• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب کی یاداشتیں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
حضرت حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ و متعنا بطول حیاتہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے والد گرامی مدنی صاحب کے ساتھ ایک نشست کا تذکرہ کیا ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے متعدد پیغامات واٹس ایپ مجموعہ مجلس التحقیق الاسلامی میں بھیجے تھے ، بطور ریکارڈ یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مولانا عبد الغفار روپڑی اور مولانا عبد الوہاب روپڑی حفظہما اللہ کی والدہ محترمہ کی وفات کی تعزیت کے لئے والد گرامی دو روز قبل برادر عزیز حافظ حمزہ مدنی اور راقم کے ساتھ مسجد قدس لاہور میں تشریف لے گئے، اس موقع پر تین گھنٹے کی نشست میں روپڑی علما کے حوالے سے بہت سی یاد گار باتیں ہوئیں۔ والد گرامی نے بتایا کہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی بڑی عمر کے باعث جنات نکالنے کے لئے ان کو بھی بلا لیا کرتے، آخری عمر میں جب والد گرامی کو بلایا تو پہلے محدث روپڑی نے ان پر دعا پڑھی پھر کہا کہ مریض کی دونوں ٹانگیں یا بازو اکٹھے نہ ہونے دینا، وگرنہ جن مار پڑنے پر نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ نکتہ جان کر حافظ عبد الوہاب روپڑی بھی بڑے متعجب ہوئے۔ سو والد گرامی بتاتے ہیں کہ حافظ محدث روپڑی نے مریض کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور میرا فرض اس کو پیٹنا تھا، جو میں نے خوب نبھایا۔ والد محترم نے ایک اور واقعہ یہ بتایا کہ مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر جان پر محدث روپڑی اس قدر غمگین ہوئے کہ گھنٹوں سر نہ اٹھایا، وہ ان کی خدمات کے بہت قدر دان تھے۔ اسی سال مسجد قدس سے وہ اولین تین طلبہ مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب میں تعلیم حاصل کرنے گئے، جن میں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبد السلام کیلانی اور والد گرامی شامل تھے، مدینہ منورہ میں اس وقت لالٹین اور چراغوں کا وقت تھا۔ اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ابن باز اور شیخ عبد المحسن عباد مدیر التعلیم تھے۔ ان طلبہ کی روانگی کے موقع پر مسجد قدس میں اس وقت کے ممتاز علما کو جمع کیا گیا جن میں محدث گوندلوی، سید مودودی اور دیگر نامور شخصیات شامل تھیں۔ اس موقع پر محدث گوندلوی رحمہ اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ محدث روپڑی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر علم کی تعلیم اس علم کے امام سے حاصل کی ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ 1932 میں مولانا شریف گھڑیالوی کی قیادت میں پنجاب میں ’تنظیم اہل حدیث‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا دفتر گوجرانوالہ میں قائم ہوا تھا، اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اس دفتر کے ناظم اور اس تنظیم کے رسالے تنظیم اہل حدیث کے مدیر ہوئے۔ یہ تنظیم اہل حدیث سراسر شرعی امارت کے نظام پر قائم تھی، اور اس کے اراکین میں مولانا سید داود غزنوی اور مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہم اللہ شامل تھے۔ یہ چیز ان دونوں بزرگوں کی شرعی نظام امارت سے گہری وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ ان کے عم زاد حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ ان سے پچیس سال بڑے تھے، اور انہوں نے ان کی معیت ورہنمائی میں لمبا عرصہ کام کیا۔ شریعت بل کے معاملے پر 1986ء میں حاقظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے مابین مناظرہ طے پایا۔ جس میں جب حضرت علامہ صاحب نے شرکت سے معذرت کرلی تو مولانا روپڑی نے والد محترم کو اس مناظرہ میں اپنی نیابت کے لئے سیالکوٹ بھیجا، جہاں پروفیسر مطیع الرحمن صاحب کی مسجد میں شریعت بل پر یہ مناظرہ والد گرامی اور پروفیسر ساجد میر حفظہم اللہ کے درمیان ہوا۔ اس موقع پر والد گرامی کے ساتھیوں میں ان کے ہمراہی پروفیسر حافظ محمد سعید، پروفیسر ظفر اقبال، حاقظ عبد الوہاب روپڑی اور مولانا خالد سیف شہید وغیرہ شامل تھے۔ اس مباحثے میں 5 6 نکات پر پروفیسر ساجد میر صاحب کامیاب وضاحت نہ کرسکے۔ پھر ان نکات کی تفصیل بھی انہوں نے بیان کی۔(1)
انہوں نے بیان کیا کہ روپڑی خاندان کا آغاز ان کے دادا مولانا روشن دین رحمہ اللہ سے ہوتا ہے چو گوجرانوالہ کے قریب ایمن آباد کے رہائشی تھے، لیکن شاہ اسمعیل کی تحریک مجاہدین سے تعلق کے بعد بچتے بچاتے امرتسر اور روپڑ کو ہجرت کرگئے۔ مولانا روشن دین لکھوی خاندان (غالبا مولانا محمد لکھوی رحمہ اللہ) کے شاگرد تھے۔ پھر مولانا روشن دین کے بیٹے حافظ عبد اللہ روپڑی نے اپنے خاندان میں اس مقدس فرض کو نبھایا اور اپنے بھائی، بھتیجوں کے ہمراہ اس کو پورے خاندان کی روح بنا دیا۔ حافظ محدث روپڑی نے مولانا عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ بتاتے ہیں کہ مسجد قدس میں جمعہ کی ذمہ داری یوں ہوتی کہ حافظ اسمعیل روپڑی، حافظ عبد القادر روپڑی، ان کے والد گرامی حافظ محمد حسین روپڑی، اور پھر سب کی غیر موجودگی میں خود محدث روپڑی... اب اپنے سب عزیزوں کو مناظروں اور مباحثوں میں دلائل فراہم کرتے اور ان کی سرپرستی کیا کرتے۔
یہ بات میں والد محترم سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں، تاہم 1932 سے 1944 تک کی تنظیم اہل حدیث کی فائلیں راقم کے پاس محفوظ ہیں جنہیں حافظ محدث روپڑی خود ترتیب دیا کرتے ، ان کی اکثر تحریریں اسی دور میں چپھیں۔ اس کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اہل حدیث میں سعودی شاہی خاندان سے سب سے قریبی تعلق غزنوی خاندان کے مولانا محمد اسمعیل غزنوی کا تھا، جنہوں نے 1927 میں غلاف کعبہ بنا کر براستہ بمبئی مکہ مکرمہ بھیجا۔ والد محترم نے بتایا کہ مولانا غزنوی کی بہن ملک عبد العزیز کے نکاح میں آئیں، جن سے دو سعودی شہزادے بھی تولد ہوئے۔ مولانا غزنوی چونکہ مولانا روپڑی کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے، وہاں سے یہ تعلقات حاقظ عبد اللہ محدث روپڑی کو ملے۔ حاقظ عبد اللہ روپڑی تصوف کے شدید ناقد تھے، تاہم بیعت کرلیا کرتے۔ جس پر ان کے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی ان سے شکوہ کناں رہتے تو کہا کرتے کہ میں اس بنا پر بیعت کرتا ہوں کہ یہ کسی اور کی جا کر بیعت کریں گے، اس لئے مجبوری کی بنا پر کرتا ہوں۔ یہی صورت حال تعویذ کی تھی، جس پر بھی ان کے بھائی محمد حسین متفق نہ تھے۔
حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے چھوٹے بھائی جو عالم دین تھے، ان کا نام حافظ عبد الرحمن روپڑی تھا۔ انہوں نے ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں 1947 میں مسجد بنائی اور آج بہی انہی کا خاندان (پوتا جواد) اس مسجد کا متولی ہے۔ دوسرے میرے والد محترم حافظ عبد الرحمن ہیں، جو پہلے امرتسری، پھر روپڑی پھر مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم کی بنا پر مدنی کہلاتے ہیں۔ والد محترم ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی (شیخ الحدیث مدرسہ تقویہ الاسلام) کے بیٹے ہیں۔
اپ آپ دلچسپی لیتے ہیں(2)، تو زیر بحث مسائل بھی عرض کرتا ہوں: ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ اصول فقہ کی تعلیم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس پر والد گرامی نے کہا کہ اس پر پہلی کتاب امام شافعی کی ہے، پھر ابن حزم کی، پھر مجد بن تیمیہ کی المسودہ، پھر نواب صدیق حسن خاں کی، پھر شاہ اسمعیل شہید کی، پھر مولانا ثناء اللہ امرتسری کی۔ اور حرمت علیکم أمهاتكم ہو یا ربائبکم التی ، ان دونوں کے شرعی مفہوم کو اصول فقہ میں دلالت کے قواعد کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ شریعت بل میں جس شق پر پروفیسر ساجد میر صاحب کا اختلاف تھا، اس کو ان کے قریبی عزیز مولنا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کے دستخط سے پہلے ہی علما کے 22 نکات میں شامل کیا جاچکا تھا۔ والد گرامی نے کہا کہ وہ شق جب وہاں مولانا سیالکوٹی کو منظور ہے تو یہاں درست کیوں نہیں۔ ( والد گرامی نے بتایا کہ درحقیقت علما کے 22 نکات میں مولانا سیالکوٹی کا نام غلط طور پر ہفت روزہ الاسلام لاہور میں شائع کیا گیا تھا، جبکہ درحقیقت وہ دستخط کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ تاہم جب الاسلام میں موجود تھا، تو اس سے پروفیسر ساجد میر صاحب کیسے گریز کرتے۔ )
جب یہ اور ایسے سوالات کے جوابات پروفیسر صاحب نے بن نہ پڑے تو ان کے سپورٹرز کہنے لگے کہ مسئلہ دلائل کا نہیں، مدارس کے مستند علم کا ہے۔(3)
والد گرامی نے مسجد قدس لاہور کی اس مجلس میں اپنے والد حافظ محمد حسین روپڑی کی اس مسجد کی تعمیر میں عظیم خدمات کا تذکرہ کیا۔ کہنے لگے کہ اس مسجد قدس کا آغاز 1949 میں، اور اس مدرسہ اہل حدیث کا آغاز 1954ء میں ہوا۔ روپڑی ثنائی نزاع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے کے گجر برادری نے اپنا دوسرا اہل حدیث امام کھڑا کردیا اور محدث روپڑی پر تاخیر سے نماز کے لئے آنے کا الزام عائد کیا۔ جس پر حافظ محمد حسین روپڑی کہنے لگے کہ امامت ہم ہی کریں کے، اور میں اس فرض کو بروقت نبھاؤں گا، اگر کسی کو ہمت ہے تو امامت کرکے دکھائے۔ اس موقع پر 1949ء میں ہونے والی شدید لڑائی میں گجر برادری نے دادا مرحوم کے سر میں کلہاڑی مار کران کو بے پناہ زخمی کیا، مقدمہ کے انتظار کی بنا پر ان کا بے پناہ خون بہا، اور یہی خون کا ضیاع ان کی موت پر منتج ہوا۔ پھر ان کی صحت سنبھل نہ سکی۔
روپڑ میں قائم اہل حدیث مسجد کے لئے بھی محدث روپڑی نے دادا محترم کی ذمہ داری لگائی اور اس مسجد کو انہوں نے بریلوی قابضین سے چھڑایا۔ کیونکہ دادا جان ایک مستند عالم اور اصول وقواعد کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ جسمانی طاقت کے مالک تھے، جس کے بہت سے قصے خاندان میں معروف ہیں۔ جب حافظ عبد الغفار روپڑی اور حافظ عبد الوہاب روپڑی کے والد بھویا آصل میں چلے گئے تو وہاں اپنی زمینوں کے حصول کے لئے علاقائیی میو برادری سے دادا جان نے ہی انہیں قبضہ حاصل کرکے دیا۔
روپڑی علما، اپنے بزرگ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی قیادت میں ایسے متفق ومتحد تھے کہ ان کے علم وفضل اور جلالت شان کے آگے سب بچھ بچھ جاتے۔ والد گرامی نے بتایا کہ محدث روپڑی اپنے جسم اور قد میں چھوٹے تھے، (اور امام بخاری کا قد اور جسامت بھی بڑی نہ تھی) لیکن ان کے علم وفضل کی کوئی انتہا نہ تھی۔ جب موجود ہوتے تو خود ہی نماز پڑھاتے۔ آخری ایام میں والد محترم ان کو اٹھا لایا کرتے(4) اور ان کے جوتے اتارنے میں پہل کرتے۔ ایک بار غلطی سے دایاں جوتا پہلے اتار دیا تو محدث روپڑی منہ سے نہ بولے لیکن بار بار بائیں پاؤں کو آگے کرتے۔ آخرکار والد گرامی کو اپنی ترتیب درست کرنا پڑی۔ کہتے ہیں کہ محدث روپڑی کے اس اصرار نے ہمیشہ اتباع سنت میں ان کی بہت اصلاح کی۔
والد گرامی نے بتایا کہ شیخ الاسلام مولانا امرتسری اور مولانا محدث روپڑی رحمہم اللہ کے مابین بہت سے مسائل میں علمی مباحثے ہوئے تھے، جن کا آغاز دراصل مولانا محمد حسین بٹالوی رح سے ہوا تھا۔ امارات والے مولانا عبد الرؤف کے دادا مولانا اشرف سندھو مسجد قدس میں ہی رہا کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیت اللہ الحرام میں ایک بار محدث روپڑی کو دیکھا کہ مولانا امرتسری کے لئے دعائیں اور زارو قطار التجائیں کر رہے ہیں، تو مولانا سندھو حیران ہو اٹھے کہ آپ نے تو بہت سا وقت ان سے مباحثوں میں گزارا تو پھر یہ کیسے؟ فرمانے لگے: کہ میں انہیں عظیم دینی خدمات انجام دینے والا اپنا مسلمان بھائی سمجھتا ہوں اور وہ میری بہترین دعاؤں کے مستحق ہیں۔ یہ تھے ہمارے اسلاف جو اخلاص کا پیکر تھے۔
محدث روپڑی کی اوائل عمری میں لکھی کتاب ’درایتِ تفسیری‘ کو ہمارے دادا جان بطور نصیحت اپنی اولاد کو کہہ گئے کہ اس کو اپنے اوپر لازم کرلینا۔ ہمارے والد گرامی نے مجھے اور برادر عزیز حافظ حمزہ مدنی کو بارہا کہا کہ اس کتاب کو یوں ترتیب دو کہ اس سے ثنائی روپڑی نزاع نکل جائے اور صرف علمی مسائل ہی باقی رہ جائیں۔ برادر عزیز نے بارہا یہ کتاب سبقا سبقا پڑھائی، ان شاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب والد گرامی کی اس مبارک خواہش کو پورا کرنے کی اللہ کریم ہم بھائیوں کو توفیق دے گا۔
تین روز پہلے کی مجلس میں والد گرامی نے حنفیہ سے فاتحہ خلف الامام پر ایک بڑے مناظرہ کا حال بھی سنایا جو جامعہ اشرفیہ کے نامور شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی کی زیر صدارت ہوا۔ اس میں سب روپڑی علما اکٹھے تھے۔ حنفیہ کہنے لگے کہ مولانا عبد القادر روپڑی ہم سے مناظرہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس مولوی فاضل کی سند نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر دادا جان حافظ محمد حسین آگے بڑھے۔ حنفیہ نے مرکزی شرط یہ رکھی کہ صحاح ستہ سے ہی استدلال ہوگا۔ دادا جان مرحوم بولے: صحاح ستہ سے نہیں بلکہ صرف بخاری شریف سے۔ دادا جان اصول وقواعد کے بہت پختہ عالم تھے اور کڑی گرفت کرتے تھے۔ انہوں نے لا صلاۃ سے یہ ثابت کیا نماز کی کوئی جنس ہی معتبر نہیں، فاتحہ کے بغیر اور اس نکتہ سے حنفیہ کو گھنٹوں آگے نہ جانے دیا اور جواب کا مطالبہ بھی صحیح بخاری سے ہی کیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ حنفیہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا، آخر نماز عصر کا وقت ہوگیا تو روپڑی علما نماز کو کھڑے ہوئے پیچھے حنفیہ نے تانگہ منگوا کر کتابیں رکھیں اور اس پر اپنی راہ لی۔
دادا جان حافظ حمد حسین روپڑی علیہ الرحمہ نے لمبی عمر نہ پائی، تمام اولاد چھوٹی تھی کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ صرف والد محترم کو خود پڑھا سکے اور کہا کہ باقی کو تم پڑھا دینا، سو محدث روپڑی ان کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کے گھر میں باقاعدگی سے صبح آتے اور سب خواتین کو پانچ سال پڑھاتے رہے، پھر وہ بھی وفات پاگئے۔ جب دادا جان کا آخری وقت قریب تھا تو کسی نے ان سے اپنی اولاد کے لئے وصبت کو کہا تو بولے: ’’اگر یہ تیکی کے رستے پر رہے تو اللہ ان کی نگہبانی کو کافی ہے ( واللہ یتولی الصالحین) اور اگر غلط راستے پر چل نکلے تو میرا ان سے کیا رشتہ اور ایسے ظالموں کو میری کیا نصیحت۔‘‘ وہ دینی علم کو ترک کردیتا لا ینال عہدی الظالمین کے تحت اپنی اولاد کے لئے ناجائز اور ظلم سمجھتے تھے۔ بعد میں جب مجھے السیاسۃ الشرعیہ لابن تیمیہ پڑھنے پڑھانے کا اتفاق ہوا تو اس کے پہلے باب میں ہو بہو یہی نصیحت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی اپنی اولاد کے نام موجود ہے۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں ان کے نیک نقش قدم پر چلائے۔
والد گرامی کبھی کبھی مجلسی موڈ میں ہوں تو خود ہی یادیں سنا دیتے ہیں، مطالبہ کرنے پر کبھی کچھ نہیں بتاتے۔(5) اسی لئے جتنی مل گئیں اتنی یہاں محفوظ کررہا ہوں، کل کلاں یہاں سے ہی محفوظ ہوں گی۔ ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہاں پر مولانا ابو عمار ظہیر سعیدی صاحب نے یہ تائیدی پیغام بھیجا کہ ’ جب یہ مناظرہ ہوا تھا اس وقت ہم جامعہ رحمانیہ پڑھا کرتے تھے.استاذ مکرم حفظہ اللہ نے ہمیں اس مناظرے کی روئیداد بھی سنائی تھی۔‘
(2) کیونکہ اہل مجموعہ نے سابقہ پیغامات پر اچھے جذبات کا اظہار کیا تھا ۔
(3)یہاں حافظ شاہد محمود صاحب آف گوجرانوالہ نے یہ تبصرہ کیا ’ اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے آپ کی ان تحریروں میں بہت مفید معلومات ہیں لیکن یہ حصہ شائد اس قدر تدقیق سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی دوسرا شخص ان تفصیلات میں فریق ثانی کے بیان و توضیح کی ضرورت بھی محسوس کرے گا تو بات دوسرا رنگ اختیار کر سکتی ہے،اس لیے ان تفصیلات کو ترک کر دیں ‘ ، ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے اس بات سے اتفاق کا اظہار کیا ۔
(4) محدث روپڑی رحمہ اللہ کے آخری ایام کے متعلق یہ بات ہم نے آپ کے ایک اور شاگرد رشید حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ سےبھی سنی ہے ۔ خضر حیات
(5) اس آخری پہرے کی مناسبت ، ڈاکٹر فیض الابرار صاحب کے اس سے پہلے آنے والا پیغام سے سمجھ آئے گی ، انہوں نے کہا تھا :’ بارک اللہ فی علمکم ،اگر روپڑی خاندان کے شجرہ نسب کو مکمل طور پر بیان کر دیا جائے تو بہت مفید معلومات ہوں گی
ویسے روپڑی خاندان کی خدمات کو محفوظ کرنا یہ آپ لوگوں پر قرض ہے اسے جلد از جلد ادا کیجیے تاکہ محفوظ ہو جائے ‘
اسی مناسبت سے اسحاق بھٹی صاحب کی تصنیف ’ روپڑی علمائے حدیث ‘ کا بھی تذکرہ ہوا ، جو کہ مطبوع ہے ، البتہ حسن مدنی صاحب کا کہنا تھا کہ اوپر بیان کردہ اہم یاداشتیں اس کتاب میں نہیں آسکیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یہ ایک اور مجلس ہے ، جو 3 مارچ 2017ء کو ادارہ محدث میں منعقد ہوئی ، ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے اس وقت یہ واٹس ایپ پر ارسال کی تھی ، مجموعہ علماء اہل حدیث سے یہ پیغامات یہاں نقل کیے جارہے ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁠⁠⁠ کل تینوں بھائی حافظ انس مدنی، حافظ حمزہ مدنی اور راقم الحروف تین مختلف مقامات پر جمعہ پڑھا کر پہنچے ہی تھی کہ اطلاع آئی کہ فاضل مکرم ڈاکٹر حافظ عبید الرحمن محسن، والد گرامی مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ہیں، چنانچہ سب والد صاحب کی رہائش گاہ پر (ادارہ محدث) اکٹھے ہوگئے اور اس مجلس میں بہت سی یادیں اور مبارک باتیں ہوئیں۔ پہلے چند یاد گار باتیں
والد محترم نے اپنے والد گرامی شیخ الحدیث حافظ محمد حسین روپڑی امرتسری رحمہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ تقویہ الاسلام، شیش محل) کے بارے میں بتایا:
کہ انہوں ُنے دلی، علی گڑھ اور آگرہ کے مشائخ سے دینی علوم حاصل کئے اور حدیث کا علم اپنے بڑے بھائی حافظ عبد اللہ محدث روپڑی سے سیکھا، چنانچہ وہ رات بھر تیاری کرتے رہتے کہ سحری کا وقت ہوجاتا، اور 14 روز میں انہوں نے سنن نسائی اپنے بڑے بھائی حافظ محدث روپڑی سے مکمل کی، صحیح بخاری کے چھ پارے حفظ کئے اور قرآن کریم کی طرح ان کا دور کیا کرتے، مزید آگے بڑھنا چاہتے تھے کہ ان کے والد جناب روشن دین نے منع کردیا اور کہا کہ حفظ حدیث سے زیادہ علوم قرآن وحدیث محنت اور توجہ کے متقاضی ہیں۔ صحیح بخاری کو اپنے بڑے بھائی سے پڑھنے کے لئے حافظ محمد حسین اس قدر محنت کیا کرتے کہ اپنی کتاب کو حواشی اور نوٹس سے بھر دیتے۔ اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اس تیار کردہ کتاب بخاری کو اپنے سامنے تدریس کے وقت رکھ لیا کرتے اور کہا کرتے کہ مجھے بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ شیخ الحدیث حافظ محمد حسین امرتسری اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی میں بعض مسائل میں اختلاف بھی ہوا کرتا، بڑے بھائی کے احترام کے باوجود احکام ومسائل میں حافظ محمد حسین اپنے موقف پر پوری طرح کاربند رہتے۔ چنانچہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کا فتوٰی تو بیعت توبہ کی حرمت پر تھا، لیکن وہ کبھی کبھی بیعت توبہ کرلیا کرتے، اسی طرح تعویذ کے مسئلے پر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی عمل پیرا تھے، لیکن حافظ محمد حسین ان دونوں مسائل میں نرمی کو گوارا نہ کرتے، بھائی اور استاد محدث روپڑی سے استفسار کرتے تو وہ کہتے کہ میں یہ دونوں کام اس بنا پر کرلیتا ہوں کہ اگر میں نے نہ کیے تو لوگ کسی اور سے تعویذ اور بیعت توبہ کریں گے، اس لئے مصلحت کے طور پر کرتا ہوں، جبکہ حافظ محمد حسین روپڑی اس مصلحت کے قائل نہ تھے۔
شیخ الحدیث حافظ محمد حسین روپڑی، میرے اور فاضل مکرم حافظ ضیاء اللہ برنی حفظہ اللہ کے دادا محترم تھے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
ایک بار دونوں بھائیوں میں قرآن کریم کی اس آیت پر طول طویل بحث ہوئی: ولقد همت بہ وهم بها لو لا ان رای برهان ربہ... حافظ عبد اللہ روپڑی کی رائے تھے کہ به پر وقف ہے، جبکہ حافظ محمد حسین روپڑی بها پر وقف کہتے تھے، اور کہتے کہ اسی بات کا تذکرہ وما ابری نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الا ما رحم ربی میں ہے۔
حافظ محمد حسین روپڑی کہا کرتے کہ قرآن کریم کی دو آیات کی تفسیر سب سے مشکل ہے: معنوی اعتبار سے مشکل ترین اللہ نور السماوات والارض.... ہے اور قواعد اللغۃ یعنی ترکیب کے اعتبار سے مشکل ترین فان عثر علے انہما استحقا اثما فآخران یقومان مقامہما من الذین استحق علیہم الاولیان فیقسمان باللہ لشہادتنا احق من شہادتہما ہے۔
افسوس کہ اس طرح کی یاد داشتیں آج تک باضابطہ طور بر احاطہ تحریر میں نہیں آسکیں۔(1)
والد محترم حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کہنے لگے کہ مولانا مودودی کے نزدیک اصل دین علم ومعرفت کا نام ہے، جو جہمیہ کا گمراہانہ عقیدہ ہے۔ جبکہ بعض کے نزدیک اصل دین عمل ہے، اور یہ دونوں غلط ہیں- دین کا اصل مقصد ’علم کی بنا پر عمل‘ ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: فاعلم انہ لا الہ الہ ہو واستغفر لذنبک... اور اسی عمل کی بنا پر ہی انسان کو اللہ کے ہاں مقام ملتا ہے۔ نرا علم تو ابلیس کو بھی حاصل تھا لیکن عمل نہ کرنے کی بنا پر اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی مزید تفصیل حافظ محدث روپڑی کی کتاب ’انسانی زندگی کا مقصد‘ میں ہے۔
والد محترم فرمانے لگے کہ توحید ربوبیت (توحید معرفت، علمی وخبری) دراصل وسیلہ ہی ہے، اصل مطلوب توحید الوہیت (توحید عملی، ارادی طلبی) ہے۔ اور توحید الاسماء والصفات توحید ربوبیت کا ہی ایک حصہ ہے۔ پھر کہنے لگے مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے توحید پر ایک تفصیلی کتاب ’توحید الہ العالمین‘ کے نام سے لکھی ہے، اور اس میں اسماء وصفات کی توحید کی تفصیلات پیش کی ہیں، حالانکہ اس کتاب کا نام ’توحید رب العالمین‘ ہونا چاہیے کیونکہ توحید اسماء وصفات توحید ربوبیت کی ہی ذیلی قسم ہے۔
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے فرمایا کہ مولانا مودودی کی دینی خدمات بہت سی ہیں، تاہم عقائد، توحید اور حدیث وصحابہ میں ان کا موقف درست نہیں، دراصل ان کے ہاں اسلوب بیان کی طاقت ہی ہے۔ مزید کہا کہ مولانا مودودی نے سارے دین کو غلبہ و اقتدار ہی بنادیا، حتی کہ وسع کرسیہ کی تفسیر بھی اللہ کے اقتدار سے ہی کردی جو تاویل کی قبیل سے ہے۔
مولانا عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ کی موجودگی میں راقم نے بتایا کہ مولانا یوسف راجووالوی کی وفات سے چند ماہ قبل ایک روز میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تھا کہ پیغام ملا، مولانا یوسف دفتر محدث میں تشریف لائے ہیں اور مجھے بلا رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو مولانا عبید الرحمن محسن کو دیکھا کہ اپنے ضعیف والد محترم کے ہمراہ موجود ہیں، پھر مولانا یوسف فرمانے لگے کہ مجھے آج اپنے استاد حافظ محمد حسین روپڑی کی یاد بہت ستاتی ہے، اس لئے اپنے استاد کے بیٹے حافظ عبد الرحمن مدنی سے ملنے بطور خاص آیا ہوں۔ والد گرامی سے جب ملاقات نہ ہوسکی کہ وہ عمرہ پر گئے ہوئے تھے تو مولانا یوسف رحمہ اللہ نے راقم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، میں بولا کہ حضرت مجھے کیوں گناہ گار کرتے ہیں، بولے کہ آپ میرے استاد کے پوتے ہیں، میری یاد کی تسکین اسی میں ہے کہ آپ کے والد نہ ملے تو آپ سے اس تعلق کا اظہار کرلوں۔ برادر مکرم عبید الرحمن محسن بتانے لگے کہ آج بطور خاص اسی لئے گھر سے نکلے اور مجھے ساتھ لے کر آئے کہ اپنے استاذ کے بیٹے حافظ عبد الرحمن مدنی سے ملنے جانا ہے۔ یہ تہے ہمارے اسلاف اور یہ ان کا اپنے بزرگوں سے تعلق اور محبت بھرا رویہ تھا، اللہ ان سب کو جنت میں اکٹھا فرمائے اور ان کی قبروں کو جنت کے باغ بنائے۔
والد محترم مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی فرمانے لگے کہ مولانا یوسف راجو والوی نے محدث کی اشاعت کے ایک سال بعد 1972 میں باقاعدہ لاہور کا سفر کرکے ان سے ملاقات کی اور شکوہ کیا کہ روپڑی نام کو انہوں نے کیوں ترک کردیا، میں نے ان کی ہدایت پر 1972 کے سال بھر میں اپنے نام کے ساتھ روپڑی کی نسبت شامل کیے رکھی جو محدث کے 1972 کے شماروں پر باقاعدہ چھپتی رہی، تاہم میں نے روپڑی ثنائی نزاع سے بچتے ہوئے، مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی خدمات کو تسلیم کرتے اور خیر کو قبول کرنے کی وسیع تر خواہش کی بنا پر پھر دوبارہ مدنی نام پر ہی اکتفا کرلیا۔
والد محترم فرماتے ہیں کہ وہ ایک بار اپنے بڑے بھائی حافظ عبد اللہ حسین روپڑی (حافظ ضیاء اللہ برنی کے والد گرامی) کے ساتھ سرگودھا کی جامع مسجد 19 بلاک میں مولانا محمد ابراہیم کمیرپوری سے ملنے گئے جو اپنے وقت کے ذہین اور مقبول ترین خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ زود نویس بھی تھے تو مولانا کمیر پوری نے کہا کہ مولانا داؤد غزنوی کی مدبرانہ شخصیت نے انہیں بہت متاثر کیا اور حافظ محمد حسین روپڑی کے اس وصف نے کہ ’’جب جس بات کو درست سمجھ لیا، اس پر پوری قوت سے عمل پیرا ہوگئے اور کوئی مداہنت نہ کی۔‘‘
والد محترم نے مولانا اصلاحی سے اپںی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ نور السموات والارض کی تفسیر میں مولانا اصلاحی کی تفسیر گمراہانہ ہے، جس میں نور علی نور میں پہلے نور کو انہوں نے عقل اور دوسرے کو دین قرار دے کر، عقل کو دین پر بالا بتایا ہے جیسا کہ یہ معتزلہ کا موقف (اصل الاصول) ہے۔ جبکہ اس کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ پہلے نور سے مراد دین ہے اور دوسرے سے مراد صالح طبیعت ہے۔ یعنی نور وحی ، نور فطرت وعقل پر ہمیشہ غالب ہے اور یہی اہل السنہ کا موقف ہے۔
والد محترم حفظہ اللہ کی ساری ملاقاتیں سراسر علمی گفتگو سے لبریز ہوتی ہیں، ذاتی بات سے اکثر گریز ہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب سے ملاقات کا آغاز ہی اس بات سے کیا... کہنے لگے کہ میرے والد محترم حافظ محمد حُسین روپڑی کہا کرتے، کہ علم آدم الاسماء کی تفسیر میں بعض لوگ انسان کی وجہ فضیلت علم کو بیان کرتے ہیں، جو درست نہیں اور عام طور پر یہی مرجوح تفسیر کی جاتی ہے، جبکہ اگر یہی وجہ فضیلت ہو تو پھر یہ اعتراض آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم کو پرچہ پہلے بتا دیا اور فرشتوں کو نہیں بتایا اور اس طرح سیدنا آدم فرشتوں پر غالب آگئے جو درست بات نہیں بنتی۔ جبکہ درست یہ ہے کہ اس سے مراد علم کی بنا پر عمل آدم ہے۔ اور یہاں اسماء سے مراد وہی ہے جو اسماء الرجال میں ہوتا ہے یعنی حالات زندگی اور انسان کا نیک وبد ہونا وغیرہ۔ اور یہ بات سیدنا آدم کو اللہ تعالیٰ نے بتائی بھی اور اس سے قبل عہد الست کے وقت انہوں نے دیکھی بھی کہ ایک بہت بڑی جماعت کفار کی ایک طرف ہے، جبکہ نیک لوگ کم تعداد میں ہیں۔ اور یہ بات فرشتوں کو بھی اپنی عقل کی بنا پر معلوم تھی۔ چنانچہ دراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زمین میں نظام خلافت بنایا ہے۔ اور اس میں لوگوں کے نیک وبد رویے ہیں۔ تو اللہ نے اسماء سکھائے یعنی لوگوں کے حالات بتائے، پھر ان انسانی حالات کو عرضہم کے ذریعے فرشتوں پر پیش کیا، تو معروض شے اسماء الرجال یعنی حالات انسانی ہوئے۔ پھر اللہ نے فرشتوں کو کہا: انی اعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون ... سو اصل سوال علمی برتری نہیں کا نہیں بلکہ علم کی بنا پر کئے جانے والے عمل کا ہے۔ اور یہی انسانیت کی فرشتوں پر برتری ہے۔
والد محترم نے فرمایا: انا جعلناک خلیفۃ فی الارض کی متفق تفسیر تو یہ ہے کہ انسانوں میں ایک دوسرے کی خلافت ہے اور ان میں ایک دوسرے کے پیچھے آنے کا نظام جاری ہے۔ پہر وہ حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ کو بطور مثال کہنے لگے کہ میں تمہارے پاس ایک عالم بھیج رہا ہوں، اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسا شخص بھیجوں گا جس میں علم ہے، یہی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں زمین میں بھیجنے والا ہوں، جن میں خلافت ہے۔ اور انسان دوسرے انسان کا خلیفہ ہے، یہ ایک متفقہ تفسیر ہے۔ جبکہ مولانا مودودی نے انسان کو اللہ کا خلیفہ بتایا ہے جو بالکل غلط ہے۔ حافظ انس مدنی کہنے لگے کہ ہو الذی جعلکم خلائف فی الارض اور خلائف الارض دونوں طرح قرآن کریم میں آیا ہے۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ خلائف فی الارض اور خلائف الارض دراصل ایک ہی ہیں۔ کیونکہ اضافت کی ایک قسم اضافت فِیوّی بھی ہوتی ہے، اور یہاں یہی اضافت فِیوی ہی مراد ہے۔
حافظ حمزہ مدنی بولے کہ ایک قراءت اس آیات میں خلیقۃً کی بھی آتی ہے، تو والد محترم فرمانے لگے کہ ایک جعل مرکب اور دوسرا جعل بسیط۔ جعل مرکب وہ ہوا جس کے دو مفعول ہوتے ہیں گویا آدم مفعول اول ہے جو محذوف ہے جبکہ خلیفۃ مفعول ثانی ہے، یہ جعل مرکب والا قول غلط ہے۔ جبکہ یہ جعل بسیط ہے۔
پھر والد محترم نے کہا کہ جنات اصل میں ارضی مخلوق نہیں، البتہ وہ زمین پر بھی ہوتے ہیں۔ وہ تو آگ سے پیدا کئے گئے ہیں، اور ان کا کھانا وہ ہڈی ہے جسے انسان چھوڑتے ہیں۔ حیوانی فضلہ بھی ان کے زیر استعمال ہوتا ہے۔ برادر عزیز ڈاکٹر حافظ انس مدنی بولے کہ فضلہ نہیں بلکہ جس سے فضلہ بنتا ہے، یعنی سبزہ تو والد صاحب نے فرمایا کہ وہ تو انسان کا بھی طعام ہے، پھر فرق کیا ہوا؟
عزیز محترم ڈاکٹر عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ اس ساری گفتگو اور تفسیر کو سنتے رہے اور مجھے کہنے لگے کہ میں نے اس تفسیر کو کئی مرتبہ اپنے دروس میں بیان کیا ہے۔ آج شیخ کی زبانی اس کی تائید سن کر روحانی مسرت ہو رہی ہے۔
آج بہت سی یاد داشتیں ہوگئیں، باقی پھر سہی ... اللہ حافظ
والد محترم فرماتے ہیں کہ ان کے والد حافظ محمد حسین امرتسری کہا کرتے تھے کہ رشتہ داری نسبی سے زیادہ عقیدہ اور عمل کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں۔ اگر نوح کا بیٹا ان کے مشن کا حامل نہ ہو تو انہ لیس من اہلک کا فرمان صادر ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ وعمل کا ساتھی بنائے۔
فضیلۃ الاخ ڈاکٹر عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ کل والد گرامی حفظہ اللہ سے ملاقات کو تشریف لائے، اللہ انہیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے اور اس ثواب کا حامل بنائے جس کا نبی کریم نے وعدہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے آنے پر جو یادگار باتیں ہوئیں، وہ میں نے اب سے تین گھنٹے قبل پوری تفصیل کے ساتھ اس مجموعہ میں ارسال کردی ہیں۔ اگر کوئی یاد داشت غلط ہو تو برادر گرامی اس کی اصلاح فرما دیں۔ جزاہ اللہ خیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبید الرحمن محسن نے کہا :’ بہت یادگار ملاقات تھی۔‘
(1) حافظ ہشام الہی ظہیر صاحب کا کہنا تھا کہ ایسی یاداشتیں باقاعدہ منظم و مرتب انداز میں تحریر کرنے کی امید میں ، سرے سے رہ جاتی ہیں ، لہذا جیسے تیسے ہو ، محدث فورم پر انہیں نشر کردیا جائے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شریعت بل کے معاملے پر 1986ء میں حاقظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے مابین مناظرہ طے پایا۔ جس میں جب حضرت علامہ صاحب نے شرکت سے معذرت کرلی
مدنی صاحب کی یاداشت کے اس حصہ پر مجموعہ علماء اہل حدیث میں ابو بکر قدوسی ، عمر فاروق قدوسی ، حافظ عابد الہی صاحب وغیرہ نے کافی اہتمام سے یہ تصحیح کی کہ علامہ صاحب مناظرہ طے کرنے کے بعد معذرت خواہ نہیں ہوئے تھے ، بلکہ انہوں نے جنگ فورم میں ہونے والے مباحثہ میں اپنا موقف ڈٹ کر بیان کیا تھا ، جس کی تفصیل اخبارات میں بھی چھپی ، اور ابو بکر قدوسی صاحب نے ’ نقش قدم ‘ میں بھی ’ شریعت بل ‘ کے عنوان سے اس کا تذکرہ کیا ہے ۔
خیر تبادلہ آراء سے یہ بات واضح ہوئی کہ حسن مدنی صاحب نے جس بات کا تذکرہ کیا ہے ، وہ سیالکوٹ میں ہونے والا کوئی مناظرہ تھا ، جو واقعتا ساجد میر صاحب اور عبد الرحمن مدنی صاحب کے درمیان ہوا ، اور جس کی ریکارڈنگ ادارہ محدث کے پاس موجود ہے ۔
جبکہ جنگ فورم والا جو مباحثہ ہے ، وہ الگ ہے ، جس کی قدوسی برادران بات کر رہے ہیں ۔البتہ محدث روپڑی اور علامہ احسان صاحب کا واقعتا کوئی مباحثہ طے ہوا تھا ؟ اور وہ کون ساتھا ؟ اس حوالے سے بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رابطہ کی کانفرنس پر سفر حرمین کے دوارن طلبہ جامعہ ام القری اور طلبہ جامعہ اسلامیہ سے علیحدہ ملاقاتوں میں والد گرامی نے بعض مزید قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں جبکہ مولانا یاسین ظفر، مولانا ڈاکٹر صھیب حسن، ڈاکٹر حافظ انور بھی موجود تھے۔
حنفیہ کے اصول فقہ در اصل اصول تقلید ہیں کیونکہ اصول فقہ کا اصل مقصد تو کتاب وسنت سے استدلال کو منظم ومنضبط کرنا ہے۔ جبکہ حنفیہ اپنے مشہور و مفتی بہ اقوال کے لئے اصول فقہ بناتے ہیں۔
ان کے اس ناروا رجحان کی بنا پر اہل حدیث اصول فقہ کو ہی تقلیدی علم سمجھ کر اس کی تردید کے درپے ہو جاتے ہیں، جیسا کہ لاہور میں ان دنوں نور الانوار کی تنقیدی تدریس مولانا زاہدی فرما رہے ہیں۔
حالانکہ اصول فقہ ایک مبارک علم ہے، امام شافعی، مجد ابن تیمیہ، امام شوکانی، امام شاطبی، شاہ اسمعیل شہید، نواب صدیق حسن، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد گوندلوی نے صحیح اصول فقہ پر کتب لکھی ہیں۔
چنانچہ اصول فقہ اور اصول تقلید میں فرق ہونا چاہئیے اور عبد الکریم النملۃ کی اصول الفقہ المقارن پڑھتے ہوئے دونوں مناہج میں امتیازات پر تحقیقی کام کرنا چاہئیے۔
ڈاکٹر حافظ انور صاحب نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اہل حدیث کو اصول فقہ نہیں آتی، حالانکہ ہم نے اپنی تدریس سے اس کو غلط کر دکھایا ہے۔
والد گرامی نے یہ بھی فرمایا کہ
ہمارے ہاں اسماء الرجال کی بنا پر احادیث کی تحقیق کو کافی سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ صحیح روایت میں اسماء الرجال کے ساتھ تحمل واداء کی جزئیات بڑی اہمیت رکھتی ہیں، جیسے صحیحین کے رجال پر مرتب مستدرک حاکم کا کوئی استنادی معیار نہیں کیونکہ حاکم نے صرف رواۃ کے حالات کا لحاظ رکھا ہے، تحمل واداء کو نہیں دیکھا۔ اور تحمل واداء کی جزئیات سے اقدم علما ہی واقف تھے جیساکہ 6 لاکھ اسناد سے امام بخآری نے 3 ہزار متون صحیح بخآری میں پیش کئے ہیں، اور اب یہ 6 لاکھ اسناد محفوظ نہیں۔ چنانچہ اقدم محدثین کا اسناد پر حکم ہی وقیع تر ہے۔
(ڈاکٹر حسن مدنی)
 
Last edited:
Top