- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
جمہوریت اور حاکمیتِ الٰہیہ
درپیش حالات کے تناظر میں
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
اہلیانِ پاکستان کے دل ودماغ اورقومی اوقات وصلاحیتیں اس قدر بے مصرف کیوں ٹھہریں کہ تین برس ہونے کو آئے ہیں، آئے روز صدرِ پاکستان کی بددیانتی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان، حکومت کو حکم دیتی ہے کہ قوم کاپیسہ واپس لانے کا خط لکھا جائے لیکن وقت کا صدر اور پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین دستوری استثنا سے فائدہ اُٹھانے پرہی مصر ہے۔6؍اکتوبر 2007ءکوبدنام زمانہ این آر او(قومی مفاہمتی آرڈیننس) جاری ہوتا ہے،16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بنچ کا مختصر فیصلہ آتا ہے، پھر دسمبر2011ء میں مفصل فیصلہ بھی آجاتا ہے۔ بار بار حکومت سے اصرا رکیا جاتا ہے، وزیر اعظم پر توہین عدالت کا الزام بھی لگتا ہے۔ وزیر اعظم شہید ِعدالت بننے کا منتظر ہے، عدالت کے احترام اور اُس کے اپنے ہونے کے برملا دعوے کرتا ہے لیکن کبھی عدالت کے حکم پر عمل درآمد بالکل نہیں کرتا۔اب صاف اور برمَلا یہ کہتا ہے کہ پارٹی مفادات اور اپنے چیئرمین کے خلاف کوئی اقدام نہیں کروں گا، چھ ماہ کی قید منظور ہے۔ سیاسی وفاداری اتنی اہم ٹھہری ہے کہ اب تو وزیر اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُس کے فرزند سیدموسٰی گیلانی نے بھی بلاول بھٹو کے منہ بولے بھائی ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ کہاں گئے عہدے اور منصب قبول کرتے وقت آئینی حلف نامے اور کہاں گیا قومی مفاد اور دین واخلاق؟ پھر بھی ہماری قوم نادان ہے کہ ایسے ہی سیاسی مہروں کو منتخب کرتی چلی آتی ہے۔ قوم کاپیسہ پہلے برباد کیا گیا، اب قوم کا وقت اور ذہن بے کار مصارف میں اُلجھایا جارہا ہے۔ کیا یہی حکومت کرنے کے طریقے ہیں، انہی طریقوں سے قومیں شادکام ہوتی ہیں؟عرب دنیا میں اسلامی تحریکیں آج جمہوریت مل جانے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتیں۔ ہر ملک جس میں عوامی انقلاب آیا ہے، وہاں جمہوریت کو مسلط کردیا گیا ہے۔ مصرہو یا تیونس، دونوں جگہ بڑی قربانیوں شہادتوں کے بعد ، اسلام پسندوں کو انتخابات میں بھاری بھرکم کامیابیاں ملی ہیں۔ جہاں ان ممالک میں اسلام پسندوں کے لئے انتخابات ایک بڑی نوید بن کر آئے ہیں، وہاں پاکستان میں جمہوریت کا فیضان یہ ہے کہ 62 سال جمہوری سائے تلے گزارنے کے بعد پاکستان میں اسلام، جمہوری کلچر کا ایک ناکام حوالہ بن چکا ہے۔اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی بھی نمایاں سیاسی جماعت کے نزدیک اسلام کا نعرہ ایسا اہم نہیں رہا کہ اس سے انتخابات میں کامیابی کا تصور وابستہ کیا جائے۔مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات میں اسلام پسندوں کے لئے یہاں کسی نمایاں کامیابی کا امکان بھی اب معدوم ہوتا جارہا ہے۔ جمہوریت کی یہ کارفرمائی بھی اہل اسلام کے لئے قابل غور ہے!!عدالت کی بھی مہربانی کہ پورے چار سال کے بعد خدا خدا کرکے فیصلہ تو سنادیا، صدشکر کہ ابھی اسی دورِ حکومت میں ہی فیصلہ آگیا، وگرنہ تو حکومتیں اور افراد گزر جاتے ہیں اور مغرب کے دئیے عدالتی نظاموں کے منصب دار گڑے مردے اُکھاڑنے لگ جاتے ہیں۔ آج اگر ہماری حکومت اتنی بے دھڑک ہوکر عدالتی فیصلے سننے کی منتظر بنی بیٹھی ہے کہ جو کرنا ہے، عدالت ہی کرے،ہم نے اپنی رَٹ نہیں چھوڑنی، تو اس کے پس پردہ عدالت کی بے جا تاخیر اور حکمرانوں کی یہی ٹائمنگ کارفرما ہے کہ انتخابات میں تھوڑا سا وقت ہی باقی رہ گیا ہے۔ وزیر اعظم اور صدر پہلے ہی پاکستانی تاریخ کے طویل ترین وقت پانے والے صدر اور وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اُن کے حلیف کہتے ہیں کہ ان کی ٹرم تو پوری ہوہی چکی، اب عدالت اُنہیں معزول بھی کردے تو اس سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ مستقبل میں دوبارہ ہمدردی کے ووٹ لے کرجاہل ووٹروں سے منتخب ہونے کے قوی امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ جب سوا دو سال قبل عدالت نے فیصلہ کرہی لیا تھا، تومکمل فیصلہ کو دوسال لٹکانے اور پھر اب توہین عدالت کی رٹ لگاکر، اس پورے عدالتی نظام کو رُسوا کرنے سے کیا حاصل؟ درپیش صورتِ حال کا ہماری جمہوریت میں کوئی حل ہے بھی یا نہیں ؟ ملک اور جمہوریت کے دو اہم ترین ستون ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہیں۔ عدلیہ اپنی پوری اجتماعیت کے ساتھ اور انتظامیہ اپنے سب سے بڑےعہدیدار وزیر اعظم کے ذریعے... یہ ہے وہ جمہوریت اور اس کی جانب 60 سالہ پیش قدمی جس کے تقدس کی مالا جپتے ہوئے ہم ہمیشہ خوبصورت خواب ہی آنکھوں میں سجاے رکھتے ہیں۔ اسی جمہوریت کا انعام اب اہل عرب کو بھی عطا کردیا گیا ہے کہ اُن کی قربانیوں اور اسلامی جذبات کا خون اب اِسی سے ہوگا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہمارے دکھوں کا مداوا بھی ہے اور کیا اسی سے اُمتِ اسلام، دنیا وآخرت کے ثمرات حاصل کرلے گی؟
جمہوریت کی ایک مہربانی یہ بھی ہے کہ دسیوں مقامات پر اسلام پسند کسی اتفاقی وجہ، ردعمل یا عوام کی اسلام سے بہتری کی اُمید کی بنا پر اقتدار میں تو آچکے ہیں لیکن اسلامی جماعتوں کے انتخابات میں ایسی کامیابیوں سے اسلام کو کبھی کوئی خاص فائدہ حاصل ہوا بھی ہے یا نہیں؟یہ اصل سوال ہے... ماضی میں الجزائر میں اسلامک فرنٹ، فلسطین میں حماس، ترکی میں رفاہ پارٹی اور پاکستان کے صوبہ خیبر پی کے میں مجلس عمل کی صورت میں اسلام پسندوں کو کامیابیاں مل چکی ہیں، لیکن اسلام پسندوں کی اِن جمہوری حکومتوں کے کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔ حال ہی میں تیونس میں تو 40 فیصد نشستیں حاصل کرنے کے بعد وہاں کی حركة النّهضة حکومت بنا کر اپنا وزیر اعظم بھی لا چکی اور مصر میں اخوانی اور سلفی جماعتیں بالترتیب 43 اور 24 فیصد نشستوں میں عظیم الشان کامیابی حاصل کرنے کے بعد دوتہائی سےبھی زیادہ اکثریت پاچکی ہیں اور عنقریب وہاں دورِحاضر کی مضبوط ترین اسلامی حکومت قائم ہوگی۔لیکن اسلامی جماعتوں پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوگی کہ کیا مستقبل میں بھی جمہوریت کے پودے پر برگ وبار لاکر وہ اسلام کی کوئی خدمت کرپاتی ہیں یا نہیں؟ ہمیں شدید خدشہ ہے کہ اگر وہاں کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی نہ آئی تو عالم عرب میں اسلامی جماعتوں کو اگلا موقع پھر کبھی نہ ملے گا او رپاکستان کی طرح وہاں بھی ’اسلام‘ انتخابات میں ناکام حوالہ بن کر رہ جائے گا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت اوربرکت سے اُمتِ اسلام کے دکھوں کا مداوا کرے، ربّ کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ایک مثالی فلاحی اسلامی ریاست وجود میں آسکے لیکن ماضی کے تجربے اور اندیشے کوئی اچھی خبر نہیں لاتے۔
ان ممالک میں جمہوری استحکام کے نام پر امریکہ نے ایک طرف اپنی گانگریس سے ملینوں ڈالرز
کا مطالبہ کررکھا ہے تو دوسری طرف یہی امریکہ افغانستان میں بھی اسی جمہوریت پر طالبان کو آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ طالبان سے کئے جانے والے معاہدوں میں امریکہ کی طرف سے بنیادی شرط، کرزئی حکومت کی زیر نگرانی بنائے گئے دستور پر افغانی طالبان کا اتفاق کرنا ہے، جس سے تاحال دانش مند طالبان قیادت گریز ہی کرتی چلی آرہی ہے۔ دراصل دستور کے انجینئرڈ طریقے سے حکومت اور معاشرہ سازی کا میکنزم اتنا پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ عوام الناس اُس کے گورکھ دھندے سے غافل اور لاتعلق ہوجاتے، حکومتی عناصر اس میں جوہر دکھاتے اور نت نئے حیلے بہانے تراشتے اور عالمی قوتوں کو اپنے مہرے تلاش کرنے اور اپنا کھیل بنانے کی آزادی مل جاتی ہے، پھر اسلامی جماعتوں کو بھی اسی دستور کے زیر سایہ آئینی کامیابی حاصل کرنے کا راستہ دکھادیا جاتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی طرح دستور وجمہوریت کے تقاضے تو پورے رہتے ہیں، لیکن اسلام اور اہل اسلام کی کوئی مراد پوری نہیں ہوتی۔ پاکستان اس کی زندہ مثال ہے؛ یہ زرداری حکومت ہی نہیں ،پاکستان میں 88ء سے 99ء تک کی جمہوری حکومتوں کا بھی یہی نقشہ رہا ہے...!!((روزنامہ جنگ لاہور کی خبر كا متن:’’واشنگٹن(جنگ نیوز)امریکا کے صدربارک اوباما کی انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ اورشمالی افریقہ کے عرب ممالک[کویت، مصر ، تیونس اور فلسطین وغیرہ] میں زیرعمل جمہوریت نواز انقلابی تحریکوں کی سرپرستی کرتے ہوئے سیاسی اوردیگراصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کے لئے 77کروڑڈالرفنڈزجاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ نیا فنڈ امریکی محکمہ خارجہ اوریوایس ایڈکے 2013ءکے بجٹ کے لئے درخواست کردہ 51اعشاریہ 6بلین ڈالر رقم کا حصہ ہے۔جو مجموعی امریکی حکومتی بجٹ کی تقریباًایک اعشاریہ4فیصدرقم بنتی ہے۔ ‘‘))