محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ۰۠ فَقَدْ رَاَيْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۱۴۳ۧ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۰ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْہِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللہَ شَئًْا۰ۭ وَسَيَجْزِي اللہُ الشّٰكِرِيْنَ۱۴۴ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۰ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا۰ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ۱۴۵
اورتم تو اس موت (اُحد) کی ملاقات سے پہلے (شہادت کی موت) مرنے کی آرزو کرتے تھے۔ سو تم اب موت کو ۱؎ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چکے۔ (۱۴۳) اور محمد(ﷺ) تو صرف ایک رسول (ﷺ)ہے ۔ اس سے پہلے بہت سے رسول گذر گئے۔پھرکیا اگر وہ مر جائے یا مارا جائے تو تم الٹے پاؤں پھرجاؤگے؟ اور جو کوئی اپنے الٹے پاؤں پھرے گا وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور خدا شکر گزاروں کو بدلہ دے گا۔(۱۴۴) اورکوئی نفس بغیر حکم خدا کے مرنہیں سکتا۔ وقت مقرر لکھا ہوا ہے اور جو کوئی دنیا میں بدلہ چاہے گا ہم اس میں سے اسے دیں گے اور جو کوئی آخرت کا بدلہ چاہے گا ہم اس میں سے اسے دیں گے اور ہم شکر گزاروں کو بدلہ دیں گے۔(۱۴۵)
اورتم تو اس موت (اُحد) کی ملاقات سے پہلے (شہادت کی موت) مرنے کی آرزو کرتے تھے۔ سو تم اب موت کو ۱؎ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چکے۔ (۱۴۳) اور محمد(ﷺ) تو صرف ایک رسول (ﷺ)ہے ۔ اس سے پہلے بہت سے رسول گذر گئے۔پھرکیا اگر وہ مر جائے یا مارا جائے تو تم الٹے پاؤں پھرجاؤگے؟ اور جو کوئی اپنے الٹے پاؤں پھرے گا وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور خدا شکر گزاروں کو بدلہ دے گا۔(۱۴۴) اورکوئی نفس بغیر حکم خدا کے مرنہیں سکتا۔ وقت مقرر لکھا ہوا ہے اور جو کوئی دنیا میں بدلہ چاہے گا ہم اس میں سے اسے دیں گے اور جو کوئی آخرت کا بدلہ چاہے گا ہم اس میں سے اسے دیں گے اور ہم شکر گزاروں کو بدلہ دیں گے۔(۱۴۵)
۱؎ اسلام قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام باطل قوتوں کے ساتھ جنگ چھڑجائے، اس لیے کہ جو شخص حق نواز ہوگا، ضرور ہے کہ طاغوت کا دشمن ہو۔ شیطان کی دوستی اوراسلام یہ دومختلف چیزیں ہیں جو کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں، اس لیے جو مومن ہے اور جس کا نصب العین جنت کا حصول ہے ، وہ اس گمان باطل میں نہ مبتلا رہے کہ بغیر جہاد کیے اور مصیبتیں جھیلے خدا کی رضا کو حاصل کیاجاسکتا ہے ۔ان آیات میں مسلمانوں کی عام جماعت کو مخاطب کیا ہے کہ تم غزوہ اُحد سے پہلے شوق شہادت میں بے چین تھے۔ اب تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیوں نہیں اٹھ کر اپنی عزیمیت وقوت کا ثبوت دیتے اورکیوں ثابت نہیں کردیتے کہ ہم جنت کے وارث ومستحق ہیں۔ وَلَمَّا یَعْلَمِ سے مراد یہ ہے کہ مجاہدین وصابرین کاگروہ متمیز طورپرالگ ہوجائے اور واضح طورپر الگ ہوجائے ۔ کون خدا کی راہ میں جان دیتا ہے اورکون ہے جو جی چراتا ہے ۔ نہ یہ کہ خدا جان لے، اس لیے کہ اس کے علم میں واقعات وحوادث سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کا علم ہمیشہ سے کامل اور ہمہ گیر ہے۔جو شخص حق نواز ہوگا، ضرور ہے کہ طاغوت کا دشمن ہو