• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ایسا ہی ایک دعا نامہ پنجاب کے سجادہ نشینوں اور نام نہاد ‘اولیائے کرام’ نے سنہ 1919ء ؁ میں گورنر پنجاب مائیکل اوڈووائر کی خدمت میں پیش کیا۔ وہی اوڈووائر جس کے احکامات پر جلانوالہ باغ میں عوام الناس کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا اور جس کے دور حکومت میں لاہور، گوجرانوالہ اور امرتسر سمیت پنجاب کے بیشتر اہم علاقوں میں مارشل لاء نافذ کرکے شدید مظالم توڑے گئے تھے۔ اس دستاویز کو نقل کرتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہماری قوم میں ایسے پست کردار اور فرنگی سے ایسی دیوانی محبت رکھنے والے لوگ بھی موجود تھے! اللہ ہمیں اس قابل نفرت مخلوق کے غلیظ گناہوں کی نحوست سے بچالے اور اس خطے کی پیشانی پر لگے بدنما دھبوں کو اپنے خون سے ہمیشہ کیلئے دھوڈالنے کی توفیق دے۔ آمین۔
ملاحظہ کیجئے:
حضور والا!
ہم خادم الفقراء، سجادہ نشینان و علماء مع متعلقین شرفائے حاضر الوقت مغربی حصہ پنجاب نہایت ادب و عجز و انکساری سے یہ دعا نامہ لے کر خدمت عالی میں حاضر ہوئے ہیں اور ہمیں یقین کامل ہے کہ حضور انور جن کی ذات عالی صفات میں قدرت نے دلجوئی، ذرہ نوازی اور انصاف پسندی کوٹ کوٹ کر بھردی ہے ہم خاکساران باوفا کے اظہار دل کو توجہ سے سماعت فرما کر ہمارے کلاہ فخر کو چار چاند لگادیں گے۔
سب سے پہلے ہم ایک دفعہ پھر حضور والا کو مبارکباد کہتے ہیں۔ جس عالمگیر و خوفناک جنگ (یعنی جنگ عظیم اول) کا آغاز حضور کے عہد حکومت میں ہوا وہ حضور ہی کے زمانے بخیر و خوبی انجام پاگئی اور یہ بابرکت و باحشمت سلطنت، جس پر پہلے بھی سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اب آگے سے زیادہ مستحکم اور آگے سے زیادہ روشن اور اعلیٰ عظمت کے ساتھ جنگ سے فارغ ہوئی، جیسا کہ شہنشاہ معظم نے اپنی زبان مبارک سے بھی ارشاد فرمایا ہے۔ واقعی برطانوی تلوار اس وقت نیام میں داخل ہوئی جب دنیا کی آزادی، امن و امان اور چھوٹی چھوٹی قوموں کی بہبودی مکمل طور پر حاصل ہوکر بالآخر سچائی کا بول بالا ہوگیا۔ حضور کا زمانہ ایک نہایت نازک زمانہ تھا اور پنجاب کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی عنان حکومت اس زمانے میں حضور جیسے صاحب استقلال، بیدار مغز اور عالی دماغ حاکم کے مضبوط ہاتھوں میں رہی جس سے نہ صرف اندرونی امن ہی قائم رہا بلکہ حضور کی دانشمندانہ رہنمائی میں پنجاب نے اپنے ایثار و وفاداری اور جانثاری کا وہ ثبوت دیا جس سے “شمشیر سلطنت” کا قابل فخر لقب پایا۔ پھر بھرتی کا معراج، صلیب احمر کی اعجاز نما دستگیری، قیام امن کی تدبیر، تعلیم کی ترقی، سب حضور ہی کی کاوشیں ہیں اور حضور ہی ہیں جنہوں نے ہر موقع پر اور ہر وقت پنجاب کی خدمات اور حقوق پر زور دیا۔ صرف جناب والا کو ہی ہماری بہبود مطلوب نہ تھی بلکہ صلیب احمر یعنی ریڈکراس اور تعلیم نسواں کے نیک نام میں حضور کی ہمدم اور ہم راز جنابہ لیڈی اوڈوائر صاحبہ نے جن کو ہم مروت کی زندہ تصویرسمجھتے ہیں، ہمارا ہاتھ بٹایا اور ہندوستانی مستورات پر احسان کرکے ثواب دارین حاصل کیا۔ ہماری ادب سے التجا ہے کہ وہ ہماری دلی شکریہ قبول فرماویں۔
حضور انور! جس وقت ہم اپنی آزادیوں کی طرف خیال کرتے ہیں جو ہمیں سلطنت برطانیہ کے طفیل ہوئیں، جب ہم دخانی جہازوں کو سطح سمندر پر اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے ہیں جن کے طفیل ہمیں اس مہیب جنگ میں امن و امان حاصل رہا ہے، جب ہم تار برقی کے کرشموں پر، علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور و پشاور جیسے اسلامی کالجوں اور دیگر قومی درسگاہوں پر نظر ڈالتے ہیں، اور پھر جب ہم بے نظیر برطانوی انصاف کو دیکھتے ہیں جس کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں تو ہمیں ہر طرف احسان ہی احسان دکھائی دیتے ہیں۔
بہشت آنجا کہ آزارے نبا شد
کسے رابہ کسے کارے نبا شد
باوجود فوجی قانون کے جو کہ خود فتنہ پردازوں کی شرارت کا نتیجہ تھا، مسلمانوں کے مذہبی احساس کا ہر طرح سے لحاظ رکھا گیا۔ شب برأت کے موقع پر ان کو خاص رعایتیں دکھائیں۔ رمضان المبارک کے واسطہ حالانکہ اہل اسلام کی درخواست یہ تھی کہ فوجی قانون ساڑھے گیارہ بجے شب سے دو بجے تک محدود کیا جاوے لیکن حاکم سرکار نے یہ وقت بارہ بجے سے دو بجے کردیا۔ شاہی مسجد جو فی الاصل قلعے کے متعلق تھی اور جو ابتدائی عملداری سرکار ہی میں واگزار ہوئی تھی، اہالیان لاہور نے اس مقدس جگہ کو ناجائز سیاسی امور کے واسطے استعمال کیا۔ جس پر متولیان مسجد نے جو خود مفسدہ پردازوں کو روک نہیں سکتے تھے، سرکار سے مدد چاہی، یہی وجہ تھی کہ سرکار نے اس کا ایسا ناجائز استعمال بند کردیا۔ ہم تہہ دل سے مشکور ہیں کہ حضور والا نے پھر اس کو واگزار فرمادیا۔ سرکار نے حج کے متعلق جو مہربانی کی ہے ہم اس سے ناآشنا نہیں اور مشکور ہیں۔
ہم سچ عرض کرتے ہیں کہ جو برکات ہمیں اس سلطنت کی بدولت حاصل ہوئیں اگر ہمیں عمرِ خضر بھی نصیب ہو تو بھی ہم ان احسانات کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے۔ ہندوستان کیلئے سلطنت برطانیہ ابرِ رحمت کی طرح نازل ہوئی اور ہمارے ایک بزرگ نے، جس نے پہلے زمانے کی خانہ جنگیاں، خونریزیاں اور بدامنیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں، اس سلطنت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا:
ہوئیں بدنظمیاں سب دور، انگریزی عمل آیا
بجا آیا، بہ استحقاق آیا، بر محل آیا
ہم کو وہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا جب ترکوں نے ہمارے مشورے کے خلاف کوتاہ اندیشی سے ہمارے دشمنوں کی رفاقت اختیار کی تو ہمارے شہنشاہ نے ازراہِ کرم ہم کو یقین دلایا کہ ہمارے مقدس مقامات کی حرمت میں سرمو فرق نہیں آئیگا۔ اس الطافِ خسروانہ نے ہماری وفا میں نئی روح پھونک دی۔ “ہل جزاء الإحسان إلا الإحسان” (احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں)، ہم ان احسانوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اب اس جنگ عظیم کے خاتمے پر صلح کانفرنس میں سلطنت ترکی کی نسبت جلد فیصلہ ہوجانے والا ہے۔ ممکن ہے یہ فیصلہ مسلمانوں کی امیدوں کے برخلاف ہو۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس فیصلے میں سرکارِ برطانیہ اکیلی مختار کار نہیں ہے بلکہ بہت سی دوسری طاقتوں کا بھی اس میں ہاتھ ہے۔ شہنشاہِ معظم کے وزراء جو کوششیں ترکی کے حق میں کرتے رہے ہیں ہم ان کے واسطے ان کے بہرحال مشکور ہیں۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ یہ جنگ مذہبی اغراض پر مبنی نہ تھی اور اپنے اپنے عمل کا اور اس کے نتائج کا ہر ایک خود ذمہ دار ہے۔
رموزِ مملکت خویشِ خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروشی
مگر ہمیں پوری توقع ہے کہ ہماری گورنمنٹ اس بات کا خیال رکھے گی کہ مقاماتِ مقدسہ کا اندرونی نظم و نسق مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں رہے۔ ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ جب حضور وطن کو تشریف لے جائیں تو تاجدارِ ہندوستان (یعنی فرمانروائے برطانیہ) کو یقین دلائیں کہ چاہے کیسا ہی انقلاب کیوں نہ ہو، ہماری وفاداری میں سرمو فرق نہ آیا ہے اور نہ آسکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم اور ہمارے پیرووان اور مریدان فوجی وغیرہ جن پر سرکارِ برطانیہ کے بیشمار احسانات ہیں، ہمیشہ سرکار کے حلقہ بگوش اور جانثار رہیں گے۔
ہمیں نہایت رنج و افسوس ہے کہ ناتجربہ کار نوجوان امان اللہ خان والی کابل نے کسی غلط مشورے پر عہد ناموں کی اور اپنے باپ دادا کے طرز کی خلاف ورزی کرکے خداوند تعالیٰ کے صریح حکم: “واوفو بالعھد إن العہد کان مسؤلا”۔ یعنی (وعدے کا ایفاء کرو، ضرور وعدے کے متعلق پوچھا جائیگا) کی نافرمانی کی۔ ہم جنابِ والا کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم افغانستان کے اس طرزعمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اہالیان پنجاب احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور نادر شاہی قتل و غارت گری کو نہیں بھول سکتے۔ ہم اس غلط اعلان کی جس میں اس نے سراسر خلافِ واقع لکھا ہے کہ سلطنت کی مذہبی آزادی میں خدانخواستہ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ واقع ہوئی ہے، زور سے تردید کرتے ہیں۔ امیر امان اللہ خان کا خاندان سرکارِ انگلشیہ ہی کی بدولت بنا اور سرکار کی احسان فراموشی کفرانِ نعمت سے کم نہیں۔
ہم کو ان کوتاہ اندیش دشمنان ملک (یعنی مجاہدین) پر بھی سخت افسوس ہے جن کی سازش سے تمام ملک میں بدامنی پھیل گئی اور جنہوں نے اپنی حرکاتِ ناشائستہ سے پنجاب کے نیک نام پر دھبہ لگایا۔ مقابلہ بالآخر مقابلہ ہی ہے۔ ہم حضور کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان گمراہ لوگوں کی مجنونانہ و جاہلانہ حرکات کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے قرآن کریم میں یہی تلقین کی گئی ہے کہ ”ولا تفسدو فی الارض“ (یعنی دنیا میں فساد و بدامنی مت پیدا کرو) اور ”ان اللّٰہ لا یحب المفسدین“ (یعنی بیشک اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا)۔ حضور والا! اگرچہ آپ کی مفارقت کا ہمیں کمال رنج ہے،
سر غم سے کھنچے کیوں نہ سردار ہمارا
لو ہم سے چھٹا جاتا ہے سردار ہمارا
لیکن ساتھ ہی ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ حضور کے جانشین سر ایڈورڈ میکلین، جن کے نام نامی سے پنجاب کا بچہ بچہ واقف ہے اور جن کا حسن اخلاق رعایا نوازی میں شہرۂ آفاق ہے، ان کا ہم دلی خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی خدمتِ والا میں یقین دلاتے ہیں کہ ہم بمثل سابق اپنے جوش عقیدت اور وفاداری کا ثبوت دیتے رہیں گے۔
حضور اب وطن کو تشریف لے جانے والے ہیں۔ ہم دعا گویان جنابِ باری میں دعا کرتے ہیں کہ حضور بمعہ لیڈی صاحبہ و جمیع متعلقین خیریت کے ساتھ اپنے پیارے وطن کو پہنچیں، تادیر سلامت رہیں اور وہاں جاکر ہم کو دل سے نہ اتاریں۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!
تُف ہے چوپایوں سے بدتر اس مخلوق پر! اور تُف ہے ان کی اولاد و متبعین میں سے ہر اس شخص پر جو آج تک اسی غلیظ راہ پر چل رہا ہے! اللہ ان سب غداروں کو اپنی گرفت میں لے اور اس خطے کے مسلمانوں کو اس موذی سرطان سے نجات عطا فرمائے۔ آمین!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ایسا ہی ایک دعا نامہ پنجاب کے سجادہ نشینوں اور نام نہاد ‘اولیائے کرام’ نے سنہ 1919ء ؁ میں گورنر پنجاب مائیکل اوڈووائر کی خدمت میں پیش کیا۔ وہی اوڈووائر جس کے احکامات پر جلانوالہ باغ میں عوام الناس کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا اور جس کے دور حکومت میں لاہور، گوجرانوالہ اور امرتسر سمیت پنجاب کے بیشتر اہم علاقوں میں مارشل لاء نافذ کرکے شدید مظالم توڑے گئے تھے۔ اس دستاویز کو نقل کرتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہماری قوم میں ایسے پست کردار اور فرنگی سے ایسی دیوانی محبت رکھنے والے لوگ بھی موجود تھے! اللہ ہمیں اس قابل نفرت مخلوق کے غلیظ گناہوں کی نحوست سے بچالے اور اس خطے کی پیشانی پر لگے بدنما دھبوں کو اپنے خون سے ہمیشہ کیلئے دھوڈالنے کی توفیق دے۔ آمین۔
ملاحظہ کیجئے:

السلام علیکم

کہیں سے بھی کوئی تحریر اٹھانے سے پہلے اس پر تھوڑی تحقیق کر لینی چاہئے۔

مائیکل او ڈوائر پر مطالعہ انگلش میں، ویکی

جلیانوالہ باغ، ویکی، اردو

جلیانوالہ باغ سے پاکستان کی ڈائری اردو میں

ادھم سنگھ اور لیفٹیننٹ جنرل مائیکل او ڈوائر

جلیانوالہ باغ واقعہ شرمناک: ڈیوڈ کیمرون

والسلام
 
Top