• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جان! یہاں تک تو جو کچھ بھی ہے وہ تھریڈ کے موضوع سے غیر متعلق ہے۔ لہذا اس کا جواب نہیں دیتا۔ امام طحاوی جیسا بننے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا اور کیا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ذاتی مشورہ یہ ہے اقسام مجتہدین میں امام طحاوی کا درجہ اور شرح معانی الآثار میں امام طحاوی کا احناف کے ائمہ ثلاثہ کا دفاع اور حنفی ہونے کے بارے میں امام طحاوی کا بیان بھی پڑھ لیجیے گا۔ بہر حال غیر متعلق ہونے کی وجہ سے پھر کبھی۔
نہیں یہاں تک کی تمام باتیں موضوع سے خارج نہیں!
امام طحاوی کا تقلید سے متعلق مؤقف بیان کیا تھا:
امام طحاوی کے نزدیک تو تقلید وہی کرتا ہے جو غبي ہو یاعصي ہو!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
نہیں مجھے یہ اعتراض نہیں۔ بلکہ یہ اعتراض ہے کہ جب محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے۔ اور قاضی کی عدالت میں گواہ کو خود پیش ہوکر گواہی دینی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ گواہ چند سو سال پہلے گزر چکا ہو اور اس کی کتاب پڑھ کر گواہی قبول کی جائے۔ تو یہاں گواہ آپ محدث کی عدالت میں خود کہاں ہے؟؟
اور اگر یہ درست ہے کہ گواہ کی صرف کتاب پڑھ کر گواہی قبول کی جائے تو اس کی دلیل دیجیے۔
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟ باقی بات اس روایت پر آگے۔
دلیل آپ کو دے دی ہے، مگر اس دلیل کو قبول کرنے کے بجائے آپ حجت بازی سے کام لے رہے ہیں، کبھی ہمارے استدلال کے بجائے اپنے اٹکل کا قیاس کی قیاس آرائی فرما کر خود اس قیاس کا رد کر کے سمجھتے ہو کہ آپ نے ہماری دلیل کو رد کر دیا! اور آگے اس دلیل پر آپ کیا بیان کرتے ہو اس کا جواب اسی مقام پر دے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
تو میں انہی کے موقف کی بات کر رہا ہوں۔ البتہ آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ کتاب میں مجتہد جو لکھتا ہے وہ اس کا اجتہاد ہوتا ہے تو اگر آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ صرف تحری اور غور وفکر ہوتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ بلکہ مجتہد نے دلائل سے یعنی قرآن و حدیث و اجماع سے جو مسائل اخذ کیے ہوتے ہیں وہ لکھتا ہے اور وہ مسائل لکھتا ہے جن میں ان ادلہ ثلاثہ پر قیاس کیا گیا ہو۔ پھر بعض مسائل وہ ہوتے ہیں جو فقط اجتہاد و تحری ہو۔ کیا آپ نے کبھی المبسوط کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر نہیں تو ہدایہ تو پڑھی ہی ہوگی جس کا آپ بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ اس کی بنیاد قدوری اور مبسوط ہی ہیں۔ تو کیا صرف تحری والے مسائل ہیں اس میں؟؟؟
تو اب امام محمد نے جو موقف قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے اخذ کر کے لکھا ہم اسے تو قبول کرسکتے ہیں نا آپ کے اصول کے مطابق؟
اگر ایسا ہوتا! بلکل اسے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر جب تک کہ اس کے بطلان کا ثبوت واضح نہ ہوجائے!! مگر صورت حال کچھ اور ہے!!
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان
اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...

لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!
رہ گئی بات امام محمد پر اوپر لکھی جرح کی۔ تو آپ نے اس پوسٹ میں تین جرحیں کیں۔ جہمی، مرجی، کذاب
اب سنیے! پہلی جرح جہمی ہونے کی تو امام ابن تیمیہؒ نے امام محمدؒ سے نقل کیا ہے اپنے فتاوی الکبری (6۔334 ط دار الکتب العلمیہ) میں:
عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، قال: اتفق الفقهاء كلهم من المشرق إلى المغرب على الإيمان بالقرآن والأحاديث التي جاءت بها الثقات عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في صفة الرب عز وجل، من غير تفسير ولا وصف ولا تشبيه، فمن فسر اليوم شيئا من ذلك فقد خرج مما كان عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - وفارق الجماعة، فإنهم لم يصفوا ولم يفسروا، ولكن أفتوا بما في الكتاب والسنة، ثم سكتوا فمن قال بقول جهم فقد فارق الجماعة لأنه قد وصفه بصفة لا شيء.
اب میں آپ کے بقول جو گواہی یا فیصلہ ہے وہ آپ کا قبول کروں یا ابن تیمیہ کا؟
علامہ مغراوی موسوعۃ مواقف السلف میں ابن تیمیہؒ کے فتاوی سے نقل کرتے ہیں:
قال ابن تيمية: قوله: من غير تفسير: أراد به تفسير الجهمية المعطلة الذين ابتدعوا تفسير الصفات بخلاف ما كان عليه الصحابة والتابعون من الإثبات.
اسی طرح اصول الاعتقاد سے امام محمدؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
وجاء في أصول الاعتقاد عنه قال: والله لا أصلي خلف من يقول القرآن مخلوق، ولا أستفتى في ذلك إلا أمرت بالإعادة.
تو ان پر جو جہمی ہونے کا الزام ہے وہ تو خود ان کی تصریحات کے خلاف ہے۔
ہم آپ کو شیخ السلام ابن تیمیہ کا کلام وسیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں:
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِي أَنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ تَفْسِيرِ قَوْلِهِ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} فَقَالَ: تَفْسِيرُهُ كَمَا يُقْرَأُ هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛ وَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ. وَرَوَى أَبُو الْقَاسِمِ اللالكائي " الْحَافِظُ. الطبري؛ صَاحِبُ أَبِي حَامِدٍ الإسفرائيني فِي كِتَابِهِ الْمَشْهُورِ فِي " أُصُولِ السُّنَّةِ " بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ: اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ - مِنْ الْمَشْرِقِ إلَى الْمَغْرِبِ - عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ؛ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ؛ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ؛ فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْهَا فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا؛ وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا؛ فَمَنْ قَالَ: بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ. مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَخَذَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَطَبَقَتِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ. وَقَدْ حَكَى هَذَا الْإِجْمَاعَ وَأَخْبَرَ أَنَّ الْجَهْمِيَّة تَصِفُهُ بِالْأُمُورِ السَّلْبِيَّةِ غَالِبًا أَوْ دَائِمًا. وَقَوْلُهُ مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ: أَرَادَ بِهِ تَفْسِيرَ " الْجَهْمِيَّة الْمُعَطِّلَةِ " الَّذِينَ ابْتَدَعُوا تَفْسِيرَ الصِّفَاتِ بِخِلَافِ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ مِنْ الأثبات.
وَرَوَى البيهقي وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادِ صَحِيحٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ الْقَاسِمِ بْنِ سلام قَالَ: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي يَقُولُ فِيهَا {ضَحِكَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غَيْرِهِ} {وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رَبُّك فِيهَا قَدَمَهُ} {وَالْكُرْسِيُّ مَوْضِعُ الْقَدَمَيْنِ} وَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ فِي " الرُّؤْيَةِ " هِيَ عِنْدَنَا حَقٌّ حَمَلَهَا الثِّقَاتُ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ؛ غَيْرَ أَنَّا إذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِيرِهَا لَا نُفَسِّرُهَا وَمَا أَدْرَكْنَا أَحَدًا يُفَسِّرُهَا.

ملاحظہ فرمائیں : صفحه 50 – 51 جلد 05 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 24 – 25 جلد 05 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

شيخ الاسلام ابن تيمیہ رحمہ الله نے اس بات کی جو گواہی دی ہے کہ امام محمد سے منقول ایک قول ابو القاسم اللالکائی نے جو اپنی سند سے بیان کیا ہے، بلکل درست گواہی ہے، ابو القاسم اللالکائی کی کتاب میں بالکل یہ قول موجود ہے۔ رہی بات کہ کیا اس سے امام محمد کا یہ قول ثابت ہو گیا، تو نہیں، یہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس قول کے ثابت ہونے کی بات نہیں کی۔ جیسا کہ آگے بیہقی وغیرہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ ''بإسناد صحيح''
اور اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بالفرض اس کی قول کی سند کو صحیح قرار دے بھی دیتے تو، اس کا ثابت ہونا لازم نہیں آتا ، بلکہ شیخ الاسلام کا یہ فیصلہ غلط قرار پاتا۔ کیونکہ اس کی سند مجہول رایوں پر مبنی ہے؛ ہم آپ کو وہ قول ابو القاسم اللالکائی کی کتاب شرح اصول السنٕة سے پیش کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَكِيمٍ السُّلَمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ الْمَهْدِيِّ بْنِ يُونُسَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سُلَيْمَانَ دَاوُدَ بْنَ طَلْحَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي حَنِيفَةَ الدَّوْسِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَغْيِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ , فَمَنْ فَسَّرَ الْيَوْمَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ , فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ , فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا , وَلَكِنْ أَفْتَوْا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا , فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَصَفَهُ بِصِفَةِ لَا شَيْءَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 - 433 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 254 - 355 الجزء 03 شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - أبو القاسم هبة الله اللالكائي - مكتب دار البصيرة بالإسكندرية

اگر کوئی مقلد دم خم رکھتا ہے، تو وہ اس سند میں تمام رایوں کا ثقہ ہونا تو بعد میں پوچھیں گے، اسماء الرجال کی کتب سے ان کا تعارف ہی کروادے!! لیکن ان تمام راویوں کا!!
لہٰذا اول تو امام محمد سے ان کا نہ قول ثابت ہوتا ہے، اور نہ ہی امام محمد کے جہمی عقیدہ کی کے خلاف ہونے تصریح!! ایک بات اور عرض کردوں، اگر کہیں امام محمد کا قول صحیح سند سے لے بھی آؤ گے تب بھی اس کے قابل قبول ہونے میں ایک بہت بڑی علت حائل ہوتی ہے، وہ آپ کو اس وقت بیان کریں گے، جب آپ کسی صحیح سند سے امام محمد کا ایسا قول لاؤ گے!!

دوسری جرح ہے مرجی ہونے کی۔ تو مرجئہ کی دو مشہور قسمیں ہیں: مرجئۃ الفقهاء اور مرجئہ عام۔ اور نہ صرف امام محمد بلکہ اور بھی بہت سے ائمہ کا تعلق مرجئۃ الفقہاء سے رہا ہے۔ مرجئۃ الفقہاء کا تعلق اہل سنت سے ہی ہے اور یہ ایک اجتہادی اختلاف ہے۔ اگر اجتہادی اختلاف کی بنیاد پر قاضی شریک ان کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے تو یہ قاضی شریک کی غلطی تھی امام محمد کی نہیں۔ اس اختلاف کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔ دل چاہے تو اس لنک سے پڑھ لیجیے۔
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=180774
غلطی قاضی شریک کی نہیں بلکہ امام محمد میں ہی بدعت تھی!! ذرا غور فرمائیے!!
بھائی جان ! یہ ''مرجئة الفقهاء'' ارجاء سے کب سے خارج ہو گئے!
آپ نے غالباً یہ ''مرجئة الفقهاء '' کی بات بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے لی ہے، جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے لنک سے ظاہر ہے۔
ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتے ہیں:
وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 507 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 394 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال و اقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور عقائد کے باب میں نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب و سنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
بلکل یہی ہمارا مؤقف ہے، کہ ارجاء کی گمراہی میں درجات ہیں۔ یہی مؤقف امام بخاری امام احمد بن حنبل اور دیگر کا بھی ہے!! شیخ الاسلام نے اس پر بڑی مفصل بحث کی ہے۔ لیکن ہماری بحث اس تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکے گی!!
ارجاء کی جرح کو یہ کہہ کر کہ ''مرجئة الفقهاء'' کو اہل سنت میں داخل رکھا ہے، اس سے ارجاء کی جرح رفع نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی زبردست بات ہے کہ'' مرجئة الفقهاء'' کہا جائے، لیکن ارجاء کی جرح رفع ہو گئی!! میاں جی کم سے کم اس ''مرجئة الفقهاء'' کے الفاظ پر ہی غور کرلیتے، اس نام میں ہی ارجاء کی جرح شامل ہے!! فتدبر!!
بھائی جان اگر آپ کو علم الحدیث و علم جرح وتعدیل کا بنیادی علم بھی ہوتا تو ایسی بے سروپا بات نہیں کرتے!! کیونکہ کسی بھی بدعت کا کو مکفرہ نہ ہو، اس کا ''قلیل البدع'' راوی اس سے بھی اس بدعت کے علاوہ کی کوئی حدیث ہو تو لی جاتی ہے، یعنی اسے اہل سنت میں شمار کیا جاتا ہے، مگر اس سے اس پر موجود جرح رفع نہیں ہو جاتی!! فتدبر!!
تیسری جرح ہے ان پر کذاب ہونے کی تو اس جرح کی مضبوطی تو دیکھیے کہ امام ابو الحسن دارقطنی باوجود اپنی شدت کے ان کے بارے میں اسی جرح کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ میں تو ان کو چھوڑے جانے کا مستحق نہیں سمجھتا۔
قال البَرْقانِيّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة، فقال: قال يحيى بن معين كذاب، وقال فيه أحمد، يعني ابن حنبل نحو هذا.
قال أبو الحسن الدَّارَقُطْنِيّ: وعندي لا يستحق الترك.
موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله (2۔566 ط عالم الکتب)
سألته عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة رحمه الله, فقال: قال يحي بن معين كذاب, وقال فيه أحمد يعني بن حنبل نحو هذا, قال أبو الحسن: وعندي لا يستحق الترك.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 - 131 جلد01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر
بالکل یہ بات سؤالات البرقانی للدارقطنی میں موجود ہیں؛ لیکن اس سے امام محمد کی توثیق کہا ثابت ہوتی ہے، یہاں امام دارقطنی نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام محمد بالکل ہی ترک کئے جانے کے مستحق نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام محمد کی امام مالک سے کی گئی روایات دوسرے طرق سے ، یعنی دوسرے روایوں سے ثابت ہے، لہٰذا ان کی وہ روایات تسلیم کی جائیں تو اس میں حرج نہیں، لیکن اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا! اس کا ثبوت آپ نے خود نقل کیا ہے، ابھی آگے آرہا ہے!! وگرنہ تو امام محمد نہ صرف ترک کئے جانے کے مستحق ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کے!!

اور جن کی یہ اصل جرح ہے یعنی ابن معین ان کا قول علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء (9۔136 ط الرسالۃ) میں یہ نقل کیا ہے:
وَقَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: كَتَبْتُ عَنْهُ (الجَامِعَ الصَّغَيْرَ) .
اگر یہ کذاب تھے تو ابن معین نے ان سے جامع صغیر کیوں لکھی تھی؟
وَقَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: كَتَبْتُ عَنْهُ "الجَامِعَ الصَّغَيْرَ".
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اشماریہ! بھائی یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا نہیں!! کہ آپ یہاں بھی اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو!!
اب کوئی پوچھے، کہ جابر جعفی ، جس کے متعلق آپ کے امام اعظم نے فرمایا کہ انہوں نے جابر جعفی سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں دیکھا، تو پھر اس سے حدیث کیوں روایت کی!! آپ کے اس اٹکل کی رو سے تو امام آپ کے امام اعظم کو جھوٹا استاد جابر جعفی بھی کذاب نہیں رہا!! اشماریہ صاحب اس طرح کی اٹکل آپ اپنی فقہ حنفی کے لئے محفوظ رکھیں!!
لہٰذا امام محمد پر نہ جہمی ہونے کی جرح رفع ہوئی، نہ مرجئی ہونے کی اور نہ کذاب ہونے کی!!
میں نے تو ابھی صرف آپ کے پیش کئے ہوئے حوالاجات سے بیان کیا ہے، باقی جو ثبوت ہم رکھتے ہیں، انہیں تو ابھی پیش کرنے کی حاجت بھی نہیں!!

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: قُلْتُ لِلإِمَامِ أَحْمَدَ: مَنْ أَيْنَ لَكَ هَذِهِ المَسَائِلُ الدِّقَاقُ؟ قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.
قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: قُلْتُ لِلإِمَامِ أَحْمَدَ: مَنْ أَيْنَ لَكَ هَذِهِ المَسَائِلُ الدِّقَاقُ؟
قَالَ: مَنْ كُتُبِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 136 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية

امام الذہبی نے مذکورہ قول معلقاً بیان کیا ہے، اور امام الذہبی کی یہ گواہی بلکل درست ہے، تاریخ بغداد میں مذکورہ قول با سند موجود ہے۔ لیکن اس قول سے امام محمد کی توثیق کیسے لازم آگئی، جبکہ امام احمد بن حنبل خود اسی محمد بن حسن الشیبانی کو مذہب جہم پر قرار دے رہے ہیں!
أَخْبَرَنَا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، قَالَ: أخبرنا أحمد بن عثمان بن يحيى الأدمي، قَالَ: حدثنا محمد بن إسماعيل أبو إسماعيل، قَالَ: سمعت أحمد بن حنبل، وذكر ابتداء محمد بن الحسن، فقال: كان يذهب مذهب جهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 569 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 جلد 02 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

امام احمد بن حنبل تو امام ابو حنیفہ کے اہل لرائے اصحاب سے دین کے متعلق سوال کرنے کا بھی منع فرماتے ہیں!!
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جو ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیوینکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
یہی نہیں، بلکہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب (جو اہل الرائی ہیں) سے بغض پر اللہ تعالیٰ اجز دے گا!!
قلت: يؤجر الرجل على بغض أصحاب أبي حنيفة؟
قال: إي والله.

میں نے کہا: کیا کسی شخص کو اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 4765 جلد 09 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 565 جلد 02 - مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه - إسحاق بن منصور، المعروف بالكوسج - دار الهجرة

وَأُخْبِرْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ يُؤْجَرُ الرَّجُلُ عَلَى بُغْضِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ
مجھے اسحاق بن منصور الکوسج کے حوالے سے خبر ملی کہ انہوں نے کہاکہ : میں نے احمد بن حنبل سے کہا: کیا کسی شخص کو ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر اجر ہوگا؟
(امام احمد بن حنبل نے ) کہا: اللہ کی قسم ، ہاں
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 179 جلد 02 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

ثابت یہ ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے امام محمد کو جہمی مذہب پر قرار دیا، اور امام احمد بن حنبل اہل الرائے سے فتویٰ لینے کا بھی منع کرتے تھے، بلکل امام احمد بن حنبل کا مؤقف یہ تھا کہ اہل الرائے اصحابہ ابو حنیفہ سے بغض بھی باعث اجر ہے۔ یہ محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے ہوں، امام احمد بن حنبل کے آپ کے پیش کردہ قول کا معنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امام احمد بن حنبل سے ثابت ہونے کی صورت میں یہ معنی محال ہے کہ امام احمد بن حنبل امام محمد کی کتب سے فقہ اخذ کرتے تھے، بلکہ یہی کہ ان کی اہل الرائے کی فقہ کو نقل کرنا ، اور اس پر نقد ہی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بھی ابھی ''الهدایة'' سے فقہ حنفی کا ایک دقیق مسئلہ بیان کیا ہے!! یا پھر ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے!!

اور امام شافعی فرماتے ہیں:
كَتَبْتُ عَنْهُ وَقْرَ بُخْتِيٍّ ، وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُوْلَ: نَزَلَ القُرْآنُ بِلُغَةِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، لقُلْتُ؛ لِفِصَاحَتِهِ.
كَانَ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: كَتَبْتُ عَنْهُ وَقْرَ بُخْتِيّ، وَمَا نَاظَرتُ سَمِيْناً أَذكَى مِنْهُ، وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُوْلَ: نَزَلَ القُرْآنُ بِلُغَةِ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، لقُلْتُ؛ لِفِصَاحَتِهِ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 135 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 3390 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوا؟ کیا اس سے امام محمد کا ثقہ ہونا لازم آتا ہے؟ بڑی عجیب بات کی ہے؟ معلوم نہیں کون آپ کو یہ پٹی پڑھاتاہے، اگر عربی لغت کی فصاحت و بلاغت سے کوئی ثقہ ثابت ہو سکتا، اور اس پر موجود جرح رفع ہو سکتی، تو آپ کے زمغشری کیونکر معزلی ٹھہرتے، جبکہ زمخشری کی عربی لغت میں فصاحت و بلاغت کے سبھی معترف ہیں، یہی نہیں بلکہ نہج البلاغہ کے مصنف کی بھی۔ اور کیا ابو جہل ابو الحکم نہیں کہلایا جاتا تھا؟ اسے لغت عربی میں مہارت نہیں تھی؟
اشماریہ صاحب، پھر کہتا ہوں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
اور ہاں سند نہیں مانگیے گا۔ کیوں کہ جس طرح آپ نے بلا سند اقوال اٹھا کر پیش کیے تھے اسی طرح میں نے بھی کر دیے ہیں۔ نیز میں نے علامہ ذہبی کی گواہی پر اعتماد کیا ہے آپ کے اصول کے مطابق۔
یہ بھی عجیب کہی!! جناب من! آپ کو یہ کس نے کہا کہ گواہی کو ماننا سند سے مستغنی کر دیتا ہے؟ بھائی جان یہی سند تو گواہی ہوتی ہے!! اور اس سند پر حکم فیصلہ!! کیا کریں کہ
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجا ست
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟

ایک اور چیز بھی بتاتا چلوں کہ لسان المیزان میں امام محمدؒ کے ترجمہ میں مذکور ہے:
يروي عن مالك بن أنس، وَغيره , وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك
یہاں تین چیزیں مذکور ہیں۔ وہ بحر علم تھے، وہ بحر فقہ تھے، وہ مالک کے سلسلے میں قوی تھے۔ تو جو بحر علم و فقہ ہو اور موطا مالک کی روایت میں قوی ہو وہ ضعیف یا کذاب ہو سکتا ہے؟
یہ فیصلہ ہے ان علماء کا جن کے سامنے ان پر جرحیں موجود تھیں اور انہوں نے اس کے باوجود یہ فیصلہ کیا ہے۔
"محمد" بن الحسن الشيباني أبو عبد الله أحد الفقهاء لينه النسائي وغيره من قبل حفظه يروي عن مالك بن أنس وغيره وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك انتهى
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 60 - 61 جلد 07 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
جی بلکل درست ہے کہ امام ابن حجر نے اسے لسان المیزان میں بیان کیا ہے۔ یوں تو اسی لسان المیزان میں اسی سے آگے بہت سخت جراح بھی بیان کی ہیں، مگر طوالت مراسلہ کی وجہہ سے اسے ذکر نہیں کرتا۔
مگر یہ تو بتائیے، کہ اپ کے ذکر کردہ کلام میں امام محمد کا ثقہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟
یہ بحور العلم ہونے سے کسی کا ثقہ ہونے کب سے لازم آگیا؟
اسی طرح کی بات الیاس گھمن نے لکھی ہے؛ اس کا جواب فورم پر ہی لکھا ہے، یہاں بھی پیش کردیتا ہوں:
الیاس گھمن صاحب عمر بن هارون کی توثیق ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:
علامہ ذہبی: الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“ [علم کا خزانہ تھے ]المحدث ، وارتحل و صنف و جمع [حصول علم کے اسفار کئے، کتب تصنیف کیں اور احادیث جمع کیں](تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152)
اول تو ''الحافظ'' ''الإمام'' ،''المكثر'' ''عالم خراسان'' ،''من أوعية العلم'' ؛ یہ کلمات توثیق نہیں، یہ بات امام الذهبی نے انہیں کلمات سے ظاہر ہوتی ہے ، جو کلمات امام الذهبي نے ان کے ساتھ ہی بالکل متصل لکھے ہیں اور وہ کلمات ہیں؛ على ضعف فيه.۔ مگر الیاس گھمن صاحب نے انہیں حذف کردیا۔ کیونکہ اگر الیاس گھمن صاحب ان لفاظ کو بیان کردیتے تو ان کی فنکاری کیا کرتے۔ فتدبر!!یہی نہیں امام الذهبي نے اسی کتاب میں، اسی باب میں اگلی چند سطور میں، یہاں تک کہا ہے کہ عمر بن هارون کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة. متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
ہم نے عرض کیا ہے نا آپ کو کہ یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!!
اور امام مالک سے روایات میں قوی ہونے کا مطلب ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا، وگرنہ روایات امام مالک کی قید چہ معنی دارد!!
وہ کہتے ہیں کہ:
سخن شناس نئی دلبرا خطا ائنجا ست
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نہیں جناب۔ جب ایک قاضی اپنا خط دوسرے قاضی کو بھیجتا ہے تو اصول یہ ہے کہ وہ اس پر مہر لگا کر اسے بند کرتا ہے اور گواہوں کے ساتھ بھیجتا ہے کہ اسی قاضی کا خط ہے۔ اگر البانی کی حیثیت بھی قاضی کی سی ہے اور آپ کی بھی تو پھر البانی کی کتاب پر مہر بھی ہونی چاہیے۔
جناب من! میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہ تو آپ کو چھوٹا سا مطالبہ ہے ، ذرا بڑا مطالبہ کیجئے !!
یہ مطالبہ بھی کر دیجئے کہ پھر اللہ تعالی آسمان سے فرشتے نازل کرے، جو آپ کو نظر بھی آئیں، اور وہ گواہی دیں کہ واقعی یہ شیخ البانی کی کتاب ہے!
یعنی بس فیصلہ کرنے میں اس کی حیثیت قاضی جیسی ہے ؟ نہ نافذ ہونے میں قاضی جیسی ہے نہ گواہوں کی مجلس قاضی میں حاضری میں۔ تو ذرا یہ اسپیشل حیثیت کسی دلیل سے ثابت تو کیجیے جس میں یہ استثناءات بھی موجود ہوں۔
جناب من! اس کی دلیل آپ کو پیش کی ہے وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے، یہ الگ بات ہے کہ آپ اپنی اٹکل کی بناء پر اسے رد کر رہے ہو!!
یعنی اب جھگڑا ثالث کی حیثیت پر ہوگا؟ (ابتسامہ)۔ قاضی کی حیثیت تو یہ ہوتی ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے (یعنی قانونی حیثیت رکھتا ہے اور عمل نہ ہونے پر حکومت عمل کرواتی ہے۔) ثالث کی ایسی حیثیت ثابت کیجیے۔
بھائی جان! آپ کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکمت چین و حجت بنگال!!
آپ محدث کو حکومتی امور کا قاضی باور کروانا چاہتے ہو، جبکہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا! ویسے بھی جب آپ کو حکومت کے نامزد قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ نہ آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے!!
ایک بار پھر سوری۔ آپ سے زیادہ برے الفاظ تو میں شاہد نذیر سے سن چکا ہوں۔ شاید بہت سے لوگوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے۔
جناب ! آپ نے صحیح کہا کہ کچھ لوگوں کا کام ہی بہت برے الفاظ بیان کرنا ہوتا ہے۔ جیسے کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے آپ کے محمد یعقوب صاحب کے الفاظ کو توثیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اشرف علی تھانوی صاحب نے آپ کے ایمان کے لئے کی الفاظ ذکر کئے ہیں وہ بتلا دیتا ہوں:
ہمارے مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس اعتقاد کی ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے، ہے تو بہت فحش مگر ہے بالکل چسپاں، فرمایا کرتے تھے کہ عوا، کے عقیدہ کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدھے کا عضو مخصوص بڑھے تو بڑھتا ہی چلا جائے اور جب غائب ہو تو بالکل پتہ ہی نہیں۔ واقعی عجیب مثال ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 255 جلد 03 ملفوظات حکیم الامت – اراۂ تالیفات اشرفیہ، ملتان
خیر سے آپ کے اشرف علی تھانوی صاحب کے ماموں بھی کمال کی چیز تھے، لیکن ان ماموں صاحب کے ذکر خیر کو ابھی چھوڑ دیتا ہوں!!
آپ کی بات بالکل درست ہے اشرف علی تھانوی جیسے لوگوں کا کام ہی بد کلامی ہوتی ہے!!
یہ تعریف پیش کرنے پر شکریہ۔
یہ جو آپ نے تعریف پیش فرمائی ہے اور اس میں حوالہ دیا ہے فواتح الرحموت کا تو میرے محترم بھائی میں نے یہاں جہاں ترجمہ میں ڈنڈی ماری گئی ہے اسے ہائیلائٹ کر دیا ہے۔
یہاں تو یہ لکھا ہے کہ: "یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) حاصل کریں اس پر عمل تقلید ہے۔"
اب اگر آپ اسی تعریف کو مان لیں تو بقول آپ کے قاضی کی سی حیثیت والے محدث کے قول کی جانب رجوع تو تقلید نہیں ہوگا لیکن اس سے حاصل کردہ حکم پر عمل (یا اسے ماننا) یہ تقلید ہی ہوگا۔
جی جناب میں اپنی ایک غلطی ضرور تسلیم کرتا ہوں، کہ اردو ترجمہ میں ایک فقرہ کا ترجمہ رہ گیا! یہ غلطی ویسے تو میں نے کئی سال قبل ہی اپنی فائل میں درست کر لی تھی مگر شاید وہ محفوظ نہیں ہوئی! میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ آپ اسے ''ڈنڈی'' کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ ''ڈنڈی'' ماری نہیں تھی لگ گئی تھی!! خیر اس کی نشاندہی پر میں آپ کا شکر گذار ہوں!! میں اس کی تصحیح بھی کر دیتا ہوں! جزاک الله خیراً

لیکن بھائی جان آپ مدعا پھر بھی غلط ہے اور اور ہمارا مدعا پھر بھی درست ہے!
آپ کو عبارت سمجھاتے ہیں:
فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً(لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) اخذ کریں اس پر عمل تقلید ہے۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔
ان سے اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہو گا تو تقلید ٹھہرے گا کیونکہ آگے صریح الفاظ ہیں کہ فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، جیسا کہ شرح التلويح علی التوضيح میں ہے:
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کے کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 01 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العمية

(ویسے مجھے امید ہے کہ اب آپ اس تعریف سے ہی انکاری ہو جائیں گے (ابتسامہ)۔)
پھر وہی بے تکی بات خود کرنی اور بے محل ابتسامہ!!، میاں جی یہ تعریف ہم نے ''دلائل خصم'' کے لحاظ سے پیش کی ہے، اور یہ بات ہم نے آپ کو پہلے بھی بتلائی تھی!! ہم پر تو اس تعریف کا ماننا لازم ہے ہی نہیں!!
جب ہم آپ کو مقلدین احناف کے حوالہ پیش کرتے ہیں، تو یہ دلائل خصم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں!!
یار ایک بات کر لیں۔ محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔ میری عقل عاجز ہے۔
بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!!
اشماریہ بھائی ! کیسی باتیں کرتے ہو!! آپ کے اس مسئلہ کا حل ابو زید الدبوسی الحنفی نے بتلایا ہے، آگے بیان کیا جائے گا!!
جرح بھی اوپر گزر گئی اور یہ بات بھی کہ مجتہد صرف تحری ہی ذکر نہیں کرتا۔
اور اس کا جواب بھی ہو گیا!!
البتہ آپ کی یہ بات قبول ہے: "اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔"
اور یہ بات قبول نہیں : "لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔" اور قبول نہ ہونے کی وجہ بہت سمپل ہے کہ بسا اوقات آپ کے نزدیک ایک چیز واضح ہوتی ہے اور دوسرے کے نزدیک نہیں ہوتی۔ تو اس پر یہ لازم ہے کہ جسے آپ خطاء کہہ رہے ہیں وہ اسے خطاء نہ سمجھتے ہوئے بھی جناب کی بات مانے؟؟؟ ایسا نہیں ہے اور اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ فرمائیے۔
میرے بھائی! میں آپ کو اس کا ثبوت دے دیتا ہوں، جہاں نہ صرف یہ کہ صرف ایک عمل میں بلکہ مقلد کا مستقل اصول بتایا گیا ہے:
التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي
فالحاصل أن مسئلة الخيار من مهمات المسائل، وخالف أبو حنيفة فيه الجمهور، وكثيرا من الناس من المتقدمين، والمتأخرين صنفوا رسائل في ترديد مذهبه في هذه المسئلة، ورجح مولانا الشاه ولي الله المحدث الدهلوي قدس سره في رسائل مذهب الشافعي من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مدظله، يترجح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسئلة، ونحن مقلدون، يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة، والله أعلم.

پس اس کا حاصل(بحث کا خلاصہ ) یہ ہے کہ مسئلہ خیار مہمات المسائل میں سے ہے، اور امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہور کی مخالفت کی ہے، اور متقدمین و متاخریں میں سے بہت سے لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے مسئلہ کی تردید میں رسائل لکھے ہیں، اور مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے رسائل میں امام شافعی کے مذہب کو احادیث و نصوص کی وجہ سے راجح قرار دیا ہے، اور اسی طرح ہمارے شیخ مد ظلہ(محمود حسن دیوبندی) نے بھی کہا کہ ترجیح امام شافعی کے مذہب کو ہے، اور کہا کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح ہے، اور ہم مقلد ہیں، ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 84التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 49التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – مكتبه رحمانيه
مجلد 01 صفحه 35 - 36التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – قديمي كتب خانه

یہ ہے مقلِدین حنفیہ دیوبندیہ کا اصول کہ حق واضح ہو جانے کے باوجود بھی اپنے مقلَد کے قول سے چمٹا رہتا ہے!!
اور اب آپ کو چاہئے کہ تمام مقلدین کو پاگل خانہ داخل کروئیں!! ویسے یہ مشورہ پہلے ہی ایک حنفی ابو زید الدبوسی نے مقلدین کو دیا ہے، اور ماشاء اللہ سے یہ معتزلی فقہ حنفیہ کے اصول مرتب کرنے والوں میں سے ہیں:
فالمقلد في حاصل أمره ملحق نفسه بالبهائم في إتباع الأولاد الأمهات على مناهجها بلا تمييز فإن ألحق نفسه بها لفقده آلة التمييز فمعذور فيداوى ولا يناظر، وإن ألحقه بها ومعه آلة التمييز فالسيف أولى به حتى يقبل على الآلة فيستعملها ويجيب خطاب الله تعالى المفترض طاعته.
تقلید کا ما حاصل یہ ہے کہ مقلد اپنے آپ کو جانوروں کی ساتھ میں شامل کر لیتا ہے کہ جس طرح جانوروں کے بچے اپنی ماؤوں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے بلا تمیز (یعنی بغیر سوچے سمجھے)چلتے ہیں ، اور مقلد نے اپنے آپ کو جانوراس لئے بنا لیا ہے کہ وہ آلہ تمیز (یعنی عقل و شعور) نہیں رکھتا ہے تو اس کا علاج کرایا جائے۔ اور وہ مناظرہ نہ کرے (کیونکہ مقلد تو عقل و شعور نہیں رکھتا)، اور جب اس خود کو جانوروں میں شامل کر لیا ہے ، تو اس کے لئے تلوار (یعنی اسے مجبور کیا جائے) حتی کہ وہ اپنے آلہ تمیز (یعنی عقل و شعور) کو استعمال کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے خطاب (یعنی احکام) کو قبول کرے!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 جلد 01 تقويم الأدلة في أصول الفقه - أبو زيد الدّبوسيّ الحنفي - دار الكتب العلمية
تو جناب اشماریہ! صاحب اب آپ خود سمیت تمام مقلدین کا علاج کروائیں!! گدو بندر کا تومعلوم ہے نا؟ ویسے کراچی نفسیاتی ہسپتال بھی ہے!!

ہمم۔ تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ آپ نے قیاس نہیں فرمایا بلکہ ڈائریکٹ حدیث سے استدلال فرمایا ہے۔
ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب حدیث میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو۔ آپ کی حدیث میں آخری نبی (اللہم صل علیہ و آلہ) آسمانی کتاب سے حکم دیکھ رہا ہے۔
یہ آپ نے ایک نیا قاعدہ وضع کیا ہے کہ ''ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب اس میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو!! آپ کو استدلال واستنباط کا معنی بھی معلوم ہے؟

ڈائریکٹ استدلال میں یہی ہوگا نا کہ جو بھی آخری نبی ہو وہ آسمانی کتاب سے حکم دیکھ سکتا ہے؟؟؟ یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
اشماریہ بھائی! اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی سنت پر صرف وہی عمل کرے جو اللہ کا آخری نبی ہو؟؟ آپ کو اندازہ بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہو؟
اشماریہ بھائی! آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، اس تقلید کے دفاع میں اس کفر و الحاد سے گریز کرو!!

یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
بھائی جان! ہمارے نزدیک تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سنت ہیں! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم قرآن نے بھی دیا ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی!
قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿سورة الأحزاب ٢١﴾

البتہ تمہارے لیے رسول الله میں اچھا نمونہ ہے جو الله اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا ، فَقَالُوا : وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا ، فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : " أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي " .
صحيح البخاري » كِتَاب النِّكَاحِ » بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
(سنا تھا کہ صرف قادیانی ہی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔)
اشماریہ بھائی! بہر حال اپنے اکابرین کے پول کھلوانے پر مصر ہیں، تو ہم کیا کرسکتے ہیں؛
نہیں جناب صرف قادیانی ہی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکتے اس کارمذموم میں دیوبندی اکابرین نے بھی بھرپور حصہ ڈالا ہے؛ ختم نبوت کے غلط حنفی اور دیوبندیوں نے ہی مرزا قادیانی کو سکھلایا ہے، میاں جی صرف مراسلہ کی طوالت کے کا لحاظ کرتے ہوئے، حوالہ پیش نہیں کر رہا، وگرنہ عقیدہ ختم نبوت میں اکابرین دیوبند اور ملا علی قاری نے جو گل گھلائیں ہیں، وہ ہم سے پوشیدہ نہیں!!

دوسرے لفظوں میں ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
اور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!

لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں نے تو توراۃ کے "اس حکم" کا ذکر کیا ہے۔ اس حکم کی تائید قرآن پاک نے کی ہوئی ہے اور یہ قرآن کی منسوخ التلاوۃ آیت سے ثابت ہے۔ وہاں حکم رجم کا ذکر ہے۔
بھائی جان! ہم نے اس آیت سے استدلال پیش نہیں کیا ہے۔ ہمارا استدلال ہم نے آپ کو پچھلی تحریر میں پھر پیان کر دیا تھا:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے سوال کیا کہ تمہاری تورات میں رجم کا حکم ہے، یہودی نے انکار کیا، جبکہ عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے، اب اس کی تصدیق کے لئے کہ کس کی بات صحیح ہے، عبد اللہ بن سلام کی یا یہودی کی، تورات لائی گئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس تورات میں رجم کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے کتاب کی شہادت کو تسلیم کیا! کہ تورات میں آیت رجم ہے! اور عبد اللہ بن سلام کی بات درست ہے۔
لہٰذا کتاب کی شہادت تسلیم کرنا نبی صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
آپ نے بہت اچھا کیا تھا کہ المرغینانی کی مثال پیش فرما دی تھی لیکن موقع سے ابھی بھی غیر متعلق ہے۔ کیا میں نے المرغینانی کو قاضی کی سی حیثیت والا کہا تھا جو آپ نے یہ مثال پیش فرما دی تھی؟؟؟ میں نے تو ایک بامقصد سوال کیا تھا ایک بات جاننے کے لیے۔ آگے سے جناب نے مثال دے دی۔
جی بالکل اور اسی سوال کے لئے المرغنیانی کی مثال پیش کر دی تھی!! آپ نے مرغنيانی کو قاضی کی حیثیت والا نہيں کہا تھا، مگر آپ کے جو اعتراضات تھے وہ المرغنیانی پر صادق آتے تھے!!

اور جب تحقیق لکھنا لازم نہیں تو ظاہر ہے جو میرے جیسا پڑھے گا اسے تحقیق نظر بھی نہیں آئے گی تو پھر وہ محدث کے فیصلہ (جی ہاں میں نے فیصلہ کا لفظ استعمال کیا ہے کیوں کہ اگر میں گواہی کا لفظ استعمال کروں تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ گواہی میرے حضور دی جا رہی ہے اور میں محدث قاضی کی سی حیثیت والا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔) کو ہی قبول کرے گا "من غیر حجۃ"۔ یہی الفاظ ہیں نا تعریف کے؟ اگر اب آپ کہیں کہ محدث کا قول ہی میرے لیے گواہی یا حجت ہے تو یہ تو فواتح الرحموت میں بھی لکھا ہے کہ مجتہد کا قول اس (مقلد) کے لیے دلیل و حجت ہوتا ہے۔ پھر فرق تو کوئی نہیں ہوا۔ (اب امید ہے کہ جناب کسی بات کو گھما کر فرق لانے کی کوشش فرمائیں گے جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا ہے۔)
پھر عجیب کہی!! آپ کو بتلایا بھی تھا کہ جس کو نص واجب کرے وہ تقیلد نہیں ہوتی!! دوبارہ مطالعہ کریں!!

ان جروحات کی وضاحت تو ہو گئی نا؟؟؟
اور ان وضاحت کا نقص اور ناقابل قبول ہونا بھی بتلا دیا گیا!
ماشاء اللہ۔ یعنی اگر کوئی کسی کی تعریف کرے تو بس وہ اس کا غلام ہو جاتا ہے؟ اس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا؟ میں خضر حیات بھائی کے علم کی تعریف کرتا ہوں۔ میری پہلی بحث انہی سے ہوئی تھی اور اس میں یہ راست تھے۔ لیکن اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ اب مجھے علمی مسائل میں ان سے کبھی اختلاف ہی نہیں ہوگا؟؟ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ الیس منکم رجل رشید؟
یہ کس حکیم نے آپ کو کہا ہے کہ تعریف کے بعد نقد نہیں کیا جاسکتا؟ ، بلکہ یہی بات تو ہم آپ کو بتلا رہے ہیں، تعریف کو تعریف کی جگہ رہنے دیں، اس تعریف سے امام محمد پر جرح ختم نہیں ہو جاتی!! فتدبر!! جیسے حافظ ، عالم، فقیہ وغیرہ کے تعریفی کلمات سے جرح رفع نہیں ہوتی!! فتدبر!!
امام شافعی نے امام محمد کے اصول فقہ پر نقد کی ہے، آپ کو یہ بتلایا تھا!!
مجتہد کتاب میں کیا کیا ذکر کرتا ہے یہ تو گزر گیا اور جرح کی بات بھی۔
اور ان کا جواب بھی اسے سے ملحق گزرا ہے!
اب انتہائی افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ میرے کچھ ٹیسٹس سر پر ہیں جن کی وجہ سے میں کچھ عرصہ فورم کو بھر پور وقت نہیں دے پاؤں گا۔ مجھے ایک پوسٹ لکھنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے کیوں کہ بہت سی چیزیں میں پہلے کتب سے دیکھتا ہوں پھر اپنے الفاظ میں ذکر کرتا ہوں۔
جی بلکل! اور بھی غم ہیں زمانے میں فورم کے سوا!!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر کوئی لنک درست نہ ہو تو براہ کرم بتلا دیجئے گا!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب اگر آپکو کسی بڑے امام کی بات لینا تھی تو ایسے بڑے امام کی بات لیتے جسکو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بنایاتھا یعنی ابوبکررضی اللہ عنہ یا چاروں خلفاء میں سے کوئی ایک ۔جنکی بات ماننے کی دلیل بھی ہے لیکن انکو چھوڑ کر ایک ایسے امام کی تقلید کرتے ہیں جسکی بات ماننے کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور جسکی بیشتر مسائل میں مخالفت خود انکے شاگردوں نے کی ہے جیسے امام ابو یوسف اور امام محمد وغیرھما۔۔۔ دنیا تو گئی چاند ستاروں سے بھی آگے اور ہم اسی تقلید کے چکر میں پڑے ہیں ۔اللہ ہم سب کو توحید اوراتباع نبی کی توفیق دے۔آمین
اگر اس بات جواب عرض کروں گا تو بات موضوع سے باہر نکل جائے گی اس لئے معذرت
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ کی بات بالکل درست ہے اشرف علی تھانوی جیسے لوگوں کا کام ہی بد کلامی ہوتی ہے!!
آپ کی باقی پوسٹ کا جواب تو ٹیسٹس سے فارغ ہونے یا وقت ملنے پر دیتا ہوں ان شاء اللہ
پہلے ذرا یہ مسئلہ حل کر لیا جائے کہ اگر "محدث فورم" واقعی جانبدار فورم نہیں ہے تو مندرجہ ذیل قاعدے کی خلاف ورزی کرنے والے انتظامیہ میں کیوں ہیں؟
نمبر2
متفرق مسالک، مذاہب، تحریکوں اور شخصیات کی ذات کو ہدف تنقید نہ بنایا جائے اور نہ ہی کسی طبقے کی معزز شخصیات کو برا بھلا کہا جائے بلکہ ان کے عقائد ونظریات کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔
دوسروں پر تنقید کرنا اور اپنے پر نقد برداشت کرناصحت مند معاشروں کی علامت ہے لیکن اس میں نقد وتنقید میں اسلوب بیان میں بہرحال نرمی ہونی چاہیے۔ کسی کی ذات کو ہدف تنقید بنانے اور فکر پر نقد کرنے میں جو فر ق ہے ، وہ ہر کسی کے لیے واضح ہے ۔ مذکورا بالا قواعد وضوابط کی تعیین تقریبا ڈیڑھ ماہ پہلے ہوئی تھی لیکن اس بارے کچھ باتیں توجہ طلب ہیں کہ ہمارے یوزرز نقد وتنقید میں کسی مسلک کے نام یا اس مسلک کے نمائندگان یا محترم شخصیات کو ہدف نہ بنائیں۔
محترم @ابو الحسن علوی
محترم @خضر حیات

اور اگر محدث فورم صرف ایک خاص مسلک کا نمائندہ فورم ہے تو پھر مجھ جیسے حضرات کو بتایا جائے تاکہ ہم یہاں علمی بحث کا سوچ کر نہ آیا کریں۔
اس سے پہلے بے شمار مرتبہ شاہد نذیر کی پوسٹس کو رپورٹ کیا ہے۔ صرف چند بار ایڈیٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ دیکھیں کہ محترم جناب ابن داود صاحب کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
یعنی آپ کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے اس آیت سے محدث کی "تقلید" ثابت ہے۔۔۔۔۔۔ اوہ سوری۔ میں غلط کہہ گیا۔
اس کے جواب میں آپ کو متنبہ بھی کیا تھا کہ:
دیکھیں بھائی جان! اس طرح کی دجل کاری کہ پہلے اسے تقلید باور کروانا اور پھر ''سوری'' لکھ کر ڈرامہ بازی کرنا، تو یاد رکھیں ، میرے قلم سے جو الفاط نکلیں گے، اس کی تاب لانا آپ کو مشکل ہو جائے گا، اور میں تو ''سوری'' بھی نہیں کروں گا، کیونکہ میں بلکل اپنا مؤقف با دلیل بیان کروں گا!! لہٰذا یہ ڈرامہ بازی آیندہ نہ کرنا وہ کہتے ہیں کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
آپ بھی بھی باز نہ آئے اور آپ نے فرمایا:
ایک بار پھر سوری۔ آپ سے زیادہ برے الفاظ تو میں شاہد نذیر سے سن چکا ہوں۔ شاید بہت سے لوگوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے۔
تو آپ کو بحوالہ جواب دے کر عرض کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بدکلامی کرتے ہیں؛ حوالہ غلط ہے یا اس کا مطلب غلط اخذ کیا ہے تو بتلاؤ!!
جناب ! آپ نے صحیح کہا کہ کچھ لوگوں کا کام ہی بہت برے الفاظ بیان کرنا ہوتا ہے۔ جیسے کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے آپ کے محمد یعقوب صاحب کے الفاظ کو توثیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اشرف علی تھانوی صاحب نے آپ کے ایمان کے لئے کی الفاظ ذکر کئے ہیں وہ بتلا دیتا ہوں:
ہمارے مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس اعتقاد کی ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے، ہے تو بہت فحش مگر ہے بالکل چسپاں، فرمایا کرتے تھے کہ عوا، کے عقیدہ کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدھے کا عضو مخصوص بڑھے تو بڑھتا ہی چلا جائے اور جب غائب ہو تو بالکل پتہ ہی نہیں۔ واقعی عجیب مثال ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 255 جلد 03 ملفوظات حکیم الامت – اراۂ تالیفات اشرفیہ، ملتان
خیر سے آپ کے اشرف علی تھانوی صاحب کے ماموں بھی کمال کی چیز تھے، لیکن ان ماموں صاحب کے ذکر خیر کو ابھی چھوڑ دیتا ہوں!!
آپ کی بات بالکل درست ہے اشرف علی تھانوی جیسے لوگوں کا کام ہی بد کلامی ہوتی ہے!!
میں نے تو پہلے ہی عرض کیا تھا کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

ابھی تو آپ کی اس بات کا جواب ہم نے مراسلہ کی طوالت کے پیش نظر مؤخر کر دیا ہے؛
(سنا تھا کہ صرف قادیانی ہی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔)
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں


اب میرے مراسلہ کا جواب دینے کے لیے کوئی دلیل ہے تو وہ پیش کریں!! میرے مراسلہ سے آپ ''غیر متفق'' ہیں یہ تو عیاں ہے۔
پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!!
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم ابن داود صاحب سے گزارش ہے کہ آپ نے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کےبارے میں ’’ بد کلامی ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ، درست نہیں ہیں ، فورم پر ایسی گفتگو کی اجازت نہیں ، امید ہے آپ تعاون فرمائیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن داود صاحب سے گزارش ہے کہ آپ نے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کےبارے میں ’’ بد کلامی ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ، درست نہیں ہیں ، فورم پر ایسی گفتگو کی اجازت نہیں ، امید ہے آپ تعاون فرمائیں ۔
بلکل ہم تعاون کریں گے، میں نے اس کا سیاق بھی نقل کردیا ہے، اشماریہ صاحب اپنے مراسلہ سے ان الفاظ کی تدوین کریں تو میں بھی اپنے الفاظ کی تدوین کرنے کواز خودتیار ہوں! اور اشماریہ صاحب آئیندہ کے لئے خیال رکھیں کہ آئیندہ بھی مجھے اس طرح کا جواب لکھنے کی نوبت نہ آئے!!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بلکل ہم تعاون کریں گے، میں نے اس کا سیاق بھی نقل کردیا ہے، اشماریہ صاحب اپنے مراسلہ سے ان الفاظ کی تدوین کریں تو میں بھی اپنے الفاظ کی تدوین کرنے کواز خودتیار ہوں! اور اشماریہ صاحب آئیندہ کے لئے خیال رکھیں کہ آئیندہ بھی مجھے اس طرح کا جواب لکھنے کی نوبت نہ آئے!!
محترم ابن داود صاحب! اشماریہ کے الفاظ یہ تھے "سوری۔ میں غلط کہہ گیا"۔ یہ کوئی ایسے خطرناک اور بیہودہ و نازیبا الفاظ نہیں تھے جنہیں جناب والا نے دجل کاری اور ڈرامہ بازی سے تعبیر کیا۔ ایک بچہ بھی جانتا ہوگا کہ میرا مطلب یہ تھا کہ ثابت تو تقلید ہی ہو رہی ہے لیکن جناب والا نہیں مان رہے۔
پھر جناب والا کے ان الفاظ پر میں نے عرض کیا کہ "اس سے زیادہ برے الفاظ تو میں شاہد نذیر سے سن چکا ہوں۔ شاید بہت سے لوگوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے" تو شاید محترم کی گرم مزاجی نے اس کا جواب بھی محترم کی عادت کے مطابق دینا مناسب جانا جیسا کہ جناب کا یہ ارشاد دوسرے تھریڈ میں گزر چکا ہے کہ "کوفے تک صدائیں جائیں گی" تو جناب نے شیخ المشائخ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کی شان میں گستاخی فرمادی۔
مجھے آپ نہیں محترمی @خضر حیات بھائی سے یہ عرض کرنا ہے کہ اس میں میرے کون سے جملے قابل تدوین ہیں جن کی میں تدوین کروں؟؟
 
Top