• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت ایک دینِ جدید

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
برادر اسلامی جمہوریت ایک نئی چیز ہے۔ جس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں ہے۔اور نہ ہی سلف اس بدعت سے آشنا ہیں۔لہٰذا ایک ایسی چیز کے وجود کو کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے۔بلکہ جمہوریت جس کی تعریف ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ایک نیا دین ہے ۔ ایک باطل نظام ہے ۔ جو کہ دین اسلام کے مدمقابل اور حریف ہے۔دنیائے کفرکمیونزم سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کے ذریعے ہی سے اسلام سے متصادم ہے۔اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں جمہوریت ایک کفری نظام ہے۔تو اس کو کس طرح اسلامی کا لفظ لگا کر مسلمانوں کے لئے حلال کیا جاسکتا ہے۔یہ تو دین اسلام کے مدمقابل ایک نیا دین ہے۔ کل کو ایک دوسرا گروہ اٹھے گا اور کہے گا بت پرستی چونکہ کفر ہے ۔ اس لئے ہم اسلامی بت پرستی کے قائل ہیں۔جس کی مثال کچھ لوگوں کے ہاں سجدہ تعظیمی کی ہے۔
عزیزم خان صاحب آپ یقین جانےجمہوریت سےجتنی نفرت آپ کرتےہیں شاید اس سے بڑھ کرمیں کرتاہوں گا، بلکہ ہرسچامسلمان کرتاہوگا۔جمہوریت کا آغاز مغرب نے مذہب،پاپئت، بادشاہت او رجاگیردارانہ نظام سے تنگ آکر کیاتھا ۔اس کا آغاز ہی عداوت مذہب پر مبنی ہے جس میں سرفہرست عوامی حاکمیت کا کفریہ اصول ہے وغیروغیرہ لیکن میں گزارش یہ کررہا ہوں اسلامی ممالک میں موجودہ جمہوریت صرف ایک طریقہءانتخاب امیر کے طور پر لی جاتی ہے یعنی ایک ملک کے باشندگان اپنا امیریا ذمہ دار کس طرح منتخب کریں او رمیراخیال ہے یہ بھی ایک مبینہ حقیقت ہے کہ اس مسئلےمیں ہمیں شریعت اسلامیہ نے بھی آزاد چھوڑاہے جیسے آنحضرت ﷺاو رخلفائے راشدین کا طریقہءانتخاب ہماری اس طرف بطریق احسن رہنمائی کررہاہے۔رہی یہ بات کہ لفظ جمہوریت قرآن وحدیث میں کہیں نہی آیاتو اس میں آپ درست فرما رہے ہیں لیکن سلف تو فرمایاکرتے تھے کہ اصطلاحات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو تی بلکہ اصل وہ تصورات ہوتے ہیں جو ان اصطلاحات کےپیچھے ہوتے ہیں۔چناچہ آپ خود ملاحظہ فرمالیں عہدنبوت کے بعدسے ابھی تک کتنے ہی علوم وفنون او رمعاشرتی اصلاحات میں اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
عزیزم خان صاحب آپ یقین جانےجمہوریت سےجتنی نفرت آپ کرتےہیں شاید اس سے بڑھ کرمیں کرتاہوں گا، بلکہ ہرسچامسلمان کرتاہوگا۔جمہوریت کا آغاز مغرب نے مذہب،پاپئت، بادشاہت او رجاگیردارانہ نظام سے تنگ آکر کیاتھا ۔اس کا آغاز ہی عداوت مذہب پر مبنی ہے جس میں سرفہرست عوامی حاکمیت کا کفریہ اصول ہے وغیروغیرہ لیکن میں گزارش یہ کررہا ہوں اسلامی ممالک میں موجودہ جمہوریت صرف ایک طریقہءانتخاب امیر کے طور پر لی جاتی ہے یعنی ایک ملک کے باشندگان اپنا امیریا ذمہ دار کس طرح منتخب کریں او رمیراخیال ہے یہ بھی ایک مبینہ حقیقت ہے کہ اس مسئلےمیں ہمیں شریعت اسلامیہ نے بھی آزاد چھوڑاہے جیسے آنحضرت ﷺاو رخلفائے راشدین کا طریقہءانتخاب ہماری اس طرف بطریق احسن رہنمائی کررہاہے۔رہی یہ بات کہ لفظ جمہوریت قرآن وحدیث میں کہیں نہی آیاتو اس میں آپ درست فرما رہے ہیں لیکن سلف تو فرمایاکرتے تھے کہ اصطلاحات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو تی بلکہ اصل وہ تصورات ہوتے ہیں جو ان اصطلاحات کےپیچھے ہوتے ہیں۔چناچہ آپ خود ملاحظہ فرمالیں عہدنبوت کے بعدسے ابھی تک کتنے ہی علوم وفنون او رمعاشرتی اصلاحات میں اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔
محترم برادر اس لنک کو ملاحظہ کیجئے:
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
عزیزم آپ کا جمہوریت کے حوالے سے طویل تاریخی او رتجزیاتی نقل کردہ اقتباس ملاحظہ کیا ایسی قمتی معلومات سے اگاہ کرنے کا بہت زیادہ شکریہ تاہم اسےپڑنےکے بعد شدت سے ایسے رویے کا احساس ہونے لگا کہ گویہ ایک مریض بارہا کسی طبیب کےپاس سردرد کی دوائی لینے جاتاہے تو وہ طبیب بارہا اسے زبردستی پیٹ درد کی دوائی دیتاچلاجاتاہےآگےسے جب وہ چلاتا ہے کہ طبیب صاحب مجھے سر میں درد ہے آپ اسکا علاج فرمائیں تو آگے سے طبیب صاحب تحکمانہ لہجے میں ارشاد فرماتےہیں خاموش ہو جاؤ کیونکہ اصل چیز معدہ ہے اسکی خرابی ام الامرض ہے لہذا پہلے اسے ٹھیک کرلینے دو وہ ٹھیک ہو جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔پاکستان کے دستو رمیں لکھاہوا ہےکہ اس مملکت خداد میں حاکمیت خداکی ہے اللہ کے قانون کے خلاف یہاں کوئی قانون نہیں بنایاجائے گاچناچہ اگر عملا حکمران کوئی اس کی خلاف ورزی کرتاہے تو وہ ایک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتاہے۔جیسے ایک عام مسلمان نماز چھوڑ کرہوتاہے لہذایہاں عوام اپناحکمران اپنے انتطامی او راجتہادی امور کے نفاذ او راصلاحات کے لئے منتخب کرتے ہیں ہم آپ کی توجہ اس پہلو کی طرف دلانے کی جسارت کررہے تھے۔لیکن آنجناب نے اسے درخوراعتناہی نہ سمجھا اور جمہوریت کی اسی مفربی بحث کودوبارہ لاکھولاہمارےسامنے اسلامی فقہ کامتفقہ اصول ہےکہ جب مسئلے کی تھوڑسی نوعیت بھی بدل جائے تو حکم بدل جاتاہے اسکی بے شمارمثالیں کتب فقہ میں موجود ہیں۔
تاہم اس وقت عالم اسلام کے حکمرانوں کی بداعمالیوں او رناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں سے کی وجہ سے جو حالات پیداہوے ہیں اس کا ہمیں شدید قلق ہے او راس کے ردعمل میں مسلم نوجوانوں طریقہءکاراپنایاہے وہ بھی قابل غور ہے۔
 
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
ایک نظر ادھر بھی۔
URDU MAJLIS FORUM - تنہا پوسٹ دیکھیں - اسلام اور جمہوریت۔ بقلم فضیلۃ الشیخ بشیر احمد حسیم رحمۃ اللہ علیہ
اسلام اور جمہوریت میں فرق اپنی جگہ مگر پاکستان میں رہتے ہوئے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسا نمائیندہ منتخب کریں جو یہاں قرآن و سنت کے احکامات کو نافظ کرے جیسا کہ پاکستان کے منشور میں یہ بات درج ہے۔ لیکن اگر ایسا نمائیندہ موجود نہ ہو تو پھر بھی ہمیں اپنا ووٹ ضائع کر کے چوروں لٹیروں کو فری نہیں چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ جیسا چاہیں یہاں فساد برپا کریں اور ہم بس جمہوریت کفر ہے کے فتاوی جات میں رہیں۔ انفرادی طور پر کسی ایسے نمائیندے کو منتخب کروائیں جو باقیوں سے اچھا اور بہتر لگے۔ ووٹ ضائع کرنے کا خمیازہ پھر جن فسادات کی صورت میں ساری عوام کو بھگتنا پڑتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
عزیزم آپ کا جمہوریت کے حوالے سے طویل تاریخی او رتجزیاتی نقل کردہ اقتباس ملاحظہ کیا ایسی قمتی معلومات سے اگاہ کرنے کا بہت زیادہ شکریہ تاہم اسےپڑنےکے بعد شدت سے ایسے رویے کا احساس ہونے لگا کہ گویہ ایک مریض بارہا کسی طبیب کےپاس سردرد کی دوائی لینے جاتاہے تو وہ طبیب بارہا اسے زبردستی پیٹ درد کی دوائی دیتاچلاجاتاہےآگےسے جب وہ چلاتا ہے کہ طبیب صاحب مجھے سر میں درد ہے آپ اسکا علاج فرمائیں تو آگے سے طبیب صاحب تحکمانہ لہجے میں ارشاد فرماتےہیں خاموش ہو جاؤ کیونکہ اصل چیز معدہ ہے اسکی خرابی ام الامرض ہے لہذا پہلے اسے ٹھیک کرلینے دو وہ ٹھیک ہو جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔پاکستان کے دستو رمیں لکھاہوا ہےکہ اس مملکت خداد میں حاکمیت خداکی ہے اللہ کے قانون کے خلاف یہاں کوئی قانون نہیں بنایاجائے گاچناچہ اگر عملا حکمران کوئی اس کی خلاف ورزی کرتاہے تو وہ ایک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتاہے۔جیسے ایک عام مسلمان نماز چھوڑ کرہوتاہے لہذایہاں عوام اپناحکمران اپنے انتطامی او راجتہادی امور کے نفاذ او راصلاحات کے لئے منتخب کرتے ہیں ہم آپ کی توجہ اس پہلو کی طرف دلانے کی جسارت کررہے تھے۔لیکن آنجناب نے اسے درخوراعتناہی نہ سمجھا اور جمہوریت کی اسی مفربی بحث کودوبارہ لاکھولاہمارےسامنے اسلامی فقہ کامتفقہ اصول ہےکہ جب مسئلے کی تھوڑسی نوعیت بھی بدل جائے تو حکم بدل جاتاہے اسکی بے شمارمثالیں کتب فقہ میں موجود ہیں۔
تاہم اس وقت عالم اسلام کے حکمرانوں کی بداعمالیوں او رناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں سے کی وجہ سے جو حالات پیداہوے ہیں اس کا ہمیں شدید قلق ہے او راس کے ردعمل میں مسلم نوجوانوں طریقہءکاراپنایاہے وہ بھی قابل غور ہے۔
توحید کے معاملے میں حکم نہیں بدلتا۔کفر کفر ہی رہتا ہے ۔ اسلام نہیں بن جاتا۔اگر آپ "کیاووٹ مقدس امانت ہے " کامطالعہ کرلیں تو آپ کی باقی غلط فہمی بھی ان شاء اللہ دور ہوجائے گی۔
جیسا کہ آپ نے لکھا ہے:
پاکستان کے دستو رمیں لکھاہوا ہےکہ اس مملکت خداد میں حاکمیت خداکی ہے اللہ کے قانون کے خلاف یہاں کوئی قانون نہیں بنایاجائے گاچناچہ اگر عملا حکمران کوئی اس کی خلاف ورزی کرتاہے تو وہ ایک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتاہے۔
حامد محمود حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
دستور پاکستان کی پیشانی پر اس کلمہ کا ترجمہ یوں لکھا گیا ہے کہ ’’اﷲتعالیٰ حاکم اعلیٰ ہے‘‘مرادیہ ہے کہ کلمہ پڑھ لیا گیا اب آگے ہر قسم کے شرک کا راستہ صاف ہے چنانچہ دستور کے اسی دیباچہ میں جہاں اﷲکو حاکم اعلیٰ کہا گیا ہے تھوڑا آگے چل کر وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ :
’’پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ جمہوری طرز کا ہوگا‘‘
ٍیہ شرک ضرور ہے مگرچونکہ کلمہ پڑھ کر کیا گیا ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں !یہ بھی دیکھتے چلیں کہ حاکم اعلیٰ کے اس لفظ کی دستوری تفسیر کیا ہے ؟دستور اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ حاکم اعلیٰ ایک بے ضرر سا ’’اعزازی عہدہ ‘‘ہے جو نہ تو کسی کو جیل بجھواسکتا ہے اورنہ ہی جیل سے چھڑا سکتا ہے ۔اس کی اتاری ہوئی آیت نہ تو کسی چور کا ہاتھ کٹواسکتی ہے ۔اور نہ سود کو ناجائز اور قابل مواخذہ قرار دے سکتی ہے اس کا فرمان بہترین اخلاقی اپیل تو ہے مگر قانوناً نہ جوئے کو روک سکتی ہے اورنہ فحش فلموں کو ۔انسانی زندگی میں جائز وناجائز اور قانونی وغیر قانونی قرار دینا یہ ایک باقاعدہ اختیار ہے جو اس آئین میں ’’حاکم اعلیٰ ‘‘کو بہر حال حاصل نہیں اور نہ ہی یہ بات طے کرنا اس کے رسول کا کام ہے ! اﷲاور اس کے رسول کو مذہب کے شعبے میں تو جائز وناجائز کے تعین کا پورا حق حاصل ہے مگر قانون کے شعبے میں حلا ل وحرام کا تعین ’’حاکم اعلیٰ ‘‘کے رسول کا کام نہیں بلکہ دیباچہ دستور کی رو سے یہ حق اسکی مخلوق کے نمائندوں کو سزوار ہے ۔شق کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
Wherein the state shall exerciase its powers and authority through the chosen reperesentative of the people.
بلکہ آئین کا آرٹیکل 4یہ کہتا ہے کہ جرم اور سزا کا تعین صرف اور صرف ملک میں رائج قانون کرے گا یہ حق اﷲاور اس کے رسول کو نہیں کہ جرم وسزا کا تعین وہ کریں ۔اﷲاور اس کے رسول نے اگر کچھ کہنا ہی ہے تو وہ عوامی نمائندوں سے کہیں ۔صرف وہی اس بات کے مجاز ہیں کہ ’’اگر وہ چاہیں ‘‘تو ’’اﷲاور اس کے رسول کی بات کو قانون کا درجہ دیں ‘‘نہ مانیں تو اور رسول کی بات کی وہی حیثیت ہوگی جو کسی بھی انسان کی کسی بھی قانونی تجویز یا مطالبہ کی ہوسکتی ہے ۔چنانچہ حاکم اعلیٰ والی شق دستور کے دیباچہ میں ہے ضرور مگر اسے لے کر ایوان ہائے عدل میں چلے جانے کی کہیں گنجائش نہیں ۔سب سے پہلے یہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔اگر آپ تجربہ کرنے پر مصر ہوں تو بڑے شوق سے ایسا کر دیکھئے آپ کو یہی جواب ملے گا کہ عدالتوں کو اس سے غرض نہیں کہ قرآن میں کیا آیا ہے یا حدیث میں کیا لکھا ہے قرآن کی دلالت چاہے جتنی بھی قطعی اور واضح ہو اور حدیث کیسی بھی متواتر ہو آپ گھر بیٹھ کر اس کی تلاوت کریں مسجد میں جاکر لوگوں کو سنائیں مگر عدالت میں لاکر نہ اس کا تقدس پامال کریں اورنہ ججوں اور وکیلوں کا وقت برباد کریں کیونکہ آئینی لحاظ سے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

کون نہیں جانتا کہ ملک میں رائج قانون قرآن کی محکم آیات سے نہیں بلکہ انگریزی قانون کی کالی کتابوں سے لیا جاتا ہے؟ایسا بھی نہیں کہ یہ بات آئین پاکستان سے متصادم ہو اور سب کی سب عدالتیں اس حاکم اعلیٰ والی آئینی شق کے خلاف چل رہی ہوں جیسا کہ فریب دیا جاتا ہے کہ دستور تو اسلامی ہے گڑبڑ صرف اس کے نافذ کرنے والے کرتے ہیں ۔اس کے برعکس دستور کی دفعہ (1)268کی عین یہی منشا ہے کہ قانون کتاب اﷲکی بجائے انگریزی دور کے صحیفوں سے لیا جائے گا ۔جتنا بھی فریب دیا جاتا رہے مگر اس بات سے کون لاعلم ہے کہ عدلیہ ‘مقننہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور افراد اسی قانون پر عملدرآمد کا حلف اٹھاتے اور اسی سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں ۔قانون دان آپ کو یہی بتائیں گے کہ دستور پاکستان ‘اﷲکے حاکم اعلیٰ ہونے کایہ مطلب کہیں نہیں لیتا کہ اس کی اتاری ہوئی آیات کو قانون کا درجہ حاصل ہے ۔یہ ویسا ہی ہے کہ اﷲالہ تو ہے مگر اس کو بندگی کرانے کا حق نہیں!چنانچہ دستور میں مذکور یہ حاکمیت اعلیٰ کسی قانونی اطاعت اور آئینی فرمانبرداری کو مستلزم نہیں ۔نہ یہ حاکم اعلیٰ والی شق غیر اﷲکے قانون کو باطل اور غیر اﷲکی بندگی کو حرام نہ سمجھا جائے ۔سو ملکی آئین میں اﷲحاکم اعلیٰ ضرور ہے مگر سیاست اور قانون کے ایوانوں میں امرونہی اور تحلیل وتحریم کا اختیار اسے نہیں بلکہ اس ملک کے قانون ساز خداؤں کوہے ۔رہا حاکم اعلیٰ تو اس کا حکم نہ تو پولیس کے لئے ہے نہ فوج کے لئے ‘نہ عدالتیں اس کے قانون اور اس کے نازل کردہ حلال وحرام پر فیصلے دینے کی دستوراً پابند ہیں نہ شعبہ ہائے زندگی کو چلانے کے والے سرکاری اداروں پر اس کی آیات اور اس کے رسول کے فرمان کے سامنے سمعنا واطعنا کہنے کی کوئی آئینی پابندی ہے اور نہ تعلیمی اور نشریاتی شعبوں میں شرک والحاد کے سبق دینے پر کوئی قد غن ۔اس تمام تر شرک اور بغاوت کی کھلی آئینی چھٹی کے باوجود اﷲتعالیٰ اس آئین کی رو سے ’’حاکم اعلیٰ ‘‘ہے!

اﷲکی حاکمیت کا یہ نسخہ بھی کیا خوب ہے جو سیاست کے ایوانوں کو شریعت محمدی کی غیر مشروط اطاعت اختیار کئے بغیر ہی اسلام کی سند دے دیتا ہے ۔شیطان نے سمجھا دیا ہوگا کہ اگر برطانیہ کا بادشاہ امر ونہی کے ہر قانونی اختیار سے تہی دست ہونے کے باوجود تاج پہننے کا مجاز اور قانوناً واجب اطاعت نہ ہونے کے باوجود تخت شاہی پر متمکن ہے تو پاکستان میں حاکم اعلیٰ کی آسامی پر لفظوں کا کھیل کیوں ممکن نہیں! یہ بات آپ کو ناگوار گزرے توذرا دستور پاکستان کی قانون ساز مخلوقات کے آئینی اختیارات کا ایک نظر جائزہ لیجئے اور پھر فرمائیے برطانیہ میں بادشاہ اورپاکستان میں حاکم اعلیٰ کے اعزازی عہدے میں کیا فرق ہے؟ سبحانہ وتعالیٰ عما یشرکون ۔
بنابریں یہ بات کسی خوش فہمی سے زیادہ نہیں کہ ملکی آئین نے اﷲکو’’ حاکم اعلیٰ‘‘کہہ کر ایک بار زبان سے کلمہ ادا کردیا ہے اور اب معاملہ صرف عملی کوتاہی تک محدود ہے ۔کلمہ کے مطلب سے تو ادنیٰ ترین واقفیت رکھنے والے بھی بتاسکتے ہیں کہ حکم وآئین کے باب میں اﷲکو حاکم اعلیٰ کہہ دینے سے کام نہیں چلتا اس سے پہلے غیر اﷲکی حاکمیت اور قانون سازی ایسے اختیار کی دوٹوک اور صاف صاف نفی ضروری ہے ۔اس کے بعد ہی اﷲتعالیٰ کو حاکم ماننے کی بات معتبر ہوسکتی ہے ۔آج تاریخ کا چہرہ مسخ نہ کردیاگیا ہوتا تو یہ بات محتاج وضاحت نہ تھی کہ پرانی قومیں بھی اﷲکو معبود اعلیٰ کہنے سے انکاری نہ تھیں مسئلہ تو ہمیشہ چھوٹے چھوٹے خداؤں کا رہا جن کا دعویٰ تھا کہ خداوند اعلیٰ نے انہیںکچھ اختیارات سونپ رکھے ہیں ۔خود انبیاء کا جھگڑا ان بیچ کے خداؤں سے تھا سو غیر اﷲکی بندگی اور اطاعت کی نفی پہلے ہو تب کلمہ ادا ہوتا ہے ورنہ حاکم اعلیٰ کا تصور تو کبھی باعث نزاع نہیں رہا ۔
{ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّار، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآء سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ}(یوسف:۶۰)
کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اﷲ جو سب پر غالب ہے ؟اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لئے ہیں ‘اﷲنے ان کیلئے کوئی سند نازل نہیں کی ۔فرماں روائی کا اقتدار اﷲکے سوا کسی کے لئے نہیں ہے۔اس کاحکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو ۔یہی (دین قیم)ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ‘مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

یہ تو رہی غیر اﷲ کے حق تشریع وقانون سازی کے انکار اورنفی کی بات جو کہ کلمہ شہادت کا جزواول ہونے کے ناطے ناگزیر ہے پھر جہاں تک اﷲکی حاکمیت کے اثبات کا تعلق ہے تو وہ اسی صورت میں قابل اعتبار ہے کہ اس کا فرمایا مستند اور اس کاکہا قانون تسلیم ہو۔قانون دانوں سے پوچھئے آپ کا دستور اس دوسری بات سے بھی انکاری ہے۔

اگر اﷲکی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو دستوراً ناقابل ترمیم تعطیل اور ناقابل تنسیخ قانون اور ہر آئین سے بالا تر آئین نہ مانا جائے تو اس کی حاکمیت کا دعویٰ ‘کلمہ گوئی کی شرط تک پوری نہیں کرتا ۔اس کی شریعت کو غیر مشروط اور اٹل قانون مانے بغیر اسے حاکم اعلیٰ کا خطاب دینا ایک لغو بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔اﷲکو رب ماننا مگر اس کے نازل شدہ حکم کو حتمی قانون کا درجہ نہ دینا ‘شعبہ سیاست کا محمدe کی لائی ہوئی ہدایت کا دستوری طور پر پابند نہ ہونا مگر مذہبی طور پر آپ کو رسول کہنا وہ بدترین مذاق ہے جو اس سیکولر ایوان میں پورے دستوری اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کو جج کہیں مگر اسے فیصلہ کرنے کا حق دینے پر تیار نہ ہوں دنیا میں آپ کسی سے یہ مذاق کرنے کے روادار نہیں تو پھر مالک الملک کے سامنے کس برتہ پر یہ جرات کرلی جاتی ہے ؟
{فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (النساء:۶۵)
نہیں اے محمد (ﷺ)تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میںبھی کوئی تنگی (تک)محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
ایک نظر ادھر بھی۔
URDU MAJLIS FORUM - تنہا پوسٹ دیکھیں - اسلام اور جمہوریت۔ بقلم فضیلۃ الشیخ بشیر احمد حسیم رحمۃ اللہ علیہ
اسلام اور جمہوریت میں فرق اپنی جگہ مگر پاکستان میں رہتے ہوئے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسا نمائیندہ منتخب کریں جو یہاں قرآن و سنت کے احکامات کو نافظ کرے جیسا کہ پاکستان کے منشور میں یہ بات درج ہے۔ لیکن اگر ایسا نمائیندہ موجود نہ ہو تو پھر بھی ہمیں اپنا ووٹ ضائع کر کے چوروں لٹیروں کو فری نہیں چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ جیسا چاہیں یہاں فساد برپا کریں اور ہم بس جمہوریت کفر ہے کے فتاوی جات میں رہیں۔ انفرادی طور پر کسی ایسے نمائیندے کو منتخب کروائیں جو باقیوں سے اچھا اور بہتر لگے۔ ووٹ ضائع کرنے کا خمیازہ پھر جن فسادات کی صورت میں ساری عوام کو بھگتنا پڑتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
میرے پیارے بھائی ہم لوگ ٦٥ سالوں میں ووٹ ہی ڈالتے آئے ہیں کیا کوئی ایک بھی اچھا حکمران اس باطل نظام نے دیا ہے؟؟؟
سب چور ڈاکو اور قاتل ہی حکمران بنے ہیں الا ماشاءاللہ،
ایک بات یاد رکھیں آئیندہ ٦٥٠٠ سال بھی یہ نظام ہم کو ایک صالح حکمران نہیں دے سکتا کیونکہ اکثریت ہمیشہ گمراہ ہی رہی ہے اور قرآن میں بھی اللہ کا یہی فتویٰ ہے کہ اکثر فاسق ہیں، اکثر مشرک ہیں، اکثر نافرمان ہیں تو بھائی جو نظام مانتا ہی لوگوں کی اکثریت کی ہے وہاں بھلائی کیسے آئے گی؟؟؟
بلکہ ایک جگہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر آپ لوگوں کی اکثریت کی بات مانیں جو دنیا میں بستے ہیں تو وہ آپ کو گمراہ کردیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کفار نے قرآن سے ہی یہ جانا ہے کہ اکثریت کیونکہ نافرمان اور فاسق لوگوں کی ہے اس لیئے ایسا نظام بناؤ جو اکثریت کو ہی قانون کا درجہ دے کہ اکثریت جیسا چاہے قانون بنائے حلال کا حرام اور حرام کو حلال اس کو اختیار ہو اور یہ باطل نظام ایسا گندہ اور پالید نظام ہے پھر بھی لوگ اس کی غلاظت کو نہیں سمجھ رہے۔
اللہ ہم سب کو حق بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے آمین۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
عزیزم خان صاحب آپ یقین جانےجمہوریت سےجتنی نفرت آپ کرتےہیں شاید اس سے بڑھ کرمیں کرتاہوں گا، بلکہ ہرسچامسلمان کرتاہوگا۔جمہوریت کا آغاز مغرب نے مذہب،پاپئت، بادشاہت او رجاگیردارانہ نظام سے تنگ آکر کیاتھا ۔اس کا آغاز ہی عداوت مذہب پر مبنی ہے جس میں سرفہرست عوامی حاکمیت کا کفریہ اصول ہے وغیروغیرہ لیکن میں گزارش یہ کررہا ہوں اسلامی ممالک میں موجودہ جمہوریت صرف ایک طریقہءانتخاب امیر کے طور پر لی جاتی ہے یعنی ایک ملک کے باشندگان اپنا امیریا ذمہ دار کس طرح منتخب کریں او رمیراخیال ہے یہ بھی ایک مبینہ حقیقت ہے کہ اس مسئلےمیں ہمیں شریعت اسلامیہ نے بھی آزاد چھوڑاہے جیسے آنحضرت ﷺاو رخلفائے راشدین کا طریقہءانتخاب ہماری اس طرف بطریق احسن رہنمائی کررہاہے۔رہی یہ بات کہ لفظ جمہوریت قرآن وحدیث میں کہیں نہی آیاتو اس میں آپ درست فرما رہے ہیں لیکن سلف تو فرمایاکرتے تھے کہ اصطلاحات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو تی بلکہ اصل وہ تصورات ہوتے ہیں جو ان اصطلاحات کےپیچھے ہوتے ہیں۔چناچہ آپ خود ملاحظہ فرمالیں عہدنبوت کے بعدسے ابھی تک کتنے ہی علوم وفنون او رمعاشرتی اصلاحات میں اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔
کیلانی صاحب ماشاءاللہ آپ نے اچھا لکھا ہے مگر آخر میں آکر آپ نے ایسا لکھا جو سمجھ سے باہر رہا ہے کہ ایک ایسا بندہ بھی ہوسکتا ہے جو جمہوریت کو باطل اور کفریہ سمجھے اور پھر اس کو اپنانے کو بھی جائز سمجھے۔
بھائی یہ بات تو ٹھیک ہے کہ خلیفہ کو بنانے کے دو یا تین طریقے ہیں مگر نظام زندگی اسلام کا ایک ہی ہے اور وہ ہے خلافت، جمہوریت نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ :: اسلامی ممالک میں موجودہ جمہوریت صرف ایک طریقہءانتخاب امیر کے طور پر لی جاتی ہے یعنی ایک ملک کے باشندگان اپنا امیریا ذمہ دار کس طرح منتخب کریں:: تو میرے بھائی اسلام میں خلیفہ کے تقرر میں ایک سے زائد طریقے ہیں مگر ہر گلی محلے، شہر کی بیس پر امراء کے تقرر کا ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جیسا کہ جمہوری نظام نے ہم کو دیا ہے بلکہ اسلامی نظام میں کسی علاقے کا امیر مقرر کرنا خلیفہ کی ذمہ داری ہے نہ کہ عوام کی، کسی بھی اسلامی ملک میں آپ مجھے یہ ثابت کرکے نہیں دیکھا سکتے کہ وہاں کے لوگ اپنے ملک کے صدر کو خلیفہ کہتے ہوں بلکہ اور وہاں کے نظام حکومت کو خلافت کہتے ہوں بلکہ اسلامی ملکوں کے غلام حکمران خلافت کا نام بھی نہیں لے سکتے ہیں کیونکہ ان کے آقا امریکہ نے یہ کھولی دہشت گردی کرتے ہوئے بیان دیا ہوا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت کے قیام کی کوشش کو طاقت کے ساتھ کچل دیا جائے گا۔
بھائی ایک تو وہ کافر ہیں جو جمہوریت کے خلاف نظام کو قائم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں اور ایک ہم مسلمان ہیں جو کافروں کے نظام کو قائم کرتے ہیں۔
امریکہ کے صدر کا یہ بیان بھی یاد رکھیں کہ اس نے کہا ہوا ہے کہ ہم پوری دنیا میں نظامِ جمہوریت قائم کرکے رہیں گے اور وہ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں اور ہم مسلمان اپنے نظام کو قائم کرنے میں کیا کچھ کر رہے ہیں؟؟؟
امریکہ نے جن نئے ممالک میں طاقت سے جمہوری نظام قائم کیا افغانستان، عراق، لیبیا، مصر، تیونس، اور جہاں ابھی طاقت دیکھا نہیں سکتا ان کو ان ملکوں کی طرف اشارہ کرکے ڈراتا ہے کہ ویسا حال کردونگا ورنہ جمہوری نظام قائم کرو ان ممالک میں سعودی عرب اور عرب امارات شامل ہیں بلکہ سعودیہ نے تو کچھ سالے پہلے بلدیاتی انتخابات بھی کروا دیئے ہیں۔اتنا دُکھ مجھے کافروں پر نہیں جتنا دُکھ مجھے مسلمانوں پر ہوتا ہے کہ وہ کافر ہو کر اپنے باطل نظام کو قائم کرنے کے لیئے اپنا وقت، جان اور مال لگا رہا ہے اور ہم مسلمان ہو کر اسلامی نظام کو نہیں بلکہ کافروں کے ہی نظام کو قائم اور مضبوط بنا رہے ہیں۔
 
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
میرے پیارے بھائی ہم لوگ ٦٥ سالوں میں ووٹ ہی ڈالتے آئے ہیں کیا کوئی ایک بھی اچھا حکمران اس باطل نظام نے دیا ہے؟؟؟
سب چور ڈاکو اور قاتل ہی حکمران بنے ہیں الا ماشاءاللہ،
ایک بات یاد رکھیں آئیندہ ٦٥٠٠ سال بھی یہ نظام ہم کو ایک صالح حکمران نہیں دے سکتا کیونکہ اکثریت ہمیشہ گمراہ ہی رہی ہے اور قرآن میں بھی اللہ کا یہی فتویٰ ہے کہ اکثر فاسق ہیں، اکثر مشرک ہیں، اکثر نافرمان ہیں تو بھائی جو نظام مانتا ہی لوگوں کی اکثریت کی ہے وہاں بھلائی کیسے آئے گی؟؟؟
بلکہ ایک جگہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر آپ لوگوں کی اکثریت کی بات مانیں جو دنیا میں بستے ہیں تو وہ آپ کو گمراہ کردیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کفار نے قرآن سے ہی یہ جانا ہے کہ اکثریت کیونکہ نافرمان اور فاسق لوگوں کی ہے اس لیئے ایسا نظام بناؤ جو اکثریت کو ہی قانون کا درجہ دے کہ اکثریت جیسا چاہے قانون بنائے حلال کا حرام اور حرام کو حلال اس کو اختیار ہو اور یہ باطل نظام ایسا گندہ اور پالید نظام ہے پھر بھی لوگ اس کی غلاظت کو نہیں سمجھ رہے۔
اللہ ہم سب کو حق بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے آمین۔
محترم بھائ! یہ الا ماشاء اللہ کو ووٹ دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؟
یقیننا آپ کی طرح بہت سے بھائ میری بات سے اختلاف رکھتے ہوں گے۔ لیکن یہ رائے میری ذاتی نہیں وہ علمائے کرام جو برملا جمہوریت کو کفر کہتے تھے جن میں محترم شیخ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ، شیخ بشیر احمد حسیم رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے تھے کہ بڑے شیطان سے بچنے اور اسکے فسق و فجور کو روکنے کے لیے اس کے مد مقابل کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہاں انکی تقلید نہیں لیکن ضمنا عرض کیا ہے۔
رہی بات نظام خلافت کی تو بحیثیت پاکستانی کیا آپ نے نظام خلافت کو نافظ کرنے کے لیے کوئ عملی قدم اٹھایا؟ کیا آپ کے پاس اس ملک میں نظام خلافت نافظ کرنے کے لیے کوئ ایجنڈا ہے؟ اگر ہے تو بتائے، نکلیے میں انشاء اللہ آپکے قدم کے ساتھ قدم ملاؤں گا۔
لو جی اب آپ کے لیے کام اور آسان ہو گیا
Jang Multimedia
اب آپ خالی خانہ پر مہر لگا کر اپنے احتجاج کو نمایاں کر سکتے ہیں۔
اور ہاں، محترم عاصم بھائ! کیا آپ مندرجہ ذیل باتوں کا ثبوت (لنک) فراہم کر سکتے ہیں؟ جو آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھی ہیں۔
امریکہ نے یہ کھولی دہشت گردی کرتے ہوئے بیان دیا ہوا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت کے قیام کی کوشش کو طاقت کے ساتھ کچل دیا جائے گا۔
امریکہ کے صدر کا یہ بیان بھی یاد رکھیں کہ اس نے کہا ہوا ہے کہ ہم پوری دنیا میں نظامِ جمہوریت قائم کرکے رہیں گے
سعودیہ نے تو کچھ سالے پہلے بلدیاتی انتخابات بھی کروا دیئے ہیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
رہی بات نظام خلافت کی تو بحیثیت پاکستانی کیا آپ نے نظام خلافت کو نافظ کرنے کے لیے کوئ عملی قدم اٹھایا؟ کیا آپ کے پاس اس ملک میں نظام خلافت نافظ کرنے کے لیے کوئ ایجنڈا ہے؟ اگر ہے تو بتائے، نکلیے میں انشاء اللہ آپکے قدم کے ساتھ قدم ملاؤں گا۔
یہ ہی بات میں پچھلے کئی دنوں سے اپنی بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کے ہمیں منزل نہیں رہنماء چاہئے۔۔۔
جب ہم کو رہنماء مل جائے گا تو ان شاء اللہ منزل بھی مل جائے گی۔۔۔
خلافت کا مرکز سرزمین عرب ہے۔۔۔
وہیں اُس نے قائم ہونا ہے۔۔۔ وہیں سے اس نے پوری دنیا میں نافذ ہونا ہے۔۔۔
دیکھیں آپ خلافت کو نافذ کرتے ہیں اور جنگ جمل اور جنگ صفین کے حالات پیدا ہوتے رہیں گے۔۔۔
نقصان کس کا ہوگا۔۔۔ دو دھماکے طالبان نے کرنے ہیں تو چار۔۔۔ کالی بھیڑوں نے۔۔۔ یار بھائی سمجھیں۔۔۔
ہم ویسے ہی تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔۔۔
شریف گھرانے کی لڑکیاں پالروں میں، گیسٹ ہاوسسز میں جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔۔۔
مساج سینٹز کس کے ہیں اور وہ گیسٹ ہاؤسسز کے مالکان کون ہیں تھوڑی تحقیق کرلیں۔۔۔
میں یہ ہی کہوں گا کہ بھائی ووٹ بھی ایک ذریعہ ہے برائی سے بچنے کا نہ سہی لیکن مکمل برائی سے بچا تو سکتا ہے۔۔۔
نوکریاں ہیں نہیں کاروبار ہے نہیں۔۔۔
عرب ممالک کی صورتحال آپ کے سامنے ہیں صرف اسی سال سعودی عرب سے بیس لاکھ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنا ہے۔۔۔
اور دو ماہ میں دو لاکھ نکالے جاچکے ہیں۔۔۔ بھائی سب اپنا سوچ رہے ہیں۔۔۔ ہم کو بھی پورا حق ہیں کے ہم بھی اب پاکستان کو سوچیں۔۔۔
ہم کو اب سدھرنا ہوگا۔۔۔ ہمارا حال بھی تھائی لینڈ جیسا ہی ہوگا۔۔۔ ہر گھر۔۔۔۔۔۔ الامان والحفیط والی کہانی۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
یہ ہی بات میں پچھلے کئی دنوں سے اپنی بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کے ہمیں منزل نہیں رہنماء چاہئے۔۔۔
ایسا نہ ہو کہ الطاف حسین آپ کو لندن میں اپنا مشیر خاص بنالیں۔ابتسامہ
 
Top