• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجراسود اور قرامطہ

شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
110
پوائنٹ
52
محترم شیخ کفایت اللہ صاحب!
آپ کی طرف سے شروع کیا گیا ایک تھریڈ
خانہ کعبہ میں آگ لگنا ، ذمہ دار کون؟؟؟

اس میں یہ بات لکھی ہوئی دیکھی ہے
"جس مقدس گھر’’بیت اللہ‘‘ کا ہاتھیوں کا جتھا کچھ نہ بگاڑ سکا ، جس کی ایک اینٹ کو بدنیتی سے ہلانے کی جرأت پوری تاریخ انسانیت میں کوئی نہ کرسکا ، کیونکر ممکن ہے ایک مسلمان نہ صرف یہ کہ ایسا خطرناک اقدام کرلے بلکہ اسے کامیابی بھی مل جائے۔ سبحان اللہ ھذا بہتان عظیم۔"

لیکن تاریخ کی کسی کتاب میں میں نے یہ بھی پڑھا ہےکہ
"8 ذی الحجہ سنہ 317 ہجری قمری کو ابوطاہرقرمطی نے بڑے بے رحمانہ طریقے سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیوں کو لوٹا اور ان کا قتل عام کیا وہ حجر اسود کو قیدیوں کے ہمراہ بحرین لے گیا۔خانۂ کعبہ سے حجر اسود کا ہٹایا جانا مسلمانوں کے لئے شدید غم و غصے کا باعث بنا ۔حجر اسود 22 سال تک قرامطہ کے قبضے میں رہا ۔سنہ 339 ہجری قمری میں فاطمی حکمرانوں کے توسط سے حجر اسود کو دوبارہ مکہ واپس لایا گيا ۔"
دیکھیے وکیپیڈیا قرامطہ

تو کیا یہ قرامطیوں والی بات تاریخی طور پر غلط ہے؟
یا وہ نیک نیتی سے حجر اسود کو لے کر گئے تھے؟

جزاک اللہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جوبات ہم نے کہی ہے وہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام ہی کی روشنی میں ہم نے اپنی بات رکھی ہے ملاحظہ ہوں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے الفاظ :

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
لكن لم يقتل جميع الأشراف ولا بلغ عدد القتلى عشرة الاف ولا وصلت الدماء إلى قبر النبي صلى الله عليه و سلم ولا إلى الروضة ولا كان القتل في المسجد وأما الكعبة فإن الله شرفها وعظمها وجعلها محرمة فلم يمكن الله أحدا من إهانتها لا قبل الإسلام ولا بعده بل لما قصدها أهل الفيل عاقبهم الله العقوبة المشهورة كما قال تعالى ألم تر كيف فعل ربك بأصحاب الفيل ألم يجعل كيدهم في تضليل وأرسل عليهم طيرا أبابيل ترميهم بحجارة من سجيل فجعلهم كعصف مأكول [منهاج السنة النبوية 4/ 576]۔
ترجمہ: یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے نہ تو تمام اشراف کو قتل کیا نہ ہی مقتولین کی تعداد ہزاروں تک پہنچی اورنہ ہی قبر نبوی یا روضہ اطہر کے پاس خونریزی ہوئی ، اورنہ ہی مسجدنبوی میں کسی کو قتل کیا گیا ، جہاں تک خانہ کعبہ کی بات ہے تو اللہ تعالی نے اسے شروع ہی سے عزت وشرف بخشاہے اوراسے حرمت کی جگہ قراردیاہے، لہٰذا اللہ تعالی کسی کو یہ قدرت نہیں دے سکتا کہ وہ اس کی اہانت کرے ، نہ تو اسلام سے پہلے اورنہ ہی اسلام کے بعد ، بلکہ ہاتھی والوں نے جب اس کا ارادہ کیا تو اللہ تعالی نے ان پر ایسا عقاب نازل کیا جو ہرچہارجانب مشہورہے ، جیساکہ اللہ تعالی کاارشادہے:کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ (1) کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کردیا؟ (2) اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے (3) جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے (4) پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا (سورہ فیل)
دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ یزید رحمہ اللہ کا دور عہدرسالت سے قریب تر ہے اورعہدرسالت سے قبل ہی واقعہ فیل پیش آیا ، گویا کہ یزید کے دور تک پوری تاریخ انسانی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے خانہ کعبہ کی ایک اینٹ کو بھی بدنیتی سے ہلایا ہو ایسے حالات میں یزید پر یہ الزام لگانا کہ اس نے خانہ کعبہ میں آگ لگادی یہ بہت بڑی بات ہے جو قوی ترین شہادت کی محتاج ہے۔

رہی بات قرامطہ کے طرزعمل کی تو صحیح تو درکنار ہمیں کوئی ایسی باسند روایت بھی نہیں ملی جس میں اس بات کا ذکر ہو لیکن بعض قرائن اس واقعہ کی صحت کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا یہ کہ اسی دور کے ایک فقیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’ حجر اسود کو بوسا دیا جائے اگر حجر اسود موجود ہو ‘‘ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اس دور میں حجر اسود خانہ کعبہ کے ساتھ نہیں رہا ہوگا اسی لئے فقیہ مذکور نے اس کے ہونے کی شرط لگائی ۔ لیکن اس کے علاوہ بقیہ جو تفاصیل نقل کی جاتی ہیں ان پر مکمل یقین کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے۔

رہی بات بدنیتی کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدنیتی ہے لیکن یہ بدنیتی اس قبیل کی نہیں ہے جس کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں ، ہم نے جس بدنیتی کی بات کی اس سے مراد اصلا خانہ کعبہ کو نقصان پہچانے کی نیت ہے ، لیکن اہل قرامطہ کا مقصود فی نفسہ خانہ کعبہ کو نقصان پہچانا نہیں تھا ورنہ وہ حجر اسود کو بحفاظت اپنے پاس نہ رکھتے بلکہ اسے تلف کردیتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں جس سے اشارہ ملتا ہے کہ اس کے پیچھے ان کا کوئی اورسیاسی مقصد تھا ، واللہ اعلم۔
 
Top