• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حامد کمال الدین صاحب کا عقیدہ و منہج

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
السلام علیکم
حامد کمال الدین، پروفیسر حافظ سعید صاحب کے بھائی، ایک فاضل، متحرک، دیندار، متقیم مخلص اور درد دین رکھنے والے قابل شخص ہیں۔ ایقاظ کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں اور اس کے تحت کئی ایک علمی اور تربیتی ورکشاپس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ کچھ سلفی نوجوان بھی ان کے ساتھ ان کے اس دعوتی اور علمی کام میں شریک ہیں۔

ایک تھریڈ میں ان کے منہج کے بارے بحث چل پڑی تو مناسب سمجھا گیا کہ یہاں ان کے منہج کے بارے ایک علیحدہ تھریڈ قائم کر دیا جائے۔ جو شرکا بھی اس بحث میں حصہ لینے چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ تحمل، بردباری، برداشت اور عدل سے کام لیتے ہوئے کسی کے بارے بات کریں۔ کسی سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صد فی صد اس کی تمام باتیں ہی غلط ہوتی ہیں۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرتے ہوئے جو تجزیہ کیا جاتا ہے، اس میں فرق مخالف کی طرف سے قبولیت کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

بلاشبہ یہاں حقیقی بھائیوں مثلا حافظ سعید صاحب اور حامد کمال الدین صاحب کے مناہج کا اختلاف بھی سامنے آئے گا لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے، کہ یہ دونوں حضرات سلفی اور امت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ لہذا نقد کرتے ہوئے شدید نکیر یا ذاتی طعن و تشنیع کی بجائے فکر کی غلطی واضح کی جائے۔ چاہے یہ غلطی واضح کرنے والے حامد کمال الدیں صاحب کے ساتھی ہوں یا حافظ سعید صاحب کی فکر سے متفق۔ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ ہم اس وقت مختلف مناہج پر کام کرنے والی جماعتوں مثلا جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، حزب التحریر، طالبان تحریک پاکستان، جماعۃ الدعوۃ، تبلیغی جماعت اور ادارہ ایقاظ وغیرہ پر کھلے دل و دماغ سے بحث کریں۔ ہم انہیں اوائڈ اس لیے نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارا نوجوان آج عملی طور ان مناہج اورطریقوں کے مطابق تبدیلی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور ایسے نوجوان بلاشبہ ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں اور ان نوجوانوں میں سلفی نوجوانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ یہاں مسئلہ صرف ایک دوسرے کو خوارجی، مرجئہ، قطبی، اسراری، مودودی، لشکری وغیرہ کا طعنہ دینے سے حل نہیں ہو گا بلکہ علمی بنیادوں پر افہام و تفہہیم ہی ہمیں ایک ایسے صحیح منہج کی طرف رہنمائی فراہم کر سکتی ہے کہ جس پر عمل کی صورت میں دنیا میں کوئی اسلامی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں مذہبی طبقوں میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو متحرک ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو علمی ہیں اور تحریکی نہیں ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ کچھ درس و تدریس یا دعوتی نوعیت کے کاموں میں مشغول ہیں۔ علما کی اکثریت عموما تعلیم و تعلم سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں میدان ہیں اور ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ تعلیم و تحریک دو مستقل شعبے ہیں جنہیں ان کے اصحاب نے سنبھالا ہوا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کی اہمیت مسلم ہے۔ تحریکیوں کا علما کو جمود کا طعنہ دینا اور علما کا تحریک ہی کو خلاف اسلام قرار دینا، میرے خیال میں دونوں انتہائیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں ذہن میں تھیں۔ مزید بھائی اس پر مزید تھریڈز میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تقریبااسی موضوع پر راقم الحروف نے یہ تحریر لکھی تھی

]دین کی خدمت پر جھگڑامت کیجئے

خدانے ہرانسان کو الگ صلاحیتوں،طبائع اوردلچسپیوں سے نوازاہے۔ہرایک کی خواہش ،سوچنے سمجھنے کا انداز،رہنے سہنے کا ڈھنگ ،جینے کا طورطریقہ اورزندگی گزارنے کارنگ ایک دوسرے سے الگ ہوتاہے۔کوئی بھی انسان مکمل طورپر ایک دوسرے جیسانہیں ہوتاکہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی فرق ضرور رہتاہے۔شکل ایک سی ہوگی تودلچسپیاں الگ ہوں گی۔دلچسپیاں ایک ہیں توزندگی گزارنے کاڈھنگ الگ ہوگا۔اگراس میں موافقت ہے توہاتھ پائوں اورجسم کے نشانات الگ ہوں گے۔یہ کیوں ہے ؟یہ اس لئے کہ انسان کے مابین شناخت ہوسکے۔

ہرشخص جس کے اندردینی حس ہے اورایمانی بیداری ہے وہ چاہتاہے کہ وہ دین کی خدمت کرے،اللہ کے پیغام کو ،اسلام کی تعلیمات کو عام کرے،دین اسلام سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کوروشناس کرائے۔اس میں ہرشخص اپنے مزاج ،صلاحیت واستعداد اورافتادطبع کے اعتبار سے الگ راہ متعین کرتاہے یامتعینہ راہوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کرتاہے۔

مسئلہ اس میں تب پیداہوتاہے جب ایک شخص یہ سمجھتاہے کہ وہ جوکام کررہاہے بس وہی خدمت دین ہے اوراس کے علاوہ اوردوسرے لوگ جوکچھ کررہے ہین وہ وقت کاضیاع ہے۔اس میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ کچھ لوگ غلوسے کام لیتے ہیں اوراپنے طریقے سے کی جانے والی خدمت دین کو دوسرے تمام لوگوں کے طریقے سے افضل اوربرترنہ صرف سمجھناشروع کردیتے ہیں بلکہ دوسروں کواس کی بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی خدمت دین کا یہی طریق کاراختیار کریں۔
اس میں بسااوقات مناظرہ،مجادلہ ،مباحثہ اورمضاربہ (ایک دوسرے کوپیٹنا،شراکت کی اسلامی اصطلاحی نہ سمجھیں ابتسامہ)
ایک مثال ،تبلیغی جماعت والے سمجھتے ہیں کہ خدمت دین توبس وہی کررہے ہیںاس کے علاوہ علماء جوکچھ درس وتدریس کررہے ہیں تویہ دوسرے اورتیسرے درجہ کا کام ہے،علماء یہ سمجھتے ہیں کہ جوکچھ خدمت دین کررہے ہین وہی ایک طریقہ ہے جس سے اسلام زندہ ہوسکتاہے اوردیگر ذرائع سے جوخدمت دین ہورہی ہے وہ لاحاصل اوروقت کاضیاع ہے۔توحید کی دعوت دینے والے سمجھتے ہیں کہ جوکام وہ کررہے ہیں بس اس کے علاوہ خدمت دین اورکچھ نہیں ہے،صوفی باصفاحضرات اپنے ہوحق کو ہی اصل مدارایمان سمجھے بیٹھے ہیں۔اورباقی تمام خدمت دین کے دوسرے شعبے ان کی نگاہ میں ہیچ اورپست ہیں۔پرجوش دینی حمیت رکھنے والے نوجوان جوانٹرنیٹ پر اسلام کے تعلق سے کام کررہے ہیں وہ اپنے کام کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت بتانے سے کبھی نہیں چوکتے اوریہ کہتے نہیں تھکتے کہ علماء کاروایتی دورگزرگیا اوراب خدمت دین وہی ہے جو وہ کررہے ہیں۔
حالانکہ اگرغورکیاجائے اوردیکھاجائے توجس طرح کسی فیکٹری میں ایک پروڈکٹ کی تیاری میں بہت سارے شعبے کام کرتے ہیں اوران تمام شعبوں کا اس پروڈکٹ کی تیاری میں یکساں حصہ ہوتاہے ۔کبھی آپ نے نہ دیکھاہوگا اورنہ سناہوگاکہ کسی فیکٹری کا کوئی شعبہ اپنے کام کو برتراوردوسرے شعبہ کے کام کو ہیچ بتارہاہو۔بس سب اس میں یہی دیکھتے ہیں کہ تنخواہ اورسیلری کہاں زیادہ ہے جہاں زیادہ ہے وہی بہتراورسب سے اچھاہے۔ اسی طرح خدمت دین سے جڑے لوگوں کوبھی دوسروں کے متعلق سوچناچاہئے کہ خدمت دین ایک بہت وسیع اورعظیم الشان کام ہے نہ کوئی ایک فرد اسے تنہاکرسکتاہے اورنہ اس کیلئے صرف ایک ذریعہ اورطریق کار کافی ہوسکتاہے۔اس کیلئے توضروری ہے کہ قدیم اقدارکوبھی باقی رکھاجائے ،جدید ذرائع ووسائل بھی اختیار کئے جائیں۔ تبلیغی جماعت کی طرح لوگوں سے فردافردابھی ملاجائے اورانٹرنیٹ کے ذریعہ غائبانہ طورپر بھی لوگوں کو دین کی باتیں بتائی جائیں۔ درس وتدریس کے ذریعہ افراد کاربھی تیار کئے جائیں۔عقائد اسلامی ہوں اوروہی ہوں جو کتاب وسنت میں مذکور ہیں اس کی فکر بھی ضروری ہے اوراسی کے ساتھ تزکیہ نفس اورذکر وفکر کی بھی اہمیت کم نہیں۔اوراس کے بعد جس طرح کسی کارخانہ میں کام کرنے والے ملازموں کے درمیان اس پر کبھی بات نہیں چھڑتی کہ میں فلاں شعبے میںکام کررہاہوں تم فلاں شعبے میں بلکہ اصل مسئلہ یہ رہتاہے کہ میری تنخواہ اتنی ہے اورتمہاری اتنی۔ اسی طرح دینی کام کرنے والوں کے درمیان بھی اصل فکر اس کی ہونی چاہئے کہ ہم جوکام کررہے ہیں وہ خلوص نیت کے ساتھ خداکیلئے ہواوراللہ اس خدمت دین سے راضی ہوجائے۔

اہمیت اس کی نہیں کہ فلاں علامہ نے بخاری شریف کا اتنے سال درس دیا اورفلاں مولوی صاحب بیچارے پوری زندگی قاعدہ بغدادی پڑھاتے رہے۔اہمیت اس کی ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ رضائے الہی کیلئے کس نے پڑھایا اورعنداللہ کس کاپڑھانا مقبول ہوا۔قاری صدیق صاحب باندوی نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ کل قیامت کے دن بہت سارے بخاری شریف پڑھانے والوں سے زیادہ عنداللہ معزز اورمکرم قاعدہ بغدادی پڑھانے والے ہوں گے کیونکہ انہوں نے خداکی رضاء کیلئے پڑھایاہوگا۔
امام مالک رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی سے شاید ہی کوئی ناواقف ہوگا۔ وہ ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں۔ اورحدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کا پوچھناہی کیاہے۔امام شافعی رضی اللہ عنہ ان کے شاگرد فرماتے ہیں جب علماء کا ذکر ہوتو امام مالک کی مثال ان کے درمیان روشن ستارے کی سی ہے۔
ان کو ان کے دورکے ایک بڑے عابد نے عبادت وریاضت میں وقت لگانے کا اورتعلیم وتعلم کے سلسلہ کو کم کرنے کا مشورہ دیااوراس تعلق سے ایک مکتوب لکھا۔جواب میں امام مالک نے لکھا کہ شخص کی دلچسپیاں الگ ہوتی ہیں اوراستعدادکار الگ ہوتی ہے۔کوئی عبادت وریاضت کی جانب ملتفت ہوتاہے،کسی کوتعلیم وتعلیم کاچسکہ ہوتاہے۔کسی کو حج وزکوٰۃ میں لطف آتاہے اورکسی کیلئے روزہ رکھناہی سب سے مزیدار بات ہوتی ہے۔لہذا میں جوکام کررہاہوں وہ میرے خیال میں آپ کے کام سے کچھ کمتردرجے کا نہیں ہے اورہم دونوں خیرکاکام کررہے ہیں۔
قال الحافظ ابن عبدالبر فی التمہید ھذا کتبتہ من حفظی وغاب عنی اصلی:ان عبداللہ العمری العابدکتب الی مالک یحضہ علی الانفراد والعمل ،فکتب الیہ مالک:ان اللہ قسم الاعمال کماقسم الارزاق،فرب رجل فتح لہ فی الصلا،ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الصدق ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الجھاد فنشرالعلم من افضل اعمال البر،وقدرضیت بمافتح لی فیہ،ومااظن ماانافیہ بدون ماانت فیہ،وارجو ان یکون کلانا علی خیروبر(سیراعلام النبلا،مالک الامام 8/114)
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام و علیکم..
اور ایک بات میں یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حامد کمال دین خود بھی قطبی فکر کے حامل ہیں اوراس فکر کی دوسری تحاریک کے لئے پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں. مجھے دین کی خدمت سے کوئی اعتراض نہیں،اگر واقع ہی وہ دین خدمت کہلانے کی حق دار ہو بلکہ میرا نقطہ اعتراض یہ ہے کہ کیا اس امت کی اصلاح علماء امت کریں گے یا یہ فریضہ اب فلسفیوں کے حصے آنا ہے؟؟ کیا اصلاح اس نہج پر ہوگی کہ جو سلف صالحین کا منہج تھا یا جدت کی وجہ سے عصر حاضر میں مرتب کردہ نئے فکری معجونوں ، طریقوں اور فارمولوں پر؟؟
میں یہاں جناب حامد کمال صاحب کے مضمون سے ایک اقتباس پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ:

کہ حامد کمال الدین صاحب کا منہج......... شجر سلف سے پیوستگی ہے یا شجر سلف میں پیوند؟؟؟؟؟
کیا موجودہ القاعدہ جہاد اب بھی سلفی جہاد ہے....... یا قطبیت کی پتیلی پر سلفیت کی ملمعہ کاری کا حسین امتزاج؟؟؟


لیجئے. حامد صاحب کے قلم سے::

""ہماری تاریخ جو کوئی صدی بھر سے رک سی گئی تھی اور ایک کھڑے پانی کا نقشہ پیش کرنے لگی تھی.... اور پھر کھڑے پانی کے اِس جوہڑ میں طرح طرح کی مخلوقات جنم لے چکی تھیں.. کہیں نیشنلزم تو کہیں ڈیموکریسی، کہیں اشتراکیت تو کہیں لادینیت، کہیں لسانیت تو کہیں فرقہ واریت، کہیں پرویز مشرف تو کہیں حسنی مبارک، کہیں یحییٰ تو کہیں بھٹو تو کہیں مجیب، کہیں کرزئی تو کہیں مالکی تو کہیں قذافی تو کہیں زرداری تو کہیں گیلانی، اور علیٰ ھٰذا القیاس ایسی ہی 'ملتی جلتی' اور 'بَعضُہا مِن بَعض' مخلوقات جن کا کوئی اول اور نہ آخر، کوئی حد اور نہ حساب.... اور اِس بدبودار متعفن جوہڑ کو لوگ 'عالم اسلام' کے نام سے پکارنے لگ گئے تھے!

إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ

رضا البنا مودودی قطب اِس کو صاف کرنے اور اس کی صورت بدلنے کیلئے بہت سی نیک ہستیاں میدان میں اتریں.... رشید رضا، البنا، مودودی، قطب،ابن نبی، اربکان، یاسین، بیگوویچ، سب نے "تبدیلی" اور "صفائی" کے اِس عمل میں جانیں کھپائیں اور ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر عالم اسلام کے ہر خطے کے اندر ایک ایسی جمعیت کھڑی کر لینے میں کامیابی پائی جو عالم اسلام میں مغرب کی پھینکی ہوئی اس گندگی اور غلاظت کو صاف کرنے کے مشن پر جت جائے۔ ( إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ )۔ یہ ہماری تاریخ کی بحالی کا عمل تھا اور اپنی ایک دھیمی رفتار سے جاری تھا، البتہ اِن آخری عشروں تک آتے آتے، خصوصاً حالات کی تیزی کی نسبت سے، یہ ایک حد تک مایوسیوں کی سطح کو بھی چھونے لگا تھا۔

ابن تیمیہ و ابن عبد الوہاب کا دھارا مگر جیسے ہی اِس تحریکی عمل کا ٹانکہ محمد بن عبد الوہاب کے تحریکی ورثہ کے ساتھ جڑا، یہ ایک نئی کروٹ لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور.... ایک طرف عوامی رو کی صورت دھارنے لگا، تو دوسری طرف جہادی رنگ اختیار کرنے لگا، اور تیسری طرف اِس کی لغت کچھ مستند شرعی اصطلاحات کے ساتھ سجنے لگی؛ اور یوں اپنی تاریخ کے

مجمع البحرین ساتھ جڑنے کا رنگ اِس کے اندر گہرا سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ گویا مودودی و قطب کا دھارا، ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب کے دھارے کے ساتھ آ ملا تھا۔ یہ مجمع البحرین تھا اور عالم اسلام میں اپنی طرز کی ایک منفرد ترین پیشرفت!

عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا اِس عمل کا ابتدائی حصہ اُس دوران پایۂ تکمیل کو پہنچا جب مغرب سرخ سویرے کے آگے بند باندھنے میں مصروف تھا، بلکہ اس کیلئے مسلم بلاک کو کھڑا کرنے کا خطرہ مول لینے تک چلا گیا تھا! بنی اسرائیل ایسی جفاکش لیبر آلِ فرعون کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو پیدائش ِ موسیٰ ایسا واقعہ پیش آنے ہی نہ دیا جاتا! مگر کائنات کا توازن کسی اور ہستی کے ہاتھ میں ہے! عالم اسلام میں "تبدیلی" اور "صفائی" کا یہ عمل اب مغرب کیلئے سوہانِ روح تھا اور اس کے اندر اپنی موت کا پیغام پڑھنے میں اُس کو ہرگز کوئی دیر نہ لگی۔""

(ایقاظ شمارہ : جولائی 2٠١١ مضمون " وہ اپنی مثال آپ تھا")


اس کے بعد میں اپنے پاس مزید وقت نہیں پاتے اس مناہج کے معجون کے لئے!

جزاک اللہ خیرا

السلام و علیکم
 

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
ابو الحسن علوی اور جمشید دونوں بھائیوں کی باتوں سے بالکل متفق ہوں، بحث علمی انداز میں ہونی چاہیے اور اس کا مقصد افہام و تفہیم ہونا چاہیے.

حامد صاحب کا منہج یہی ہے کہ یہ ساری تنظیمیں جو اقامت دین کا کام اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کر رہی ہیں اور کہیں جزوی تو کہیں فاش غلطیوں تک کی بھی مرتکب ہیں، لیکن یہ سب اتے بہرحال اہل سنت ہی کے دائرئے میں ہیں، ضرورت بس اس بات کی ہے کہ ان کے خود کو کل سمجھنے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے تضاد کو ختم کیا جائے تاکہ یہ ایک تنوع میں بدل جائے اور اس سے امت کا اجتماعی فائدہ بہت زیادہ ہو گا. اور وہ توانائیاں جو آپس میں ایک دوسرے پر خرچ ہو رہی یں ان کا رخ کفر کی طرف مڑ جائے گا.

اور تکفیری ہونے کا الزام تو ::

تکفیری کون ہوتے ہیں؟؟ کیا تعریف ہے ان کی؟؟

حامد صاحب کے تکفیری ہونے کے ثبوت.

یہ دونوں باتیں الزام لگانے والے کے ذمے ہیں. تعریف کریں اور دلائل سے ثابت فرما دیں، بات ختم

..............................................

اور چونکہ یہ بات ابن بشیر الحسینوی بھائی کے استفسار پر شروع ہوئی تھی تو انہیں میں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس لنک پر موجود حامد صاحب کی کتابوں کے صرف عنوانات دیکھ لیں::
مطبوعات ایقاظ

خاص طور پر ۛۛ::
آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟

دور اول کے سلف اور زمانہ آخر کےاکابرین

منہج سلف کو لازم پکڑنا.

والسلام
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
١:ہر دین کا کام کرنے والا خراج تحسین کا مستحق نہیں ہوتا !
٢:اور ہر مجتہد سے غلطی اور صواب ہوتا رہتا ہے !
٣:نام دین کا لے کر جو کوئی مرضی کرتا پھرے درست نہیں ہوتا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نکتہ پر ہم کیوں غور نہیں کرتے کہ

١:دین کے کام کے نام سے دین کا حلیہ بگاڑنے والوں کی ایک مستقل تاریخ ہے جس میں بہت زیادہ لوگوں نے دین کا نام استعمال کیا ہے اور حقیقت میں ان کی ناکام سعی رہی ہے کہ دین کا حلیہ بگاڑا جائے ،کیا ایسا نہیں ہوا ؟
٢:مجتہد بنے بغیر غلطیاں کرنے والا ثواب نہیں بلکہ گناہ ہی ہوتا ہے !کیونکہ مجتہد اساتذہ سے پڑھنے کے بعد ،محدثین کے منھج کو لازم پکڑنے کے ساتھ اور قرآن وحدیث کی اصلی اور حقیقی شکل میں کام کرنے کے بعد مجتہد کے درجہ پر ہوتا ہے ،ایسے ہر کسی کو شیخ الاسلام سمجھنے لگ جانا حالانکہ اس کی راہ درست نہ ہو !ٹھیک نظر نہیں آتا!
٣:دین اسلام کو جو بھی لوگوں نے نقصان پہنچایا اللہ کی قسم !علماء کا روپ دھار کر ہی پہنچایا ہے ،اگر حامد کمال الدین صاحب کے متعلق بات چل نکلی ہے تو انصاف کو لازم پکڑتے ہوئے بات کی جائے غلط کو درست کہنے سے گناہ کی تائید اور دین کا حلیہ بگاڑنے والے کی حمایت ہوتا ہے ،جبکہ اسلام کا منشا یہ نہیں کہ غلط بندے کی تائید کرو بلکہ غلط کو غلط کہا جایے یہ اسلام کا ایک سنہری اصول ہے ،
اس لئے ہم پر فرض ہے کہ جتنے لوگ بھی اسلام کی دین کے نام پر نقصان دین کا سبب بن رہے ہیں ان کی نشان دہی کی جائے تاکہ لوگ ان کے نقطہ نظر سے بچیں ۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر انسان کسی آدمی منھج میں غلط اور صحیح کی نشان دہی کرنے کا اہل بھی نہیں ہوتا ،جو ہم نے دیکھا ہے کہ جب کسی سے عقیدت ہو جاتی ہے تو اس کی باطل باتیں اور کفریہ نظریات بھی بھی دین اسلام نظر آنے لگتے ہیں !جس سے اسلام کو نقصان ہوا ہے اور ہورہا ہے ۔
افسوس کہ بعض لوگ ہم میں تساہل کا شکار ہیں اور غلط کو غلط کہا جائے تو بڑی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان میں اچھی باتیں بھی ہیں !!
ہر شخص میں کچھ اچھی باتیں ضرور ہوتی ہیں خواہ وہ جتنا مرضی گمراہ شخص کیوں نہ ہو ۔
جن کے بھائیوں کے نزدیک حامد کمال میں اچھی باتیں بھی ہیں اس کا کسی کوانکار نہیں ہے یہ وصف ہر انسان میں ہوتا ہے اچھی بات وہ ہوتی ہے جو قرآن و حدیث کی تائید و حمایت میں ہو اور دین اسلام کے تحت کہی جائے کیونکہ قرآن دین اسلام کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور ہر اچھائی اس میں موجود ہے ،
جو حامد کمال الدین میں غلط باتیں ہیں یہ تو فرض ہے ہر کسی پر کہ وہ بیان کرے تاکہ مسلمان ان کے غلط نظریات سے محفوظ ہو سکیں ۔لیکن یہ بیان نہیں کرتے بلکہ صرف دفاع کرتے ہیں جس سے ان کے باطل نظریات کی تائید بھی ہوتی ہے!
آخری گزارش!
محترم ابوالحسن علوی بھائی
بابر بروسا بھائی
اور ہروہ شخص جو ان کی حمایت کرنے والا ہے !
جو باتیں اور نظریات حامد کمال الدین میں غلط اور گمراہ کن ہیں وہ بیان کریں !
آخری گزارش!
محترم ابوالحسن علوی بھائی
بابر بروسا بھائی
اور ہروہ شخص جو ان کی حمایت کرنے والا ہے !
جو باتیں اور نظریات حامد کمال الدین میں غلط اور گمراہ کن ہیں وہ بیان کریں !
آخری گزارش!
محترم ابوالحسن علوی بھائی
بابر بروسا بھائی
اور ہروہ شخص جو ان کی حمایت کرنے والا ہے !
جو باتیں اور نظریات حامد کمال الدین میں غلط اور گمراہ کن ہیں وہ بیان کریں !
بطور تاکید تین بارپیسٹ کیا ہے کہ امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائیں اور ان کی غلط باتیں ضرور واضح کریں ۔بارک اللہ فیکم
امید ہے احباب غلط بوتوں کی نشان دہی ضرور کریں گے
اور میں اعلانیہ طور پر کہتا ہوں کہ جس کو میری کسی بات سے بو آئے یا وہ قرآ ن وحدیث کے خلاف ہو اس کا رد کرے !امت کو بتلائے کہ ابن بشیر الحسینوی کی فلاں بات غلط ہے ۔
کیونکہ ہم کسی کی غلط بات پر خاموشی اختیار کریں تو یہ گناہ کا ارتکاب کریں گے ۔

اس لئے حامد کمال الدین کی غلط او گمراہ کن نظریات کے متعلق ہماری رہنمائی فرمائیں ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
محترم ابن بشیر بھائی !
حامد کمال الدین صاحب کی جو بات غلط ہے، وہ ہم پہلے ہی اس فورم میں بیان کر چکے ہیں اور تقریبا شاید تین ماہ پہلے۔ میرے توحید حاکمیت اور تکفیر والے مضمون میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مزید یہاں بھی لگا رہا ہوں :

تیسرا سلفی گروہ
تکفیر کے مسئلے میں تیسرا موقف ادارہ 'ایقاظ' کا ہے جس کے سرپرست پروفیسر حافظ سعید صاحب کے بھائی حامد کمال الدین صاحب ہیں۔ ادارہ ا'یقاظ' کا کہنا ہے :

١۔ کہ تکفیر کرتے وقت حکمرانوں اور عوام الناس میں فر ق ہو گا ۔ حکمرانوں کی تو تکفیر ہو گی لیکن عوام الناس کی تکفیر نہ ہو گی اور عوا م الناس کی تکفیر نہ کرنے کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ 'جماعة التکفیر' بن جائیں گے اور مصلحت اسی میں ہے کہ عوام الناس کی تکفیر نہ کی جائے۔

٢۔ حکمرانوں کی تکفیر کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کی مطلقاً تکفیر ہوگی اور یہ مطلق تکفیر ہر کوئی کر سکتا ہے۔ وہ حکمرانوں کی معین تکفیر کے بھی قائل ہیں لیکن اس کے لیے مستند علماء کی جماعت کے فتاوی کی طرف رجوع کے قائل ہیں ۔ (اداریہ 'سہ ماہی ایقاظ' جنوری ٢٠١٠ء)

٣۔ حکمرانوں کی مطلق تکفیر میں ادارہ ایقاظ کے بقول وہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی اس رائے کے قائل ہیں کہ جس کے مطابق مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنا یا ان کا نفاذ ہی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بن جاتا ہے ' چاہے ایسا کرنے والا اس کو حلال یا جائز سمجھتاہو یا نہ۔

٤۔ ادار ہ 'ایقاظ' کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں اور ان کی تقلید کے داعی بھی ہیں۔اس مکتب فکر کی نمایاں ترجمان ايقاظ نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس فکر سے متعلق بہت مواد موجود ہے۔

عقل و منطق کی روشنی میں اصل موقف دو ہی بنتے ہیں یا تو وہ جسے ادارہ 'موحدین' پیش کر رہا ہے کہ اگر کافر ہیں تو حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہر قسم کے معاونین بھی کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ جس طرح غیر شرعی قوانین وضع کرنے والے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے والے طاغوت ہیں تو ان عدالتوں سے فیصلے لینے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' میں شامل ہونے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں؟ یا پھردوسرا موقف سعودی علماء کا ہے جو حکمرانوں اورعوام الناس دونوں کو فاسق و فاجر شمار کرتے ہیں اور سعودی سلفی علماء کا یہ موقف ادارہ 'أصلی اہل سنت' پیش کرر ہا ہے ۔

جہاں تک اس تیسرے موقف کا تعلق ہے کہ حکمرانوں اورعوام الناس میں فرق کیا جائے اور عوام الناس کو تکفیر سے بچایا جائے تو یہ عقل و منطق سے بالاتر بات ہے۔ جب اللہ کی شریعت کے بالمقابل وضعی قوانین بنانے والے حکمران کافر ہیں تو ان وضعی قوانین کو پاس کرنے والی اسمبلیاں ' اور ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام الناس اور ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدالتیں اور ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ لینے والے عوام الناس اور ان وضعی قوانین کا نفاذ کرنے والے سیکورٹی فورسز کے ادارے اوران وضعی قوانین کی حفاظت کی خاطر جان قربان کرنے والی افواج پاکستان کیسے مسلمان ہو سکتی ہیں؟

ادارہ ایقاظ کی تکفیر کی بحث میں دوسرے نکتے کے بارے ہم یہ کہیں گے کہ ان کی طرف سے تکفیر مطلق اور تکفیر معین میں فرق کا یہ پہلو ایک قابل تعریف أمرہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پہلو کے اجاگر کرنے سے اصول تکفیر کا غلط استعمال بہت حد تک کنٹرول میں آ جاتا ہے۔
تیسرے نکتے کے بارے ہم مفصل بحث سابقہ صفحات میں کر چکے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اپنی اس رائے اور فتوی سے رجوع کر چکے ہیں کہ بغیرعقیدے کے مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے سے ہی کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی شیخ کے فتوی کے بارے سلفی علماء کے چاررجحانات ہم نقل کر چکے ہیں۔

چوتھے نکتے کے بارے ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادارہ' ایقاظ' کا اگرچہ دعوی تو یہی ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں لیکن یہ تقلید کچھ ایسی ہے کہ ادارہ 'ایقاظ' سابقہ علماء (مثلاً شیخ عبد الوہاب )کی عمومی نصوص کو پکڑ لیتا ہے اور پھر ان نصوص کی تشریح اور ان کا اطلاق اپنے فہم کی روشنی میں کرتا ہے اور اسے سلفی موقف قرار دے کر اس کی تقلید کی ہر کسی کو دعوت دے رہا ہے۔ اگر برا نہ منایا جائے تو یہ درحقیقت ادارہ 'ایقاظ' کی تقلید ہے نہ کہ سلفی علماء کی ۔ معاصر سعودی علماء ہی شیخ عبد الوہاب رحمہ اللہ کے حقیقی جانشین ہیں اور ان کبار علماء مثلا ً شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین' شیخ صالح الفوزان' علامہ ألبانی' شیخ عبد العزیزبن عبد اللہ آل الشیخ' شیخ عبد العزیز الراجحی' شیخ عبد المحسن العبیکان ا ور ہئیة کبار العلماء میں سے میں سے کوئی بھی معاصرمسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتا ۔ ہاں! القاعدہ اور جہادی سلفی علماء یہ تکفیر ضرور کرتے ہیں۔

دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ سعودی علماء تو تارک صلاة کو بھی حقیقی کافر شمار کرتے ہیں علاوہ ازیں توحید الوہیت کی بنیاد پر عمومی تکفیر کا جس قدر زور ان علماء کے فتاوی میں نظر آتا ہے وہ توحید حاکمیت کی نسبت سے بہت ہی کم ہے۔ لیکن ادارہ 'ایقاظ 'سعودی علماء کے توحید الوہیت یا تارک صلاة کے بارے تکفیر کے صریح اور دوٹوک موقف کی بنیاد پر پاکستان میں تکفیر کاقائل نہیں ہے۔ اگر تو تقلید کا یہ معنی ہے کہ مقلد نے اپنی مرضی کے علماءمثلاً شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین اور علامہ ألبانی کی بجائے شیخ محمدبن ابراہیم رحمہم اللہ کی اور اپنی مرضی کے فتاوی مثلاً تارک صلاة کی بجائے حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلہ میں ان علماء کی تقلید کرنی ہے تو یہ اجتہاد کی ایک قسم ہے نہ کہ تقلید۔ اور ایسے علماء کو فقہاء کی اصطلاح میں أصحاب ترجیح کہتے ہیں اور عموماً علماء أصحاب ترجیح کو مجتہدین میں ہی شمار کرتے ہیں۔اگر تو ادارہ 'ایقاظ' پاکستان کی جماعت اہل الحدیث کی طرح عدم تقلید اور اجتہاد کا دعویدار ہوتا تو ہمیں یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہ تھا لیکن ایک طرف جب وہ پاکستانی اہل حدیث کبار علماء کی بجائےسعودی کبار علماء کی تقلید کے دعویدار ہیں اور پاکستانی اہل الحدیث کو بھی حنبلی فقہ کی اتباع کی دعوت دیتے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پاکستان میں کسی کو ایسا عالم دین ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ جو قابل اتباع ہو تو پھر ان پر یہ اعتراض لازم طور پر وارد آتا ہے کہ وہ خود فقہ حنبلی کے جمہور علماء کے متبع نہیں ہیں تو دوسروں کو اس کی دعوت کیسے دے رہے ہیں؟ (١٧)

مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ اگرادارہ ایقاظ واقعتاً حنبلی علماء کی تقلید کا قائل ہے تو کبار حنبلی علماء مثلا ھیئة کبار العلما وغیرہ کی خدمت میں تکفیر سے متعلق اپنا فکر تفصیلی طور پر پیش کر کے اس کے بارے تائیدی فتوی حاصل کرے اور پھر وہ یہ دعوی کرے کہ وہ حنبلی علماء کا مقلد ہے تو یہ دعوی فی الواقع درست ہو گا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادارہ ایقاظ سلفی العقیدہ فاضل' قابل 'مخلص ' دیندار اور تحریکی جذبے کے حامل افراد پر مشتمل ہے اور اگر یہ ادارہ اپنی صلاحیتیں مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلے ہی کے لیے وقف کرنے کی بجائے کسی قدر مسلمان معاشروں کی اصلاح اور تعمیری کام پر لگائے تو اس معاشرے میں ایک بڑا انقلاب برپا کر سکتا ہے اور میں ذاتی طور پر حامد کمال الدین صاحب کے جذبے اور عمل سے متاثر ہوں لیکن عمل وتحریک سے پہلے فکر کی درستگی ایک لازمی امر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اس کام کے لیے وقف کرے کہ جس کے لیے اس نے انبیاء کو مبعوث کیا ہے۔ آمین!
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
محترم ابوالحسن علوی بھائی اس تھریڈ میں جو بیان ہوا ہے کیا یہ بھی ان کے منھج میں غلطی
ہے۔
السلام و علیکم..
اور ایک بات میں یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حامد کمال دین خود بھی قطبی فکر کے حامل ہیں اوراس فکر کی دوسری تحاریک کے لئے پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں. مجھے دین کی خدمت سے کوئی اعتراض نہیں،اگر واقع ہی وہ دین خدمت کہلانے کی حق دار ہو بلکہ میرا نقطہ اعتراض یہ ہے کہ کیا اس امت کی اصلاح علماء امت کریں گے یا یہ فریضہ اب فلسفیوں کے حصے آنا ہے؟؟ کیا اصلاح اس نہج پر ہوگی کہ جو سلف صالحین کا منہج تھا یا جدت کی وجہ سے عصر حاضر میں مرتب کردہ نئے فکری معجونوں ، طریقوں اور فارمولوں پر؟؟
میں یہاں جناب حامد کمال صاحب کے مضمون سے ایک اقتباس پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ:

کہ حامد کمال الدین صاحب کا منہج......... شجر سلف سے پیوستگی ہے یا شجر سلف میں پیوند؟؟؟؟؟
کیا موجودہ القاعدہ جہاد اب بھی سلفی جہاد ہے....... یا قطبیت کی پتیلی پر سلفیت کی ملمعہ کاری کا حسین امتزاج؟؟؟


لیجئے. حامد صاحب کے قلم سے::

""ہماری تاریخ جو کوئی صدی بھر سے رک سی گئی تھی اور ایک کھڑے پانی کا نقشہ پیش کرنے لگی تھی.... اور پھر کھڑے پانی کے اِس جوہڑ میں طرح طرح کی مخلوقات جنم لے چکی تھیں.. کہیں نیشنلزم تو کہیں ڈیموکریسی، کہیں اشتراکیت تو کہیں لادینیت، کہیں لسانیت تو کہیں فرقہ واریت، کہیں پرویز مشرف تو کہیں حسنی مبارک، کہیں یحییٰ تو کہیں بھٹو تو کہیں مجیب، کہیں کرزئی تو کہیں مالکی تو کہیں قذافی تو کہیں زرداری تو کہیں گیلانی، اور علیٰ ھٰذا القیاس ایسی ہی 'ملتی جلتی' اور 'بَعضُہا مِن بَعض' مخلوقات جن کا کوئی اول اور نہ آخر، کوئی حد اور نہ حساب.... اور اِس بدبودار متعفن جوہڑ کو لوگ 'عالم اسلام' کے نام سے پکارنے لگ گئے تھے!

إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ

رضا البنا مودودی قطب اِس کو صاف کرنے اور اس کی صورت بدلنے کیلئے بہت سی نیک ہستیاں میدان میں اتریں.... رشید رضا، البنا، مودودی، قطب،ابن نبی، اربکان، یاسین، بیگوویچ، سب نے "تبدیلی" اور "صفائی" کے اِس عمل میں جانیں کھپائیں اور ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر عالم اسلام کے ہر خطے کے اندر ایک ایسی جمعیت کھڑی کر لینے میں کامیابی پائی جو عالم اسلام میں مغرب کی پھینکی ہوئی اس گندگی اور غلاظت کو صاف کرنے کے مشن پر جت جائے۔ ( إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ )۔ یہ ہماری تاریخ کی بحالی کا عمل تھا اور اپنی ایک دھیمی رفتار سے جاری تھا، البتہ اِن آخری عشروں تک آتے آتے، خصوصاً حالات کی تیزی کی نسبت سے، یہ ایک حد تک مایوسیوں کی سطح کو بھی چھونے لگا تھا۔

ابن تیمیہ و ابن عبد الوہاب کا دھارا مگر جیسے ہی اِس تحریکی عمل کا ٹانکہ محمد بن عبد الوہاب کے تحریکی ورثہ کے ساتھ جڑا، یہ ایک نئی کروٹ لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور.... ایک طرف عوامی رو کی صورت دھارنے لگا، تو دوسری طرف جہادی رنگ اختیار کرنے لگا، اور تیسری طرف اِس کی لغت کچھ مستند شرعی اصطلاحات کے ساتھ سجنے لگی؛ اور یوں اپنی تاریخ کے

مجمع البحرین ساتھ جڑنے کا رنگ اِس کے اندر گہرا سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ گویا مودودی و قطب کا دھارا، ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب کے دھارے کے ساتھ آ ملا تھا۔ یہ مجمع البحرین تھا اور عالم اسلام میں اپنی طرز کی ایک منفرد ترین پیشرفت!

عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا اِس عمل کا ابتدائی حصہ اُس دوران پایۂ تکمیل کو پہنچا جب مغرب سرخ سویرے کے آگے بند باندھنے میں مصروف تھا، بلکہ اس کیلئے مسلم بلاک کو کھڑا کرنے کا خطرہ مول لینے تک چلا گیا تھا! بنی اسرائیل ایسی جفاکش لیبر آلِ فرعون کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو پیدائش ِ موسیٰ ایسا واقعہ پیش آنے ہی نہ دیا جاتا! مگر کائنات کا توازن کسی اور ہستی کے ہاتھ میں ہے! عالم اسلام میں "تبدیلی" اور "صفائی" کا یہ عمل اب مغرب کیلئے سوہانِ روح تھا اور اس کے اندر اپنی موت کا پیغام پڑھنے میں اُس کو ہرگز کوئی دیر نہ لگی۔""

(ایقاظ شمارہ : جولائی 2٠١١ مضمون " وہ اپنی مثال آپ تھا")


اس کے بعد میں اپنے پاس مزید وقت نہیں پاتے اس مناہج کے معجون کے لئے!

جزاک اللہ خیرا

السلام و علیکم
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0
ہمارے ہاں مذہبی طبقوں میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو متحرک ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو علمی ہیں اور تحریکی نہیں ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ کچھ درس و تدریس یا دعوتی نوعیت کے کاموں میں مشغول ہیں۔ علما کی اکثریت عموما تعلیم و تعلم سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں میدان ہیں اور ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ تعلیم و تحریک دو مستقل شعبے ہیں جنہیں ان کے اصحاب نے سنبھالا ہوا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کی اہمیت مسلم ہے۔ تحریکیوں کا علما کو جمود کا طعنہ دینا اور علما کا تحریک ہی کو خلاف اسلام قرار دینا، میرے خیال میں دونوں انتہائیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں ذہن میں تھیں۔ مزید بھائی اس پر مزید تھریڈز میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم علوی صاحب انتہائی احترام کے ساتھ عرض ہے
کہ تحریک قرآن و حدیث کی روشنی میں ہونی چاہئے نہ ایجنسیوں کی روشنی میں ،افسوس ہے ان علماء پر جو تحریکوں کو چلا رہے ہیں اور حقیقت میں ایجنسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔وہ تحریک خاک تبدیلی لائے گای جن کے نظریات قرآن و حدیث کے خلاف ہوں ،کیا تحریک بنا کر تکفیر کو اپنا لینا دینی خدمت ہے !!؟
درس و تدریس ہی اصل تحریک ہیں اسی سے انقلاب آتا ہے ۔اور ان کی بنیاد کوئی غلط منھج نہیں ہوتا ۔
آپ کے بقول :ایک وہ جو متحرک ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور یہ مختلف تحریکوں سے وابستہ ہیں۔۔[/HL]
حامد کمال الدین صاحب نے کیا تبدیلی لائی ہے ؟!
لوگوں میں نیا دین متعارف کروانا اور فتنہ تکفیر اور غلط نظریات کو ہوا دینا اس کو آپ تبدیلی کہہ رہے ہیں ۔فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
 
Top