• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قراء ات کا مفہوم، ارتقاء اور شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترکیب کی وضاحت
ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ قاری ایک حکم یا کئی اَحکام ایک رِوایت یا قراء ت سے لے اور چند اَحکام کسی اور قراء ت یا رِوایت سے لے اور ان تمام کو ایک ہی بار ایک ہی اَیسی کیفیت سے پڑھے جو کسی بھی قاری یا اس کے راوی سے منقول نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترکیب کی مثالوں سے وضاحت
ذیل میں ایک مثال کے ذَریعے ترکیب کی وضاحت کی جاتی ہے۔
۔۔۔آیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مندرج
(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔مآ أغنی عنہ مالہ وما کسب۔۔۔۔۔۔۔۔۔قالون قصر فتح۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوری بصری بوجہ+سوسی
(٢)۔۔۔۔۔۔۔۔۔عنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مکی صلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔-
(٣)۔۔۔۔۔۔۔۔۔مآ أغنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔قالون، توسط، فتح۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوری بصری
(٤)۔۔۔۔۔۔۔۔۔مآ أغنیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلف العاشر
(٥)۔۔۔۔۔۔۔۔۔مآ أغن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورش فتحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔-
(٦)۔۔۔۔۔۔۔۔۔مآ أغن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورش تقلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔-
(٧)۔۔۔۔۔۔۔۔۔مآ أغنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔حمزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔-
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ آیت میں قاری کے لیے لازم ہے کہ وہ وَجہ پڑھنے کے لیے لفظ ’ما‘ سے اِعادہ کرے (وگرنہ کلام مثبت ہوجائے گا جو مرادِ الٰہی کے خلاف ہے) کیونکہ جمع میں عمدہ اِبتداء اور معنی کی رِعایت رکھنا اِنتہائی لازمی شرط ہے۔ چنانچہ اس کیفیت میں جمع کرنا جائز ہے جب کوئی معنوی فساد، تخلیط، یا تحریف نہیں ہوگی ،کیونکہ ہر وجہ بنفسھا مستقل ہے دوسری سے اسے کوئی تعلق نہیں، پھر ہر وَجہ میں آیت کے آخر پر وقف کرنا قراء ت، رِوایت اور وجہ کو جدا جدا کرتا ہے۔ ہاں جمع کرتے ہوئے خلط کرنا اور اَوجہ کاایک دوسری پر عطف ڈالنا وقف کی صورت میں عدم فصل کی حالت میں جائز ہے اور اگر آپ بات کے ذریعے ان میں فصل کردیں تو پھر ہر وجہ ایک مستقل آیت کی صورت میں ہوگی۔ اس میں کوئی ترکیب یا خلط نہیں ہوگا اور نہ ہی سامع کو معنوی فساد نظر آئے گا۔ اگر قاری مذکورہ آیت کو مندرجہ ذیل طریقے سے ترکیب سے پڑھے تو غلط ہے کیونکہ اس صورت میں ، قراء ت، رِوایت اور وجہ میں اَیسا خلط ہوگا جو قراء یا ان کے رواۃ سے ثابت نہیں۔
مآ أغنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مد منفصل میں قصر کے ساتھ۔ اغنی میں امالہ
مآ أغنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مد منفصل میں توسط کے ساتھ۔ اغنی میں تقلیل
مآ أغنی عنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مد منفصل میں طول کے ساتھ۔ عنہ میں صلہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ حالات کی ترکیب اور قراء ت و رِوایات کا خلط ممنوع اور غیر منقول ہے۔ اور اسی طرح اگر جمع کرنے والا لفظ ’ما‘ کے بغیر ’اغنی‘ سے اِعادہ کرتا ہے تو یعنی بعض میں ما أغنی اور بعض وجوہ میں اغنی پڑھے تو بھی ٹھیک نہیں کیونکہ معنوی فساد لازم آتا ہے۔ یہی صورت تحریف یا بطلان معنی والی ہے اس کا گناہ پڑھنے والے کے ذمہ ہوگا لہٰذا کسی کے لائق نہیں کہ وہ مہارت حاصل کیے بغیر رِوایات و قراء ات کو اَئمہ و رواۃکی طرف منسوب کرکے پڑھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) یہ کہنا کہ جمع سامع کو تدبر قرآن سے دور کرتی ہے ، بھی صحیح نہیں کیونکہ جب بار بار ایک آیت پڑھنے یا سننے کا موقع ملتا ہے تو تدبر کا موقع بھی زیادہ ملتا ہے اور اِس کی دلیل سنت نبویﷺمیں موجود ہے۔
جیسا کہ منقول ہے کہ آپﷺنے ’’إِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَإِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فِإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘ کو باربار پڑھا۔ اسی طرح بعض صحابہ﷢ بھی بعض آیات کو بار بار پڑھتے تھے مثلاً ابن مسعود﷜ ’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ باربار پڑھتے تھے۔ کسی آیت یا اس کے کسی حصے کو جمع کرتے ہوئے بار بار پڑھنے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
(١) مکرر پڑھنے سے زیادہ ثواب ، عبرت اور خوبصورتی حاصل ہوتی ہے جیساکہ اِمام شاطبی﷫ فرماتے ہیں:
’’……… وتزداد یزاد فیہ تجملا‘‘
قرآن مجید کو بار بار پڑھنا اسے مزید خوبصورت بناتا ہے۔
(٢) اَحکام قراء ت کی پختگی اور کماحقہ اَدا کی مشق کرنا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) اگر اَحناف کے ہاں جمع قراء ت کی کراہت کی وجہ عوام کا فتنہ میں مبتلا ہونا اور قراء تِ صحیحہ متواترہ میں جہالت کی وَجہ سے غلطی کرنا ہے۔ تو یہ بات مطلق طور پرجمع کی کراہت کے لیے صحیح نہیں کیونکہ جمع کرنا تو خاص علمی مجالس میں بھی ممکن ہے جہاں عوام موجود نہ ہوں اور ہم بھی یہی پسند کرتے ہیں کہ جمع خاص علمی مجالس میں کرنا چاہئے تاکہ جمع کے عیوب سے بھی بچا جاسکے اور عوام بھی دین کے بارہ میں غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ نیز اُن دلائل کے علاوہ مذکورہ قوی شرعی دلائل سے بھی مانعین جمع قراء ات کے مؤقف کی کمزوری نمایاں ہوتی ہے۔
فریقین کے دلائل کے تجزیہ کے بعد یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ جمع قراء ت میں کوئی بھی شرعی مانع موجود نہیں لہٰذا جمع شرعاً جائز ہے بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ نیز جمع قراء ت سے قاری اور سامع کو بعض آیات کی تفہیم و تفسیر میں بھی آسانی ہوتی ہے مثلاً فرمانِ اِلٰہی ہے:
’’وَ إِذَآ أَرَدْنَا أَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰـــــھَا تَدْمِیْرًا‘‘
’’جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا اِرادہ کرتے ہیں تو اس بستی کے مالداروں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اس بستی میں فسق کرتے ہیں چنانچہ ان پرعذاب لازم ہوجاتا ہے اور ہم اُنہیں تباہ و برباد کردیتے ہیں۔‘‘ (الاسراء :۱۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِس آیت میں لفظ ’أمرنا‘ میں دو متواتر قراء تیں ہیں۔
(١) ’أمرنا‘ یہ نافع، مکی، بصری، شامی، عاصم، حمزہ، کسائی، اَبوجعفر اور خلف العاشر﷭ کی ہے۔
(٢) ’ء امرنا‘ یہ یعقوب کی قراء ت ہے۔ اس کا معنی ہے ہم نے اُنہیں بہت مال دیا لیکن اُنہوں نے اس مال کی وجہ سے گناہوں کا اِرتکاب کیا۔
نوٹ: قائلین جمع قراء ات نے جمع صوتی (ریکارڈنگ) میں جمع اِفراد کو لازم قرار دیا ہے تاکہ رِوایات مختلفہ میں تخلیط نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے مکتوب مصحف کو ایک سے زَائد قراء ت پر لکھنا مکروہ خیال کیا ہے چنانچہ ریکارڈنگ (جمع صوتی) میں باالاولیٰ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ میرے نزدیک یہ منع کرنا بہت عمدہ ہے۔افادہ عام کے لیے ریکارڈنگ محدود پیمانے پر ہو بلکہ اَولیٰ یہی ہے کہ جمع قراء ات صرف کلاسوں اور مخصوص دروس میں ہی ہو۔

٭_____٭_____٭
 
Top