• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن … روایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) اَحادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال رسول اللہﷺسے قرآن کامعارضہ (یا جسے موجودہ زمانہ کے حفاظ کی اصطلاح میں ’دور‘ کہا جاتا ہے ) کیا کرتے تھے۔ اور یہ معارضہ ماہ رمضان کے پورے مہینے میں ہوتاتھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
لأن جبریل کان یلقاہ فی کل لیلۃ فی شہر رمضان حتی ینسخ یعرض علیہ رسول اﷲ ﷺ القرآن‘‘ (صحیح البخاري کتاب التفسیر،باب کان جبرایل یعرض القرآن…)
’’رمضان کے مہینے کی ہر رات کو جبرائیل علیہ السلام، رسول اللہﷺکے پاس آتے اور قرآن کامعارضہ کرتے یہاں تک کہ یہ مہینہ گزر جاتا۔‘‘
اور جس سال آپﷺکی وفات ہوئی ،یہ معارضہ دوبار ہوا۔ ایک دفعہ تو ماہ رمضان(۱۰ھ) میں اور دوسری باری تنزیل وحی کے خاتمہ (سورۃ النصر کی تنزیل ) پر اور یہ دوسرا معارضہ گویا آپﷺکے لیے اجل کا پیغام تھا۔ (صحیح البخاري،حوالہ ، ایضا) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معارضہ ہر سال اتناہی ہوتا تھا جتنا کہ قرآن نازل ہو چکا ہوتا۔ البتہ آخری سال میں دوسری بار جو معارضہ ہو اتووہ پورے قرآن حکیم کا ہوا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) نماز کے دوران یا تلاوت کے وقت یہ کوئی پابندی نہ تھی کہ فلاں سورۃ پہلے پڑھی جائے او رفلاں بعد میں ۔ البتہ یہ پابندی ضرور تھی کہ آیات کا ربط ونظم، جو بذریعہ وحی مقرر کیا گیا تھا، اس میں کسی قسم کی تقدیم وتاخیر نہیں کی جاسکتی۔
(٦) عہد نبویﷺمیں ہر شخص بلا لحاظ تقدم وتاخیر قرآن کریم کی مختلف سورتوں کو جمع کرنے اور مصحف کی شکل دینے میں بھی آزا د تھا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے ایک ہی مصنف کی چند کتابیں ہیں جنہیں کوئی شخص ایک جلد میں اکٹھی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سلسلہ میں آزاد ہے کہ جونسی کتاب چاہے پہلے رکھ لے اور دوسری بعد میں۔ اس سے نہ تو تصنیف کی ذات پر کوئی حرف آ سکتا ہے نہ مضامین میں ہی کچھ فرق پڑ سکتا ہے ۔ مثلاً شیخ سعدی رحمہ اللہ کی دو کتابیں ہیں، گلستان اور بوستان۔ان دونوں کتابوں کی الگ الگ او رمستقل حیثیت ہے۔ اگر ایک شخص ان دونوں کتابوں کو اکٹھاجلد کراتے وقت گلستان کو پہلے رکھ لے یابو ستان کو، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔یہی صورت دورِ نبویﷺ میں قرآن کی سورتوں کو اپنے وقت میں جمع کرنے کی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧)قرآن کی حفاظت کے طریقے:
قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں دوطریقے اختیارکیے گئے تھے۔
(١)زبانی یاد کرنا، کرانا یا حفظ (٢)ضابطہ تحریر میں لانا یا کتابت قرآن ۔
ان دونوں میں سے رسول اللہﷺنے حفظ قرآن پر نسبتاً زیادہ زور دیا تھا اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ تھیں۔
(١) قرآن کریم مکتوب شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اکرمﷺقرآن پڑھایا۔ اسی اندازمیں آپﷺنے صحابہ کو سنایا او رحفظ کروایا۔ اس طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی نہ حروف کی شکلوں ، نقاط، اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز اوقاف وغیرہ کی معلومات کی ۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) اہل عرب کا حافظہ بہت قوی تھا لیکن پڑھے لکھے لوگ بہت کم تھے۔ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔
(٣) تورات ، جو لکھی ہوئی شکل میں ہی نازل ہوئی تھی، پڑھے لکھے طبقے سے ہی مخصوص ہوکر رہ گئی تھی ۔ پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔ لہذا قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں ان دونوں طریقوں کو لازم وملزوم قرار دیا گیا اور ماحول چونکہ حفظ کے لئے بہت زیادہ سازگار تھا ،اس لیے اس طریقۂ حفظ کو بالخصوص اپنایا گیا۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
’’بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْعِلْمَ‘‘ (العنکبوت:۴۹)
’’بلکہ وہ قرآن تو واضح آیات ہیں، جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں، جنہیں علم دیا گیا ہے۔‘‘
(٤) لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم پڑھا لکھا آدمی غلطی کر جاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتایہی وجہ ہے کہ آپﷺکی وفات کے وقت زیادہ سے زیادہ سترہ مصاحف کا پتہ چلتاہے جبکہ حفاظ کرام کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی ۔ غزوۂ بئرمعونہ، جو۴ھ میں پیش آیا۔ اس میں تقریباً ستر(۷۰) حفاظ شہید ہوئے تھے۔ یہ سب حفاظ قرآن کے حفظ میں سورتوں کی موجودہ ترتیب سے آزاد تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) قرآن کی کتابت کے لئے جن چیزوں کا انتخاب کیا گیا تھا، وہ ایسی تھیں جو آفات وحوادث عالم کا زیادہ سے زیادہ مقابلہ کر سکتی ہوں۔ کاغذ جوآج ہمیں دستیاب ہے وہ تو اس وقت معروف ہی نہ تھا ۔ قرطاس موجود تھا، لیکن پانی اور آگ اس پر اثر انداز ہوکر اسے جلد ختم کرسکتے تھے ۔لہٰذا مندرجہ ذیل پائیدار چیزوں کو اس کام کے لئے چنا گیا تھا۔
(١) أدیم یارقّ: جو باریک کھال کو دباغت کے بعد لکھنے کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ میثاق مدینہ اور صلح نامہ حدیبیہ بھی اس ادیم یا چمڑہ پر تحریر ہوا تھا۔
(٢) نحاف: سفید رنگ کی پتلی پتلی اور چوڑی سلیٹ کی طرح کی تختیاں جوپتھر سے بنائی جاتی تھیں۔
(٣) کتف: اونٹ کے مونڈھے کے پاس گول طشتری نما ہڈی، جسے خاص طریقہ سے تراشا جاتا تھا۔
(٤) عسیب: کجھور، ناریل یا پام کی شاخ کاوہ حصہ جو تنے سے متصل او رخاصا چوڑا ہوتا ہے۔ اس کو شاخ سے جدا کر کے او رخشک کر کے اس پر لکھتے تھے۔
(٥) أقتاب: قتب کی جمع یعنی اونٹ کے کچاوے کی چھوٹی پھٹیاں جن کا گھسنے کے بعد کھردرا پن ختم ہوجاتااوروہ لکھنے کے کام آتی تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)دورِصدیقی میں ۱۱ھ تا ۱۳ ھ میں قرآن کی جمع وترتیب
جنگ یمامہ میں ۷۰۰حفاظ شہید ہوگئے جس سے اس شعبۂ حفاظت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ کو یہ خیال آیا کہ اب حفاظتِ قرآن کے دوسرے شعبہ یعنی کتابت ِ قرآن کی طرف خاص توجہ مبذول کی جائے اور قرآن کے ہی متفرق اور منتشر صحیفے جو متفرق افراد اپنے اپنے ذوق کے پیش نظر لکھتے رہے ہیں انہیں حکومت کی نگرانی میں منضبط او رمدون کرایا جائے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب یہ صورت حال حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ جس کام کو رسول اللہﷺنے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں؟ یہ تھا حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کاجذبۂ اتباع رسولﷺاور اس میں احتیاط کا پہلو۔ لیکن جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قرآن کو ایک جلد میں محفوظ کرنے اور اسے سرکاری تحویل میں رکھنے کی مصلحت سمجھائی تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ بھی اس کے قائل ہو گئے اور اس خدمتِ کتابتِ قرآن اور اس کو ایک جلد میں بنانے کا کام زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سپرد کیاگیا جنہوں نے مدینہ میں بیشتر وحی کی کتابت کاکام سرانجام دیا تھا۔ جب ان سے ذکر کیا گیا کہ ان متفرق اجزاء کو مرتب اور مدون کرنا چاہیے تو یہ کام انہیں پہاڑ اٹھاتے سے بھی بڑا معلوم ہوا۔ لیکن جب ان کی توجہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کے اس خاص پہلوپر دلائی گئی تو وہ تیار ہو گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کام کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نہایت محنت او رجانفشانی سے سر انجام دیا۔ رسول اللہﷺلکھوائی ہوئی یاد داشتوں کوبھی سامنے رکھا۔ پھر ہر آیت کی تصحیح دو دوحافظوں سے بھی کراتے چلے جاتے تھے۔ اور قرآن مجید کی کل سورتوں کوقراطیس یا ایک ہی تقطیع کے اوراق پر لکھا۔
تاہم ان میں سورتوں کی ایسی ترتیب نہیں دی گئی تھی جو آج کل قرآن میں پائی جاتی ہے یہ مصحف جو بین الدفتین میں لایا گیا ، حکومت کی نگرانی میں رہتا تھا پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ مصحف الامام حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضرت عمررضی اللہ عنہ کی بیٹی کے پاس چلا گیا۔ (صحیح البخاري کتاب فضائل القرآن ، باب جمع القرآن)
گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمع قرآن کے محرکات دو تھے۔
(١) قرآن کریم کی مکتوب تحریروں کا متفرق افراد کے پاس ہونا او رمنتشر او ربکھری ہوئی صورت میں ہونا۔
(٢) حفاظ کاجن کے سینوں میں قرآن محفوظ تھا ،کثرت سے شہید ہو جانا ۔لہٰذا اس جمع قرآن کا مقصد محض اس کی کسی آیت یا حصہ کو ضائع ہونے سے بچانا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دورِعثمانی ۲۵ھ تا ۳۵ھ میں قرآن کی نشرو اشاعت
قرآن کی شیرازہ بندی تو دورِ صدیقی میں ہو گئی تھی، لیکن قرا ء ت کے اختلاف کا مسئلہ ابھی باقی تھا۔ قاری اور حفاظ، حکومت کی طرف سے مختلف مراکز میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ پھر جو لوگ ان قراء سے قرآن سیکھتے وہ اپنے استاد کی قراء ت پر اس قدر متشدد ہو جاتے کہ دوسروں کی قر اء ت کوغلط قرار دینے پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے الجھنے اور ان کی تکفیر بھی کرنے لگ جاتے تھے۔ اسی طرح کاایک واقعہ دورِ عثمانی میں پیش آیا جوبخاری میں یوں مذکور ہے:
’’ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،وہ شام اور عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیااور آذربائیجان فتح کرنے کو لڑ رہے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اس سے گھبرا گئے کہ ان لوگوں نے قراء ت میں اختلاف کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کوکہلا بھیجا کہ اپنا مصحف ہمارے پاس بھیج دیں، ہم اس کی نقلیں اتار کر پھر آپ کو واپس کر دیں گے۔ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھیج دیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ۔ انہوں نے اسکی نقلیں اتاریں ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریش کے آدمیوں (عبد اللہ، سعید، عبد الرحمن رضی اللہ عنہم) سے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں ( جو انصاری تھے) قراء ت کا اختلاف ہو توقریش کے محاورے کے مطابق لکھنا۔ اس لیے کہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جب مصاحف تیار ہو چکے توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مصحف ان کو واپس کر دیا۔ پھر ان مصاحف میں سے ایک ایک کو تمام مراکز میں پھرایا اور اس کے سوا جتنے مصاحف الگ الگ چیزوں میں لکھے ہوئے تھے ان کوجلا دینے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مندرجہ بالا حدیث اور اس کے ساتھ دوسری روایات کو بھی ملانے سے اس ضمن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اقدامات کاپتہ چلتا ہے:
(١) آپ رضی اللہ عنہ نے ایک بارہ رکنی کمیٹی اس غرض کے لئے تشکیل دی جس میں رئیس التحریر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے، کیونکہ وہ بہترین ماہرکتابت تھے ۔کتابت کے جملہ کام کی نگرانی انہی کے سپرد ہوئی۔
(٢) اس کمیٹی کا دفتر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مکان کا صحن تھا، جہاں اس کام کی نگرانی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بھی اکثر آیا جایاکرتے تھے۔ اسی جگہ دورِ صدیقی میں مرتب کردہ قرآن بھی تھا۔
(٣) اختلاف قراء ت (لب ولہجہ، تلفظ یا لحن کا اختلاف) کی صورت میں اصل معیار قریش کی قراء ت کو قرار دیا گیا ۔ کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا تھا۔ باقی قراء توں کی محض سہولت کی خاطر اجازت دی گئی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) چونکہ قرآن کا زیادہ حصہ مدینہ میں نازل ہوا ۔ اور اس کے بیشتر حصہ کی کتابت حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی انصاری تھے، لہٰذا کئی مقامات پر اختلافاتِ قراء ت کا مسئلہ چھڑ جاتا ۔ توقراء ت کے مدعی پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ ایک تو وہ اپنی دلیل میں مکتوبہ کتابت پیش کریں۔ دوسرے کم ازکم دو شہادتیں لائیں یا قسم اٹھاکر کہیں کہ ہم نے فی الواقعہ رسول اللہﷺسے یہ آیت اسی طرح سنی پڑھی تھی اور اگر ایسی شہادت مہیا نہ ہوتی تو اس آیت کی جگہ چھوڑ دی جاتی تاآنکہ ایسی شہادت مہیا نہ ہو جاتیں۔ پھر اس کو اس کے اصل مقام پر درج کر دیا جاتا۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ قراء ت کے اختلاف کے معاملہ میں محض خبر ِ واحد مقبول نہیں ہے۔
(٥) ایک اہم مسئلہ سورتوں کی ترتیب کا تھا، اس سلسلہ میں تر تیب نزولی کے بجائے اس بات کا زیادہ لحاظ رکھاگیا کہ رسول اللہﷺکن سورتوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے، علاوہ ازیں یہ بھی طے کیاگیا کہ لمبی سور توں کو پہلے درج کیا جائے او ربتدریج چھوٹی سورتوں کو بعدمیں اور اس ترتیب کو ترتیبِ تلاوت کا نام دیا گیا ۔ اوریہی ترتیب آج تک قائم ہے۔
 
Top