اشرف آصف جلالی صاحب نے 2009 میں ایک سیمینار کیا تھا جس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ امت امت توحید ہے اس میں شرک ہو ہی نہیں سکتا ، لہذا وہابیوں کا شرک شرک کہہ کر اپنا کاروبار چمکانا بالکل بے بنیاد ہے ۔
اس پوری تقریر پر اہلحدیث کے جلیل القدر علماء دین مثلا مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ وغیرہ نے بہترین رد کیا تھا ، اسی طرح مولانا عطاء الرحمن جامعہ محمدیہ لوکو ورکشاب لاہور نے بھی اس پر
طویل مضمون لکھا تھا جوکہ محدث میں بھی چھپ چکا ہے ۔
تقریبا دوسال پہلے کسی اہلحدیث عالم دین نے بالواسطہ مجھے یہ کام سونپا تھا کہ جلالی کی اس تقریر اس انداز سے رد کیا جائے کہ پہلے تقریر کا اقتباس ہو پھر اس کا رد ہو ۔ تو الحمد للہ اللہ کی توفیق سے اس کام کو میں نے باوجود اپنی سستی و کاہلی کے مکمل کر لیا تھا اور ان عالم دین کو بھجوادیا تھا ۔
جیساکہ میں نے ذکر کیا جلالی کے بنیادی دلائل کا رد تو علماء پہلے کر چکے تھے لہذا میں نے ان کی تقاریر و تحاریر سے بھی بہت زیادہ استفادہ کیا بلکہ بعض جگہوں پر ان کے الفاظ ہی نقل کردیے ، لیکن کئی مقامات پر کوشش کرکے اپنی طرف سے اضافے بھی کیے تھے ، اسی تحریر میں سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
جلالی کا شبہ :
واللہ إنی لا أخاف علیکم أن تشرکوا بعدی ... یہ حدیث صحیحین کے علاوہ مسند احمد ، صحیح ابن حبان اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے ۔
حدیث کا ترجمہ : اللہ کی قسم مجھے یہ خدشہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔
گویا یہ امت امت توحید ہے اس میں شرک آ ہی نہیں سکتا نتیجتا آج کل جس کو وہابی لوگ شرک شرک کہتے پھرتے ہیں یہ ان کی خام خیالی اورسوء فہم ہے ۔
جواب :
اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث سےفردا فردا شرك كی نفی مراد نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر یعنی تمام امت کے مشرک ہونے کی نفی ہے اور واقعتا ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ ہردور میں موحدین موجود رہیں گے حتی یأتی أمر اللہ اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی کثیر بلکہ اکثر تعداد ایسی بھی ہوگی جو شرک میں مبتلا رہے گی جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے
و ما یؤمن أکثرہم باللہ إلا وہم مشرکون ۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مفہوم جو ہم نے متعین کیا ہے یہی مفہوم بیان کرتے ہوئے مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی فرماتے ہیں :
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے اس کا معنی یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہو جاؤ گے اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے ۔ ‘‘ ( نعمۃ الباری ج 3 ص 514 )
شارحین حدیث نے بھی اس کا یہی مفہوم متعین کیا ہے چنانچہ ذیل میں ہم چند اقتباسات ذکر کرتے ہیں :
زین الدین العراقی طرح التثریب ( ج 3 ص 297 )میں فرماتے ہیں :
قوله «وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي» أي مجموعكم وإن كان قد يقع ذلك لبعضهم .
علامہ بدر الدین عینی حنفی فرماتے ہیں :
قوله: (ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي) معناه: على مجموعكم، لأن ذلك قد وقع من البعض، والعياذ بالله تعالى. ( عمدۃ القاری ج 8 ص 157 )
علامہ قسطلانی ارشاد الساری (ج 9 ص 342 ) میں فرماتے ہیں :
(وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي) أي ما أخاف على جميعكم الإشراك بل على مجموعهم لأن ذلك قد وقع من بعض
ملا علی قاری حنفی نے شرح الشفا للقاضی عیاض ( ج 1 ص 373 ) میں بھی یہی معنی بیان کیا ہے لکھتے ہیں :
قوله (وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي) أي جميعكم .
یہ چند علماء کرام کے اقتباسات تھے جن سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے اور جہاں تک میں شروح حدیث دیکھ سکا ہوں کسی بھی عالم دین نے اس حدیث کو پیش کرکے اس سے وہ معنی اخذ نہیں کیا جو آج کل جلالی صاحب اور ان کے ہمنوا مراد لیتے ہیں ۔
اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ اس طرح کا اسلوب مزید احادیث میں بھی ملتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علہ وسلم کا ارشاد ہے :
فو اللہ لا الفقر أخشی علیکم ( صحیح بخاری )
اللہ کی قسم مجھے تم پر فقرکا خدشہ نہیں ہے ۔
اب اس حدیث کی بنیاد پر کوئی بھی صاحب عقل شخص یہ نہیں کہے گا کہ امت محمدیہ میں کوئی فقیرہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس کا معنی یہی ہے کہ مجموعی طور پر اس امت پر فقر چھا جائے یہ نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ صحیح ابن حبان (رقم 3213 ) میں یہ حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرۃہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں :
قال النبي - صلى الله عليه وسلم -:((ما أخشى عليكم بعدي الفقر , ولكني أخشى عليكم التكاثر وما أخشى عليكم الخطأ , ولكني أخشى عليكم العمد))
اس حدیث میں مزید یہ ہے کہ مجھے یہ بھی خدشہ نہیں کہ تم خطاء میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔
اس کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ پوری امت مجموعی طور پر خطاء پر اکٹھی نہیں ہو گی اسی وجہ سے اجماع امت کو قابل حجت گردانا جاتا ہے کہ بعض افراد یا اکثر افراد کو غلطی لگ سکتی ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری کی ساری امت کسی غلط بات پر متفق ہو جائے ۔
اب مشرکین کو طفل تسلیاں دینے والے جلالی صاحب اپنے انوکھے فہم کے مطابق اس حدیث سے بھی یہی معنی اخذ کریں گے کہ امت محمدیہ کا کوئی شخص غلطی نہیں کرسکتا ؟ فیا للہ العجب !