• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن وتشکیل قراء ات کی مختصرتاریخ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف یمنی
کتب خانہ جامع ازہرمصرمیں موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف بحرین
فرانس کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف کوفی
کتب خانہ قسطنطنیہ میں موجود ہے حضرت عثمان﷜کے تین مصاحف اورہیں جن میں سے مصحف عثمانی دوم جامع سیدنا حسین﷜قاہرہ میں ہے اورمصحف عثمانی سوم جامعہ ملیہ دہلی میں موجود تھا اگرہنگامہ تقسیم ہندوستان میں تلف نہ ہوا ہو تو موجود ہو گا۔ مصحف چہارم انڈیا آفس لندن کے کتب خانہ میں موجود ہے اس پرلکھاہوا ہے ’’کتبہ عثمان بن عفان﷜۔‘‘ یہ نسخہ میجر روانس کوملا اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے کتب خانہ کو دیا اب انڈیا آفس کے کتب خانہ میں ہے اس کے ۱۸۱صفحات ہیں اورفی صفحہ ۱۶ سطر یں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے اعراب ،نقطے،خموس واعشار ،اجزائو منازل ،رکوعات وغیرہ
اسلام سے پہلے اہل عرب میں حرکات اورنقطے مشہورنہ تھے بلکہ وہ اپنے قدرتی وفطرتی ملکہ وطبعی محاورہ کے زور سے اعراب وغیرہ صحیح طور پر اداکرلیاکرتے تھے پھرجب اسلام خوب پھیل گیا اورعرب کا عجم سے اختلاط ہواتوعرب وعجم دونوں کی تلاوت میں خطا اور غلطی واقع ہونے لگی اس لئے علماء نے حرکتوں اورنقطوں کی علامات مقرر کر دیں تاکہ غلطی سے بچاو ہوجائے۔ چنانچہ اعراب کی تفصیل یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں زیادبن سمیہ (جوبصرہ کے والی تھے۔انہوں ) نے یہ حالت دیکھ کر ابوالاسود۶۹ھ(شاگرد حضرت علی﷜)سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ تلاوت وزبان کی اصلاح کیلئے چند علامات (اعراب سے متعلق)وضع کردیں۔آپ نے اس درخواست کوقبول نہ کیا زیاد نے یہ تدبیر کی کہ اپنے ملازمین میں سے ایک شخص سے کہا کہ تم الاسود کے دروازے پر بیٹھ جاو اور جان بوجھ کر قرآن غلط سلط پڑھنا شروع کردو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اوریوں پڑھا ’’إِنَّ اﷲَ بَرِیْئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ (لام اورھاء کے زیر سے ) کہ خدا تعالیٰ اہل شرک اوراپنے رسول دونوں ہی سے بیزار ہیں (معاذ اﷲ) ابوالاسود نے جویہ سنا تونہایت بے تابی سے کہا خدا تعالیٰ اپنے رسول کی بیزاری سے بری اور پاک ہے پھر آپ فوراََ زیادکے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا میں نے تمہاری درخواست قبول کرلی میرا خیا ل ہے کہ عربیت میں ایک کتاب بناؤں جس کے ذریعے عوام وخواص سب کے سب اس خرابی کی درستی کرلیں جوان کے کلام میں رونماہوگئی ہے اورسب سے پہلے قرآن کے اعراب لگاؤں اس لئے آپ میرے پاس کاتب بھیج دیں زیاد نے ابوالاسود کے پاس تیس کاتب بھیجے جن میں سے ایک کوآپ نے منتخب کرلیا اوراس سے کہا کہ اپنے ساتھ مصحف اورسیاہی کے علاوہ کوئی اور رنگ بھی رکھ لوپس جہاں میں زبر پڑھوں وہاں(اس دوسرے رنگ سے) ایک نقطہ حرف کے اوپر اورجہاں زیر پڑھوں وہاں ایک نقطہ حرف کے نیچے لگا دینا اور جہاں پیش پڑھوں وہاں ایک نقطہ حرف کی اگلی جانب میں یا اس کے درمیان میں لگا دینا۔ مثلاََ الحمد ﷲ اور غنہ (تنوین) کے موقع پر دودو نقطے لگا دینا (جن میں سے ایک حرکت کاہوگا اوردوسرا تنوین کا)پھر اگر یہ تنوین والاکلمہ کسی ایسے کلمہ کے ساتھ مل کرآئے جس کے شروع میں حرف حلقیئ،ہ،ع،ح،غ،خ میں سے کوئی ہو تو دونوں نقطوں کوملا دینا مثلاََعذاب،ألیم ،ولکل قوم، ھاد، سمیع، علیم، لعلی، حکیم، لعفو، غفور، علیم، خبیر تاکہ بُعد اور اظہار کا پتہ چل جائے اور اگر تنوین والے کلمے کے متصل راء ، لام، میم، نون میں سے کوئی آرہا ہو تو دو نقطے یکے بعد دیگرے ملاکرلکھ دینا اور ان حرفوں پر تشدید بھی لگا دینا۔ وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں تنوین ان حروفوں میں مدغم ہوتی ہے اس لئے تم اس صورت میں نقطوں کو قریب قریب کر دینا اور تنوین کے بعد والے حرف کو مشدد لکھ دینا۔ پھر آپ نے نہایت سکون واطمینان سے پڑھنا شروع کیا اورکاتب اسی ہدایت کے موافق نقطے لگاتا رہا جب ایک جزو پورا ہو جاتا توابوالاسود اس پر نظرثانی کرتے یہاں تک کہ اسی طرح پورے قرآن کے اعراب لگا دئیے اور سکون کو بلا علامت چھوڑ دیا۔ لوگوں نے اس طریق اعراب کو اخذ کیا اور اس کوشکل وتشکیل کے نام سے موسوم کردیا۔ پھر ان نقطوں کے مختلف طریقے رائج ہوگئے بعض نے مربع اوربعض نے مدور شکل کواختیار کرلیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد لوگوں نے حرکات کے متعلق چند علامتیں اور زیادہ کیں حتیٰ کہ خلیل بن احمد فراہیدي نحوی ۱۷۰ھ نے ضبط حرکات کایہ طریقہ جاری کیا جواس وقت مروّج ہے کہ زبرحرف کے اوپر ایک لمبی سی شکل کانام ہے اورزیرحرف کے لئے ایک ایسی ہی شکل حرف کے نیچے ہوتی ہے اور پیش کے لئے حرف کے اوپر چھوٹا سا واؤ ہوتاہے اورتنوین کی صورت میں یہی شکلیں دو دو بار ہوتی ہیں اور جزم جیم کے سرے کی طرح ہے اور ہمزہ کی نشانی عین تبری(ع) کا سراہے ( یعنی ء) اور اقلاب کی نشانی کے لئے باء سے پہلے نون ساکن اورتنوین پرچھوٹاسامیم بناتے ہیں( من بعد) اور تشدید والے حرف پرملے جلے تین دندانے ہوتے ہیں جس کی اصل شد(تشدید والاہوا)ہے پھر دال کو گرا کر شین کے دندانے باقی رکھ لئے۔ نیز خلیل نے روم اور اشمام کی علامت بھی ایجاد کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کی تنقیط(نقطے)
۴۰ ھ سے کچھ عرصہ بعد تک لوگ عثمانی مصاحف سے صحیح طورپرپڑھتے رہے پھر عراق میں نقطوں کی غلطی بکثرت واقع ہونے لگی حجاج بن یوسف ثقفی (متوفی شوال ۹۵ھ ) نے عبد الملک بن مروان کے زمانہ میں کاتبین مصاحف سے یہ مطالبہ کیا کہ جوحروف لکھائی میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں(مثلاََ د ذ، ر ز، س ش وغیرہ) ان کیلئے بھی علامتیں مقرر کر دیں حجاج نے نصربن عاصم لیثي اور یحییٰ بن یعمر عدوانی کوبلایا (یہ دونوں حضرات ابوالاسود کے شاگرد ہیں) اور ان سے اس کام کوانجام دینے کے لئے کہا چونکہ بعض حضرات عثمانی مصاحف پرزیادتی کوناپسندکرتے تھے اوربعض حضرات پہلی اصلاح (جوابوالاسودنے کی تھی اس )کے قبول کرنے میں بھی توقف وخاموشی اختیا رکرتے تھے اس لئے ان دونوں حضرات نے سوچ بچار اورفکرو تامل کی اجازت چاہی اورپھریہ طے کیا کہ اصلاح ثانی (علامات نقط)میں بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ ان کے ذریعہ تلاوت میں سہولت اور تفہیم معنی میں آسان ہوگی اور قرآنی حروف کی اصل اوران کے مادہ میں نہ توکوئی زیادتی ہوگی اورنہ ہی کوئی تبدیلی۔
پس ان حضرات نے حروف مشتبہ الکتابت کی تمیز کے لئے ہرحرف کے نقطوں کی تعداد مقررکردی مثلاً ش کے لئے اس کے تین دندانوں کی مناسبت سے تین نقطے مقررکئے وغیرہ وغیرہ اورپورے قرآن کونقطوں سے منقط کردیا یہ سلسلہ تمام لوگوں میں آج تک اسی طرح چلا آتاہے جس میں کسی کابھی اختلاف نہیں البتہ فاء اورقاف کے بارہ میں اہل مشرق ومغرب کا اختلاف ہے پس اہل مشرق تو فاء کے لئے ایک نقطہ اورقاف کے لئے دونقطے اوپر لگاتے ہیں اور اہل مغرب فاء کے نیچے اور قاف کے اوپر صرف ایک ایک نقطہ لگاتے ہیں لیکن اس اصطلاح میں کوئی ضرر نہیں جب کہ التباس واختلاط سے امن واحتراز (بچاو) حاصل ہے۔ ابن سیرین کے پاس ایک قرآن تھا جس میں یحییٰ بن یعمر نے نقطے لگائے تھے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) تخمیس وتعشیر
(آیتوں کے پانچ پانچ اور دس دس ہونے کی نشانی ) قتادہ تابعی﷫سے منقول ہے کہ آیتوں کے پانچ اوردس ہونے کی علامتیں صحابہ ﷢ اورتابعین﷭ بھی لگاتے تھے دانی﷫ فرماتے ہیں کہ لوگ شہروں میں تابعین﷭ کے عہد سے ہما رے اس زمانہ تک نقطے اور حرکات لگانے کی اجازت دیتے چلے آئے ہیں جو قرآن اصل الاصول تھے ان میں بھی اور ان کے علاوہ دوسرے قرآنوں میں بھی اور سورتوں کے شروع کی اور ان کی آیتوں کے شمار کی اوراسی طرح خموس واعشار کے موقعوں کی علامت لگانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔یہ کام بھی سب سے پہلے نصربن عاصم لیثي ﷫ نے کیا جو بصرہ کے جلیل القدر تابعی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) اجزاء قرآن
(۳۰ پارے )قرآن پاک کے ختم کی مدت میں سلف صالحین کی عادت کم وبیش مختلف تھی لیکن صحیح یہ ہے کہ عموما تین روز سے کم میں ختم کرنا مکروہ اور خلاف اولیٰ ہے جبکہ الفاظ و حروف صحیح طور پر ادا نہ ہوں چنانچہ حدیث میں ہے جس نے تین روزسے کم میں قرآن ختم کیا وہ قرآن کے مطالب سے بے خبر رہا ۔ (ابوداؤد: ۱۳۹۰)
یہ حکم ظاہری معانی کے اعتبارسے ہے ورنہ دقائق واسرار کے لئے توعمریں کی عمریں بھی ناکافی ہیں ایک جماعت نے ظاہرحدیث کے موافق تین دن میں ختم کرنا ہمیشہ اپنا معمول بنارکھاتھا اورایک جماعت پورے ماہ میں ختم کرتی تھی جیسا کہ عبدا للہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا قرآن حکیم کوہرمہینہ میں ختم کرو میں نے عرض کیا میرے میں زیادہ قوت ہے فرمایا کہ سات دن میں ختم کرو اوراس پرزیادتی نہ کر۔(ابوداؤد: ۱۳۹۰)
شائد اسی سے اخذ کرکے حجاج کے زمانہ میں تیس پاروں کی اصطلاح مقرر ہوئی جوسورۃفاتحہ کے علاوہ باقی قرآنی کلمات کے شمار کے موافق مساوی یاقریب بہ مساوی ہیں پس ان تیس پاروں کے شمارمیں عام مہینوں کے دنوں کے شمار کی موافقت ہے پھر ہرپارہ کے چارحصے کئے گئے اسی لئے مروجہ نسخوں میں ربع (چوتھائی)نصف (آدھے) ثلث (تین ربع) کے حصے شمارحروف کے اعتبار سے درج ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) منازل فمی بشوق (سات منزلیں)
حذیفہ ثقفی کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ میں نے صحابہ﷢سے پوچھاآپ حضرات قرآن کی منزل کے حصے کو کس طرح کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم قرآن کے سات حصے کرتے ہیں:
(١) تین سورتیں( بقرۃ سے نسآء تک )
(٢) پانچ سورتیں(مائدۃ سے براء ۃ تک)
(٣) سات سورتیں(یونس سے نحل تک)
(٤) نوسورتیں(بنی اسرائیل سے فرقان تک)
(٥) گیارہ سورتیں(شعراء سے یٰسین تک)
(٦) تیرہ سورتیں (والصآفات سے حجرات تک)
(٧) مفصل سورتیں(ق سے آخر قرآن تک) (ابوداؤد، ۱۳۹۳:قال الالبانی:ضعیف)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نیز نبیﷺ نے ایک ہفتہ میں ختم قرآن کی ترتیب ابن عمروبن عاص﷜ کیلئے مقرر فرمائی تھی پھر اکثر صحابہ﷢ اسی ترتیب سے نماز تہجد میں پڑھتے تھے شاید منازل فمی بشوق (میرامنہ مبتلائے شوق قرآن ہے)انہی احادیث سے اخذ کرکے حجاج کے زمانہ میں مستقل اصطلاح بنادی گئی ہوجوشب جمعہ کو شروع ہوکر شب جمعرات کوختم ہوتیں ہیں، فمی بشوقکی فاء فاتحہ کی، میم مائدۃ کی ، یاء یونس کی ، باء بنی اسرائیل کی، شین شعرآ ء کی، واو والصٓفٰت کی اورقاف سورہ ق کی رمزہے بعض حضرات نے دوسری منزل مائدہ کے بجائے نسآء بتائی ہے پس اب مجموعہ فنی بشوق ہوگا ان منازل میں کلمات وحروف کے بجائے سورتوں کے اخیر اوران کی تمامیت کالحاظ رکھا گیاہے ۔
 
Top