• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن … روایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حجاج بن یوسف کی درست شدہ اغلاط
اس کے بعد مقامِ حدیث ۲۹۴ پر ایک فہرست اسی کتاب المصاحف کے حوالہ سے درج کی گئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف نے گیارہ مقامات پرتبدیلیاں کیں۔ یہ روایت ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
(١) ایسی حدیث کتب صحاح میں کہیں نظر نہیں آئی۔
(٢) حجا ج بن یوسف نے اگر کچھ درست کرنا ہی تھا تووہ تین یاچار اغلاط درست کرتا جن کا پہلے ذکر آیا ہے۔
(٣) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا صحابہ رضی اللہ عنہم میں جو مقام تھا ،ان صحابہ میں جنہوں نے براہ راست رسول اللہﷺسے قرآن سیکھا تھا،وہ حجاج جیسے شخص کو قطعاً حاصل نہ تھا۔ تو جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے اختیار سے تین یا چار اغلاط درست نہ کر سکے تو حجاج بن یوسف کیسے کرسکتا تھا؟
(٤) فہرست میں درج شدہ فہرست بھی تحقیق سے بعض مقام پر غلط ثابت ہوتی ہے، مثلاً نمبر ۵ کے تحت درج ہے کہ مصحف عثمانی میں سیقولون ﷲ درج ہے جبکہ حجاج نے اس کو سیقولون اﷲ بنا دیا۔ مگر جب قرآن سے مقابلہ کیا تو یہ بات غلط ثابت ہوئی اور جب ایک بات غلط ثابت ہوگئی تو دوسرے بیان کا کیا اعتبار؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسرا اعتراض
اختلافاتِ قراء ت جن میں الفاظ کی زیادتی ہے۔
اب ہم ان تین حدیثوں کا ذکر کریں گے جن میں سے دومیں تو الفاظ کی زیادتی ہے اور ایک میں اعراب کا فرق ہے۔ اور یہ تین حدیثیں یا مثالیں ایسی ہیں جنہیں طلوع اسلام نے اس سارے مجموعہ سے چھانٹ کر لوگوں کو احادیث سے برگشتہ کرنے کے لئے پیش کیا ہے اور وہ مثالیں یہ ہیں:
(١) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں فاستمتعم بہ منہن سے آگے إلٰی أجل مسمی بھی مذکور ہے جس سے شیعہ حضرات کو متعہ کے جوازی کی سند مل جاتی ہے۔
(٢) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہی قراء ت میں ’’ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی کے آگے ’’ولا محدّثٍ ‘‘ بھی مذکور ہے جس کو غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) تیسری مثال در اصل ایک استفسار ہے کہ ’’ وامسحوا بر ء و سکم وارجلکم الی الکعبین ، ارجلکم کے ل پر زبر ہے یا زیر؟ اگر زبر پڑھا جائے تو سنیوں کے مسلک یعنی پاؤں دھونے کی تائید حاصل ہوتی ہے اور اگر ل کی زیر پڑھی جائے تو شیعہ کے مسلک کو تائید حاصل ہوتی ہے کہ پاؤں پر مسح کرنا چاہیے اور قراء ت دونوں طرح سے متواتر آئی ہیں پھر ان میں صحیح کون سی ہوئی؟
ان مثالوں کو ہم نے اختصا ر کے ساتھ ضرور لکھا ہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ طلوع اسلام جو کچھ مطلب سمجھانا چاہتا ہے ہے وہ فوت نہ ہو۔ پھر آخر میں طلوع اسلام نے یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ
’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد’’ اختلاف قراء ت‘‘ کے فتنہ کے متعلق کچھ سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن ہمارے علمائے کرام قرآن کے متداول متن کو بھی من جانب اللہ مانتے ہیں اور ان اختلافی آیات کو بھی منجانب اللہ کیونکہ ان کی بنیاد واحادیث پر ہے۔ ہم نے ان اختلافی آیات کی صرف دو تین مثالیں پیش کی ہیں۔ آپ قرآن کریم کے نسخوں میں اکثر مقامات پر یہ لکھا دیکھیں گے کہ ’’ ایک اور قراء ت میں یوں بھی آیا ہے‘‘ یعنی یہ آیت یوں بھی نازل ہوئی تھی اور یوں بھی‘‘ (ایضا:۵۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب دیکھیے اختلاف قراء ت کے فتنہ ہونے سے انکار کس کو ہے؟ یہ فتنہ ایسا نہیں جس کاسراغ طلوع اسلام نے ہی لگایا ہے۔ اسی اختلاف ِ قراء ت کے فتنہ سے ہی متاثر ہو کر حضرت حذیفۃ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس فتنہ کاسد باب کر دیا۔
طلوع اسلام کایہ تبصرہ کہ ’’ قرآن کریم کے نسخوں میں اکثر مقامات پر یہ لکھا دیکھیں گے کہ ایک اور قرا ء ت میں یوں بھی آیا ہے‘‘ درست نہیں۔ آپ خود اپنے گھر میں موجود قرآن کریم کے نسخوں میں یا کسی قرآن کے پبلشر کی دوکان پر جا کر مختلف قسم کے نسخوں میں خود ملاحظہ فرما لیجیے کہ کسی قرآن پر آپ کو ایسی عبارت کہیں لکھی نظر آتی ہے ہم جانتے ہیں کہ بعض پرانے قلمی نسخوں میں ایسے اختلافات قراء ت کاذکر ہوتا تھا جبکہ ماحول علمی تھا۔ اور اب جو یار لوگوں کا زمانہ آگیا تو یہ سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔ کتاب المصاحف میں اگر ایسے اختلافات کاذکر ہے تو یہ کتاب لائبریریوں کے سوا دستیاب بھی کہاں سے ہوسکتی ہے؟ آٹھ آٹھ نو نو سال درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے والے اس کتاب کے نام تک سے ناواقف ہوتے ہیں۔ تو کیایہ بات اس ثبوت کیلئے کافی نہیں کہ ایسے مسائل عوامی نہیں ہوتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کو ختم کیا تھا اور آج طلوع اسلام اس اختلاف ِ قراء ت کی عوام میں اشاعت کر کے ایک دوسرا فتنہ بپا کر کے امت میں ذہنی انتشار پھیلا رہا ہے۔
اب رہایہ سوال کہ اگر یہ اختلافات ِ قراء ت احادیث میں مذکور نہ ہوتے توکیا شیعہ حضرات متعہ کے قائل نہ ہوتے یا مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کا دعوی نہ کرتا۔ جب تمام امت کا مصحف عثمانی پر اتفاق ہے ۔ شیعہ حضرات بھی اس متداول قرآن کو معتبر سمجھتے ہیں اور مرزائی بھی۔ تو ایسے اختلافات قراء ت ثبوت نہیں بن سکتے۔ البتہ یہ لوگ ایسی روایات کوبطور تائید ہی پیش کر سکتے ہیں۔ اور یہی کچھ وہ کرتے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر احادیث میں ولا محدّث والی قراء ت کا ذکر نہ ہوتا تومرزا قادیانی نبوت کا دعوی نہ کرتا ؟قراء ت میں تو ذکر محدث کا ہے اور قادیانی صاحب کا دعوی نبوت کا ہے پھر اس لفظ محدث سے نبوت کا استشہاد کیونکر درست سمجھا جاسکتا ہے؟
اسی طرح متعہ کے مسئلہ کی بنیاد بھی محض یہ اختلافات قراء ت نہیں، بلکہ اس کا تعلق ناسخ ومنسوخ سے ہے۔ یہ مسئلہ چونکہ خاصی تفصیل چاہتا ہے اور طلوع اسلام نے بھی مقام حدیث میں ایک مستقل الگ باب کی صو رت میں پیش کیا ہے۔ اسی لیے ہم نے بھی الگ عنوان کٰے تحت قلمبند کر دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رہی بات کہ لفظ أرجلکم کے ل پر زبر نازل ہوئی تھی یا زیر ، تواس کا جواب یہ ہے کہ نازل تو نہ زبر ہوئی تھی نہ زیر۔ دور نبویﷺمیں عربی زبان کو کوفی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا جو قلیل اللفظ تھا۔یعنی زیر، زبر تو درکنار نقطے بھی بہت کم ہوتے تھے لہٰذا اگر ہم اس قضیہ کا فیصلہ کرنے کے لئے نیشنل لائبریری کراچی میں ایوب خاں صاحب کا روس سے مصحف عثمانی کا لایا ہوا عکس دیکھ بھی لیں تو یہ چنداں سود مند نہ ہوگا۔
اب ہم طلوع اسلام کی منشاء کے لئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ قراء ت کے اختلافات کی سب روایات غلط ہیں اور یہ بھی کہ رسو ل اللہﷺپر جو وحی نازل ہوئی تھی اس پر زبر ہی تھا اور ایسے ہی آپ ﷺنے امت کو پڑھایا تھا تو کیا ارجلکم پڑھنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ جبکہ ارجلکم ( ل کی زبر) پڑھنے کے باوجود بھی قواعد زبان کی رو سے دلائل ترجیح دونوں طرف قریب قریب برابر ہیں؟ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر آپ اس کا کیاحل تجویزفرمائیں گے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کا صحیح حل وہی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سر انجام دیا تھا۔ ایسے اختلافات والی تمام تر قراء ت حسب ارشاد الٰہی بھلا دی گئیں (۱۰۶؍۲) اور یہ کچھ ہوا منشائے الٰہی کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے۔
دوسری بات جو اس ضمن میں قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی ایک ہی وقت میں کئی طرح سے کلام کر سکتا ہے یا نہیں؟ تو اگر اللہ ایک ہی وقت لاکھوں انسانوں کی بات سن سکتا ہے تو اسے ایک ہی وقت میں کئی طرح سے کلام کرنے پر قادر بھی تسلیم کر لیا چاہیے اور چونکہ پیغمبروں کو بسا اوقات جبریل کے ذریعہ کلام پہنچاتا اور ان سے ہم کلام ہوتا ہے، لہٰذا رسول اللہﷺنے جبرائیل علیہ السلام ہی سے یہ کہاتھا کہ وحی میں زیادہ قر اء توں کی اجازت دی جائے۔ اس کی کیفیت کیا ہو سکتی ہے ۔ یہ جاننا نہ ہمارے لیے ضروری ہے ، نہ ہم جان سکتے ہیں۔ البتہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آرتھر جیفری کی تالیف:
بات در اصل یہ ہے کہ عرصہ دراز سے مستشرقین کی یہ عادت بن چکی ہے کہ علمی تحقیق وتنقید کے نام پر اسلام پر ہر محاذ سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس علمی تحقیق میں اور توسب کچھ ہوتا ہے، لیکن ایمانیات کو چنداں دخل نہیں ہوتا۔ اسی طرح کے ایک مستشرق آرتھر جیفری ہیں جنہوں نے کتاب المصاحف لابن ابی داؤد کہیں سے ڈھونڈ کر اس کو شائع کر دیا اور ساتھ ہی ایسے بعض دوسرے کتاب المصاحف کے نسخوں سے ایک جدول تیار کر کے پیش کر دیا ہے۔ جس میں ہر طرح کے اختلافات سے تعلق رکھنے والی ہر روایت ، خواہ وہ کس درجہ کی تھی، کو اس جدول میں درج کر کے ثابت یہ کرنا چاہا ہے کہ مصحف عثمانی کے بعد سے آج تک تو مان لیا کہ قرآن میں کچھ فرق نہیں پڑا، لیکن اس سے پہلے کی متن کی صحت اور اس کے خالص وحی الٰہی ہونے کا کیونکر یقین کیا جا سکتاہے؟ جبکہ روایات میں یوں مذکور ہے کہ یہ آیت یا سورۃ یوں بھی نازل ہوئی تھی۔ اور یوں بھی،اور کتاب المصاحف کو اس کے ساتھ اس لیے طبع کر دیا ہے کہ حوالہ کا کام دے سکے۔ اس مستشرق نے ساری کتاب المصاحف کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا ۔بلکہ اختلافات کے صرف اس حصہ کو نمایاں کرکے شائع کیا ہے، جس کی اسے ضرورت تھی۔ اس طرح اس نے ثابت یہ کرنا چاہا ہے کہ جو صورت بحیثیت تحریف وتبدل تورات اور انجیل کی ہے وہی قرآن کی بھی ہے۔ پھر فرق کیا رہا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب طلوع اسلام جو خود بھی اس بات کا قائل نہیں کہ یہ قراء ت یوں بھی ہو سکتی ہے اور یوں بھی، بھلا اس مستشرق کو کیا جواب دے سکتا تھا؟ الٹا روایات پر برس پڑا اور اسی پرانی سرتال میں فرمایا :
’’عجم کی سازش اس سے کہنا یہ چاہتی ہے کہ قرآن کریم میں پہلی صدی کے آخر تک تبدیلیاں ہوتی رہیں اور یہی وہ زمانہ ہے جب احادیث کی تدوین شروع ہوئی تھی یعنی امام مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ کا زمانہ۔ لہٰذا اس وقت قرآن وحدیث دونوں ہی غیر محفوظ شکل میں تھے۔ ہمارے پاس قرآن بھی ایک تابعی، اور احادیث بھی تابعین ہی کی جمع کر دہ ہیں۔ لہٰذا دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ قرآن ایک ایسے تابعی کا ہے جو ظلم وستم اورفسق وفجور میں آج تک ضرب المثل ہے، اورحدیث امام زہری رحمہ اللہ کی ہے۔( حجاج کا سن وفات ۹۵ ھ ہے، لیکن اعراب اس نے ۸۶ ھ میں لگوائے تھے اور امام زہری رحمہ اللہ کاسن وفات ۱۲۷ھ ہے۔یہ تو وہ ربط ہے جو طلوع اسلام نے قائم کرنا چاہا ہے مگر ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ تدوین کتابت حدیث کا کام دور نبویﷺمیں شروع ہو چکا تھا۔ اس بات کو ہم اس کے مقام پر تفصیل سے پیش کرچکے ہیں۔)جوائمہ حدیث کے نزدیک نہایت متقی اور پر ہیزگار تھے۔‘‘ (مقام حدیث:۲۹۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حفاظت قرآن سے متعلق ایک اعتراض اور ا س کا جواب
طلوع اسلام سے کسی نے پوچھاتھا کہ حفاظت قرآن سے متعلق داخلی شہادتیں تو صرف مسلمانوں کے لئے کار آمد ہیں۔ غیر مسلم اس کاکیوں اعتبار کریں اور خارجی ثبوت تاریخ ہی سے مل سکتے ہیں، جس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ ظنی چیز ہے ۔پھر ایک ایسی چیز جو خود ظنی ہے دوسری کو یقینی کیونکر ثابت کر سکتی ہے؟ تو اس کا جواب آپ نے یہی دیا کہ ’’’ایمان بذات خود سچ اور سائنٹیفک چیز ہے اور پرانی یاتاریخی شہادتوں میں سے جو اس قر آن کے مطابق ہوگی اسے ہم سچا قرار دیں گے او روہ قرآن کی تائید میں پیش ہو کر خود اپنی سچائی کا سر ٹفیکیٹ حاصل کرے گا۔‘‘ اب بتلائیے کیا اس جواب سے اس مستفسر کی تسلی ہوگئی ہوگی؟ (تفصیلات کے لئے دیکھئے قرآنی فیصلے ،عنوان حفاظت قرآن کریم)
 
Top