• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب درکار ہے

abdullahsalfi2016

مبتدی
شمولیت
مئی 31، 2015
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
11
کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کسی مریض کو جو سر درد میں مبتلا تها ایک ٹوپی بنوا کر اس میں ایک تعویذ رکھوایا .چنانچہ کچھ دنوں بعد اس مریض کا سر درد بالکل ٹھیک ہو گیا .
علماء کرام سے جواب درکار ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کسی مریض کو جو سر درد میں مبتلا تها ایک ٹوپی بنوا کر اس میں ایک تعویذ رکھوایا .چنانچہ کچھ دنوں بعد اس مریض کا سر درد بالکل ٹھیک ہو گیا .
علماء کرام سے جواب درکار ہے
یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ؛
بس اتنی سی بات ہے کہ چھٹی صدی کے مشہور فلسفی عالم علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ۔۔مفاتیح الغیب ۔۔میں یہ روایت بغیر کسی سند اور حوالہ کے لکھی ہے:
انکے الفاظ ہیں :
’’ كتب قيصر إلى عمر رضي الله عنه أن بي صداعا لا يسكن فابعث لي دواء، فبعث إليه عمر قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه يسكن صداعه، وإذا رفعها عن رأسه عاوده الصداع، فعجب منه ففتش القلنسوة فإذا فيها كاغد مكتوب فيه: بسم الله الرحمن الرحيم.‘‘

کہ روم کے بادشاہ ’’ قیصر ‘‘ نے جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ،میرے سر میں درد رہتا ہے ،اس کیلئے کوئی دوا بھیجئے ،،تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ٹوپی اس کو بھیجی ،،قیصر جب وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھتا ،اس کے سر کا درد ٹھیک ہو جاتا ،،جب ٹوپی اتارتا درد پھر شروع ہوجاتا ،،اس کو بڑا تعجب ہوا ،اس نے ٹوپی کو کھنگالا ،تو اس میں ایک کاغذ ملا جس پر ۔۔بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔۔لکھی تھی ۔
 

abdullahsalfi2016

مبتدی
شمولیت
مئی 31، 2015
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
11
ہمارے ایک سلفی بزرگ اس بے بنیاد روایت کے مطابق لوگوں کا علاج فرماتے ہیں
اور ان کا یہ بهی کہنا ہے کہ واقعی اس سے مستقل سر درد رہنے والے مریضوں کو شفاء ملی ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہمارے ایک سلفی بزرگ اس بے بنیاد روایت کے مطابق لوگوں کا علاج فرماتے ہیں
اور ان کا یہ بهی کہنا ہے کہ واقعی اس سے مستقل سر درد رہنے والے مریضوں کو شفاء ملی ہے
میں وہی ''حیران کن'' کا آئکون تلاش کر رہا تھا، مگر مجبوری کے وہ موجود نہیں!!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہمارے ایک سلفی بزرگ اس بے بنیاد روایت کے مطابق لوگوں کا علاج فرماتے ہیں
اور ان کا یہ بهی کہنا ہے کہ واقعی اس سے مستقل سر درد رہنے والے مریضوں کو شفاء ملی ہے
بھائی اس کو تو امتحان کہتے ہیں - اکثر لوگ مشرک جادوگر کے پاس علاج کے لئے جاتے ہیں اور وہ شفاءیاب ہو جاتے ہیں - کیا اس کو بھی وہ صحیح کہے گے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شیخ عبدالعزیز بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) سے سوال کیا گیا کہ ۔۔۔

قرآنی اور غیرقرآنی تعویذ کا کیا حکم ہے؟

شیخ عبدالعزیز بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) کا جواب تھا ۔۔۔

غیر قرآنی تعویذ اگر ہڈیوں ، طلسموں ، گھونگھوں اور بھیڑئیے کے بالوں وغیرہ کی صورت میں ہوں تو وہ منکر اور حرام ہیں اور ان کی حرمت نص سے ثابت ہے لہذا کسی بچے یا بڑے کے لیے ایسی تعویذوں کا استعمال جائز نہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :

"جو شخص تعویذ لٹکائے ، اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کو پورا نہ فرمائے اور جو سیپی وغیرہ لٹکائے ، اللہ تعالیٰ اسے آرام نہ دے۔"
اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ :

"جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔"

اگر تعویذ کا تعلق قرآن مجید یا معروف اور پاکیزہ دعاؤں سے ہو تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اسے انہوں نے مریض پر پڑھ کر دم کرنے کی طرح قرار دیا ہے۔

اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ بھی جائز نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) اور سیدنا حذیفہ (رضی اللہ عنہ) کے علاوہ سلف و خلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے کہ تعویذ لٹکانا جائز نہیں خواہ وہ قرآنی الفاظ پر مشتمل ہو تاکہ سد ذریعہ ہو ، مادۂ شرک کی بیخ کنی ہو اور عموم کے مطابق عمل ہو کیونکہ وہ احادیث جن میں تعویذوں کی ممانعت ہے ، وہ عام ہیں اور ان میں کسی استثنائی صورت کا ذکر نہیں ، لہذا واجب یہ ہے کہ عموم کے مطابق عمل کیا جائے اور وہ یہ کہ :

کسی بھی قسم کے تعویذ کا استعمال جائز نہیں کیونکہ قرآنی تعویذوں کا استعمال پھر غیر قرآنی تعویذوں تک پہنچا دیتا ہے اور معاملہ خلط ملط ہو جاتا ہے لہذا واجب یہ ہے کہ تمام قسم کے تعویذوں کے استعمال کی ممانعت ہو اور واضح دلیل کی وجہ سے یہی موقف درست ہے۔

اگر ہم قرآن اور پاکیزہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ کو جائز قرار دے دیں تو پھر اس سے دروازہ کھل جائے گا اور ہر شخص جیسا چاہے گا تعویذ استعمال کرے گا ، اور اگر منع کیا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ تو قرآن یا پاکیزہ دعاؤں پر مشتمل ہے۔ اس طرح دروازہ کھل جائے گا ، شگاف بڑا ہو جائے گا اور ہر طرح کے تعویذوں کا استعمال ہونے لگے گا۔

تعویذوں کی ممانعت کی ایک تیسری وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ آدمی ان کے ساتھ بیت الخلاء اور دیگر گندی جگہوں پر بھی چلا جاتا ہے جبکہ یہ جائز نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو لے کر بیت الخلاء یا کسی گندی جگہ میں جائے۔

لنک
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
شیخ عبدالعزیز بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) سے سوال کیا گیا کہ ۔۔۔

قرآنی اور غیرقرآنی تعویذ کا کیا حکم ہے؟

شیخ عبدالعزیز بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) کا جواب تھا ۔۔۔

غیر قرآنی تعویذ اگر ہڈیوں ، طلسموں ، گھونگھوں اور بھیڑئیے کے بالوں وغیرہ کی صورت میں ہوں تو وہ منکر اور حرام ہیں اور ان کی حرمت نص سے ثابت ہے لہذا کسی بچے یا بڑے کے لیے ایسی تعویذوں کا استعمال جائز نہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :

"جو شخص تعویذ لٹکائے ، اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کو پورا نہ فرمائے اور جو سیپی وغیرہ لٹکائے ، اللہ تعالیٰ اسے آرام نہ دے۔"
اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ :

"جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔"

اگر تعویذ کا تعلق قرآن مجید یا معروف اور پاکیزہ دعاؤں سے ہو تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اسے انہوں نے مریض پر پڑھ کر دم کرنے کی طرح قرار دیا ہے۔

اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ بھی جائز نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) اور سیدنا حذیفہ (رضی اللہ عنہ) کے علاوہ سلف و خلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے کہ تعویذ لٹکانا جائز نہیں خواہ وہ قرآنی الفاظ پر مشتمل ہو تاکہ سد ذریعہ ہو ، مادۂ شرک کی بیخ کنی ہو اور عموم کے مطابق عمل ہو کیونکہ وہ احادیث جن میں تعویذوں کی ممانعت ہے ، وہ عام ہیں اور ان میں کسی استثنائی صورت کا ذکر نہیں ، لہذا واجب یہ ہے کہ عموم کے مطابق عمل کیا جائے اور وہ یہ کہ :

کسی بھی قسم کے تعویذ کا استعمال جائز نہیں کیونکہ قرآنی تعویذوں کا استعمال پھر غیر قرآنی تعویذوں تک پہنچا دیتا ہے اور معاملہ خلط ملط ہو جاتا ہے لہذا واجب یہ ہے کہ تمام قسم کے تعویذوں کے استعمال کی ممانعت ہو اور واضح دلیل کی وجہ سے یہی موقف درست ہے۔

اگر ہم قرآن اور پاکیزہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ کو جائز قرار دے دیں تو پھر اس سے دروازہ کھل جائے گا اور ہر شخص جیسا چاہے گا تعویذ استعمال کرے گا ، اور اگر منع کیا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ تو قرآن یا پاکیزہ دعاؤں پر مشتمل ہے۔ اس طرح دروازہ کھل جائے گا ، شگاف بڑا ہو جائے گا اور ہر طرح کے تعویذوں کا استعمال ہونے لگے گا۔

تعویذوں کی ممانعت کی ایک تیسری وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ آدمی ان کے ساتھ بیت الخلاء اور دیگر گندی جگہوں پر بھی چلا جاتا ہے جبکہ یہ جائز نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو لے کر بیت الخلاء یا کسی گندی جگہ میں جائے۔

لنک
جزاک اللہ احسن جزا
 
Top