• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد صرف اسلامک اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے --؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ آپ اچھی طرح جانتے ھیں کہ بعض ںاگزیر حالات میں شریعت کے اصول ضوابط بھی معطل ھؤ جاتے ھیں-
نہیں میرے بھائی! میں یہ بالکل نہیں جانتا کہ شریعت کے اصول و ضوابط معطل ہوسکتے ہیں!
جیسے قحط کے دنوں میں ایک خلیفه راشد ںے چوری کی شرعی سزا "ہاتھ کاٹنے " کو وقتی طور پر معطل کردیا تھا-
جی! مگر مجھے نہیں معلوم کہ خلیفہ راشد نے شریعت کے کس اصول کو معطل کیا!
اور آگے آپ جذبات میں بھول گئے کہ آپ کے کلام کی زد میں خلیفہ راشد بھی آجائیں گے!
أپ پہلے یہ واضح کرہیں کہ "اسلامی حکومت " آخر کہتے کس کو ھیں ؟؟ اگر ایک خطہ زمین پر اسلامی احکامات کو واجبی طور پر نافذ کرنا اسلامی حکومت کا شاخسانہ اور دلیل ہے- تو پھر اسطرح تو تاتاریوں کا نفاز کرده قانون "الیاسق" بھی اسلامی کہلاے گا کیوں کہ وہ بھی "واجبی طور پر" الله کو رب اور نبی کریم صل الله الیہ و الیه وسلم کو رسول مانتے تھے -
اسلامی حکومت ہم اسے کہتے ہیں، کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو!
الیاسق کے ماننے والے تاتاریوں کو ان کی عقائد کی بناء پر مسلمان نہیں بلکہ کافر ہی کہا گیا ہے، نہ انہیں مسلمان کہا گیا، اور نہ ان کی حکومت کو!
لہٰذا مسلمانوں کی حکومت کو ان کی تاتاریوں کی حکومت پر قیاس کرنا باطل ہے!
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تاتاریوں کو کافر اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مجموعہ قوانین کو شرعی قوانین کے برابر حیثیت دیتے تھے اور یہ اعتقادی کفر ہے - کسی بھی انسانی قانون کو شرعی قانون کے برابر قرار دینا صریح کفر ہے - جیسے ہمارا پارلیمانی نظام جو الله کے قوانین کو بھی by pass کرتا ہے اور یہ الله کی ذات کے ساتھ صریح شرک اور کفر ہے-
ہمارا پالیمانی نظام کسی بھی قانون کو شرعی قانون کے سے نہ بہتر قرار دیتا ہے اور نہ ہی برابر! یہ آپ کی غلط فہمی ہے!
اب سوال آپ سے ہے کہ:
01: خلیفہ راشد نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے قانون کو کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں، کیونکر معطل کیا؟
02: اور کیوں اپنا انسانی قانون نافظ کیا؟
03:کیا آپ کا یہ ''صریح شرک اور کفر '' کا فتویٰ خلیفہ راشد پر بھی لاگو کیا جائے گا؟
04:اور اگر نہیں تو کیوں؟
قران کریم میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ :
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
اور جو کوئی اس چیز کے موافق فیصلہ نہ کرے جو الله نے اتارا ہے -تو وہی لوگ کافر ہیں-
اس پر مجھے خلیفہ راشد کا قول یاد آیا:

قَالَ عَلِيٌّ: كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا، إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ، «يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا، مِنْهُمْ، - وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ - مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَيْهِ
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : یہ کلمہ حق ہے جس سے با طل مراد لیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لو گوں کی صفات بیان کیں میں ان لو گو ں میں ان صفات کو خوب پہچا نتا ہوں (آپ نے فر ما یا ) :"وہ اپنی زبانوں سے حق بات کہیں گے اور وہ (حق )ان کی اس جگہ ۔۔۔آپ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔سے آگے نہیں بڑھے گا یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے ہا ں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہیں
صحيح مسلم» كِتَاب الزَّكَاةِ» بَاب التَّحْرِيضِ عَلَى قَتْلِ الْخَوَارِجِ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
کشمیر اور شام میں اسلامی حکومت نہیں،لہٰذا وہاں کے لوگ کسی اسلامی حکومت کے تابع نہیں! اور انہیں بھی اس بات کو مدّنظر رکھنا چاہئے کہ چار پتھر اور دو فوجیوں کو مار کر اپنے 400 لوگ مروا دینا، اور اپنا بے پناہ نقصان کروانا، کیا یہ مناسب ہے؟
شیخ محترم اللہ آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کی حرص پہ اجر عظیم عطا فرمائے واقعی بعض صالح علماء کے ہاں ایسا ہی ہے کہ کشمیر یا افغانستان میں چار فوجیوں کو مار کر پیچھے عورتوں اور بچوں کو مروانے والے اجتہادی غلطی پہ ہیں مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں یہ بات درست ہو سکتی ہے
البتہ میں نے ابھی تک بحث پڑھ کے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ شاید تھوڑی سی غلط فہمی تمام بھائیوں کو آپس میں ہو رہی ہے
جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی اجازت کے بغیر اس حکومت کے اندر تو جہاد نہیں کر سکتے البتہ باہر کہیں مسلمانوں کو ضرورت ہو تو کچھ شرائط کے ساتھ حکومت کی اجازت کے بغیر وہاں جا کر جہاد یا مدد کی جا سکتی ہے جیسا کہ کشمیر یا عراق یا برما یا شام وغیرہ میں
اور جو حکومت کے بغیر جہاد کو منع کر رہے ہیں وہ اس حکومت کے اندر اسی اسلامی حکومت کے خلاف جہاد (یا فساد) کو اس حکومت کی مرضی کے بغیر منع کر رہے ہوں تو یہ دونوں باتیں میرے لحاظ سے درست ہی ہوں گی
البتہ اوپر ابھی کچھ باتیں مجھے واضح نہیں ہو سکیں پس اس سلسلے میں میں پہلے کچھ پوچھنا چاہوں گا پھر اپنا موقف انکی روشنی میں درست کرتے ہوئے یہاں بیان کروں گا آپ وضاحتیں کر دیں جزاکم اللہ خیرا
شیخ محترم اسلامی حکومت دو طرح کی ہوتی ہے
۱۔ جو کسی متفقہ خلیفہ کے تابع ہو
۲۔ جو مسلمان کہلوانے والے لوگوں نے علیحدہ علیحدہ اپنی حکومتیں بنا رکھی ہوں مثلا ایران سعودیہ، مصر وغیرہ اور اسی طرح فاطمیوں کی خلافت وغیرہ

میرا پہلا سوال ہے کہ کیا ہر معاملہ میں اطاعت کا حکم ان دونوں قسموں کی حکومتوں کا حکم ایک ہے یا فرق ہے
میرا دوسرا سوال کہ کیا دونوں قسموں کی حکومت کی ہر حال میں اطاعت لازمی ہے اور اطاعت نہ کرنے والا کیا کہلائے گا مثلا خارجی یا کافر یا باغی وغیرہ
میرا تیسرا سوال ہے کہ خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں (عصر حاضرمیں) علیحدہ علیحدہ حکومتیں کب اسلامی حکومتیں کہلائیں گی اسکی کوئی جامع تعریف کر دیں کہ جس پہ کشمیر اور افغانستان اور شام وغیرہ کی حکومت تو پوری نہ اترے اور باقی پوری اتر جائیں جزاکم اللہ خیرا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ محترم
عبدہ بھائی! ماشاء اللہ شیخ آپ ہیں، میں تو نہ باعتبار علم شیخ ہوں، نا باعتبار عمر اور نہ باعتبار نسب!
میں تو ایک طالب علم ہوں اور آپ جیسے شیوخ سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔
اللہ آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کی حرص پہ اجر عظیم عطا فرمائے واقعی بعض صالح علماء کے ہاں ایسا ہی ہے کہ کشمیر یا افغانستان میں چار فوجیوں کو مار کر پیچھے عورتوں اور بچوں کو مروانے والے اجتہادی غلطی پہ ہیں مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں یہ بات درست ہو سکتی ہے
البتہ میں نے ابھی تک بحث پڑھ کے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ شاید تھوڑی سی غلط فہمی تمام بھائیوں کو آپس میں ہو رہی ہے
جی بالکل، میں بھی اسی کا قائل ہوں! کہ وہ کام کیا جائے جس میں مسلمانوں کا فائدہ زیادہ ہو، اور نقصان کو کم کیا جائے! اور یہ ایک اجتہادی چیز ہے کہ کیا صورت بہتر ہے! بلکل خاموشی بھی کافی نقصان کا باعث ہو سکتی ہے کہ آئندہ نسل کو کو یہ احساس ہی نہ رہے! ان مسائل کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے!
جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی اجازت کے بغیر اس حکومت کے اندر تو جہاد نہیں کر سکتے البتہ باہر کہیں مسلمانوں کو ضرورت ہو تو کچھ شرائط کے ساتھ حکومت کی اجازت کے بغیر وہاں جا کر جہاد یا مدد کی جا سکتی ہے جیسا کہ کشمیر یا عراق یا برما یا شام وغیرہ میں
جی! ان کے ہاں یا معاہد کا وجود نہیں، یا اسلامی حکومت کا وجود نہیں! اور جن کے ہاں اسلامی حکومت کا ہی وجود نہیں، وہ پھر ہرجگہ ہی'' خود ساختہ جہاد '' کرتے ہیں!
اور جو حکومت کے بغیر جہاد کو منع کر رہے ہیں وہ اس حکومت کے اندر اسی اسلامی حکومت کے خلاف جہاد (یا فساد) کو اس حکومت کی مرضی کے بغیر منع کر رہے ہوں تو یہ دونوں باتیں میرے لحاظ سے درست ہی ہوں گی
عبدہ بھائی! دونوں ہی یا درست ہوں گی یا دونوں ہی خطا ء ہوں گی! کیونکہ آپ نے دونوں ایک ہی لکھی ہیں (ابتسامہ)
عبدہ بھائی! یہ بات تو پہلی قسم بھی کر رہی تھی! آپ نے اسے دوسری قسم میں کیوں قرار دیا؟
یعنی کہ جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے،
اور جو بغیر حکومت کے جہاد کو کو درست نہیں مانتے وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے۔
بات تو ایک ہی ہے! پھر یہ دو قسمیں کیوں؟

آپ سے غالباً بیان میں غلطی ہو رہی ہے!
معاملہ کچھ یوں ہے کہ:
اپنی حکومت میں تو کوئی بھی اپنی مرضی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا، وہ بھی نہیں جو حکومت کی کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم مانتے ہیں، اور وہ بھی جو حکومت کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم نہیں مانتے! (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے)
تقسیم اسی امر میں ہے کہ اپنی حکومت کے علاوہ کسی اور جگہ جہاد کے لئے کیا حکومت کی رضا و اجازت لازم ہے یا نہیں!
ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں اور دوسرا طبقہ اسے ضروری مانتا ہے!
ایک تیسرا طبقہ بھی ہے، جو حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے کر اسے ہی دالحرب قرار دیتے ہوئے اسی کے خلاف اعلان'' جہاد '' کئے ہوئے ہے۔ لیکن یہ ابھی ذیر بحث نہیں!
البتہ اوپر ابھی کچھ باتیں مجھے واضح نہیں ہو سکیں پس اس سلسلے میں میں پہلے کچھ پوچھنا چاہوں گا پھر اپنا موقف انکی روشنی میں درست کرتے ہوئے یہاں بیان کروں گا آپ وضاحتیں کر دیں جزاکم اللہ خیرا
شیخ محترم اسلامی حکومت دو طرح کی ہوتی ہے
۱۔ جو کسی متفقہ خلیفہ کے تابع ہو
۲۔ جو مسلمان کہلوانے والے لوگوں نے علیحدہ علیحدہ اپنی حکومتیں بنا رکھی ہوں مثلا ایران سعودیہ، مصر وغیرہ اور اسی طرح فاطمیوں کی خلافت وغیرہ
میں اس میں ذاتی طور پر ایران کو اسلامی حکومت نہیں مانتا، کیونکہ ایران میں خمینی کے نظریہ نائب امام کے بعد ایران خالصتاً شیعہ (رافضی) مملکت ہے!
میرا پہلا سوال ہے کہ کیا ہر معاملہ میں اطاعت کا حکم ان دونوں قسموں کی حکومتوں کا حکم ایک ہے یا فرق ہے
جی! فرق اتنا ہے کہ پہلی قسم یعنی متفقہ خلافت کی حدود کو چھوڑ کر کسی مسلمان کو اس کی تابع داری سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں!
مگر مختلف اسلامی ممالک وحکومت میں مسلمان اپنی حکومت سے کوچ کرکرے دوسری حکومت کو جا سکتا ہے، اور اس کی تابع داری تبدیل ہو سکتی ہے!
میرا دوسرا سوال کہ کیا دونوں قسموں کی حکومت کی ہر حال میں اطاعت لازمی ہے اور اطاعت نہ کرنے والا کیا کہلائے گا مثلا خارجی یا کافر یا باغی وغیرہ
صرف ''ہر حال ''میں تو اطاعت نہ خلافت میں لازم ہے اور نہ مملکت میں! یہ تو امر پر منحصر ہے کہ آکر امر کیا ہے!
ہم یہاں ''جہاد'' کی بات کر رہے ہیں اسی کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں کہ جہاد کے امر میں خلافت کی تابع داری لازم ہے، اور اس سے روگرادنی کرنے والا کم از کم باغی قرار پائے گا، اسی طرح کسی جہاد کے امر میں اسلامی حکومت کی تابع داری لازم ہے، وگرنہ وہ اس اسلامی مملکت کا باغی قرار پائے گا، الا یہ کہ وہ اپنی تابع داری ختم کر کے اس مملکت کو چھوڑ دے۔ یعنی کہ اس کی شہریت چھوڑ دے! تا کہ نہ وہ مملکت اس کی ذمہ دار ہو، اور نہ وہ اس مملکت کا تابعدار!ایسی صورت میں وہ اگر کسی ایسے ملک سے جہاد کرتا ہے کہ جس کے ساتھ اس کے سابقہ ملک کا معاہدہ ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند نہیں رہا!
میرا تیسرا سوال ہے کہ خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں (عصر حاضرمیں) علیحدہ علیحدہ حکومتیں کب اسلامی حکومتیں کہلائیں گی اسکی کوئی جامع تعریف کر دیں کہ جس پہ کشمیر اور افغانستان اور شام وغیرہ کی حکومت تو پوری نہ اترے اور باقی پوری اتر جائیں جزاکم اللہ خیرا
اس کی تعریف پہلے بیان کی گئی تھی!
اسلامی حکومت ہم اسے کہتے ہیں، کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو!
افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے! اس میں نہ الجھا جائے تو آسانی رہے گی!

عبدہ بھائی!معاہد کے حوالہ سے بھی روشنی ڈالیئے گا!
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

عبدہ بھائی! ماشاء اللہ شیخ آپ ہیں، میں تو نہ باعتبار علم شیخ ہوں، نا باعتبار عمر اور نہ باعتبار نسب!
میں تو ایک طالب علم ہوں اور آپ جیسے شیوخ سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔

جی بالکل، میں بھی اسی کا قائل ہوں! کہ وہ کام کیا جائے جس میں مسلمانوں کا فائدہ زیادہ ہو، اور نقصان کو کم کیا جائے! اور یہ ایک اجتہادی چیز ہے کہ کیا صورت بہتر ہے! بلکل خاموشی بھی کافی نقصان کا باعث ہو سکتی ہے کہ آئندہ نسل کو کو یہ احساس ہی نہ رہے! ان مسائل کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے!

جی! ان کے ہاں یا معاہد کا وجود نہیں، یا اسلامی حکومت کا وجود نہیں! اور جن کے ہاں اسلامی حکومت کا ہی وجود نہیں، وہ پھر ہرجگہ ہی'' خود ساختہ جہاد '' کرتے ہیں!

عبدہ بھائی! دونوں ہی یا درست ہوں گی یا دونوں ہی خطا ء ہوں گی! کیونکہ آپ نے دونوں ایک ہی لکھی ہیں (ابتسامہ)
عبدہ بھائی! یہ بات تو پہلی قسم بھی کر رہی تھی! آپ نے اسے دوسری قسم میں کیوں قرار دیا؟
یعنی کہ جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے،
اور جو بغیر حکومت کے جہاد کو کو درست نہیں مانتے وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے۔
بات تو ایک ہی ہے! پھر یہ دو قسمیں کیوں؟

آپ سے غالباً بیان میں غلطی ہو رہی ہے!
معاملہ کچھ یوں ہے کہ:
اپنی حکومت میں تو کوئی بھی اپنی مرضی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا، وہ بھی نہیں جو حکومت کی کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم مانتے ہیں، اور وہ بھی جو حکومت کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم نہیں مانتے! (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے)
تقسیم اسی امر میں ہے کہ اپنی حکومت کے علاوہ کسی اور جگہ جہاد کے لئے کیا حکومت کی رضا و اجازت لازم ہے یا نہیں!
ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں اور دوسرا طبقہ اسے ضروری مانتا ہے!
ایک تیسرا طبقہ بھی ہے، جو حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے کر اسے ہی دالحرب قرار دیتے ہوئے اسی کے خلاف اعلان'' جہاد '' کئے ہوئے ہے۔ لیکن یہ ابھی ذیر بحث نہیں!

میں اس میں ذاتی طور پر ایران کو اسلامی حکومت نہیں مانتا، کیونکہ ایران میں خمینی کے نظریہ نائب امام کے بعد ایران خالصتاً شیعہ (رافضی) مملکت ہے!

جی! فرق اتنا ہے کہ پہلی قسم یعنی متفقہ خلافت کی حدود کو چھوڑ کر کسی مسلمان کو اس کی تابع داری سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں!
مگر مختلف اسلامی ممالک وحکومت میں مسلمان اپنی حکومت سے کوچ کرکرے دوسری حکومت کو جا سکتا ہے، اور اس کی تابع داری تبدیل ہو سکتی ہے!

صرف ''ہر حال ''میں تو اطاعت نہ خلافت میں لازم ہے اور نہ مملکت میں! یہ تو امر پر منحصر ہے کہ آکر امر کیا ہے!
ہم یہاں ''جہاد'' کی بات کر رہے ہیں اسی کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں کہ جہاد کے امر میں خلافت کی تابع داری لازم ہے، اور اس سے روگرادنی کرنے والا کم از کم باغی قرار پائے گا، اسی طرح کسی جہاد کے امر میں اسلامی حکومت کی تابع داری لازم ہے، وگرنہ وہ اس اسلامی مملکت کا باغی قرار پائے گا، الا یہ کہ وہ اپنی تابع داری ختم کر کے اس مملکت کو چھوڑ دے۔ یعنی کہ اس کی شہریت چھوڑ دے! تا کہ نہ وہ مملکت اس کی ذمہ دار ہو، اور نہ وہ اس مملکت کا تابعدار!ایسی صورت میں وہ اگر کسی ایسے ملک سے جہاد کرتا ہے کہ جس کے ساتھ اس کے سابقہ ملک کا معاہدہ ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند نہیں رہا!

اس کی تعریف پہلے بیان کی گئی تھی!

افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے! اس میں نہ الجھا جائے تو آسانی رہے گی!

عبدہ بھائی!معاہد کے حوالہ سے بھی روشنی ڈالیئے گا!
جی ابن داؤد بھائی آپ کی اس پوسٹ اور اوپر والی پوسٹ میں کچھ تضاد نہیں ہے جہاں آپ نے مبشر ربانی حفظہ اللہ کے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ خلافت، جہاد کے لیے شرط نہیں، جب خلافت شرط نہیں تو مسلمان حکومت کیسے شرط قرار پائے گی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

عبدہ بھائی! ماشاء اللہ شیخ آپ ہیں، میں تو نہ باعتبار علم شیخ ہوں، نا باعتبار عمر اور نہ باعتبار نسب!
میں تو ایک طالب علم ہوں اور آپ جیسے شیوخ سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔

جی بالکل، میں بھی اسی کا قائل ہوں! کہ وہ کام کیا جائے جس میں مسلمانوں کا فائدہ زیادہ ہو، اور نقصان کو کم کیا جائے! اور یہ ایک اجتہادی چیز ہے کہ کیا صورت بہتر ہے! بلکل خاموشی بھی کافی نقصان کا باعث ہو سکتی ہے کہ آئندہ نسل کو کو یہ احساس ہی نہ رہے! ان مسائل کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے!

جی! ان کے ہاں یا معاہد کا وجود نہیں، یا اسلامی حکومت کا وجود نہیں! اور جن کے ہاں اسلامی حکومت کا ہی وجود نہیں، وہ پھر ہرجگہ ہی'' خود ساختہ جہاد '' کرتے ہیں!

عبدہ بھائی! دونوں ہی یا درست ہوں گی یا دونوں ہی خطا ء ہوں گی! کیونکہ آپ نے دونوں ایک ہی لکھی ہیں (ابتسامہ)
عبدہ بھائی! یہ بات تو پہلی قسم بھی کر رہی تھی! آپ نے اسے دوسری قسم میں کیوں قرار دیا؟
یعنی کہ جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے،
اور جو بغیر حکومت کے جہاد کو کو درست نہیں مانتے وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے۔
بات تو ایک ہی ہے! پھر یہ دو قسمیں کیوں؟

آپ سے غالباً بیان میں غلطی ہو رہی ہے!
معاملہ کچھ یوں ہے کہ:
اپنی حکومت میں تو کوئی بھی اپنی مرضی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا، وہ بھی نہیں جو حکومت کی کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم مانتے ہیں، اور وہ بھی جو حکومت کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم نہیں مانتے! (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے)
تقسیم اسی امر میں ہے کہ اپنی حکومت کے علاوہ کسی اور جگہ جہاد کے لئے کیا حکومت کی رضا و اجازت لازم ہے یا نہیں!
ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں اور دوسرا طبقہ اسے ضروری مانتا ہے!
ایک تیسرا طبقہ بھی ہے، جو حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے کر اسے ہی دالحرب قرار دیتے ہوئے اسی کے خلاف اعلان'' جہاد '' کئے ہوئے ہے۔ لیکن یہ ابھی ذیر بحث نہیں!

میں اس میں ذاتی طور پر ایران کو اسلامی حکومت نہیں مانتا، کیونکہ ایران میں خمینی کے نظریہ نائب امام کے بعد ایران خالصتاً شیعہ (رافضی) مملکت ہے!

جی! فرق اتنا ہے کہ پہلی قسم یعنی متفقہ خلافت کی حدود کو چھوڑ کر کسی مسلمان کو اس کی تابع داری سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں!
مگر مختلف اسلامی ممالک وحکومت میں مسلمان اپنی حکومت سے کوچ کرکرے دوسری حکومت کو جا سکتا ہے، اور اس کی تابع داری تبدیل ہو سکتی ہے!

صرف ''ہر حال ''میں تو اطاعت نہ خلافت میں لازم ہے اور نہ مملکت میں! یہ تو امر پر منحصر ہے کہ آکر امر کیا ہے!
ہم یہاں ''جہاد'' کی بات کر رہے ہیں اسی کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں کہ جہاد کے امر میں خلافت کی تابع داری لازم ہے، اور اس سے روگرادنی کرنے والا کم از کم باغی قرار پائے گا، اسی طرح کسی جہاد کے امر میں اسلامی حکومت کی تابع داری لازم ہے، وگرنہ وہ اس اسلامی مملکت کا باغی قرار پائے گا، الا یہ کہ وہ اپنی تابع داری ختم کر کے اس مملکت کو چھوڑ دے۔ یعنی کہ اس کی شہریت چھوڑ دے! تا کہ نہ وہ مملکت اس کی ذمہ دار ہو، اور نہ وہ اس مملکت کا تابعدار!ایسی صورت میں وہ اگر کسی ایسے ملک سے جہاد کرتا ہے کہ جس کے ساتھ اس کے سابقہ ملک کا معاہدہ ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند نہیں رہا!

اس کی تعریف پہلے بیان کی گئی تھی!

افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے! اس میں نہ الجھا جائے تو آسانی رہے گی!

عبدہ بھائی!معاہد کے حوالہ سے بھی روشنی ڈالیئے گا!

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

عبدہ بھائی! ماشاء اللہ شیخ آپ ہیں، میں تو نہ باعتبار علم شیخ ہوں، نا باعتبار عمر اور نہ باعتبار نسب!
میں تو ایک طالب علم ہوں اور آپ جیسے شیوخ سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔

جی بالکل، میں بھی اسی کا قائل ہوں! کہ وہ کام کیا جائے جس میں مسلمانوں کا فائدہ زیادہ ہو، اور نقصان کو کم کیا جائے! اور یہ ایک اجتہادی چیز ہے کہ کیا صورت بہتر ہے! بلکل خاموشی بھی کافی نقصان کا باعث ہو سکتی ہے کہ آئندہ نسل کو کو یہ احساس ہی نہ رہے! ان مسائل کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے!

جی! ان کے ہاں یا معاہد کا وجود نہیں، یا اسلامی حکومت کا وجود نہیں! اور جن کے ہاں اسلامی حکومت کا ہی وجود نہیں، وہ پھر ہرجگہ ہی'' خود ساختہ جہاد '' کرتے ہیں!

عبدہ بھائی! دونوں ہی یا درست ہوں گی یا دونوں ہی خطا ء ہوں گی! کیونکہ آپ نے دونوں ایک ہی لکھی ہیں (ابتسامہ)
عبدہ بھائی! یہ بات تو پہلی قسم بھی کر رہی تھی! آپ نے اسے دوسری قسم میں کیوں قرار دیا؟
یعنی کہ جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے،
اور جو بغیر حکومت کے جہاد کو کو درست نہیں مانتے وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے۔
بات تو ایک ہی ہے! پھر یہ دو قسمیں کیوں؟

آپ سے غالباً بیان میں غلطی ہو رہی ہے!
معاملہ کچھ یوں ہے کہ:
اپنی حکومت میں تو کوئی بھی اپنی مرضی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا، وہ بھی نہیں جو حکومت کی کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم مانتے ہیں، اور وہ بھی جو حکومت کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم نہیں مانتے! (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے)
تقسیم اسی امر میں ہے کہ اپنی حکومت کے علاوہ کسی اور جگہ جہاد کے لئے کیا حکومت کی رضا و اجازت لازم ہے یا نہیں!
ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں اور دوسرا طبقہ اسے ضروری مانتا ہے!
ایک تیسرا طبقہ بھی ہے، جو حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے کر اسے ہی دالحرب قرار دیتے ہوئے اسی کے خلاف اعلان'' جہاد '' کئے ہوئے ہے۔ لیکن یہ ابھی ذیر بحث نہیں!

میں اس میں ذاتی طور پر ایران کو اسلامی حکومت نہیں مانتا، کیونکہ ایران میں خمینی کے نظریہ نائب امام کے بعد ایران خالصتاً شیعہ (رافضی) مملکت ہے!

جی! فرق اتنا ہے کہ پہلی قسم یعنی متفقہ خلافت کی حدود کو چھوڑ کر کسی مسلمان کو اس کی تابع داری سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں!
مگر مختلف اسلامی ممالک وحکومت میں مسلمان اپنی حکومت سے کوچ کرکرے دوسری حکومت کو جا سکتا ہے، اور اس کی تابع داری تبدیل ہو سکتی ہے!

صرف ''ہر حال ''میں تو اطاعت نہ خلافت میں لازم ہے اور نہ مملکت میں! یہ تو امر پر منحصر ہے کہ آکر امر کیا ہے!
ہم یہاں ''جہاد'' کی بات کر رہے ہیں اسی کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں کہ جہاد کے امر میں خلافت کی تابع داری لازم ہے، اور اس سے روگرادنی کرنے والا کم از کم باغی قرار پائے گا، اسی طرح کسی جہاد کے امر میں اسلامی حکومت کی تابع داری لازم ہے، وگرنہ وہ اس اسلامی مملکت کا باغی قرار پائے گا، الا یہ کہ وہ اپنی تابع داری ختم کر کے اس مملکت کو چھوڑ دے۔ یعنی کہ اس کی شہریت چھوڑ دے! تا کہ نہ وہ مملکت اس کی ذمہ دار ہو، اور نہ وہ اس مملکت کا تابعدار!ایسی صورت میں وہ اگر کسی ایسے ملک سے جہاد کرتا ہے کہ جس کے ساتھ اس کے سابقہ ملک کا معاہدہ ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند نہیں رہا!

اس کی تعریف پہلے بیان کی گئی تھی!

افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے! اس میں نہ الجھا جائے تو آسانی رہے گی!

عبدہ بھائی!معاہد کے حوالہ سے بھی روشنی ڈالیئے گا!
اوپر پوسٹ کرنے میں غلطی ہوگئی، معذرت چاہتا ہوں،
شیخ ابن داؤد بھائی آپ کی اوپر والی پوسٹ میں اور اس پوسٹ میں کچھ تضاد لگ رہا ہے جس میں آپ نے لکھا تھا کہ میں مبشر ربانی حفظہ اللہ کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ جہاد کے لیے خلافت شرط نہیں ہے، مگر یہاں آپ کہہ رہے ہیں کہ خلافت جہاد کے لیے ضروری ہے،،
وضاحت کا طالب ہوں

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جی ابن داؤد بھائی آپ کی اس پوسٹ اور اوپر والی پوسٹ میں کچھ تضاد نہیں ہے جہاں آپ نے مبشر ربانی حفظہ اللہ کے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ خلافت، جہاد کے لیے شرط نہیں، جب خلافت شرط نہیں تو مسلمان حکومت کیسے شرط قرار پائے گی
Sent from my MI 4W using Tapatalk
محترم بھائی آپ انکی بات کو نہیں سمجھے میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
دیکھیں خلافت شرط نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر خلافت کا وجود نہ ہو تو جہاد ممنوع نہیں ہوتا البتہ اگر خلافت کا وجود نہ ہونا ایک علیحدہ چیز ہے اور خلاف کے وجود ہونے کے ساتھ اسکی اجازت نہ ہونا ایک دوسری چیز ہے یعنی اگر خلافت ہی موجود نہیں تو پھر تو جہاد کے لئے خلافت کے ساتھ کوئی شرط معلق نہیں مگر اگر خلافت موجود ہو تو پھر اس وقت خلافت کو نذر انداز نہیں کیا جا سکتا آپ شاید دو مخٹلف چیزوں کو مکس کر رہے ہیں
بالکل اسی طرح جب خلافت جہاد کے لئے شرط نہیں تو آپکی بات بالکل درست ہے کہ پھر اسلامی حکومت جہاد کرنے کے لئے کیسے شرط ہو گی
لیکن بھائی یہاں اسلامی حکومت سے مراد بھی اسلامی حکومت کا وجود ہے نہ کہ اسلامی حکومت کی اجازت
پس جب اسلامی حکومت موجود ہو تو جہاد اسکی اجازت سے معلق ہو گا
میرے خیال میں یہی محترم ابن داود بھائی بتانا چاہتے تھے

اوپر پوسٹ کرنے میں غلطی ہوگئی، معذرت چاہتا ہوں،
شیخ ابن داؤد بھائی آپ کی اوپر والی پوسٹ میں اور اس پوسٹ میں کچھ تضاد لگ رہا ہے جس میں آپ نے لکھا تھا کہ میں مبشر ربانی حفظہ اللہ کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ جہاد کے لیے خلافت شرط نہیں ہے، مگر یہاں آپ کہہ رہے ہیں کہ خلافت جہاد کے لیے ضروری ہے،،
وضاحت کا طالب ہوں

Sent from my MI 4W using Tapatalk
محترم بھائی میرے خیال میں آپکو سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے محترم ابن داود بھائی کا یہ کمنٹ مجھے نہیں ملا کہ انہوں نے کہا ہو کہ خلافت جہاد کے لئے ضروری ہے
شاید یہاں بھی کہیں آپ خلافت کے وجود اور اسکی اجازت کو مکس نہ کر رہے ہوں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عبدہ بھائی! ماشاء اللہ شیخ آپ ہیں، میں تو نہ باعتبار علم شیخ ہوں، نا باعتبار عمر اور نہ باعتبار نسب!
میں تو ایک طالب علم ہوں اور آپ جیسے شیوخ سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔
جی محترم بھائی یہ تو ہر بندے کا حسن ظن ہوتا ہے میں نے واللہ اپنے دل کی حقیقت ہی لکھی ہے آپ کا حسن ظن کچھ بھی ہو سکتا ہے جزاکم اللہ خیرا

جی! ان کے ہاں یا معاہد کا وجود نہیں، یا اسلامی حکومت کا وجود نہیں! اور جن کے ہاں اسلامی حکومت کا ہی وجود نہیں، وہ پھر ہرجگہ ہی'' خود ساختہ جہاد '' کرتے ہیں!
عبدہ بھائی! دونوں ہی یا درست ہوں گی یا دونوں ہی خطا ء ہوں گی! کیونکہ آپ نے دونوں ایک ہی لکھی ہیں (ابتسامہ)
عبدہ بھائی! یہ بات تو پہلی قسم بھی کر رہی تھی! آپ نے اسے دوسری قسم میں کیوں قرار دیا؟
یعنی کہ جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے،
اور جو بغیر حکومت کے جہاد کو کو درست نہیں مانتے وہ بھی اپنی حکومت کے اندر جہاد کی اجازت نہیں دیتے۔
بات تو ایک ہی ہے! پھر یہ دو قسمیں کیوں؟
آپ سے غالباً بیان میں غلطی ہو رہی ہے!
نہیں پیارے بھائی مجھے شاید سمجھانے میں غلطی ہوئی ہے البتہ میں نے اسی طرح دو قسمیں لکھی ہیں
میں نے واصلحوا ذات بینکم کے تحت ان ارید الا الاصلاح مااستطعت یعنی اصلاح کی کوشش کی ہے کہ جو اوپر ہمارے بھائیوں میں اختلاف ہو رہا تھا اسکی کوئی خوبصورت تاویل کر کے انکو اکٹھا کر دوں
پس میں نے پہلی قسم جو لکھی ہے وہ بنیامین بھائی وغیرہ کے لحاظ سے لکھا ہے کہ انکا نقطہ نظر کی تاویل یہ ہے
اور دوسری جو قسم لکھی ہے اس میں آپ کی طرف والے لوگوں کے نقطہ نظر کی تاویل کرتے ہوئے اسکو یہ لکھا ہے کہ وہ بھی دراصل وہی چاہتے ہیں صرف الفاظوں کا اختلاف ہے اور میرا بھی یہی موقف ہے
پس آپ دیکھیں کہ ان دو قسموں سے پہلے میں نے کیا لکھا ہے وہ مندرجہ ذیل الفاظ ہیں
البتہ میں نے ابھی تک بحث پڑھ کے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ شاید تھوڑی سی غلط فہمی تمام بھائیوں کو آپس میں ہو رہی ہے

جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی اجازت کے بغیر اس حکومت کے اندر تو جہاد نہیں کر سکتے البتہ باہر کہیں مسلمانوں کو ضرورت ہو تو کچھ شرائط کے ساتھ حکومت کی اجازت کے بغیر وہاں جا کر جہاد یا مدد کی جا سکتی ہے جیسا کہ کشمیر یا عراق یا برما یا شام وغیرہ میں
اور جو حکومت کے بغیر جہاد کو منع کر رہے ہیں وہ اس حکومت کے اندر اسی اسلامی حکومت کے خلاف جہاد (یا فساد) کو اس حکومت کی مرضی کے بغیر منع کر رہے ہوں تو یہ دونوں باتیں میرے لحاظ سے درست ہی ہوں گی
پس دونوں باتوں کے درست ہونے سے مراد میں دونوں کی بات کی تاویل کر کے ایک بات پہ لانا چاہتا تھا

معاملہ کچھ یوں ہے کہ:
اپنی حکومت میں تو کوئی بھی اپنی مرضی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دیتا، وہ بھی نہیں جو حکومت کی کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم مانتے ہیں، اور وہ بھی جو حکومت کی اجازت کو جہاد کے لئے لازم نہیں مانتے! (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے)
تقسیم اسی امر میں ہے کہ اپنی حکومت کے علاوہ کسی اور جگہ جہاد کے لئے کیا حکومت کی رضا و اجازت لازم ہے یا نہیں!
ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں اور دوسرا طبقہ اسے ضروری مانتا ہے!
جی بالکل یہاں بحث اسی دو طبقوں کے بارے ہی ہے اور مجھے بھی اشکال انہیں دو طبقوں میں بہتر طبقے کی تلاش میں ہے باقی اپنی جگہ اجتہادی طور پہ چاہے کوئی دونوں طبقوں کو ہی درست کہ دے تو کوئی مسئلہ نہیں

ایک تیسرا طبقہ بھی ہے، جو حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے کر اسے ہی دالحرب قرار دیتے ہوئے اسی کے خلاف اعلان'' جہاد '' کئے ہوئے ہے۔ لیکن یہ ابھی ذیر بحث نہیں!
محترم بھائی یہ تیسرے طبقے کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں
ایک وہ جو کسی اسلامی حکومت کو ہی غیر اسلامی قرار دے دے مثلا جیسا کہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے پاکستان کو ہی غیر اسلامی حکومت کہ دیا یا آپ نے ایران کو غیر اسلامی حکومت کہ دیا لیکن جمہور علماء ان سے اختلاف کرتے ہیں جیسا کہ ایران کو غیر اسلامی کہنے پہ بھی بہت سے علماء اختلاف رکھتے ہیں اور کچھ آپ سے اتفاق بھی کرتے ہیں مثلا ہماری جماعت کے ہی شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ بھی شاید آپ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایران یا شام اسلامی ممالک نہیں لیکن یہ سارے علماء انکے خلاف جہاد کو فساد ہی کہتے رہے ہیں اور واقعی ہے بھی ایسا ہی واللہ اعلم
اور اس تیسرے طبقے میں ایک وہ ہیں جو پھر اس اسلامی مملکت کو کافر قرر دینے کے بعد دار الحرب کہ کے اسکے خلاف جہاد بھی شروع کرا دیتے ہیں تو یہ بہت خطرناک کام ہے اور بہت بڑا فساد ہے
البتہ جب بہت نادر حالات میں امت کے جمہور جید علماء اس پہ متفق ہوں تو ایسا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ شام کے بارے جمہور علماء کا غیر اسلامی ریاست کا ہی فتوی ہے اور اسکو وہ دار الحرب ہی کہتے ہیں اور اسکے خلاف جہاد کو بھی فرض کہتے ہیں جیسا کہ شیخ مبشر ربانی نے ہماری جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے اپنے موجودہ ویڈیو بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ شام کے حکمران روافض ہونے کی وجہ سے اسلام سے نکل چکے ہیں اور سعودی علماء نے بھی انکو ایسا مان لیا ہے اور انکے خلاف جہاد لازم ہے ہر مسلمان پہ

میں اس میں ذاتی طور پر ایران کو اسلامی حکومت نہیں مانتا، کیونکہ ایران میں خمینی کے نظریہ نائب امام کے بعد ایران خالصتاً شیعہ (رافضی) مملکت ہے!
جی آپ کو اجتہاد کا حق ہے مگر ہمارے بہت سے جید علماء اسکو اسلامی ریاست ہی مانتے ہیں اور مدخلی تو سارے علماء ہی اسکو اسلامی ریاست مانتے ہیں جیسا کہ شیخ خالد الحذیفی جو جامعہ ابی بکر کراچی کے استاد ہیں انکا یہی موقف ہے کہ ایران کے حکمرانوں کی اطاعت نہ کرنا بھی انکو خارجی بنا دیتا ہے واللہ اعلم
پس آپ سے آپ کے موقف پہ دلیل پوچھنی تھی کہ غیر اسلامی حکومت کونسی ہوتی ہے تو آپ نے بتائی کہ وہ نظریہ امام کی وجہ سے شیعہ ریاست کافر ہوتی ہے تو اس پہ کچھ لوگ پھر اعتراض کرتے ہیں کہ نظریہ امام کو ماننا شرک سے بڑا گناہ تو نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں تو ان الشرک لظلم عظیم ہے پھر مشرکوں پہ بھی لوگ باتیں کرنے لگتے ہیں پس ایران کو کافر ریاست کہنا درست کیسے ہوا

جی! فرق اتنا ہے کہ پہلی قسم یعنی متفقہ خلافت کی حدود کو چھوڑ کر کسی مسلمان کو اس کی تابع داری سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں!
مگر مختلف اسلامی ممالک وحکومت میں مسلمان اپنی حکومت سے کوچ کرکرے دوسری حکومت کو جا سکتا ہے، اور اس کی تابع داری تبدیل ہو سکتی ہے!
محترم بھائی مجھے اس پہ کافی اشکال ہے کیا اس فرق کی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل مل سکتی ہے جزاکم اللہ خیرا

صرف ''ہر حال ''میں تو اطاعت نہ خلافت میں لازم ہے اور نہ مملکت میں! یہ تو امر پر منحصر ہے کہ آکر امر کیا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
عبدہ بھائی!معاہد کے حوالہ سے بھی روشنی ڈالیئے گا!
یعنی لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق والی بات ہو گئی
پس اگر امیر کسی غیر شرعی کام کا حکم دے تو اسکی اطاعت لازم نہیں

مثلا ہم سب جانتے ہیں کہ جو بھی اقوام متحدہ کا رکن ہوتا ہے وہ اسکے تمام معاہدات کا پابند ہوتا ہے پس اگر اقوام متحدہ دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ فیصلہ کر دے کہ کوئی بھی دو سے زیادہ بچے نہیں پیدا کرے گا تو اس وقت ہمیں پاکستانیوں کو ایک معاہد ہونے کے لحاظ سے کیا کرنا ہو گا کیا ہمارے لئے اس حکومتی معاہدے کو لازم پکڑنا ہو گا یا پھر ہم اسکی خلاف ورزی کر سکتے ہیں

پس میرے خیال میں جہاد ہو یا معاہدہ ہمیں بعض دفعہ تو واقعی امیر کی اطاعت کرنا لازم ہوتی ہے مگر اگر امیر کوئی غلط معاہدہ کر لے تو وہاں اطاعت لازم نہیں ہوتی جیسا کہ بخاری کی حدیث ہے کہ ایک امیر نے لکڑیاں جلا کر سب کو اس میں ڈالنے کا معاہدہ کر لیا تھا تو سمجھدار صحابہ نے کہا تھا کہ اسی آگ سے نکلنے کے لئے تو ہم نے اسلام قبول کرتے ہوئے اس امیر کی اطاعت کی ہے اب اگر اس امیر کی اطاعت کرنا ہمیں دوبارہ اسی آگ کی طرف لے جاتا ہے تو پھر ہم کیوں اطاعت کریں پس رسول اللہ ﷺ نے بعد میں انکو کہا تھا کہ لو دخلوھا ما خرجوا منھا الی یوم القیامۃ الطاعۃ فی معروف
یعنی اگر تم اس وقت اس امیر کی اطاعت کر لیتے تو ہمیشہ آگ میں ہی جلتے کیونکہ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے

ہم یہاں ''جہاد'' کی بات کر رہے ہیں اسی کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں کہ جہاد کے امر میں خلافت کی تابع داری لازم ہے، اور اس سے روگرادنی کرنے والا کم از کم باغی قرار پائے گا، اسی طرح کسی جہاد کے امر میں اسلامی حکومت کی تابع داری لازم ہے، وگرنہ وہ اس اسلامی مملکت کا باغی قرار پائے گا، الا یہ کہ وہ اپنی تابع داری ختم کر کے اس مملکت کو چھوڑ دے۔ یعنی کہ اس کی شہریت چھوڑ دے! تا کہ نہ وہ مملکت اس کی ذمہ دار ہو، اور نہ وہ اس مملکت کا تابعدار!ایسی صورت میں وہ اگر کسی ایسے ملک سے جہاد کرتا ہے کہ جس کے ساتھ اس کے سابقہ ملک کا معاہدہ ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند نہیں رہا!
اس بات کا انکار نہیں ہے کیونکہ اگر یہ نہ کیا جائے تو پھر تو فساد اور بڑھے گا پس اگر واضح ان علاقائی امیروں کی اطاعت کا حکم نہ بھی ہو تو بھی فساد کو ختم کرنے اور مصلحت کو دیکھنے کا عمومی حکم تو ہر وقت موجود ہے پس ایسا کر لیا جائے تو بہت بہتر رہے گا
البتہ یہ بات میرے خیال میں اس وقت درست ہے جب امیر کی کوئی جائز تاویل موجود ہو واللہ اعلم

اس کی تعریف پہلے بیان کی گئی تھی!
کہ اسلامی حکومت اسے کہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو
افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے! اس میں نہ الجھا جائے تو آسانی رہے گی!
محترم بھائی یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی حکومت سے آپکی کیا مراد ہے افغانستان کشمیر شام ایران یمن وغیرہ میں بھی تو اسلامی حکومتیں ہیں
کیا اسلامی حکومت سے مراد آپ کی یہ ہے کہ صدر یا وزیر اعظم مسلمان ہو تو وہ تو اوپر ممالک میں ایسا ہی ہے
اگر مسلمانوں کی حکومت سے مراد آپکی کوئی اور ہے یعنی مسلمان کی حکومت ہونے کی نشانی کوئی اور ہے تو میرے اشکال کو رفع کرنے کے لئے وہ بتا دیں جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
شیخ محترم اللہ آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کی حرص پہ اجر عظیم عطا فرمائے واقعی بعض صالح علماء کے ہاں ایسا ہی ہے کہ کشمیر یا افغانستان میں چار فوجیوں کو مار کر پیچھے عورتوں اور بچوں کو مروانے والے اجتہادی غلطی پہ ہیں مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں یہ بات درست ہو سکتی ہے
البتہ میں نے ابھی تک بحث پڑھ کے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ شاید تھوڑی سی غلط فہمی تمام بھائیوں کو آپس میں ہو رہی ہے
جو بغیر حکومت کے جہاد کو درست مانتے ہیں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی اجازت کے بغیر اس حکومت کے اندر تو جہاد نہیں کر سکتے البتہ باہر کہیں مسلمانوں کو ضرورت ہو تو کچھ شرائط کے ساتھ حکومت کی اجازت کے بغیر وہاں جا کر جہاد یا مدد کی جا سکتی ہے جیسا کہ کشمیر یا عراق یا برما یا شام وغیرہ میں
اور جو حکومت کے بغیر جہاد کو منع کر رہے ہیں وہ اس حکومت کے اندر اسی اسلامی حکومت کے خلاف جہاد (یا فساد) کو اس حکومت کی مرضی کے بغیر منع کر رہے ہوں تو یہ دونوں باتیں میرے لحاظ سے درست ہی ہوں گی
البتہ اوپر ابھی کچھ باتیں مجھے واضح نہیں ہو سکیں پس اس سلسلے میں میں پہلے کچھ پوچھنا چاہوں گا پھر اپنا موقف انکی روشنی میں درست کرتے ہوئے یہاں بیان کروں گا آپ وضاحتیں کر دیں جزاکم اللہ خیرا
شیخ محترم اسلامی حکومت دو طرح کی ہوتی ہے
۱۔ جو کسی متفقہ خلیفہ کے تابع ہو
۲۔ جو مسلمان کہلوانے والے لوگوں نے علیحدہ علیحدہ اپنی حکومتیں بنا رکھی ہوں مثلا ایران سعودیہ، مصر وغیرہ اور اسی طرح فاطمیوں کی خلافت وغیرہ

میرا پہلا سوال ہے کہ کیا ہر معاملہ میں اطاعت کا حکم ان دونوں قسموں کی حکومتوں کا حکم ایک ہے یا فرق ہے
میرا دوسرا سوال کہ کیا دونوں قسموں کی حکومت کی ہر حال میں اطاعت لازمی ہے اور اطاعت نہ کرنے والا کیا کہلائے گا مثلا خارجی یا کافر یا باغی وغیرہ
میرا تیسرا سوال ہے کہ خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں (عصر حاضرمیں) علیحدہ علیحدہ حکومتیں کب اسلامی حکومتیں کہلائیں گی اسکی کوئی جامع تعریف کر دیں کہ جس پہ کشمیر اور افغانستان اور شام وغیرہ کی حکومت تو پوری نہ اترے اور باقی پوری اتر جائیں جزاکم اللہ خیرا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ گجرات انڈیا میں مودی نے جو قتل عام کروایا وہ کون سے مجاہدین کے حملے کی وجہ سے تھا؟
1947 میں دو لاکھ سے زائد جموی مسلمانوں کا قتل عام سے پہلے کن مجاہدین نے وہاں ہندوستانی فوج پر حملے کیے تھے؟
اور برما میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح جو کاٹا جا رہا ہے تو وہاں کون سی تحریک جہاد چل رہی ہے، الا کہ کچھ کاروائیاں مجاہدین نے کی مگر وہ بھی نہ ہونے کے برابر اور وہ بھی برمی کافروں کے ظلم کے بعد،،
حقیقت یہ ہے کہ کفار صرف اس وجہ سے کبھی مسلمانوں کا قتل عام نہیں کرتے کہ ان پر حملے ہوتے ہیں، بلکہ جہاں مسلمان کمزور اور کفار طاقتور ہوں گے، وہ مسلمانوں کو ضرور کاٹیں گے،،
اس مفروضہ کو اگر درست مان لیا جائے کہ مجاہدین کی کارروائیوں کی وجہ سے عام مسلمان مارے جاتے ہیں تو پھر پاکستان کا وجود بھی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا، تو کیا پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا کیوں کہ لاکھوں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئیں،،
کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مگر اس کا نتیجہ پاکستان کی شکل میں نکلا،
تو عرض یہ ہے کہ نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ تین سو تیرہ سے ہزاروں کو پٹوا سکتا ہے، وہ انگریز اور ہندو مکار، کی مکاری اور سازشوں کے علی الرغم ناقابل یقین صورت حال میں پاکستان کو وجود میں لا سکتا ہے، لہذا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کوئی جذباتی ٹیکہ کہہ دے تو کہہ دے، سر جھکا کر کفار کے ہاتھوں سے پٹنا مسلمان کیسے گوارا کر سکتا ہے،،
یہ اسی سے پوچھیں جس کی ماں بہن بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے کفاربے عزت کرتے ہیں، اس کے بھائی کو قتل کیا جاتا ہے، وہ کسی مفتی کے پاس نہیں جائے گا مسئلہ پوچھنے کے لیے بلکہ غیرت ایمانی کا ثبوت دے کر بدلہ لے گا،،
اس کے ردعمل میں کفار جو آج کریں گے، وہ ان کو کرنا ہی ہے، چاہے کچھ بھی ہو،،

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بنیامین بھائی! یہ پوری تحریر جذبات و غیرت کاہائی ڈوز ٹیکہ ہے!
یہ اسی سے پوچھیں جس کی ماں بہن بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے کفاربے عزت کرتے ہیں، اس کے بھائی کو قتل کیا جاتا ہے، وہ کسی مفتی کے پاس نہیں جائے گا مسئلہ پوچھنے کے لیے بلکہ غیرت ایمانی کا ثبوت دے کر بدلہ لے گا،،
اب جب شریعت سے آزاد ہوجانا، غیرت ایمانی قرار دیا جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
البتہ اوپر ابھی کچھ باتیں مجھے واضح نہیں ہو سکیں پس اس سلسلے میں میں پہلے کچھ پوچھنا چاہوں گا پھر اپنا موقف انکی روشنی میں درست کرتے ہوئے یہاں بیان کروں گا آپ وضاحتیں کر دیں جزاکم اللہ خیرا
آپ نے جو پوچھا تھا، اس کا جواب دے دیا گیا، اب آپ میرے جواب کی تائید یا تردید کرتے ہوئے اپنا مؤقف بیان کر دیں!
پھر بات آگے کی بڑھ سکے گی! وگرنہ وضاحت در وضاحت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا!
آپ کی پچھلی تحریر پر اسی کے بعد کچھ عرض کروں گا، ان شاء اللہ!
 
Top