• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !!!


10384753_861107233948034_8319225530843994966_n.jpg

آج کل فتنہ انکار حدیث لوگوں کو اس بات کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’’حدیث رسول اللہ ﷺ ‘‘ دین میں حجت نہیں اور اگر حدیث کو چھوڑ دیا جائے تو سب ایک ہو جائیں گے ، فرقہ بندی کی اصل وجہ یہ احادیث ہی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حیثیت محض ایک پوسٹ مین کی طرح تھی کہ جن کے ذریعے انسانیت کو قرآن پہنچا دیا گیا، اس سے آگے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔

( نعوذوباللہ)

وضاحت :

فرقہ بندی کی اصل وجہ احادیث نہیں بلکہ حدیث کے نام پر گھڑی گئی جھوٹی روایات اور اکابر پرستی ہے۔ رہا معاملہ احادیث کا تو یہ اسلام میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ قرآن کے احکامات کی تشریح ہیں۔ ذیل میں اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ

روشن دلائل اور الہامی کتابوں کے ساتھ اور ہم نے نازل کیا تمہاری طرف اس قرآن کو تاکہ تم کھول کر بیان کردو انسانوں کے لئے جو انکی طرف نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ غور و فکر کریں ‘‘۔


( النحل؛ ۴۴)

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ Ą۝ۙ

وہ وہی ہے جس نے اِن بے پڑھے لکھوں میں ان ہی میں سے ایک ایسا رسول بھیجا جو کہ پڑھ پڑھ کر سناتا (سمجھاتا) ہے ان کو اس کی آیتیں اور وہ سنوارتا (نکھارتا) ہے ان کو اور سکھاتا (پڑھاتا) ہے ان کو کتاب و حکمت، جب کہ یہ لوگ اس سے قبل یقینا کھلی گمراہی میں تھے ‘‘،


( الجمعہ: ۲)

کھول کر بیان کردو سے مراد یہ ہے کہ قرآن میں جو نازل کیا گیا ہے اس کی مکمل وضاحت کردو۔ قرآن مجید میں صلوۃ کا حکم آتا ہے لیکن صلواۃ کیا ہے، کس طرح قائم کی جاتی ہے؟ اس کا کوئی بیان نہیں۔ قرآن میں بیان کیا گیا کہ صلوۃ مومنوں پر مقرر وقت پر فرض ہے، اب یہ اوقات کون کون سے ہیں، کس کس وقت کون سے صلوۃ ادا کی جائے گی، اس کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی گئی، قرآن میں سجدے کا ذکر ہے رکوع کا ذکر ہی، لیکن سجدہ کیا ہوتا ہے کیسے کیا جاتا ہے، رکوع کیا ہوتا ہے، رکوع کرنے والے کون ہیں اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ اسی طرح ایک لا تعداد معاملات ہیں کہ جس کا حکم قرآن میں موجود ہے لیکن اس کی تفصیل نہیں ملتی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وضاحت یعنی ان احکامات کو کس طرح بجا لایا جائے گا اس کے طور طریقے بتانے کا حکم دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح اپنی طرف سے کی یا یہ بھی اللہ کی طرف سے تھی

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى

’’یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ، یہ تو وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے ‘‘۔

( النجم) )

کچھ افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک ہی وحی کی گئی اور وہ یہ قرآن مجید ہے، باقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور کوئی بات وحی نہیں کی گئی اس لئے جسے آج حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے اس پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے قرآن مجید موجود بہت سے واقعات ایسے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس قرآن کے علاوہ بھی ان پر خفیہ وحی ہوئی ہے، مثال کے طور پر چند آیات پیش کی جاتی ہیں:

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ

’’اور جب نبی نے اپنی ایک بیوی سے ایک بات راز میں کہی پھر جب وہ اس بات کی خبر (دوسری زوجہ سے) کر بیٹھیں اور اللہ نے اس ( بات )کو ظاہر فرما دیا اپنے نبی پر، تونبی نے اس کا کچھ حصہ تو جتلا دیا اور کچھ سے چشم پوشی فرما لی،پھر جب نبی نے ان کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ تو( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب) میں فرمایا کہ مجھے اس ذات نے خبر دی ہے جو (سب کچھ) جاننے والی (ہر چیزسے) پوری طرح باخبر ہے ‘‘۔


( التحریم)

یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی نے اس بات کو بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بتادیا لیکن پورے قرآن میں اس وحی کےالفاظ نہیں ملتے۔

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ

’’جو بھی کھجور کا درخت تم لوگوں نے کاٹا (اے مسلمانو!) یا اسے باقی رہنے دیا اپنی جڑوں پر تو یہ سب کچھ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور (اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ) تاکہ وہ رسوا کرے ان بدکاروں کو ‘‘۔

(الحشر)

بنی نضیر سے غزوہ کے موقع پر کچھ درخت کاٹ دئے گئے اور کچھ کو رہنے دیا گیا، یہ اللہ کے حکم سے تھا لیکن قرآن میں کہیں بھی اس کا حکم نہیں کہ کون کون سے درخت کاٹ دئے جائیں اور کون سے رہنے دئے جائیں۔ معلوم ہوا کہ وحی خفی کے ذریعے اس کا حکم دیا گیا تھا۔ واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تمام امور اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بناہ پر کرتے تھے، یہ وحی قرآن کے علاوہ تھی۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم، و عمل من جانب اللہ اور اسلام میں دلیل ہے۔چنانچہ فرمایا گیا :

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ

’’اور جو رسول تمہیں دے اس لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاوٗ ، اور اللہ سے ڈرو ،بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔

( الحشر)

لقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا 21۝ۭ

’’بلاشبہ تمہارے لئے (اے لوگوں !) بڑا ہی عمدہ نمونہ ہے رسول اللہ (کی زندگی) میں یعنی ہر اس شخص کے لئے جو امید رکھتا ہو اللہ (سے ملنے) کی اور وہ ڈرتا ہو قیامت کے دن (کی پیشی) سے اور وہ یاد کرتا ہو اللہ کو کثرت سے‘‘۔

( الاحزاب)

معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و فعل اسلام میں دلیل ہے، اور ان کے اسوہ زندگی گزارنے کا ایک بہترین طریقہ جس کی پیروی ہر اس شخص کو کرنی چاہیے جو اللہ کے پاس واپس جانے اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، چنانچہ ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا 64؀ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀

’’ اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اس لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے، اور اگر یہ لوگ (جنہوں نے یہ حماقت کی تھی) جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر، تو سیدھے آجاتے آپ کے پاس، اور اللہ سے معافی مانگتے (اپنے جرم کی) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کیلئے (اپنے رب کے حضور) معافی کی درخواست کرتے، تو یقینا یہ لوگ اللہ کو پاتے بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان ہے۔پس نہیں، قسم ہےتمہارےرب کی (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ یہ آپس کے جھگڑوں میں تمہارافیصلہ نہ مان لیں ، پھرتمہارا جو بھی فیصلہ ہو اس پر یہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں، اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں‘‘۔

( النسا)

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 31؀ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ 32؀

’’کہو (اے لوگو!) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو تم میری پیروی اختیار کرو،( اسوجہ سے ) اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہوں کی بخشش بھی فرما دے گا، اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔کہو، اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی، پھر اگر یہ لوگ منہ موڑلیں تو اللہ کافروں کوپسند نہیں کرتا‘‘۔

( آل عمران)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ لوگوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کس قدر لازم ہے؟ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت نہ کرے اس کافر کہا گیا ہے۔ اسی طرح جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی فیصلے کو نہ مانیں یا اس طرح مانے کے اس کا دل اس پر راضی نہ ہو تو ایسے شخص کا ایمان ایمان ہی نہیں ہے۔ کچھ افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے مراد قرآنی آیات ہیں، لیکن اس آیت میں اس فیصلے کا ذکر ہے کہ جو آپس کے اختلافات پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کئے ہوں، یعنی قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم۔ سورہ آل عمران کی آیات میں ایک طرف اطاعت لازمی قرار دی گئی تو دوسری طرف ان کی اتباع ( وہ پیروی جس کا حکم نہ دیا گیا ہو ) کا یہ مقام بیان کیا گیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔(یعنی وہ کام جن کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کام کئے ہوں،جیسا کہ صلوۃ میں کہیں سے بھی قرآن پڑھ لیا جائے تو صلوۃ ہو جاتی ہے، لیکن ایک مومن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذاتی عمل کو اپنا لے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کون کون سی صلواۃ میں کون کون سی سورہ پڑھا کرتے تھے، اور وہ بھی وہی پڑھے۔ )

الغرض کہ یہ بات مکمل طور پرثابت ہو چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و فعل اسلام میں دلیل اور اس کا ماننا لازم ہے۔ اللہ رب العزت کا صد لاکھ احسان کہ اس نے ایک ایسا مکمل نظام مرتب فرمایا کہ آج ہمارے پاس یہ احادیث صحیحہ پہنچی ہیں، حدیث کے نام پر بے شمار روایات کو گھڑا گیا، لیکن اسماء الرجال کے نظام کے تحت الحمد اللہ ان سب کی حقیقت آج ہمارے سامنے آ گئی اور ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ کون سی روایت موضوع ، منقطع، ضعیف، غریب یا صحیح ہے۔ یہ بہت ضروری تھا کیونکہ ان گھڑی ہوئی روایات میں وہ وہ باتیں بیان کردی گئی تھیں جو یکسر قرآن کے بیان کردہ کا انکار کرتی تھیں۔ اس بات کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے کہ حدیث قرآن کے علاوہ کوئی ایک نیا دین و نظام نہیں بلکہ قرآن ہی کی تشریح ہے۔ قرآن کی تفسیر و تشریح کبھی بھی قرآن کے بیان کردہ کا انکار نہیں کر سکتی،سورہ تحریم میں فرمایا گیا :

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ’’

اے نبی کیوں حرام کر لی ہے وہ چیز جو اللہ نے تمہارے حلال کی ہے ‘‘ ،

(سورہ تحریم)

یعنی قرآن کے بیان کردہ کو کوئی بات رد نہیں کرسکتی۔

قرآن میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ایمان والوں کے درمیان ہونے والے اختلاف کے لئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف رجوع کیا جائے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧ

’’اے ایمان والو : اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیاں کوئی ختلاف ہو جائے تو اس لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف، اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ اچھی بات اور انجام کے حساب سے بہتر ‘‘۔

( النسا)

اللہ اور رسول کی طرف پلٹانے کا مطلب قرآن اور حدیث کی پلٹا دینا ہے ، گویا
حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم دین میں حجت ہے۔ لہذا کوئی بھی صحیح حدیث رد نہیں کی جاسکتی-

اللہ تعالی کے فضل وکرم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث حفظ کیں ، پھران کےبعد سلف الصالح تشریف لاۓ اور انہوں نے یہ احادیث کتب میں مدون کردیں جو کہ صحاح اور سنن اورمسانید کے نام سے پہچانی جاتی ہیں ۔

ان سب میں سے صحیح ترین صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں اور سنن اربعۃ اور مسند امام احمد اور موطا امام مالک وغیرہ میں بھی احادیث صحیحہ موجود ہيں ۔

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے والا بنا دے -

آمین یا رب العالمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حدیث شریف !!!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام حجت کیوں مانی جاتی ہے ؟

الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےقول ، فعل ، تقریر ، اور صفت نقل کرنے کوحدیث کہا جاتا ہے ۔

حدیث یاتوقرآن مجید کے کسی حکم کی تاکید کرتی ہے جیسا کہ نماز ، روزہ ۔

یاپھر قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل جیسا کہ نماز میں رکعات کی تعداد ، اورزکاۃ کا نصاب ، اور حج کا طریقہ وغیرہ ۔

یاپھر ایسے حکم کوبیان کرتی ہے جس سے قرآن مجید نے سکوت اختیار کیا ہو مثلا عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ سے اکھٹے نکاح کرنے کی حرمت ( یعنی بیوی اوراس کی خالہ یا پھوپھی جمع کرنا حرام ہے ) ۔

اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا اورلوگوں کے لیے اسے بیان کرنے کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :

{ ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کربیان کردیں ، شائد کہ وہ اس پر غوروفکر کریں } النحل ( 44 ) ۔

اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ کہ نہ توتمہارے ساتھی نے راہ گم کی ہے اور نہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئ بات کہتے ہیں ، وہ توصرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے } النجم ( 2 – 4 ) ۔

اوراللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے علاوہ ہرایک کے ساتھ کفر کی دعوت دیں ، انہيں جنت کی خوشخبری اورجہنم سے ڈارنےوالا بنایا اسی کے متعلق اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں :

{ اے نبی ! یقینا ہم نے ہی آّپ کو گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانے والا ، آگاہ کرنے والا ، بنا کربھیجا ہے ، اور اللہ تعالی کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ بنا کربھیجا ہے } الاحزاب ( 45 - 46 ) ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی بھلائ‏اورخیر پر بہت زیادہ حریص تھے ، جو بھی خیراور بھلائ کی بات تھی اسے اپنی امت تک پہنچایا اور جس میں شرونقصان تھا اس سے امت مسلمہ کوبچنے کا کہا ، اسی چیزکی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ تمہارے پا‎س ایک ایسے رسول آۓ ہیں جوتمہاری جنس سے ہیں جنہیں تمہیں نقصان دینے والی بات نہایت گراں گزرتی ہے ، جوتمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفقت اورمہربانی کرنے والے ہیں } التوبۃ ( 128 ) ۔

ہرنبی علیہ السلام خاص کرصرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا ، اوراللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ، اس کا ذکراس طرح فرمایا ہے :

{ اورہم نے آپ کوتمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے } الانبیاء ( 107 ) ۔

توجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ وحی کے مبلغ ہیں توان کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا واجب ہے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تواللہ تعالی کی ہی اطاعت ہے :

{ جس نے بھی رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی وہ حققتا اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے } النساء ( 80 ) ۔

اوراللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی نجات وکامیابی اور دنیاوآخرت کی سعادت کا راہ ہے ، اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرے گا اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی } الاحزاب ( 71 ) ۔

توسب لوگوں پر اللہ تعالی اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اس لیے کہ اسی میں ان کی فلاح وکامیابی ہے :

{ اوراللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت تاکہ تم پررحم کیا جاۓ‌ } آل عمران ( 132 ) ۔

تواب جوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ومعصیت کرے اس کا نقصان اوروبال اس پرہی ہوگا وہ اللہ تعالی کا کوئ نقصان نہیں کرسکتا ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ اورجوشخص اللہ اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررکردہ حدوں سے آگے نکلے اسے اللہ تعالی جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسے لوگوں کے لیے رسواکن عذاب ہے } النساء(14) ۔

اورجب اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملہ کوئ فیصلہ کردیں تو کسی کے لیے جائزنہیں کہ وہ اسے اختیارکرے یا چھوڑ دے بلکہ اس پرایمان اورحق کی اطاعت واجب ہے ، اسی کےبارہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرما ن ہے :

{ اورکسی مومن مرد وعورت کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئ‏ اختیارباقی نہیں رہتا ، اللہ تعالی اور اس کے رسول کی جو شخص بھی نافرمانی کرے گا وہ صریحا گمراہی میں ہے } الاحزاب ( 36 ) ۔

اوربندے کا ایمان اس وقت تک کامل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہ رکھے اوراس محبت کے لیے اطاعت لازمی ہے ۔

تو جوشخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرے اور اس کے گناہ معاف کردے تووہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے :

{ کہہ دیجۓ ! اگرتم اللہ تعالی کی محبت رکھتے ہوتومیری اتباع واطاعت کرو ، خود اللہ تعالی بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے } آل عمران ( 31 ) ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت صرف کلمات ہی نہیں جنہیں بار بار زبان پرلاکرمحبت کا اظہار کیا جاۓ بلکہ یہ ایک عقیدہ اورمنھج ہے جس کا معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت اور جوکچھ انہوں نے بتایا اس کی تصدیق اور جس سے روکا اوربچنے کا کہا ہے اس سے رکنا اور اللہ تعالی کی عبادت صرف مشروع طریقےسے کرنا ہے ۔

اورجب اللہ تعالی نے اس دین کی تکمیل کردی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی رسالت لوگوں تک کماحقہ پہنچا دی تو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرماتے ہوۓ انکی روح قبض کرلی ۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوایک صاف شفاف دین پرچھوڑا اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے تو جو بھی اس راہ اوردین سے ہٹے گا وہ ہلاکت میں ہے ، اسی کا اشارہ کرتے ہوۓ رب العزت کا فرمان ہے :

{ آج میں نے تمہارے لیے اپنے دین کوکامل کردیا اور تم پر اپناانعام پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پرراضي ہوگیا } المائدۃ ( 3 ) ۔

اللہ تعالی کے فضل وکرم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث حفظ کیں ، پھران کےبعد سلف الصالح تشریف لاۓ اور انہوں نے یہ احادیث کتب میں مدون کردیں جو کہ صحاح اور سنن اورمسانید کے نام سے پہچانی جاتی ہیں ۔

ان سب میں سے صحیح ترین صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں اور سنن اربعۃ اور مسند امام احمد اور موطا امام مالک وغیرہ میں بھی احادیث صحیحہ موجود ہيں ۔

اور اللہ تبارک وتعالی نے اپنےاس دین کومکمل فرمادیا ، اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوبھی بھلائ اورخیرمعلوم کی اسے اپنی امت تک پہنچا دیا اور جوبھی شرونقصان والی اشیاء کا ان کےپاس علم آیا اس سے اپنی امت کوبچنے کا حکم دیا ، تو اب جوبھی اللہ تعالی کے دین میں کوئ بدعت اورخرافات وغیرہ ایجاد کرتا ہے تو اس کا وہ کام مردود ہے مثلا :

مردوں سے مانگنا ، اور قبروں کا طواف کرنا ، اور جنوں سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا ، اور اسی طرح اولیاء سے مدد طلب کرنا وغیرہ یہ سب کچھ غیر شرعی اور مردود فعل ہیں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع نہیں کیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

( جس نے بھی ہمارے اس دین میں کوئ نیا کام نکالا جواس میں سے نہیں تووہ مردود ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1718 ) ۔ .

دیکھیں کتاب :
اصول الدین الاسلامی تالیف الشیخ محمد بن ابراھیم التویجری ۔

http://islamqa.info/ur/13206
 
Last edited:
Top