• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
پاکستان ملٹری میں شمولیت
جہاد فی سبیل اللہ ایک فرض اور عملی عبادت ہے۔ دین کی تمام عبادات کی طرح اِس کی قبولیت کی بھی وہی دو شرائط ہیں جو باقی عبادات کی ہیں؛ یعنی نیت کا اخلاص اور ظاہر میں اِس عبادت کا قرآن و سنت کے تابع ہونا۔
انفرادی عبادات کے برعکس چونکہ یہ باجماعت نماز کی طرح ایک جماعتی عبادت ہے؛ اِس لیے مندرجہ بالا شرائط میں شرط اول کی تصدیق کا ذریعہ اُس جماعت، تنظیم یا ادارہ کا علی اعلان اپنی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں سے قطع نظر"فقظ اللہ کے کلمہ کی سربلندی لیے کفار کے ساتھ کا اعلان جہاد" ہوگا اور دوسری شرط کی تصدیق کے لیے اس جماعت، تنظیم یا ادارہ کا ظاہر میں اپنے اعمال میں قرآن و سنت کے تابع نظر آنا ضروری ہوگا۔
اگر آپ کے نزدیک یہ دونوں شرائط "پاکستان ملٹری" میں موجود ہیں تو یقیناً آپ کا مشورہ صائب ہے اور آپ اِس نیک اور صحیح مشورہ کی وجہ سے اجر کے مستحق ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے اگر آپ خواہشمند ہیں تو اپلوڈ کیے ہوئے تینوں مضامین کا مطالعہ فرما لیں۔ ان مضامین کا باہمی ربط ہے تو میرا مشورہ ہے کہ پہلے نفاق کی حقیقت کو سمجھیں، پھر جہاد کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو گا اور آخر میں جہاد پر عمومی اعتراضات فقط ایمان میں اضافہ کے لیے ہیں۔
 

اٹیچمنٹس

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

معذرت کے ساتھ کتاب پڑھنے کے لئے وقت نہیں آپ اپنی رائے سے نوازتے رہیں، یہاں جہاد پر لکھنے سے جہاد نہیں ہوتا عملاً اگر کچھ ہے تو اس پر لکھیں۔ شکریہ!

والسلام
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
معذرت کے ساتھ کتاب پڑھنے کے لئے وقت نہیں
وعلیکم اسلام؛
برادر دین کو حاصل کرنے کےلیے وقت بھی نکالنا پڑتا ہے اور مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے تو کوئی طریقہ معلوم نہیں اور نہ ہی ہمارے سلف اور خلف میں اس کے علاوہ کوئی طریقہ مروج تھا اور ہے۔

یہاں جہاد پر لکھنے سے جہاد نہیں ہوتا عملاً اگر کچھ ہے تو اس پر لکھیں
دوسرا آپ ایک ہی جملہ میں متضاد باتیں لکھ رہے ہیں؛ آپ کے پاس مطالعہ کا وقت نہیں مگر پھر بھی مزید لکھنے کا مطالبہ؛ دوسرا آپ کے بقول "جہاد پر لکھنے سے جہاد نہیں ہوتا" جبکہ رسول اللہ کی حدیث کے مطابق یہ بھی جہاد کے زمرہ میں آتا ہے مگر پھر بھی آپ کا مطالبہ ہے کہ مزید لکھیں۔

ہمت کر کے ایک بار ان مضامین کو پڑھ لیں تو انشاء اللہ نفع ہوگا۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم میں اس فیلڈ میں نیا نہیں آپ ون ٹو ون بات کریں حقیقت خود ہی کھلنی شروع ہو جائے گی، لکھنے سے جہاد نہیں ہوتا آپ کے پاس اگر اس پر کوئی عملاً جواز ہے تو پیش کریں کیا آپ امیر ہیں اور کونسے محاذ پر اس وقت جہاد کر رہے ہیں۔

آپ کے لئے یہ مراسلہ پیش کر رہا ہوں وقت ملنے پر اس کا مطالعہ فرمائیں باتوں سے جہاد نہیں ہوتا میں ایک ملٹری مین بھی رہ چکا ہوں۔

والسلام
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
السلام علیکم

محترم میں اس فیلڈ میں نیا نہیں آپ ون ٹو ون بات کریں حقیقت خود ہی کھلنی شروع ہو جائے گی، لکھنے سے جہاد نہیں ہوتا آپ کے پاس اگر اس پر کوئی عملاً جواز ہے تو پیش کریں کیا آپ امیر ہیں اور کونسے محاذ پر اس وقت جہاد کر رہے ہیں۔

آپ کے لئے یہ مراسلہ پیش کر رہا ہوں وقت ملنے پر اس کا مطالعہ فرمائیں باتوں سے جہاد نہیں ہوتا میں ایک ملٹری مین بھی رہ چکا ہوں۔

والسلام
برادر محترم؛ مراسلہ پیش کرنے کا شکریہ، مگر آپ صرف اس کا حوالہ بھی دے دیتے تو کافی ہوتا کیونکہ شاید یہ مراسلہ انٹرنیٹ پر عصر حاضر میں سب سے زیادہ استعمال میں ہے حتی کہ کفار کی ویب سائیٹس پر بھی اس کا حوالہ مل جاتا ہے۔میرے مضامین لکحنے کا مقصد بھی ان مسائل کو واضح کرنا ہے جو اس مراسلہ میں ادھورے چھوڑے گئے کیونکہ یاد رہے کہ یہ مراسلہ شیخ کی کوئی علمی تصنیف نہین ہے بلکہ ایک مکالمہ ہے۔ اور مکالمہ ہمیشہ اگلے کے ذہنی سطح کو دیکھ کر ہوتا ہے۔
اگر آپ نے میرے مضامین پڑھ لیے ہوتے تو اس تکلیف کی زحمت نہ ہوتی اور آپ فقظ جہاد کی چوٹی کا ذکر بار بار نہ فرما رہے ہوتے۔
اور آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ آخرت میں آپ کو "اپنے دین کے ملٹری مین" ہونے کے تمغہ سے نوازے تاکہ جس عزت کے آپ متلاشی ہیں، وہ اپنے کُل میں آپ کو نصیب ہو اور اللہ سبحان و تعالٰی مجھے بھی اس عزت میں شریک فرمائے۔ آمین۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ کے پیجیز کو ٹریکر لگے ہوئے ہیں، انہیں یونیکوڈ میں یہاں پیش کریں۔
جو مراسلہ میں نے لگایا ہے اسے کوئی بھی کاپی پیسٹ کر سکتا ہے لیکن چیک کرنے کے لئے یہ کب نشر ہوا اس پر تاریخ سے بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے، باذوق کے نام سے ہر ممبر واقف ہے اور وہ ان کے قریبی بھی رہا ہے سعودی عرب میں اور 2 عشروں تک فورمز میں بھی رہا ہے اور ترجمہ بھی شائد اسی کا کیا ہوا ہے اس لئے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، آپ کو اس کا ویڈیو کلپ بھی یوٹیوب میں مل جائے گا، آپ کے صفحے بھی کچھ عرصے بعد کافروں کی ویب سائٹس پر مل جائیں گے یہ کونسی بری بات ہے، آپ غائب ہو جائیں گے یا فورم چھوڑ دیں گے صفحے وہیں لگیں رہیں گے حوالہ نہیں ملے گا۔ عمل بھی ضروری ہے اگر ہے تو بتائیں اس پر ابھی تک جواب ندارد ہے آپکی طرف سے۔ ابھی حالیہ حکومت کی طرف سے ایک حرکت ہوئی اس پلیت فارم پر آپ خود کو عملاً کہاں دیکھتے ہیں۔

یہ کلپ بھی دیکھیں اور سنیں۔

والسلام
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
اس لئے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں
برادر عزیز، میں نے تو کسی قسم کے شک کا اظہار کیا ہی نہیں اس مکالمہ کے بارے میں۔

آپ کے صفحے بھی کچھ عرصے بعد کافروں کی ویب سائٹس پر مل جائیں گے یہ کونسی بری بات ہے
اور نہ ہی میرا اس مکالمہ کا کفار کی ویب سائٹس پر ہونے کے ذکر سے مراد کسی بھی قسم کی بے توقیری تھی بلکہ میری مراد اس سے فقط اس مکالمہ کا مشہور اور ہر جگہ دستیاب ہونے سے تھا۔

آپ غائب ہو جائیں گے یا فورم چھوڑ دیں گے صفحے وہیں لگیں رہیں گے حوالہ نہیں ملے گا
دین میں اصل مقام فقط قرآن اور سنت کا ہے باقی سب ثانوی وسیلہ ہیں۔ تو برائے مہربانی اپنی توجہ دلائل پر رکھیں، وسیلہ پر نہیں۔

عمل بھی ضروری ہے اگر ہے تو بتائیں اس پر ابھی تک جواب ندارد ہے آپکی طرف سے
کون کون سا عمل جہاد کہلائے گا وہ بھی میری اور آپ کی خواہش کے تابع نہیں ہے بلکہ قرآن اور حدیث ہی فقط اس کی بنیاد رکھیں گے۔ تو حدیث کے مطابق تو جہاد قول، مال یا جان تینوں سے ہوتا ہے فقط شرط یہ ہے کہ ان اعمال جن کا تعلق قول، مال یا جان سے ہو ان میں خالص نیت "اللہ سبحان و تعالٰی کے کلمہ کی سربلندی" سے ہو اور مد مقابل "کفار یا منافقین" ہوں۔ منافقین کے ساتھ جہاد کی صورت میں جہاد قول سے تو ہو گا مگر جان سے جہاد کی سیرت میں مثال نہیں ملتی۔
اب آپ فقط کس عمل کو جہاد فرما رہے ہیں برائے مہربانی دلیل کے ساتھ رہ نمائی فرما دئیے۔

یہ کلپ بھی دیکھیں اور سنیں۔
جناب اس کلپ میں کوئی ایسی نئی بات نہیں جو میری تحریر میں موجود نہیں؛ اگر آپ اس کا مطالعہ فرما لیتے تو دوبارہ اس زحمت سے بچ جاتے۔
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
آپ کے پیجیز کو ٹریکر لگے ہوئے ہیں، انہیں یونیکوڈ میں یہاں پیش کریں
اس بات کا جواب میں اپنے پچھلے جواب میں دینا بھول گیا تھا اس لیے الگ سے دے رہا ہوں۔

عصر حاضر میں دین اسلام کا بحیثیت کُل مفقود ہونے کے باعث، ایک عام مسلمان ہر دینی مسئلہ کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے، اُس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کُل دین میں اُس جز کی کیا اہمیت ہے یا اُس جز کا کُل دین کے کِن کِن اجزا سے کتنا گہرا ربط ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر یہ مضامین ایک کتابچہ کا حصہ ہیں جس کے تمام مضامین ایک خاص ربط کے تحت قلمبند کیے گئے ہیں اور قارئین سے بھی ایک تسلسل میں اِن مضامین کا مطالعہ کرنے کا تقاضہ کرتا ہے ورنہ کئی نازک مسائل کا پورا ادراک نہیں ہو سکے گا اور یونیکوڈ کی صورت میں پوسٹ کرنے کا مطلب ہے کہ ہم پھر کُل کو چھوڑ کر جزیات کی بحث میں پڑھ کر اصل مقصد سے دور ہٹ جائیں گے۔

اس کتابچہ کی فہرست مضامین، مختصر خلاصہ اور اس مضمون میں موجود سوالات کی فہرست اپنی بات سمجھانے کے نظریہ سے پیش خدمت ہیں؛

کاوش نمبر ۱؛ علم کی اہمیت
عقل کا مقام دینی اور دنیاوی علوم میں منبع کی نہیں بلکہ فقط اِن علوم کو استعمال کرنے والے ایک آلہ کی ہے ۔ دینی علوم کا منبع قرآن اور حدیث ہے مزید برآں عقائد؛ عبادات اور معاملات کے ضمن میں قرآن اور حدیث کی صرف وہی تاویلات قابل منظور ہیں جن پر سلف کے جمہور علمائے حق کا تعامل رہا ہے۔
سوال نمبر ۱: علم اور عقل کا باہمی ربط کیا ہے؟
سوال نمبر۲: تعلیم یافتہ کہلانے کا حقدار کون؟
سوال نمبر۳: تو کیا مغربی تعلیم صرف معلومات کا مجموعہ ہے؛ علم نہیں؟؟؟
سوال نمبر۴: جاہل کون؟ معاشرہ میں جہالت پھیلانے کے ذمہ دار کون؟
سوال نمبر۵: علم حاصل کرنے کی ذمہ داری معاشرہ میں کس کس پر ہے؟

کاوش نمبر ۲؛ کلمہ توحید کی شرائط
دیگر ارکان اسلام یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کی طرح کلمہ توحید "لاالہ الا للہ" کی قبولیت بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔
سوال نمبر۱: کیا کلمہ توحید "لا الہ الا للہ" کی زبان سے ادائیگی ہی نجات کے لیے کافی ہے؟
سوال نمبر۲: شہادتین کے کتنے جز ہیں اور کیا ہر جز کی شرائط ہیں؟

کاوش نمبر ۳؛ کلمہ رسالت کی شرائط
کلمہ توحید "لاالہ الا للہ" کی طرح کلمہ رسالت "محمد رسول اللہ" کی قبولیت بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور رسول اللہﷺ کی سنت ایک مسلمان کی تمام زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے لازم کا درجہ رکھتی ہے نا کہ کچھ دینی و دنیاوی معاملات میں لازم اور کچھ میں اختیاری [Optional] ۔ اصل فرق صرف شرعی رخصتوں کا ہے۔
سوال نمبر۱: کیا کلمہ رسالت "محمد رسول اللہ" کی زبان سے ادائیگی ہی قیامت کے روز مجھے رسول پاکﷺ کی شفاعت کا حقدار بنا دے گی؟
سوال نمبر۲: کلمہ رسالت کی شرائط اور اُن کے قلبی اور عملی تقاضے کیا ہیں؟
سوال نمبر۳: کیا تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ سنتوں کی پیروی لازم ہے ؟
سوال نمبر۴: کیا بدعت حسنہ پر عمل رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع کے زمرہ میں آتا ہے؟

کاوش نمبر ۴؛ ایمان کی حقیقت
ہمیشگی کی جہنم سے نجات والے ایمان کے دو بنیادی وصف؛ دین کے مستند عقائد اور احکام پر قلبی یقین اور وزن میں رائی کے برابر ہونا ہے اور اِس دنیا میں اُس ایمان کا مظہر دین اسلام کے سوا تمام مذاہب اور ادیان سے براءت کا اظہار اور ہر گناہ کو کم از کم دل سے برا جاننا۔
سوال نمبر۱: ایمان کی حقیقت کیا ہے؟
سوال نمبر۲: کیا میرا عمل ایمان میں شامل ہے؟
سوال نمبر۳: کون سا ایمان نجات کے لیے ضروری ہے؟
سوال نمبر۴: کتنا ایمان نجات کے لیے کافی ہے ؟
سوال نمبر ۵: کیا اِس دنیا میں وزن کیے جانے والے ایمان کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے؟
سوال نمبر ۶: کیا اِس دنیا میں کسی معین شخص کو جنتی یا جہنمی قرار دیا جا سکتا ہے؟

کاوش نمبر ۵؛ ضروریات دین کی حقیقت
ضروریات دین سے جہالت یا انکار کفر ہے اور بغیر کسی شرعی رخصت کے اُن کا تارک فاسق و فاجر کے درجہ میں ہے ۔ مزید برآں، علمائے سلف کے مطابق کسی با عمل مسلمان کا بھی کافر ہو جانا قطعی طور پر ممکن ہے اور اہل سنت و الجماعۃ کا یہ عقیدہ تکفیر خوارج کے باطل عقیدہ تکفیر کے مترادف نہیں ہے۔
سوال نمبر۱: ضروریاتِ دین کسے کہتے ہیں؟
سوال نمبر ۲: کیا کسی واحد ضرورتِ دىن کا منکر کافر ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا کوئی مسلمان کافر قرار دیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر ۴: کیا ضروریاتِ دین یا دین کے تمام معاملات میں معیار نقل ہے یا عقل؟

کاوش نمبر ۶؛ کفر کی حقیقت
اسلام میں ظاہری اقوال اور اعمال ہی ہر فتوی کے موضوع سخن ہوتے ہیں جبکہ دلوں کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اِسی بنیاد پر جن ظاہری اقوال اور اعمال کا کفر صریح ہونا ثابت یا مختلف فیہ بھی ہوں ، تو اُس کے حامل مسلمان کے لیے ہمیشگی کی جہنم واجب ہونے کے خطرہ کے باعث، موانع کفر کی روشنی میں، یا تو اہل سنت و الجماعۃ کے علمائے حق اُس کی تکفیر فرماتے ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح فرما کہ آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا امیدوار بن سکے ، یا معاملے کی سنگینی اور معاشرہ میں علمائے حق کے فقدان کے باعث اسے ذاتی طور پر اپنے تمام عقائد اور اعمال کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔
سوال نمبر ۱: کیا مولوی کے کہنے سے میں کافر ہو جاؤں گا؟
سوال نمبر ۲: کفر یہ عقائد اور اعمال کو جاننا ایک مسلمان کے لیے کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا میرے ظاہری اعمال کا کفر سے کوئی تعلق ہے؟
سوال نمبر ۴: کیا کفر یہ عقائد اور اعمال کے سبب واجب ہونے والے کفر کے موانع [کفر ثابت ہونے میں رکاوٹیں] بھی ہیں؟
سوال نمبر ۵: کیا کفر کے موانع [کفر ثابت ہونے میں رکاوٹیں] کے کوئی حدود اور قعود بھی ہیں؟

کاوش نمبر ۷؛ نفاق کی حقیقت
نفاق ، دل کی وہ بیماری ہے جس کا اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو یہ مسلمان کو کفر کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہے۔ اِسی لیے اصحاب رسولﷺ اپنے متعلق کفر سے زیادہ نفاق کے متعلق فکر مند رہتے تھے۔ عملی نفاق کا سب سے بڑا مظہر جہاد فی سبیل اللہ کے فرض سے پہلو تہی ہے اور اِس فریضہ کی ادائیگی ہی اِس بیماری کا سب سے مؤثر اور واحد علاج ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا میں منافق ہوں؟
سوال نمبر ۲: کیا نفاق کی اقسام اور اُن کے بنیادی محرکات کا علم ضروری ہے؟
سوال نمبر ۳: نفاق کتنی اقسام کا ہوتا ہے؟
سوال نمبر ۴: نفاق کے بنیادی محرکات کتنے اور کون سے ہیں؟
سوال نمبر ۵: کیا قرآن اور حدیث میں عملی نفاق کی ظاہری علامات کا بیان ہے؟
سوال نمبر ۶: کیا علاماتِ نفاق کا تعلق گناہ کبیرہ سے بھی ہے؟

کاوش نمبر ۸؛ گناہوں کی حقیقت
قرآن کریم کے مطابق ہماری دنیاوی تکالیف اور مصائب کا براہ راست تعلق ہمارے گناہوں سے ہے، مزید برآں؛ رسول اللہﷺ کے ارشادات کے مطابق چونکہ کبائر کے ارتکاب کے وقت ایمان ،انسان سے الگ ہو جاتا ہے، تو ایک مومن کے لیے یہ احساس ہی جان لیوا ہونا چاہیے کہ اگر کسی گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے دوران ہی اُس کی موت کا وقت آگیا، تو وہ ایمان جو گناہ کے خاتمہ کے انتظار میں ہے، کیا اُس کے ساتھ عالم برزخ میں جائے گا؟
سوال نمبر ۱: کیا میرے گناہوں کا میری دنیاوی زندگی پر بھی کوئی اثر ہے؟
سوال نمبر ۲: کیا صغیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی فکر مندی کی بات ہے ؟
سوال نمبر ۳: کیا فاسق [پوشیدہ گناہ کرنے والا] اور فاجر [اعلانیہ گناہ کرنے والا] کے گناہوں میں کوئی فرق ہے؟


کاوش نمبر ۹؛ طاغوت کی حقیقت
کلمہ طیبہ میں "لا الہ" کا "الا اللہ" سے پہلے اقرار اِس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کی توحید کے اثبات سے پہلے ہر قسم کے طاغوت سے برأت ضروری ہے۔ طاغوت، اللہ سبحان و تعالٰی کی عبادت میں اُس کے مد مقابل کا لقب ہے اور طاغوت پرستی، مخلوق کا توحید پرستی کے مد مقابل فعل ہے۔ تو طاغوت کی پہچان اور طاغوت پرستی سے اجتناب ہی ایک مسلمان کے کلمہ کو اللہ سبحان و تعالٰی کی بارگاہ میں قابل قبول بناتا ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا دین میں عبادت سے مراد ظاہری عبادات کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟
سوال نمبر ۲: کیا طاغوت کا انکار ضروریاتِ دین میں شامل ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا مسلمان ہونے کے لئے طاغوت کا انکار؛ توحید کے اثبات سے پہلے ضروری ہے؟
سوال نمبر ۴: طاغوت اور طاغوت پرستی کی کیا تعریف ہے؟
سوال نمبر ۵: کیا ملکی؛ علاقائی ؛گروہی ؛ ادارتی یا جماعتی مفاد وغیرہ کے تحفظ اور اُس کی خاطر ہر قسم کے حکم کی تعمیل بھی طاغوت پرستی ہے ؟

کاوش نمبر ۱۰؛ شریعت کی حقیقت
شریعت محض چند عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مسلمان کی انفرادی، باہمی اور اجتماعی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی بنیاد طاغوت سے انکار اور تمام شرائطِ توحید کی موجودگی میں خالص توحید کے اقرار پر مبنی عقیدہ پر ہے اور اِس کی اِس حیثیت سے انکار درحقیقت اس بات کا اثبات ہے کہ انسان عقلیت یا تجربات کی بنیاد پر صحیح و غلط، عدل و ظلم، اعتدال و انتہا کے درمیان فرق جاننے پر کلی طور پر قادر ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے سلسلہ رسالت و نبوت کے بغیر بھی انسان اپنے "مقصود" [یعنی جہنم سے نجات اور جنت کے حصول] تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا شریعت صرف چند عبادات بصورت ارکان اسلام کا مجموعہ نہیں ہے ؟
سوال نمبر ۲: شریعت سے کیا مراد ہے اور ایک مسلمان کی زندگی میں شریعت کا کتنا عمل و دخل ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی اور اپنے اصولوں کے مطابق نہیں گزار سکتا؟
سوال نمبر ۴: کیا شریعت صرف [حرام؛ حلال ؛ فرض؛ سنت ] [یہ کرو] اور [یہ نہ کرو] کا مجموع ہے ؟
سوال نمبر ۵: اِس شریعت کا نفاذ کس کی ذمہ داری ہے ؟
سوال نمبر ۶: شریعت میں مصلحت کا کیا مقام ہے ؟

کاوش نمبر ۱۱؛ الولا والبراء کی حقیقت
اللہ، اُس کے رسولﷺ اور امت مسلمہ سے محبت اور اُن کے دشمنوں سے براءت ، دین اسلام میں اختیاری نہیں بلکہ لازمی فریضہ ہے۔ عصر حاضر میں کفار کے ساتھ اجتماعی سطح سے قطع نظر، انفرادی سطح پر بھی، معاشی اور معاشرتی روابط وہ نوعیت اختیار کر گئے ہیں کہ اِس عقیدہ کو پس پشت ڈالنا ہی بظاہر "عقل مندی" کا تقاضا نظر آتا ہے۔ حتّٰی کہ ہمارے اکثریتی علماء بھی اِس "عقل مندی" میں عوام کے شانہ بشانہ نذر آتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ اگر حلف برداری کی صورت میں مستقل سکونت کا مروجہ طریقہ کفر نہیں ہے تو یقیناً قرآن اور حدیث میں موجود اسلام اور ہمارے مروّجہ اسلام میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱: عقیدہ الولا والبراء سے کیا مراد ہے؟
سوال نمبر۲: کیا عقیدہ الولا والبراء ضروریاتِ دین میں شامل ہے؟
سوال نمبر۳: الولا والبراء کی علمائے حق نے کون کون سی صورتیں بیان کی ہیں؟
سوال نمبر۴: آج کل کے موجودہ جغرافیائی حالات کے باعث عقیدہ الولا والبراء میں کتنی لچک ہے؟
سوال نمبر۵: "مُدَاہَنَت" اور "مُدَارات" جیسی مشکل اصطلاحات سے کیا مراد ہے؟
سوال نمبر۶: کیا کافر ممالک میں غیر مستقل یا مستقل سکونت عقیدہ الولا والبراء کے منافی ہے؟

کاوش نمبر ۱۲؛ جہاد کی حقیقت
اپنی جان و مال سے جہاد یعنی "کفار کے مد مقابل اللہ کے دین کی سربلندی کی کوشش" ایک فرض اور نماز کی طرح مستقل عبادت ہے، جس کی چوٹی قتال فی سبیل اللہ کے نتیجے میں شہادت فی سبیل اللہ والی موت ہے۔ اِس کا منکر کافر اور تارک فاسق و فاجر ہے اور ہر عبادت کی طرح اِس کی قبولیت کا معیار بھی باطن میں نیت کا اخلاص اور ظاہر میں قرآن و سنت کے تابع ہونا ہے۔ عصر حاضر میں اقدامی جہاد جیسے فرض کفایہ کے مفقود ہونے کے باعث بحیثیت مجموعی امت مسلمہ گناہ گار ہے، مزید برآں کفار کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی موجودگی ؛ مسلمان عورتوں اور بچوں پر کفار کے مظالم اور مسلمان علاقوں پر کفار کے قبضہ کے باعث دفاعی جہاد جو ہر مسلمان پر نماز کی طرح فرض عین ہے اُس سے بھی امت کی اکثریت غفلت کا شکار ہو کر مزید گناہ کبیرہ کی مرتکب ہو رہی ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کوئی ظاہری عمل ہے یا تقوی ، تزکیہ نفس وغیرہ کی طرح ایک غیر مرئ عمل؟
سوال نمبر ۲: کیا جہاد فی سبیل اللہ بذات خود کوئی عبادت ہے یا فقط کسی دوسرے مقصد کے حصول کا ذریعہ؟
سوال نمبر ۳: کیا جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے؛ واجب ہے؛ سنت ہے یا نفل عبادت ہے؟
سوال نمبر ۴: کیا جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق ضروریات دین سے ہے؟
سوال نمبر ۵: کیا رسول اللہﷺ کی احادیث کے مطابق تزکیہ نفس یا ذِکرُ اللہ جہاد سے افضل نہیں ہیں؟
سوال نمبر ۶: کیا رسول اللہﷺ کے تمام جہاد دفاعی نہیں تھے ؟
سوال نمبر ۷: کیا جہاد فی سبیل اللہ صرف ریاست قرار نہیں دے سکتی ہے؟
سوال نمبر ۸: کیا عصر حاضر میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری اقدامی یا دفاعی جہاد سے زیادہ ضروری نہیں ہیں؟
سوال نمبر ۹: کیا کفار کے برابر فوجی، اقتصادی اور معاشی ترقی کے حصول کے بغیر ان کے ساتھ جہاد بیوقوفی نہیں ہے؟
سوال نمبر ۱۰: کیا مسلمان ممالک میں حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہے؟
سوال نمبر ۱۱: کیا آج تمام جہادی تنظیمیں باطل کی علم بردار اور فساد فی الارض کا باعث ہیں؟


کاوش نمبر ۱۳؛ نواقضِ اسلام
کاش !!!!!اسلام فقط زبان سے کلمہ طیبہ "لا الہ الا للہ" کی ادائیگی کا نام ہوتا اور پھر اہل کتاب کی طرح، دنیا بھی ہماری اور آخرت بھی۔
سوال نمبر ۱: نواقضِ اسلام کا علم کیوں ضروری ہے ؟
سوال نمبر ۲: نواقضِ اسلام اور گناہ کبیرہ میں کیا فرق ہے ؟
سوال نمبر ۳: کیا قرآن میں شرک کے علاوہ ہر عمل کی بخشش کا ذکر نہیں ہے ؟
سوال نمبر ۴: عصر حاضر کے حالات کے حساب سے اہم ترین نواقض اسلام کون سے ہیں ؟
 
شمولیت
جولائی 12، 2017
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
18
یہ کلپ بھی دیکھیں اور سنیں۔
اس کلپ کو دوبارہ دیکھنے کے بعد میرے دو تحفظات ہیں جو میں آپ کی خدمت میں پیش کر کے اس موضوع کو لپیٹنے کی کوشش کروں گا؛
اول یہ کلپ شیخ سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب پر مبنی ہے اور جواب بھی صرف سوال تک ہی محدود ہے، اسی لیے شیخ نے ان افراد یا تنظیموں کا ذکر نہیں فرمایا جو جہاد کشمیر کو غزوہ ہند سمجھ کر جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہیں اور یہ دعوی کرنا کہ ایسے کوئی افراد یا تنظیم ہے ہی نہیں تو اس دعوی کو تحقیق کی کمی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوم اس کلپ کے آخر میں شیخ نے چند مزاروں کے نام لے کر ان کے نام لیواوں کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا مشورہ دیا جو میرے نزدیک دو قباحتوں کی وجہ سے بے دلیل اور صائب نہیں ہے۔
اول قباحت یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جیسی عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کی طرح اس کی قبولیت کی دو ہی شرائط ہیں "باطن میں نیت کا اخلاص" اور "ظاہر میں قرآن و سنت کے تابع"، تو اب جب تک ہمارے علماء حضرات مزاروں کے مجاوروں اور ان کے نام لیواوں کو اسمائیلوں، قادیانیوں یا بہوریوں کی طرح کافر قرار نہ دے تو اس وقت تک یہ لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ھدف تو ہوسکتے ہیں مگر جہاد فی سبیل اللہ کے نہیں۔
دوسری قباحت یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا واحد مقصد اور مطلوب "کفر کے مدمقابل اللہ کے دین کی سربلندی کی کوشش" اور اس کا ھدف زمین پر بسنے والا ہر کافر نہیں بلکہ فقط وہ کفر کی طاقتیں ہیں جو اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہیں چاہے وہ انفرادی کفار کی شکل میں ہوں یا حکومتی شکل میں۔ اور انہی کو قرآن "فتنہ" سے تشبیہ دیتے ہوئے ان سے قتال کا حکم دیتا ہے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [۲؛۱۹۳]
عام کفار کے لیے تو جزیہ، ذمیوں اور دین اسلام کی تبلیغ کے احکام ہیں۔ تو اب شیخ کے مشورہ کی قبولیت کے لیے لازم ہے کہ یہ دونوں قباحتیں دور ہوں۔

آخر میں انتہائی معذرت، کے اپنی کم علمی کے باعث میں آپ کے قیمتی وقت کے ضیاع کا باعث بنا اور چونکہ ہمارا دین نصحیت ہے اسی کے پیش نظر میں جہاد کے موضوع سے ہٹ کر ایک آخری نصیحت کرتے ہوئے، جو شاید آپ کے لیے جہاد سے زیادہ ضروری ہو، اس پوسٹ کو اس موضوع پر اپنی آخری پوسٹ قرار دے رہا ہوں؛

سوال نمبر۶: کیا کافر ممالک میں غیر مستقل یا مستقل سکونت عقیدہ الولا والبراء کے منافی ہے؟
دور حاضر کا یہ وہ مسئلہ ہے جس کے متعلق علمائے حق کی آرا سے پہلے اُس کی اہمیت اور سنگینی کے احساس کے لیے مندرجہ ذیل احادیث کا مطالعہ بہت ضروری ہے؛

ü رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹا لشکر قبیلہ خثعم کی طرف بھیجا پس ان میں سے چند لوگوں نے (جو خود تو مسلمان ہوچکے تھے مگر کافروں کے ساتھ رہتے تھے) اپنے آپ کو سجدہ کر کے بچانا چاہا لیکن لوگوں نے اُن کو آگے بڑھ کر قتل کر دیا جب یہ بات جناب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے اُن کے ورثاء کو نصف دیت دلائی (اور آدھی دیت کافروں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ساقط کر دی) اور فرمایا میں ہر اُس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اِس لئے کہ اسلام اور کفر کی آگ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔[سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث ۸۸۰]
ü آپ ﷺ نے فرمایا مشرکین کے ساتھ رہائش نہ رکھو اور نہ اُن کے ساتھ مجلس رکھو کیونکہ جو شخص اُن کے ساتھ مقیم ہوا یا اُن کی مجلس اختیار کی وہ انہی کی طرح ہو جائے گا۔[جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث ۱۶۷۲]
ü مراسیل ابو داؤد عن المکحول میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ "اپنی اولاد کو مشرکین کے درمیان مت چھوڑو" [تہذیب السنن لابن قیم ص ۴۳۷ ج ۳]
مندرجہ بالا احادیث کی بنیاد پر علماء نے کافر ممالک کے سفر اور رہائش کے لیے کچھ ضروری شرائط بیان کیں ہیں؛
v انسان کے پاس اتنا علم ہو کہ جس سے شکوک و شبہات دفع کر سکے۔
v اس کے پاس اتنی دین داری ہو جو اسے نفسانی خواہشات سے روک سکے۔
v وہاں تک سفر کی ضرورت ہو۔
اور غیر مستقل یا مستقل اقامت کے لیے ان تین شرائط کے علاوہ دو مزید بنیادی اور لازمی شرطیں بیان کی ہیں؛

v شرط اول؛ قیام کرنے والا اپنی دین داری سے مطمئن ہو؛ اِس طرح کہ اُس کے پاس علم، ایمان اور عظیمت کی ایسی قوت ہو جس کی وجہ سے اُس کو اطمینان ہو کہ وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہ جائے گا؛ انحراف اور گمراہی سے بچ جائے گا؛ کافروں سے دشمنی اور اُن سے بغض کو اپنے دل میں زندہ رکھے گا اور اُن سے دوستی اور محبت کرنے سے دور رہے گا، کیونکہ اُن سے دوستی اور محبت قرآن کریم کے مطابق ایمان کے منافی ہے۔
ü لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۔۔۔۔۔[سورۃ المجادلة؛ ۲۲] "جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم اُن کو خدا اور اُس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔۔۔۔۔"۔
ü رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " آدمی اُس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے" [صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث ۱۱۲۳]۔

v شرط دوم؛ اُسے اپنی دین داری کے اظہار پر پوری قدرت حاصل ہو؛ شعائر اسلام آزادی کے ساتھ بغیر کسی روک ٹوک کے ادا کر سکتا ہو؛ نماز ؛ جماعت اور جمعہ قائم کرنے پر اُس پر پابندی عائد نہ کی جاتی ہو؛ زکوۃ؛ روزہ؛ حج؛ پردہ وغیرہ جیسے اسلامی شعائر سے اُسے روکا نہ جاتا ہو؛ شخصی قوانین کے اطلاق پر کوئی پابندی نہ ہو مثلاً وراثت؛ نکاح ؛ طلاق و نان نفقہ وغیرہ۔ اگر قیام کرنے والا یہ ساری چیزیں نہ کر پاتا ہو تو اقامت جائز نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم کے مطابق اب ہجرت واجب ہے۔
ü إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا [سورۃ النساء؛ ۹۷] "اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے اُن کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو اُن سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراغ نہیں تھا کہ تم اِس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے"۔
کسی مومن کی طبیعت کیسے گوارا کرے گی کہ وہ کافر ملک میں سکونت اختیار کرے جہاں شعائر کفر علی الاعلان ادا کیے جاتے ہوں اور جہاں تک مستقل سکونت کا مسئلہ ہے اُس کا تعلق
عقیدہ الولا والبراء سے زیادہ توحید [1]کی لازمی شرائط کے انکار اور طاغوت[2] کے اثبات سے ہے ؛یعنی کفر [3]سے ہے۔ دور جدید میں کسی بھی ملک کی شہریت کا حصول اُس ملک کی وفا داری کے حلف ساتھ مشروط ہے؛


چند مشہور کافر ممالک کے حلفوں کی عبارات میں سے اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں؛
امریکی شہریت کا حلف؛
  • [کلمہ توحید کی کُلی نفی] that I absolutely and entirely renounce and abjure [بالکل اور مکمل طور پر ترک کر کے اور دستبردار ] all allegiance and fidelity [اطاعت اور وفا] to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty [خود مختار قوت] of whom or which I have heretofore been a subject or citizen;
  • [طاغوت کی سرپرستی کا إقرار؛ کلمہ توحید کی شرائط "تابعداری منافی نافرمانی" اور "اخلاص منافی شرک" کا ردّ]that I will support [تھامنا] and defend [حفاظت کرنا] the constitution and laws of the United States of America.

کنیڈین شہریت کا حلف؛
· [کلمہ توحید کی شرائط "تابعداری منافی نافرمانی" اور "اخلاص منافی شرک" کا ردّ]that I will be faithful and bear true allegiance [دل کی گہرائی سے حقیقی وفا داری و اطاعت] to her Majesty Queen Elizabeth the second Queen of Canada her heirs and successors.
·
[طاغوت کی سرپرستی کا إقرار؛ کلمہ توحید کی شرائط "تابعداری منافی نافرمانی" اور "اخلاص منافی شرک" کا ردّ] I will faithfully observe [وفاداری کے ساتھ تسلیم کرنا] the laws of Canada.

برطانوی شہریت کا حلف؛
Oath:
· [کلمہ توحید کی شرائط "تابعداری منافی نافرمانی" اور "اخلاص منافی شرک" کا ردّ] that I will be faithful and bear true allegiance [دل کی گہرائی سے حقیقی وفا داری و اطاعت] to her Majesty Queen Elizabeth the second Queen of Canada her heirs and successors.
Pledge:
· [کلمہ توحید کی شرط "اخلاص منافی شرک" کا ردّ] I will give my loyalty [وفاداری ] to the United Kingdom.
· [طاغوت کی سرپرستی کا إقرار؛ کلمہ توحید کی شرائط "تابعداری منافی نافرمانی" اور "اخلاص منافی شرک" کا ردّ]I will observe [تسلیم کرنا] its laws faithfully [ایمانداری سے].


آسٹریلین شہریت کا حلف؛
You can choose between two versions of the Pledge, one that mentions God and one that does not.
·
[کلمہ توحید کی شرط "اخلاص منافی شرک" کا ردّ]I pledge [حتمی وعدہ] my loyalty [وفاداری] to Australia.
·
[طاغوت کی سرپرستی کا إقرار؛ کلمہ توحید کی شرائط "تابعداری منافی نافرمانی" اور "اخلاص منافی شرک" کا ردّ]Whose laws I will uphold [برقرار رکھنا] and obey [حکم ماننا].

ü مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [سورۃ النحل ؛ ۱۰۶] جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اُس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔
قرآن پاک میں کفریہ کلمات کی زبان سے ادائیگی کی رخصت مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں موجود تو ہے مگر اس آیت کا سبب نزول حضرت عمار بن یاسر﷜ ہیں؛ جنہوں نے کفار کے ہاتھوں اپنے والدین کی شہادت کے بعد بے تحاشا جسمانی تشدد کے نتیجے میں زبردستی، کسی دنیاوی فائدہ کے حصول کے نظریہ کے بغیر زبان سے کفریہ کلمات کو ادا کیا؛ تو دلیل کی بنیاد پر تو صرف اُس شخص کو مندرجہ بالا حلفوں کی عبارات کی زبان سے ادائیگی کی رخصت ہے جو حضرت عمار بن یاسر﷜ کی مانند جبر و اکراہ کے موانع کفر کے ماتحت ہو۔
اِس فعل کے مرتکب افراد کی اکثریت کا موقف اِس سلسلے میں ہم آہنگ ہے کہ "ہم نے دل سے یہ حلف تو ادا نہیں کیا ہے"؛ اُن تمام افراد سے میرا مودبانہ سوال ہے کہ "کیا آپ نے دل سے کلمہ توحید یعنی "لا الہ الا اللہ" ادا کیا ہے؟؟؟" کیونکہ جس نے دل سے اِس کلمہ توحید کو ادا کیا ہو اُس کی زبان اُس کی نفی کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

[1] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ کلمہ توحید کی شرائط [کاوش نمبر ۲]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[2] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ طاغوت کی حقیقت [کاوش نمبر ۹]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[3] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ کفر کی حقیقت [کاوش نمبر ۶]" کا مطالعہ فرمائیں۔
 
Top