• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!
اشماریہ صاحب اوپر سے فرماتے ہیں، کہ واضح ترجمہ کرو! جیسے یہ جو ترجمہ کیا گیاہے واضح نہ ہو! اب کسی کی اردو اس قدر کمزور ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور!!
اردو آپ کی ماشاء اللہ سے اتنی زبردست ہے کہ نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہے، یہ قاضی اور قاضی جیسی حيثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، اور حد تو یہ ہوئی کہ مذکورہ ترجمہ میں ضمیر کا مرجع بھی سمجھ نہیں آیا، اور نہ ترجمہ سمجھ آیا کہ واضح ترجمہ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اب جب میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کو چاہئے کہ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
اشماریہ بھائی! یہ بات آپ کو متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہے، ہاں ایک کام کر سکتا ہوں کہ آپ کو کچھ لغت کی کتابوں کا لنک دیئے دیتا ہوں، ان کتب سے استفادہ حاصل کریں۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابن داود بھائی! میں یہاں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے نہیں بیٹھا۔ لہذا براہ کرم نہ میرے فہم کو آزمانے کی کوشش کریں اور نہ کتب کے لنکس دیں۔ جو چیز پوچھی جائے وہ بتا دیا کریں۔ میں بسااوقات اس لیے پوچھتا ہوں کہ آپ کی بات کا غلط مطلب نہ نکال لوں کیوں کہ پھر آپ خود استفسار کا حکم فرماتے ہیں۔ تو جب پوچھتا ہوں تو اسی وقت بتا دیا کریں۔ شکریہ

اسی ترجمہ میں موجود ہے کہ ان ضمیروں کا مرجع کیا ہے! اور یاد رہے کہ ترجمہ بالکل واضح ہے! میں پھر بھی ان کو مارک کر دیتا!
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور
میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''

لیجئے جناب اب اعتراض کیجئے! بتایئے اب کہ ہم نے غلط مرجع بتلایا ہے! مگر بھائی جان ! یاد رہے کہ مجھ کہ یہ ترجمہ بھی آپ کے حنفی بھائی کا ہے!

مگر میں آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو پہلے ہی باند ھ دیتا ہوں لیجئے جناب! اپنے دیوبندی علماء کا ترجمہ ، جس پر آپ کے عبد الرشید نعمانی صاحب کا مقدمہ بھی ہے:
مالک ۔ نافع ۔ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ رجم کے متعلق تم توریت میں کیا پاتے ہو تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ ان دونوں کو رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو ان سے عبد اللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹے ہو، تورات میں سنگسار کر دینے کا حکم ہے۔ تم توریت لاؤ جب ان لوگوں نے لایا اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی آیتیں پڑھیں عبد اللہ بن سلام نے فرمایا اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب ہاتھ اٹھایا تو وہیں پر رجم کر دینے کی آیت تھی۔ عبد اللہ بن سلام نے کہا آپ نے سچ کہا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اس میں رجم کی آیت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کر دینے کا حکم صادر فرمایا اور انہیں سنگسار کیا۔ حضرت ابن رعمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے اس مرد کو دیکھا کہ اس عورت کو پتھر سے بچانے کیلئے اس عورت پر جھک جاتا تھا۔
امام محمد نے کہا کہ ہم ان سب پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان آزاد مرد کسی عورت سے زنا کرے اور وہ اس سے پہلے کسی عورت سے نکاح کرچکا ہو اور اس کے ساتھ جماع بھی کرچکا ہو تو اس صورت میں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ اور یہی شخص محصن ہے اور اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو بلکہ صرف نکاح کیا ہو اور جماع نہ کیا ہو یا اس کے پاس یہودی یا نصرانی لونڈی ہے تو اس کے سبب سے محصن نہ ہوگا اور سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور اکثر فقہائے احناف کا یہی قول ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 316 – 317 موطا امام محمد مع ترجمہ اردو ۔ خواجہ عبد الوحید – محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی

اشماریہ بھائی ! یہاں ایک ایسا نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں، جس کا ہمارے اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، یہ نکتہ تو ہم نے اٹھایا ہی نہیں؛ کہ کسی آزاد مسلمان کو جس نے نکاح کیا اور جماع نہ کیا ہو، یا جس کے پاس یہودی یا عیسائی لونڈی ہو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا! کیونکہ وہ محصن شمار نہ ہوگا!
یہاں سے اشماریہ صاحب ! کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ یہاں تو مسلمان کو محصن نہ ہونے کی صورت میں رجم نہ کرنے کی بات ہے!
جبکہ ہمارا اعتراض یہ نہیں ہے، ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہاں صرف مسلمان کے رجم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہودی کو رجم نہ کیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اب آپ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں؟ کہ امام ابو حنیفہ ؒ، محمد بن الحسن الشیبانی کے نزدیک اور فقہ حنفیہ میں يہودیوں کے لئے رجم نہیں ہے؟

جزاک اللہ۔ آپ کے مارک کرنے پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ آپ کی بات درست ہے کہ یہاں مسلمان کو رجم نہ کرنے کا ذکر ہے۔ رہ گئے یہود تو ان کا یہاں ذکر ہی نہیں ہے۔ لہذا صرف یہ پیش کر کے یہ کہنا درست نہیں فقہ حنفیہ میں یہودی کو رجم نہیں کیا جائے گا۔
البتہ یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اپنے موقف پر آگے فقہ حنفی کا حوالہ پیش کر دیا۔
آپ کی آسانی کے لئے ایک دو عبارات آپ کے فقہاء کی پیش کر ہی دیتا ہوں:
بَاب الْإِحْصَان
مُحَمَّد عَن يَعْقُوب عَن أبي حنيفَة (رَضِي الله عَنْهُم) قَالَ لَا يكون الْإِحْصَان إِلَّا بَين الحرين الْمُسلمين العاقلين الْبَالِغين قد جَامعهَا بعد بلوغهما وهما على هَذِه الصّفة قَالَ أَرْبَعَة شهدُوا على رجل بِالزِّنَا فَأنْكر الْإِحْصَان وَله امْرَأَة قد ولدت مِنْهُ فَإِنَّهُ يرْجم فَإِن لم تكن ولدت مِنْهُ وَشهد عَلَيْهِ بالإحصان رجل وَامْرَأَتَانِ رجم وَإِن رَجَعَ شُهُود الاحصان فَلَا شَيْء عَلَيْهِم وَالله اعْلَم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 279 جلد 01 الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير - محمد بن الحسن الشيباني - محمد عبد الحي اللكنوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

اشماریہ بھائی! اب کرو خود اس کا ترجمہ، اور بتاو کہ یہاں مسلمان ہونا رجم کی شروط میں شامل ہے یا نہیں؟ یعنی کسی غیر مسلم کو رجم نہیں کیا جائے گا!
اشماریہ صاحب ! یہ فنکاری آپ اپنے مقلدین کو دکھایا کیجئے!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست

اشماریہ بھائی! یہ تو وہ مسئلہ ہے کہ ابن ابی شیبہ رحہمہ اللہ نے آپ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے رد میں جو کتاب، ''كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ'' اپنی مصنف میں لکھی ہے اس کا سب سے پہلا مسئلہ یہی بیان کیا ہے، اور ابن ابی شیبہ کس دور کے عالم و محدث تھے، یہ بتانی کی ضرورت تو نہیں!
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے پہلے چار احادیث درج کیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کا رجم کیا، اور پھر امام شعبی ؒ کا قول آپ کے امام صاحب کے مؤقف پر پیش کیا:
كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ
یہ کتاب ابو حنیفہ کی تردید میں ہے
هَذَا مَا خَالَفَ بِهِ أَبُو حَنِيفَةَ الْأَثَرَ الَّذِي جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ وہ مسائل ہیں جن میں ابو حنیفہ نے ان آثار کی مخالفت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔
مَسْأَلَةُ رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
یہودی مرد اور یہودیہ عورت کو رجم کرنے کا مسئلہ
حَدَّثَنَاأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً»
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کاحکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا "
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کو سنگسار (کرنے کا حکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً "
جابر بن عبداللہ رضی اللل عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا
حَدَّثَنَاابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيَّيْنِ أَنَا فِيمَنْ رَجَمَهُمَا»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا اور میں نے ان یہودیوں پر سنگ باری کی۔
حَدَّثَنَاجَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً " وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِمَا رَجْمٌ
شعبیؒ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نئ ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا۔ اور ابو حنیفہ کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ یہودی مرد و عورت پر سنگساری کا حکم نہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 277 جلد 07 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 351 - 352 جلد 12 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر ، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 80 - 81 جلد 13 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 53 - 54 جلد 20 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن، الرياض

جو روایت یہاں آپ نے رجم یہودی و یہودیہ سے متعلق پیش کی اس میں راوی حضرت عبد اللہ بن عمر رض ہیں۔ اور علامہ زیلعیؒ نے نصب الرایہ میں مسند اسحاق بن راہویہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے:
رواه إسحاق بن راهويه في "مسنده" أخبرنا عبد العزيز بن محمد ثنا عبيد الله عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من أشرك بالله فليس بمحصن"، انتهى. قال إسحاق: رفعه مرة، فقال: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ووقفه مرة، انتهى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
"ابن عمر رض سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو وہ محصن نہیں۔ اسحاق فرماتے ہیں: راوی نے کبھی مرفوعا ذکر کیا تو عن رسول اللہﷺ فرمایا اور کبھی موقوفا ذکر کیا۔"
3۔327 ط ریان

اس روایت کے تمام رواۃ متفقہ طور پر ثقات ہیں سوائے عبد العزیز بن محمد الدراوردی کے، جن کے بارے میں بعض نے جرح کی ہے۔ لیکن امام مالکؒ علامہ مزی کی تخریج کے مطابق انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح ابن معینؒ بھی۔ دراوردیؒ مدینہ کے ہیں اور ہیں بھی امام مالکؒ کے زمانے کے اس لیے امام مالکؒ کی توثیق ان کے بارے میں نہایت مضبوط ہے۔
ان کے زمانے میں ان کی حدیث کے مطابق امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک مدون کیا (الفقہ علی المذاہب الائمۃ الاربعہ) اور امام مالک نے ان کی توثیق بھی کی اس لیے بعد کے لوگ اگر ان پر جرح کریں تب بھی مالک اور ابو حنیفہ کے مسلک کو یہ جرح کوئی ضرر نہیں دے سکتی۔

اس روایت پر اعتراض ہے رفع اور وقف کا۔ اولا تو زیادتی ثقہ کے قاعدہ کے مطابق جب راوی ثقہ نے اسے مرفوع ذکر کر دیا تو یہ مرفوعا قبول ہے۔
اور ثانیا اگر یہ موقوف ہو تب بھی دو وجہ سے مضر نہیں:
اول: یہ حدود کا معاملہ ہے اور اس میں قیاس کا دخل نہیں اور غیر قیاسی چیز میں قول صحابی سنت رسول ﷺ کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔
ثانی: یہ موقوف ہونے کی صورت میں ابن عمر رض کا فتوی ہے اور راوی حدیث کا جب فتوی اس کی روایت کے خلاف ہو تو وہ حدیث قبول نہیں ہوتی۔

اس حدیث کے دیگر متابعات یہ ہیں۔ ان میں سے بعض کے رواۃ کمزور ہیں لیکن متابع بننے کے لیے کافی ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
شرح معانی الآثار للطحاوی 11۔446 ط رسالہ

نا دَعْلَجٌ , نا ابْنُ شِيرَوَيْهِ , نا إِسْحَاقُ , نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ».
سنن الدارقطنی 4۔178 ط رسالہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ، فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ»
مصنف ابن ابی شیبہ 5۔536 ط الرشد

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُضَارِبِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ثنا أَبِي، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أنبأ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
السنن الکبری للبیہقی 8۔375 ط العلمیۃ


اب یہاں تعارض ہو گیا رجم یہود کی حدیث اور اس حدیث کا (کیوں کہ یہود کا شرک تو قرآن کریم سے ثابت ہے) تو اس تعارض کو دفع بیہقیؒ نے یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس حدیث میں مراد احصان قذف ہے لیکن ان کی اس بات پر کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ صحیح دفع تعارض یہ ہے کہ یہود کے رجم کی حدیث نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔ اس پر دو دلیلیں ہیں:
اول: قولی حدیث فعلی حدیث پر راجح ہوتی ہے۔
ثانی: حدیث رجم یہود میں نبی ﷺ کی اور بھی خصوصیات ہیں جیسے تورات میں موجود حکم کی بالغیب خبر دینا اور تورات کے حکم کی تائید عملا کرنا۔

اگر اس پر کوئی رد کرنا ہو تو باحوالہ کیجیے گا۔ صرف آپ کی آراء قابل قبول نہیں ہوں گی۔
اشماریہ بھائی! اب میں اسے آپ کا تجاہل عارفانہ کہوں؟ یا ڈرامہ مقلدانہ؟
اشماریہ بھائی! اللہ کو جان دینی ہے، کچھ اللہ کا خوف کرو! اختلاف الگ چیز ہے، فہم و استدلال میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس طرح کی ڈرامے بازی تو نہ کرو!
آپ تو ماشاء اللہ! تخصص فی الفقہ کے طالب علم ہو! اب ایسے تو آپ نہیں ہو جیسے ایک عام تبلیغی ہوتا ہے! جنید جمشید اگر اسی بے سرو پا کی مار بھی دے تو وہ تو خیر معذور ہے، اسے کیا معلوم فقہ حنفی کیا ہے، محصن کسے کہتے ہیں؟ لیکن آپ ایسی باتیں کرو تو پھر اندازہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دانستہ دھوکہ دے رہے ہو! یا پھر ایک اتنہائی نکمے طالب العلم ہو، اور درس نظامی بس رٹہ لگا کر یا نقل کر کے پاس کیا ہے؟ کیونکہ فقہ حنفیہ کا درس نظامی کا فارغ، یہ تو عین ممکن ہے کہ وہ علم الحدیث میں کورا ہو، بلکل یوں وسمجھو کہ متقاضی ہی اس بات کا ہے، الا ماشاء اللہ! لیکن فقہ حنفی جو سات سال تک رگڑ رگڑ کر پڑھتے ہو، اور پھر آخر ی سال دور حدیث میں فقہ حنفی کو احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دینے کے لئے اٹکلی اسباب تلاش کرتے پھرتے ہو، تو فقہ حنفی سے تو اچھی طرح پڑھتے ہیں!
سجن سے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ان الفاظ کی کیا وجہ ہے؟ میں نے اس مندرجہ بالا مسئلہ کے بارے میں پیچھے ایسی کون سی بات کی تھی جو مجھے اس طرح کے الفاظ سنائے جارہے ہیں؟؟
شرم آنی چاہیے اس طرح بولتے ہوئے۔ کیا اس طرح آپ اپنے متبعین کو یہ دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ آپ نے بہت مضبوط بات کی ہے اور آپ ہی حق پر ہیں؟
کیا یہ آپ کا فورم ہے تو آپ اس زعم میں آکر اس طرح کے جملے بول رہے ہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ صاحب! جواب مکمل ہونے پر بتلا دیجئے گا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! یہ تو آپ خودبیچ میں آیت رجم کی بات لائے تھے، مجھے کیوں الزام دیتے ہو!
ميں یہی کہتا رہاہوں کہ بھائی جان ! ہمارا استدلال آیت رجم سے نہیں!
اشماریہ بھائی! یہ بھی خوب کہی، اردو آپ کو سمجھ نہیں آرہی، خود کچھ کرنا نہیں، کم از کم لغت ہی اٹھا کر دیکھ لیتے، مگر ہمیں کہتے ہیں، کہ یہ تکلیف بھی آپ ہی کریں، اور آپ کو فرق بتائیں! اشماریہ بھائی! آپ تو بڑے نکمے نکلے!
آپ کو یہ بات متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ آپ کو ہم لغت تو پڑھانے سے رہے، اتنا بتلا دیتے ہیں کہ آپ کو اوپر فرہنگ آصفیہ کا لنک دیا ہے ، وہاں دیکھ لیجئے!
زبردست جناب! اسی کو کہتے ہیں عزائم بلند رکھنا!
بھائی کو موطا امام مالک کی عبارت کا ترجمع واضح معلوم نہ ہوا! نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہوا ہے، نہ قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، مگر بھائی کے جذبہ کی داد دینی چاہئے، پھر بھی اشعار کی بحر کی تلاش میں ہیں!
اشماریہ بھائی! اب کیا آپ ہم سے یہ توقع بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم کو علم عروض بھی پڑھائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو بھائی! یہ ممکن نہیں!
خیر ایک شعر میں آپ کی لیاقت کا خیال کرتے ہوئے لکھتا ہوں، بتلائے گا کہ آپ کو اس کی بحر معلوم ہوئی!
بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ


اشماریہ بھائی! ميں نے آپ کی تحریر بالکل پڑھی بھی اور اس کو بالکل درست سمجھا بھی اور آپ کے مؤقف کا نقص بھی بتلایا، کہ آپ اپنا سارا مدعا ان الفاظ کہ ''فيه ضعف'' پر کھڑا کر رہے ہو، جبکہ امام الذہبی رحمہ اللہ نے سخت جراح بیان کرنے بعد یہ فرمایا ہے کہ ''اتفق علی ضعفه'' اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اس راوی میں تھوڑا بہت ضعف ہونے پار اتفاق ہے، بلکہ اس کا معنی ہے اس راوی کے ضعيف ہونے پر اتفاق ہے!
آپ کی بد ہواسی کا عالم یہ ہے کہ امام الذہبی کے کلام سے آپ عمر بن هارون کے مطلق یہ بیان کرتے ہو کہ اس میں تھوڑا بہت ضعف تھا، جس پر اتفاق ہے ، اور اسی عمر بن هارون کے متعلق، ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے کلام سے اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ اسے متروک کہا ہے اور متروک کا سبب متہم بالكذب ہوتا ہے!
اشماریہ صاحب! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ علم حدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
اشماریہ بھائی! اب کیا کہیں آپ کو! پچھلے پیراگراف میں امام الذہبیؒ کے کلام سے آپ یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ عمر بن ھارون میں صرف تھوڑا بہت ضعف ہے، اور یہاں آپ مجھے متروک کا سبب بتلا رہے ہو کہ عمر بن ھارون متہم بالكذب ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ کوئی اور عمر بن ھارون نہیں یہ وہی عمر بن ھارون ہے جس کا ذکر امام الذہبی ؒ کی عبارت میں اوپر گزا!!! ابتسامہ۔۔۔۔
اشماریہ بھائی! کہیں آپ کا صلاۃ کے لغوی معنی کولہے مٹکانا بتلا کر بھنگڑے کو تو صلاۃ قرار دینے کا ارادہ تو نہیں کھتے؟
بھائی جان! علم الحدیث ميں جو اصطلاح استعمال ہوتی ہیں اس کا مفہوم محدثین کے کلام سے ہی اخذ کیا جائے گا! آپ کی اٹکل سے نہیں!
اشماریہ صاحب! یہ بھی آپ نے صحیح کہی، کہ ہماری بیان کردہ مثال کا بطلان اور فرق واضح ہے! حالانکہ آپ نے ایک بھی فرق بیان نہیں کیا، اور نہ ہی اس کا بطلان بتلایا ہے، سوائے اپنی اٹکل کے، اور آپ کی اٹکل کا بطلان تو ہم نے ہر ہر بار ثابت کیا ہے!
ایک تو یہ بھی عجب دلیل ہے کہ بطلان واضح ہے؟ پوچھو بطلان کیا ہے، جواب دیا جائے اظہر من الشمس ہے!

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میں ایک بار پھر وضاحت کے ساتھ اپنی بات بیان کر دیتا ہوں۔ اگر آپ اس بار بھی نہیں سمجھ پائے تو پھر اس کے لیے ایک باقاعدہ تھریڈ بنا کر وہاں تفصیلا اس پر بحث کر لیں گے۔ یہ تھریڈ تقلید کے بارے میں ہے اور اثناء کلام میں اگر ایک بات چل نکلے تو اسی پر سارے صفحات بھرے نہیں جا سکتے۔

اول: جرح کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
ایک جرح کسی شخص کے حافظے پر ہوتی اور دوسری اس کی عدالت پر۔
علامه ابن حجر عسقلانیؒ نزہۃ النظر میں لکھتے ہیں:
ثمَّ الطَّعْنُ يكونُ بعشرةِ أَشياءَ، بعضُها يكون أَشدُّ في القَدْحِ مِن بعضٍ ، خمسةٌ منها تتعلَّقُ بالعدالَةِ، وخمسةٌ تتعلَّقُ بالضَّبْطِ.
1۔87 ط مطبعۃ الصباح


اس کی شرح میں ملا علی قاریؒ (جن کے بارے میں کچھ آپ یہاں سے جان سکتے ہیں http://islamqa.info/ar/225410۔ یہ صرف ان کے لیے ہے جو انہیں قابل استناد نہیں مانتے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مانیں یا نہ مانیں دنیا انہیں مانتی ہے۔ پھر اگر چمگادڑ کو آفتاب نظر نہ آئے تو آفتاب کا کیا قصور۔) لکھتے ہیں:
ثمَّ الطعْن) أَي فِي رجال الْإِسْنَاد، (يكون بِعشْرَة أَشْيَاء) كَمَا سَيَجِيءُ مُجملا ومفصلاً (بَعْضهَا يكون أَشد فِي الْقدح) أَي فِي الطعْن وَالْجرْح (من بعضٍ: خمسةٌ مِنْهَا) أَي من الْعشْرَة، (تتَعَلَّق بِالْعَدَالَةِ) وَهِي الْكَذِب، والتهمة، وَالْفِسْق والجهالة، والبدعة. (وَخَمْسَة تتَعَلَّق بالضبط،) وَهِي الْخَمْسَة الْبَاقِيَة.
تو پانچ چیزیں جن کا تعلق عدالت سے ہے یعنی راوی کے تدین سے وہ یہ ہیں: کذب، تہمت، فسق، جہالت اور بدعت۔
اور پانچ چیزیں جن کا تعلق راوی کے حافظے یا ضبط سے ہے وہ یہ ہیں: فحش الغلط، غفلت، وہم، مخالفت ثقات، سوء الحفظ
ان میں سے ہر ایک کے لیے الفاظ ہیں اور جس قسم کی جرح کا لفظ ہو وہی قسم ثابت ہوتی ہے دوسری نہیں۔
جس طرح جرح کے الفاظ الگ ہیں اسی طرح تعدیل کے لیے بھی الگ الگ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

ثانی: الفاظ جرح و تعدیل اپنے معانی کے اعتبار سے ہوتے ہیں یعنی لغۃ جس کا معنی تعدیل کا ہوگا وہ لفظ تعدیل اور جس کا معنی جرح کا ہوگا وہ لفظ جرح ہوگا۔
وللجرح مراتب:
أسوأُها الوَصْفُ بما دلَّ على المُبالَغَةِ فيهِ،
نزہۃ النظر 1۔256 ط مطبعۃ سفیر

"اور جرح کے مراتب ہیں: سب سے برا وہ ہے جو صفت ہو ایسی چیز کے ساتھ جو اس صفت میں مبالغہ پر دلالت کرے۔"
یہ چیز لغت اور صرف سے ہی معلوم ہوتی ہے۔

لفظ حافظ بھی الفاظ تعدیل میں سے ایک ہے۔ ابن حجرؒ اسی نزہۃ النظر میں فرماتے ہیں:
ثمَّ ما تَأَكَّدَ بصفةٍ مِن الصِّفاتِ الدَّالَّةِ على التعديل، أو وصفين
"پھر وہ الفاظ ہیں جو موکد ہوں ان صفات میں سے کسی ایسی صفت سے جو تعدیل پر دلالت کرتی ہیں یا دو وصفوں سے۔"
اور ان الفاظ کی مثال میں فرمایا ہے أَوْ ثقةٍ حافظٍ۔ تو اس سے پتا چلا کہ حافظ بھی الفاظ یا صفات تعدیل میں سے ایک ہے۔

علامہ مناویؒ نے تو اسے الگ سے وضاحت کے ساتھ الفاظ تعدیل میں ذکر کیا ہے
(الیواقیت و الدرر 1۔218 ط الرشد)

جب یہ دو پوائنٹ آپ کو معلوم ہو گئے تو اب میں عرض کرتا ہوں کہ حافظ ابن حجرؒ نے عمر بن ہارون کو متروک قرار دیا ہے اور متروک کی تعریف ہے:
وهو ما يكون بسببِ تُهمة الراوي بالكذب (نزہۃ النظر)
اور اوپر گزر چکا ہے کہ تہمت کا تعلق عدالت راوی سے ہے۔
علامہ ذہبیؒ نے انہیں حافظ قرار دیا ہے اور یہ لفظ تو واضح ہے کہ حافظہ اور ضبط کے بارے میں ہے۔ اس لیے ابن حجر کی جرح اور ذہبی کی اس تعدیل میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
اب رہ گئی بات ذہبی کے ان کے بارے میں ضعف کے تذکرہ کی۔ تو ایک طرف تو ذہبی نے انہیں حافظ قرار دیا ہے اور ابن حجر اور مناوی کے حوالوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ لفظ تعدیل ہے اور دوسری جانب ان میں ضعف کا ذکر کر رہے ہیں۔ تو اس تعارض کو ہم اس طرح دفع کریں گے کہ "ضعف" میں تنوین تقلیل کی ہے۔ یعنی وہ حافظ ہیں لیکن تھوڑا سا ضعف بھی ہے۔ اور تھوڑا سا ضعف تو بہت سے حفاظ میں ہوتا ہے۔ شعبہ جیسے راوی کے بارے میں علامہ مبارکپوریؒ نے تحفۃ الاحوذی میں اس قسم کی جرح کی ہے۔
"اتفق علی ضعفہ" میں اسی ضعف قلیل کا ذکر ہے۔ لیکن اگر آپ میری بات سے غیر متفق ہیں تو پھر آپ اس تعارض کو ختم کرنے کا اور کوئی طریقہ بیان فرما دیں۔

اور اگر میری باتوں کا رد کرنا ہو تو جس طرح میں نے باحوالہ عرض کی ہیں اسی طرح آپ بھی عرض کیجیے گا۔

اشماریہ بھائی ! ان اہل الرائے حنفیوں کی علم الحدیث میں لیاقت اور اہلیت تو آپ کو بتلا چکے ہیں! آپ کی یاد دہانی کے لئے ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
علامہ شہرستانی ؒ، وہی جن کا حوالہ آپ نے ارجاء کے حوالے سے پیش کیا تھا، اور اسی کتاب'' الملل والنحل ''، جس سے آپ نے حوالہ پیش کیا تھا، اصحاب الرأي کا تعارف اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
أصحاب الرأي:
وهم أهل العراق هم: أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت. ومن أصحابه: محمد بن الحسن، وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي، وزفر بن الهذيل، والحسن بن زياد اللؤلؤي، وابن سماعة، وعافية القاضي، وأبو مطيع البلخي، وبشر المريسي.
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.
اصحاب الرائے : یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب محمدؒ ، قاضی ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، حسن بن زیادؒ ، ابن سماعہؒ، عافیہ القاضیؒ، ابو مطیع بلخیؒ اور بشر المریسی وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے مستنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 جلد 02 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 - 221 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی دو کتابوں میں ان امور پر مفصل گفتگو کی ہے، ان دو کتابوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اہل الرائے کا تعارف، اور ان کا طرز استدلال اور ان کی صلاحیتوں کو بھی بیان کیا ہے، کچھ باتیں آپ کو پیش کرتے ہیں:
وَمِنْهَا أَنِّي وجدت أَن بَعضهم يزْعم أَن هُنَالك فرْقَتَيْن لَا ثَالِث لَهما، أهل الظَّاهِر، وَأهل الرَّأْي، وَأَن كل من قَاس، واستنبط فَهُوَ من أهل الرَّأْي - كلا وَالله - بل لَيْسَ المُرَاد بِالرَّأْيِ نفس الْفَهم وَالْعقل،فَإِن ذَلِك لَا يَنْفَكّ من أحد من الْعلمَاء، وَلَا الرَّأْي الَّذِي لَا يعْتَمد على سنة أصلا، فانه لَا يَنْتَحِلهُ مُسلم أَلْبَتَّة، وَلَا الْقُدْرَة على الاستنباط وَالْقِيَاس، فان أَحْمد وَإِسْحَق بل الشَّافِعِي أَيْضا لَيْسُوا من أهل الرَّأْي بالِاتِّفَاقِ، وهم يستنبطون ويقيسون، بل المُرَاد من أهل الرَّأْي قوم توجهوا بعد الْمسَائِل الْمجمع عَلَيْهَا بَين الْمُسلمين، أَو بَين جمهورهم إِلَى التَّخْرِيج على أصل رجل من الْمُتَقَدِّمين، فَكَانَ أَكثر أَمرهم حمل النظير على النظير، وَالرَّدّ إِلَى أصل من الْأُصُول دون تتبع الْأَحَادِيث والْآثَار، والظاهري من لَا يَقُول بِالْقِيَاسِ، وَلَا بآثار الصاحبة وَالتَّابِعِينَ كدواد وَابْن حزم، وَبَينهمَا الْمُحَقِّقُونَ من أهل السّنة كأحمد وَإِسْحَاق،
ان مسائل مشکلہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں نے بعض لوگوں کو پایا ہے کہ ان کا یہ خیال ہے کہ یہاں دو دفریق ہی، کوئی تیسرا فریق نہیں ہے، ایک اہل الظاہر ہیں اور ایک اہل الرائے ہیں اور ہر وہ شخص جو قیاس و استنباط کرتا ہے وہ اہل الرائے میں سے ہے، واللہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ رائے سے مراد نہ تو نفس فہم و عقل ہے اس واسطے کہ یہ ہر عالم میں موجود ہے، اور نہ وہ رائے مراد ہے جس کی سنت پر بالکل بنیاد نہ ہو اس واسطے کہ اس کو تو کوئی مسلمان بھی اپنی طرف منسوب نہ کرے گا اور نہ استنباط و قیاس پر قادر ہونا مراد ہے اس واسطے کہ امام احمد و اسحٰق بلکہ امام شافعی بھی بالاتفاق اہل الرائے میں سے نہ تھے حالانکہ وہ استنباط اور قیاس کرتے تھے، بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان مسائل کے بعد جن پر جمہور مسلمین متفق ہیں متقدمین میں سے کسی کے قول پر تخریج کرنے کی طرف توجہ کی۔
پس ان کا اکثر کام یہ ہے کہ وہ بجائے احادیث و آثار میں تتبع (تلاش و جستجو) کرنے کے ایک نظیر کو دوسری نظیر پر حمل کرتے ہیں اور اصول میں کسی اصل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اور ظاہری وہ شخص ہوتا ہے جو نہ قیاس کا قائل ہے اور نہ صحابہ و تابعین کے آثار کا، جیسے داؤد اور ابن حزم ہیں، اور ان دونوں فریق کے درمیان محققین اہل سنت ہیں جیسے امام احمد و اسحٰق۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 273 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 383 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 93 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 ۔ 65 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(بَاب الْفرق بَين أهل الحَدِيث وَأَصْحَاب الرَّأْي)
فَوَقع تدوين الحَدِيث وَالْفِقْه والمسائل من حَاجتهم بموقع من وَجه آخر وَذَلِكَ أَنه لم يكن عِنْدهم من الْأَحَادِيث والْآثَار مَا يقدرُونَ بِهِ على استنباط الْفِقْه على الْأُصُول الَّتِي اخْتَارَهَا أهل الحَدِيث، وَلم تَنْشَرِح صُدُورهمْ للنَّظَر فِي أَقْوَال عُلَمَاء الْبلدَانِ وَجَمعهَا والبحث عَنْهَا، واتهموا أنفسهم فِي ذَلِك وَكَانُوا اعتقدوا فِي أئمتهم أَنهم فِي الدرجَة الْعليا من التَّحْقِيق، وَكَانَ قُلُوبهم أميل شَيْء إِلَى أصاحبهم كَمَا قَالَ عَلْقَمَة: هَل أحد مِنْهُم أثبت من عبد الله؟ وَقَالَ أَبُو حنيفَة: إِبْرَاهِيم أفقه من سَالم، وَلَوْلَا فضل الصُّحْبَة لَقلت: علقمه أفقه من ابْن عمر، وَكَانَ عِنْدهم من الفطانة والحدس وَسُرْعَة انْتِقَال الذِّهْن من شَيْء إِلَى شَيْء مَا يقدرُونَ بِهِ على تَخْرِيج جَوَاب الْمسَائِل على أَقْوَال أَصْحَابهم " وكل ميسر لما خلق لَهُ ". {كل حزب بِمَا يهم فَرِحُونَ} .
فهمدوا الْفِقْه على قَاعِدَة التَّخْرِيج، وَذَلِكَ أَن يحفظ كل أحد كتاب من هُوَ لِسَان أَصْحَابه وأعرفهم بأقوال القَوْل وأصحهم نظرا فِي التَّرْجِيح، فيتأمل فِي كل مَسْأَلَة وَجه الحكم، فَكلما سُئِلَ عَن شَيْء، أَو احْتَاجَ إِلَى شَيْء رأى فِيمَا يحفظه من تصريحات أَصْحَابه، فَإِن وجد الْجَواب فِيهَا، وَإِلَّا نظر إِلَى عُمُوم كَلَامهم، فأجراه على هَذِه الصُّورَة، أَو إِشَارَة ضمنية لكَلَام، فاستنبط مِنْهَا ... ، وَرُبمَا كَانَ لبَعض الْكَلَام إِيمَاء أَو اقْتِضَاء يفهم الْمَقْصُود، وَرُبمَا كَانَ للمسألة الْمُصَرّح بهَا نَظِير يحمل عَلَيْهَا، وَرُبمَا نظرُوا فِي عِلّة الحكم الْمُصَرّح بِهِ بالتخريج أَو باليسر الْحَذف، فأداروا حكمه على غير الْمُصَرّح بِهِ، وَرُبمَا كَانَ لَهُ كلامان لَو اجْتمعَا على هَيْئَة الْقيَاس الاقتراني أَو الشرطي أنتجيا جَوَاب الْمَسْأَلَة، وَرُبمَا كَانَ فِي كَلَامهم مَا هُوَ مَعْلُوم بالمثال وَالْقِسْمَة غير مَعْلُومَة بِالْحَدِّ الْجَامِع الْمَانِع، فيرجعون إِلَى أهل اللِّسَان، ويتكلفون، فِي تَحْصِيل ذاتياته، وترتيب حد جَامع مَانع لَهُ، وَضبط مبهمه وتمييز مشكلة، وَرُبمَا كَانَ كَلَامهم مُحْتملا بِوَجْهَيْنِ فَيَنْظُرُونَ فِي تَرْجِيح أحد المحتملين، وَرُبمَا يكون تقريب الدَّلَائِل خفِيا، فيبينون ذَلِك، وَرُبمَا اسْتدلَّ بعض المخرجين من فعل أئمتهم وسكوتهم وَنَحْو ذَلِك، فَهَذَا هُوَ التَّخْرِيج وَيُقَال لَهُ القَوْل الْمخْرج لفُلَان كَذَا، وَيُقَال على مَذْهَب فلَان، أَو على أصل فلَان، أَو على قَول فلَان جَوَاب الْمَسْأَلَة كَذَا وَكَذَا، وَيُقَال لهَؤُلَاء: المجتهدون فِي الْمَذْهَب، وعنى هَذَا الاحتهاد على هَذَا الأَصْل من قَالَ من حفظ الْمَبْسُوط كَانَ مُجْتَهدا، أَي وَإِن لم يكن لَهُ علم بِرِوَايَة أصلا، وَلَا بِحَدِيث وَاحِد فَوَقع التَّخْرِيج فِي كل مَذْهَب، وَكثر، فَأَي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه مشهورين وسد إِلَيْهِم الْقَضَاء والافتاء، واشتهر تصانيفهم فِي النَّاس، ودرسوا درسا ظَاهرا انْتَشَر فِي أقطار الأَرْض، وَلم يزل ينتشر كل حِين، واي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه خاملين، وَلم يولوا الْقَضَاء والافتاء وَلم يرغب فيهم النَّاس اندرس بعد حِين.
اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین فرق کے بیان میں
پس حدیث، فقہ اور مسائل کو دوسرے طرز پر مدوّن کرنے کی ضرورت واقع ہوئی اور یہ اس واسطے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہ تھے جن سے ان اصول کے موافق جن کو اہل حدیث نے پسند کیا ہے استنباطِ فقہ پر قادر ہوتے اور ان کو یہ پسند نہ تھا کہ علماء بلاس کے اقوال میں غور کرتے، ان کو جمع کرتے اور ان سے بحث کرتے بلکہ اس امر میں ان کو متہم سمجھا، اور ان کا اپنے اماموں کے متعلق یہ اعتماد تھا کہ وہ نہایت درجہ کے محقق ہیں اور ان کے دلوں کا میلان سب وہ سب سے زیادہ اپنے اصحاب کی طرف ہی تھا، جیسے علقمہ کا قول ہے کہ کوئی صحابی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ راسخ العلم نہیں ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا تھا ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اگر صحابی ہونے کی فضیلت نہ ہوتی تو میں یہ بھی کہہ دیتا کہ علقمہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ فقیہ ہیں لیکن ان لوگوں میں فطانت اور سمجھ اور ایک شئی سے دوسری شئی کی طرف ذہن کا سرعتِ انتقال اس درجہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اصحاب کے اقوال کے مطابق جواب مسائل کی تخریج بخوبی کرسکتے تھے، اور جس شخص کی پیدائش میں جو چیز ہوتی ہے وہ اس کے لئے سہل ہو جایا کرتی ہے (ہر گروہ اپنے اس طریقہ پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے) اس طرح پر انہوں نے تخریج کے قاعدہ پر فقہ کی ترتیب دی اور وہ یہ کہ ایک اس شخص کی کتاب کو محفوظ رکھتا تھا جو ان کے اصحاب کی زبان اور علماء کے اقوال کا زیادہ واقف اور ترجیح میں جس کی نظر سب سے زیادہ صحیح ہوتی تھی، اس واسطے وہ ہر مسئلہ میں ھکم کی وجہ میں غور کر سکتا تھا پس جب کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جاتا یا اس کو کسی امر کی ضرورت پیش آتی تو وہ اپنے اصحاب کی تصریحات میں غور کرتا جو اس کو محفوظ ہوتی تھیں اگر ان میں جواب مل جاتا تو فبہا ورنہ ان کے عموم کلام کو دیکھتا اور اس مسئلہ جو اس عموم پر جاری کرتا یا کلام کے ضمنی اشارہ کو دیکھتا اور اس سے جواب مسئلہ مستنبط کر لیتا، کبھی بعض کلام میں کوئی اشارہ یا اقتضاء ہوا کرتا تھا جس سے امر مقصود و مفہوم ہو جایا کرتا تھا، اور کبھی مسئلہ مصرح کی کوئی نظیر ہوتی تھی جس پر اصل مسئلہ کو حمل کر لیا کرتے تھے اور کبھی وہ حکم مصرح کی علت میں بتخریج یا با یُسر وحذف غور کرتے تھے، اور اس کے حکم کو غیر مصرح میں ثابت کرتے تھے، اور کبھی کسی عالم کے دو قول ہوتے تھے کہ اگر ایک کو قیاس اقترانی یا شرطی کی ہیئت پر جمع کر لیتے تو جواب مسئلہ کا اس سے حاصل ہو جاتا، اور کبھی ان کے کلام میں بعض امور مثال اور تقسیم سے معلوم ہوتے تھے لیکن ان کی تعریف جامع اور مانع معلوم نہ تھی اس واسطے وہ فقہاء اہل زبان کی طرف رجوع کرتے تھے اور اس شئی کے ذاتیات حاصل کرنے میں اس کی جامع مانع تعریف مرتب کرنے میں، اس کے مبہم کو ضبط کرنے میں، اور اس کے مشکل کو ممیز کردینے میں کوشش کرتے تھے، اور کبھی ان کے کلام میں دو وجوہ کا احتمال ہوتا تھا، پس وہ دونوں میں سے ایک کو ترجیح دینے میں غور کرتے تھے، اور کبھی دلائل کی ادائیگی میں خفا ہوتا ہے پس یہ فقہاء اس کو صاف صاف بیان کردیتے ہیں، اور کبھی کبھی بعض اصحاب تخریج نے اپنے ائمہ کے فعل اور ان کے سکوت وغیرہ سے استدلال کیا ہے، پس ان طرقِ مذکورہ کو تخريج کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے قول کی اس طرح تخریج کی ہے اور کہا جاتا ہے فلاں مزہب کے موافق یا فلاں شخص کے قاعدہ کے موافق یا فلاں شخص کے قول کے موافق مسئلہ کا جواب اس اس طرح ہے اور ان تخریج کرنے والوں کو مجتہدین فی المذہب کہا جاتا ہے، اور جس نے یہ کہا ہے کہ جس نے مبسوط کو یاد کرلیا وہ مجتہد ہے تو اس سے وہی اجتہاد مراد ہے جو تخریج سے متعلق ہے اگرچہ ایسے شخص کو روایت علم بالکل نہ کو اور اس کو ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو اس طرح ہر ایک مذہب میں تخریج واقع ہوئی اور اس کی کثرت ہو گئی، پس جس مذہب کے لوگ زمانہ میں مشہور ہو گئے اور ان کو عہدہ قضاء و استفتاء ملا اور ان کی تصانیف لوگوں میں مشہور ہوئیں اور انہوں نے عام طور پر درس دینا شروع کیا تو وہ مذہب اطراف عالم میں پھیل گیا اور ہمیشہ اس کی شہرت ہوتی رہی اور جس مذہب کے لوگ گمنام رہے اور ان کو منصب قضاء وافتاء نہ ملا اور لوگوں نے ان میں رغبت نہ کی تو وہ چند روز بعد نابود ہوگیا۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 259 - 260 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 352 ۔ 355 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 61 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 ۔ 35 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

یہی نہیں بلکہ اہل لرائے کے اٹکل پچّو قیاسات کے متعلق فرماتے ہیں:
وَإِذا تحققت هَذِه الْمُقدمَة اتَّضَح عنْدك أَن أَكثر المقاييس الَّتِي يفتخر بهَا الْقَوْم، ويتطاولون لأَجلهَا على معشر أهل الحَدِيث يعود وبالا عَلَيْهِم من حَيْثُ لَا يعلمُونَ.
جب تم کو اس مقدمہ کی تحقیق ہو گئی تو یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ اکثر قیاسات جن پر لوگ فخر کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ جماعت اہل حدیث پر فوقیت ظاہر کرتے ہیں خود انہی کے لئے وبال ہیں جس کی انہیں خبر بھی نہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 228 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 290 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی

مندرجہ بالا علامہ شہرستانی ؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریر سے کچھ باتیں عیاں ہیں کہ:
امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اہل الرائے ہیں، اور ان کے پاس بہت کم احادیث اور آثار تھے، یعنی کہ انہیں احادیث و آثار کا بہت کم علم تھا، نہ ہی ان میں اتنی لیاقت تھی کہ یہ احادیث و آثار سےمحدثین کے اصولوں کے مطابق استدلال و استنباط کر پاتے، اور نہ انہیں احادیث و آثار اور دیگر علماء کے اقوال کی تلاش و جستجو میں کوئی دلچسی تھی، بلکہ وہ اپنے استاد کے قول پر تخریج مسائل کرتے تھے۔ حتی حدیث سے بالکل جاہل یہاں تک کہ اسے ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو، وہ بھی اہل الرائے کا مجتہد فی المذہب ہو سکتا ہے، بس اسے اپنے مجتہد کے اقوال یاد ہوں!

اشماریہ بھائی!

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

اور اگر قاضی عیاضؒ کی ہی عبارت دیکھ لیتے، جہاں سے آپ نے ایک قول نقل کیا تھا، تو یہ اتنی بڑی گپ نہ چھوڑتے؛
قاضی عیاض ؒ کی مکمل عبارت یہ ہے:
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين.
ولهذا ما خالفه صاحباه محمد وأبو يوسف في نحو ثلث مذهبه إذ وجدوا السنن تخالفهم تركها لما ذكرناه عن قصد لتغليبه القياس وتقديمه أو لم تبلغه ولم يعرفها إذ لم يكن من مثقف علومه وبها شنع المشنعون عليه وتهافت الجراء على دم البراء بالطعن إليه.ثم ما تمسك به من السنن فغير مجمع عليه، وأحاديث ضعيفة ومتروكة وبسبب هذا تحزبت طائفة أهل الحديث على أهل الرأي وأساءوا فيهم القول والرأي.
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا يريد أنه تمسك بصحيح الآثار واستعملها، ثم أراهم أن من الرأي ما يحتاج إليه وتنبني أحكام الشرع عليه، وأنه قياس على أصولها ومنتزع منها.وأراهم كيفية انتزاعها، والتعلق بعللها وتنبيهاتها.
فعلم أصحاب الحديث أن صحيح الرأي فرع الأصل، وعلم أصحاب الرأي أنه لا فرع إلا بعد الأصل، وأنه لا غنى عن تقديم السنن وصحيح الآثار أولاً.
اور ابوحنیفہؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قیاس و اعتبار مقدم ہے سنن و آثار پر، اسی بنا پر انہوں نے (کئی جگہ )اصول کے نصوص کو ترک کرکے معقول سے تمسک کیا ہے، اور رائے ، قیاس اور استحسان کو (نصوص پر ) ترجیح دی ہے ؛ اور (اسی نصوص گریزی میں اتنا مبالغہ کیا کہ ) پھر (کئی ایک مقام پر ) استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیا ؛
اور بعض علماء نے استحسان کی تعریف یہ بیان کی ہے۔کہ استحسان (حکم کی علت سے صرف نظر کرکے )بے دلیل قول کی طرف جانے کا نام ہے ۔ اور یہ انتہائی قابل مذمت من پسندی ،اور خواہش پرستی ہے؛اور ایسا کرنا دین سازی اور بدعت ہے؛ حتی کہ امام شافعی فرماتے ہیں :جس نے استحسان کیا ،اس نے اپنی طرف سے دین گھڑا۔
اسی لئے ان کے دو اصحاب، محمدؒ ،اور ابو یوسفؒ نے ابو حنیفہؒ کے ایک تہائی مذہب کی مخالفت کی ہے ،جہاں انہوں نے سنت کو ان کے مذہب کے خلاف پایا اس کو چھوڑ دیا ۔جیسا کہ ہم نے ابوحنیفہؒ کا عمداً قیاس کا غلبہ اور قیاس کو نصوص پر مقدم کرنا بیان کیا ، یا اس لئے بھی انہوں سنن کے مخالف رائے کو اپنایا کہ انہیں ان سنن کا علم ہی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ احادیث کے علوم و فنون کی مہارت و فطانت سے دور تھے، اور اسی سبب لوگوں نے ان کی عیب جوئی کی اور ان پر طعن کے نشتر چلے، اور جن مسائل میں انہوں نے سنت کا دامن تھاما بھی ،تو اختلافی اسانید والی احادیث کو ماخذ بنالیا، یا ضعیف و متروک روایات کو بنیاد بنایا اور اسی سبب اہل الحدیث نے اہل رائے سے علیحدگی کی راہ لی اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر ان کے بارے سخت لہجہ استعمال کیا
امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ :ہم ہمیشہ (اہل الحدیث ) اہل الرائے پر ،اور وہ ہم پر لعنت ہی کرتے رہے ،حتی کہ امام شافعیؒآئے،انہوں نے ہمیں باہم ملایا، ان کا مطلب ہے کہ انہوں ایک طرف صحیح احادیث کو فقہی امور میں قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کیا ۔پھر دکھایا کہ بعض جگہ رائے (یعنی قیاس و استنباط ) کی بھی حاجت ہوتی ہے اور احکام شرع اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ رائے دراصل، احکام کا اپنے اصولوں پر قیاس ہے ،انہوں اس کی کیفیت سمجھائی اور بتایا کہ کیسے علت حکم کو دریافت کیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ (کے تدوین اصول فقہ )کے بعد اصحاب الحدیث نے سمجھا کہ صحیح رائے اصل کی فرع ہوتی ہے، اور اہل رائے نے یہ بات جان لی ۔۔کوئی فرع اصل کے بغیر نہیں ہوسکتی،اور (مصادر حکم کیلئے ) سب سے پہلےسنن اور صحیح آثار کو سب پر تقدیم دینا لازم ہے

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - المملكة المغربية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 39 – 40 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية، بيروت

اشماریہ بھائی! اسی عبارت کو جہاں سے آپ نے ایک جملہ پیش کیا تھا، اور پوری عبارت کو دیکھ لیتے تو آپ کومعلوم ہو جاتا کہ اہل الرائے اور ان کے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا علم الحدیث کتنا تھا، اور وہ سنن وآثار کے ساتھ کیا کیا کرتے تھے، کہ اپنے قیاس کے مقابلے میں سنن و آثار کو رد کردیا کرتے تھے!
اس بارے میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قول دیکھیں:
حدثني إبراهيم، ثنا أبو توبة، عن أبي إسحاق الفزاري، قال: قال الأوزاعي: «إنا لا ننقم على أبي حنيفة الرأي كلنا نرى، إنما ننقم عليه أنه يذكر له الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيفتي بخلافه»
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا بیشک ہم قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو برا نہیں سمجھتے ،ہم سارے قیاس کرتے ہیں، ہم اس لیے اسے برا سمجھتے ہیں کہ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی جاتی ہے تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف فتویٰ دیتا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

پھر بھی اشماریہ صاحب علم لحدیث میں دعوی رکھتے ہیں، اور اب تک تو بھائی نے سوائے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے کیا تو کچھ نہیں!

آپ کی ان باتوں کا جواب دیا جا چکا ہے۔

پہلے حوالے میں وجہ تسمیہ کا ذکر ہے اور میں نے طرز کا ذکر کیا ہے۔ تسمیہ کسی ایک خاص کام کی وجہ سے پڑ جاتی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ مسمی بہ اس کے علاوہ کوئی کام نہ کرتا ہو۔
دوسرے حوالے میں ذکر ہے "علی اصل رجل" کا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بعد کے لوگوں کا ذکر ہے۔ اور تیسرے حوالے سے بھی یہی معلوم ہو رہا ہے کیوں کہ اس سے پہلے شاہ ولی اللہؒ ابراہیم، علقمہ ابن مسعود رض وغیرہ کا ذکر کر چکے ہیں اہل الرائے میں۔ اب اس اقتباس میں جو بات کی ہے وہ ان حضرات پر منطبق نہیں ہوتی۔ میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔
چوتھے حوالے میں اہل الرائے کی بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی بحث ہے جو مقادیر کو سرے سے اصل ہی نہیں مانتے۔ صرف رقم کو اصل مانتے ہیں۔

پانچواں اور چھٹا حوالہ قاضی عیاض اور اوزاعیؒ کا دیا ہے۔ فقہ حنفی چوں کہ ان کا موضوع ہی نہیں رہا اس لیے اس کے بارے میں ان کی بات بھی قابل اعتماد نہیں ہے الا یہ کہ یہ حضرات اس پر دلیل پیش کر دیں۔ البتہ علم حدیث ان کا موضوع رہا ہے اس لیے قاضی عیاضؒ کی امام احمد کے بارے میں عبارت قابل اعتماد ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ یہ چھ حوالے آپ نے فضول دیے ہیں اور آپ ان میں سے اپنی بات پر کوئی دلیل نہیں لا سکتے۔ اگر آپ کو میری بات سے اختلاف ہو تو براہ کرم با حوالہ بات کیجیے گا۔ اگر انہی اقتباسات کے بارے میں بات کرنی ہو تو ان کے ترجمہ سے اپنی بات ثابت کیجیے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جان! ہم نے کب کہا کہ امام الذہبیؒ نے قوت حفظ سے انکار کیا ہے! ہم یہی تو آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ حافظ کہنے سے امام الذہبی کی جانب نے توثیق لازم نہیں آتی! آپ یہاں سے توثیق اخذ کرنے کے مدعی ہو!

اشماریہ صاحب! اب کہئے! کیااس حافظ کہنے سے کیا ابن خراش کی توثیق لازم آتی ہے؟
اشماریہ صاحب! یہی ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ حافظ کہنے سے توثیق لازم نہیں آتی!
اشماریہ بھائی! آپ نے جو باتیں دہرائی ہیں ان کا جواب ابھی ابھی اوپر گزرا ہے، لہذا اسے دوبارہ پیش نہیں کرتا، ہاں آپ نے مجھے جو عاقل کی صف سے خارج قرار دینے کی بات کی ہے، کوئی بات نہیں! میں آپ کی حالت سمجھ سکتا ہوں! اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کٹتی مرغی کو پھڑپھڑانے بھی نہ دیا جائے! آپ کی یہ پھڑپھڑاہٹ بے سبب نہیں ہے! اس کے کئی اسباب میں نے آپ کے لئے پیدا کئے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! آپ نے اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر حافظ کے لفظ سے توثیق کشید کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، مگر ایسا ہو نہیں سکتا! کیونکہ توثیق کے مفہوم، عدالت اور حفظ دونوں شامل ہوتے ہیں، لہٰذا جب تک عدالت ثابت نہ ہو، حافظ یا ضابط کے لفظ سے توثیق اخذ نہیں کی جا سکتی!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میں نے عرض کیا تھا:
جبکہ حافظ راوی کی توثیق ہے اس کے حفظ میں۔ نہ کہ اس کی عدالت میں۔
اگر آپ اس پر بضد ہیں کہ توثیق کے کے مفہوم میں عدالت اور حفظ دونوں شامل ہوتے ہیں تو میری بیان کردہ بات کو کسی اور لفظ سے تعبیر کر لیجیے۔ مجھے اعتراض نہیں۔ میں تو وضاحت سے کہہ رہا ہوں کہ حافظ سے عدالت ثابت نہیں ہوتی۔ پھر بھی آپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ توثیق کا جو مفہوم آپ نے مراد لیا ہے وہ میں نے مراد نہیں لیا اور یہ واضح ہے۔

اشماریہ بھائی! اب آپ اپنے اٹکل کے گھوڑوں کو خود واپس بلا لیں! کیونکہ اب ہم آپ کو مقدمہ ابن صلاح اور اس کی تشرح ، شرح فتح المغیث سے حوالہ پیش کرنے جارہے ہیں! جو آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو ذبح کرتے ہوئے، ہمارے مؤقف پر تصدیق کرے گی:
(الْأُولَى): قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: " إِذَا قِيلَ لِلْوَاحِدِ إِنَّهُ " ثِقَةٌ أَوْ مُتْقِنٌ " فَهُوَ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ ".
قُلْتُ: وَكَذَا إِذَا قِيلَ " ثَبْتٌ أَوْ حُجَّةٌ "، وَكَذَا إِذَا قِيلَ فِي الْعَدْلِ إِنَّهُ " حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ "، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 122 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الفكر، دمشق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 242 - 243 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 307 - 308 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار المعارف، القاهرة

كَأَنْ يُقَالَ فِيهِ: حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ ; إِذْ مُجَرَّدُ الْوَصْفِ بِكُلٍّ مِنْهُمَا غَيْرُ كَافٍ فِي التَّوْثِيقِ، بَلْ بَيْنَ [الْعَدْلِ وَبَيْنَهُمَا عُمُومٌ وَخُصُوصٌ مِنْ وَجْهٍ ; لِأَنَّهُ يُوجَدُ بِدُونِهِمَا، وَيُوجَدَانِ بِدُونِهِ، وَتُوجَدُ الثَّلَاثَةُ] .
وَيَدُلُّ لِذَلِكَ أَنَّ ابْنَ أَبِي حَاتِمٍ سَأَلَ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ رَجُلٍ، فَقَالَ: " حَافِظٌ، فَقَالَ لَهُ: أَهُوَ صَدُوقٌ؟ " وَكَانَ أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ مِنَ الْحُفَّاظِ الْكِبَارِ، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يُتَّهَمُ بِشُرْبِ النَّبِيذِ وَبِالْوَضْعِ، حَتَّى قَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ أَضْعَفُ عِنْدِي مِنْ كُلِّ ضَعِيفٍ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 280 – جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي - مكتبة دار المنهاج، الرياض

اشماریہ صاحب! اب کہئے! کیا کیا فرمائیے گا؟
اشماریہ صاحب یہاں تو صریح الفاظ میں اصول بتلا دیا گیا کہ ''حافظ'' اور ''ضابط '' کے کسی عادل کے متعلق کہے گئے یہ الفاظ توثیق پر دلالت کرتے ہیں، اور اگر یہ الفاظ ایسے راوی کے متعلق ہو جو عادل نہیں تو یہ الفاظ یعنی'' حافظ'' اور ''ضابط'' توثیق کا فائدہ نہیں دیتے!
اور جب ہم آپ کو یہی بات امام الذہبیؒ اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ کے کلام سے سمجھا رہے تھے تو اشماریہ صاحب اٹکل پچّو کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر فرماتے تھے کہ ہماری بات کا بطلان واضح ہے!
اشماریہ صاحب! اب معلوم ہوا کہ کس کے مؤقف کا بطلان واضح ہے؟

آپ نے جو دلائل و حوالہ جات دیے ان سے تو فقط یہ ثابت ہوا ہے کہ حافظ کا لفظ اس وقت توثیق کرے گا جب عدالت بھی موجود ہو۔ اور یہ اس "توثیق" کے بارے میں ہے جس کے مفہوم میں حفظ اور عدالت دونوں موجود ہوں۔ میں اس توثیق کی بات کر ہی نہیں رہا بلکہ میں صرف حفظ کے لیے توثیق کے لفظ کا استعمال کر رہا ہوں اور یہ میری بات سے ظاہر ہے۔
میرا دعوی یہ ہے کہ حافظ کے لفظ سے "حفظ" اور "ضبط" ثابت ہو جاتا ہے اور حافظ الفاظ تعدیل میں سے ہے۔ عدالت سے اس لفظ کو بحث نہیں۔
آپ کے دیے گئے حوالہ جات سے میرے دعوی یا موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

بھائی جان! امام الذہبی نے متقدمین کی جرح نقل کی ہے اور اسے قبول کیا ہے، اس کی نکیر نہیں کی اس اسی بنا پر ''نعمان'' کو ضعفاء والمتروکین میں شمار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آخر کیا خاص بات ہے کہ آپ نے ان ''النعمان'' کی کنیت نہیں لکھی!
! آپ یہ عوام سے اس بات کو اوجھل رکھنا چاہتے ہو کہ یہ ''النعان'' کون ہیں! ویسے اس سے قبل کتنی بار آپ نے ان ''النعمان'' کا ذکر بغیر کنیت کے کیا ہے! (ابتسامہ، ابتسامہ یہاں بنتا ہے کہ آپ کو تو اب ان ''النعمان'' کی کنیت بیان کرتے بھی جھجک ہو رہی ہے)
النعمان سے مراد امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ ہیں (میرے خیال میں)۔ مجھے کیوں جھجھک ہوگی ان کی کنیت بیان کرتے ہوئے؟ لیکن کیا میرے اوپر لازم تھا ان کی کنیت بیان کرنا یہاں پر؟؟
دوسری بات یہ کہ ذہبی نے نکیر نہیں کی تو کوئی حوالہ یا دلیل دیجیے کہ ذہبی پر یہ نکیر لازم تھی۔ بغیر دلیل کے صرف آپ کے کہنے سے ذہبی پر لازم نہیں ہوتا۔
ذہبی نے تو امام کے مناقب میں اور سیرت میں الگ سے پوری کتاب لکھی ہے۔ پھر یہاں بھی نکیر کرتے تو کیوں کرتے؟

اشماریہ صاحب! ہم نے اس کا مقدمہ بھی پڑھا ہے اور سمجھا ہے! میں وہ الفاظ بیان کردیتا ہوں:
بسم الله الرحمن الرحيم
رب يسر وأعن يا معين:
الحمد لله، والشكر لله، ولا حول ولا قوة إلا بالله، والصلاة على رسول الله.
أما بعد -فهذا "ديوان أسماء الضعفاء والمتروكين" وخلق من المجهولين، وأناس ثقات فيهم لين، على ترتيب حروف المعجم، بأخصر عبارة وألخص إشارة، فمن كان في كتاب من الكتب الستة: البخاري، ومسلم، وأبي داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه له رواية،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 01 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

اشماریہ بھائی! اس ''النعمان'' پر ''لین'' کی جراح نہیں کہ اسے اس قسم میں شامل کیا جا سکتا کہ جو ''ثقہ'' ہیں اور ان میں ''لین'' ہے! اشماریہ صاحب ان ''النعمان'' پر اس سے بڑھ کر جراح ہے ! دوبارہ پیش کرتا ہوں:
جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة
جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام''کہا ''رحمه اللہ''کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان''وہ'' النعمان''نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔

اشماریہ صاب! قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة، یہ کیا ''لین'' کی جراح ہے؟
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، یہ کیا ''لین'' کی جراح ہے؟
وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.یہ کیا'' لین'' کی جراح ہے؟
اشماریہ صاحب! آپ کے یہ ''النعمان'' صاحب کو''وأناس ثقات فيهم لين،'' میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان کا شمار ضعفاء والمتروکین میں ہی ہوگا!

معذرت کے ساتھ یہ مقدمۃ الکتاب ہے اور میں نے مقدمہ محقق کا ذکر کیا ہے۔

نہیں ! نہیں! اس دیوان الضعفاء والمتروکین میں امام الذہبیؒ نے جن راویوں کو ذکر کیا ہے، انہیں ثقہ ، ثبت ، الحجہ قرار دیا ہے! اور یہاں متقدمین کی جراح بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام جرح کو مردود قرار دیتے ہیں! کیا خیال ہے؟ ایسا کہنا درست ہے؟ آپ کی نظر میں!
اشماریہ بھائی! کچھ عقل کو ہاتھ مارو! امام الذہبی کا متقدمین کی جراح کو بلا نکیر نقل کرنا ، ان کی جراح کو قبول کرنا اور اس کے ساتھ علق کرنا ہے!
اشماریہ صاحب! آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ :
اشماریہ بھائی!
جملے بتا رہے ہیں کہ حالت خراب ہے!
اشماریہ بھائی! پنجابی کا ایک محاورہ یاد آیا ہے، شاید آپ کو پنجابی اردو سے بہتر آتی ہو!
۔۔۔۔ بندہ ڈھیٹ ہونا چاہئدا اے
آپ کی علم الحدیث میں کی گئی ہر وہ بات ، جس میں آپ نے ہم سے اختلاف کیا ہے بلکل باطل ثابت ہورہی ہے اور پھر بھی دوسروں پر الزام دھرنا!!
جس شخص کے بارے میں علامہ ذہبی نے مناقب کی پوری کتاب لکھ دی ہو، کیا اس شخص کی جرح کے صرف ذکر سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذہبی اس جرح سے متفق تھے؟ تو پھر کتاب کیوں لکھی ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ ذہبی کا متقدمین کی جرح بلا نکیر نقل کرنا ان کی جرح کو قبول کرنا اور اس کے ساتھ علق کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کیوں کہ علامہ ذہبیؒ نے مناقب میں کہا ہے:
" ان کی حدیث کے بارے میں دو قولوں پر اختلاف ہوا ہے۔ محدثین میں سے بعض نے انہیں قبول کیا ہے اور حجت سمجھا ہے، اور بعض نے انہیں کمزور قرار دیا ہے کثرت غلط کی وجہ سے اور کسی وجہ سے نہیں" پھر اس کے بعد اس پر بھی امام کا دفاع کیا ہے کہ یہ قرآن اور فقہ میں زیادہ انہماک کی وجہ سے الفاظ و اسناد پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے اور یہ ہر فن کے اشخاص کے ساتھ ہوتا ہے۔ محدثین نے اس وجہ سے تو ائمہ قراء جیسے حفص اور قالون کو بھی کمزور قرار دیا ہے (ذرا سوچیں کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے اور اس لین کو قبول کر لیا جائے تو آج ساری دنیا میں جو حفص عن عاصم کی روایت سے قرآن کریم پڑھا جاتا ہے اس کا کیا ہوگا؟)۔ یہ میرے نہیں ذہبیؒ کے الفاظ ہیں جن کا میں نے خلاصہ پیش کیا ہے۔

اشماریہ بھائی! یہ لغوی معنی کا معاملہ اور یہ پوری بات اوپر بحوالہ گزری ہے! مقدمہ ابن صلاح اور فتح المغیث کے حوالہ سے!
ابن داود بھائی! اس پر میری بات کے حوالے ساتھ بحث اوپر گزر چکی ہے کہ میری توثیق سے مراد حفظ میں توثیق ہے اور آپ کے حوالہ جات سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔ البتہ اگر آپ کو اسے توثیق کہنے میں تامل ہے تو کوئی اور نام دے سکتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس بات کا جواب میں آپ کو آپ کے سوال نامہ کے جواب کے بعد عرض کرتا ہوں، پہلے آپ کے سوال نامہ کے جوابات جو پہلے ہی دیئے جا چکے ہیں، انہیں پورے سیاق کے ساتھ دوبارہ و سہ بارہ پیش کردوں!
ان باتوں کا کواب گذر چکا ہے جو ایک بار پھر پیش کیا جارہا ہے:
حکومت مقرر کرے یا گاؤں کی پنچائیت کمیٹی، کسی کے پاس کسی بھی قسم کا فیصلہ کروانے لایا جائے! شریعت کی شہادت کا قانون ایک ہی رہتا ہے!!
کبھی باپ بھی اولاد کے معاملات میں فیصلہ کرتا ہے، کبھی شوہر و بیوی کے رشتہ دار میں بھی کوئی حکم ٹھہرایا جاتا ہے۔ محدث کو قاضی کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی، اور ان کی اس حیثیت کو اللہ اور رسول کا فرمان ماننے والوں نے قبول کیا، جو اس سے اس معاملے میں اس کا حکم دریافت کرتے ہیں!
معلوم ہوتا ہے آپ علم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں، اگرآپ ذرا بھی علم الحدیث کی بنیاد سے واقف ہوتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ بلکل کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!
***
عجیب بات ہے!! آپ شریعت کے قانون شہادت میں سوائے گواہ کی بنفس خود اور بذات خود، بحضور قاضی کے کسی اور قرائین کی شہادت کو شمار ہی نہیں کرتے! آپ کی اس بات کا رد آگے حدیث میں بھی آئے گا!!
اب کیا آپ نے اسے موضوع بنا کر اٹکل چلانے ہیں؟
یہ بتلائیے کہ کیا آپ واقعی محدث ہیں؟ یا مثال کے طور پر کہا ہے۔؟
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
جی جناب! اس کا نفاذ اس طرح نہیں ہوتا کہ قاضی کا حکم نہ ماننے پر اس دنیا میں ہی سزا کا حقدار ٹھہرے!! لیکن اسے بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اٹکل پچو کی بنیاد پر فیصلہ کرے، ہر صورت اسے انہیں قاعدے و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے، شریعت کا قانون شہادت، صرف حکومتی قاضی کے لئے خاص نہيں!! اگر آپ سے خاص سمجھتے ہو تو یہ دلیل کا محتاج ہے!
اللہ تعالیٰ کا فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور اگر یہ حدیث یا آیت میں موجود نہیں ہے تو آپ نے یہ استدلال کہاں سے کیا ہے؟
اگر مگر کر کے بے بنیاد باتیں نہ کیا کریں!!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!
وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟ " قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ

***

اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!

***

بھائی جان یہ چیزیں کتابوں میں درج ہوتی ہیں، ان کتابوں کو دیکھو گے تو نظر آئیں گی!! لیکن ابھی تو آپ کتابوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے پر مصر ہو!
اسی کو کہتے ہیں حکمت چین اور حجت بنگال!!
بھائی جان ! صاحب کتاب کی گواہی ہے، صاحب کتاب بھی ثقہ ہے اس کی گواہی مقبول ہوتی ہے!
اور شیخ البانی نے وہاں ثقہ شیوخ کی کتب کے حوالے درج کئے ہیں۔ آپ کو کسی کتاب یا کسی صاحب کتاب ، پر اعتراض ہےکہ اس کی گواہی مقبول نہیں تو اعتراض پیش کریں!!
ہاں، اگر صاحب کتاب ضعیف ہو ، تو اس کی گواہی قبول نہ ہوگی: ایک مثال پیش کئے دیتا ہوں اگر طبیعت پر ناگوار نہ گذرے تو !!
فقہ احناف کے بہت بڑے امام محمد بن حسن الشیبانی، ان کی متعدد کتب معروف ہیں، جس میں موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني، الحجة على أهل المدينة، الأصل المعروف بالمبسوط شامل ہیں، لیکن ان کتب میں امام محمد بن حسن الشیبانی اپنا مؤقف بیان کریں ، وہ تو ان کا مؤقف ہوا، مگر وہ کوئی روایت بیان کریں، یا کسی کا قول روایت کریں، تو وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گا، کیونکہ محمد بن حسن شیبانی ایک ضعیف راوی ہیں، اور ان کی گواہی قبول نہیں، خیر سے محمد بن حسن شیبانی کی گواہی تو قاضی شریک بھی اس لئے قبول نہیں کرتے تھے کہ محمد بن حسن الشیبانی نماز کو ایمان نہیں سمجھتے تھے!!
یہ مطالبہ بھی کر دیجئے کہ پھر اللہ تعالی آسمان سے فرشتے نازل کرے، جو آپ کو نظر بھی آئیں، اور وہ گواہی دیں کہ واقعی یہ شیخ البانی کی کتاب ہے!
آپ جب جب جو اشکال پیش کریں گے، ہم تب تب اس کا ازالہ کریں گے! آپ اشکال نہین دہرائیں گے، ہمیں اس کا جواب دہرانے کی حاجت بھی نہیں ہو گی!!
اس کی قاضی جیسی حیثیت فیصلہ صادر کرنے میں ہے!
بھائی جان! ثالث کا کام صلح کروانا ہوتا ہے، ثالث کا کام دو فریق کو درمیانی راہ پر قائل کرنا ہوتا ہے، اگر اسے فیصل نہ مانا جائے!! اور جب ثالث کو فیصل مانا جائے گا تو وہ قاضی کی حیثیت میں ہی ہو گا!!
بلکل جناب متفق! اسی لئے ہم کسی مقلد کو یہ حثیت نہیں دیتے کہ وہ حدیث و علم حدیث میں کوئی فیصلہ صادر کرے، ہم تو مقلدین کے فیصلوں سے بالکل برأت کا اعلان کرتے ہیں، اور ان مقلدین کے فیصلہ کو ہم قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ ایک بات ذہن میں رہے، کہ جب ہم آپ کو مقلدین احناف کے حوالہ پیش کرتے ہیں، تو یہ دلائل خصم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں!!
دیکھیں بھائی جان! اس طرح کی دجل کاری کہ پہلے اسے تقلید باور کروانا اور پھر ''سوری'' لکھ کر ڈرامہ بازی کرنا، تو یاد رکھیں ، میرے قلم سے جو الفاط نکلیں گے، اس کی تاب لانا آپ کو مشکل ہو جائے گا، اور میں تو ''سوری'' بھی نہیں کروں گا، کیونکہ میں بلکل اپنا مؤقف با دلیل بیان کروں گا!! لہٰذا یہ ڈرامہ بازی آیندہ نہ کرنا وہ کہتے ہیں کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!! وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!
آپ نے سوال دہرایا ہے تو مجھے پھر سے جواب بھی دہرانا پڑ رہا ہے:
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!

***
دوم کہ محدث کی بات بلا دلیل نہی مانی جاتی بلکہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے، اور گواہی کو ماننا تقلید نہیں، جیسا کہ اس تعریف میں صراحتاً موجود ہے!!
لہٰذا آپ کا یہ ''بلا دلیل'' کہنا بھی باطل ٹھہرا!! لہٰذا اس دھوکہ بازی اور فریب سے کام نہ لیں، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ محدث کی بات بلا دلیل مانی جاتی ہے، ہم نے یہ کہا ہے کہ ثقہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے!!
لہٰذا محدث کی گواہی اور اس کا فیصلہ ماننے کو مجتہد کی بلا دلیل بات ماننے پر قیاس نہ کریں!!
بلکل جناب ! امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے، یہ بات آپ بلکل صحیح سمجھے!

***

دلیل آپ کو دے دی ہے، مگر اس دلیل کو قبول کرنے کے بجائے آپ حجت بازی سے کام لے رہے ہیں، کبھی ہمارے استدلال کے بجائے اپنے اٹکل کا قیاس کی قیاس آرائی فرما کر خود اس قیاس کا رد کر کے سمجھتے ہو کہ آپ نے ہماری دلیل کو رد کر دیا! اور آگے اس دلیل پر آپ کیا بیان کرتے ہو اس کا جواب اسی مقام پر دے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!

پہلا سوال یہ تھا:
کس حدیث یا آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کی حیثیت قاضی جیسی ہے؟؟؟
آپ نے ایسی کوئی حدیث یا آیت پیش نہیں کی جس میں یہ لکھا ہو حالاں کہ آپ کا دعوی تھا اس کو یہ حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔

دوسرا سوال یہ تھا:
دلیل میں آگے جا کر رجم والی حدیث پیش کر دی۔ لیکن اس سے استدلال پر سوالات (جو آگے مذکور ہیں) ابھی تک حل نہیں کیے۔
اس کا جواب بھی نہیں ملا بلکہ اسے تو ٹرک کی بتی والے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ بغیر طرز استدلال کی وضاحت کیے یا بغیر کسی کے اس حدیث پر استدلال کا حوالہ دیے آپ کا استدلال ناقابل قبول ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔

اسی طرح آپ نے تقریبا تمام سوالات کے ساتھ یہ کیا ہے۔ میں کس کس کا ذکر کروں! بس ٹھیک ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ قارئین خود فیصلہ کر لیں گے تو ٹھیک ہے وہ خود کر لیں گے۔ ہو سکتا ہے جن بھائیوں نے آپ کو ریٹنگ دی ہے انہیں آپ کے جوابات واضح واضح سمجھ میں آ گئے ہوں، ہو سکتا ہے انہیں مطلوبہ آیات و احادیث و استدلالات نظر آ رہے ہوں جو مجھے تو کم از کم نہیں آ رہے۔ تو آنے والا قاری بھی خود ہی دیکھ لے گا۔

رہ گئی یہ بات کہ آپ نے دارالعلوم دیوبند کے فتاوی دکھائے ہیں تو میں نے فرق سوالات کی شکل میں واضح کر دیا تھا۔
لیکن اگر نہیں ہوا تو واضح طور پر لکھ دیتا ہوں:
اشماریہ بھائی! میری بات تو شاید آپ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن جائیں، لیکن اب میں جو بات پیش کرنے لگا ہوں ، اس کے بارے میں مجھے حد درجہ یقین ہے کہ آپ کو فوراً سمجھ آجائے گی، کیونکہ قرآن حدیث سے مستنبط بات کا سمجھنا مقلد کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے علماء کی باتیں نہ صرف سمجھ آجاتیں ہیں، بلکہ وہ اسے دوسروں کو سمجھانے کی بھی کاوش کرتا ہے۔ تو لیجئے جناب! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دیوبند کتابوں کے گواہ ہونے سے متعلق:
(۱) اہل سنت والجماعت کے طریق سے منحرف ہیں جیسا کہ خود مودودی صاحب اور جماعت کے اونچے ذمہ داران کی کتب اس پر شاہد ہیں
بات یہ چل رہی تھی کہ محدث کی کتاب کسی راوی پر جرح کے سلسلے میں قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے یہاں مقبول ہوتی ہے یا نہیں؟
مذکورہ فتوے میں کسی اور کے بارے میں (یعنی کسی پر جرح) کے بارے میں تو کتب کو شاہد قرار دیا ہی نہیں گیا بلکہ خود اپنے موقف پر شاہد قرار دیا گیا ہے۔ نیز قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے یہاں مقبول ہونے کا بھی ذکر نہیں ہے۔

(۱)پاکستان میں جوغیرمقلدین آپ کو پریشان کرتے ہیں، ان کا حال سعودی عرب کے حضرات کے بالکل خلاف ہے، سعودی عرب میں چوٹی کے علمائے کرام تقلید کو نہ حرام قرار دیتے ہیں نہ شرک کہتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ان علمائے کرام کی تقلید کو اختیارکیے ہوئے ہے، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے عامةً وہاں کے اہل علم مقلد ہیں جیسا کہ خود ان کی کتب اس پر شاہدِ عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 1644/ ھ= 302/ تھ مورخہNov 10,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
یہاں بھی اپنے موقف پر شاہد ہونے کا ذکر ہے اور قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے یہاں قبول ہونے کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اور معذرت چاہتا ہوں کہ میں محدث کی قاضی جیسی حیثیت کو ہی نہیں مانتا باقی بغیر اس کے تو کتب کے شاہد ہونے میں مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اکرام سے مراد خاطر مدارات نیز مہمان کی دلجوئی اور اس کے ظاہری مناسب حال رواداری اور رکھ رکھاوٴ ہے اور یہ ناجائز نہیں۔ حضرت نبی اکرم صل یاللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بعض مرتبہ کفار کے وفود آتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو مسجد نبوی میں خیمہ لگاکر ٹھیراتے اور ان کی مہمان داری کا پورا خیال رکھتے تھے، نیز یہودی پڑوسیوں وغیرہ سے خاطر مدارات کے معاملات اور مخالفین اسلام کی دلجوئی اوران کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بکثرت منقول ہے، جیسا کہ کتب سیر وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 650=460/ھ مورخہMar 29,2009، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
یہاں دوسرے کے بارے میں شاہد ہونے کا تو ذکر ہے لیکن قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے ہاں قبول ہونے کا یہاں بھی ذکر نہیں۔

مفتی شفیع احمدعثمانی (المتوفی ۱۹۸۶/)علماء دیوبند کے ممتاز علماء اور مقتدا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی عربی ادبیت بھی کسی دوسرے ہمعصر سے کم نظر نہیں آتی ۔آپ نثر ونظم دونوں میدانوں کے ماہر فن معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کی تالیف ''نفحات''اس کی شاہد عدل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عربی زبان وادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کاتنقیدی جائزہ - ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء
یہاں بھی اپنی تحریر پر شاہد ہونے کا ذکر ہے اور قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے یہاں مقبول ہونے کا ذکر بھی نہیں ہے۔

مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے، ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“ اور ”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللّٰہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی  نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی  نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی  ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی  اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے ”لا یصح“ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة، ملتان)
(النخبة البہیّة في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)
ملاحظہ فرمائیں: تقبیل الابہامین سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء


رفع یدین کے سلسلے میں تقریباً ۳۵۰ صحیح احادیث آپ کے دوست کی نئی یافت ہے۔ آپ اگر باحوالہ اپنے دوست سے ان احادیث کو لکھوا کر بھیجیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ شوافع اور حنابلہ جو قائلین رفع میں سے ہیں، صحیح احادیث کے اس مخفی خزانے کا آج تک سراغ نہ لگاسکے۔ امام بیہقی نے رفع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ احادیث نقل کرنے کی کوشش کی تو کل ۳۰ /احادیث نقل کرسکے۔ جن میں سے نصف احادیث کے سلسلے میں امام بیہقی ہی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ قابل استدلال نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: فتوى: 354/ل = 354/ل، مورخہJul 28,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

یقینا ان دونوں میں فیصلہ کرنے کا لفظ ہے لیکن مجھے فیصلہ کرنے پر اعتراض ہی نہیں ہے۔ ایک عام شخص بھی فیصلہ کر سکتا ہے بہت سے معاملات میں۔ مجھے تو آپ سے اختلاف ہے محدث کے قاضی جیسی حیثیت سے فیصلہ کرنے میں۔ اور اس کا یہاں بھی ذکر نہیں۔

مجھے امید ہے اب آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ مثال اور ممثل لہ میں کیا فرق ہے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس بحث میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے کبھی یہ بات نہیں کی جس میں ہم نے محدث کی حیثیت پہلے کچھ بیان کی ہو اور پھر بعد میں اسے تبدیل کیا ہو، جبکہ اشماریہ صاحب متعدد بار ہم پر یہ بات منسوب کر چکے ہیں! محدث کی قاضی کی سی حیثیت کے بارے میں ان کے پہلے اعتراض کے جواب میں ہی بتلایا گیا تھا کہ ، ہم محدث کو حکومتی قاضی قرار نہیں دے رہے، بلکہ قاضی جیسی حیثیت قرار دے رہے ہیں، اور گھریلو معاملات میں ، میاں بیوی کے معاملات میں بھی ''حکم '' بنانے کے حوالہ سے انہیں بتلایا گیا!
محدث کے قاضی ہونے اور کتب کے گواہ ہونے کے متعلق دا رالعلوم دیوبند کے حوالاجات سے بھی بتلا دیا گیا ، اور ثابت کر دیا گیا کہ یہ تو مفق علیہ مسئلہ ہے، مگر اشماریہ صاحب نے سوائے اس کے کہ'' مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے'' کہہ کر فرق ہے فرق ہے کا نعرہ ہی لگایا، فرق نہیں بتلایا! یعنی یہ نہیں بتلایا کہ مطابق نہیں تو کیوں مطابق نہیں!
میرے محترم بھائی اور میرے محترم قارئین!
میں یہی تو کہہ رہا ہوں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں کہ محدث کی حیثیت قاضی جیسی ہے اس پر کوئی دلیل لائیں۔ آخر صرف آپ کے کہنے پر ہم کیسے مان لیں کہ محدث کی حیثیت قاضی جیسی ہے؟
دوسری بات قاضی کے مختلف کام ہوتے ہیں اور اسے مختلف اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ تو محدث کو ان میں سے کیا کیا کام کرنا ہوگا اور کیا کیا اختیارات حاصل ہوں گے اسے باحوالہ اور مدلل ثابت کیجیے۔ لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مجھے ابھی تک اس پر ایک بھی حوالہ نہیں ملا۔ آخر میں بغیر حوالہ کیسے مان لوں کہ محدث کی یہ حیثیت ہے؟ ابن داود بھائی! اگر آپ نے اس بات پر ابھی تک کوئی آیت، حدیث یا کوئی حوالہ پیش کیا ہے تو صرف اتنا کیجیے کہ اسے یہاں نقل کر دیجیے۔

ہم تو ہمارے اشماریہ بھائی، اور ان کی طرح کے تمام منچلے مقلدین کو یہی نصحیت کریں گے کہ، علم الکلام میں جھک مارنا چھوڑیں! اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھنے کے لئے کلام کو سمجھنے کا علم حاصل کریں!
آپ لکھیں اپنے دعوی پر اللہ کے کلام کی کوئی آیت، کوئی نبی ﷺ کا فرمان۔ پھر میں اسے آپ سے سمجھوں گا۔
لیکن ابھی تک آپ نے اس بات پر کہ "محدث کی حیثیت قاضی جیسی ہوتی ہے" کوئی آیت یا حدیث نہیں تحریر کی۔

اور آخر میں عرض یہ ہے کہ علم الکلام علم العقائد کو کہتے ہیں۔ یعنی عقائد کا علم۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے محترم ابن داود بھائی! جو جوابات آپ نے کاپی پیسٹ کیے ہیں ان کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ظاہر ہے میرے نزدیک پہلے وہ واضح نہیں تھے تو اب بھی نہیں ہیں۔ باقی آپ جانیں اور آپ کے قارئین جانیں۔
یہ جو آپ نے اضافہ پیش فرمایا ہے:
اضافہ:
اشماریہ صاحب! شرح التلویح علی التوضیح کی عبارت آپ کو اچار ڈالنے کے لئے دی ہے؟ اور آگے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) سے یہ جو بتلایا گیا ہے کہ عرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ عامی مقلدہےمجتہد کا، پھر اسے عرف میں تقلید بتلانا چہ معنی دارد، یہی اکیلا قرینہ بھی کافی ہوتا!
اور پھر یہ کلمات آپ کیوں بھول جاتے ہو!فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط
ہم نے تو آپ کو شرح التلویح علی التوضيح سے بھی دلیل پیش کر دی!
اشماریہ صاحب! اشماریہ صاحب! ایک دلیل اور لے لیں:
(مَسْأَلَةُ التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ) الْأَرْبَعِ الشَّرْعِيَّةِ (بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ) أَيْ مِنْ التَّقْلِيدِ عَلَى هَذَا؛ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا حُجَّةٌ شَرْعِيَّةٌ مِنْ الْحُجَجِ الْأَرْبَعِ، وَكَذَا لَيْسَ مِنْهُ عَلَى هَذَا عَمَلُ الْعَامِّيِّ بِقَوْلِ الْمُفْتِي وَعَمَلُ الْقَاضِي بِقَوْلِ الْعُدُولِ؛
ملاحظہ فرمائیں :مجلد 03 صفحه 433 - التقرير والتحبير -ابن أمير حاج،يقال له ابن الموقت الحنفي - دار الكتب العلمية
ابن داود صاحب! شرح التلویح علی التوضیح کی عبارت آپ نے واقعی اچار ڈالنے کے لیے ہی دی ہے۔ کیوں کہ اس سے کچھ بھی آپ کے مطلب کا ثابت نہیں ہوتا۔ اس میں صرف یہ لکھا ہے کہ ادلہ اربعہ مجتہد کے لحاظ سے ہیں اور مقلد کے لحاظ سے دلیل مجتہد کا قول ہے۔ اور معذرت کے ساتھ آپ کے مطلب کا اس سے کچھ ثابت نہیں ہو رہا۔
جب مقلد ایسا ہوگا جو ہر چیز سے جاہل ہوگا تو وہ تو ظاہر ہے ادلہ اربعہ پر غور کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہوگا تو وہ مجتہد کا قول لے کر عمل کر لے گا۔ اور جب مقلد تھوڑی صلاحیت رکھتا ہوگا یا مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب کے درجے تک ہوگا تو جتنی اس کی صلاحیت ہوگی اتنا وہ کام خود کرے گا اور جو اس کی صلاحیت سے خارج ہوگا اس میں وہ تقلید کرے گا۔ یہ عبارت میرے محترم آپ کے موقف کے خلاف ہے حق میں نہیں۔

اور آگے جو ایک دلیل آپ نے پیش فرمائی التقریر و التحبیر سے تو ذرا ٹھہریے! اسی کتاب میں آگے یہ بھی مذکور ہے:
(مسألة: غير المجتهد المطلق يلزمه) عند الجمهور (التقليد، وإن كان مجتهدا في بعض مسائل الفقه أو بعض العلوم كالفرائض على القول بالتجزي) للاجتهاد (وهو الحق) لما تقدم أن عليه الأكثرين.
التقریر و التحبیر 3۔344 ط العلمیہ

تو معلوم ہوا کہ غیر مجتہد مطلق پر جمہور کے نزدیک تقلید لازم ہے اور یہی حق بھی ہے۔
اب یہ ہرگز نہیں کہیے گا کہ آپ تو اس کتاب کو مانتے ہیں نہیں ہیں۔ صرف میرے لیے پیش کی ہے۔ کیوں کہ پھر جب میں کہتا ہوں کہ جو بات آپ مانتے ہیں وہ بتا دیں تو آپ اس سے بھی انکار کر دیتے ہیں جیسا کہ تقلید کی تعریف میں کیا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش یہ ہے کہ اسی چیز کو پیش فرمایا کریں جسے آپ خود بھی تسلیم کرتے ہوں۔

آپ کو فقہائے احناف کی بیان کردہ تقلید کی تعریف پر اعتراض ہو، اور آپ اس کے منکر ہوں تو فرمائیے!
اس کا منکر میں نہیں ہوں لیکن میں نے آپ سے صرف یہ کہا ہے کہ آپ کے نزدیک تقلید کی جو تعریف درست ہو وہ لکھ دیجیے۔ آپ کے نزدیک جو درست ہو۔۔۔۔
اگر آپ اس بار بھی آئیں بائیں شائیں کر گئے تو پھر آپ جانیں اور آپ کے منصف قارئین۔ میں دوبارہ نہیں پوچھوں گا۔

باقی امام اور حافظ کی بات پر بحث گزر چکی ہے۔ میں آپ کی طرح کاپی پیسٹ نہیں کر سکتا۔
ابن داود بھائی! میرا جواب بحمد اللہ مکمل ہوا۔
آپ کے جواب کا انتظار ہے۔ جو باتیں میں نے باحوالہ کی ہیں ان کا رد بھی باحوالہ ہی درکار ہے۔ نہ تو آپ کی اپنی باتیں قبول ہوں گی، نہ یہ کہ میں فلاں چیز کو ایسے نہیں سمجھتا اور نہ یہ کہ عبارت میں کچھ ہو اور آپ ثابت اس سے کچھ اور کرنے کی کوشش کریں۔ صرف وہی قبول ہوگا جو عبارت میں لکھا ہو اور اس کے ترجمے سے ثابت ہو۔

والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی جان! میں جواب ان شاء اللہ، دو یا تین دن بعد تحریر کرتا ہوں،، کیونکہ میں نے اگر ابھی جواب لکھا تو میرے الفاظ بہت متشدد ہوجائیں گے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ومعنى قوله تمت صلاته تمت فرائضها، ولهذا لم تفسد بفعل المنافي وإلا فمعلوم أنها لم تتم بسائر ما ينسب إليها من الواجبات لعدم خروجه بلفظ السلام وهو واجب بالاتفاق حتى أن هذه الصلاة تكون مؤداة على وجه مكروه فتعاد على وجه غير مكروه كما هو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة كذا في شرح منية المصلي
ج1 ص 396 ط دار الکتب
"مصنف کے قول تمت صلاتہ کا مطلب ہے نماز کے فرائض مکمل ہو گئے اور اسی وجہ سے نماز کے منافی فعل سے فاسد نہیں ہوتی۔ ورنہ یہ معلوم چیز ہے کہ وہ تمام واجبات جن کی اس نماز کی جانب نسبت ہے اس کے ساتھ وہ مکمل نہیں ہوئی اس کے لفظ سلام کے ساتھ نماز سے نہ نکلنے کی وجہ سے حالاں کہ وہ بالاتفاق واجب ہے۔ یہاں تک کہ یہ نماز مکروہ طور پر ادا شدہ ہوگی لہذا اسے غیر مکروہ طور پر لوٹایا جائے گا جیسا کہ ہر اس نماز کا حکم ہے جسے کراہیت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اسی طرح مسئلہ شرح منیۃ المصلی میں ہے۔"
ترجمہ کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ تدوین کا آپشن کام نہیں کر رہا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جو روایت یہاں آپ نے رجم یہودی و یہودیہ سے متعلق پیش کی اس میں راوی حضرت عبد اللہ بن عمر رض ہیں۔ اور علامہ زیلعیؒ نے نصب الرایہ میں مسند اسحاق بن راہویہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے:
رواه إسحاق بن راهويه في "مسنده" أخبرنا عبد العزيز بن محمد ثنا عبيد الله عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من أشرك بالله فليس بمحصن"، انتهى. قال إسحاق: رفعه مرة، فقال: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ووقفه مرة، انتهى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ فَلَيْسَ بِمُحْصَنٍ "
"ابن عمر رض سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو وہ محصن نہیں۔ اسحاق فرماتے ہیں: راوی نے کبھی مرفوعا ذکر کیا تو عن رسول اللہﷺ فرمایا اور کبھی موقوفا ذکر کیا۔"
3۔327 ط ریان

اس روایت کے تمام رواۃ متفقہ طور پر ثقات ہیں سوائے عبد العزیز بن محمد الدراوردی کے، جن کے بارے میں بعض نے جرح کی ہے۔ لیکن امام مالکؒ علامہ مزی کی تخریج کے مطابق انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح ابن معینؒ بھی۔ دراوردیؒ مدینہ کے ہیں اور ہیں بھی امام مالکؒ کے زمانے کے اس لیے امام مالکؒ کی توثیق ان کے بارے میں نہایت مضبوط ہے۔
ان کے زمانے میں ان کی حدیث کے مطابق امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے اپنا مسلک مدون کیا (الفقہ علی المذاہب الائمۃ الاربعہ) اور امام مالک نے ان کی توثیق بھی کی اس لیے بعد کے لوگ اگر ان پر جرح کریں تب بھی مالک اور ابو حنیفہ کے مسلک کو یہ جرح کوئی ضرر نہیں دے سکتی۔
ہائیلائٹڈ عبارت طحاوی کی ہے۔ غلطی سے یہاں بھی پیسٹ ہو گئی ہے۔ تدوین کے آپشن کے کام نہیں کرنے کی وجہ سے اسے میں تبدیل نہیں کر سکتا۔
 
Top