• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنرل راحیل شریف اور چیونٹیاں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
جنرل راحیل شریف اور چیونٹیاں
ڈاکٹر رشید گِل ( کینیڈا)
12 جنوری 2017 (16:43)

پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دُنیا میں یہ اب روائت بَن چُکی ہے کہ لوگ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ لوگ برسرِ اقتدار لوگوں کی عزت و تکریم کرتے ہیں لیکن جیسے وُہ اپنی مُدتِ مُلازمت کو پورا کرکے فارغ ہو جاتے ہیں، لوگ اُنکے کردار اور ماضی کی مُلازمت میں کیٹرے نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کوئی قابلِ تحسین بات نہیں ہے۔ کل تک حکومت اور حکومت کے تمام وزیروں کے لئے جنرل راحیل شر یف نہ صرف محتر م تھے بلکہ نہائت اہم بھی تھے لیکن آج وُہی جنرل ریٹائر ہو چُکے ہیں ۔ اب حکومت کے اہل کار اور وزیر اُنکی کردار کُشی کرنے پر مستعد نظر آتے ہیں۔ اُسکی بظاہر وجہ یہ ہے کہ اَب وُہ حکومت کو آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ اقتدار کا تختہ نہیں اُلٹ سکتے۔ خواجہ آصف جیسے وزیر نواز شریف کو خوش کرنے لئے اور اپنی اہمیت جتانے کے لئے اُن کے بارے میں عجیب و غریب بیان دے کر اُن کا قد چُھوٹا کرنے کے کوشش کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مُطابق جنرل راحیل صاحب کو سعودی عرب کی حکومت نے اسلامی اتحادی افواج کی سر براہی کی پیشکش کی ہے، یہ پیشکش نئی نہیں ہے۔ اُنکی دورانِ مُلازمت ایسی پیشکش کی خبریں اخباروں میں چھپ چُکی تھیں۔ لیکن انہوں نے چند و جوہات کی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں، اُنکی مُلازمت میں توسیع کو لے کر مُختلف قسم کی افواہیں گردش کرتی رہی ہیں۔ اُن سے بہت سارے قصے منسوب کئے گئے لیکن مردِ خُدا نے کبھی بھی غیر ضروری اخباری بیان نہیں دیا۔ انہوں نے کبھی بھی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش نہیں کی۔ زرداری جیسے سیاست دان نے اُن کے خوف سے دُبئی میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر رکھی تھی۔ اُن کواٹھارہ ما ہ تک واپس وطن آنے کی جُرأ ت نہیں ہوئی۔ اب جنر ل راحیل بخیر و خُوبی ریٹائر ہو چُکے ہیں۔

با الفاظِ د یگر، وُہ سرکاری طور پر متحرک نہیں رہے اور نہ ہی اُنکے پاس فوج کی کمانڈ موجود ہے ۔ اِس لئے چیونٹیوں کے بھی پر نِکل آئے ہیں۔ ہر شخص اُ نکے خلاف بیان دینا اپنی شان تصور کرتا ہے لیکن جو بات اِن لوگون کے لئے حسدکا باعث ہے وُہ یہ کہ

  • سعودی حکومت نے بطور خاص اُنکو اپنا خصوصی طیارہ بھیج کر شاہی پروٹوکول کے ساتھ کیوں بلوایا ہے؟۔
  • اُن کو شاہی مہمان خانے میں کیوں رکھا گیا ہے؟۔
  • ہر قسم کی خاطرو مدارت کیوں کی گئی۔ اُن کو عزت وتکریم کے ساتھ کیوں اسلامی اتحاد کی افواج کی سر براہ ہی کی پیشکش کی گئی؟۔

بعض اطلاعات کے مُطابق ابھی انہوں نے اِس پیشکش کو کُلی طور پر قبول نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے متبادل کے طور پر کُچھ اپنی شرائط رکھی ہیں۔ جو شرائط اخبارات کے مُطابق انہوں نے رکھی ہیں اُن کے بارے یہ کہا جا ر ہا ہے کہ جنرل راحیل اپنے فرائض کے بارے تفصیل چاہتے ہیں۔

اُنہوں نے سعو دی حکومت سے یہ ب بھی چاہا ہے کہ ایران کو بھی اِس اتحادی فوج میں شامل کیا جائے۔ علاو از یں، بطور سر براہ اسلامی افواج کے، اُنکو کسی بھی مُلک سے مصالحت کرنے کا پُورا اختیار حاصل ہونا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی حکومت سے ابھی بات چیت ابتدائی مراحل میں ہے۔ اِس مرحلے پر حکومتِ پاکستان کو ملوث کرنا شائید ضروری نہیں سمجھا گیا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب نے نواز شریف کو گھر کی مرُغی سمجھ کر اتنی اہمیت نہ دی ہو، کیونکہ پاکستان کا سعودی عرب سے ایک خاص جذباتی رشتہ ہے۔

پاکستان چین اور سعودی عرب کو اپنا قریبی دوست سمجھتا ہے۔ پاکستان پر جب بھی کبھی کوئی نا گہانی مصیبت آئی ہے۔ ان دو مُلکوں نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے۔ اِس لئے اگر سعودی حکومت کو جنرل راحیل کی مدد چاہئے تو یہ حکومت کسی بھی صورت سعودی حکومت کو انکار نہیں کر سکتی۔ کیونکہ سعودی حکومت نے نواز شریف اور اِ نکے خاندان کو بچانے اور بحال کرانے میں خُصوصی طور پر انتظام کئے تھے۔ لہذا امکان اغلب ہے کہ حکومت سعودی عرب کو خوش کرنے کے لئے آ ئین میں بھی تبدیلی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ نواز شریف کو قانون ساز اسمبلی میں تا حال اکثریت حاصل ہے۔ لہذا جنرل راحیل کی تعیناتی میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ سَب کُچھ اپنی اہمیت جتانے کے لئے چھُوٹے ذہن اور درجے کے لوگ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔

بعض حلقے فنی اعتبار سے اعتراض اُٹھا کر اُن کے قد کو کم کرنے کی کوشش میں مُصروف ہیں۔ ڈاکٹر مبشر کا یہ کہنا کہ پاکستانی سپاہی بکاؤ نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے سوچ کے مُطابق درُست فرمایا ہے۔ حکومت اپنے سپاہی کو بیچ نہیں رہی بلکہ جنرل ر احیل کی خدمات اور تجربے سے دوسرے برادر اسلامی مُلک فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ جو ہمارے دُکھ سُکھ کے ساتھ ہیں۔ انکے بغیر ہماری دُنیا میں کوئی وقعت نہیں۔ جنرل راحیل کی بدولت پاکستان کی توقیر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اُنکی خوُبیوں کو سراہنے کی بجائے ہم حسد کی وجہ سے اُنکی ذات میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ اِس لئے کہ اب وُہ با اختیار نہیں رہے۔ لیکن لوگ بھُول رہے ہیں کہ مرا ہوُا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ اسلامی اتحادی فوج کی سربراہی مِلنا پاکستان کے لئے فخر کی با ت ہے۔ لہذا اپنے جنرل کی کُردار کشی سے اجتناب کریں۔ ہمیں ناز ہے کہ کہ ایک پاکستانی جنرل کو اِس منصب کے لئے چُنا گیا ہے۔


نوٹ: بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں متفق ہونا ضروری نہیں۔

ح
 
Top