• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع کتابی سے متعلق چند توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع کتابی سے متعلق چند توضیحات

قاری فہد اللہ مراد​
’جمع کتابی‘ ک حوالے سے رُشد قراء ات نمبر اول میں محترم قاری فہد اللہ مراد کا ایک مضمون شائع ہوا تھا، جس بنیاد پر ملک کے مختلف منحرف حلقوں میں شدید اضطراب کی ایک لہر چل پڑی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ فتنہ پرداز قراء ت نمبر اول دوم میں علوم القراء ات کے متعلق پیش کردہ تحقیقی مقالات کے حوالے سے علمی بحث ومباحثہ کے میدان میں اترتے لیکن انہوں نے اس کے بجائے منفی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے عوامی حلقوں میں سوچی سمجھی سکیم کے تحت ایک غلط بحث کو یوں جنم دیا کہ رشد قراء ات نمبر اول میں شائع شدہ محولہ بالا مضمون کو بنیاد بنا کر ایک طوفانِ بد تمیزی کھڑا کر دیا اور مضمون ۶۷۸ پر ادارہ کے حوالے سے موجود ایک ’خبر‘ کو توڑ مروڑ کر یوں پیش کیا کہ بعض مصلحین بھی ایک نئی بحث کا شکار ہو گئے۔
مجلات کی دنیا میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی رسالے میں شائع شدہ کوئی مضمون کبھی بھی ادارہ کا مکمل نمائندہ موقف نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اندرونی ٹائٹل پر ہی اس بات کی وضاحت ’رشد‘ نے خود بھی کی ہوئی ہے کہ ادارہ کا مضمون نگار حضرات سے کلی اتفاق ضروری نہیں۔ اس کے باوجود منکرین حدیث نے ایک ایسی بات ، جس کی نہ تو ادارہ نے کلی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی صاحب مضمون نے اسے بیان کیا تھا، نکال کر علم قراء ات کے فروغ کے لئے کام کرنے والے اداروں کے سر پرست حضرات سے غلط سلط انداز میں اپنے مطلب کے فتوے حاصل کیئے۔ ہمارا احساس اس سلسلے میں یہ ہے کہ معزز مفتیان اپنی علمی دانش و آگاہی کی بناء پر بخوبی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ قراء ات عشرہ کے قرآن ہونے کا مسئلہ اپنی جگہ اٹل ہے، البتہ امور شرعی کے نفوذ کے سلسلہ میں اللہ تعالی کی دی ہوئی بصیرت وحکمت سے کا استعمال چونکہ مطلوب شرعی ہے چنانچہ قرآن مجید کی حفاظت کے سلسلے میں اللہ تعالی کئے گئے ہر کام میں اصول مصلحت وسد ذرائع کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم قراء ات نمبر کی ان خصوصی اشاعتوں کے اختتام پر ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف قراء ات میں قرآنی نسخوں کی اشاعت کے مسئلہ کے حوالے سے پیدا شدہ اس علمی بحث میں اپنا نقطہ نظر بھی مؤقر اہل علم ومفتیان کے سامنے رکھ دیں تاکہ مسئلہ کے بارے میں موجود آراء میں اس پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جائے اور افراط وتفریط سے ہٹ کر ایک معتدل رائے قومی سطح بر اختیار کی جائے۔
جناب قاری فہد اللہ کی زیر نظر تحریر اس اعتبار سے اہیت کی حامل ہے کہ موصوف نے اپنے مضمون پر اٹھنے والے بعض اعتراضات کی توضیح بھی خود کر دی ہے جبکہ فتنہ پردازوں کی طرف سے اٹھائی جانے والی نئی بحث کے حوالے سے معتدل نقطہ نظر قارئین رشد کے سامنے رکھ دیا ہے۔(ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’رشد قراء ات نمبر ایک‘ میں راقم نے ایک مضمون ’حفاظت قرآن کریم کے قدیم و جدید ذرائع‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا جس میں صدر اوّل سے لے کر آج تک قرآن کریم کی حفاظت کے پہلو سے جو کام سرانجام پائے ہیں، ان کا اجمالی تذکرہ کیا تھا اور ساتھ ساتھ اس وقت دنیا میں ہماری اطلاعات کے مطابق خدمت قرآن کے مبارک سلسلہ میں جو کام ہورہے ہیں ان کاتعارف کروایا تھا۔جس پر پاکستان میں موجود غلام احمد پرویز کی روحانی اولاد نے ایک فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے علمائے اہل السنت کی طرف رجوع کیااور مضمون میں موجود بعض سطور کو غلط رنگ دے کر علماء عظام سے اس کی بابت فتویٰ طلب کیا۔ ابھی تک مختلف ذرائع ہمیں تین فتاویٰ جات موصول ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک فتویٰ دارالعلوم کراچی سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانیd کا ہے، ایک جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے مولانا مفتی محمد شعیب عالم﷾ کا ہے جبکہ تیسرا فتویٰ ’مفتی‘ طاہر مکی، صدر قرآنی مرکز کراچی کا ہے۔ پہلے دوفتاوی جات میں تو مسئلہ ہذا کے بارے میں علمی وتحقیقی انداز اپنایا گیا ہے لیکن تیسرے فتوی میں شرعی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے شوق فتویٰ نویسی کا پہلو زیادہ جھلکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلے دو فتاویٰ جات کے بارے میں گزراشات
پہلے دونوں فتاویٰ میں جہاں بڑی شدت کے ساتھ قراء ات عشرہ متواترہ کی حجیت کی بحث کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ ان کے منزل من اللہ اور قرآن ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے، ان کو قبول کرنا واجب اور ان پر اعتماد لازم ہے اور ان کا مخالف گمراہ اور سبیل المؤمنین سے ہٹا ہوا ہے۔ وہاں ان میں یہ بات بھی یکساں ہے کہ پاکستان میں روایت حفص کے علاوہ دیگر متواتر روایات میں مصاحف چھاپنا خلاف مصلحت ہے لہٰذا اس سے گریز کرنا چاہیے۔
اَوّلاً: اس مرحلہ پر ہم بھی اپنے مؤقر علماء کرام کے ہمنوا ہیں کیونکہ پاکستان کا تو کوئی ادارہ یہ کام نہیں کررہا لیکن جو ادارے یہ کام کررہے ہیں ان کی خدمت میں بھی ہم نے عرض کیا ہے کہ اس کام کو عوامی سطح پر قطعاً نہ لایا جائے اور اگر عوامی سطح پر لانا چاہتے بھی ہوں تو اس قدر عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنا صروری ہے تاکہ کسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ فتنے کا اندیشہ ختم ہوجائے۔
ثانیا: اس کے ساتھ ساتھ ہم مسئلہ کی حقیقی نوعیت بھی واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ کہ مذکورہ مصلحت جس کا تذکرہ کیاجارہا ہے کہ عوام میں انکارِ قرآن کادروازہ نہ کھل جائے یا یہ چیز تحریفقرآن کے سلسلہ میں اہل ضلالت کیلئے مہمیز کاکام نہ دے تو اس بارے میں عرض ہے کہ کیا یہ حکم پورے عالم اسلام کیلئے ہے یا صرف پاکستان کیلئے؟ اگر عالم اسلام کے لیے ہے تو پھر یہ مصلحت کب کی ختم چکی کہ سعودی عرب کا قرآن کریم کی طابعت سرکاری ادارہ ’ مجمع ملک فہد ‘تو کب سے چار متداولہ روایات کے قرآن کریم کروڑوں کی تعداد میں مسلسل طبع کر رہا ہے تو سب سے پہلے تو ان کو متنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز دار القراء ات البانیہ (اردن) بھی اس سلسلہ میں کام کررہا ہے اور اس نے ان چار کے علاوہ دیگر دو غیر متداولہ روایات میں بھی مصاحفشائع کردیئے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے اور وہ یہ سارا کام لجنۃ مراجعۃ المصاحف مصر کی زِیرنگرانی ہو رہا ہے۔ باقی اگر یہ خاص پاکستان کے ماحول کامسئلہ ہے تو تب بھی مسئلہ کی دو نو عیتیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) کیامصلحف اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کام کو مطلقاً ختم کردیا جائے اور تاقیامت اس خطہ میں اس کی اشاعت و ترویج پر پابندی عائد کردی جائے؟ یعنی کیا مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کام کو مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے دبا دیا جائے؟
(٢) یاپھر مصلحت کا معنی یہ ہے کہ اس کام میں شرعی کو قدغن نہیں بلکہ یہ ایک مطلوب شرعی ہے کہ اس کی اشاعت و ترویج کی جائے۔ صرف وقتی طور پر ایسا کرنا کئی قسم کے اِشکالات کو جنم دیتا ہے، اس لیے پہلے ماحول سازگار کیا جائے پھر اس کی اشاعت ہو
ہماری نظر میں اگر مصلحت کا تعلق مذکورہ بالا دوسری قسم سے ہے تو یہ بات صحیح اور درست ہے اور قرین قیاس ہے کہ پہلے ماحول بنایا جائے بعد میں کوئی ایسا کام کیا جائے اور اسی مصلحت کے پیش نظر ہم نے اپنے مضمون میں یہ تجویز دی تھی کہ اگر یہ کام کر بھی لیا جائے تو عملی سطح پر صرف لائبریروں کی حد تک محدود ہونا چاہئے۔ باقی اگر ہمارے محترم اس سے ایسی مصلحت مراد لیتے ہیں جو ہم نے نمبر ۱ میں ذکر کی ہے تو معذرت کے ساتھ ہمارا ان سے متفق ہونا مشکل ہے کیونکہ یہ نقطہ نظر صریح شرعی نصوص اور نظریہ سلف سے متصادم ہے۔ کیونکہ قراء ات کے مسئلہ میں اختلاف کوئی پہلی بار پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں ہوا بلکہ نزول قرآن کے دور میں اور آپﷺکی موجودگی میں بھی صحابہ﷢ کے مابین قراء ات کے سلسلہ میں اختلاف ہوا ہے جیساکہ صحیح بخاری میں سیدنا عمر﷜ اور سیدنا ہشام بن حکیم﷜ کا قصہ موجود ہے تو اس موقع پر آپﷺنے اختلاف کو ختم کرنے کی غرض سے کسی ایک کو یہ حکم نہیں دیاکہ آئندہ تم میں سے کوئی ایک اپنی قراء ات ترک کردے بلکہ آپﷺنے فرمایا:
’’إقرء یا ہشام فقرأ ھذا القراء ۃ التی سمعتہ یقرء ھا قال رسول اﷲ! ھکذا انزلت ثم قال رسول اﷲ! إن ھذا القرآن انزل علی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح بخاری:۲۴۱۹:۵۰۴۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہاں پر اللہ کے رسول ﷺ نے دونوں صحابہ کو سنا اور پھر ہر ایک قرآن کریم کادرجہ اور ساتھ یہ کہا کہ قرآن سبعہ احرف پر نازل ہوا ہے۔
حتیٰ کہ بعض دفعہ صحابہ آپﷺ کی تصریح کے باوجود شک و شبہ کا شکار ہوگئے تو تب بھی آپﷺنے مصلحت کی بنیاد پر اسے ختم نہیں فرمایا بلکہ صحابہ کو سمجھایا اور علمی و روحانی دونوں طریقوں سے ان کا علاج فرمایا۔
چنانچہ صحیح مسلم میں ہے، سیدنا اُبی بن کعب نے ایک شخص کو مسجد میں اپنے سے مختلف قرآن پڑھتے ہوئے سنا۔ پھر دوسرا شخص آیا اُس نے پہلے شخص سے بھی مختلف قراء ات کی۔ نماز سے فراغت کے بعد تینوں صحابہ آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو سیدنا اُبی﷜ نے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا:
’’إن ھذا قرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ و دخل آخر و دخل آخر فقرأ سوی قراء ۃ صاحبہ فأمرھما رسول اﷲ! فقرء ا فحسن النبی! شانھما فسقط فی نفسی التکذیب ولا اذ کنت فی الجاھلیۃ فلما رأی رسول اﷲ! ما قد غثینی ضرب فی صدری ففضت عرقاً وکانما أنظر إلی اﷲ فرقاً فقال لی یا أبی أرسل إلی أن یقرأ القرآن علی حرف……‘‘ (صحیح مسلم:۸۲۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ بالا روایت میں صحابہ﷢ کے مابین اختلاف قراء ت ہوا تو آپﷺنے اُسے اپنے عمل سے قرآن کا درجہ عطا فرمایا۔ جس سے اُبی بن کعب﷜ اس قد رشبہات میں گھر گئے کہ انہیں ایسا کبھی جاہلیت میں بھی نہیں ہوا تھا تو آپﷺنے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر ان کا روحانی علاج کیا اور اللہ نے ان کی شرح صدر فرما دی۔
آپ یہاں غور فرمائیں کہ تکذیب قرآن کے اندیشے کے باوجود وصف بھی آپﷺنے کسی ایسے مصلحت کا سہارا نہیں لیابلکہ آپﷺنے اسی کو ہی عظیم مصلحت سمجھا کہ قراءت قرآن کی اشاعت و ترویج ہونی چاہئے۔ بلکہ ایک موقع پر تو اللہ کے رسولﷺصحابہ کے ایسے طرز عمل سے سخت ناراض بھی ہوئے۔
سیدنا ابن مسعود﷜ فرماتے ہیں: میں نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جو میری قراء ت کے خلاف تھی۔ میں نے اُسے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے آیا اور آپ کو خبر دی ۔ حضرت عبد اللہ﷜ فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺکی ناگواری کو محسوس کیا، آپ نے فر مایا:
’’کلاکما محسن، ولا تختلفوا فإن من کان قبلکم إختلفوا فیہ فأھلکم‘‘ (صحیح بخاری:۳۴۶۲)
کہ یہ سنتے ہیں اللہ کے رسولﷺکے چہرہ متغیر ہوگیا کہ تم قرآن میں اختلاف کرتے ہوئے حالانکہ دونوں درست ہیں اور ساتھ فرمایا پہلی امتوں کی ہلاکت کاسبب بھی یہ چیز بنی۔
ایک روایت میں ہے کہ جب آپﷺ کے پاس یہ معاملہ پیش کیا گیا تو ’’ وغضب حتی عرف الغضب فی وجھہ‘‘ کہ رسول اللہﷺاس قدر غضبناک ہوگئے کہ غصہ آپ کے چہرہ انور سے آشکار ہورہا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تو یہاں آپﷺ کے غضبناک ہونے کا سبب یہ ہے کہ قراء ت قرآنیہ کے بارے میں تمہارا اختلاف ہورہا ہے حالانکہ یہ سب کا سب قرآن ہے جب آپﷺکے سامنے اختلاف ہوا اور آپ نے اس کا حل کسی مصلحت کی بناء پر یہ قرار نہیں دیاکہ اس اختلاف کو ختم کردیا جائے بلکہ آپ نے اُس اختلاف قرآن کریم کا درجہ دیا اوراُمت میں اس کو جاری و ساری فرمایا۔ لہٰذا مصلحت عوام یہ قطعاً نہیں ہے کہ ان کو قراء ات قرآنیہ کے علم سے دور رکھا جائے بلکہ مصلحت اس بات میں ہے کہ انہیں قرآن کریم کی تعلیم دی جائے اور قراء ات قرآنیہ سے آگاہ کیا جائے تاکہ انہی بھی علوم قرآنیہ کے شتاور بننے کی جستجو پیدا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مذکورہ بالا اَحادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شرعی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ قراء ات کی زیادہ سے زیادہ ترویج و اشاعت کی جائے۔ مزید ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس مصلحت کی بنیاد پر یہ ساری بحث اٹھائی گئی ہے اس کی حقیقت کو بیان کردیا جائے۔
اصولین کی اصطلاح میں مصالح کی تین اقسام ہیں :
(١) مصالح معتبرہ (یعنی شرعی مصلحتیں)
(٢) مصالح مطعی (جن کاشرع نے اعتبار نہیں کیا)
(٣) مصالح مرسلہ ( مصالح مرسلہ سے مراد وہ مصالح ہیں جو فقہی ہوتی ہیں اور یہ مصالح فقہی مسائل کی طرح جزوی اور وقتی ہوتی ہیں جبکہ مصالح معتبرہ شرعی مصالح وہ شریعت کی طرح دائمی ہوتی ہیں۔
ہماری راے میں غلطی یہاں ہوتی ہے کہ بعض مواقع پر شرعی مصلحتوں کو، جو دائمی ہوتے ہیں، بھی مصالح مرسلہ کی طرح وقتی خیال کر لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات نے کہا ہے کہ سیدنا عثمان﷜ نے مصلحت کی بنیاد پر قراء ات کے اختلاف کو ختم کردیا تھا اور صرف ایک قراء ت پر اُمت کو جمع کردیاتھا۔ حالانکہ حضرت عثمان﷜ تو کیا جمیع صحابہ کرام ﷢ بھی اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی قراء ات کو ختم نہیں کرسکتے۔ اسی لیے ابن حزم﷫ نے یہ کہا ہے کہ حضرت عثمان﷜ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ انہوں نے قراء ات کو ختم کردیا تھا تو ایسا شخص ان کے خروج عن الملۃ کا قائل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لہٰذا وہ مصلحت شرعی کہ جس کی بنیاد پر اللہ کے رسولﷺ نے قراء ات کو اُمت میں رائج کرنے کی تعلیم دی ہے اور صحابہ کے اختلافات کو بطور قرآن ثابت رکھا ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ آج قراء ات قرآنیہ کو مروج کیا جائے نہ کہ انہیں مصلحت کے نام پر ختم کردیا جاوے جو حقیقتاً مصالح شرعیہ کے منافی ہے اور یہ مصلحت شرعی یعنی قراء ات کو باقی رکھنا دائمی اور ابدی ہے۔ اس کے پھیلانے کے طریقہ کار کو سوچنا چاہئے نہ کہ ختم کرنے کے۔٭
٭ اگر کئی دہائیاں پہلے محافل قراء ات وغیرہ کے سلسلے میں بھی یہی مصلحتیں پیش نظر رہتیں تو آج ان محافل کا
رشد قراء ت نمبر دوم میں زیر عنوان ’تعارف علم القراء ات ‘ … سوالات وجوابات ‘ از حافظ حمزہ مدنی کے مضمون سے مصلحت کے متعلق موجود ایک سوال اور اس کے جواب کو ذیل میں افادئہ قارئین کی غرض سے من وعن پیش کیا جاتا ہے۔ سوال: بعض لوگوں کاخیال ہے کہ قراء ات کی اجازت اوّلاً تھی، بعد میں منسوخ یا موقوف کردی گئی؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: بعض منکرین قراء ات، جوکہ ابتدائی دور کے لحاظ سے متنوع قراء ات کو تسلیم کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بعدازاں اس رخصت کو منسوخ کردیا گیا، کیونکہ جس غرض سے ان قراء ات کو پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی وہ غرض پوری چکی تھی، چنانچہ ان قراء ات کو حضرت عثمانt نے صحابہ کی رائے کے ساتھ منسوخ یا موقوف کردیا۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے ہاں بنیادی طور پریہ ذہنیت پائی جاتی ہے کہ شریعت کے وہ احکام، جو مصالح ومقاصد کے پیش نظر دیے گئے ہیں وہ وقتی ہوتے ہیں،جنہیں مقاصد کے حصول کے بعد منسوخ یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے ہاں عام طور احادیث میں مذکور احکامات اسی قبیل سے ہیں۔
اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ شرع میں ذکر کردہ مصالح سے متعلق اَحکام صرف نبی کریمﷺ کے زمانہ کی رعائت اور حالات کے اعتبار سے مشروع کیے گئے تھے، چنانچہ اُس دور کے حالات سے منسلک احکامات بنیادی طور پر شریعت سے خارج ہوتے ہیں۔ شریعت میں مذکور مصالح،جنہیں اصطلاح اصولیین میں ’مصالح معتبرہ‘ کہتے ہیں،سے متعلق احکام کے بارے میں ان لوگوں کے ذہن کی بنیاد ی غلطی یہ ہے کہ یہ ان شرعی مصالح کو فقہی واجتہادی مصالح، جنہیں اُصولیوں کی اصطلاح میں ’مصالح مرسلہ‘ کہتے ہیں، کی طرح سمجھتے ہیں، حالانکہ اہل سنت کے ہاں شرعی مصلحت دائمی وابدی ، جبکہ فقہی مصلحت وقتی وعارضی ہوتی ہے۔
علمائے اصول کے ہاں ’مصالح مرسلہ‘ کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ تمدن کی تبدیلی سے پیدہ شدہ نئے حالات میں فقہاء کرام بسا اوقات شریعت کی کسی نص کے انطباق میں شرعی مقاصد ( شریعت کی بیان کردہ عمومی مصالح) کالحاظ رکھتے ہوئے معاملہ کی نوعیت اور مسئلہ کے ہمہ گیر پہلوؤں کی رعائت میں شریعت میں موجود اس واقعہ سے ملتے جلتے واقعات (نظائر)کے بارے میں وارد شرعی نصوص پر قیاس کرکے اجتہادو استنباط سے کچھ حدود و قیود کا اضافہ یا کمی کردیتے ہیں۔ تمدن کے نئے تقاضوں سے جو انسانی ضروریات سامنے آتی ہیں، مجتہد کے لیے شرعی مقاصد اور تعلیمات دین کی روشنی میں ان کی رعائت کرنا شارع کا مطلوب ہے، جسے ’اجتہاد‘ کے مبارک عمل سے پورا کیا جاتا ہے۔ فقہاء کے استنباطات و اجتہادی آراء کا شرعی نصوص واحکام سے بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ ہمارے نبی 1 چونکہ خاتم النبیین ہیں، اسی لیے آپ کی لائی ہوئی شریعت بھی ابدی ہے، جسے منسوخ یا موقوف کرکے اب نئی شریعت قیامت تک نہیں لائی جاسکتی، برابر ہے کہ وہ کسی نئے حکم کے وجود میں لانے کی صورت میں ہو یاشریعت میں پہلے سے موجود کسی حکم کو ختم کرنے کے کی شکل میں، لہٰذا شریعت میں مذکور مصالح ورخصتیں بھی روز ِاول سے دائمی حیثیت ہی رکھتی ہیں، جبکہ فقہاء کے ذکر کردہ مصالح کی حیثیت بہرحال یہ نہیں ہے۔
الغرض اجتہاد کے بنیادی مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ شرع کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں اور یہ شرع کے نسخ کا نام نہیں، بلکہ اس کا کام نئے تمدنی تقاضوں کے لیے شریعت کی توضیح وتشریح کرنا ہے، چنانچہ شرع میں جن مقاصد اور جزوی یا کلی مصالح کو سامنے رکھ شرعی احکام دیے گئے ہیں، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے مصالح کا ایک خلاصہ سامنے رکھتے ہوئے ان شرعی احکام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ابدی ہدایت پیش کردی ہے، جس میں قیامت تک تمام زمانوں اور لوگوں کی جمیع ضروریات اور طبعی وتمدنی
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
انعقاد اور قراء ات متواترہ کے متعلق عوام میں جو ایک شعور پیدا ہو چکا ہے کبھی نہ ہوتا، ہمارے اَسلاف﷭ کی ساری
تقاضوں کا لحاظ کرلیا گیا ہے۔یہ کہنا کہ اللہ علیم وخبیرنے جن مقاصد ومصالح کی رعائت کرکے اپنے علم وحکمت کی روشنی میں جو احکامات پیش کردئیے ہیں، بعد کے زمانوں کے بعض مصالح کی ان میں رعائت نہیں کی گئی انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس تناظر میں ہمارا کام بس یہی ہے کہ ہم اپنے مخصوص علاقائی اور وقتی تقاضوں کی رعائت میں شرع کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔اس صورت میں جو فقہی واستنباطی راہنمائی سامنے آئی گی وہ بھی علاقائی اور وقتی ہی ہوگی، اسے ابدی اور کلی قرار دینا انتہائی غلط ہوگا۔ عالمگیریت اور ابدیت صرف شرعی احکامات کا خاصہ ہے، فقہی واجتہادی احکام کی یہ صفت نہیں ہے۔ اسی لیے علمائے اصول کے ہاں شرعی مصلحت کو ’حکمت‘ کہا جاتا ہے، جو رب حکیم کی صفت ِعلیم وخبیر کی روشن مثال ہوتی ہے، جبکہ انسانی مصلحت کو ’حکمت‘ کے بجائے ا’جتہادی مصلحت‘ کی متوازی اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے۔ شریعت کی اسی عالمگیریت اور جامعیت کو واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ نے معارج الوصول فی بیان أنَّ أصولَ الدِّین وفروعَہ قد بیَّنہ الرّسولﷺ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا مطالعہ اس ضمن میں انتہائی مفید ہوگا۔
مذکورہ تمہید ی باتوں کے بعد اب ہم آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف تو میں واضح کرنا چاہوں گا کہ منکرین قراء ات، جن کی اپنی دینی بنیادیں مضبوط نہیں، انہوں نے فقہی مصلحت کے انداز پر قراء ات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہﷺپرجو قرآن نازل ہوا تھا، وہ تو بنیادی طور پر ایک ہی وجہ یا ایک ہی لہجہ کے ساتھ نازل ہوا تھا لیکن محمدﷺنے متاخرین فقہاء کی طرح قرآن مجید کے اندر لوگوں کی مشکلات یامصلحت وحکمت کی پیش نظر کچھ چیزوں کی گنجائش اپنی طرف سے دے دی تھی۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ معاملہ ایسے بھی ہو، جیسے ذکر کیا جارہا ہے تو محمد رسول اللہﷺ اگر کوئی بات قرآن یاسنت میں اپنے اجتہاد کی پیش نظر کہیں تو اہل سنت والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق چونکہ اس کے اوپر وحی کی نگرانی ہوتی ہے،چنانچہ وہ چیز نتیجتاً وحی بن جاتی ہے، جیسے کہ کنَّا نعزِل والقرآن ینزل(صحیح مسلم:۱۴۴۰) کی مثال ہے۔ اب صحابہ﷢ اللہ کے رسولﷺکے سامنے تو عزل نہیں کیا کرتے تھے، لیکن زمانہ نزول وحی میں صحابہ﷢ کا عزل کرنا اور قرآن مجید کا نازل ہونا اور اللہ کے رسولﷺ کااس پرخاموش رہنا یہ خود ایک تقریری حدیث کی بنیاد ہے۔ امام بخاری﷫ نے اس نوع کو اپنی جامع صحیح کے کتاب الاعتصام میں باقاعدہ ایک باب قائم کرکے واضح کیا ہے۔
اس بات کو ایک اور انداز سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺکی خاموشی سے شرعی حکم کے قرار (تقریر) پاجانے کی اصل توجیہہ یہ ہے کہ آپﷺکے سکوت کا معنی یہ بنتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اُس بات پر سکوت فرمایا ہے، جس پر آپ خاموش رہے ہیں، گویاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہیں، جیساکہ روایات میں موجود ہے کہ بسا اوقات محمدﷺنے اجتہاد فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اجتہاد کے حوالے سے جو کمزوری کاپہلو تھا اسے بیان فرمادیا، تو اگر اللہ تعالیٰ کمزوری کو بیان فرمادیں تو ایسی صورت میں وہ چیز شریعت نہیں بنتی، لیکن اگر واضح نہ فرمائیں تو ایسی صورت میں اللہ کے رسول1 کی خاموشی سے وہ شے شریعت قرار پاجاتی ہے، جسے اصطلاحا تقریر کہا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کاکسی چیز پرخاموش رہ جانے سے جو شے ٹھیک قرار پاتی ہے اسے اِصطلاحا ’استصواب‘ کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اُصولیوں کا ایک قاعدہ ہے : ’’السکوت فی مَعْرِضِ البَیَانِ بیانٌ‘‘
’’جب کسی جگہ بیان کی ضرورت ہو اور بیان کرنے والا ضرورت ِبیان ہونے کے باوجود بیان نہ کرے تو عدم ِبیان اس چیز کے شرعی جواز کی دلیل ہوتاہے۔‘‘
چنانچہ جن لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال موجود ہے کہ محمد رسول اللہﷺنے قراء ات ِ قرآنیہ کو وحی کے بجائے اپنے اجتہاد سے جائز کردیاتھا، اگر یہ بات بھی کی جائے تو بھی آپﷺکی اجازت نتیجتاً وحی بن جاتی ہے۔ البتہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ روایات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ محمد رسول اللہﷺنے قراء ات کے اختلاف کو اپنے اجتہاد سے پیش نہیں فرمایا، بلکہ باقاعدہ اللہ تعالیٰ سے ان کے نزول کاتقاضا دعائیں کر کر کیفرمایاتھا، جیسا کہ جبریل اورمیکائیل علیہما السلام کے حوالے سے صحیح روایات میں موجود ہے کہ اللہ کے رسولﷺکے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس دونوں تشریف لائے تھے اور اللہ کے رسولﷺ بار بار تقاضا کرکے اللہ تعالی سے اختلاف قراء ات کو طلب فرماتے رہے، میکائیل مزید
تقاضے کا مشورہ دیتے جاتے اور جبریل اللہ تعالیٰ کی طرف سے حروف لے کر آتے جاتے =
 
Top