام فاسی (۱۲۱۴ھ؍۱۷۹۹م)، ’مؤلف اَلقول الوجیز فی جمع الزاری علی حملۃ الکتاب العزیز‘ ،شیخ شقانصی (۱۲۲۸-۱۲۳۵ھ؍ ۱۸۱۳-۱۸۱۹م)، مؤلف عُمدۃ القارئین، محمد الجنایني مؤلف ھدیۃ القراء والمقرئین، البرھان والوقاء اور عبدالفتاح ھندی مؤلف الأدلۃ العقلیہ﷭‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حنابلہ کا مؤقف
حنابلہ میں سے ابن تیمیہ﷭فرماتے ہیں:
’’قراء ات کو حفظ اور تعلیم کی غرض سے جمع کرنا قراء کی ایک جماعت کا اِجتہاد ہے۔‘‘
مذکورہ بات سے معلوم ہواکہ ابن تیمیہ﷫ بھی جمع قرآن کے جائز ہونے کے قائل ہیں۔اگر اَیسا نہ ہوتا تو وہ ضرور اس کی صراحت کرتے۔
ابن تیمیہ﷫ کا قول پیش کرنے کی دو وجوہات ہیں:
(١) مغنی اَز ابن قدامہ مقدسی (۶۲۰ھ؍۱۲۲۳م) وغیرہ میں حنبلی فقہی مصدر میں جمع قراء ات کے بارہ میں کوئی بحث موجود نہیں۔
(٢) ابن تیمیہ﷫ حنبلی فقیہ مانے جاتے ہیں اور ان کے متعدد فتاویٰ جات موجودہیں۔
ابن تیمیہ﷫ کی رائے کے مطابق جمع قراء ت، بغرض حفظ و دَرس وتدریس جائز ہے اِس کے علاوہ نہیں۔ ممکن ہے اُن کے نزدیک باقی صورتوں میں تلاوت بطریق تعبّد ہوتی ہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے ان صورتوں میں جمع قراء ات کو بدعت مکروہ کہا۔
ابن تیمیہ﷫ کی اس حکم شرعی کے متعلق رائے میں مذکورہ تفصیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مالکیہ کا مؤقف
مالکیہ کے معروف مصادر فقہی مثلاً ’البیان والتحصیل‘ اَز ابوالید بن رشد (۵۲۰ھ؍۱۱۲۶م)، مختصر خلیل (۷۷۶ھ؍۱۳۷۴م) اَور اُن کی شروحات میں جمع الجمع کا مسئلہ کہیں ذکر نہیں۔ لیکن اس کے باوجود انکی طرف جواز کا قول ہی منسوب کیا جائے گا کیونکہ ماضی قریب میں مالکی مفتی اِبراہیم مارغنی (۱۳۴۹ھ؍۱۹۳۰م) نے مالکی اُصولوں کی روشنی میں اِباحت کا فتویٰ دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین کے دلائل
قائلین جمع قراء ت نے شرعی دلائل سے اِستدلال کیا ہے۔
(١) عام شرعی اُصولی قواعد سے مجلس واحد میں جمع قراء ت ممنوع نہیں اور قاعدہ ہے:
’’إن الوسیلۃ تعطیٰ حکم مقصدھا۔‘‘
’’اَصل چیز تک پہنچنے کے لیے اِستعمال میں آنے والے وسیلہ کا حکم بھی اَصل چیز والا ہوتا ہے۔‘‘
نیز فقہاء کا قول ہے:
’’ما لا یتم الواجب إلا بہٖ فھو واجب‘‘
’’جس کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو وہ بھی واجب ہوتا ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ سلف کا تعلیمی طریقہ تو یہ تھا کہ وہ ہر ہر رِوایت کوبطریق ِ افراد پڑھتے پڑھاتے تھے لیکن یہ متعلمین کیلئے بہت مشکل تھا۔ ممکن تھا کہ لوگ فن قراء ت کو ویسے ہی چھوڑ دیتے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ تمام مسلمان گنہگار ہوتے کیونکہ قراء ات کی تعلیم و تعلم فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ جمع الجمع کو طلباء قراء ات کی آسانی کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا گیا تاکہ واجب کی اَدائیگی ہوسکے۔یوں فنِ قراء ت محفوظ ہوگیا۔ زَمانہ سلف سے اَب تک قرائات کے حفظ و تدریس کے لیے ایک ہی طریقہ جمع الجمع رائج ہے۔
یہ اَب فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ وسیلہ کو مقصد کا حکم دیا جاتا ہے اور اس فرض کفایہ کی اَدائیگی اور قراء ات کے بقاء کا صرف ایک ہی طریقہ جمع الجمع (نمایاں) ہے۔ تو یہ بات ظاہر ہے کہ جمہور کے ہاں جواز کراہت تحریمی کا مقابلہ ہے لہٰذا فرضِ کفایہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) سنت نبویہﷺسے جمع کے بارہ میں دلائل
نبیﷺجبریل﷤سے ہر سال دور کیا کرتے تھے۔ لیکن وَفات والے سال دو مرتبہ دو رکیا۔
مطلب یہ کہ ایک سال اِس مدت تک جتنا پڑھا ہوتا وہ سارا ایک ہی مرتبہ تمام قراء ت منزلہ کے مطابق سناتے۔ یہ بات واضح ہے کہ آپﷺ جبریل﷤ کو ایک آیت متعددّ وجوہات میں جمع کرکے سناتے۔ رہی وہ آیات جن میں صرف ایک ہی وجہ ہے تو اُن کا ایک ہی بار پڑھنا ظاہر ہے۔ عرضۂ اَخیرہ میں آپﷺنے جبریل﷤ کو سارا قرآن سنایا۔ یہ بالجمع تھا کیونکہ یہ دَور ایک ہی تھا۔ اس سے معلوم ہواکہ رسولﷺنے جبرئیل﷤کو باالجمع پڑھ کر سنایا کیونکہ آپ کے سارے دَور اِبتداء سے اِنتہاء قرآن تک ۲۶،۲۴ یا ۲۱ ہیں، علماء کا اِس میں اِختلاف ہے اور قرآن میں آیات مختلفہ جن میں کئی اَیسی ہیں جو مذکورہ اَعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اُن کا بطریق اِفراد پڑھنا ممکن نہیں لہٰذا دَوروں کی تعداد اور آیات مختلفہ کی تعداد میں تعارض کو ختم کرنے کا یہی حل ہے کہ یہ دَو ربالجمع تھے۔
اِسی طرح سلف سے منقول نصوص بھی جمع کے دلائل ہیں۔ مطلب یہ کہ جمع الجمع کے ظہور سے قبل کے علماء اَپنے اَساتذہ کو پورا پورا قرآن ایک ایک رِوایت میں سناتے تھے۔ اور اُن میں سے ہر روایت کئی وجوہ پر مشتمل ہوتی تھی اور سلف نے یہ وجوہ اَپنے مشائخ سے جمعاً لی ہیں نہ کہ فرداً۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک ہی اُستاد کوپورا قرآن سناتے تھے۔ اَب ایک رِوایت کا لحاظ رکھتے ہوئے تمام وجوہ سمیت تلاوت ایک ہی ختم میں پوری نہیں ہوتی اور نہ ہی ان سے کوئی اَیسی نص ملتی ہے کہ اُنہوں نے ایک رِوایت کی اَوجہ مختلفہ میں سے صرف ایک ہی وجہ پڑھی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ
شیخ عبدالوہاب شعرانی (۹۷۳ھ؍ ۱۵۶۵م) کے قول :
’’ آپﷺ اَور صحابہ﷢ سے ایک ہی مجلس میں بالجمع قرآن پڑھنا ثابت نہیں۔‘‘
اور ہمارے قول کہ آپﷺاور صحابہ﷢ سے جمع کرنا منقول ہے ، میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺسے جمع پڑھنے پڑھانے کے بارہ میں کوئی نص ہم تک نہیں پہنچی اور نہ ہی جمع کی کیفیات میں سے کوئی معین کیفیت ہم تک پہنچی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے جبرئیل﷤ سے قرآن بذریعہ وَحی حاصل کیا جس کی تفصیلات سے ہم ناواقف ہیں اس کی کیفیت صرف آپﷺ جانتے تھے۔ رہی بات صحابہ﷢ کی تو اُن سے بھی کوئی نص جمع کے بارے میں منقول نہیں۔ صحابہ﷢ سے ایک رِوایت کے ساتھ پورا قرآن مفرد طریقے سے منقول ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک رِوایت کئی وُجوہات پر مشتمل ہوتی ہے وہ لازمی طور پر جمع کرکے ہی پڑھی جاتی تھی۔ جب آپﷺ اور سلف سے جمع کی اَصل منقول ہے تو ہم کہیں گے۔ جمع قراء ت جو چوتھی صدی ہجری سے تاحال قراء کے ہاں معروف و رائج ہے۔ یقیناً نص جمع جس کے مطابق آپﷺنے عرضۂ اَخیرہ میں جبرئیل﷤ کو سنایا یا شیوخ سے سلف نے حاصل کیا یہ جمع کی مشروعیت اور جواز کی زَبردست دلیل ہے اور اگر یہ محض اس کے مماثل یا مشابہ ہے تو یہ اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔
یوں قیاس سے مجلسِ واحد یا ایک ہی ختم میں جمع قراء اۃ کا مشروع ہونا ثابت ہوتا ہے۔قیاس بھی چار دلائل شرعیہ (کتاب وسنت، اجماع، قیاس) میں سے ایک ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) چوتھی صدی ہجری سے اَب تک ایک مجلس یا ختم میں بطریق جمع پڑھتے پڑھاتے تقریباً ایک ہزار سال گزر گئے ہیں لیکن کبھی بھی فقہاء نے اس کا اِنکار نہیں کیا نیز اس عمل پر تاحال دوَام ہے اور اسے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ چنانچہ فقہاء کا عدم اِنکار جمع کے جواز پر اِجماع ہے اگر اِجماع صریح نہیں تو کم اَز کم اِجماع سکوتی تو ہے اور یہی اِجماع جمع کے آغاز کے قریبی زمانوں سے جاری ہے اور متاخرین اَئمہ نے بھی مجلس واحد میں قراء ات کو جمع کرکے پڑھنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی اور بعض علماء کے ایک ختم میں جمع کرنے کے اِنکار سے مذکورہ اِجماع مجروح نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مانعین کے پاس اس کی کوئی مستند دلیل شرعی نہیں جو ان کے مؤقف کی تائید کرتی ہو لہٰذا ان کا اِنکار معتبر نہیں ہوگا اور اِجماع قوی شرعی دلیل کی طرح جمع کی مشروعیت پرقائم رہے گا۔
(٤) قیاس اولویت کودلیل بناتے ہوئے بھی جمع قراء ات کے جواز کا اِستدلال کیا جاسکتا ہے کیونکہ بعض علماء نے قراء ات میں خلط؍ ترکیب کو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ ابن جزری﷫ فرماتے ہیں:
’’اگر عربی قواعد کی روشنی میں ترکیب ٹھیک ہو تو جائزہے لیکن بطورِتلاوت ہو،نہ کہ بطورِ نقل روایت۔‘‘
جب ترکیب؍ خلط جائز ہے تو جمع قراء ت جو مذکورہ شرائط کو کامل طریقے سے پورا کرتا ہے بالاولیٰ درست ہوگا کیونکہ اس میں قراء ت رِوایت یا طریق کو خلط نہیں کیا جاتا۔
 
Top