• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قراء ات کا مفہوم، ارتقاء اور شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصۂ کلام
مذکورہ تقریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجلس واحدمیں قراء ات کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے اور اِس کی مشروعیت سنت نبویﷺاِجماع اور قیاس سے ثابت ہے مزید یہ کہ عام شرعی اُصول بھی اِس کا اِنکار نہیں کرتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مانعین جمع قراء ت کے دلائل اور اُن کا جائزہ
بعض فقہاء اور کئی علماء نے کہا ہے کہ ایک ختم یا مجلس میں جمع قراء ات ناجائزہے۔
ان میں حنفیہ ہیں۔’الحاوی القدسی‘ کے مؤلف قاضی اَحمد بن محمد غزنوی (۶۰۰ھ؍۱۲۰۳م) نے کہا ہے:
’’تلاوت قرآن کرتے ہوئے قراء ات معروفہ یا شاذہ کو ایک ہی دفعہ کلمات کو دوہرا کر پڑھنا مکروہ ہے۔‘‘
اُن کے نزدیک جمع قراء ات مکروہ ہے۔
عوامی مجالس میں قراء ات مجہولہ (عیر معروفہ) کی تلاوت کرنے سے اَحناف سختی سے منع کرتے ہیں اِس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عوام شبہات کا شکار ہوں گے اور بسا اَوقات وہ قراء کے قراء اتِ متواترہ صحیحہ پڑھنے کو غلط کہہ کر گناہ میں واقع ہوجائیں گے۔
شوافع کی بڑی فقہی کتب مثلاً المجموع شرح المھذب اَز نووی﷫ (۷۶۷ھ؍۱۲۷۷م) اور ’نھایۃ المحتاج شرح المنھاج‘ اَز رسلی﷫ (۱۰۰۴ھ؍۱۵۹۵م) وغیرہ میں جمع قراء ت مجلس واحد کے حکم شرعی سے متعلق کو ئی نص موجود نہیں۔ لیکن ’التبیان‘ اَز نووی﷫ میں ہے:
’’جب قاری کسی قراء ت کی اِبتداء کرتا ہے تو اس کے لیے مستحسن ہے کہ وہ اسی قراء ت میں پڑھتا رہے یہاں تک کہ کلام مکمل ہوجائے۔ ہاں جب کلام مکمل ہوجائے تو پھر دوسری قراء ت کی تلاوت شروع کرسکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ مجلس واحد میں وہ پہلی قراء ت ہی پڑھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ بالا عبارت سے یہ مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ قراء ت میں ترکیب اور خلط خلاف اَولیٰ ہے۔بہتر یہی ہے کہ ایک مجلس میں قاری ایک ہی قراء ت پڑھے۔ اس بات کا مؤید ’المجموع‘ میں موجود خود نووی﷫کا قول بھی ہے، فرماتے ہیں:
’’جب قاری سبعہ میں سے کسی قراء ت کو شروع کرتا ہے تو مستحب ہے کہ وہ اِسی میں قراء ت (تلاوت) پوری کرے اگر بعض آیات سبعہ میں اور بعض غیر سبعہ سے تلاوت کرتا ہے تو جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوسری آیت پہلی سے مربوط نہ ہو۔‘‘
مذکورہ پہلی دلیل اَور اس کے مفہوم سے یہ بات سمجھ آئی کہ جمع کا شرعی حکم خلافِ اَولیٰ ہے۔ لیکن اَولیٰ یہی ہے کہ مجلس واحد میں ایک ہی قراء ت میں پڑھے اور یہ بات اِمام نووی﷫ کا قول:
’’بہتر یہی ہے کہ مجلس واحد میں ایک ہی قراء ت میں پڑھے‘‘ سے مترشح ہوتا ہے۔
شاید کہ شوافع کے نزدیک مجلس واحد وغیرہ میں جمع قراء ات خلافِ اَولیٰ یعنی مکروہ ہے۔
اور محققین نے ابن حجر عسقلانیa (۸۵۲ھ؍۱۴۴۸م) کے قول:
’’المنع من خلط القراء ات فی التلاوۃ (تلاوت میں خلط قراء ت ممنوع ہے) سے اولویت کی بنیاد پر جمع قراء ت ممنوع قرار دی ہے نہ کہ حتمی طور پر۔‘‘
معلوم ہوا شوافع کے نزدیک مجلس واحد میں جمعاً تلاوت کرنا خلاف اَولیٰ ہے لیکن یہ نتیجہ اَخذ کرنے کے لیے جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ خلط قراء ت و رِوایت پر صریح اِنکار کے علاوہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُنہوں نے اِنکار کیاہے۔ ابن حجرa وغیرہ کے مذکورہ قول میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو جمع کے شرعی ہونے پر اِنکار کرے یا جمع پر اِعتراض ظاہر کرے۔ (محققین اور ہماری رائے میں) فرق واضح ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مانعین میں سے شعرانی (۹۷۳ھ؍۱۵۶۵م) بھی ہیں اُنہوں نے اَپنے زمانے میں جمعاً پڑھنے والوں کی مخالفت کی۔ اسی طرح شیخ صالح کو رش (۱۲۱۸ھ؍۱۸۰۳م) نے جمع کو حرام یامکروہ کہا ہے نیز ابن تیمیہ﷫ کا مؤقف ہے کہ درس و تدریس کی غرض سے جمع ٹھیک لیکن بغرض تلاوت درست نہیں کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اسی طرح ’القول السدید في حکم التجوید‘ کے مؤلف شیخ اَحمد حجاز بھی کہتے ہیں۔
’’والجمع بین القرائۃ بمجلس واحد یسمیٰ تخلیطاً ولا یصح عند أھل الأدائ۔‘‘
’’ایک ہی مجلس میں قراء ت کرتے ہوئے جمع کرنا خلط کہلاتا ہے جواَہل اَداء کے ہاں درست نہیں۔‘‘
اَبوشامہ (۶۶۵ھ؍۱۲۶۶م) فرماتے ہیں:
’’فی زمانہ ایک آیت کو جمع کرتے ہوئے قراء ت مختلفہ میں بار بار پڑھا جانا مجھے پسند نہیں کیونکہ جمعاً قراء ت کرنا بعد کی اِیجاد ہے۔‘‘
نوٹ: جمع قراء ت کو مکروہ کہنے کے باوجود اُنہوں نے اپنی قراء ت کو بالجمع ثابت کیاہے۔ اس تنافض کا کیا جواب ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِشکال کا جواب
اَبوشامہa کے دونوں اَقوال (کراہت+ جواز) دونوں ایک ہی وقت کے نہیں ہیں۔ ان میں سے لازماً ایک مقدم اور ایک مؤخر ہے اور اِشکال صرف اسی صورت میں ختم ہوگا جب اَبوشامہ کا دونوں میں سے کسی ایک قول سے رجوع مانا جائے گا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اَبوشامہ کا کراہت والا قول بعد کا ہے کیونکہ عموماً پڑھنا، پڑھانا تالیف و تصنیف سے مقدم ہوتاہے یعنی اَبوشامہ﷫نے ’المُرشد الوجیز‘ میں کراہت جمع کا قول نقل کیا ہے۔
علامہ محمد بن خلف حسینی حداد﷫ چودہویں صدی ہجری کے مصری شیخ القراء ، محمد سعودی اِبراہیم مؤلف’افحام اَھل العناد‘ ، محمد خالد مؤلف مقالہ’الجمہوریہ‘ اُنہوں نے اپنے مقالہ میں حکومت سے مجلس واحد میں جمع قراء ات کے بارہ میں شکوہ کیا ہے اور اس اَمر پر زور دیا ہے کہ اِس کام کو مزید شائع نہ ہونے دیا جائے کیونکہ اس طرح لوگ تدبر قرآن سے دور ہوں گے۔
مذکورین نے مندرجہ ذیل دلائل کی روشنی میں مجلس واحد میں قراء ت کو ناجائز قرار دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) نبی مکرمﷺ، صحابہ﷢، تابعین﷭ اور سلف سے مجلس واحد میں جمع قراء ت کرنا ثابت نہیں۔لہٰذا یہ بدعت ہے اور ہربدعت گمراہ ہے اور بدعت کا سب سے کم مرتبہ کراہت ہے اور کسی بھی مکروہ چیز پر ہمیشگی کرنا فسق ہے۔
(٢) ایک قراء ت کا دوسری قراء ت پر عطف ڈالنا نظم قرآن میں فساد کا موجب ہے کیونکہ جمع میں اَجزاء قرآنی کو علیحدہ علیحدہ کیا جاتاہے۔یوں قرآن میں تحریف اورقیاس کا دروازہ کھل جائے گا، لہٰذا جمع قراء ت کے عمل کو روکنا لازم ہے۔ فرض کیجئے ہم بحث و مباحثہ سے بچنے کے لیے تسلیم کرلیں کہ فی نفسہٖ جمع قراء ت جائز ہے لیکن اس کا نتیجہ اَیسی چیز پر منتج ہوگا جوکلام اللہ میں جائز نہیں۔
(٣) مجلسِ واحد میں جمع قراء ت سامعین کو تدبر قرآن سے دور کرتا ہے۔ قرآنی تاثیر کو دل میں اُترنے سے مانع ہوتا ہے اور دل اِطمینان سے خالی رہتے ہیں کیونکہ بار بار آیات اور کلمات قرآنیہ کو مختلف طریقہ اَدا سے پڑھا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مانعین کے دلائل کا تجزیہ؍تعاقب
قائلین جمع قراء ت فی مجلس واحد نے مانعین کے دلائل کا کئی طرح سے جواب دیا ہے۔
(١) یہ کہنا کہ جمع قراء ت آپﷺسے ثابت نہیں۔ اِس بارہ میں کوئی دلیل نہیں۔ ہاں اس جمع کی اَصل عمل نبویﷺسے ثابت ہے۔نبیﷺنے جبریل﷤ کوسناتے ہوئے جمع کیا، اگرچہ اِس جمع کی کیفیت سے ہم ناآشنا ہیں۔ اِسی طرح یہ کہنا کہ سلف سے منقول نہیں یہ بات بھی باطل ہے جمع کی اَصل اُن سے بھی ثابت ہے۔ اگرچہ آپﷺ نے وجوہِ قراء ات کو جمع کیا اور سلف سے ہم تک منقول ہے یہ مروّجہ جمع ہے لہٰذا عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیونکہ اس کی مشروعیت فعل نبویﷺسے ثابت ہے اگرچہ اس جمع کی جمع نبوی سے محض مشابہت ہی ہے چنانچہ اس صورت میں بھی اس کا مشروع ہونا قیاس سے ثابت ہے اور قیاس سے ثابت شدہ کسی مسئلہ کا ردّ ممکن نہیں کیونکہ قیاس بھی دلیل شرعی ہے۔ بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ جمع قراء ت آپﷺ، صحابہ﷢، تابعین﷭ اور بعد کے لوگوں سے ثابت نہیں تب بھی یہ بدعت نہیں کیونکہ مذکورین کے مابعد کاہرہر فعل بدعت نہیں۔ اَگر ہم یہ تسلیم کربھی لیں کہ یہ بدعت ہے تو ہربدعت مذموم نہیں کیونکہ بدعت کی مندرجہ ذیل پانچ اَقسام ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) بدعتِ وَاجبہ
یہ وجوبی قواعد کے تحت آتی ہے اور شریعت میں اِس کی دلیل قران کو مصحف میں جمع کرنا اور کتاب اللہ کی فہم کے معاون علوم کی نشرو اِشاعت وغیرہ۔
(٢) بدعتِ محرمہ
یہ قواعد تحریم کے زُمرے میں آتی ہے اِس کی شرعی دلیل مثلاً مذاہب، خوارج کے باطل عقائد، اللہ کی ذات کے بارہ میں تجسیم کا قول، اور کسی اَیسے حکم پر اِجماع جو شریعتِ اِسلامی کے مخالف ہو۔
(٣) بدعتِ مندوب
یہ قواعد ندب کے ماتحت ہے اس کی شرعی دلیل مساجدمیں تراویح کی جماعت اور ہر ایسی اچھی بات جو صدرِ اوّل میں نہ تھی اور شریعت کی مخالف بھی نہیں جیسے مدارس کا قیام اور ہسپتال وغیرہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) بدعتِ مکروہ
یہ قواعد کراہت کے ذَیل میں آتی ہے اِس کی شرعی مثال مساجدکو خوبصورت بنانا اور قرآن کی تزئین و آرائش وغیرہ۔
(٥) بدعتِ مباح
یہ قواعد اِباحت کے ضمن میں آتی ہے اس کی شریعت سے مثال پاکیزہ چیزوں میں اِتنا توسع جو اُنہیں مکروہ یا حرام تک نہ لے جائے مثلاً دلی چاہت کے مطابق کھانا اور عمدہ لباس پہننا۔
مذکورہ تقریر کے مطابق مجلسِ واحد میں جمع قراء ت بدعت واجبہ علی الکفایہ ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ بدعت کی مذکورہ تقسیم علماء کے مابین اِختلافی ہے مثلاً اِمام ابواسحاق شاطبی﷫ (۷۹۰ھ؍۱۳۸۸م) نے اِس کا اِنکار کیاہے اور عز بن سلام (۶۶۰ھ؍۱۲۹۱م) نے مذکورہ تقسیم بدعت کو جو مصالح مرسلہ کا نام دیا ہے یہ بھی بدعت ہے کیونکہ شریعتِ اِسلامیہ میں اُن کے بارہ میں کوئی نص موجود نہیں؟
جواب: مذکورہ سوال یا اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ تو اَیسی چیز جس کی شریعت میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ محض اس کے نام رکھنے کا اِختلاف ہے۔ اُصولِ شریعت سے مناسبت رکھتے ہوئے بدعت کا لفظ اِستعما ل ہو یا مصالح مرسلہ کا لفظ اِستعمال ہو یہ صرف لفظی اِختلاف ہے حقیقت میں اِس کا کوئی اَثر نہیں کیونکہ اِصطلاحات میں کوئی حد بندی نہیں کی جاسکتی لہٰذا مذکورہ تقسیم بدعت عمدہ ہے اور جمع کو بدعت واجبہ علی الکفایہ کہنے سے اس کی مشروعیت مجروح نہیں ہوتی خاص کر جب یہ مقاصد شریعت کے ساتھ میل کھاتا ہے اور وہ مقصد متعلمین پر آسانی کرنا ہے اُن سے مشقت اور حرج کو رفع کرنا ہے جبکہ بدعت مذعومہ عموماً مقاصد شریعت سے مناسبت نہیں رکھتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام شافعی﷫ فرماتے ہیں:
بدعت کی دو اَقسام ہیں:
(١) جو کتاب و سنت اور اجماع کی مخالفت کرے یہ بدعت مذمومہ ہے۔
(٢) اَیسے اچھے کاموں میں (جو خلاف شرع نہ ہوں) اُن کے جواز میں اختلاف نہیں۔
(٣) یہ کہنا کہ آیات پر آیات کا عطف فساد معنی، خلط قراء ت، تحریف اور آیات کو ایک دوسرے جدا جدا کرتا ہے، صحیح نہیں۔ کیونکہ یہ اُمور یا قباحتیں اِس وقت لازم آتی ہیں جب قاری تلفیق؍خلط کرکے پڑھے یا جمع کرتے ہوئے غلطی کرے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خلط جو کلام اللہ میں معنوی فساد کو جنم دیتا ہے اور جمع شرعی میں بہت بڑا فرق ہے۔ جیسا کہ اَہل اَدا جانتے ہیں کہ جمع شرعی کی کئی شروط ہیں جبکہ ترکیب ؍خلط؍تلفیق اس سے خالی ہے۔
یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اس قول سے مراد خلط اور جمع شرعی میں فرق نہ کرنا ہے، چنانچہ جو شخص جمع شرعی کے طریقہ اور باریکیوں سے واقفیت حاصل کیے بغیر جمع کرتا ہے تو اس بارے میں یہی خیال کیا جائے گا کہ اس نے محض سن کر خلط قراء ت کیا۔
 
Top