• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوامع الکلم سافٹ ویر میں غلطیاں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
جوامع الکلم سافٹ ویر اہل علم کے مابیں محتاج تعارف نہیں ہے لیکن اس میں رواۃ کی تعیین میں بہت ساری غلطیاں ہیں ، میں پہلے ان غلطیوں کو نوٹ نہیں کرتاتھا لیکن جب یہ محسوس ہوا کہ یہ غلطیاں بہت زیادہ ہیں تو خیال ہوا ان غلطیوں کو ایک ساتھ کہیں جمع کردیا جائے اس مقصد کے خاطر یہ دھاگہ شروع کررہا ہوں۔

یادرہے کہ اس سافٹ ویر کی بعض غلطیوں کے ذمہ دار تو اس کے مرتبین ہیں جب کی بعض غلطیوں کا سبب شاید سافٹ ویر کی تکنیکی خرابی ہے ۔


ممکن ہے جوامع الکلم کی اغلاط کی نشاندہی کرنے میں ناچیز خود ہی غطی کرجائے اس لئے اہل علم سے گذارش ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوتو مطلع فرمائیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذیل میں اس سافٹ ویر کی اہم غلطیوں کا خلاصہ بیان کردیا جائے۔

  • یہ سند میں تدلیس کے عیب کو سرے سے پکڑتاہی نہیں بلکہ مدلس عن الکذابین تک کی معنعن روایات پر صحت کا حکم لگادیتاہے۔
  • یہ سند میں انقطاع کی علت نہیں پکڑتا بلکہ اسے متصل ہی بتاتاہے اورسند کو صحیح کہتاہے البتہ ارسال پرگرفت کرتاہے۔
  • یہ سند یا متن کے شذوذ سے بالکل بحث نہیں کرتا بلکہ اس سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف ظاہررواۃ کو دیکھ کر سند پرحکم لگا دیتاہے۔
  • یہ اضطراب فی المتن یا فی السند پر بھی دھیان نہیں دیتا بلکہ اسے نظر انداز کرتے ہئے محض ظاہری رواۃ کو دیکھ کر سند کو صحیح یا حسن کہہ دیتاہتاہے۔
  • یہ مقبول رواۃ کی منفرد مرویات کو بھی حسن کہہ دیتاہے اوریہاں کا مقبول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مقبول سے ذرا الگ ہے ۔
  • غالبا تکنیکی خرابی کی وجہ سے بعض بالاتفاق ثقہ رواۃ کو مجہول اوربعض مجہول رواۃ کو ثقہ بتاتاہے یعنی کسی دسرے راوی کا ترجمہ موجودہ راوی کے ساتھ منسلک ہوجاتاہے۔
  • بخاری ومسلم کی متفق علیہ احادیث میں سے بھی بعض کی سند کو بھی ضعیف بتلاتا ہے اسی طرح بخاری ومسلم کی ان تمام احادیث کی سندوں کو ضعیف بتلاتا ہے جس میں کوئی ضعیف راوی ہو، گرچہ بخاری ومسلم میں آگے پیچے اس کے شواہد یا متابعات موجود ہوں ۔


آن لائن استعمال کرنے کے لئے سافٹ ویر کا لنک​


آف لائن استعمال کرنے کے لئے ڈاؤنلوڈ لنک​
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عُثْمَان بْن أَحْمَد الدقاق ابن السماك کو ثقہ کہنے والے ’’ابْن الفضل القطان‘‘ کون؟


جامع الکلم سافٹ کھولیں اس میں ’’عُثْمَان بْن أَحْمَد الدقاق ابن السماك‘‘ کاترجمہ نمبر27927 پرہے۔

اس راوی سے متعلق جرح و تعدیل کی فہرست میں ہے:

ابولحسن بن القطان الفاسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثقة صالح صدوق۔


عرض ہے کہ مذکورہ توثیق کا انتساب ’’ابولحسن بن القطان الفاسی‘‘ کی طرف درست نہیں ہے۔
تفصیل ملاحظہ ہو:

مذکورہ توثیق کا مرجع تاریخ بغداد ہے ، یہاں سے اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:


حَدَّثَنَا ابْن الفضل القطان، قَالَ: توفي أَبُو عَمْرو ابْن السماك فِي يوم الجمعة بعد الصلاة، ودفن فِي يوم السبت لثلاث ليال بقين من شهر ربيع الأول سنة أربع وأربعين وثلاث مائة، وصلى عليه ابنه مُحَمَّد، وحزر من حضر جنازته بخمسين ألف إنسان، ودفن فِي مقابر باب الدير، وكان ثقة صدوقا صالحا [تاريخ بغداد ت بشار (13/ 190)]

ملاحظہ فرمائیں کہ کہ تاریخ بغداد میں مذکورہ توثیق کے قائل ’’ ابن الفضل القطان ‘‘ امام خطیب بغدادی کے استاذ ہیں ، اورخطیب بغدادی تاریخ وفات 463 ہے۔

جبکہ ’’ابوالحسن بن القطان الفاسی‘‘ یہ ’’علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان‘‘ ہیں، اور ان کی پیدائش 562ہے۔
یعنی یہ ابن القطان ، خطیب کے بغددی کے دورمیں میں پیداہی نہیں ہوئے تھے لہٰذا یہ خطیب بغدادی کے استاذ ہوہی نہیں سکتے۔


معلوم ہوا کہ جوامع الکلم میں مذکورہ توثیق کو ابن القطان الفاسی کی طرف منسوب کرنا غلط ہے۔

لیکن آئیے اب دیکھتے ہیں کہ صحیح کیا ہے ، یعنی مذکورہ توثیق کے قائل اور خطیب بغدادی کے استاذ ’’ابْن الفضل القطان‘‘ کون ہیں۔

تو عرض ہے کہ ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ خطیب بغدای کے اساتذہ میں’’ ابن الفضل القطان‘‘ نام کے دو استاذ ہیں ، اورخطیب بغدادی نے دونوں سے علم حاصل کیا ہے، ان دونوں کے نام درج ذیل ہیں:

پہلے استاذ:
محمد بْن الحسين بْن محمد بْن الفضل الأزرق، أبو الحسين القطّان. [المتوفى: 415 ]۔

خطیب بغدادی خود کہتے ہیں:كتبنا عنه وكان ثقة۔۔۔۔۔۔۔وكان يسكن دار الفطن [تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 2/ 246]۔


دوسرے استاذ:
عَبْد العزيز بْن مُحَمَّد بْن الحُسين بْن الفضل، أبو القاسم القطان. [المتوفى: 458 ]۔

خطیب بغدادی خود کہتے ہیں:كتبت عنه وكان صدوقا يسكن دار القطن[تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 10/ 469]۔


اب جب’’ابن الفضل القطان‘‘ نام کے خطیب بغدادی کے دو استاذ ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ مقام پر انہوں نے اپنے کس استاذ سے توثیق نقل کی ہے:

یہ جاننے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خطیب بغدادی کے مذکورہ دونوں اساتذہ کے اساتذہ کون کون ہیں:
اس کی تفصیل یہ ہے :

محمد بْن الحسين بْن محمد بْن الفضل الأزرق، أبو الحسين القطّان. [المتوفى: 415 ] کے اساتذہ یہ ہیں:

  • إِسْمَاعِيل الصَّفّار،
  • مُحَمَّد بْن يحيى بْن عُمَر بن علي بن حرب،
  • عُثْمَان بْن أَحْمَد الدقاق المعروف بابن السماك
  • وعبد الله بْن دُرُسْتُوَيه،
  • أحمد بْن سلمان النجاد،
  • عَبْد اللَّهِ بْن جعفر بن درستويه،
  • أبا الحسين بن ماتى الكوفي،
  • جعفرا الخلدي، وأبا سهل بْن زياد،
  • محمد بْن الْحَسَن النقاش،
  • حمزة بن محمّد العقبي،
  • أحمد بن عثمان بن الأدمي


عَبْد العزيز بْن مُحَمَّد بْن الحُسين بْن الفضل، أبو القاسم القطان. [المتوفى: 458 ]کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

  • مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُخَلِّصُ
  • عُبَيْد اللَّه بن أَحْمَد الصّيدلانيّ
.



مقدم الذکر کے اساتذہ میں ہمیں عُثْمَان بْن أَحْمَد الدقاق المعروف بابن السماك نام بھی مل رہا ہے اور مذکورہ توثیق انہیں کےبارے میں ہے لہٰذا ثابت ہواکہ مذکورہ توثیق خطیب کے انہیں استاذ کی اور انہوں نے اپنے استاذ کی توثیق کی ہے۔


ایک غلطی کی نشادہی ختم ہوئی مزید غلطیوں کی وضاحت آئندہ۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
ابن عساکر کی ایک سند میں ایک راوی کاترجمہ


(416)- [418] وَأَخْبَرَنَا الشُّيُوخُ أَبُو سَعْدٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ النَّيْسَابُورِيُّ الْمَعْرُوفُ بِالْكِرْمَانِيِّ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ، وَأَبُو الْمُظَفَّرِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ هَوَازِنَ، وَأَبُو الْقَاسِمِ زَاهِرُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّحَّامِيُّ بِنَيْسَابُورَ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ خَلَفٍ الْقَيْرَوَانِيُّ، قَالَ: نَا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ، قَالَ: نَا جَدِّي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: نَا رَجَاءُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُذْرِيُّ، نَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، قَالَ: نَا الصَّلْتُ بْنُ مَهْرَانَ، قَالَ: نَا الْحَسَنُ، قَالَ: نَا جُنْدُبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجْلِيُّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ [ ج 1 : ص 373 ]
اللَّهِ K: " إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي: رَجُلٌ قَرَأَ كِتَابَ اللَّهِ G حَتَّى إِذَا رُؤِيَتْ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ، وَكَانَ رِدْءًا للإِسْلامِ اغْتَرَّهُ ذَلِكَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ، فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالشِّرْكِ ".
قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَوْلَى بِهَا، الْمَرْمِيُّ أَوِ الرَّامِي؟.
قَالَ: " بَلِ الرَّامِي "


مذکورہ اقتباس جوامع الکلم میں موجود ابن عساکر کی کتاب تبین کذب المفتری سے کاپی کیا گیا ہے۔
اگرجوامع الکم میں یہ صفحہ کھولا جائے اور یہاں پر موجود روایت کے راوی ’’الصَّلْتُ بْنُ مَهْرَانَ‘‘ پر کلک کیا جائے تو صلت بن مھران کے بجائے صلت بن بھرام کا ترجمہ سامنے آتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقام پر موجود صلت نامی راوی کے تعین میں اختلاف ہے لیکن جب ابن عساکر کی اس سند میں صلت بن مھران کی صراحت تھی تو جوامع الکم کے مرتبین کو یہاں صلت بن مھران ہی کاترجمہ پیش کرنا چاہئے۔

واضح رہے کہ یہی روایت اسی طریق سے امام بخاری کی کتاب تاریخ میں بھی ہے اور تاریخ کے مطبوعہ نسخہ میں صلت بغیر ولدیت کے ہے ، لیکن ابن حجر رحمہ اللہ نے تاریخ ہی سے یہی سند ولدیت کے ساتھ نقل کیا ہے ، اور یہاں صلت کاترجمہ جوامع الکلم والوں نے صلت بن مھران کا دیا ہے ۔
عرض ہے کہ اسی طرح ابن عساکر کی مذکورہ روایت میں بھی جب صلت بن مھران واضح طورپر صراحت کے ساتھ موجود ہے تو یہاں بھی صلت بن مھران ہی کا ترجمہ پیش کرناچاہئے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اللہ آپ کی عمراور محنتوں میں برکت عطا فرمائے ۔
آمین
جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے آمین
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
معدوم الوجود توثیق


جوامع الکلم سافٹ ویر(قدیم ورزن) میں معاویہ بن یحیی الاطرابلسی کے سلسلے میں امام ابو نعیم کی توثیق نقل کی گئی ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے،کیونکہ أبونعیم کاایساکوئی قول نہ توان کی کسی کتاب میں موجود ہے اورنہ ہی کسی دوسری کتاب میں منقول ہے ،غالباان حضرات کوأبونعیم کی ایک روایت سے غلط فہمی پیداہوئی ہے ،أبونعیم فرماتے ہیں:
''حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن، ثنا محمد بن زنجویہ، ح وحدثنا محمد بن علی بن حبیش، ثنا محمد بن محمد بن سلیمان، قالا: ثنا ہشام بن عمار، ثنا أبو مطیع معاویة بن یحیی الأطرابلسی، وکان ثقة، ثنا محمد بن الولید الزبیدی، عن جبیر بن نفیر، عن سبرة بن مالک، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: " الموازین بید الرحمن، یرفع قوما ویضع آخرین، وقلب ابن آدم بین أصبعین من أصابع الرحمن، ن شاء أقامہ، ون شاء أزاغہ'' [معرفة الصحابة لأبي نعيم:٢/٥٢٥رقم٣٦٠٤،ط.بيروت].

اس روایت میں ''وکان ثقة'' کاقائل امام أبونعیم کوسمجھ لیاگیاہے،جبکہ اس کے قائل ہشام بن عمارہیں ،اس کی دلیل یہ ہے کہ اس روایت کو ہشام بن عمارہی کے طریق سے ابن أبی عاصم نے بھی نقل کیاہے چنانچہ فرماتے ہیں:
''حدثنا ہشام بن عمار ، حدثنا أبو مطیع معاویة بن یحیی ثقة ، حدثنا محمد بن الولید الزبیدی عن عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ عن سبرة بن أبی فاکہة الأسدی قال قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الموازین بید الرحمن یرفع قوما ویضع آخرین''[السنة لابن أبي عاصم:٢/٣٦١رقم٧٧٨].

اوران کی روایت میں بھی مذکورہ توثیق موجودہے، لہذا اس قول کے قائل أبونعیم نہیں بلکہ ہشام بن عمارہیں ۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اس توثیق کوہشام بن عمار کی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
وقال هشام بن عمار حدثنا أبو مطيع معاوية بن يحيى الأطرابلسي وكان ثقة
ملاحظہ ہو:[تهذيب التهذيب:٠ا/١٩٨ت٤٠٥]



تنبیہ؛
جوامع الکم کے جدید ورزن میں رقم 44872کے تحت راوی مذکور کا ترجمہ موجود ہے۔
اور اس ورزن میں شاید مذکورہ غلطی کی اصلاح کی کوشش کی گئی لیکن پھر کتابت کی غلطی واقع ہوگئی :
جدیدوزن میں محوالہ مقام پر یہ عبارت ہے:

ذكره في معرفة الصحابة ونقل عن أبي مطيع أنه قال : ثقة

جبکہ صحیح عبارت اس طرح ہونی چاہئے:
ذكره في معرفة الصحابة ونقل عن ھشام بن عمار أنه قال : ثقة


واللہ اعلم۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
استاذ کی توثیق شاگرکی طرف منسوب


جوامع الکلم رقم 43147 کے تحت ’’ابوحمزہ،محمد بن ميمون المروزي‘‘ کاترجمہ ہے ۔
اس سےمتعلق اقوال ناقدین کی فہرست میں ، عباس بن محمد الدوری کی طرف ابوحمزہ سے متعلق من ثقات الناس کا قول منسوب کیا گیا ہے ، حالانکہ یہ توثیقی قول عباس الدوری کا نہیں بلکہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا ہے۔

اصل تسامح کس کا؟؟؟؟
غالبا مذکورہ تسامح سب سے پہلے امام مزی سے ہوا ہے یا ناسخ سے ہوا چنانچہ تھذیب الکمال میں ہے:
وَقَال عَباس الدُّورِيُّ : كان أبو حمزة السكري من ثقات الناس ، وكان إذا مرض عنده من قد رحل إليه ينظر إلى ما يحتاج إليه من الكفاية ، فيأمر بالقيام به ، ولم يكن يبيع السكر ، وإنما سمي السكري لحلاوة كلامه.[تهذيب الكمال للمزي: 26/ 546]۔

اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لکھا:
وقال الدوري: كان من ثقات الناس ولم يكن يبيع السكر وإنما سمي السكري لحلاوة كلامه[تهذيب التهذيب لابن حجر: 9/ 487]۔

پھر انہیں کتابوں کو دیکھ کر جوامع الکلم کے مرتبین نے بھی مذکورہ قول عباس دوری کی طرف منسوب کردیا ۔
لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مذکورہ قول ابن معین رحمہ اللہ کا ہے۔

دراصل مذکورہ قول کا ماخذ تاریخ بغداد ہے ہم تاریخ بغداد کے اصل الفاظ دیکھتے ہیں:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي محمد بن جعفر بن عَلان الشروطي، قَالَ: أخبرنا أبو الحسن أحمد بن جعفر الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا معروف بن محمد الجرجاني، قَالَ: قلت لعباس الدوري سمعت يحيى بن معين، يقول: كان أبو حمزة السكري من ثقات الناس، وكان إذا مرض عنده من قد رحل إليه ينظر إلى ما يحتاج إليه من الكفاية فيأمر بالقيام به، واسمه محمد بن ميمون ولم يكن يبيع السُّكَرَ، وإنما سمى السُّكَرِيُّ لحلاوة كلامه؟ قَالَ: نعم[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 4/ 432 رجالہ ثقات خلا معروف بن محمد الجرجانی فانی لم اجد من وثقہ لیکن لھذا القول شواھد متفرقۃ]۔

امام سمعاني رحمه الله(المتوفى 562)نے بھی مذکورہ قول کی تخریج کی ہے موصوف نے کہا:
أخبرنا عبد الرحمن بن أبي غالب، أنا أحمد بن علي بن ثابت، أخبرني محمد بن جعفر بن علان الشروطي، أنا أبو الحسن أحمد بن جعفر الخلال،ثنا معروف بن محمد الجرجاني، قال: قلت لعباس الدوري: سمعت يحيى بن معين يقول: كان أبو حمزة السكري من ثقات الناس، وكان إذا مرض عنده من قد رحل إليه ينظر إلى ما يحتاج إليه من الكفاية، فيأمر بالقيام به، واسمه محمد بن ميمون، ولم يكن يبيع السكر، وإنما سمي السكري لحلاوة كلامه، قال: نعم [الانساب للسمعاني 7/ 18]۔

معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت میں یہ قول امام ابن معین رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے لہٰذا درست بات یہ ہے کہ اس قول کو ابن معین رحمہ اللہ کے حوالہ سے ہی درج کرنا چاہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ قول کو امام ابن معین ہی طرف منسوب کیا ہے ، فرماتے ہیں:
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: كَانَ أَبُو حَمْزَةَ مِنَ ثقات النّاس، ولم يكن يبيع [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 10/ 544]۔


فائدہ:
مذکوہ قول کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے ’’معروف بن محمد الجرجاني‘‘ کے صرف ان کی توثیق مجھے نہیں مل سکی ۔
لیکن مذکورہ قول کے صحیح شواہد موجود ہیں چنانچہ:
ابن الجنید نے کہا:
سألت يحيى بن معين عن أبي حمزة السكري، فقال: «ثقة».[سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 335]۔
عباس دوری رحمہ اللہ نے کہا:
سألت يحيى عن أبي حمزة السكري فقال ثقة [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 4/ 354]۔
نیز یہ بھی ثابت ہے ۔
أبو حمزة السكري اسمه محمد بن ميمون وقد حدث عنه بن المبارك وعلي بن الحسين بن شقيق وكان إذا مرض إنسان من جيرانه يسأل ما أنفق وما أنفق عليه ثم يأمر أهله فيتصدقون بمثل ما أنفق على ذلك المريض يقول نحن أصحاء أو نحو هذا من الكلام قال يحيى [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 4/ 359]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
’’عبداللہ بن یزید‘‘ کی تعیین میں غلطی


خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
وَمِنَ السُّنَّةِ مَا: أنا أَبُو الصَّبْهَاءِ وَلَّادُ بْنُ عَلِيٍّ الْكُوفِيُّ , أنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , أنا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ , نا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشٍ , قَالَ: سَأَلْنَا سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنِ الْبَيْضَاءِ , بِالسُّلْتِ فَكَرِهَهُ , وَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ فَقَالَ: «أَيَنْقُصُ إِذَا جَفَّ؟» قَالُوا نَعَمْ , فَنَهَى عَنْهُ قَدْ عَلِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ الرُّطَبَ يَنْقُصُ إِذَا جَفَّ , وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ إِشْكَالٌ عَلَيْهِ وَلَا عَلَى غَيْرِهِ , وَإِنَّمَا أَرَادَ بِالسُّؤَالِ عَنْهُ تَنْبِيهَهُمْ عَلَى الْمَعْنَى فِي التَّحْرِيمِ , لِيَعْلَمُوا أَنَّ كُلَّ مَأْكُولٍ رَطْبٍ يَجِفُّ , فَلَا خَيْرَ فِيهِ بِشَيْءٍ مِنْ جِنْسِهِ رَطْبًا وَلَا يَابِسًا , وَمَثَلُ ذَلِكَ[الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي 1/ 514]۔

اس سند میں موجود عبداللہ بن یزید کی تعیین جوامع الکلم میں عبد الله بن يزيد بن عبد الله بن قسيط سے کی گئی ہے، اوریہ غلطی ہے۔

اورصحیح بات یہ ہے کہ یہاں عبداللہ بن یزید سے مراد’’ عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان‘‘ ہیں اس کے کئی دلائل ہیں:

پہلی دلیل:
دیگرطریق میں یہ صراحت آگئی ہے مثلا:
امام ابن ماجة رحمہ اللہ (المتوفى: 273ھ) نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَإِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ، مَوْلًى لِبَنِي زُهْرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ اشْتِرَاءِ الْبَيْضَاءِ بِالسُّلْتِ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: أَيَّتُهُمَا أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْبَيْضَاءُ، فَنَهَانِي عَنْهُ، وَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سُئِلَ عَنِ اشْتِرَاءِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ، فَقَالَ: «أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟» قَالُوا: نَعَمْ، فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ[سنن ابن ماجه 2/ 761]۔



دوسری دلیل:
عبد الله بن يزيد بن عبد الله بن قسيط کے شاگردوں میں امام مالک کا تذکرہ کسی نے نہیں کیا ہے جبکہ ’’ عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان‘‘ کے شاگردوں میں امام مالک کا تذکرہ ملتاہے۔
مثلا امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
عَبد اللهِ بْن يَزِيد، مَولَى الأَسوَد بْن سُفيان.سَمِعَ أبا سَلَمة، وأبا عَيّاش، وهو الأَعوَر. رَوَى عَنه: مالك، ويَحيى بْن أَبي كَثِير. [التاريخ الكبير للبخاري: 5/ 225]۔


تنبیہ:

یادرہے کہ عبد الله بن يزيد بن عبد الله بن قسيط کو ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے جبکہ عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان مشہور ثقہ اورکتب ستہ کے راوی ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَرُوذِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ثنا أَبُو مُطَرِّفٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ: كَلَّا بَلْ لَا يُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ وَلَا يَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ وَيَأْكُلُونَ وَيُحِبُّونَ، كُلُّهَا بِالْيَاءِ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2/ 280]۔

اس روایت کی سند میں موجود ’’أَبُو مُطَرِّفٍ‘‘ پر کلک کریں گے تو سافٹ ’’عبد الرحمن بن معاوية الهشامي‘‘ کا بطاقہ پیش کرتاہے۔
جب کہ یہ غلط ہے اورصحیح یہ ہے کہ اس سند میں موجود ’’أَبُو مُطَرِّفٍ‘‘ یہ ’’أبو المطرف،المغيرة بن مطرف الرواسي‘‘ ہے۔

جیساکہ دیگرطرق حدیث میں اس کی صراحت ہے نیز اساتذہ وتلامذہ کارشتہ بھی یہی واضح کرتاہے۔
 
Top