• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاملہ عورت کے احکام

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
حاملہ عورت کے احکام


(عبادات)
حادیث اور فقہ کی کتابوں میں حاملہ عورت کے احکام دوسرے مسائل کے ساتھ مندرج ملتے ہیں مگر ان احکام کو ایک عنوان کے تحت مرتب کرکے افادہ عام کیلئے یہ ترتیب پہلی مرتبہ مجلہ ’الحکمۃ‘ میں ’یحی بن عبدالرحمن الخطیب‘ کے قلم سے شائع ہوئی ہیں۔ ایقاظ نے اس مختصر کتابچے کا ترجمہ سلسلہ وار شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے، جسے بعد میں کتابچے کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔

طہارت: حاملہ عورت کے خون جاری ہونا
حمل کے دوران میں مہبل سے خون جاری ہونے میں اہل علم کے ہاں چند تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں مختلف حالات میں آپ اُس صورت کے مطابق حکم جاری فرما دیتے تھے۔ بعد میں جملہ احادیث کو سامنے رکھ کر علمائے کرام اور ائمہ عظام نے جو احکام استنباط کیئے ہیں اُن کی تفصیل یوں ہے۔ علماءکرام کا ایک فریق حمل کے دوران میں مہبل سے جاری ہونے والے خون کو بھی حیض کا قائم مقام قرار دیتا ہے۔ اور حیض کے احکام بشمول ترک نماز یہاں لاگو کرتے ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہی فرماتے ہیں۔ اُن کی دلیل سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ (آیت 222)
وہ فرماتے ہیں کہ پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے؟ کہہ دو وہ ایک گندگی (ناپاکی) کی حالت ہے (تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ) اس مدت میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ“۔
اِس آیت مبارکہ میں مطلق حیض کا ذکر ہے، جو کسی وقت بھی خارج ہو سکتا ہے خواہ عورت حمل سے ہو یا بغیر حمل کے۔ اِسی طرح فاطمہ بنت ابی حبیش سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اذا کان دم الحیضۃ فانہ دم اسود یعرف) اگر سیلان رحم حیض کی وجہ سے ہو تو ایسا خون سیاہی مائل ہوتا ہے۔ (تجربہ کار عورتوں کی مدد سے) حیض والا خون بہ آسانی پہچانا جاتا ہے۔
آپ کے اس فرمان میں بھی کہیں تذکرہ نہیں ہے کہ سیلان رحم حمل کے ساتھ نہیں ہوتا۔
اسی طرح اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا کہ حاملہ عورت کے خون جاری ہو جائے تو کیا وہ نماز پڑھتی رہے؟ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا: (لا تصلی حتی یذھب عنہا الدم) نہیں، جب تک خون جاری رہتا ہے عورت نماز نہ پڑھے۔
علاوہ ازیں ائمہ کرام کی یہ رائے اس اصول پر ہے کہ عام حالات میں بالغ عورت کا خون جب حیض کی طرح گاڑھا سیاہی مائل بدبودار ہو تو وہ حیض ہی سمجھا جائے گا جس طرح دودھ پلانے والی عورت کو حیض آسکتا ہے، اُسی طرح حاملہ کو بھی حیض آسکتا ہے۔ جس طرح شریعت نے دودھ پلانے والی عورت کے حیض کے احکام الگ نہیں بتائے اسی طرح حاملہ کے حیض کے احکام بھی الگ سے بیان نہیں کیئے گئے۔ بنا بریں محولہ بالا دلیلوں کی بنیاد پر ان ائمہ کرام کے نزدیک حاملہ عورت کو حیض آسکتا ہے اور جب کبھی جاری ہونے والے خون میں حیض والے خون سے مشابہت پائی جائے، وہ حیض کا خون سمجھا جائے گا اور ناپاکی کی حالت میں ہونے کی وجہ سے نماز ترک کی جائے گی۔
دوسری طرف حنابلہ اور احناف، حمل کے دوران جاری ہونے والے خون کو حیض سے الگ، سیلان رحم میں سے سمجھتے ہیں۔ اس رائے کے مطابق حاملہ عورت بدستور تمام نمازوں کی پابند رہے گی۔ صحابہ میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ثوبان رضی اللہ عنہ کا یہی مذہب تھا۔ تابعین کی اکثریت کا بھی یہی قول ہے کہ حاملہ عورت کے جاری ہونے والا خون حیض نہیں ہوتا۔ جن تابعین سے یہ قول ثابت ہے وہ ہیں: سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ، عطاء رضی اللہ عنہ حسن رضی اللہ عنہ، جابر بن زیدرضی اللہ عنہ، عکرمہ رضی اللہ عنہ، محمد بن منکدر رضی اللہ عنہ، شعبی رضی اللہ عنہ، مکحول رضی اللہ عنہ، حماد رضی اللہ عنہ، ثوری رضی اللہ عنہ، اوزاعی رضی اللہ عنہ، ابوثور رضی اللہ عنہ، سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن حسن رضی اللہ عنہ۔
یہ رائے شریعت کی درج ذیل دلیلوں سے ماخوذ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا توطا حامل حتی تضع ولا غیر ذات حملٍ حتی تحیض حیضۃً
حاملہ عورت سے اُس وقت تک (نکاح کرکے) ہم بستری نہیں کی جائے گی جب تک وضع حمل نہ ہو جائے اور غیر حاملہ سے ہم بستری کیلئے ضروری ہے کہ (اُسے کم از کم) ایک حیض آگیا ہو۔
اِس حدیث میں حاملہ اور غیر حاملہ کی عدت میں تفریق کی گئی ہے۔ حمل والی عورت کی عدت وضع حمل تک ہے اگر اُسے حمل نہ ہو تو پھر اعتبار حیض کا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حمل والی عورت کو حیض نہیں آتا۔
اسی طرح ایک صحابی نے اپنی بیوی کو ایام حیض میں طلاق دے دی۔ آپ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو ہدایت دے کر بھیجا کہ اُس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے اور اُس کے بعد اُسے اختیار ہے کہ زوجیت میں لینے کے بعد اُسے حالت حمل میں یا پھر اَیام حیض کے علاوہ پاک حالت میں، چاہے تو طلاق دے دے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اِس حدیث مبارکہ سے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ حمل کا ٹھہرنا ایسے ہے جیسے حیض کے بعد عورت کا پاک ہونا، کیونکہ ان دونوں حالتوں میں طلاق دینے (اگر دینی ہو) کو شریعت نے روا رکھا ہے۔ جس طرح سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ طلاق دینے کیلئے عورت کی (جسمانی) طبی حالت کا اعتبار کرتا ہے کہ فطلقوھن لعدتھن (عورتوں کو) اُن کی (مقررہ) عدت کیلئے طلاق دیا کرو۔
اس آیت مبارکہ سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے عورتوں کی دو حالتیں مراد لی ہیں: ایک حیض سے پاک ہو کر بھلی چنگی ہو گئی ہو یا پھر وہ عورت حمل سے ہو، یعنی ایام حیض میں طلاق ناپسندیدہ ہے۔ اگر حمل کے دنوں میں بھی شریعت میں حیض کا اعتبار ہوتا تو پھر آپ یہ نہ فرماتے کہ: لیطلقہا طاہرا و حاملاً
”پاکی یا حمل کی حالت میں طلاق روا ہے“۔
جہاں تک حمل میں حیض کے اعتبار کیلئے فریق اول فاطمہ بنت ابی حبیش کی حدیث کو بنیاد بناتے ہیں، تو اس حدیث سے حمل کے دنوں میں حیض کا آنا ثابت نہیں ہوتا، اس بنا پر کہ فریق اول بھی حیض کے خون اور سیلان رحم کے خون کی رنگت اور صفات میں فرق کا قائل ہے۔ سیلان رحم میں خون کا رنگ شوخ اور سرخ ہوتا ہے، کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سیلان رحم میں حیض والی رنگت پائی جائے اور حیض کا خون رقیق (پتلا) ہو کر سیلان رحم والے خون کے مشابہے ہو جائے۔ شریعت کا مقصود اس حدث سے معمول کے حالات میں ہر دو قسم کے خون کی رنگت میں فرق بتا کر عام حالات میں حیض یا سیلان رحم میں سے ایک کو پہچان کر اُس کے مطابق پاک ہونے یا حالت عدم پاکی کا حکم لگانا ہے۔ جب خون کا جاری رہنا معمول سے ہٹ کر ہو تو پھر تمام اہل علم محض خون کی رنگ سے حکم مستنبط نہیں کرتے بلکہ شریعت کے دوسر احکام اور طبی حالت کو سامنے رکھ کر حکم لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر فریق اول کے ائمہ کرام میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ معمول کے حالات میں تبدیلی کی وجہ سے دوسرے ذرائع پر اعتماد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر رحم سے خون نکلنے کی مدت ایک دن رات سے کم ہو تو وہ حیض نہیں سمجھا جائے گا۔ (اس مختصر دورانیے میں حیض سمجھ کر جو نمازیں چھوڑ دی گئیں تھیں عورت ان کی قضا دے گی) اَیام کے مختصر ہونے کی وجہ سے خون کے رنگ پر اعتماد نہیں کیا گیا خواہ وہ سیاہی مائل بدبودار ہی کیوں نہ ہو۔ مدت کے کم ہونے سے حالات معمول پر نہیں رہے، اس لئے شرعی حکم کیلئے دوسرے ذرائع پر اعتمادکرنا پڑا۔ اسی طرح شافعیہ کے نزدیک اگر ماہواری کی مدت پندرہ دنوں سے اوپر ہو جاتی ہے تو وہ اس مدت کے بعد جاری رہنے والے خون پر بھی حیض کا حکم نہیں لگاتے کیونکہ اتنی بڑی مدت اُن کے ہاں حیض کیلئے معتاد (معمول کی) نہیں سمجھی گئی۔
بنا بریں غیر معمولی حالات کے پیدا ہونے سے خون کی صفات کا اعتبار فریق اول کے نزیک بھی نہیں رہتا تو اس سے ثابت ہوا کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش والی حدیث معمول کے حالات میں تو دلیل ہے لیکن ہر حالات میں جبکہ حیض کی مدت گھٹ کر ایک دن رات سے کم ہو جائے یا بڑھ کر دوسرے پندر واڑے میں چلی جائے، مذکورہ بالا حدیث معمول کے ایام کیلئے آپ نے ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کا حمل یا حمل کے بغیر کی (جسمانی) طبی حالت سے تعلق نہیں ہے۔
جدید طبی آلات سے جو تجربات ہوئے ہیں اور جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کی رو سے اطباءکے ہاں یہی بات تسلیم کی گئی ہے۔ عام طور پر ایک ہزار حاملہ عورتوں میں سے پانچ ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں حمل کے پہلے ماہ میں معمولی قسم کا خون آتا ہے جو حیض سے مشابہہ ہوتا ہے لیکن دنیا بھر کے اطباءاس قسم کے خون کو حیض نہیں کہتے۔ عورت کے رحم سے جاری ہونے والے خون کے متعدد اسباب ہوتے ہیں۔
(الف) عورت کے رحم میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جو بسا اوقات خون کے اخراج کا سبب بن جاتی ہیں۔
(ب) حمل کا معتاد جگہ کی بجائے رحم سے باہر ٹھہرنا۔ ایسا حمل جان لیوا ہوتا ہے، پیٹ کے درد اور بلڈ پریشر میں شدید کمی کی وجہ سے رحم سے خون کا اخراج شروع ہو جاتا ہے اور عام طور پر ایسی حالت میں فوراً جراحت کی جاتی ہے۔
(ج) حمل کی دوسری پیچیدہ حالتوں میں بھی عورت کے رحم سے خون جاری ہو سکتا ہے۔
بنا بریں حمل کی حالت میں جاری ہونے والے خون کو محض ظاہری مشابہت کی وجہ سے حیض نہیں کہا جا سکتا۔
فریق اول کی دوسری دلیل: (ن المراۃ اذا رت الدم انہا لا تصلی)
بھی حمل کے باب میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کی راوی ہیں اور آپ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ یہی تھا کہ حمل میں جاری ہونے والا خون حیض نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق رحم سے ایک قسم کا خون جاری ہونے کی صورت میں ترک صلوٰۃ کا حکم دیتی تھیں لیکن عورت کے ترک صلوٰۃ کا سبب ہمیشہ حیض نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حاملہ کے جاری ہونے والے خون کو قبل از وقت نفاس کا خون سمجھتی ہوں۔ کوئی ایسا سبب ان کے نزدیک ضرور رہا ہے جس کی وجہ سے وہ حاملہ عورت کے جسم سے جاری ہونے والے خون کو حیض نہیں سمجھتی تھیں۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے المغنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اور ان کے فتوے میں تطبیق کی ایک توجیہ اس طرح کی ہے کہ ولادت کے قریب جاری ہونے والے خون کو اہل علم نفاس میں شمار کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حالت حمل میں خون جاری ہونے میں نماز چھوڑنے کا قول نفاس پر محمول کیا جائے گا۔
فریقین کی آراءپیش کرنے کے بعد راجح قول یہ ہے کہ حالت حمل میں رحم سے جاری ہونے والا خون، حیض کا حکم نہیں رکھتا۔ طبی اصطلاح میں ایسے خون کو دمِ کاذب (جھوٹا خون) کہا جاتا ہے۔ عورت کے رحم سے خارج ہونے والے خون کے متعدد اسباب ہوتے ہیں۔ حیض کی مشابہت ہمیشہ حیض کا حکم نہیں رکھتی۔ اِس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اَیام حمل میں رحم سے جاری ہونے والا خون جب حیض میں شمار نہیں ہوگا تو عورت طُھر (پاکی) کی حالت میں ہے۔ بنا بریں وہ تمام نمازیں اپنے وقت پر ادا کرے گی جب تک کوئی اور ایسا سبب نہ ہو جو دوسرے حکم کا متقاضی ہو۔
(جاری ہے)
مضمون کا لنک
 

Haider Ali

مبتدی
شمولیت
جنوری 09، 2018
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
20
اسلام و علیکم شیخ صاحب.

کیا عورت جس وقت بچے کی ولادت ہورہی ہو تو کوئی ذکر آذکار کر سکتی ہے کیونکہ اس وقت عورتوں کا ستر کھولا ہوتا ہے اور ساتھ دوران حمل جو اذکار اھادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ بھی تفصیل بتا دیں. اکثر عبقری اور بہت سی عورتیں من گہڑت اذکار کا بولتی ہے. رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیر.
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اسلام و علیکم شیخ صاحب.

کیا عورت جس وقت بچے کی ولادت ہورہی ہو تو کوئی ذکر آذکار کر سکتی ہے کیونکہ اس وقت عورتوں کا ستر کھولا ہوتا ہے اور ساتھ دوران حمل جو اذکار اھادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ بھی تفصیل بتا دیں. اکثر عبقری اور بہت سی عورتیں من گہڑت اذکار کا بولتی ہے. رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیر.
وعلیکم السلام
ستر کھلا ہونے سے ذکرکرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔
میرے بلاگ کا یہ لنک دیکھیں ۔
 
Top