• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوری سیاست میں شرکت کا حکم اور کیفیات

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جیسا کہ محدث فورم پر مختلف ساتھیوں نے اس موضوع پر بحث کی ہے لیکن یہ بحث اس موضوع کو مزید آسان بنا رہی ہے اور
کیونکہ جب تک ہم اصل سوالات کا جواب تلاش نہیں کریں اس وقت تک جمہوریت ہمیں پریشان کرتی رہے گی اور پاٹتی رہے گی تقسیم در تقسیم کا عمل جاری و ساری
ہماری محبت اور نفرت کا معیار اللہ تعالی نہیں بلکہ سیاسی وابستگی مزید تقویت حاصل کر لے گی اور
صرف سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تکفیر بھی شروع ہو جائے گی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انتخابات میں شرکت فرمانے والے ہمارے بھائیوں کاکہنا ہے کہ ان کی اس انتخابی جدوجہد کی اصل غرض وغایت یہ ہے کہ ملک میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آجائے ۔ چونکہ رائج نظام کو بدلنے کے لئے بیلٹ بکس کا راستہ اپنانا ہی آج کل آسان اور موثر ترین جانا جاتا ہے اور پر امن راستوں میں یہی اس وقت معروف ترین ہے اس لیے اسلامی نظام کوملک میں قائم کرنے کے لئے اسی راستے کو مناسب ترین سمجھا گیا ہے۔

مگر اس سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے جن اصولوں کواس انتخابی جد وجہد کے ذریعے قائم کرنا چاہتے ہیں ہمارے وہ اصول آیا انتخابی سیاست کے قواعد و ضوابط سے متعارض تو نہیں؟ انتخابی سیاست کے تقاضوں اور ہمارے ان اصولوں کے درمیان کو ئی تعارض پایا جاتا ہے تو پھر انتخابی سیاست کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے لازماً ہمیں اپنے اصولوں کو توڑنا یا نظرانداز کرنا پڑے گا۔
ہمارے اصول ظاہر ہے ہمارے دین اور ہمارے عقیدے پرمشتمل ہیں۔ انتخابی سیاست کے قاعدے اور ضابطے مغر ب سے لیے گئے ہیں۔ انتخابی قوانین یورپ سے درآمد شدہ لادین نظام کا حصہ ہیں۔ اگر آپکا منشور حق ہے تو خواہ آپ کو اکثریت کے ووٹ پڑیں یا نہ ، شریعت کی رو سے آپ ہی کی بات چلے گی۔ مگر انتخابی ضابطے کیا کہتے ہیں؟ ظاہر ہے یہی کہ آپ کامنشور حق ہے یا باطل، اس سے بالکل قطع نظر دیکھا یہ جائے گا کہ آپ کے منشور کو ووٹ کتنے ملے۔ آپ کا منشور اگر رائے دہندگان کی اکثریت کی تائید نہیں لے پاتا تو وہ مسترد ہوگا اور کسی دوسری پارٹی کا منشور چاہے اسلام سے کتنا بھی بیگانہ ہو، مگر اکثریت کی حمایت حاصل کر لے تو ملک میں جاری و ساری ہونے کا حق اسی منشور کو ہوگا۔ غرض جیت ہار کے وہی قانون لاگو ہونگے جو مغرب نے دنیا کو دیئے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ جیت ہار کے یہ قانون ، جو مغرب سے آئے ہیں اور جمہوریت کے میدان میں اٹل مانے جاتے ہیں، یہ ہمارے دین سے براہ راست متصادم ہیں۔ ہمارے اصول یہ کہتے ہیں کہ کس جماعت کا منشور ملک میں لاگو ہونا چاہیے اور کس کا مسترد، اس بات کا فیصلہ لوگوں کے ووٹ یا ایوان میں نشستوں کی تعداد نہیں کرے گی بلکہ اس بات کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کرے گی۔ اور اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت سے فیصلہ لینے والے بھی عوام یا نمائندگان عوام نہیں بلکہ وہ اہل علم ہیں جو اللہ اور رسول کی منشاجاننے کی علمی استعداد رکھتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامی اصولوں کی حکمرانی بلا شبہ ہمارا نصب العین ہے ۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہمارے یہ اصول انتخابات کے ان ضابطوں اور جیت ہارکے ان قوانین ہی سے متصادم ہیں جن کی راہ سے ہم اپنے ان اصولوں کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جان لینے کے بعد بھی اگر ہم انتخابات کے ان قاعدوں ضابطوں کو قبول کرتے ہوئے انتخابی عمل میں شرکت ہیں تو اپنے اصولوں کو آپ ہی تو ڑتے ہیں اور اگر اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں تو اور ان پر کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہیں تو اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ظاہر ہے کسی کھیل میں آپ اسی وقت حصہ لے سکتے ہیں جب آپ میں اور کھیل کے باقی سب کھلاڑیوں میں کھیل کے کچھ اصولوں پر پیشگی اتفاق ہو۔ اب یہاں آپ کو جو دقت درپیش ہے وہ یہ کہ دوسروں کے تو کوئی خاص اصول نہیں اس لیے وہ ہرکھیل میں حصہ لے سکتے ہیں مگر آپ کے پہلے سے کچھ اپنے اصول ہیں ،جو آپ اپنے دین سے لیتے ہیں۔ یہ اصول اس کھیل کے اصولوں سے صاف صاف متصادم ہیں جو آپ کھیلنے جار ہے ہیں۔ آپ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں تو کھیل میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ سب کھلاڑی ان پراتفاق نہیں کرتے اور اگر آپ کھیل کے ان اصولوں اور ضابطوں کو تسلیم کرلیتے ہیں جن کے مطابق سب کھلاڑی کھیلنے پر متفق ہیں اور جو کہ کھیل کے ’منتظمین ‘جاری کرتے ہیں ، تو آپ کے اپنے اصول جاتے ہیں۔ اب اگر آپ اس کے باوجود’ منتظمین‘ کی شروط پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ کھلے دل سے تسلیم کرلیا جائے کہ آپ اپنے اصولوں سے کلی یا جزوی طور پر دستبردار ہوچکے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہوسکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ انتخابی سیاست کے یہ سب قواعدو ضوابط اورجیت ہار کے یہ مغربی پیمانے آپ بظاہر قبول کرتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے۔ ہم بھی آپ سے یہی حسن ظن رکھیں گے کہ آپ ان کو دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ مگر سیاست کے ان باطل ضابطوں اور ہار جیت کے ان جاہلی پیمانوں کو اگر آپ بظاہر بھی قبول کرلیتے ہیں ، جبکہ ان کاآپ کے شرعی اصولوں سے تصادم ایک واقعہ ہے، تو اس کا یہ مطلب تو بہرحال لیا جائے گا کہ ایسا کرکے آپ اپنے اصولوں کو چلیں دل سے نہیں تو بظاہر توڑ چکے ہیں!
اگر ہمارا مقصد اسلام کا بول بالا کرنا ہے اور اپنے اصولوں کی حکمرانی قائم کرنا ہے تو اس بات کی ابتدا انتخابی قوانین اور جیت ہار کے ان پیمانوں کو مسترد کرینے سے ہی کیوں نہیں کرد ی جاتی؟ شریعت کا نفاذ پہلے اسی مسئلے میں کیوں نہیں کر لیا جاتا؟ اصولوں کی جنگ میں اگر ہم اسی پہلے مرحلے میں شکست کھا جاتے ہیں تو باقی مرحلوں میں کیا کیا مفاہمت نہ کریں گے! اصولوں کی حکمرانی کا قیام کیا اصولوں کی قربانی کے راستے عمل میں آئے گا؟ جس چیز کو آپ قائم کرنے جارہے ہیں اس پر تو آپ نے پہلے قدم پر مفاہمت کرلی!
حقیقت یہ ہے کہ ’اصول‘ اور ’نعرے‘ میں بڑا فرق ہے۔ ایک ہی چیز اور ایک ہی عبارت کسی کے لئے ’اصول‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی کے لئے نعرے کی۔ اصول اس لیے ہوتے ہیں کہ ان پر شروع سے لے کر آخر تک چلا جائے اور اگر وہ ٹوٹ جائیں مگر زبان پر بدستور رہیں تو وہ اصول نہیں رہتے بلکہ صرف نعرے کہلاتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصولوں کی قربانی ایک سیڑھی کی طرح ہے ۔ آپ اصولوں کاایک زینہ اترتے ہیں تو نیچے کئی اور زینے آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ بطور مثال بعض دینی جماعتیں جو کل یہ منشور لے کر میدان میں اتری تھیں کہ انتخاب کے راستے سے وہ دولت اسلامیہ کاقیام عمل میں لائیں گی اور یہ نعرہ بڑی دیر تک عوام کے دلوں کو گرماتا رہا، ان میں سے کئی جماعتیں پیچھے ہٹتے ہٹتے اب یہاں آپہنچی ہیں کہ انتخابات میں شرکت کے ذریعے اسلامی حکومت قائم نہیں ہوتی تو چلیں نظام کی جو درستی ہوسکتی ہے اتنی تو کر لی جائے۔ دلیل کے طو ر پر یہ آیت بھی پیش کی جاتی ہے ان ارید ا لا الا صلاح مااستطعت ۔ مگر شعیب علیہ السلام نے مقدروبھر ا صلاح کی یہ بات ظاہر ہے کسی ایسے راستے کی بابت نہیں کی تھی جو ان سے اصولوں کی قربانی کا تقاضا کرتا ہو۔
اصولوں سے دستبرداری کا معاملہ رفتہ رفتہ کچھ دین دار طبقوں کو تو بہت ہی پیچھے لے جا چکا ہے اور اب وہ تقریباً ان سب جاہلی اصطلاحات اور ان سب باطل اصولوں ا ور ضابطوں کا یوں بے دریغ حوالہ دیتے اور صبح شام مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سے نہ صرف ان کی ادنی نا پسندیدگی تک کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس سے انکے ’جمہوری شریعت‘ اور ’پارلیمانی سپرٹ‘ پر ایمان کی غمازی ہوتی ہے۔ ملکی قانون کی اس وفادارانہ انداز سے پاسداری ہوتی ہے جتنی اللہ کی شریعت کی بھی شاید نہ ہوتی ہو۔ ایک صاحب اپنی سیاسی جدو جہد کے بیان میں لکھتے ہیں کہ انہیں سگریٹ کی شدید عادت تھی مگر جیل کے اندر کئی ماہ ،سگریٹ دستیاب ہونے کے باوجود، انہوں نے سگریٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ جس کی وجہ شاید جیل کے ضابطوں کا پاس تھا۔ کئی ماہ صبر کرنے کے بعد پہلا سگریٹ ان کے بقول انہوں نے اس وقت لگایا جب وہ قید سے نکل کر سپر نٹنڈنٹ کے کمرے میں پہنچ چکے تھے!
شریعت کے اصولوں سے پیچھے ہٹتے چلے جانا اور وہ بھی لوگوں کی ’اہوا و خواہشات‘ اور جاہلیت کے تقاضوں پر، اللہ کی نصرت کھو دینے اور اللہ کی دوستی سے محروم ہوجانے کا سبب بنتا ہے اور پھر سب تدبیریں الٹی پڑنے لگتی ہیں،

وَإِن كَادُواْ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذًا لاَّتَّخَذُوكَ خَلِيلاً وَلَوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلاً إِذاً لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ( الاسراء٧٣۔٧٥)
”اے نبی! ان لوگو ں نے اس کوشش میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی کہ کسی نہ کسی طرح تمہیں فتنے میں الجھا کر اس راستے سے پھیر دیں جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی کی ہے تاکہ تم ہمارے نا م پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ لاؤ۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست اور منظور نظر بنا لیتے۔ اور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے۔ لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دنیا میں بھی دوہر ے عذاب کا مزہ چکھاتے اور آخرت میں بھی۔ پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مدد گار نہ پاتے“
چنانچہ آیت پر غور کیجئے کفار بھی یہاں نبی سے اپنا دین بالکلیہ چھوڑ دینے کا مطالبہ نہیں کرتے۔ کیونکہ جانتے ہیں ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ چنانچہ وہ آپ کے لئے کام کوذرا ’آسان ‘ کردینا چاہتے ہیں۔ صرف اتناچاہتے ہیں کہ آپ اپنے بعض اصولوں سے تھوڑا سا دستبردار ہوجائیں! (لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ) مگر اللہ کویہ بھی اپنے نبی کے لئے کیسے منظور ہوسکتا ہے۔
اس آیت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ کام کرکے یعنی اپنے دین کے بعض اصولوں سے ذرا پیچھے ہٹ کر اور اصولوں پر اپنی ضد ذرا نرم کرکے غیر اسلامی قوتوں کا منظور نظر ہوا جاسکتا ہے(وَإِذًا لاَّتَّخَذُوكَ خَلِيلاً )۔ انسان سمجھتا ہے کہ یہ کام کرکے وہ ان سب غیر اسلامی قوتوں کو اپنی صف میں لا کھڑا کرنے کی پوزیشن میں ہوسکتا ہے ۔ تحریکی زندگی میں یہ عین وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں شیطان کے حربہ تزئین سے بچنے کے لئے ثابت قدمی کی دعا ضروری ہوجاتی ہے۔ ( وَلَوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاكَ) ورنہ اگر جاہلی قوتوں کی جانب تھوڑا سا بھی میلان ہونے لگے (لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلاً ) تو اللہ کی نصرت کا دامن چھوٹ جانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد آدمی کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے(إِذاً لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًاً)

بسا اوقات انسان کسی چیز میں شریعت کو نظر انداز کردینے کو ’مصلحت‘ کا تقاضا سمجھتا ہے مگر دراصل وہ شیطان کا ایک حربہ ہوتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارلیمان کے راستے سے شریعت کا نفا ذچا ہنے والے مذہبی طبقوں کے لئے اس سوال کا جواب دینا اب روز بروز مشکل تر ہو رہا ہے کہ اس راہ سے شریعت کا نفاذ اب تک کیونکر نہ ہوسکا؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام ایک ہی دم نہیں بتدریج آئے گا اور اس کے لیے فی الحال جو پیش رفت ہوچکی وہ بھی کچھ ایسی بری نہیں۔

اسلام بتدریج ہی آئے ، یہاں اس پر ہمیں اعتراض نہیں ۔ مگر اسلام کے لئے اس راہ میں کچھ پیشرفت ہورہی ہے اور اسلام کا آپ اسی راہ سے انتظار فرمایئے ، اس پر ہمیں ضرور اعتراض ہے۔

جو چیزیں پارلیمنٹ سے’اسلام‘ کے لیے پاس ہوئی ہیں ان کا ذرا جائزہ لے لیجئے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان سب کا فائدہ اسلام سے زیادہ آپ کے پارلیمنٹ ہی کو ہوا۔ چند الفاظ لکھ دینے سے پارلیمنٹ کا چہرہ اسلامی ہوگیا۔ بلکہ یہ الفاظ کیا تھے کوئی اسفنج تھا جو دینداروں کا اس سوغات افرنگی کے خلاف پایا جانے والا سبھی غم و غصہ فوری طور پر جذب کرگیا۔ اس کے خلاف پائے جانے والے جذبات نہ صرف ٹھنڈے پڑ ے بلکہ اس کے حق میں ہوگئے۔ اس کے خلاف لکھنے والے بہت سے اچھے اچھے اور نیک لوگ اب اس تجربے کے حق میں لکھنے لگے۔ یہاں تک کہ مغرب کی اس برآمد کواسلامی ثابت کرنے پراب یہاں کے بے دینوں کو جان کھپانے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ بلکہ یہ کام ہمارے ان دیندار طبقوں نے آپ ہی اپنے سر لے لیا جو اس سے پہلے اس نظام کے اصولاً مخالف تھے۔ یوں پارلیمنٹ کے چہرے کو اسلامی ہوجانے کا تاثر دینے میں ہمارے ہی دینداربھائیوں کی محنت نے کام دیا۔ کاغذ پر کچھ سیاہی اور زبان پر کچھ الفاظ کا اضافہ ، اتنے سے کام نے کبھی اتنا اثر نہیں دکھایا جتنا پارلیمنٹ کے ان ’اسلامی‘ اقدامات نے دکھایا۔ غرض دستور کی اسلامی دفعات نے عملاً اسلام کو کیا فائدہ دیا؟ اس سوال کا کوئی مثبت جواب دینا آسان نہیں۔ مگر اس سے دشمنوں کو دوست کیسے بنالیا گیا اور اس فرسودہ نظام سے قوم کی اسلامی امیدیں نصف صدی تک کیسے جوان رکھی گئیں؟ یہ سوال بہرحال پوچھنے سے تعلق رکھتا ہے!

کیوں نہ ہم اپنے بھائیوں سے یہ دریافت کر لیں کہ اس تدریج کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اس طریقے سے اسلام کبھی نہ کبھی ضرور آئے گا، معاملے کو اتنا کھلا چھوڑ دینا آخر کہاں تک درست ہے؟ ایک غیر معینہ مدت تک ہمیں اس راہ پر چلتے جانا ہوگا اور نتائج سے غرض تک نہ رکھنی ہوگی، آخر معاملے کی کوئی حد بھی تو ہونی چاہیے!

یہ بات واضح ہے کہ کسی چیز کو نافذکرنے کے لئے محض کچھ نشستیں پارلیمنٹ کے اند ر کافی نہیں۔ اس کے لیے اکثریت چاہیے۔ یہ اکثریت ایک ایسی مشکل دلیل ہے جو اکثر کا منہ بند کردیتی ہے ۔ بھائی اکثریت ہوگی تو اسلام نافذ ہوگا۔ اکثریت نہیں تواتنے سے ارکان آخر کیا کریں! مگر یہ اکثریت کیسے آئے گی؟ خدا جانے کیسے آئے گی بس اس کے لیے کوشش کرتے چلے جائیے! مگر کہاں تک توقع ہے کہ یہ ہدف پورا ہوجائے؟ اس کے بظاہر امکانات؟ ہمارا خیال ہے صورتحال سب کے سامنے ہے اور حقیقت پسندی کی کڑواہٹ سہے بغیر چارہ نہیں۔

اپنی اکثریت نہ ہو اور ظاہر ہے ایک عرصہ دراز تک اس کاامکان بھی نہیں تو اسلام نافذ کرنے کے لئے کچھ دوسری یعنی لا دین جماعتوں سے اشتراک کیا جاسکتا ہے! یہ جواب بہت اچھا ہے مگر کیا یہ کوششیں بھی کافی بار ہو نہیں چکیں؟ پھر اس سے کیا برآمد ہوا؟ آپ ان لادین جماعتوں کو جتنا مرضی تعاون دے لیں مگر اس کے بدلے میں آپ ان سے یہ تعاون لے لیں گے کہ وہ اپنا سارا نظام تبدیل کرنے پر تیار ہوجائیں اور نتیجتاً اپنے اور اپنے لادین حصہ داروں کے سب مفادات سے دستکش ہوجائیں!؟ تو یہ توقع کتنی حقیقت پسندانہ ہے اور کہاں تک اس کے پورا ہونے کی کبھی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے؟ کیاایسا تو نہیں کہ راستہ بند ہے؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مصلحت کا لفظ شرعی اصطلاح میں ایک خاص معنی رکھتا ہے جبکہ عام زبان میں، خصوصاً اردو میں اس لفظ سے جو مراد لی جاتی ہے وہ اس سے ذرا مختلف ہے ۔ چنانچہ ایک شرعی بحث کرتے وقت زبان کا یہ استعمال ایک بڑی الجھن کاباعث بن جاتا ہے ۔

اردو زبان میں جب کسی چیز کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ’مصلحت‘ کا تقاضا ہے تو عام طور پر اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اصولاً ہونا تو کچھ اور چاہیے تھا مگر کسی ممکنہ نقصان سے بچنے یا کسی ممکنہ فائدے کے پیش نظر اب کچھ اور ہونا چاہیے۔ چنانچہ اردو استعمال میں عام طور پر’مصلحت‘ سے مراد ہوتی ہے کسی وجہ سے ایک ’اصولی روش ‘ کے خلاف چلنے کی ضرورت محسوس کرنا۔

لفظ ’مصلحت‘ کے اس اردو استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے جب آپ سے کوئی یہ کہے کہ اصول فقہ میں ’مصلحت‘ ایک باقاعدہ دلیل ہے اور فقہائے کرام مصلحت کی بنا پر بعض شرعی احکام کا تعین کرتے رہے ہیں تو لا محالہ آپ کے ذہن میں یہی آئے گا کہ لفظ ’مصلحت‘ سے جو مراد آپ اردو میں لیتے ہیں فقہائے کرام شاید اسی کو شریعت میں ’دلیل‘ کا درجہ دیتے ہیں۔ اس الجھن کے باعث اصول فقہ کے ایک خاصے اہم مسئلے کی غلط تشریح ہونے لگی اور سمجھا یہ جانے لگا کہ جس چیز کو ہم اردو میں مصلحت سمجھتے ہیں فقہاءبھی فقہ میں اسی سے دلیل لیتے رہے ہونگے!

اصول فقہ یعنی فقہائے اسلام کے ہاں ’مصلحت‘ سے کیا مراد لی جاتی ہے ؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مختصر وضاحت ہوجائے تاکہ ایک عام دیندار کے ذہن سے اس الجھن کو دورکیا جاسکے۔

’مصلحت‘ کا لفظ عربی میں’ مفسدت‘ یا ’فساد‘ کی ضد ہے چنانچہ مصلحت اس عمل کو کہا جائے گا جس سے کسی معاملے میں اصلاح ہوتی ہو اور فساد یا خرابی سے بچاؤ ہوتا ہو۔

چونکہ شریعت خود سب کی سب بندوں کے مصالح پر مشتمل ہے اس لحاظ سے مصلحت عین وہی چیز ہے جو شریعت او ر دین کے اصولوں کا تقاضا ہو نہ کہ وہ چیز جو آپ سے شریعت کے کسی اصول کو نظر انداز کرنے کا تقاضا کرے۔ رہی وہ چیز جو آپ سے کسی شرعی اصول کو کسی وجہ سے کچھ دیر کے لئے نظر انداز کردینے کا تقاضا کرے اس کا درست فقہی نام ’مصلحت‘ نہیں ’مفسدت‘ یا ’فساد ‘ ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام صرف ا س بات پر نہیں جاتے کہ کس بات کا بظاہر کیا فائدہ ہے تا کہ اسے مصلحت قرار دیا جائے اورکس بات کا بظاہر کیا نقصان ہے تاکہ اسے مفسدت قراردیا جائے کیونکہ شرعی احکام کاتعین کرتے وقت فائدہ اور نقصان کاتعین محض ہماری اپنی سمجھ پر نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ شرعی طور پر ’فائدہ‘ صرف وہی معتبر ہوگا جسے شریعت تسلیم کرے۔ اسی طرح ضروری نہیں ہروہ چیز جو بظاہر ہمیں’ نقصان ‘نظر آئے یا ہم سمجھیں کہ اس میں کوئی ’خرابی‘ ہے شریعت بھی اس کو ’نقصان‘ یا ‘خرابی‘ ہی سمجھتی ہو۔ اس کے برعکس صرف وہی خرابی شرعاً ’مفسدت‘ سمجھی جائے گی جسے شریعت خرابی مانتی ہو۔

چنانچہ بطو رمسلمان ’مصلحت‘ اور ’مفسدت‘ کا تعین ہم نہیں ہمارے دین کی نصوص کر یں گی۔ ہوسکتا ہے ہم ایک چیز کو مصلحت سمجھیں مگر شریعت اسے مصلحت ماننے پر تیار نہ ہو۔ اسی طرح ہم ایک چیز میں مفسدت سمجھیں مگر شریعت یہ کہے کہ یہ مصلحت ہے۔

غرض عام گفتگو میں ’مصلحت‘ سے جو مراد لی جاتی ہے ایک شرعی بحث کرتے وقت ‘مصلحت‘ سے وہ مراد نہیں لی جائیگی بلکہ شرعی اور فقہی امور میں مصلحت وہی ہوگی جس کا ثبوت شریعت سے ملے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ شریعت سے کسی ’مصلحت‘ کا ثبوت کیسے کیسے دیا جائیگا؟
اس کے جواب میں علماءاصول فقہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ثبوت کے لحاظ سے مصلحت کی تین قسمیں ہیں:
١۔ وہ چیز جس کا مصلحت ہونا شریعت (یعنی قرآن اور حدیث) کی کسی نص سے ثابت ہو۔ اس کومصلحت معتبرہ کہا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے شریعت کے سب احکام جن کاشرعی نصوص میں صاف صاف ذکر ہوا ہے، وہ سب ’مصلحت‘ ہیں اگرچہ ہمیں ان میں کتنا ہی نقصان نظر آئے۔
٢۔ وہ چیز جس کاکسی شرعی نص یاشرعی اصول سے مصلحت نہ ہونا ثابت ہو اس کو فقہاءکی اصطلاح میں مصلحت ملغات کہا جاتا ہے یعنی وہ چیز جو بظاہر فائدہ مند نظر آئے مگر شریعت اس کو’مصلحت‘ ماننے سے صاف صاف انکار کردے۔ مثلاً شراب اور جوئے کے بارے میں قرآن نے صاف صاف تسلیم کیاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے کچھ فوائد رکھے گئے ہیں مگرقرآن کہتا ہے کہ ان فوائد پر اس کا گناہ بھاری ہے ۔لہذا اب یہ فوائد کالعدم سمجھے جائیں گے اور اس کو مفسدت قرار دیا جائیگا۔ بنیادی طور پر وہ سب کام جو شریعت میں حرام قرار دے دیئے گئے ، اگر کبھی مصلحت کا تقاضا نظر آئیں تو وہ ’مصلحت ملغات‘ شمار ہونگے۔
چنانچہ جب کسی چیز کے فوائد کو شریعت نے نظر انداز کرنے کاحکم دے دیا تو چاہے اب ہمیں وہ مصلحت نظر آئے مگر شرعاً وہ مفسدت ہوگی۔ مختصراً ایسی مصلحت کو، جسے شریعت مصلحت تسلیم نہ کرتی ہو، فقہاءکی زبان میں مصلحۃ ملغات کہا جاتا ہے۔
٣۔ وہ چیز جس کا شریعت نے بطور ’مصلحت‘ نہ تو واضح طور پر اعتبار کیا ہو اور نہ ہی انکار۔ یعنی شریعت اس بارے میں خاموش ہو۔ اس کو فقہاءکی اصطلاح میں ’مصلحت مرسلہ‘ کہاجاتا ہے۔
جہاں تک پہلی دو قسموں کا تعلق ہے تو وہ مصلحت کے عنوان کے تحت زیر بحث نہیں آتیں۔ کیونکہ جس چیز کا بطور مصلحت شرعی نصوص سے ثبوت مل رہا ہو اس کی دلیل مصلحت نہ ہوگی بلکہ شریعت کی وہ نص ہوگی جس سے وہ ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ مصلحت کی پہلی قسم کی دلیل شریعت کی نص ہوگی، نہ کہ مصلحت۔
جہاں تک دوسری قسم کاتعلق ہے تو چونکہ اسے شریعت مصلحت ماننے کے لئے ہی تیار نہیں بلکہ اس کوکرنا شریعت کی نافرمانی گنی جائے گی اس لیے یہ (مصلحت ملغات) سرے سے کسی مسلمان کے لئے قابل اعتناء نہ ہوگی۔
رہی مصلحت کی تیسری قسم (مصلحت مرسلہ) یعنی جس کے بارے میں شریعت خاموش ہے، نہ اس کا واضح حکم دیتی ہے اور نہ اس سے روکتی ہے تو ’مصلحت‘ سے فقہاءکی عموماً یہی مراد ہوتی ہے۔ چنانچہ جس چیز سے شریعت نے خاموشی اختیار کی ہو، اس میں اگر آپ کچھ بھلائی محسوس کرتے ہیں تو اسے ’مصلحت‘ سمجھا جائے گا اور اسے اختیار کرنا بعض حالات میں جائز ، بعض حالات میں مستحب اور بعض حالات میں واجب قرار پائے گا۔ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ وہ چیز جائز ہے یا مستحب یا واجب؟ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس چیز میں پائے جانے والے فائدے کی نوعیت کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ شریعت کے عمومی اصول اس فائدے کے حصول کا کس حد تک تقاضا کرتے ہیں۔
چنانچہ فقہاءنے مصالح مرسلہ کی مثال میں فقہ اور عربی زبان کی کتب کی تالیف ، رجال کی تصنیف ، مصحف عثمانی کے علاوہ دوسرے قرآنی نسخوں کو جلانے وغیرہ ایسے امور بیان کئے گئے ہیں جن کا نہ تو شریعت کی نصوص میں کوئی واضح حکم ملتا ہے اور نہ ممانعت۔ مگر چونکہ اسلام کے لئے فائدہ مند ہیں اس لیے اختیار کئے گئے۔ یہ’ مصالح مرسلہ‘ ہیں۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ شریعت آئی ہی انسانوں کے مصالح کو بروئے کار لانے کے لئے ہے۔
مگر ظاہر ہے شریعت میں مصلحت کہا ہی اسی چیز کو جائے گا جس کا باطل ہونا شریعت کے نصوص یا اصول سے ثابت نہ ہو۔ البتہ جب کسی چیز کاباطل ہونا کسی شرعی نص یا شرعی اصول سے ثابت ہو گیا تو اب اس چیز کو اس کی حرمت کے باوجود اختیار کرنا اردو استعمال کے لحاظ سے ’مصلحت‘ ہو تو ہو شرعاً ’مصلحت‘ نہ ہوگا۔ بلکہ شرعی اور فقہی زبان میں اس کا کوئی نام ہے تو وہ ہے مفسدت یا پھر مصلحت ملغات (وہ مصلحت جسے شریعت نظر انداز کرنے کا حکم دیتی ہے)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اب آیئے اس مسئلے پر جس کی وضاحت کے لئے یہ ساری اصولی بحث ہوئی ہے ۔ پارلیمان میں شرکت کی بابت شرعی اصول کیا کہتے ہیں؟جیت اور ہار کایہ اصول تسلیم کرنا کہ اکثریت جس پارٹی کے منشور کی تائید کردے اسے حکمرانی کا حق ہوگا! شریعت کی کسی نص کو قانون کا درجہ پانے کے لئے اکثریت کی موافقت سے مشروط ماننا ، قانون سازی کا حق انسانوں کے لئے تسلیم کرنا، بہت سے پارلیمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے لادینوں سے قربت بڑھانا اور بسا اوقات پارلیمانی اتحادوں میں لادینوں کو آگے کرنا بلکہ وزارت عظمی اور صدارت تک پر فائز کردینا کیا شرعی اصولوں کی روشنی میں یہ سب کچھ باطل نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ایک نظام باطل ہے تو اس میں شرکت کیا اس نظام کو تسلیم کرنے کابجائے خود اظہار نہیں؟ رسول اللہ نے اگر بعض یہودی اور کافر قبائل کو ساتھ ملا یا بھی تو خود تو انکے ساتھ نہیں ملے! کسی کو اپنے نظام میں شامل کیا تو خو د تو کسی اور کے نظام میں شامل نہ ہوئے ، نہ آپ کبھی کسی باطل نظام کا حصہ بنے۔ اہل باطل کی جانب تھوڑا سا میلان__ غور کیجئے تھوڑا سا میلان__ بھی ایک ایسی چیز تھی جس سے بچانے اور متنبہ کر نے کے لئے آپ پر قرآن کی آیات نازل ہوتی رہیں :

وَلَوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلاً

”اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو بعید نہ تھا کہ تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے“۔

چنانچہ اگر پارلیمان میں شرکت شرعی اصولوں کی رو سے باطل قرار پاتی ہے تو اسے کچھ فوائد کی بناء پر مصلحت کا تقاضا قرار دینا مصلحت کی کونسی قسم ہوگی؟ ظاہر ہے وہی قسم جسے فقہاء’ مصلحت ملغات‘ کہتے ہیں۔ یعنی کسی ایسی چیز کو مفید سمجھنا جسے شریعت گناہ قرار دیتی ہو۔

مصلحت کی ایسی قسم ظاہر ہے کہ مصالح مرسلہ میں شمار نہیں ہوتی۔ ہماری زبان میں یہ مصلحت ہو تو ہو، شریعت کی رو سے مفسدت گنی جائے گی۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ’ مصلحت‘ کیا ہماری زبان کا استعمال ہے یا پھر شرعی اصول؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انتخابات میں شرکت کر نے والے بعض مخلص اسلام پسند بعض اوقات اس بات سے بھی استدلال فرماتے ہیں کہ یہ نظام باطل تسلیم، مگر کیا ایک باطل نظام کی سب جزئیات بھی باطل ہوا کرتی ہیں؟ اس نظام کی جو جزئیات باطل نہیں اور ہمارے دین سے ان کی اجازت ملتی ہے آخر ان کو اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے لئے اختیار کرلینے میں کیا حرج ہے؟

یہ قابل احترام حضرات اس کی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ رسول اللہ نے طائف سے واپسی کے وقت مطعم بن عدی سے پناہ لی تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پناہ لینا اور پنا ہ دینا(جوار) عرب کا ایک دستور تھا اور اس میں کافر سے ایک طرح کی قربت کا تاثر بھی ملتا ہے چنانچہ رسول اللہ نے عرب کے اس دستور سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے فائدہ لیااور اس چیز کو اس میں مانع نہ سمجھا کہ اس سے ایک کافر کے ساتھ قربت کا تاثر ملتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ کفر کے دستور کوجزوی طور پر اسلام کے لئے کار آمد بنانا شریعت کی روسے درست ہے۔

اگرچہ مطعم ا بن عدی سے پنا ہ لینے کا واقعہ اصول حدیث کی رو سے صحت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ابن اسحاق کی یہ روایت معضل ہے ۔ ابن اسحاق کے بعد جس نے بھی یہ روایت بیان کی ہے، چاہے وہ ابن ہشام ہو یاا بن کثیر ، ان سب نے ابن اسحاق کی روایت پر ہی سہارا کیا ہے مگر اس کے باوجود ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کسی کافر کی پناہ میں آنا شریعت میں اصولاً صحیح ہے۔ کیونکہ حضرت ابوبکر کا ابن الدغنہ کی پناہ میں آنا بخاری وغیرہ میں ثابت ہے۔

مگر کیا اس سے انتخابات کا درست ہونا ثابت ہوسکتا ہے؟ مطعم ا بن عدی یا ابن الدغنہ کے واقعے سے کچھ ثابت ہوسکتا ہے تو وہ یہی کہ اپنے آبائی وطن میں رہائش یا کسی پرائے ملک میں سکونت کے لئے کسی کافر سردار یا حکمران سے اجازت طلب کی جاسکتی ہے یا اس سے امان پائی جاسکتی ہے چاہے اس کااپنا دین یا نظام کتنا بھی کافرانہ کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آج کے جدید دور میں کسی موحد مسلمان کااپنے آبائی علاقہ میں شہریت کی بعض دستاویزات حاصل کرنا یا کسی دوسرے ملک میں جانے کے لئے وہاں کے کسی طاغوت سے ویزہ طلب کرنا اس دلیل کی رو سے جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کسی کافر کے ساتھ کسی مسلمان کا اس بات پر اتفاق کرنا کہ اس کے زیر تسلط سرزمین پر وہ بلا خطر رہ سکتا ہے ،اور اس کے کافرانہ نظام میں شرکت کرنا، کیا ایک ہی معنی رکھتا ہے؟ ایک جگہ رہ کر آپ دعوت کی اجازت پاتے ہیں تو ضرور ایسا کیجئے مگر اس سے وہاں کے باطل نظام کا حصہ بن جانے کا جواز کیسے ثابت ہوگیا؟

بعض قابل قدر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ چلئے اس سے پارلیمنٹ میں اسلام کی دعوت پہنچانے اور شریعت کی بات سامنے لانے کے لئے جانا تو ثابت ہو گیا!؟ سو عرض یہ ہے کہ پارلیمنٹ اگر محض کسی بلڈنگ کا نام ہے تو تب تو اس کے باہر بیٹھے کسی چوکیدار یا اندر بیٹھے کسی اسپیکر یا چےئرمین سے اجازت لے کر کچھ دیر کے لئے اندر چلے جانا اور ان کو اللہ کا پیغام پہنچا آنا کچھ مضائقہ کی بات نہیں ۔ لیکن اگر پارلیمنٹ کسی بلڈنگ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظام ہے، خدائی اختیارات رکھنے والے انسانوں کا ایک مجموعہ ہے اور پارلیمنٹ میں شرکت کا مطلب انسانوں کے اس مجموعہ میں باقاعدہ طور پر شامل ہونا اور اپنا نام لکھوانا ہے۔ پھر ارکان پارلیمنٹ میں اپنا نام لکھوانے کے لئے آپ کوباقاعدہ انتخابی مہم چلانی ہے، ہر قسم کے شخض سے ووٹ مانگنا ہے، پھر جب آپ کو اکثریت کے ووٹ مل بھی جائیں تب بھی آپ کو پارلیمنٹ میں جاکر ویسے ہی نہیں بیٹھ جانا بلکہ ممبر پارلیمنٹ کا مرتبہ پانے سے پہلے آپ کو اس کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانا ہے، اس کے سب اصولوں اور ضابطوں کا پیشگی اقرار کرنا ہے۔ ٹی وی اور اخباروں کے ذریعے پوری قوم کو اپنے اس اقرار کا گواہ بنانا ہے اور تب کہیں جاکر آپ کو وہا ں زبان کھولنے کی اجازت ہوگی

ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے یہاں ابن عدی یا ابن الد غنہ کے واقعے سے استدلال کرنے کی کہا ں تک گنجائش ہے؟ کیا رسول اللہ یا ابوبکر نے مکہ کے کسی نظام سے وفاداری کا حلف اٹھایا ؟ وہاں کے باطل ضابطوں کی اطاعت کا اقرار کیا؟ کسی باطل کا حصہ بنے؟ معاذاللہ ایسا کچھ بھی کیونکر ہوسکتا تھا!

باطل نظام کی صرف وہ جزئیات لے لینا جو شریعت کے اصولوں سے متصادم نہیں، اس فلسفے کے یہاں اطلاق کی بحث تو تب ہو جب پورے نظام اور آئین سے مکمل وفاداری اور ملک کی قانون کے پاسداری کا باقاعدہ حلف نہ اٹھایا جاتا ہو؟ کیا ہمارے دیندار بھائی پارلیمنٹ میں آدھے دستور کا حلف اٹھا تے ہیں یا پورے کا ؟ جب ایسا ہے تو پھر ’جزئیات‘ کا نکتہ اٹھانا کہاں تک درست ہے؟
 
Top