حافظ عبد الحمید ازہر
ولادت : 10 دسمبر 1948 ء
( وفات : 14 نومبر 2015 ء )
میانہ قد ، گندمی رنگت میں سرخی کی جھلک ، ناک نقشہ خوب صورت ، صاف گو ، علم اور حلم کا دل پذیر مجموعہ ، مزاج میں اعتدال ، اچھے خطیب اور اچھے مدرس ، طبیعت میں صالحیت اور حسنات کا غلبہ ، لمبی داڑھی ، عمدہ خصال اور خوش گفتار ، شلوار قمیص عام پہناوہ ، ہمارے اس عزیز القدر دوست کو جو حافظ عبد الحمید ازہر کے نام سے موسوم ہیں ، اللہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے ۔
والد محترم کا نام حکیم محمد فیض تھا ، اسی خاندان کے لوگ ضلع امرتسر کے موضع بھوجیاں کے علماء کرام سے متاثر تھے ، اسی لیے ان کے والد کا نام مولانا فیض محمد بھوجیانی کے نام پر رکھا گیا ۔ جد امجد کا اسم گرامی حکیم مولا بخش تھا ، ان کا تعلق ایک گاؤں ’ سر سنگھ ‘ سے تھا ، انہیں مقامی مسلمانوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ور سب لوگ ’’ میا ں جی ‘‘ کہتے تھے ، ایک بزرگ شیخ حبیب اللہ تھے ، نیک طینت اور پسندیدہ خصائل کے مالک ، انہیں کی تلقین سے حکیم مولا بخش نے مسلک اہل حدیث قبول کیا تھا ، پھر ان کی عقیدت کا مرکز غزنوی علماء کرام اور مولانا نیک محمد قرار پائے ، حکیم مولا بخش کی کوشش سے موضع سر سنگھ میں ایک خاصی بڑی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ، لیکن مسجد ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ملک کی تقسیم کا اعلان ہوگیا اور ان لوگوں کو وہاں سے نکلنا پڑا ۔
حافظ عبد الحمید کے نانا حاجی عبد الکریم تھے ، ان کا تعلق سکونت ایک گاؤں ’ نبلیئر ‘ سے تھا ، یہ گاؤں ضلع لاہور میں تھا ، وہاں سکھوں کی اکثریت تھی ، حاجی عبد الکریم اپنے خاندان کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موضع ’ پٹی ‘ میں آ بسے ، یہ خاصا بڑا قصبہ تھا اور ضلع لاہور میں واقع تھا ، اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلمانوں میں بھی اہل حدیث حضرات کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن تقسیم ملک کے نیچے اس قصبے کو ضلع لاہور کی حدود سے نکال کر ضلع امرتسر میں شامل کردیا گیا اور وہ ہندوستان کے حصے میں آیا ۔ تقسیم ملک سے پہلے حافظ عبدالحمید ازہر کے ددھیال و ننھیال عزت و احترام کی زندگی بسر کرتے تھے ، ملک تقسیم ہوا تو وہاں سے قصور آگئے اور اس شہر کے کوٹ اعظم خاں میں سکونت پذیر ہوگئے ، یہیں 10 دسمبر 1948 ء کو حافظ عبد الحمید ازہر کی ولادت ہوئی ، پاکستان کی پیدائش 14 اگست 1947ء کو ہوئی ، عیسوی تقویم کے مطابق یہ عمر کے اعتبار سے یہ پاکستان سے چار دن کم سولہ مہینے چھوٹے ہیں ، دعا ہے اللہ تعالی پاکستان کو ہمیشہ قائم رکھے اور یہ چھوٹی بڑی ہر آفت سے محفوظ رہے ،اور حافظ عبدالحمید ازہر کی زندگی صحت وعافیت کے ساتھ داراز ہو اور لوگ ان کی خطابت او رتحریری مساعی سے مستفید ہوتے رہیں ، آمین ۔
عبد الحمید ازہر کچھ بڑے ہوئے تو گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل کرادیے گئے ، سکول کی تعلیم کے دوران ہی ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کے بعد قصور کی جامع مسجد فریدیہ میں قاری نور احمد کھرل سے ( جو قاری اظہار احمد تھانوی کے شاگرد تھے ) حفظ قرآن کا آغاز کیا اور اللہ نے ان کو حفظ و تجوید کی نعمت عظمی سے نوازا ۔
1965ء میں میڑک پاس کیا ، انہی دنوں مولانا محمد اسحاق گوہڑوی رحمانی اپنے دوست شیخ عبد الکریم کی تعزیت کے لیے ( جو ایک حادثے میں وفات پاگئے تھے ) قصور تشریف لائے ، حافظ عبد الحمید ازہر کے دادا او رنانا انھیں مولانا موصوف کے پاس لے گئے اور آئندہ تعلیم کے لیے رائے طلب کی ، اس رائے کے نتیجے میں جولائی 1965 ء میں عبد الحمید ازہر کو ان کے ماموں مولانا عبد العظیم انصاری اپنے ساتھ چینیاں والی مسجد ( لاہور ) لے آئے اور وہاں کے دار الحدیث میں داخل کرادیے گئے ۔
جب چینیاں والی مسجد میں عبدالحمید ازہر کی تعلیم کا آغاز ہوا ، اس وقت مولانا محمد اسحاق رحمانی وہاں صدر مدرس تھے او رمولانا عبدالعزیز نائب مدرس اور ہم سبق طلباء میں مولانا محمود احمد بن حافظ عبد الغفور ( مریدکے ) اور مولانا محمد عثمان ( حال مدرس جامعہ اہل حدیث لاہور ) شامل تھے ۔
اس سے اگلے سال بطور نائب مدرس وہاں مولانا عبد الخالق قدوسی شہید کا تقرر ہوا ، صرف و نحو کی کتابیں ، ترجمہ قرآن اور بلوغ المرام مولانا محمد اسحاق رحمانی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ، مشکوۃ شریف اورعربی ادب کی ابتدائی کتابیں مولانا عبد الخالق قدوسی سے پڑھیں ۔
چینیاں والی مسجد کے مدرسے میں کچھ کمزوری کے اسباب ابھرے تو حافظ عبد الحمید ازہر گوجراں والا کی جامعہ محمدیہ چلے گئے ، وہاں مولانا عبد الحمید ہزاروی سے سنن نسائی ، مولانا جمعہ خان سے نور الانوار اورمولانا بشیر الرحمن سے دیوان حماسہ وغیرہ کتابیں پڑھیں ، حافظ عبدالمنان نور پوری سے بھی استفادہ کیا ، اسی دوران ڈاکٹر فضل الہی صاحب کی قیادت میں طلباء کا ایک وفد جامعہ محمدیہ اوکاڑہ گیا ، جہاں مولانا معین الدین لکھوی کے زیر صدارت طلبا کا جلسہ منعقد ہوا ، اس وفد کے شرکاء میں حافظ عبد الحمید ازہر بھی تھے ، وہیں ان کی ملاقات حافظ عبد الرشید اظہر سے ہوئی جو جلد ہی دوستی میں بدل گئی ، ان کی ترغیب پر حافظ عبد الحمید ازہر جامعہ سلفیہ ( فیصل آباد ) چلے گئے ، وہاں انہوں نے مندر جہ ذیل اساتذہ سے مندرجہ ذیل کتابیں پڑھیں ۔
مولانا ثناء اللہ ہوشیاپوری سے سنن ابی داود ، موطا امام مالک اور حجۃ اللہ البالغۃ ۔
مولانا علی محمد سلفی سے جامع ترمذی اور دیوان متنبی ۔
حضرت حافظ عبداللہ بڈھیمالوی سے صحیح بخاری ۔
ہم سبق طلباء تھے ڈاکٹر شمس الدین نورستانی ، حافظ مسعود عالم اور بعض دیگر حضرات ۔
ڈاکٹر محمد امان الجامی اور شیخ علی مشرف العمری جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی طرف سے جامعہ سلفیہ میں بہ طور مبعوث خدمات انجام دیتے تھے ، حافظ صاحب نے ان سے بھی استفادہ کیا ۔
1972ء میں جامعہ سلفیہ کا الحاق جامعہ اسلامیہ ( مدینہ منورہ ) سے ہوا ، پہلے سال دو طالبعلموں کے داخلے کی منظوری آئی ، سالانہ امتحانات میں حافظ مسعود عالم اول اور حافظ عبد الحمید ازہر دوم آئے ، اس امتحان کے نتیجے میں ان دونوں کو جامعہ اسلامیہ میں داخل کر لیا گیا ۔
یہ مدینہ منورہ پہنچے تو شیخ عبدالعزیز بن باز ، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی ، شیخ امین شنقیطی مصنف اضواء البیان کی زیات کا موقع ملا ، وہیں مولانا عبد الغفار حسن ، شیخ حماد الانصاری ، شیخ مختار شنقیطی ، شیخ عبدالرؤف اللبدی سے استفادہ کیا ، علامہ ناصر الدین البانی جامعہ اسلامیہ کی مجلس مشاورت کے رکن کی حیثیت سے تشریف لا یا کرتےتھے ۔ شیخ جابر الجزائری تفسیر اور شیخ عبدالمحسن العباد بدایۃ المجتہد کے استاد تھے ۔
1977ء میں حافظ عبدالحمید ازہر کو لیانس ( بی اے آرنرز ) کی ڈگری شاہ فہد کے ہاتھوں ملی ، اس وقت وہ مملکت سعودیہ کے ولی عہد تھے ، بعد ازاں خادم حرمین شریفین ہوئے ۔
دراسات علیا میں حافظ صاحب ممدوح کو قسم اصول الفقہ میں داخلہ ملا ، لیکن کسی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہوسکی ۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی نصابی تعلیم مکمل کرکے واپس وطن آئے تو مبعوث کی حیثیت سے 1980ء سے 1989ء تک پہلے مدرسہ تدریس القرآن و الحدیث راولپنڈی میں اور پھر جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں تدریسی خدمات سر انجاد دیں ، اس اثنا میں ان سے جن خوش بخت حضرات نے کس علم کیا وہ ہیں داکٹر عبد الغفار بخاری ، مولانا محمد یونس عاصم مرحوم ( سابق شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ اسلام آباد ) ، مولانا محمد رفیق اختر کاشمیری ، مولانا عصمت اللہ شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ مظفر آباد ں مولانا عبدالوحید استاذ الحدیث جامعہ سلفیہ ، مسجد مکرم گوجراں والا اور بعض دیگر اصحاب علم ۔
حافظ عبد الحمید ازہر تحریر و نگارش کا بھی ذوق رکھتے ہیں اور ان کا قلم کتاب وسنت کی خدمت کے لیے ہمیشہ رواں رہتا ہے ، چنانچہ مختلف جماعتی جرائد میں ان کے رشحات قلم خوانندگان محترم کے مطالعہ میں آتے ہیں ، اور ان کے لیے اضافہ معلومات کا باعث بنتے ہیں ، مضامین کے علاوہ ’’ اہل حدیث کا تعارف ‘‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی ہے ، جس پر حضرات مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے تقریظ رقم فرمائی تھی ۔
خطابت کا ملکہ بھی اللہ تعالی نے ان کو ودیعت فرمایا ہے ، وہ جامع محمدی اہل حدیث میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
حافظ صاحب ممدوح کے ایک بھائی نام حافظ عبدالوحید ہے ، وہ جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کے سند یافتہ ہیں اور جامعہ کی طرف سے میڈلسٹ ہیں ۔
ایک بھائی علامہ محمد سعید عابد تھے جو اسلامیہ گورنمنٹ ڈگری کالج قصور کے وائس پرنسپل تھے ، افسوس ہے انھوں نے 19 مئی 2011 ء کو بعارضہ قلب اپنے مسکن قصور میں وفات پائی ، میں ان کے جنازے میں شامل تھا ۔
پنجابی کے مشہور شاعر محمد شریف انجم مصنف ’’ حرا دا چانن ‘‘ ( جو قصور میں مقیم ہیں ) حافظ عبد الحمید ازہر کے خالہ زاد بھائی ہیں ۔
دعا ہے اللہ تعالی اس گھرانے کے وفات شدگان کی مغفرت فرمائے اور زندوں کو کتاب وسنت کی خدمت کی توفیق بخشے ۔
( یہ سطور 14 اکتوبر 2013 ء کو تحریر کی گئیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا اسحاق بھٹی صاحب کی یہ تحریر ان کی کتاب
(چمنستان حدیث صفحہ نمبر 639 تا 642 ) سے لی گئی ہے ۔ 14 نومبر 2015 ء کو حافظ عبد الحمید ازہر صاحب کی وفات کے دن محدث فورم پر پیش کرنے کے لیے ٹائپ کی گئی ۔ اوپر تاریخ وفات کا اضافہ میری طرف سے ہے ، اس تحریر میں بھٹی صاحب نے ازہر صاحب کے استاد مولانا اسحاق رحمانی صاحب کے بارے میں حاشیہ میں کچھ معلومات ذکر کی ہیں ، وہ دیکھنے کے لیے اصل کتاب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔
حافظ خضرحیات ، مدینہ منورہ ، جرف الغربیہ