• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ کا تحقیقی اور تعلیمی مشن

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: آپ کے بنیادی مقاصد کس حد تک پورے ہوئے؟
ج:ہم نے جوپروگرام تشکیل دیئے، ان میں ہماراساتھ زیادہ تر وہی لوگ دے سکتے تھے جو پاکستانی مدارس میں دینی علوم سے فراغت کے بعد سعودی یونیورسٹیوں میں بھی زیر تعلیم رہے جبکہ پاکستان میں ان کامعاشی مستقبل روشن نہ تھا لہٰذا سعودی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے والوں کا زیادہ رجحان یہ تھاکہ سعودی دارالافتاء کے ملازم کی حیثیت سے دوسرے ملکوں یورپ، امریکہ اور اَفریقہ وغیرہ میں جاکر کام کریں یہ تمام مبعوثین شیخ ابن بازؒ کی طرف سے اپنے وطن کے سوا دیگر ملکوں میں مقررکیے جاتے تھے۔اس طرح دار الافتاء نے برصغیر پاک و ہند سے فارغ ہونے والے علماء کی ایک بڑی تعداد دنیا بھر میں بھیج دی۔ لیکن ہم تین ساتھیوں نے وطن واپس آکر اپنے مشن کا کام آگے بڑھانے کاعزم کررکھا تھا، اس لیے ابتداء میں ہم کوئی تعاقدکیے بغیر واپس آگئے۔بعدمیں معاشی ضرورتوں کے پیش نظر حافظ ثناء اللہ مدنی او رمولانا عبدالسلام کیلانی تو دارالافتاء سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ۱۹۷۸ء میں پاکستان کادورہ کرنے والے دارالافتاء کے شعبہغیر عربی ممالک کے ڈائیریکٹر جنرل شیخ محمد بن قعودؒ اور شیخ ابن باز ؒ کے سیکرٹری جنرل شیخ عبدالعزیز ناصر بن بازوغیرہ کی دعوت کے باوجود میں نے آزادانہ کام کرنے کو ترجیح دی ۔پاکستان میں ۱۹۷۰ء سے ہی سوشلزم اور اِسلام کی چپقلش چل رہی تھی۔ کیونکہ ’’شوکت اِسلام‘‘ کا جلوس بھی ۱۹۷۰ء میں ہی نکلا تھااور اسی سال دسمبر ۱۹۷۰ئ؍ میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوامی انتخابات ہوئے جن میں مشرقی پاکستان کے اَندر مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کے اَندر ذوالفقار علی بھٹو کو اکثریت حاصل ہوئی۔ اتفاق یہ ہے کہ دسمبر۱۹۷۰ء ؍ میں انتخابات ہوئے اور ماہوار ’محدث‘ کا پہلا شمارہ بھی دسمبر۱۹۷۰ء کا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بنگلہ دیش کے الگ ہوجانے کی وجہ سے نیا پاکستان اور اسکے دستو ر وقانون کی تشکیل کا موقع تھا ۔سیاسی فضاء غبار آلود اور تناؤ کاشکار تھی ۔حکومتی حلقوں میں بھی کافی نشیب وفراز تھا،کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو ایک سول مارشل لاء کے سربراہ کی حیثیت سے برسر اقتدار آئے تھے ۔پیپلز پارٹی نے اسلامی سوشلزم کے نام پرروٹی، کپڑے اور مکان کانعرہ لگا کراپنے مخالفین کو دبارکھا تھا جس میں نفاذ اسلام کیلئے بھی حالات سازگار نہ تھے گویا کافی حد تک نفاذ شریعت کو ’ریورس گیئر‘ لگا ہوا تھا،اس دور میں کافی عرصہ بڑے بڑے سیاستدان بھی عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ اس وقت پاکستان کے بہت سے بہی خواہ سیاست وقانون کے میدان میں فکر ی طور پر انفرادی یا اجتماعی تحقیقات میں مصروف رہتے تھے۔ مجلس تحقیق اسلامی بھی اسی میدان میں مصروف رہی ۔ہمارے سامنے سیاست وقانون کاشرعی تصور تو واضح تھا لیکن جو علمی چیلنج در پیش تھا وہ سیاست وقانون کے تمدنی ارتقاء کاتھا کہ دور حاضر میں متمدن اداروں کی تشکیل کیسی ہونی چاہیے ؟سیاسی طور پر عالم اسلام میں جمہوریت اور سوشلزم کی اسلام کے ساتھ جو پیوند کاری ہورہی تھی اس کانتیجہ کیا نکلے گا؟ اسی طرح حکومتوں کے نظام اسلامی اصولوں پر کیسے استوار کیے جاسکتے ہیں؟ اگرچہ ۱۹۷۳ء کا پاکستانی دستور پارلیمنٹ نے بنایا لیکن اس پر اثر انداز لا محالہ تمام ادارے ہوئے جو علمی تحقیقات اور فکر ی جائزے پیش کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رجحانات شریعت کے حق میں نہ ہونے کے باوجود ۱۹۷۳ء کے دستور میں دکھانے کو بہت سی اسلامی دفعات بھی شامل ہوگئیں اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں وغیرہ کو غیر مسلم اقلیت بھی قرار دیا گیا ۔ بعد ازاں ۱۹۷۷ء کی نظام مصطفی تحر یک کے نتیجے میں جنرل محمد ضیا ء الحق نے مارشل لاء لگایا تو اسی تحریک کا دباؤ تھا کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے نفاذشریعت کے حوالے سے علماء اور مشائخ کے ملک گیر کنونشن بھی کیے جن میںعلماء اورمشائخ کو اپنے اعلیٰ مشیران بنانے کے ساتھ ساتھ شریعت کی بالا دستی کے اعلانات بھی ہوتے رہے۔ افسوس ہے کہ یہ اعلانات صرف سیاسی رہے۔نہ تو علماء کومشیر بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور نہ ہی نفاذ شریعت کے لیے کوئی ٹھوس بنیادیں مہیا ہوسکیں گویا جڑوں کو مضبوط کرنے کی بجائے شاخوں پر کام ہوتا رہا۔ مخالفین تو اس پر بھی چیں بہ جبیں تھے کہ اس طرح دینی حلقوں کو عزت مل رہی ہے۔ سپر قوتوں کی سازش سے عالمی سطح پر مسلمانوں کے دو بلاک بناکر انہیں تصادم کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ اسی بناء پراسٹیبلشمنٹ کو یہ موقع ملا کہ وہ نفاذ شریعت کی راہ میں فرقہ واریت کو ایک بڑی رکاوٹ بنا دیں تاکہ پاکستان میں اسلام کی عملداری نہ ہوسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مجلس تحقیق اسلامی نے پیپلزپارٹی کے سات سالہ دور میں جوعلمی اور فکر ی کام کیا تھا، جنرل محمد ضیا ء الحق کے ابتدائی دور میں جب شرعی عدالتیں بنانے کے اعلانات ہوئے اور تمام صوبوں کی ہائی کورٹس کو مشروط طور پرملک میں اِسلامی اور غیر اسلامی قوانین کانکھارا کرنے کا اختیار ملا تو اسے بروئے کار لانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ اس وقت لاہور اور فیصل آباد کے دینی مدارس میں قاضی کورسز کروائے جا رہے تھے۔ مجلس کی سوچ یہ تھی کہ چار یاچھ ماہ کے مختصر ریفریشر کورسوں سے قانون دانوں کی شریعت کے لیے خاطر خواہ تربیت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ہم نے اپنے استاذمحتر م شیخ ابن با ز ؒ،جو ان دنوں سعودی عرب کے مفتی اعظم تھے،کے تعاون سے سعودی یونیورسٹیوں سے سکالر شپ منظور کروائے اور ایسا پروگرام بنایا کہ علماء اور قانون دانوں کو ان کی الگ الگ علمی کمزوریاں دور کرکے مزید تعلیم کے لیے سعودی یونیورسٹیوں میں بھی بھیجا جائے۔ہم نے اس امتزاجی تعلیم کی غرض سے ایک سالہ سر ٹیفکیٹ کورس اوردو سالہ اعلیٰ ڈپلومہ کورس کرانے کا پروگرام بنایا۔ جس کی بنیاد پرانہیں سعودی یونیورسٹیز کے لیے منتخب کیا جاتاتھا۔ یہ پروگرام ہم نے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تحت ’المعهد العالی للشریعة و القضاء‘کے نام سے شروع کیا اور قانون دانوں اور علماء کے لیے الگ الگ کورس ترتیب دیے اگرچہ ان کی کئی کلاسیں اکٹھی بھی ہوتیں تاکہ ان کو باہم قریب لایا جائے ۔ ہمارے پہلے بیج سے جو حضرات سکالر شپ پر سعودی عرب کی مختلف یونیورسٹیوں میں گئے، ان کی تعداداٹھاون تھی۔ ان کورسوں میںمیرے سیکرٹری عطاء الرحمن ثاقب اور خالد سیف شہید بھی برابر شریک رہے۔ اس لیے ان کاداخلہ بھی ’المعهد العالی للشریعة و القضاء‘کی طرف سے جامعۃ ا لملک سعودمیں ہوگیا، جہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں نے عطاء الرحمن ثاقب(شہید)کو جامعۃ الامام محمدبن سعود الاسلامیہ کے چار سالہ اعلیٰ تعلیم کے کورس میں دوبارہ داخل کرادیا۔ لیکن علامہ احسان الہٰی ظہیر انہیں جامعۃ الإمام کی طرف سے اپنے معاون خاص کی حیثیت سے پاکستان لے آئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: پہلے بیج کے ان کورسوں میں کتنے علماء و وکلا کو داخلہ دیا گیا؟
ج: ’المعہد العالی للشریعة والقضاء‘ میں داخلہ کے لیے پاکستان بھر سے سات سو کے قریب علماء اور قانون دانوں نے درخواستیں دی تھیں لیکن ہم اتنی بڑی تعداد کے متحمل نہ تھے لہٰذا ہم نے داخلہ کی سخت شرائط کے تحت مقابلہ کے امتحانات کی طرح پہلے اعلیٰ معیار کا تحریری امتحان لیا پھرکامیاب ہونے والوں میں سے ۲۵۰ کا انٹرویو ہواجن میں سے۱۸۷ کا انتخاب کیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: کیاآپ سمجھتے ہیں کہ مقاصد پورے ہو رہے ہیں؟
ج: اِنسان جب کام شروع کرتا ہے تو بہت زیادہ اُمیدیں رکھتا ہے لیکن جب کام آگے بڑھتا ہے تو اس کی کمزوریوں اور فوائد کا شعورہونے لگتا ہے کہ اس میں کیا فائدے ہیں اور کیا کمزوریاں ہیں؟ میں نے تجربے سے یہ چیز محسوس کی ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کی بڑی اہمیت ہے۔ جو لوگ شام کی کلاسز پڑھنے کے بعد فارغ ہو گئے ان کی حتی المقدور تربیت نہیں ہوسکی۔ جزوقتی تعلیم میں آپ علم تو سکھا سکتے ہیں مگر طلبہ کی شخصیت کے اَندر آپ بہت کم اَثر اَنداز ہوسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: اپنے قیام سے لے کر اب تک مجلس نے جن علمی منصوبوں پر کام کیا ہے ان کے بارے میں بتائیے؟
ج: میرے سامنے دو چیزیں بہت اَہم تھیں۔ ایک تو سرمایہ داریت اور سوشلزم کے تقابل سے اسلام کامعاشی نظام کیا ہے؟ اور دوسری یہ کہ میں نے محسوس کیا کہ اَہل حدیث ایک فرقہ بن گیا ہے۔ اس کے رجحانات ’اہل حدیث کے امتیازی مسائل یا اہل حدیث کی فقہ‘ تشکیل دینے میں زیادہ خرچ ہورہے ہیں۔ اِبتداء میں، میں نے اِرادہ کیا کہ ’محدث‘ کے دو نمبر نکالے جائیں: (١)اہل حدیث نمبر (٢)اسلامی معیشت نمبر
پہلے نمبر میں ایسے مضامین لکھوائے جائیں جن سے واضح ہوکہ قرون اولیٰ میںدو اجتہادی مکتب فکر ’اہل حدیث‘ اور ’اہل الرائے‘ کیسے بنے؟ پھر ان کا تاریخی ارتقاء کن مراحل سے گزرا؟ نیز برصغیر میں ’تحریک اہل حدیث‘ کیسے چلی؟ اور آج کل مسلک اہل حدیث کیا ہے؟ دوسرے نمبر میں میری خواہش یہ تھی کہ سرمایہ داریت جو سود اور ٹیکس کے دو پہیوں پر چل رہی ہے، اس کے بارے میں اسلامی مؤقف کھل کر پیش کیا جائے اور حالات حاضرہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے پروردہ جو ادارے تشکیل پذیر ہوئے ہیں، انہیں کس طرح اسلامی اصولوں پر استوار کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح سوشلزم جس نے سرمایہ داریت کو معاشی ناہمواری کی بنیاد قرار دے کر اپنے لیے ہمدردی حاصل کی وہ نہ صرف انسانی نفسیات کا ساتھ نہیں دے سکتا بلکہ اپنے دعووں میں حقیقی طور پر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں نظام نعروں پر چل رہے ہیں اور انسانی حرص وآز یا اس کے رد عمل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ عوامی تحریکیں نعروں سے کامیاب تو ہو جاتی ہیں لیکن ٹھوس کام کے بغیر عوامی دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتیں۔ تحریک پاکستان اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی کا حشر بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح اسلام کو صرف تحریک بنانے کی بجائے اس کے اجتماعی نظام ہائے حیات پر بہت کچھ تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ بالخصوص تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی اداروں نے جو شکل اختیار کی ہے، انہیں اسلامی اصولوں پر کس طرح استوار کیا جائے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آج کل سیکولرزم اور اسلام کی کشمکش ہے۔ سیکولرزم عقائد، عبادات اور خاندانی رسوم رواج کی حد تک مذہب میں مداخلت نہ کرنے کی بات کرتا ہے۔ لیکن اِجتماعیت کے میدان میں سیاست ، معیشت اور معاشرت میں دین وشریعت کے حوالے سے بات کرنے کا روادار نہیں حالانکہ تہذیب وثقافت (Culture) کی تعمیر میں معاشرے کا ابتدائی یونٹ ’خاندانی ادارہ‘ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی طرح اسلام ایک جامع دین وشریعت ہے جو پرائیویٹ اور پبلک زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج سیکولرزم اپنا سب سے بڑا دشمن اسلام کو سمجھتا ہے۔
سیکولرزم جن شعبوں کو انسان کی پرائیویٹ زندگی قرار دیتا ہے اس کے بارے میں تمدن (Civilization) کا زیادہ دخل نہیں ہے۔ اگرچہ دنیا کے Global Village بن جانے اور مسلم اور غیر مسلم مخلوط معاشروں کی وجہ سے نئے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں، جن کی تحقیق کی ضرورت ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ البتہ پبلک سیکٹر آج کا بڑا چیلنج ہے، جس میں بہت کچھ تمدنی ارتقاء کی بناء پر تبدیلیاں آ رہی ہیں اور نئے نئے ادارے تشکیل پانے کی وجہ سے نہ صرف اسلامی تعلیمات کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے بلکہ اسلامی اصولوں اور مقاصد شریعت کو سامنے رکھ کر اجتماعی نظاموں کی ترقی یافتہ شکل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم بڑی آسانی سے یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ ہمیں اسلامی خلافت کا احیاء کرنا ہے لیکن اس وقت عالم اسلام ۵۷ ملکوں اور حکومتوں پر مشتمل ہے، اس پر علمی اور تحقیقی کام سے زیادہ عملی مشکلات درپیش ہیں۔
جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ہم ’المعہد العالی للشریعۃ والقضائ‘ کے تحت علماء اور قانون دانوں کو دوسالہ کورس کرواتے رہے، جس میں کورس ورک کے علاوہ مندرجہ بالا اہم مسائل پر تحقیقی مقالہ جات بھی لکھوائے گئے اور ان کی تکمیل پر ہی فارغ ہونے والوں کو اعلیٰ ڈپلومہ دیا گیا اورمزید تعلیم کے لیے بیرونی یونیورسٹیوں میں بھی بھیجا گیا۔ سعودی اعلیٰ وِزارتِ تعلیم، جامعہ الازھر۔ مصر اور دیگر یونیورسٹیوں نے اُسے خاصی اَہمیت دی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس طرح ہمارے علمی منصوبے دامے درمے سخنے آگے بڑھتے رہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اتنی پذیرائی دی کہ (جنرل پرویز مشرف کی طرف سے انقلاب لانے تک) اعلیٰ عدلیہ کے تعاون سے عدالتی افسران کو بھی مختصر یا لمبے کورس کروانے کا موقع ملتا رہا اور مجلس تحقیق اسلامی نے کئی دیگر اہم علمی اور تحقیقی پروگرام بنائے۔ جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
ضیاء الحق نے اَپنے دور میں نفاذِ شریعت کیلئے جو پیش رفت کی تھی، اس میں سے بعض دستوری تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ جن میں قرارداد مقاصد کو دستور کے دیباچہ سے نکال کر متن دستور میں اس طرح داخل کیا گیا کہ قرار دادِ مقاصد کو مؤثر قانونی حیثیت حاصل ہو۔ اسی طرح پہلے تمام صوبوں میں ہائی کورٹس کو مشروط طور پر بہت سے ذیلی قوانین کو شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا۔ بعد ازاں اس مقصد کے لیے وَفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا شریعت بنچ بنایا گیا۔ ان اعلیٰ عدالتوں میں جب شریعت کی موافقت اور عدم موافقت کے بارے میں علمی بحثیں ہونے لگیں تو اندازہ ہوا کہ قانون دانوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ شریعت کے مستند اور علمی ورثہ تک رسائی کا ہے جو اینگلو سیکسن لاء کے تربیت یافتہ حضرات کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے وجود میں آنے سے پہلے لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس(ر) بدیع الزمان کا ایک کیس زیر سماعت آیا جس میں ملک بھر سے۵۳ قانون دان، سکالر اوردینی جماعتوں کے راہنماؤں نے سیاسی جماعتوں کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کیا۔ مجھے خصوصی طور پرعدالتی بنچ کا تعاون کرنے کابھی موقع ملا۔ میں نے تمام عدالتی بحث اور ریکارڈکا جائزہ لیتے ہوئے جو بڑی کمی محسوس کی وہ یہ تھی کہ وکلاء حوالہ کے لیے ثانوی یا ثالثی درجے کی کتابیں پیش کرتے۔ اسی طرح علماء بھی جدید اداروں کے نظام سے خاطر خواہ واقف نہ ہونے کی بناء پر عدالت کو زیادہ مطمئن نہ کرسکتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
انہی دنوں ایس ایم ظفر صاحب نے مجھے یہ تجویز پیش کی کہ اعلیٰ عدالتوں کے اہم فیصلے قانونی نظائر کے طور پر چھپتے رہتے ہیں حالانکہ ہمارے لیے اس سے اہم تر نظائر اسلامی عدالتوں کے فیصلے ہیں جن کی بنیاد عہد رسالت اور اس سے متصل خلافت راشدہ کا دور ہے۔ لہٰذا اس کا ایک مجموعہ ’عربی زبان‘ میں تیار ہونا چاہیے۔ چنانچہ مجلس تحقیق اسلامی کی طرف سے جناب ریاض الحسن نوری نے یہ کام شروع بھی کر دیا لیکن ایس ایم ظفر اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے اسے جاری نہ رکھ سکے۔
بعدازاں قانون دانوں کی تربیت اور عدالتوں کے اسلامی فیصلوں کو جمع کرنے کا پروگرام دوبارہ اس وقت زیر غور آیا جب ’المعهد العالی للشریعة والقضاء‘ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے تعاون سے کچھ خصوصی کورس کرائے جن میں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بہت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں نے بھی شرکت کی۔ جبکہ لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ وغیرہ سے ماتحت عدلیہ کی ایک بہت بڑی تعداد شریک کورس رہی۔ انہی دنوں مجلس تحقیق اسلامی کا مذکورہ بالا منصوبہ تشکیل پایا پر ایک سال کام ہوتا رہا اور یہ طے پایا کہ یہ منصوبہ عہد نبوت سے لے کر دور حاضر تک کے فیصلوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ تمام اسلامی فیصلے پہلے اصل زبانوں میں ترتیب دئیے جائیں۔ بعد ازاں انہیں عربی، فرانسیسی، انگریزی اور اردو میں منتقل کیا جائے۔ اس منصوبے میں جسٹس(ر) محمد رفیق تارڑ (سابق صدر پاکستان)، جسٹس(ر) عبدالقدیر چوہدری، جسٹس(ر) خلیل الرحمن خان، جسٹس(ر) قربان صادق اکرام، جسٹس(ر) منیر مغل وغیرہ پیش پیش رہے۔
اس کا نام ’الموسوعہ القضائیۃ‘(Encyclopedia of Islamic Judgments ) رکھاگیا۔ جس پر مجلس تحقیق الاسلامی نے ان تھک کام کیا ہے اور عہد نبوت سے خلفاء راشدین تک الحمدﷲ کام مکمل ہوگیا ہے جو آگے جاری ہے۔ اس کی نظر ثانی اور دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کیلئے مجلس کا تعاون سعودی عرب، سوڈان اور مراکش بھی کررہے ہیں۔ اس کام میں ہمارے پیش نظر زیادہ تر قانون دان ہیں، دیگر اشخاص اور ادارے بھی ان شاء اللہ اس سے کافی فائدہ اٹھائیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: مجلس کے رفقاء کا اِنتخاب کرتے وقت کن علمی اِمتیازات کو ترجیح دی جاتی ہے؟
ج: یہ فطری امر ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ جس طرح کے منصوبے بناتا ہے اسی طرح کے لوگوں سے رابطہ رکھتاہے، میرا اِبتدائی رُجحان قانون اور علمی سیاست کی طرف زیادہ تھا اس لیے میں نے جہاں یہ فیصلہ کیاکہ مجھے عملی سیاست میں نہیں اُترنا، وہاں اس میدان میں علمی اور تحقیقی کام کیلئے میری بھرپور کوششیں جاری اور ساری رہیں۔ اس سلسلہ میں قانون اور عدالت سے متعلق مذکورہ بالا حضرات کا تو ذکر ہو چکا لیکن پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور اسلامی ذہن کے دانشور کسی نہ کسی حوالے سے آج تک ہمارے ساتھ مربوط رہے ہیں۔ بلکہ نفاذِ شریعت کی علمی تحریک ہو یا مختلف مکاتب فکر کو اکٹھا کرنے کی تحریک ہم اس سلسلے میں اگر پیش رو نہیں تو کسی سے پیچھے بھی نہیںرہتے۔ آج کل’ملی مجلس شرعی‘ کے نام سے اسی کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
 
Top