فوجی بھائیوں کی خدمت میں...
کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔ انصار عباسی
Daily janag 10th April 2014
''آپ تینوں میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے احکامات جاری کرے۔ میں آپ تینوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں، جنرل محمود، جنرل عزیز اور شاہد (عزیز) آپ، ' جنرل مشرف نے میٹنگ ختم کرتے ہوئے ہمیں اس سلسلے میں با اختیار کیا اور ذمہ دار ٹھہرایا۔ 'یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں آپ لوگوں کا رابطہ نہ ہو سکے، یا کوئی دشواری پیش آجائے، تو پھر بھی کارروائی میں رکاوٹ نہ پڑے، ' یہ کہہ کر وہ (مشرف) کھڑے ہو گئے۔ شاید یہ بات اس لیے بھی کہی ہو کہ کوئی ایک شخص آخری وقت پر پیچھے ہٹنا چاہے تو بھی کارروائی نہ رکے۔ ہم سب نے انہیں الوداع کہا اور اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ (مشرف کی) سری لنکا جانے سے پہلے یہ آخری ملاقات تھی۔ فیصلہ یہ تھا کہ اگر اُن (مشرف) کی غیر موجودگی میں نواز شریف صاحب اُنہیں فوج کے سربراہ کی کرسی سے ہٹانے کی کارروائی کریں، تو فوری طور پر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ کئی دنوں سے اُن (مشرف) کے گھر پر اس سلسلے کی ملاقاتیں جاری تھیں۔ ان ملاقاتوں میں میرے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمود، کمانڈر 10 کور، لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، CGS (بعد میں جنرل بنے)، میجر جنرل احسان، DGMI (بعد میں جنرل بنے)، بریگیڈئیرراشد قریشی، DG ISPR اور چیف کے پرنسپل سٹاف افسر موجود ہوتے۔''ـ
مندرجہ بالا اقتباسات جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ''یہ خاموشی کہاں تک؟'' سے لیے گئے جو یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کا مارشل لا اپنی نوکری بچانے کے لیے لگایا۔ اسی طرح 3 نومبر 2007کو ڈکٹیٹر مشرف نے آئین شکنی کرتے ہوئے سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کو اس لیے نکال باہر کیا اورانہیں اُن کے گھروں میں بچوں سمیت قید کر دیا کیوں کہ اُس وقت سپریم کورٹ کا ایک لارج بنچ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کی پٹیشن پر مشرف کے وردی میں صدارت کا الیکشن لڑنے کے خلاف فیصلہ دینے والا تھا۔ گویا اپنی نوکری بچانے کے لیے ایک بار پھر مشرف نے آئین کو پامال کیا۔اپنے دور اقتدار میں امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاک فوج اور پاک سر زمین کو نہتے افغان مسلمانوں پر حملہ کے لیے امریکا و نیٹو افواج کو پیش کر دیا۔اسی مشرف نے بغیر آرمی کمانڈرز کے مشورہ کے امریکی ڈرونز کو پاکستان میں جاسوسی کی خاطراُڑنے اور میزائل حملوں تک کی اجازت دی اور اس سلسلے میں بھی آرمی کمانڈرز سے مشاورت نہ کی گئی۔ اپنے امریکی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے مشرف نے بغیر آرمی کمانڈرز سے مشاورت کے ایف بی آئی اور سی آئی اے کے جاسوسوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی۔ آرمی کمانڈرز سے بغیرصلاح کیے مشرف نے اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ مل کر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکا کے ہاتھ فروخت کیا۔ آرمی کمانڈرز کے مشورے کے بغیر مشرف نے سینکڑوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا۔ جی ایچ کیو کے ملٹری آپریشن جیسے اہم ترین ادارہ سے مشاورت کئے بغیر مشرف نے لال مسجد پر پاک فوج کے کمانڈوز کو آپریشن کرنے کا حکم دیا۔
مشرف کی شہ پر امریکیوں نے باجوڑ کے علاقہ میں واقع ایک مدرسہ پر حملہ کیا جس میں تقریباً 85 بچے شہید کر دیے گئے۔ اس پر جنرل مشرف نے کہا کہ یہ حملہ پاکستان آرمی نے کیا اور یہ الزام لگایا کہ مرنے والے سب دہشتگرد تھے۔ میڈیا اور آزاد ذرائع نے یہ ثابت کیا کہ مرنے والے معصوم طلباء تھے۔ اس طرح مشرف نے امریکیوں کی نمک حلالی تو کر دی مگر یہ کہہ کر کہ یہ حملہ پاک فوج نے کیا، اپنی فوج کے خلاف نفرت کا ایک ایسا بیج بو دیا جس کا خمیازہ ہمیں آج بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مشرف کے اس بیان کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد پاکستان کی فوج پر اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کی طرف سے پہلا حملہ درگئی میں ہوا جہاں ایک خود کش دھماکہ کے نتیجے میں تقریباً چالیس فوجی جوان شہید کر دیے گئے۔ بجائے اس کے کہ اس سے کچھ سبق سیکھا جاتا مشرف نے لال مسجد آپریشن میں بھی فوج کو جھونک دیا جس کے بعد تو خودکش دھماکوں اور فوج پر حملوںکا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا کہ اب تک ہمارے ہزاروں فوجی جوان اور افسر اپنے ہی لوگوں کی دہشتگری کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں۔مشرف نے تو ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ پاک فوج جس کو دیکھ کر عوام کے سر فخر سے بلند ہو جاتے تھے، وہ عوام کا سامنا کرنے سے کترانے لگے۔ جنرل شاہد عزیر کے الفاظ میں ـ''پھر مشرف صاحب کے آخری دنوں میں فوج کو وہ وقت بھی دیکھنا پڑا کہ فوجی منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ گھر سے سول کپڑے پہن کر نکلتے اور وردی دفتر میں جا کر پہنتے۔ محفل میں تعارف کراتے تو اپنا عہدہ چھپاتے۔ نہ جانے یہ کالک ہمارے منہ سے کب دھلے گی۔'' میں جنرل عزیز سے متفق ہوں کہ مشرف پاک فوج کے لیے فخر نہیں بلکہ ایک دھبہ تھاجسے ہم سب نے مل کر دھونا ہے۔ مشرف کی فوج سے رخصت کے بعد گزشتہ چھ سال میں پاک آرمی کی ساکھ میں بہتری آئی جس میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بہت اہم کردار رہا۔ مشرف تو وہ شخص ہے جس نے قومی اداروں کو اپنی ذات کے لیے بار بار استعمال کیا اُسے پاک فوج سے تشبیہ دینا پاک فوج کی توہین ہے۔
مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ذاتی عناد کی بناء پر کراچی میں 12 مئی 2007 کو خون کی ہولی کِھلوائی اور درجنوں معصوموں کو شہید کیا۔ بجائے شرمندگی کے اُسی رات مشرف نے اسلام آباد ڈی چوک میں ایک سیاسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مکے لہراتے ہوئے کہا کہ دنیا نے اُس کی طاقت کا اظہار دیکھ لیا۔ ایسا شخص ہماری پاک آرمی کی شان کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے شخص کا احتساب ہماری افواج کا احتساب کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم تو اپنی فوج سے میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید، کرنل طفیل شہید، لانس نائک محفوظ اور دوسرے ہزاروں شہداء اور غازیوں کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔ ہم تو اپنی فوج کو اس لیے سلام کرتے ہیں کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر ہمارے سرحدوں کی حفاظت اور ہمارے لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جان نچھاور کرتے ہیں۔ خدارا ایک ایسے شخص کو میں کیسے پاک آرمی کی عزت اور انا کا نشان سمجھوں جس نے مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمنوں کی مدد کی، اپنے ملک کی خودمختاری کو بیچا، بلوچستان میں آگ لگائی، پاکستان اور پاکستان آرمی کو بے انتہا نقصان پہنچایا، اس ملک کی گلی گلی میں آگ و خون کا کھیل شروع کیا، اپنی ذات کی خاطر اربوں کی کرپشن کرنے والوں کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کیا اور آئین شکنی کا مرتکب ہوا۔