• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجّیت قراء ات … ضمیمہ فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حجّیت قراء ات … ضمیمہ فتاویٰ جات

مولانا محمد اَصغر​
قراء ات نمبر دوم میں ادارۂ رُشد نے پاکستان کے جمیع مکاتب ِفکر (اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی اور شیعہ حضرات) کی حجیت ِقراء ات کے سلسلہ میں اتفاقی رائے یوں پیش کی تھی کہ ۱۰۰ مفتیان کے مختصر اور تقریباً ۴۰ کبار شخصیات کے تفصیلی فتاویٰ پیش کیے تھے۔ اس سلسلہ میں تاحال جو مختصر یا تفصیلی فتاویٰ جات مزید موصول ہوئے انہیں بھی قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ فتاویٰ جات کے ضمن میں ہم نے خاص طور پر دار العلوم دیوبند، ہندوستان کے فتویٰ کو بھی حاصل کیا ہے، جس کا پس منظر یہ ہے کہ ادارۂ رُشد نے تو جمیع مکاتب ِفکر سے فتویٰ حاصل کرکے اُمت کے اتفاقی موقف کو سامنے لانے کی سعی کی لیکن کراچی میں ’منکرین حدیث‘ کے ایک گروہ نے قراء ات نمبر اول ودوم کی تحقیقی و علمی اشاعتوں سے گھبرا کر عوام الناس کو دیوبندی، اہلحدیث فرقہ واریت میں مبتلا کرکے گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کی اور صلیبی طریقہ واردات یوں اپنایا کہ ’ادارۂ رشد‘ کو انتہاء پسند اہلحدیث اور خود کو دیوبندی مکتبہ فکر ظاہر کرتے ہوئے اجماعی مسئلہ کو حنفی اہلحدیث اختلاف کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے مولانا اشرف علی تھانوی﷫ پر ’انکارِ قراء ات‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ان کے مؤقف کے قائل تھے۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ معاملہ کی وضاحت کیلئے دارالعلوم دیوبند، ہندوستان اور دار العلوم، کراچی کے حجیت ِقراء ات پر فتاویٰ جات نذرِ قارئین کریں کیونکہ حکیم الامت مولانا اَشرف علی تھانوی﷫ اور دیوبندی مکتبہ فکر کی ترجمانی یہ ادارے بجا طور پر کر سکتے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: کیا مروّجہ قراء ات قرآنیہ کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت موجود ہے ؟ثبوت کی صورت میں اس کے انکاری کے متعلق علماے اُمت کی کیارائے ہے؟
جواب: قراء ات عشرہ دس ائمہ کی ان مرویات کا نام ہے جو قرآن مجید اور اس کی متنوع ’قراء ات‘ کے ضمن میں رسول اللہﷺسے اُمت کومنتقل ہوئیں۔موجودہ قراء ات عشرہ صحیح احادیث میں وارد سبعۃ أحرف کا حاصل ہیں اور ان کی نسبت ائمہ عشرہ کی طرف ٹھیک اُسی طرح ہے جس طرح محدثین کرام کی مرویات ان کی طرف منسوب ہوتی ہیں۔ تمام متواترقراء توں کے الفاظ بالکل قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں،جیسا کہ ان کی حجیت کو کتب اَحادیث میں محدثین کرامؒ نے مستقل ابواب قائم کرکے ثابت کیاہے، مثلاً امام ترمذی نے’کتاب القراء ات‘ اور امام ابوداؤد نے ’کتاب الحروف والقراء ات‘کے نام سے اپنے مجموعہ ہائے اَحادیث میں باقاعدہ کتابیں قائم کی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ احرف کی مزید وضاحت کچھ یوں ہے کہ قرآن مجید میں متعدد اَسالیب تلاوت کے ضمن میں صحیح اور متواتر روایت ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح بخاری:۴۹۹۲، ۵۰۴۱، صحیح مسلم: ۱۸۹۶، ۱۸۹۷) اس بات پر بلاشبہ دلالت کرتی ہے کہ دین میں قرآن مجید کو متنوع اندازمیں پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ اختلاف قراء ات یا بالفاظ دیگر قرآن مجید کو مختلف لہجات میں پڑھنا ہرحال میں ثابت ہے اس کے بارے میں ’’لا إلہ الااﷲ‘‘ پڑھنے والے کسی بھی مسلمان کو شک نہیں ہوسکتا۔جیسا کہ امام سبکی﷫ فرماتے ہیں:
’’القرائات السبع التی اقتصر علیھا الشاطبی والثلاث التی ھی قراء ۃ أبی جعفر وقراء ۃ یعقوب و قراء ۃ خلف ، متواترۃ معلومۃ من الدین بالضرورۃ و کل حرف انفرد بہ واحد من العشرۃ معلوم من الدین بالضرورۃ انہ منزل علی رسول اﷲ! لا یکابر فی شيء من ذلک إلا جاھل ولیس تواتر شيء من ذلک مقصورا علی من قرأ بالروایات بل ھی متواترۃ عند کل مسلم یقول:أشھد أن لا إلہ إلا اﷲ وأن محمداً رسول اﷲ،ولو کان مع ذلک عامیا جلفا لا یحفظ من القرآن حرفاً وحظ کل مسلم وحقہ أن یدین اﷲ تعالیٰ وتجزم نفسہ بأن ما ذکرنا متواتر معلوم بالیقین لا تتطرق الظنون ولا الارتیاب إلی شئ منہ واﷲ تعالیٰ أعلم۔(اتحاف فضلاء البشر للدمیاطی:۱؍۹)
’’ وہ سات قراء ات جن پر شاطبیؒ نے انحصار کیا ہے اور وہ تین قراء ات جوابو جعفر،یعقوب،اور خلف سے منسوب ہیں، سب کی سب متواترہ ہیں اوردین سے بالضرورۃ ثابت ومعلوم ہیں۔حتی کہ ہر وہ حرف، جس کے ساتھ قراء عشرہ میں سے کوئی قاری منفرد ہو، وہ بھی بالضرورۃ دین سے معلوم ہے اور رسول اللہ پر نازل شدہ ہے۔مذکورہ نقطہ نظر سے انحراف کوئی جاہل ہی کرسکتا ہے ۔ان قراء ات وروایات کا تواتر صرف ماہرین علم قراء ات کی حد تک معلوم وثابت نہیں ،بلکہ ہر اس مسلمان کے نزدیک قراء ات عشرہ متواترہ ہیں جوأشھد أن لا إلہ إلا اﷲ وأن محمداً رسول اﷲکا قائل ہے، اگرچہ وہ ایسا عامی ہی کیوں نہ ہو جس نے قرآن کریم میں سے ایک حرف بھی حفظ نہ کیا ہو۔لہٰذا ہر مسلمان کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کرے اور جو کچھ ہم نے پیچھے بیان کیا ہے اس پر یقین رکھے کہ وہ متواتر ہے اور اس یقین کے ساتھ عقیدہ رکھے کہ ان (قراء اتِ عشرہ ) میں شکوک وشبہات پیدا نہیں ہو سکتے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭نواب صدیق حسن خاں بہادر﷫ فرماتے ہیں:
’’ وقد ادعی أھل الأصول تواتر کل واحدۃ من القراء ات السبع بل العشر‘‘(حصول المأمول: ص۳۵)
’’اصولیوں نے قراء ت سبعہ بلکہ عشرہ میں سے ہر قراء ت کے تواتر کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘
٭ امام زرکشی﷫ فرماتے ہیں:’’وقد انعقد الإجماع علی حجیۃ قراء ات القراء العشرۃ وأن ھذہ القراء ات سنۃ متبعۃ لا مجال للاجتھاد فیھا… وقال… القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ خلافاً لجماعۃ‘‘ (البرہان فی علوم القرآن :۱؍۳۲۱،۳۲۲)
’’قراء عشرہ کی قراء ت کی حجیت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے،یہ قراء ت ،سنت متبعہ (یعنی توقیفی) ہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے… اور فرماتے ہیں:…ایک جماعت کی رائے کے برعکس یہ قراء ات اختیاری نہیں بلکہ توقیفی ہیں۔‘‘
٭امام غزالی﷫ فرماتے ہیں:
’’حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشھورۃ نقلاً متواترا‘‘ (المستصفیٰ:۱۰۱)
’’قرآن مجید وہ ہے جو مشہور احرف سبعہ پر نقل متواتر کے ساتھ دو گتوں کے درمیان ہم تک نقل کیا گیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں:’’ لم ینکر أحد من العلماء قراء ات العشرۃ‘‘(مجموع الفتاوی:۱۳؍۳۹۳)
’’اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی قراء ات عشرہ کا انکار نہیں کیا۔‘‘
٭ ملاعلی قاری﷫ فرماتے ہیں:’’فالمتواتر لا یجوز انکارہ لأن الأمۃ الإسلامیۃ قد أجمعت علیہ۔ وتواتر القراء ات من الأمور الضروریۃ التی یجب العلم بھا‘‘ (شرح الفقہ الأکبر:ص۱۶۷)
’’متواتر کا انکار کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہو چکا ہے اور تواتر قراء ات امورِ ضروریہ میں سے ہے جس کا علم ہونا واجب ہے۔‘‘
امام خطابی” فرماتے ہیں: ’’ إن أصحاب القراء ات من أھل الحجاز والشام والعراق کل منھم عزا قراء تہ التی اختارھا إلی رجل من الصحابۃ قرأھا علی رسول اﷲ! لم یستثنِ من جملۃ القرآن شیئاً‘‘ (الإعلام:۲؍۲۷۳)
’’حجازی،شامی اور عراقی اصحابِ قراء ات میں سے ہر قاری نے اپنی اختیار کردہ قراء ت کو کسی نہ کسی صحابی رسول کی طرف منسوب کیا ہے۔جنہوں نے قرآن میں سے کوئی چیز چھوڑے بغیر یہ قراء ات نبی اکرمؐ کو سنائی۔‘‘
٭امام قرطبی﷫ فرماتے ہیں: ’’وقد أجمـع المسلمون فی ہذہ الأعصار علی الاعتماد علی ماصح عن ھولاء الأئمۃ مما رووہ ورأوہ من القراء ات وکتبوا فی ذلک مصنفات فاستمر الإجماع علی الصواب وحصل ما وعد اﷲ بہ من حفظ الکتاب وعلی ھذا الأئمۃ المتقدمون والفضلاء المحققون کالقاضی أبی بکر بن الطیب والطبری وغیرھما‘‘(تفسیر القرطبی:۱؍۴۶)
’’اس دور میں ان معروف ائمہ قراء ات سے صحیح ثابت قراء ات پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے۔ان ائمہ کرام نے علم قراء ت پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حفاظت قرآن کا وعدہ پورا ہو گیا ہے۔قاضی ابو بکر ابن الطیب اور امام طبری جیسے ائمہ متقدمین اور فضلاء محققین کا اس قول پر اتفاق ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ابن عطیہ﷫ فرماتے ہیں:’’ومضت الأعصار والأمصار علی قراء ۃ السبعۃ وبھا یصلی لأنھا تثبت بالإجماع‘‘ (المحرر الوجیز:۱؍۴۹)
’’قراء ات سبعہ پر متعدد ادوار گزر چکے ہیں اور یہ نمازوں میں پڑھی جا رہی ہیں،کیونکہ اجماع امت سے ثابت ہیں۔‘‘
٭امام ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں: ’’سبب تنوع القراء ات فیما احتملہ خط المصحف ہو تجویز الشارع وتسویغہ ذلک لہم إذ مرجع ذلک إلی السنۃ والاتباع لا إلی الرأی والابتداع‘‘(مجموع فتاوی:۱۳؍۴۰۲)
’’خط مصحف میں مختلف قراء ات کا احتمال شارع کی طرف سے ہے،کیونکہ اس کا مرجع سنت واتباع ہے۔اجتہاد ورائے نہیں۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، المراء فی القرآن کفر…‘‘ (مسنداحمد:۳۰۰، صحیح ابن حبان:۷۳، تفسیرابن کثیر:۲؍۱۰۲، فضائل القرآن:۶۳)
’’قرآن مجید سبعہ احرف پر نازل کیاگیا ہے،قرآن مجید کے بارے جھگڑنا کفر ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود﷫سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ’’أن من کفر بحرف منہ فقد کفر بہٖ کلہ‘‘ (تفسیر الطبری:۱؍۵۴، الابحاث فی القراء ات :ص۱۸، نکت الانتصار للباقلانی:ص۳۶۴)
’’جس شخص نے قرآن مجید کے ایک حرف کا انکار کیا، یقینا اس نے پورے قرآن کا انکار کیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭امام ابن حزم﷫ فرماتے ہیں: ’’واتفقوا أن کل ما فی القرآن حق وأن من زاد فیہ حرفاً ما غیر القراء ات المرویۃ المحفوظۃ المنقولۃ نقل الکافۃ أو نقص منہ حرفاً أو غیر منہ حرفاً مکان حرف و قد قامت علیہ الحجۃ أنہ من القرآن فتمادی متعمدا لکل ذلک عالماً بأنہ بخلاف ما فعل، فانہ کافر‘‘ (مراتب الاجماع:ص۱۷۴)
’’اورتمام اہل علم کا اتفاق ہے اس بات پر کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ حق ہے اور اس بات پر کہ ان قراء اتِ کے علاوہ جو (مروی) محفوظ(ہیں اور) تواتر کے ساتھ منقول ہیں،جو کوئی اس (قرآن) میں (اپنی طرف سے) کسی ایک حرف کا بھی اضافہ یا کمی کرے یا کسی ایسے حرف کو دوسرے حرف سے تبدیل کر دے جس کا قرآن سے ہونا دلیل (قطعی ضروری) سے ثابت ہو اور وہ تعنت کی بنا پر عمداً ان (زیادتی، کمی یا تبدیلی) میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے یہ جانتے ہوئے کہ حقیقت اس کے خلاف ہے جو کچھ یہ (کمی، زیادتی یا تبدیلی) کر رہا ہے تو وہ کافر ہے۔‘‘
علامہ ابن جزری﷫ فرماتے ہیں:’’أن الإجماع منعقد علی أن من زاد حرکۃ أو حرفاً فی القرآن أو نقص من تلقاء نفسہ مصرا علی ذلک یکفر‘‘ (منجد المقرئین:ص۹۷،۲۴۴)
’’اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ جو کوئی اپنی طرف سے قرآن کریم میں کسی حرکت یا حرف کا اضافہ کرے یا کمی کرے (تنبیہ کیے جانے اور تواتر تسلیم ہو جانے کے باوجود) اس (کمی یا زیادتی) پر مصر ہو تووہ کافر ہے۔‘‘
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ قراء ات قرآنیہ یابالفاظ دیگر قرآن مجید کو پڑھنے کے مختلفاسالیب قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان پراُمت کا اجماع ہوچکاہے۔ اب اگر کوئی شخص ان سب کا یاکسی ایک کاانکارکرتا ہے تو وہ بالاجماع گمراہ اور سبیل المؤمنین سے ہٹا ہوا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دار الافتاء جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور

حافظ عبد الرحمن مدنی (رئیس دار الافتاء)
حافظ ثناء اللہ مدنی (شیخ الحدیث،جامعہ لاہور الاسلامیہ )
مولانا محمد رمضان سلفی (نائب شیخ الحدیث جامعہ )
مولانا محمد شفیق مدنی (رکن دار الافتاء)
درج ذیل مفتیان کرام نے مذکورہ فتویٰ کی تائید میں فتاویٰ ارسال فرمائے:
دار الافتاء دارالعلوم دیوبند۔ انڈیا
مولانا مفتی حبیب الرحمن (مفتی دارالعلوم دیوبند)
مولانا مفتی نصر الاسلام قاسمی (نائب مفتی دارالعلوم دیوبند)
مولانا وقار علی (معاون مفتی)
مولانا فخر الاسلام (معاون مفتی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دار الافتاء جامعہ غوثیہ رضویہ، گلبرگ۔ لاہور
مولانا مفتی لیاقت علی (مفتی جامعہ غوثیہ رضویہ)
دار الافتاء جامعہ فریدیہ۔ ساہیوال
مولانا مظہر فرید شاہ (نائب مہتمم جامعہ فریدیہ ساہیوال)
دار الافتاء محمدیہ الغوثیہ، بھیرہ۔ ضلع سرگودھا
مولانا مفتی شیر محمد خان (مفتی وشیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ غوثیہ)
دار الافتاء جامعہ ادارۃ الفرقان، اللہ والی مسجد، بندر روڈ۔ سکھر
مولانا مفتی عبدالباری (مفتی دارالافتاء جامعہ ادارۃ الفرقان)
مولانا مفتی عبدالمالک
مولانا مفتی عبداللہ یوسفی
دار الافتاء جامعہ غوثیہ رضویہ انوار باہور، وحدت کالونی بروری روڈ۔ کوئٹہ
مولانا مفتی غلام محمد قادری قاسمی (مہتمم ومفتی جامعہ غوثیہ رضویہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دار الافتاء جامعہ الشہید عارف الحسینی المعارف الاسلامیہ۔ فیصل کالونی۔ پشاور
مولانا سید محمد جواد ہادی
دار الافتاء جامعہ فیض العلوم نقشبندیہ قادریہ، غریب آباد،سبی۔ بلوچستان
علامہ مفتی فتح محمد نقشبندی (مہتمم وشیخ الحدیث جامعہ ہذا)
دار الافتاء جامعہ اسلامیہ خیر المعاد۔ ملتان
مولانا محمد شفیع مظہر الحامدی (مہتمم دارالافتاء جامعہ اسلامیہ خیر المعاد)
 
Top