السلام علیکم
دوستو میں اس فورم میں نیا ہوں مجھے نہیں پتا یہ سوال یہاں پوسٹ کرنا چاہیے تھا کہ نہیں
سوال یہ ہے کہ میرا ایک دوست جس نے کچھ مسائل پوچھے ہیں انکا جواب درکار ہے
1۔ایک آدمی مسجد کا امام ہے اور وہ رات کو سوتے ہوئے یا دن میں محتلم یعنی احتلام کا شکار ہوجاتا ہے اور اسکی آنکھ بالکل اذان کے وقت کھلتی ہے اب اگر وہ غسل کرتا ہے تو اذان کا وقت نکل جاتا ہے تو کیا ایسی صورت میں وہ یعنی جب کہ وہ حالت جنابت میں ہو تو کیا وہ اذان دے سکتا ہے؟اس سلسلے میں قرآن و سنت سے رہنمائ فرمائیں
Sent from my SM-J500F using Tapatalk
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جنبی مسجد میں رک ، ٹھہر نہیں سکتا،
سعودی عرب کی فتاوی کیلئے مفتیاں کرام کی مستقل کمیٹی کا فتوی ہے کہ :
دخول الجنب المسجد
السؤال السادس من الفتوى رقم (8290)
السؤال: إذا كان الإنسان مجنبا وله ماء داخل المسجد هل يجوز له أن يتيمم ويدخل للماء؟
الجواب: يجوز للجنب الدخول إلى المسجد مرورا فقط من غير مكث لقوله تعالى: {وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا} (سورة النساء الآية 43) .
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب رئيس اللجنة ... الرئيس
عبد الله بن قعود ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
__________
سوال : اگر کوئی حالت جنابت میں ہو ، اور پانی بھی مسجد کے اندر ہو ، تو کیا وہ تیمم کرکے مسجد میں داخل ہوسکتا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
جنبی کو مسجد میں رکے بغیر صرف گزرنا جائز ہے ،
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب تک نہ جاؤ تاآنکہ تمہیں یہ معلوم ہوسکے کہ تم نماز میں کہہ کیا رہے ہو۔ اور نہ ہی جنبی غسل کئے بغیر نماز کے قریب جائے ، الا یہ کہ وہ راہ طے کر رہا ہو۔ اور اگر بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے یا تم نے اپنی بیویوں کو چھوا ہو، پھر تمہیں پانی نہ ملے تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرلو (اور نماز ادا کرلو) یقینا اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشنے والا ہے۔ (سورۃ النساء ۴۳ )
اور اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
۔
فإن معناها: يا أيها المؤمنون لا تقربوا مواضع الصلاة -أي المساجد- وأنتم سكارى حتى تفيقوا من سكركم، ولا تقربوها وأنتم جنب حتى تغتسلوا من الجنابة، إلا إذا كان دخولكم إياها على وجه الاجتياز والمرور فلا بأس به، والحائض حكمها حكم الجنب في ذلك (فتاوى اللجنة الدائمة جلد 4 ص110 )
یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالی کے اس حکم (لا تقربوا الصلاۃ ۔۔ نماز کے قریب مت جاؤ )۔۔ کا معنی ہے اس حالت میں مسجدوں میں نہ جاؤ،
الا یہ کہ : اگر صرف وہاں سے گزرنے کیلئے داخل ہونا ہو تو حرج نہیں ، اور جنبی کی طرح حائضہ کا بھی یہی حکم ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک فتوی میں فرماتے ہیں :
السؤال: ما حكم الشرع في حق المرأة التي تدخل المسجد وهي حائض للاستماع إلى الخطبة فقط؟
الجواب: لا يحل للمرأة أن تدخل المسجد وهي حائض أو نفساء، والأصل في ذلك حديث عائشة رضي الله عنها قالت: «جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ووجوه بيوت أصحابه شارعة في المسجد فقال: "وجهوا هذه البيوت عن المسجد" ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يصنع القوم شيئا؛ رجاء أن ينزل فيهم رخصة، فخرج إليهم فقال: "وجهوا هذه البيوت عن المسجد فإني لا أحل المسجد لحائض ولا جنب (1) » رواه أبو داود وروي عن أم سلمة رضي الله عنها قالت: «دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم صرحة هذا المسجد فنادى بأعلى صوته: "إن المسجد لا يحل لحائض ولا لجنب (2) » رواه ابن ماجه فهذان الحديثان يدلان على عدم حل اللبث في المسجد للجنب والحائض، أما المرور فلا بأس إذا دعت إليه الحاجة وأمن تنجيسها المسجد لقوله تعالى
:
__________
(1) رواه أبو داود 1 / 60 كتاب الطهارة باب في الجنب يدخل المسجد.
(2) رواه ابن ماجه 1 / 212 كتاب الطهارة وسننها باب فيما جاء في اجتناب الحائض للمسجد.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
س 1: مسجد میں حائضہ عورت کا صرف خطبہ سننے کی غرض سے داخل ہونے کے سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے؟
ج 1: حائضہ یا نفساء عورتوں کا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، اس حکم کی اصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے،جس میں وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم تشریف لائے اور آپ کے صحابہ کرام کے گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے، تو آپ نے فرمایا: ان گھروں کا رخ مسجد سے پھیر دو،
پھر آپ صلى الله عليه وسلم داخل ہوئے اور قوم نے کچھ نہیں کیا تھا؛ اس امید پر کہ اس میں کوئی آسانی نازل ہوجائے، تو آپ ان لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا: ان گھروں کا رخ مسجد سے پھیر دو، کیونکہ میں مسجد کو حائضہ اور جنبی کے لئے حلال نہیں ٹھہراتا ہوں۔
اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ: اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اس مسجد کے صحن میں تشریف لائے، اور آپ نے بلند آواز سے فرمایا: بیشک مسجد حائضہ عورت اور جنبی شخص کے لئے حلال نہیں ہے اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے،
یہ دونوں حدیثیں حائضہ اور جنبی شخص دونوں کے لئے مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت کی دلیل ہیں، لیکن اگر صرف مرور( گزرنا) ہو تو : بوقت ضرورت کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ مسجد میں کوئی ناپاکی نہ لگنے پائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
" اور جنابت کی حالت میں جب تک غسل نہ کرلو ، (مسجد اور نماز سے دور رہو) الا یہ کہ صرف مسجد سے گزرنا مقصود ہو (تو گزر سکتے ہو )۔"
اور حائضہ عورت بھی جنبی کے حکم میں ہے، اور اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مسجد کی ضروریات فراہم کرنےکا حکم فرمایا، جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حالت حیض میں تھیں۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز