• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبد الحمید ازہر رحمہ اللہ ، تعارف و تاثرات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہاں حافظ عبد الحمید ازہر رحمہ اللہ کے تعارف و تاثرات پر مشتمل تحریریں ایک ہی جگہ اکٹھی کرنا مقصد ہے ،
اس کے لیے آپ فیس بک پر اہل علم حضرات کے تبصرے وغیرہ اور سیر و سوانح کی کتب سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حافظ عبد الحمید ازہر

ولادت : 10 دسمبر 1948 ء
( وفات : 14 نومبر 2015 ء )​
میانہ قد ، گندمی رنگت میں سرخی کی جھلک ، ناک نقشہ خوب صورت ، صاف گو ، علم اور حلم کا دل پذیر مجموعہ ، مزاج میں اعتدال ، اچھے خطیب اور اچھے مدرس ، طبیعت میں صالحیت اور حسنات کا غلبہ ، لمبی داڑھی ، عمدہ خصال اور خوش گفتار ، شلوار قمیص عام پہناوہ ، ہمارے اس عزیز القدر دوست کو جو حافظ عبد الحمید ازہر کے نام سے موسوم ہیں ، اللہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے ۔
والد محترم کا نام حکیم محمد فیض تھا ، اسی خاندان کے لوگ ضلع امرتسر کے موضع بھوجیاں کے علماء کرام سے متاثر تھے ، اسی لیے ان کے والد کا نام مولانا فیض محمد بھوجیانی کے نام پر رکھا گیا ۔ جد امجد کا اسم گرامی حکیم مولا بخش تھا ، ان کا تعلق ایک گاؤں ’ سر سنگھ ‘ سے تھا ، انہیں مقامی مسلمانوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ور سب لوگ ’’ میا ں جی ‘‘ کہتے تھے ، ایک بزرگ شیخ حبیب اللہ تھے ، نیک طینت اور پسندیدہ خصائل کے مالک ، انہیں کی تلقین سے حکیم مولا بخش نے مسلک اہل حدیث قبول کیا تھا ، پھر ان کی عقیدت کا مرکز غزنوی علماء کرام اور مولانا نیک محمد قرار پائے ، حکیم مولا بخش کی کوشش سے موضع سر سنگھ میں ایک خاصی بڑی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ، لیکن مسجد ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ملک کی تقسیم کا اعلان ہوگیا اور ان لوگوں کو وہاں سے نکلنا پڑا ۔
حافظ عبد الحمید کے نانا حاجی عبد الکریم تھے ، ان کا تعلق سکونت ایک گاؤں ’ نبلیئر ‘ سے تھا ، یہ گاؤں ضلع لاہور میں تھا ، وہاں سکھوں کی اکثریت تھی ، حاجی عبد الکریم اپنے خاندان کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موضع ’ پٹی ‘ میں آ بسے ، یہ خاصا بڑا قصبہ تھا اور ضلع لاہور میں واقع تھا ، اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلمانوں میں بھی اہل حدیث حضرات کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن تقسیم ملک کے نیچے اس قصبے کو ضلع لاہور کی حدود سے نکال کر ضلع امرتسر میں شامل کردیا گیا اور وہ ہندوستان کے حصے میں آیا ۔ تقسیم ملک سے پہلے حافظ عبدالحمید ازہر کے ددھیال و ننھیال عزت و احترام کی زندگی بسر کرتے تھے ، ملک تقسیم ہوا تو وہاں سے قصور آگئے اور اس شہر کے کوٹ اعظم خاں میں سکونت پذیر ہوگئے ، یہیں 10 دسمبر 1948 ء کو حافظ عبد الحمید ازہر کی ولادت ہوئی ، پاکستان کی پیدائش 14 اگست 1947ء کو ہوئی ، عیسوی تقویم کے مطابق یہ عمر کے اعتبار سے یہ پاکستان سے چار دن کم سولہ مہینے چھوٹے ہیں ، دعا ہے اللہ تعالی پاکستان کو ہمیشہ قائم رکھے اور یہ چھوٹی بڑی ہر آفت سے محفوظ رہے ،اور حافظ عبدالحمید ازہر کی زندگی صحت وعافیت کے ساتھ داراز ہو اور لوگ ان کی خطابت او رتحریری مساعی سے مستفید ہوتے رہیں ، آمین ۔
عبد الحمید ازہر کچھ بڑے ہوئے تو گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل کرادیے گئے ، سکول کی تعلیم کے دوران ہی ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کے بعد قصور کی جامع مسجد فریدیہ میں قاری نور احمد کھرل سے ( جو قاری اظہار احمد تھانوی کے شاگرد تھے ) حفظ قرآن کا آغاز کیا اور اللہ نے ان کو حفظ و تجوید کی نعمت عظمی سے نوازا ۔
1965ء میں میڑک پاس کیا ، انہی دنوں مولانا محمد اسحاق گوہڑوی رحمانی اپنے دوست شیخ عبد الکریم کی تعزیت کے لیے ( جو ایک حادثے میں وفات پاگئے تھے ) قصور تشریف لائے ، حافظ عبد الحمید ازہر کے دادا او رنانا انھیں مولانا موصوف کے پاس لے گئے اور آئندہ تعلیم کے لیے رائے طلب کی ، اس رائے کے نتیجے میں جولائی 1965 ء میں عبد الحمید ازہر کو ان کے ماموں مولانا عبد العظیم انصاری اپنے ساتھ چینیاں والی مسجد ( لاہور ) لے آئے اور وہاں کے دار الحدیث میں داخل کرادیے گئے ۔
جب چینیاں والی مسجد میں عبدالحمید ازہر کی تعلیم کا آغاز ہوا ، اس وقت مولانا محمد اسحاق رحمانی وہاں صدر مدرس تھے او رمولانا عبدالعزیز نائب مدرس اور ہم سبق طلباء میں مولانا محمود احمد بن حافظ عبد الغفور ( مریدکے ) اور مولانا محمد عثمان ( حال مدرس جامعہ اہل حدیث لاہور ) شامل تھے ۔
اس سے اگلے سال بطور نائب مدرس وہاں مولانا عبد الخالق قدوسی شہید کا تقرر ہوا ، صرف و نحو کی کتابیں ، ترجمہ قرآن اور بلوغ المرام مولانا محمد اسحاق رحمانی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ، مشکوۃ شریف اورعربی ادب کی ابتدائی کتابیں مولانا عبد الخالق قدوسی سے پڑھیں ۔
چینیاں والی مسجد کے مدرسے میں کچھ کمزوری کے اسباب ابھرے تو حافظ عبد الحمید ازہر گوجراں والا کی جامعہ محمدیہ چلے گئے ، وہاں مولانا عبد الحمید ہزاروی سے سنن نسائی ، مولانا جمعہ خان سے نور الانوار اورمولانا بشیر الرحمن سے دیوان حماسہ وغیرہ کتابیں پڑھیں ، حافظ عبدالمنان نور پوری سے بھی استفادہ کیا ، اسی دوران ڈاکٹر فضل الہی صاحب کی قیادت میں طلباء کا ایک وفد جامعہ محمدیہ اوکاڑہ گیا ، جہاں مولانا معین الدین لکھوی کے زیر صدارت طلبا کا جلسہ منعقد ہوا ، اس وفد کے شرکاء میں حافظ عبد الحمید ازہر بھی تھے ، وہیں ان کی ملاقات حافظ عبد الرشید اظہر سے ہوئی جو جلد ہی دوستی میں بدل گئی ، ان کی ترغیب پر حافظ عبد الحمید ازہر جامعہ سلفیہ ( فیصل آباد ) چلے گئے ، وہاں انہوں نے مندر جہ ذیل اساتذہ سے مندرجہ ذیل کتابیں پڑھیں ۔
مولانا ثناء اللہ ہوشیاپوری سے سنن ابی داود ، موطا امام مالک اور حجۃ اللہ البالغۃ ۔
مولانا علی محمد سلفی سے جامع ترمذی اور دیوان متنبی ۔
حضرت حافظ عبداللہ بڈھیمالوی سے صحیح بخاری ۔
ہم سبق طلباء تھے ڈاکٹر شمس الدین نورستانی ، حافظ مسعود عالم اور بعض دیگر حضرات ۔
ڈاکٹر محمد امان الجامی اور شیخ علی مشرف العمری جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی طرف سے جامعہ سلفیہ میں بہ طور مبعوث خدمات انجام دیتے تھے ، حافظ صاحب نے ان سے بھی استفادہ کیا ۔
1972ء میں جامعہ سلفیہ کا الحاق جامعہ اسلامیہ ( مدینہ منورہ ) سے ہوا ، پہلے سال دو طالبعلموں کے داخلے کی منظوری آئی ، سالانہ امتحانات میں حافظ مسعود عالم اول اور حافظ عبد الحمید ازہر دوم آئے ، اس امتحان کے نتیجے میں ان دونوں کو جامعہ اسلامیہ میں داخل کر لیا گیا ۔
یہ مدینہ منورہ پہنچے تو شیخ عبدالعزیز بن باز ، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی ، شیخ امین شنقیطی مصنف اضواء البیان کی زیات کا موقع ملا ، وہیں مولانا عبد الغفار حسن ، شیخ حماد الانصاری ، شیخ مختار شنقیطی ، شیخ عبدالرؤف اللبدی سے استفادہ کیا ، علامہ ناصر الدین البانی جامعہ اسلامیہ کی مجلس مشاورت کے رکن کی حیثیت سے تشریف لا یا کرتےتھے ۔ شیخ جابر الجزائری تفسیر اور شیخ عبدالمحسن العباد بدایۃ المجتہد کے استاد تھے ۔
1977ء میں حافظ عبدالحمید ازہر کو لیانس ( بی اے آرنرز ) کی ڈگری شاہ فہد کے ہاتھوں ملی ، اس وقت وہ مملکت سعودیہ کے ولی عہد تھے ، بعد ازاں خادم حرمین شریفین ہوئے ۔
دراسات علیا میں حافظ صاحب ممدوح کو قسم اصول الفقہ میں داخلہ ملا ، لیکن کسی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہوسکی ۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی نصابی تعلیم مکمل کرکے واپس وطن آئے تو مبعوث کی حیثیت سے 1980ء سے 1989ء تک پہلے مدرسہ تدریس القرآن و الحدیث راولپنڈی میں اور پھر جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں تدریسی خدمات سر انجاد دیں ، اس اثنا میں ان سے جن خوش بخت حضرات نے کس علم کیا وہ ہیں داکٹر عبد الغفار بخاری ، مولانا محمد یونس عاصم مرحوم ( سابق شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ اسلام آباد ) ، مولانا محمد رفیق اختر کاشمیری ، مولانا عصمت اللہ شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ مظفر آباد ں مولانا عبدالوحید استاذ الحدیث جامعہ سلفیہ ، مسجد مکرم گوجراں والا اور بعض دیگر اصحاب علم ۔
حافظ عبد الحمید ازہر تحریر و نگارش کا بھی ذوق رکھتے ہیں اور ان کا قلم کتاب وسنت کی خدمت کے لیے ہمیشہ رواں رہتا ہے ، چنانچہ مختلف جماعتی جرائد میں ان کے رشحات قلم خوانندگان محترم کے مطالعہ میں آتے ہیں ، اور ان کے لیے اضافہ معلومات کا باعث بنتے ہیں ، مضامین کے علاوہ ’’ اہل حدیث کا تعارف ‘‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی ہے ، جس پر حضرات مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے تقریظ رقم فرمائی تھی ۔
خطابت کا ملکہ بھی اللہ تعالی نے ان کو ودیعت فرمایا ہے ، وہ جامع محمدی اہل حدیث میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
حافظ صاحب ممدوح کے ایک بھائی نام حافظ عبدالوحید ہے ، وہ جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کے سند یافتہ ہیں اور جامعہ کی طرف سے میڈلسٹ ہیں ۔
ایک بھائی علامہ محمد سعید عابد تھے جو اسلامیہ گورنمنٹ ڈگری کالج قصور کے وائس پرنسپل تھے ، افسوس ہے انھوں نے 19 مئی 2011 ء کو بعارضہ قلب اپنے مسکن قصور میں وفات پائی ، میں ان کے جنازے میں شامل تھا ۔
پنجابی کے مشہور شاعر محمد شریف انجم مصنف ’’ حرا دا چانن ‘‘ ( جو قصور میں مقیم ہیں ) حافظ عبد الحمید ازہر کے خالہ زاد بھائی ہیں ۔
دعا ہے اللہ تعالی اس گھرانے کے وفات شدگان کی مغفرت فرمائے اور زندوں کو کتاب وسنت کی خدمت کی توفیق بخشے ۔
( یہ سطور 14 اکتوبر 2013 ء کو تحریر کی گئیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا اسحاق بھٹی صاحب کی یہ تحریر ان کی کتاب (چمنستان حدیث صفحہ نمبر 639 تا 642 ) سے لی گئی ہے ۔ 14 نومبر 2015 ء کو حافظ عبد الحمید ازہر صاحب کی وفات کے دن محدث فورم پر پیش کرنے کے لیے ٹائپ کی گئی ۔ اوپر تاریخ وفات کا اضافہ میری طرف سے ہے ، اس تحریر میں بھٹی صاحب نے ازہر صاحب کے استاد مولانا اسحاق رحمانی صاحب کے بارے میں حاشیہ میں کچھ معلومات ذکر کی ہیں ، وہ دیکھنے کے لیے اصل کتاب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔
حافظ خضرحیات ، مدینہ منورہ ، جرف الغربیہ​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ عبدالحمید ازہر رحمہ اللہ کی تصانیف

تحریر : سید کلیم حسین شاہ
بطور مدرس جامعہ تدریس القرآن والحدیث راولپنڈی (موجودہ جامعہ سلفیہ اسلام آباد) ان کے حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے میں اور میرے ایک دوست (زین عرفان) 2010،11 میں شیخ عبدالحمید ازہر صاحب کے پاس گئے تھے تو اس وقت انہوں نے اپنی درج ذیل تصانیف کے متعلق بتایا تھا.
اور آپ کی ساری تدریسی زندگی کچھ تعطل کے ساتھ ایک ہی ادارے میں گزری (1980 تا 1989).
بعدازاں 2013 تا وفات، بطور شیخ الحدیث. بلکہ 2013 میں جامعہ سلفیہ میں جب شعبہ تخصص قائم کیا گیا تو آپ ہی اس کے رئیس مقرر کیے گئے.
چند ماہ قبل اگست 2015 میں جامعہ میں ایک علمی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں آپ مہمان خصوصی تھے. انتہائی کمزوری کے باوجود آپ نے مکمل پروگرام اٹینڈ کیا. آخر میں کچھ لطائف بھی سنائے. سامعین سے فرمانے لگے کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا کہ میں اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہوں.
تصانیف:
1.تعارف اہلحدیث
2.حضور نماز
3.بشر الصابرین
4.ثواب و عذاب قبر
بقول حافظ صاحب اسی نام سے انہوں نے ایک ضخیم کتاب بھی لکھ رکھی ہے جو لگ بھگ 500 صفحات پر مشتمل ہے.
5.مختصر صحیح بخاری: از علامہ البانی (ترجمہ و فوائد) ہمارے ایک دوست نے کمپوز کی ہے.
6.احباب دیوبند کی کرم فرمائیاں اہلحدیث پر: از علامہ احسان الہی ظہیر شہید کا مقدمہ لکھا جو اصل رسالے سے تین گنا بڑا ہے (80 صفحات پر مشتمل)
7.پیغام حرم: شیخ محمد سلطان معصومی کی کتاب "هدية السطان إلى مسلمي يابان" کا ترجمہ جو اپنے ایک شاگرد مولانا رفیق اختر کاشمیری سے کروایا. خود نظرثانی کی اور 60 صفحات کا مقدمہ لکھا.
8.مختصر ترغیب و ترھیب: ترجمہ خالد سیف صاحب کی نظرثانی ومقدمہ
9.اعجاز حدیث (غیر مطبوع)
اسی موضوع پر پیغام ٹی وی میں پروگرام بھی ریکارڈ کروائے
10.فن نقد حدیث اور مولانا اصلاحی کے اندیشہ ہائے دور دراز (6 اقساط. ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 1983،84)
11.تحقیق حدیث کے لئے قیاسی کسوٹیاں (جاوید غامدی کی تردید میں. 5 اقساط،الاعتصام لاہور 90ء کی دہائی میں)
12.حج وعمرہ کے احکام (پاکٹ سائز کتابچہ)
اس کے علاوہ جامعہ میں تدریس کے دوران ایک سہ ماہی رسالہ نوائے شبان جاری کیا جو بعدازاں الآثار کے نام سے ماہانہ ہوگیا لیکن شاید 3 سال ہی چلا. کیونکہ آپ کے معاون مولانا ادریس سلفی (مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد) کا یہاں سے تبادلہ ہوگیا تھا.
اس رسالے میں حافظ صاحب کا اداریہ، درس قرآن اور دیگر مضامین شائع ہوتے تھے. بلکہ اس کے بعض شمارے ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ نے مرتب کیے. ان کی بھی چند تحریریں اس رسالے کی زینت ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
نئی بات کے کالم نگار اور پیغام ٹی وی کے اینکر پرسن حافظ یوسف سراج کے تاثرات :
ڈھونڈو گے گر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم​
نفیس، نستعلیق ،علم عمیق اور لہجہ شفیق. علم و حکمت کے جویا اور شعر و ادب کے شناور..اللہم ارحم
چند دن پہلے یہ چند الفاظ تھے جو شیخ الحدیث والتفسير عبدالحمید ازہر رحمہ اللہ کے بارے ایک پوسٹ پر لکھے. تب وہ حیات تھے اور آہ اب خلد آشیانی ہو چکے.. شیخ کی یہ تصویر پیغام ٹی وی کی پہلی سالانہ تقریب ایوارڈز کے موقع کی ہے.(پس منظر میں ناچیز کا بھی عکس ہے) خاکسار نے یہ تصویر اپنی فیس بک وال پر اپلوڈ کی اور ہنستے ہوئے شیخ سے کہا اسے آپ اپنی پروفائل پکچر بنا لیجیے. .ہنس دئیے اور دائم متبسم رہنا ان کی فطرت ثانیہ تھی .. اتنا ہنسنے والے اپنے محبوں کو کتنا رلا جاتے ہیں یہ اب جانا ہے. ابھی کل ہی ان کے پاس سے اٹھ کے آئے تھے کہ آج وہ دنیا سے اٹھ گئے.. اللہ رحم فرمائے .. وہ محدث تھے اور مفکر بھی.. آپ ادیب تھے اور خطیب بھی . آپ مترجم تھے اور مفسر بھی . مصنف بھی تھے اور مفتی بھی . ریڈیو پہ بولا اور پیغام ٹی وی پر تو نوازشات فکر و فن کے دریا بہا دئیے .. ان شاءالله آپ کی شبنمی یادوں پر الگ سے لکھوں گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شرافت، حمیت کا پیکر تھا وہ
مروت کا گویا سمندر تھا وہ
ہائے افسوس نظروں سے اوجھل ہوا
ہر نظر ڈھونڈی ہے کہاں کھو گیا
بے کرانی بہت اس کی مشہور تھی
آگہی ریشے میں مستور تھی
ہم کہاں تک گنائیں سبھی خوبیاں
وہ تو افکار و کردار سے تھی عیاں​
مآخذ :فیس بک​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
معروف عالم دین حضرت العلام حافظ عبد الحمید ازھر رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شرکت کا اللہ تعالی نے موقع دیا۔ مسلم گراؤنڈ راولپنڈی میں شیخ محترم سے محبت کرنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اپنے ہر دلعزیز استاذ، مربی، محسن اور خطیب سے اپنی والہانہ محبت وعقیدت کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوے تھے ۔ ساڑھے تین سو سے چار سو کے لگ بھگ افراد ایک صف میں تھے اور ایسی ہی 25 سے 30 صفوں پر مشتمل افراد کا جم غفیر شیخ مکرم کی نماز جنازہ میں شامل تھا۔ حافظ صاحب کے دیرینہ ساتھی اور کلاس فیلو ، ہمارے استاذ گرامی حضرت العلام بقیۃ السلف حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ نے نماز جنازہ کی امامت کرائی۔ نماز جنازہ میں عوام الناس کے علاوہ علماء کرام، شیوخ الحدیث اور پاکستان بھر کے بے شمار نامور اساتذۂ کرام نے شرکت کی۔ جنازے کے رقت انگیز مناظر دیکھنے اور شیخ مکرم کے لیے کی جانے والی دعائیں سننے کے بعد دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش یہ جنازہ میرا ہوتا!!
اللہ کرے کہ ہر مسلمان کا خاتمہ بالخیر ہو ۔ اللہ تعالی شیخ ازھر رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔
محمد ہاشم یزمانی ، فاضل جامعہ اسلامیہ ، اینکر پرسن و ریسرچ اسکالر پیغام ٹی وی
یزمانی صاحب کے بقول جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد تقریبا دس ہزار کے لگ بھگ تھی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مؤرخ اہل حدیث اسحاق بھٹی صاحب حافظ عبد الحمید ازہر صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں :
میانہ قد ، گندمی رنگت میں سرخی کی جھلک ، ناک نقشہ خوب صورت ، صاف گو ، علم اور حلم کا دل پذیر مجموعہ ، مزاج میں اعتدال ، اچھے خطیب اور اچھے مدرس ، طبیعت میں صالحیت اور حسنات کا غلبہ ، لمبی داڑھی ، عمدہ خصال اور خوش گفتار ، شلوار قمیص عام پہناوہ ، ہمارے اس عزیز القدر دوست کو جو حافظ عبد الحمید ازہر کے نام سے موسوم ہیں ، اللہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے ۔ ( چمنستان حدیث صفحہ 639 )
اس عبارت کی تعریب کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یقول مؤرخ أہل الحدیث إسحاق البهتي حفظه الله عن الشيخ عبد الحميد الأزهر :
متوسط القامة ، أسمر اللون مع شيء من الحمرة ، حسن الوجه ، صريح اللهجة ، جامع بين العلم والحلم ، معتدل المزاج ، الخطيب البارع و المدرس الحاذق ، محب للخير و الصلاح ، طويل اللحية ، حسن الخصال و جميل المقال ، يلبس عموما القميص و السروال ، هذا هو صديقنا العزيز المسمى ب حافظ عبد الحميد الازهر ، الذي رزقه الله جملة وافرة من الخصال الحميدة ۔ ( چمنستان حدیث ص 639 )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ عبد الحمید ازہر رحمہ اللہ کی وفات پر آپ کے دوست معروف عرب عالم دین دکتور عاصم القریوتی کے تاثرات :
إنا لله وإنا إليه راجعون
توفي صديقنا الحبيب وزميلنا الوفي فضيلة الشيخ المحدث عبدالحميد أزهر من كبار علماء أهل الحديث بباكستان، الذي عرفته وأحببته ابتداء من المصاحبة في دراستنا في كلية الشريعة بالمدينة بالجامعة الإسلامية منذ عام 1393-1397هـ .
وجاورته بالسكن أول قدومي للمدينة مع أخينا الحبيب الأديب فضيلة الشيخ مسعود عالم - حفظه الله - وتتابع التواصل بيننا بعد ذلك مرات وكرات ومن آخرها زيارتي له في المكتبة العلمية العامرة في روالبندي التي أنشأها لطلبة العلم وسبقها اشتراكي معه في حلقات بلغة الأردو في قناة بيغام الفضائية تولى فضيلته مشكورا مأجورا الترجمة فيها في لاهور.
وكان رحمه الله حافظا لكتاب الله عابدا صالحا قواما صواما زاهدا يتحلى بمعالي الاخلاق وأدب الخلاف ولا أزكي على الله أحدا.
وكان محبا للعلم وطلابه باحثا نقادا وكانت له بعض الاستدراكات والمرئيات على بعض الأحاديث لشيخنا الألباني رحمه الله وكنت أرسلتها لشيحنا الألباني رحمه الله.
فاللهم ارحمه وأدحله جنتك وتقبل ما بذله.
وعزائي لأهله وذويه ولأهل الحديث ولطلابه بوفاته، وإنا لله وإنا إليه راجعون.

ترجمانی بشکریہ محمد ہاشم یزمانی :
’’ ہمارے بہت ہی محبوب دوست اور ہم درس شیخ اور محدث عبد الحمید ازھر صاحب کی وفات کی خبر ملی ہے۔ پاکستان کے علماء اہل حدیث میں ان کا بڑا نام تھا۔ 1393 سے 1397 ہجری ( 1972 سے 1976 ) تک ہم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے کلیہ شریعہ میں ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ جان پہچان کے پہلے دن سے ہی ہم میں گہری دوستی اور محبت ہو گئی۔ مدینہ منورہ میں میری آمد کے پہلے دن سے ہی میں، ہمارے بہت ہی پیارے دوست فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم صاحب اور شیخ ازھر رحمہ اللہ کی رہائش ایک ساتھ تھی ۔ مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد بھی ہمارے رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ میری حافظ ازھر صاحب سے آخری ملاقات راولپنڈی میں ہوئی جب شیخ محترم کتابوں سے بھرپور اپنے مکتبہ میں تشریف فرما تھے۔ یہ مکتبہ انہوں نے علوم اسلامیہ کے طلبہ کے لیے قائم کیا تھا۔ اس سے پہلے پیغام ٹی وی لاہور کے آفس میں اردو شعبہ کے لیے ریکارڈنگ کے دوران بھی ہم کئی نشستوں میں ایک ساتھ شرکت کر چکے تھے۔ اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے کہ شیخ محترم نے میرے دروس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ شیخ محترم قرآن مجید کے متقن حافظ، عبادت گزار، صالح اور صوم وصلاۃ کے بڑے ہی پابند تھے۔ بڑی ہی درویشانہ اور سادہ طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی عمدہ اور بلند اخلاق کے حامل تھے۔ علم اور اہل علم سے انہیں خاص لگاؤ اور محبت تھی۔ دینی علوم پر ان کی گہری نظر تھی۔ بڑا ہی عمدہ نقد کرنے کی صلاحیت بھی شیخ محترم میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔ معروف محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی بعض تحقیقات پر ان کے استدراکات اور کچھ علمی تعاقب ہیں، جو میں نے اپنے شیخ البانی رحمہ اللہ کو بھی ارسال کر دیے تھے۔ اے اللہ کریم! ان پر رحم فرما، انہیں جنت میں داخلہ نصیب فرما اور ان کی جہود کو قبول فرما!! شیخ کی وفات پر میں ان کے اہل وعیال، جماعت اہل حدیث کے تمام افراد اور ان کے تلامذہ کے غم میں برابر کا شریک ہوں ۔ اور یہی کہتا ہوں کہ: إنا للہ وإنا إلیہ راجعون !! ‘‘
 
Top