• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جناب عبدالمطلب کا کھانا کھلانا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جناب عبدالمطلب کا کھانا کھلانا

سعیدی: (دلیل نمبر۲) حضرت عبد المطلب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر لوگوں کو کھانا کھلا کر آپ کا میلاد منایا تھا (دلیل نمبر۳) آپ نے بھی اپنے دادا پاک کی سنت کو جاری رکھتے ہوئے لوگوں کو کھانا کھلا کر اپنا میلاد منایا تھا (الحاوی للفتاوی) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۴)

محمدی: جواب اول:
بچے کی ولادت کے موقعہ پر خوش ہونا خوشی میں کھانا کھلانا پلانا، خیرات کرنا تقریباً سبھی اقوام میں دستور تھا اور ہے اور اسلام میں بھی اس موقع پر عقیقہ کا طریق موجود ہے اور وہ بھی بچے کی پیدائش کے بعد اور صرف ایک دفعہ۔ حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے:
مع الغلام عقیقۃٌ فاھر یقوا عنہ دما وامیطوا عنہ الاذی (بخاری مشکوٰۃ ص:۳۶۳)
کہ بچہ کی ولادت پر عقیقہ ہے۔ اس عقیقہ پر جانور کو ذبح کرو۔ اور اس کے سر کے بال اتا رو۔
حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرمایا کہ لڑکے کیلئے عقیقہ میں دو بکریاں اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری ہے۔ (ابودائود ترمذی ، نسائی ، مشکوٰۃ ص:۳۶۲)
اور حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا عقیقہ ایک بکری سے کیا اوردوسری روایت میں ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہا کا عقیقہ ایک ایک بکری سے یا دو دو بکریوں سے فرمایا (ابودائود نسائی، مشکوٰۃ ص:۳۶۳) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں (اسلام سے قبل) جب ہمارا کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ایک ایک بکری ذبح کی جاتی اور اس کے سر کو اس بکری کے خون سے لت پت رنگ دیا جاتا جب اسلام آیا تو ہم ساتویں دن ایک بکری ذبح کرتے اور اس کے سر کے بال مونڈتے اور اس کے سر پر زعفران کا رنگ لگا دیتے (رزین مشکوٰۃ ص:۳۶۳)

تو اس قومی و خاندانی دستورکے مطابق جناب عبد المطلب نے بھی اپنے پوتے محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لوگوں کو کھانا کھلایا۔شرعی دستور کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کے موقعہ پر بطور عقیقہ بکریاں ذبح کر کے گوشت کھلا دیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہا کا عقیقہ دوسرے تیسرے …سال یعنی ہر سال کیا تھا ۔ اگر یہ ثابت نہیں بلکہ صرف ایک دفعہ صرف پیدائش کے موقع پر عقیقہ کیا تھا تو پھر ولادت نبوی کی سال بہ سال یاد منانا اس کے برخلاف تم کیوں کرتے ہو نیزعقیقہ تو ہوتا ہے ولادت کے ساتویں دن مگر تم ولادت کی یاد منانے لگ جاتے ہو ولادت کے بارہ دن پہلے۔ نیز ولادت کی خوشی تو ہوتی ہے ولادت کے بعد، مگر تمہارا میلاد منانا یوم پیدائش کے بعد ختم ہو جاتا ہے یعنی ۱۲ربیع الاول کے بعد یہ الٹی گنگا کیوں ہے۔

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےاپنی ولادت کی مناسبت سے کھانا کھلانے سے میلاد منانا ثابت ہوتا ہے تو حضرت حسن و حسین کی پیدائش پر عقیقہ کرنے سے ان کا میلاد منانا کیوں ثابت نہیں ہوتا۔ پھر تم نے آج تک میلاد حسن و حسین کیوں نہیں منانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جواب دوم:
بفرض صحت دلیل جنا ب عبد المطلب اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دنیاوی زندگی میں ولادت نبی پر جو لوگوں کو کھانا کھلایا تھا وہ تو صرف ایک بار تھا ، کیا ولادت محمدی کے بعد بقیہ زندگی میں جناب عبد المطلب ہر سال ولادت محمدی کے موقعہ پر کھانا کھلاتے تھے؟ اور کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ولادت کے موقع پر چالیس سال قبل از بعثت اور تئیس سال بعد از بعثت ہر سال لگاتار لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے؟ اگر یہ ثابت ہو جائے تو ٹھیک ورنہ تمہاری دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ انہوں نے تو صرف ایک ایک بار دعوت عقیقہ کھلائی اور تم اس سے ہر سال ولادت کے موقعہ پر دعوت کا اثبات کرتے ہو لہٰذا دلیل دعویٰ کے مطابق نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جواب پنجم:
بفرض صحت دلیل ان دونوں دلیلوں پر عید میلاد کے طور پر کسی تابعی کسی امام اور محدث نے عمل کیا؟نہیں اور یقیناً نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ مطلبی اور نبوی عمل عقیقہ محمدی تھا نہ کہ روایتی میلاد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جواب ششم:
البدایہ والنہایہ ج:۲، ص:۲۶۶میں جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
فلما کان یوم السابع ذبح عنہ ودعالہ قریشًا فلما اکلوہ الخ
کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات دن کے ہوئے تو (دادا جناب عبد المطلب) نے جانور ذبح کیا اور اس کھانے پر قریش کو بلایا جب انہوں نے کھانا کھا لیا تو عبد المطلب کو کہنے لگے کہ اے عبد المطلب اس اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے تو اس نے کہا کہ محمد نام رکھا ہے الخ۔

جس سے واضح ہے کہ یہ ۱۲ربیع الاول میلاد محمدی کے موقعہ پر دعوت کا انتظام نہیں تھا بلکہ پیدائش کےساتویں دن یعنی ۱۹ربیع الاول کو یہ کھانا کھلایا تھا جو میلاد منانے کے حساب سے نہیں تھا بلکہ اس رواج پر عمل تھا جو عمومی طو پر ہر قوم میں بچے کی پیدائش کی خوشی میں ہوتا تھا جو مسلمانوں میں بنام عقیقہ موجود ہے جو ساتویں دن ہوتا ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔

ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ماشاء اللہ۔
لگتا ہے کہ
یہ خزانہ بھی کراچی سے ہاتھ لگا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
Top