• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن … روایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع قرآن … روایات کے آئینے میں

(طلوعِ اسلام کے اِعتراضات کا جائزہ)
مولانا عبد الرحمن کیلانی​
معروف مفسر قرآن جناب مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی ذات گرامی قدر علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشے پر قلم اٹھایا ہے اور دادِتحقیق حاصل کی ہے۔ آپ کی کئی تصانیف ایسی ہیں جنہیں ڈاکٹریٹ کی سطح کی تحقیق قرار دیاجاسکتا ہے۔ انکار حدیث میں پیش پیش ہستیوں کے ردّ پر کئی کتب اُردو زبان میں تصنیف فرمائی ہیں۔ صرف مسٹرغلام احمد پرویز کے اِنکار حدیث کے نظریات پر ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک انسائیکلو پیڈیا ’’آئینہ پرویزیت‘‘ کے نام سے علمی دنیا میں موجود ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں مسٹر پرویز کے جمیع افکار کو زیربحث لاکر ان پر تنقید کی گئی ہے، جن میں انکار قراء ات کا نظریہ بھی شامل ہے۔
مؤلف اگرچہ متنوع قراء توں کے مکمل طور پر قائل تھے، لیکن سبعۃ أحرف کی متعدد تشریحات میں سے اکثر اہل علم کی مثل امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی تعبیر کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ اسی لئے اس تحریر کے مطالعہ کے ضمن میں قارئین کو اُن دیگر مضامین کا بھی ضرور جائزہ لے لینا چاہئے، جن میں سبعۃ أحرف کی تعبیر میں امام ابن جریررحمہ اللہ کے موقف کی توضیح کی گئی ہے۔اس سلسلہ میں مستقل بحث تو آئندہ رُشد قراء ات نمبر(حصہ سوم) میں پیش کی جائے گی، البتہ سردست زیر نظر شمارے میں جناب ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی﷾ (نواسہ صاحب ِمضمون) کے مضمون ’’علم قراء ات کا تعارف… اَہم سوالات و جوابات‘‘ کا ضرور مطالعہ کرلینا چاہئے، جس میں سبعۃ أحرف کے ضمن میں امام ابن جریررحمہ اللہ کے موقف کی مفصل وضاحت آگئی ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طلوعِ اسلام کا دعویٰ
جب قرآن کریم کی تنزیل ختم ہوئی تو اس کے بعد رسول اللہﷺکو اتنی فرصت ہی کب ملی تھی کہ وہ سارے قرآن کو از سرِ نو موجودہ ترتیب کے مطابق لکھوا سکتے ، پھر ’طلوع اسلام ‘ کا یہ دعویٰ کہ’’ جب رسول اللہﷺکی وفات ہوئی تو اس وقت اُمت کے لاکھوں افراد کے پاس قرآ ن اپنی اسی موجودہ تر تیب کے لحاظ سے لکھا ہوا موجود تھا، از خود ہی غلط اور باطل قرار پاتا ہے۔ اس دعویٰ پر دلیل یہ دی گئی تھی کہ ’’ آپﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں لاکھوں افراد کے مجمع سے یہ اقرار لیا تھا کہ میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ اس ثبوت کی کمزوری اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ دعویٰ اور دلیل میں کوئی باہمی ربط نہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ اُمت کے لاکھوں افراد کے پاس قرآن کے موجودہ ترتیب کے لحاظ سے لکھے ہوئے نسخے موجودتھے اور دلیل یہ ہے کہ آپﷺنے حجۃ الوداع میں لاکھوں افراد سے یہ پوچھا کہ ’’ کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچادیا ؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا ، ’ہاں!‘ اسے ہی کہتے ہیں ’سوال گندم جواب چنا۔‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اپنے دعویٰ کی تردید
آگے چل کر ’طلوع اسلام ‘ اپنے اس دعویٰ کی خود ہی تردید فرما دیتا ہے۔ چنانچہ ’قرآن کے لاکھوں نسخے‘ کے ذیلی عنوان کے تحت درج ہے کہ:
’’امام ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ خلیفۂ اول کے زمانہ میں کوئی شہر ایسا نہیں تھا جہاں لوگوں کے پاس بکثرت قرآن کریم کے نسخے نہ ہوں اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کتاب عظیم کے لکھے ہوئے نسخے ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔ ‘‘ (طلوع اسلام:فروری ۱۹۸۲ء،ص۱۲)
اَب دیکھیے اس شمارہ میں تویہ (قرآن ) بعینہٖ اسی شکل میں اور ترتیب میں، جس میں یہ اس وقت ہمارے پاس ہے،لاکھوں مسلمانوں کے پاس موجود اورہزاروں سینوں میں محفوظ تھا‘‘ اور ص ۱۶ پر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کے نسخے ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جامع قرآن کون؟
سوال یہ ہے کہ اس وقت جو قرآن کریم ہمارے پاس موجود ہے ، اس کو جمع کس نے کیا تھا؟ آیا خود رسول اللہﷺنے جمع فرمایا تھایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ؟ ’’طلوع اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس کو جمع بھی خود رسول اللہﷺنے ہی کیا تھا اور جامع قرآن حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مشہور ہیں، تو یہ باتیں غلط ہیں۔ چنانچہ اپنے اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:
’’ ضمناً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو جامع القر آن کہا جاتا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں ۔ آپ جامع القرآن نہیں تھے بلکہ دیگر خلفاء کی طرح ناشر قرآن ہی تھے۔ انہوں نے البتہ اس کا اہتمام ضرور کیا کہ کہیں کوئی نسخہ ایسا نہ رہے جو ان مستند اورمصدقہ نسخوں (وہ سات یا آٹھ نسخے جو آپ رضی اللہ عنہ نے مرتب کر ا کر مختلف دیار وامصار میں بھیجے تھے) کے مطابق نہ ہو اور ایسا کرنا نہایت ضرور ی تھا ۔لوگوں نے جو نسخے اپنے اپنے طور پر مرتب کیے تھے ان میں سہو اور خطا کا امکان ہو سکتا تھا۔ اس زمانے میں چھاپے خانے تو تھے نہیں کہ حکومت اپنی زیرنگرانی قرآن کریم کے لاکھوں نسخے چھپوا کر تقسیم کر دیتی اور اس طرح غیر مصدقہ نسخے باقی نہ رہتے۔ اس کے لیے یہی انتظام کیا جا سکتا تھا کہ مصدقہ نسخے مختلف مراکز میں بھیج کر ہدایت کر دی جاتی کہ ان کے مطابق اپنے لیے نسخے مرتب کر لیں اور اگر کسی کے پاس یا کوئی ایسا نسخہ ہو جو ان کے مطابق نہ ہو،سے تلف کر دیا جائے تاکہ ایسے نسخے کی اشاعت نہ ہونے پائے جس میں کوئی غلطی ہو۔‘‘ (ایضا:ص۱۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس اقتباس سے مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں:
(١) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی دوسرے خلفاء کی طرح ناشرِ قرآن ہی تھے او ربحیثیت ناشرِ قرآن ان کاکا رنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سات یا آٹھ نقول تیار کروا کر مختلف مراکز میں بھیجی تھیں۔یہ تو ان کا بحیثیت ناشر کارنامہ تھا ۔پھر یہ بھی تو بتلانا چاہیے تھا کہ دوسرے خلفاء نے بحیثیت ناشرِ قرآن کیا کارنامے سر انجام دئیے تھے؟
(٢) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ کام کرنا اس لیے’’ نہایت ضروری تھا کہ لوگوں نے جونسخے اپنے اپنے طور پر مرتب کیے تھے ان میں سہو وخطا کا امکان ہو سکتا تھا۔‘‘ اور یہی وہ سہو وخطا کا امکان تھا جسے کتاب المصاحف لابن ابی داؤد میں یا اسی طرح کے دوسرے مصاحف میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان مصاحف میں بیان شدہ اختلافات کا کثیر حصہ ایسے ہی سہو وخطا کے امکانات پر مشتمل ہے۔ پھر آپ ان روایات کو وضعی کیوں قرار دیتے ہیں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) حکومت نے جو نسخے تیار کروائے تھے ، تو ان میں بھی سہو وخطا کا امکان تھا، کیونکہ یہ انسانوں ہی نے لکھے تھے۔ کتاب المصاحف والوں نے ایسی ہی اغلاط کو اختلاف کہہ کر اگر پیش کیا تو آخر کون ساجرم کیا؟ جسے طلوع اسلام اچھال اچھال کر مہیب اِختلافات کی صورت میں پیش کرتا ہے۔
(٤)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ نسخے اس لیے مختلف مراکز میں بھیجے تھے کہ ’’ لوگ ان کے مطابق اپنے اپنے نسخے مرتب کر لیں۔‘‘جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس جو نسخے پہلے سے موجود تھے، وہ اس ترتیب کے موافق نہیں تھے جو ترتیب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دی تھی یا جو امت کے نزدیک مستند نسخہ قرار پائی۔ اگر یہ ترتیب پہلے سے ہی رسول اللہﷺخود دے چکے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایت دینے کی کیا ضرورت تھی؟ کہ لوگ اب اس ’امام‘ کے مطابق اپنے نسخے مرتب کر لیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طلوع اسلام کے نزدیک بھی مناسب بات یہی ہے کہ ’’ایسے سابقہ تمام نسخوں کو تلف کر دیا جائے جو اس امام کے مطابق نہ تھے‘‘ اب یہی مناسب بات جب بھی روایت میں مذکور ہوتی ہے تو طلوع اسلام کے ہاتھ گویا ایک نیا شغل آجاتا ہے او رمزے لے لے کر اسے اچھالنے کی کوشش کرتا ہے کہ مثلاً عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اپنے صحیفے جلانے سے انکار کر دیا تھا یا مثلا ً مروان نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والے نسخے کو جلا دیا ‘‘ وغیرہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کی موجودہ شکل تک کے مختلف مراحل
اب بیش تر اس کے کہ ہم قرآن کی جمع وتدوین پر ’ طلوع اسلام‘ کے اعتراضات اور ان کا جائزہ پیش کریں ۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایسے تمام مراحل کا ذکر کر دیا جائے جن سے گزر کر قرآن مجید موجودہ شکل وصورت میں ہم تک پہنچا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١)دورِ نبوی ۱ نبوت تا ۱۱ھ
(١) طوالت کے لحاظ سے قرآن کریم کی سورتوں کی تین قسمیں ہیں:
(١) سبع طوال: یعنی سورۃبقرۃ سے لے کر اعراف تک چھ، اور ساتویں سورۃ کہف
(٢) مئین: وہ سورتیں جن میں آیات کی تعداد سو سے زائد ہے۔
(٣) مثانی:وہ سورتیں جن میں آیتوں کی تعداد سو سے کم ہے ۔چھوٹی چھوٹی سورتیں تو بالعموم یکبارگی نازل ہوتی رہیں جو تیسویں پارہ کے آخر میں ہیں۔ لیکن بڑی سورتیں وقفوں کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔
(٢) ہر ایک سورت خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو، اسے بھی مفصل ہی کہا گیا کیونکہ وہ بھی اپنے مضمون میں ہر پہلو سے مکمل ہے۔ گویا قرآن کی ہر ایک سورت اپنے مقام پر ایک مستقل مضمون پمفلٹ یاکتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس لحاظ سے سورت اخلاص اور سورۃ فاتحہ بھی ایسے ہی ایک الگ کتاب ہے جیسے سورۃ البقرۃ ایک الگ اور مستقل کتاب ہے۔ ارشاد باری ہے:
’’رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃٌ فَیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ‘‘ (البینۃ:۳۲)
’’اللہ کی طرف سے رسول ﷺپاک صحیفے تلاوت کرتا ہے جو مستحکم کتابوں پر مشتمل ہیں۔‘‘
اس آیت میں کتاب کے بجائے کتب کا لفظ انہی قرآن کی سورتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور ان سب سورتوں یا کتابوں کے مجموعہ کا نام قرآن ہے او روہ بھی ایک کتاب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) کسی سورت کاکوئی حصہ جب نازل ہوتا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ بھی بتلادیتے تھے کہ یہ نازل شدہ آیات فلاں سورت کے فلاں مقام پر پڑھی جائیں گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہٗ ‘‘ (القیامۃ:۱۷)
’’اس وحی کو جمع کرنا اور پڑھنا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
لمبی سورتوں کی تنزیل کی یہ صورت تھی کہ اگر اس کا کچھ حصہ ایک سال نازل ہواتو اس کا کچھ حصہ کئی برس بعد نازل ہوا اور درمیان میں دوسری سورتوں کے بھی کچھ حصے نازل ہوتے رہے۔ لہٰذا ہم قرآن کو بحیثیت مجموعی سورتوں کے لحاظ سے تو یہ ترتیب نزول نمبر دے سکتے ہیں۔ مگر آیتوں کے لحاظ سے پورے قرآن کی ترتیب نزولی قائم کرنا منشائے الٰہی کے خلاف بھی ہے اور نا ممکن بھی، کیونکہ ایسی صورت میں ان کئی ایک سورتوں کے ، جو کسی ایک معین عرصہ کے درمیان نازل ہور ہی تھیں، مضامین گڈ مڈ ہو جاتے۔
 
Top