محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
حجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !!!
( نعوذوباللہ)
فرقہ بندی کی اصل وجہ احادیث نہیں بلکہ حدیث کے نام پر گھڑی گئی جھوٹی روایات اور اکابر پرستی ہے۔ رہا معاملہ احادیث کا تو یہ اسلام میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ قرآن کے احکامات کی تشریح ہیں۔ ذیل میں اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ
روشن دلائل اور الہامی کتابوں کے ساتھ اور ہم نے نازل کیا تمہاری طرف اس قرآن کو تاکہ تم کھول کر بیان کردو انسانوں کے لئے جو انکی طرف نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ غور و فکر کریں ‘‘۔
( النحل؛ ۴۴)
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ Ąۙ
وہ وہی ہے جس نے اِن بے پڑھے لکھوں میں ان ہی میں سے ایک ایسا رسول بھیجا جو کہ پڑھ پڑھ کر سناتا (سمجھاتا) ہے ان کو اس کی آیتیں اور وہ سنوارتا (نکھارتا) ہے ان کو اور سکھاتا (پڑھاتا) ہے ان کو کتاب و حکمت، جب کہ یہ لوگ اس سے قبل یقینا کھلی گمراہی میں تھے ‘‘،
( الجمعہ: ۲)
کھول کر بیان کردو سے مراد یہ ہے کہ قرآن میں جو نازل کیا گیا ہے اس کی مکمل وضاحت کردو۔ قرآن مجید میں صلوۃ کا حکم آتا ہے لیکن صلواۃ کیا ہے، کس طرح قائم کی جاتی ہے؟ اس کا کوئی بیان نہیں۔ قرآن میں بیان کیا گیا کہ صلوۃ مومنوں پر مقرر وقت پر فرض ہے، اب یہ اوقات کون کون سے ہیں، کس کس وقت کون سے صلوۃ ادا کی جائے گی، اس کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی گئی، قرآن میں سجدے کا ذکر ہے رکوع کا ذکر ہی، لیکن سجدہ کیا ہوتا ہے کیسے کیا جاتا ہے، رکوع کیا ہوتا ہے، رکوع کرنے والے کون ہیں اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ اسی طرح ایک لا تعداد معاملات ہیں کہ جس کا حکم قرآن میں موجود ہے لیکن اس کی تفصیل نہیں ملتی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وضاحت یعنی ان احکامات کو کس طرح بجا لایا جائے گا اس کے طور طریقے بتانے کا حکم دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح اپنی طرف سے کی یا یہ بھی اللہ کی طرف سے تھی
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۔ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى
’’یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ، یہ تو وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے ‘‘۔
( النجم) )
کچھ افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک ہی وحی کی گئی اور وہ یہ قرآن مجید ہے، باقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور کوئی بات وحی نہیں کی گئی اس لئے جسے آج حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے اس پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے قرآن مجید موجود بہت سے واقعات ایسے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس قرآن کے علاوہ بھی ان پر خفیہ وحی ہوئی ہے، مثال کے طور پر چند آیات پیش کی جاتی ہیں:
وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ
’’اور جب نبی نے اپنی ایک بیوی سے ایک بات راز میں کہی پھر جب وہ اس بات کی خبر (دوسری زوجہ سے) کر بیٹھیں اور اللہ نے اس ( بات )کو ظاہر فرما دیا اپنے نبی پر، تونبی نے اس کا کچھ حصہ تو جتلا دیا اور کچھ سے چشم پوشی فرما لی،پھر جب نبی نے ان کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ تو( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب) میں فرمایا کہ مجھے اس ذات نے خبر دی ہے جو (سب کچھ) جاننے والی (ہر چیزسے) پوری طرح باخبر ہے ‘‘۔
( التحریم)
یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی نے اس بات کو بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بتادیا لیکن پورے قرآن میں اس وحی کےالفاظ نہیں ملتے۔
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ
’’جو بھی کھجور کا درخت تم لوگوں نے کاٹا (اے مسلمانو!) یا اسے باقی رہنے دیا اپنی جڑوں پر تو یہ سب کچھ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور (اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ) تاکہ وہ رسوا کرے ان بدکاروں کو ‘‘۔
(الحشر)
بنی نضیر سے غزوہ کے موقع پر کچھ درخت کاٹ دئے گئے اور کچھ کو رہنے دیا گیا، یہ اللہ کے حکم سے تھا لیکن قرآن میں کہیں بھی اس کا حکم نہیں کہ کون کون سے درخت کاٹ دئے جائیں اور کون سے رہنے دئے جائیں۔ معلوم ہوا کہ وحی خفی کے ذریعے اس کا حکم دیا گیا تھا۔ واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تمام امور اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بناہ پر کرتے تھے، یہ وحی قرآن کے علاوہ تھی۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم، و عمل من جانب اللہ اور اسلام میں دلیل ہے۔چنانچہ فرمایا گیا :
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
’’اور جو رسول تمہیں دے اس لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاوٗ ، اور اللہ سے ڈرو ،بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔
( الحشر)
لقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا 21ۭ
’’بلاشبہ تمہارے لئے (اے لوگوں !) بڑا ہی عمدہ نمونہ ہے رسول اللہ (کی زندگی) میں یعنی ہر اس شخص کے لئے جو امید رکھتا ہو اللہ (سے ملنے) کی اور وہ ڈرتا ہو قیامت کے دن (کی پیشی) سے اور وہ یاد کرتا ہو اللہ کو کثرت سے‘‘۔
( الاحزاب)
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و فعل اسلام میں دلیل ہے، اور ان کے اسوہ زندگی گزارنے کا ایک بہترین طریقہ جس کی پیروی ہر اس شخص کو کرنی چاہیے جو اللہ کے پاس واپس جانے اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، چنانچہ ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا 64 فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65
’’ اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اس لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے، اور اگر یہ لوگ (جنہوں نے یہ حماقت کی تھی) جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر، تو سیدھے آجاتے آپ کے پاس، اور اللہ سے معافی مانگتے (اپنے جرم کی) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کیلئے (اپنے رب کے حضور) معافی کی درخواست کرتے، تو یقینا یہ لوگ اللہ کو پاتے بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان ہے۔پس نہیں، قسم ہےتمہارےرب کی (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ یہ آپس کے جھگڑوں میں تمہارافیصلہ نہ مان لیں ، پھرتمہارا جو بھی فیصلہ ہو اس پر یہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں، اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں‘‘۔
( النسا)
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 31 قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ 32
’’کہو (اے لوگو!) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو تم میری پیروی اختیار کرو،( اسوجہ سے ) اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہوں کی بخشش بھی فرما دے گا، اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔کہو، اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی، پھر اگر یہ لوگ منہ موڑلیں تو اللہ کافروں کوپسند نہیں کرتا‘‘۔
( آل عمران)
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ لوگوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کس قدر لازم ہے؟ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت نہ کرے اس کافر کہا گیا ہے۔ اسی طرح جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی فیصلے کو نہ مانیں یا اس طرح مانے کے اس کا دل اس پر راضی نہ ہو تو ایسے شخص کا ایمان ایمان ہی نہیں ہے۔ کچھ افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے مراد قرآنی آیات ہیں، لیکن اس آیت میں اس فیصلے کا ذکر ہے کہ جو آپس کے اختلافات پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کئے ہوں، یعنی قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم۔ سورہ آل عمران کی آیات میں ایک طرف اطاعت لازمی قرار دی گئی تو دوسری طرف ان کی اتباع ( وہ پیروی جس کا حکم نہ دیا گیا ہو ) کا یہ مقام بیان کیا گیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔(یعنی وہ کام جن کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کام کئے ہوں،جیسا کہ صلوۃ میں کہیں سے بھی قرآن پڑھ لیا جائے تو صلوۃ ہو جاتی ہے، لیکن ایک مومن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذاتی عمل کو اپنا لے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کون کون سی صلواۃ میں کون کون سی سورہ پڑھا کرتے تھے، اور وہ بھی وہی پڑھے۔ )
الغرض کہ یہ بات مکمل طور پرثابت ہو چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و فعل اسلام میں دلیل اور اس کا ماننا لازم ہے۔ اللہ رب العزت کا صد لاکھ احسان کہ اس نے ایک ایسا مکمل نظام مرتب فرمایا کہ آج ہمارے پاس یہ احادیث صحیحہ پہنچی ہیں، حدیث کے نام پر بے شمار روایات کو گھڑا گیا، لیکن اسماء الرجال کے نظام کے تحت الحمد اللہ ان سب کی حقیقت آج ہمارے سامنے آ گئی اور ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ کون سی روایت موضوع ، منقطع، ضعیف، غریب یا صحیح ہے۔ یہ بہت ضروری تھا کیونکہ ان گھڑی ہوئی روایات میں وہ وہ باتیں بیان کردی گئی تھیں جو یکسر قرآن کے بیان کردہ کا انکار کرتی تھیں۔ اس بات کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے کہ حدیث قرآن کے علاوہ کوئی ایک نیا دین و نظام نہیں بلکہ قرآن ہی کی تشریح ہے۔ قرآن کی تفسیر و تشریح کبھی بھی قرآن کے بیان کردہ کا انکار نہیں کر سکتی،سورہ تحریم میں فرمایا گیا :
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ’’
اے نبی کیوں حرام کر لی ہے وہ چیز جو اللہ نے تمہارے حلال کی ہے ‘‘ ،
(سورہ تحریم)
یعنی قرآن کے بیان کردہ کو کوئی بات رد نہیں کرسکتی۔
قرآن میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ایمان والوں کے درمیان ہونے والے اختلاف کے لئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف رجوع کیا جائے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59ۧ
’’اے ایمان والو : اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیاں کوئی ختلاف ہو جائے تو اس لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف، اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ اچھی بات اور انجام کے حساب سے بہتر ‘‘۔
( النسا)
اللہ اور رسول کی طرف پلٹانے کا مطلب قرآن اور حدیث کی پلٹا دینا ہے ، گویا
حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم دین میں حجت ہے۔ لہذا کوئی بھی صحیح حدیث رد نہیں کی جاسکتی-
اللہ تعالی کے فضل وکرم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث حفظ کیں ، پھران کےبعد سلف الصالح تشریف لاۓ اور انہوں نے یہ احادیث کتب میں مدون کردیں جو کہ صحاح اور سنن اورمسانید کے نام سے پہچانی جاتی ہیں ۔
ان سب میں سے صحیح ترین صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں اور سنن اربعۃ اور مسند امام احمد اور موطا امام مالک وغیرہ میں بھی احادیث صحیحہ موجود ہيں ۔
اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے والا بنا دے -
آمین یا رب العالمین