• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنت سے نکالے جانے کے بعد اللہ اور ابلیس کا مکالمہ (تحقیق مطلوب ہے)

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم شیوخ سے اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
(مفہوم) جب شیطان کو اللہ ﷻ نے جنت سے نکال دیا تو اس نے کہا اے اللہ یہ پوری زمین تو تیری ہے میں جاؤں گا کہاں؟ مجھے میرے مکان کے بارے میں بتا۔ تو اللہ ﷻ نے کہا کہ تمہارا مکان وہ ہے جہاں پر گناہ ہوتے ہیں۔ پھر اس نے اپنے کھانے کے بارے میں پوچھا تو اللہ ﷻ کہا کہ تمہارا کھانا وہ ہے جس کو ابن آدم بغیر بسم اللہ کے کھائے۔ پھر اس نے کہا کہ اے اللہ اگر مجھے پیاس لگے تو میں کیا پیوں؟ اللہ ﷻ نے کہا کہ تمہارا مشروب شراب ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تو نے انسانوں کو کتابیں دی ہیں مجھے بھی کوئی کتاب عطا فرما۔ اللہ ﷻ نے کہا کہ تیرے لئے جادو ٹونا کی کتاب ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تو نے انسانوں کے لئے دعا جیسی نعمت دے رکھی ہے مجھے بھی کچھ ایسی چیز عطا فرما۔ اللہ ﷻ کہا کہ تمہارے لئے عورت ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ اللہ میں نے چالیس ہزار سال دنیا اور آسمان میں تیری عبادت کی ہے تو مجھے اسکی جزا عطا فرما۔ اللہ ﷻ نے فرمایا: مانگ جو مانگتا ہے۔ شیطان نے کہا کہ تو مجھے غیر مرئی بنادے تاکہ کوئی مجھے دیکھ نہ سکے۔ اللہ نے اسے غیر مرئی بنا دیا۔ پھر شیطان نے کہا اے اللہ تو مجھے اس بات کا اختیار دے کہ میں انسان کے خیال میں وسوسہ ڈال سکوں۔ اللہ نے اسے اسکا بھی اختیار دے دیا۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تو مجھے اس بات کا اختیار دے کے قبضہ روح کے وقت میں انسان سے وہ بات منوا سکوں جو چاہوں۔ چنانچہ اللہ نے اس کا بھی اختیار دے دیا۔

یہ روایت ایک محترمہ ویڈیو کی شکل میں بیان کر رہی ہیں جسے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ میں نے اس قصہ کو کافی تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ براہ رہنمائی فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔

نوٹ: اس سے ملتا جلتا ایک قصہ اسلام سوال جواب پر موجود ہے۔ ممکن ہو تو اس کا ترجمہ کر دیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔ بفضل اللہ مل گئی۔ الفاظ کچھ مختلف ضرور ہیں لیکن کافی حد تک وہی لگ رہے ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔ بفضل اللہ مل گئی۔ الفاظ کچھ مختلف ضرور ہیں لیکن کافی حد تک وہی لگ رہے ہیں۔
چلو اچھا ہوا ، فالحمد للہ ۔۔۔۔۔ آج دوپہر سے ڈھونڈتا رہا لیکن ناکام رہا ،
جو ملی وہ یہاں شیئر کریں ۔۔۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
چلو اچھا ہوا ، فالحمد للہ ۔۔۔۔۔ آج دوپہر سے ڈھونڈتا رہا لیکن ناکام رہا ،
جو ملی وہ یہاں شیئر کریں ۔۔۔
ان شاء اللہ! وقت ملا رہا تو مضمون کی شکل میں کل یا پرسوں شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جب شیطان کو اللہ ﷻ نے جنت سے نکال دیا تو اس نے کہا اے اللہ یہ پوری زمین تو تیری ہے میں جاؤں گا کہاں؟ مجھے میرے مکان کے بارے میں بتا۔ تو اللہ ﷻ نے کہا کہ تمہارا مکان وہ ہے جہاں پر گناہ ہوتے ہیں۔ پھر اس نے اپنے کھانے کے بارے میں پوچھا تو اللہ ﷻ کہا کہ تمہارا کھانا وہ ہے جس کو ابن آدم بغیر بسم اللہ کے کھائے۔ پھر اس نے کہا کہ اے اللہ اگر مجھے پیاس لگے تو میں کیا پیوں؟ اللہ ﷻ نے کہا کہ تمہارا مشروب شراب ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تو نے انسانوں کو کتابیں دی ہیں مجھے بھی کوئی کتاب عطا فرما۔ اللہ ﷻ نے کہا کہ تیرے لئے جادو ٹونا کی کتاب ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تو نے انسانوں کے لئے دعا جیسی نعمت دے رکھی ہے مجھے بھی کچھ ایسی چیز عطا فرما۔ اللہ ﷻ کہا کہ تمہارے لئے عورت ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ اللہ میں نے چالیس ہزار سال دنیا اور آسمان میں تیری عبادت کی ہے تو مجھے اسکی جزا عطا فرما۔ اللہ ﷻ نے فرمایا: مانگ جو مانگتا ہے۔ شیطان نے کہا کہ تو مجھے غیر مرئی بنادے تاکہ کوئی مجھے دیکھ نہ سکے۔ اللہ نے اسے غیر مرئی بنا دیا۔ پھر شیطان نے کہا اے اللہ تو مجھے اس بات کا اختیار دے کہ میں انسان کے خیال میں وسوسہ ڈال سکوں۔ اللہ نے اسے اسکا بھی اختیار دے دیا۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تو مجھے اس بات کا اختیار دے کے قبضہ روح کے وقت میں انسان سے وہ بات منوا سکوں جو چاہوں۔ چنانچہ اللہ نے اس کا بھی اختیار دے دیا۔
اس طرح کی روایت طبرانی رحمہ اللہ نے المعجم الکبیر میں ذکر کی ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زَحْرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُ - عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ : إِنَّ إِبْلِيسَ لَمَّا أُنْزِلَ إِلَى الْأَرْضِ قَالَ : يَا رَبِّ أَنْزَلْتَنِي إِلَى الْأَرْضِ ، وَجَعَلْتَنِي رَجِيمًا أَوْ كَمَا ذَكَرَ فَاجْعَلْ لِي بَيْتًا ، قَالَ : الْحَمَّامُ . قَالَ : فَاجْعَلْ لِي مَجْلِسًا ، قَالَ : الْأَسْوَاقُ ، وَمَجَامِعُ الطُّرُقِ . قَالَ : اجْعَلْ لِي طَعَامًا . قَالَ : مَا لَا يُذْكَرُ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ قَالَ : اجْعَلْ لِي شَرَابًا ، قَالَ : كُلُّ مُسْكِرٍ . قَالَ : اجْعَلْ لِي مُؤَذِّنًا ، قَالَ : الْمَزَامِيرُ . قَالَ : اجْعَلْ لِي قُرْآنًا . قَالَ : الشِّعْرُ . قَالَ : اجْعَلْ لِي كِتَابًا ، قَالَ : الْوَسْمُ . قَالَ : اجْعَلْ لِي حَدِيثًا ، قَالَ : الْكَذِبُ . قَالَ : اجْعَلْ لِي مَصَايِدَ ، قَالَ : النِّسَاءُ .
(المعجم الکبیر للطبرانی: 8/207، حدیث نمبر: 7837۔ مکائد الشیطان لابن ابی الدنیا: 63، حدیث نمبر: 43۔ تہذیب الآثار للطبری: 2/644، حدیث نمبر: 953)

حدیث کا حکم:
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه علي بن يزيد الألهاني وهو ضعيف
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: 8/119)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه علي بن يزيد الهاني وهو ضعيف
(فتح الباري شرح صحيح البخاري: 10/553)

حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اسکی سند کو سخت ضعیف کہا ہے۔
(تخریج احادیث الاحیاء للحداد: 4/1557، حدیث نمبر: 2396)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسکو سخت منکر قرار دیا ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: 13/141، حدیث نمبر: 6054)


اسکا ایک شاہد بھی ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْأَيْلِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ إِبْلِيسُ لِرَبِّهِ : يَا رَبِّ قَدْ أُهْبِطَ آدَمُ وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ سَيَكُونُ كِتَابٌ وَرُسُلٌ ، فَمَا كِتَابُهُمْ وَرُسُلُهُمْ ؟ قَالَ : قَالَ : رُسُلُهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَالنَّبِيُّونَ مِنْهُمْ ، وَكُتُبُهُمُ التَّوْرَاةُ ، وَالزَّبُورُ ، وَالْإِنْجِيلُ ، وَالْفُرْقَانُ ، قَالَ : فَمَا كِتَابِي ؟ قَالَ : كِتَابُكَ الْوَشْمُ ، وَقُرْآنُكَ الشِّعْرُ ، وَرُسُلُكَ الْكَهَنَةُ ، وَطَعَامُكَ مَا لَا يُذْكَرُ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ ، وَشَرَابُكَ كُلُّ مُسْكِرٍ ، وَصِدْقُكُ الْكَذِبُ ، وَبَيْتُكَ الْحَمَّامُ ، وَمَصَائِدُكَ النِّسَاءُ ، وَمُؤَذِّنُكَ الْمِزْمَارُ ، وَمَسْجِدُكَ الْأَسْوَاقُ " .
(المعجم الکبیر للطبرانی: 8/207، حدیث نمبر: 7837۔ الاحادیث المختارۃ للمقدسی: 11/184، حدیث نمبر: 172)

حدیث کا حکم:
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه يحيى بن صالح الأيلي. ضعفه العقيلي
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: 1/119)

حافظ عراقی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تخریج احادیث الاحیاء للحداد: 4/1557، حدیث نمبر: 2396)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسکو منکر قرار دیا ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: 13/142، حدیث نمبر: 6055)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی اختصارا ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ رَجَاءِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَهُمْ ، أَبْنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَبْنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى بْنِ مَرْدُوَيْهِ ، ثَنَا عَبْدُ الْبَاقِي بْنُ قَانِعٍ ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَزَّازُ ، ثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مَنْصُورٍ الْخُرَاسَانِيُّ ، ثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : قَالَ إِبْلِيسُ : يَا رَبِّ ، كُلُّ خَلْقِكَ بَيَّنْتَ رِزْقَهُ ، فَفِيمَا رِزْقِي ؟ قَالَ : فِيمَا لَمْ يُذْكَرِ اسْمِي عَلَيْهِ .
(الاحادیث المختارۃ للمقدسی: 10/360، حدیث نمبر: 385. العظمۃ لابی الشیخ: 1683، حدیث نمبر: 1134)

حدیث کا حکم:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: 2/326، حدیث نمبر: 708)


اسی معنی کی روایت قتادہ رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : لَمَّا أُهْبِطَ إِبْلِيسُ قَالَ : أَيْ رَبِّ ، قَدْ لَعَنْتَهُ فَمَا عَمَلُهُ ؟ قَالَ : السِّحْرُ ، قَالَ : فَمَا قِرَاءَتُهُ ؟ قَالَ : الشِّعْرُ ، قَالَ : فَمَا كِتَابُهُ ؟ قَالَ : الْوَشْمُ ، قَالَ : فَمَا طَعَامُهُ ؟ قَالَ : كُلُّ مَيْتَةٍ وَمَا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ ، قَالَ : فَمَا شَرَابُهُ ؟ قَالَ : كُلُّ مُسْكِرٍ ، قَالَ : فَأَيْنَ مَسْكَنُهُ ؟ قَالَ : الْحَمَّامُ ، قَالَ : فَأَيْنَ مَجْلِسُهُ ؟ قَالَ : الْأَسْوَاقُ ، قَالَ : فَمَا صَوْتُهُ ؟ قَالَ : الْمِزْمَارُ ، قَالَ : فَمَا مَصَايِدُهُ ؟ قَالَ : النِّسَاءُ " .
(مصنف عبد الرزاق: 11/268، حدیث نمبر: 20588۔ شعب الایمان للبیہقی: 7/104، حدیث نمبر: 4738۔ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم لابن الجوزی: 1/178۔ آکام المرجان فی احکام الجان للشبلی: 228)

اثر کا حکم:
شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ شعب الایمان میں اس پر تعلیق لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسنادہ: رجاله ثقات

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
 
Top