- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,472
- پوائنٹ
- 964
بیٹا : ابا جی ! آپ کے زیر انتظام مسجد و مدرسہ رہا ، ہم سات بھائی اور چار بہنوں کی پرورش کی ، آج اللہ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ، میں چاہتا ہوں ، آپ نے مسجد و مدرسہ کے پیسے سے ہم پر جو خرچ کیا ہے ، اسے ادا کردیا جائے ۔
والد : بیٹا تمام چندے کا حساب کتاب آج تک میرے پاس کوڑی بہ کوڑی موجود ہے ، میں نے اپنے بچوں پر اس سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا ۔ بلکہ کئی دفعہ اپنی جیب سے خود صرف کیا ہے ۔
بیٹے کا نام عبد الرؤف ہے ، جواب دینے والی ’ عہد ساز شخصیت حافظ محمد دین ‘ ہیں ۔
اور یہ مکالمہ ہورہا ہے ، مسجد حرام مکہ مکرمہ میں ۔
حافظ محمد دین صاحب 2 مئی 20122ء کو وفات پاگئے ، ان کی دعوتی و تبلیغ خدمات کو مرتب کیا محترم عطاء محمد جنجوعہ صاحب نے ، اوپر بیان کردہ ’ سوال ’ اور ’ جواب ‘ اسی کتاب سے ماخوذ ہے ۔
حافظ محمد دین جماعت اہل حدیث کی ایک معروف شخصیت تھے ، جنہوں نے سرگودھا اور گرد و نواح میں اتباع کتاب وسنت کے پرچم کو لہرایا ، اور ہزاروں لوگ ان کی وعظ و نصیحت سے مستفید ہوئے ، ان کی سوانح عمری سے ان کے جو اوصاف سامنے آتے ہیں ، ان میں علم و علماء دوست ، سادہ مزاج ، اللہ پر توکل ، تقوی شعاری ، جہد مسلسل اور عزم پیہم ، تواضع و انکساری جیسی صفات نمایاں نظر آتی ہیں ۔ ان کی شخصیت میں ہٹ دھرمی ، ضد عناد ، تکبر و نخوت جیسی عادات رزیلہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں ۔
ساری عمر مرکزی جمعیت اہل حدیث سے منسلک رہے ، دم واپسیں اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت فرمائی ، لیکن اس انداز سے کہ یہ خدمت دین کا ایک ذریعہ ہے ، عقیدہ ولاء و براء والے اصول یہاں لاگو نہیں ہوں گے ، بلا تفریق جماعت و مسلک تمام اہل علم اور اہل خیر سے حافظ صاحب کا والہانہ لگاؤ نظر آتا ہے ۔
حافظ صاحب حقیقی معنوں میں ’ اللہ والے تھے ‘ کورٹ کچہری کے فیصلے دعاؤں سے کروا لیتے ، بارش زیادہ ہوگئی ، تواللہ کو رکنے کی درخواست دے دیتے ، جو قبول کرلی جاتی ، نہیں ہورہی تو میدان میں استسقاء کے لیے یوں ملتجی ہوتے کہ لوگ گھروں کو بھیگ کر واپس لوٹتے ۔
حافظ صاحب کی سوانح عمری میں ایک بڑا عجیب و غریب واقعہ لکھا ہوا ہے ، جس سے ان کے توکلی علی اللہ ، خدا ترسی اور دریا دلی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
ایک دفعہ لاہور کسی کام سے آئے ، دیر ہوگئی ، عشاء کے بعد سرگودھا کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے ، بیٹھتے ہی سفر کی دعا پڑھی ، پیسے نکال کر جرابوں میں ڈال لیے ، رستے میں ڈاکؤوں نے روک لیا ، تلاشی ہوتی ہوتی ، ڈاکو ان کے پاس آیا ، جیب سے دو روپے کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا اور ساتھ ہی کہا : ’ تمہارا ساتھی لے گیا ہے ’
ساری بس کی جیبیں خالی ہوگئی ، البتہ حافظ صاحب کے پیسے جرابوں میں محفوظ رہے ، سرگودھا بس سٹاپ پر اتر کر دیکھا کہ لوگ اگلے سفر کے لیے پیسے نہ ہونے کے سبب پریشان ہیں ۔
حافظ صاحب نے جرابوں سے پیسے نکالے ، تمام سواریوں میں تقسیم کردیے ، تاکہ وہ اپنے اپنے گھروں تک پہنچ سکیں ۔
جی ہاں یہ تھے محترم ’ حافظ محمد دین صاحب ‘ جنہیں عبد المالک مجاہد صاحب نے ’ عہد ساز شخصیت ‘ لکھا ، اسحاق بھٹی صاحب نے ’ رفیع المرتبت عالم ، بے حد عمدہ خصال واعظ ، صالحیت کا پیکردل نواز اور انکسار و تواضع کا روح پرور مرقع ‘ قرار دیا ۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے پرنسپل پروفیسر یاسین ظفر صاحب نے لکھا ’ جب بھی کوئی پریشانی آتی ان سے رابطہ کرتا ، تحمل و بردباری کی تلقین کرتے ، ان کی ناصحانہ گفتگو سے حوصلہ ملتا ’ ۔ حافظ صاحب کی نماز جنازہ پروفیسر ساجد میر صاحب نے پڑھائی اور ان پر ایک تاثراتی مضمون میں لکھا : ’ وہ بڑے ملنسار ، مہمان نواز ، حلیم الطبع منکسر المزاج ، ممتاز عالم دین ، سلجھے ہوئے خطیب ، مستند طبیب ، ذہانت سے مالا مال ، سلفی روایات کے امین ، جماعتی غیرت اور مسلکی حمیت سے سرشار تھے ۔‘
چند مہینے پہلے جدہ جانا ہوا ، وہاں حافظ صاحب کے فرزند ارجمند حافظ عبد الماجد صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے شفقت کرتے ہوئے ضیافت بھی کی اور ساتھ والد محترم کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ۔
حافظ عبد الماجد صاحب جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں ، اور فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ ( مدیر مرکز التربیۃ فیصل آباد ) کے ہم زلف ہیں ، اسی نسبت سے میری ان سے جان پہچان ہے ، اورہماری پہلی ملاقات 2009 میں مسجد حرام میں ہی ہوئی جب وہ اپنے والد محترم حافظ محمد دین رحمہ اللہ کے ساتھ وہاں موجود تھے ، اس کے بعد اب تک ان سے راہ و رسم ہے ، ماشاءاللہ پورا خاندان ہی سعودیہ میں مقیم ہے ، اور یہیں سے اپنے والد محترم کے لگائے ہوئے گلشن کی آبیاری میں جانی اور مالی تعاون کے ذریعے مصروف ہیں ۔ حافظ صاحب کی سوانح عمری میں ان کی اولاد کا بھی کافی حد تک تعارف آگیا ، اسی طرح اپنے والد اور جد امجد کی وفات پر لکھ گئی تاثراتی تحریروں سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک نیک شخصیت کی تربیت ، اخلاص اور رزق حلال کا اثر اگلی نسلوں میں کس طرح منتقل ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی حافظ محمد دین صاحب پر رحمتوں کی برکھا برسائے ، اور ان کے اخلاف کو ان کا مشن آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
......
خواہش تھی کہ اس اہم سوانح عمری کو پی ڈی ایف کی شکل میں انٹرنیٹ پر آنا چاہیے ، بہت زیادہ خوشی ہوئی یہ دیکھ کر محدث لائبریری کی طرف سے یہ کتاب اپریل 2015ء سے ہی قارئین کی خدمت میں پیش کردی گئی ہے ۔
والد : بیٹا تمام چندے کا حساب کتاب آج تک میرے پاس کوڑی بہ کوڑی موجود ہے ، میں نے اپنے بچوں پر اس سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا ۔ بلکہ کئی دفعہ اپنی جیب سے خود صرف کیا ہے ۔
بیٹے کا نام عبد الرؤف ہے ، جواب دینے والی ’ عہد ساز شخصیت حافظ محمد دین ‘ ہیں ۔
اور یہ مکالمہ ہورہا ہے ، مسجد حرام مکہ مکرمہ میں ۔
حافظ محمد دین صاحب 2 مئی 20122ء کو وفات پاگئے ، ان کی دعوتی و تبلیغ خدمات کو مرتب کیا محترم عطاء محمد جنجوعہ صاحب نے ، اوپر بیان کردہ ’ سوال ’ اور ’ جواب ‘ اسی کتاب سے ماخوذ ہے ۔
حافظ محمد دین جماعت اہل حدیث کی ایک معروف شخصیت تھے ، جنہوں نے سرگودھا اور گرد و نواح میں اتباع کتاب وسنت کے پرچم کو لہرایا ، اور ہزاروں لوگ ان کی وعظ و نصیحت سے مستفید ہوئے ، ان کی سوانح عمری سے ان کے جو اوصاف سامنے آتے ہیں ، ان میں علم و علماء دوست ، سادہ مزاج ، اللہ پر توکل ، تقوی شعاری ، جہد مسلسل اور عزم پیہم ، تواضع و انکساری جیسی صفات نمایاں نظر آتی ہیں ۔ ان کی شخصیت میں ہٹ دھرمی ، ضد عناد ، تکبر و نخوت جیسی عادات رزیلہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں ۔
ساری عمر مرکزی جمعیت اہل حدیث سے منسلک رہے ، دم واپسیں اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت فرمائی ، لیکن اس انداز سے کہ یہ خدمت دین کا ایک ذریعہ ہے ، عقیدہ ولاء و براء والے اصول یہاں لاگو نہیں ہوں گے ، بلا تفریق جماعت و مسلک تمام اہل علم اور اہل خیر سے حافظ صاحب کا والہانہ لگاؤ نظر آتا ہے ۔
حافظ صاحب حقیقی معنوں میں ’ اللہ والے تھے ‘ کورٹ کچہری کے فیصلے دعاؤں سے کروا لیتے ، بارش زیادہ ہوگئی ، تواللہ کو رکنے کی درخواست دے دیتے ، جو قبول کرلی جاتی ، نہیں ہورہی تو میدان میں استسقاء کے لیے یوں ملتجی ہوتے کہ لوگ گھروں کو بھیگ کر واپس لوٹتے ۔
حافظ صاحب کی سوانح عمری میں ایک بڑا عجیب و غریب واقعہ لکھا ہوا ہے ، جس سے ان کے توکلی علی اللہ ، خدا ترسی اور دریا دلی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
ایک دفعہ لاہور کسی کام سے آئے ، دیر ہوگئی ، عشاء کے بعد سرگودھا کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے ، بیٹھتے ہی سفر کی دعا پڑھی ، پیسے نکال کر جرابوں میں ڈال لیے ، رستے میں ڈاکؤوں نے روک لیا ، تلاشی ہوتی ہوتی ، ڈاکو ان کے پاس آیا ، جیب سے دو روپے کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا اور ساتھ ہی کہا : ’ تمہارا ساتھی لے گیا ہے ’
ساری بس کی جیبیں خالی ہوگئی ، البتہ حافظ صاحب کے پیسے جرابوں میں محفوظ رہے ، سرگودھا بس سٹاپ پر اتر کر دیکھا کہ لوگ اگلے سفر کے لیے پیسے نہ ہونے کے سبب پریشان ہیں ۔
حافظ صاحب نے جرابوں سے پیسے نکالے ، تمام سواریوں میں تقسیم کردیے ، تاکہ وہ اپنے اپنے گھروں تک پہنچ سکیں ۔
جی ہاں یہ تھے محترم ’ حافظ محمد دین صاحب ‘ جنہیں عبد المالک مجاہد صاحب نے ’ عہد ساز شخصیت ‘ لکھا ، اسحاق بھٹی صاحب نے ’ رفیع المرتبت عالم ، بے حد عمدہ خصال واعظ ، صالحیت کا پیکردل نواز اور انکسار و تواضع کا روح پرور مرقع ‘ قرار دیا ۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے پرنسپل پروفیسر یاسین ظفر صاحب نے لکھا ’ جب بھی کوئی پریشانی آتی ان سے رابطہ کرتا ، تحمل و بردباری کی تلقین کرتے ، ان کی ناصحانہ گفتگو سے حوصلہ ملتا ’ ۔ حافظ صاحب کی نماز جنازہ پروفیسر ساجد میر صاحب نے پڑھائی اور ان پر ایک تاثراتی مضمون میں لکھا : ’ وہ بڑے ملنسار ، مہمان نواز ، حلیم الطبع منکسر المزاج ، ممتاز عالم دین ، سلجھے ہوئے خطیب ، مستند طبیب ، ذہانت سے مالا مال ، سلفی روایات کے امین ، جماعتی غیرت اور مسلکی حمیت سے سرشار تھے ۔‘
چند مہینے پہلے جدہ جانا ہوا ، وہاں حافظ صاحب کے فرزند ارجمند حافظ عبد الماجد صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے شفقت کرتے ہوئے ضیافت بھی کی اور ساتھ والد محترم کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ۔
حافظ عبد الماجد صاحب جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں ، اور فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ ( مدیر مرکز التربیۃ فیصل آباد ) کے ہم زلف ہیں ، اسی نسبت سے میری ان سے جان پہچان ہے ، اورہماری پہلی ملاقات 2009 میں مسجد حرام میں ہی ہوئی جب وہ اپنے والد محترم حافظ محمد دین رحمہ اللہ کے ساتھ وہاں موجود تھے ، اس کے بعد اب تک ان سے راہ و رسم ہے ، ماشاءاللہ پورا خاندان ہی سعودیہ میں مقیم ہے ، اور یہیں سے اپنے والد محترم کے لگائے ہوئے گلشن کی آبیاری میں جانی اور مالی تعاون کے ذریعے مصروف ہیں ۔ حافظ صاحب کی سوانح عمری میں ان کی اولاد کا بھی کافی حد تک تعارف آگیا ، اسی طرح اپنے والد اور جد امجد کی وفات پر لکھ گئی تاثراتی تحریروں سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک نیک شخصیت کی تربیت ، اخلاص اور رزق حلال کا اثر اگلی نسلوں میں کس طرح منتقل ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی حافظ محمد دین صاحب پر رحمتوں کی برکھا برسائے ، اور ان کے اخلاف کو ان کا مشن آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
......
خواہش تھی کہ اس اہم سوانح عمری کو پی ڈی ایف کی شکل میں انٹرنیٹ پر آنا چاہیے ، بہت زیادہ خوشی ہوئی یہ دیکھ کر محدث لائبریری کی طرف سے یہ کتاب اپریل 2015ء سے ہی قارئین کی خدمت میں پیش کردی گئی ہے ۔
Last edited: