• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجّیت قراء ات … ضمیمہ فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ صد رالشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی﷫ لکھتے ہیں:
’’ساتوں قراء ت جائز ہیں مگر اولیٰ یہ ہے کہ عوام جس سے ناآشنا ہوں وہ نہ پڑھے، کہ ان میں اُن کے دین کا تحفظ ہے‘‘ (بہارِ شریعت: ۱؍ ۳، باب: قرآن مجید پڑھنے کا بیان:ص۱۹۱)
ضروریاتِ دین کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ ان کی حفاظت اور اُن پر عمل کرنا عام مسلمانوں کو بھی معلوم ہوتا ہے:مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور نفس قرآن، مسلمان کو مسلمان کہنا اور کافر کو کافر کہنا، شعائر اﷲ کی تعظیم کرنا وغیرہ سب ضروریاتِ دین سے ہیں۔ اگر کوئی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا منکر ہے کہ یہ فرض ہی نہیں، تو وہ کافر ہے، اس لیے کہ اُس نے ضروریات دین کا اِنکار کیا۔لہٰذا اگر قراء ات کا تواتر ضروریات دین سے ہوتا تو فقہاء کرام سے کس طرح اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ لوگوں میں غیر معروف قراء ات سے منع کریں گے، پس معلوم ہوا کہ یہ تواتر قراء کے نزدیک ہے اور یہ ضروریات دین سے نہیں ہے اور اس کا منکر کافر نہیں ہے۔اگر قراء اتِ سبعہ کا اِنکار کرنے والا جاہل ہو تو اس کو سمجھایا جائے اور اگر بے دینی یا ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کرتا ہو تو وہ گمراہ بے دین اور اہلسنت سے خارج ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب
الجواب صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الجواب صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الجواب صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتبہ
ابوالحسنین مفتی محمد وسیم اختر۔۔۔۔مولانا مفتی منیب الرحمن۔۔۔۔۔مفتی جمیل احمد نعیمی۔۔۔۔۔غلام مرتضیٰ مظہری
دارالافتاء فیضان شریعت
زیرانتظام: سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ
جامع مسجد حسام الحرمین، مارٹن روڈ، تین ہٹی، کراچی​
٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محترم جناب ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ !
قراء اتِ متواترہ سے متعلق آنجناب کی تحریر ملی، آپ کے سوالوں کے جوابات تحقیق و تفصیل طلب ہیں، جس کے لیے طویل دورانیہ چاہئے، جبکہ آنجناب کا تقاضا فوری جواب کا ہے اس لیے ان تین سوالوں کے بارے میں مختصراً تحریر کیا جاتا ہے:
قراء اتِ عشرہ ساری کی ساری متواتر ہیں( اگرچہ قراء اتِ سبعہ کے تواتر پر تو اجماع و اتفاق ہے اور قراء اتِ ثلاثہ کے تو اتر میں کسی قدر اختلاف ہے، ’’کما صرح بہ حکیم الأمۃ العلامۃ اشرف علی التھانوی فی تنشیط الطبع:۷،۱۵‘‘ قرآن مجید کی قراء توں کا تواتر سے مروی ہونا ہی کافی ہے الگ سے دلیل کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرمان ایزدی ہے:
’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘(الحجر:۹)
نیز اثبات ِ قراء ات، حدیث ’سبعہ اَحرف‘ پر موقوف نہیں (بلکہ تواتر ہی کافی ہے، ’’وفي شرح الطیبۃ لأبي قاسم النویري: ضابط کل قرائۃ تواتر نقلھا، ووافقت العربیۃ مطلقاً ورسم المصحف ولو تقدیراً فھي من الأحرف السبعۃ، وما لا تجتمع فیہ فشاذ۔‘‘(۱؍۱۲۳) اور اَقوال شاذہ سے قراء اتِ متواترہ کی نفی عقل اور نقل کے خلاف ہے۔
جہاں تک منکر قراء ات کے حکم کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب مدظلہ لکھتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِنکار قراء ات کا حکم
(١) قرآن یا اس کے کسی جزو کا اِنکار کفر ہے۔
(٢) کوئی اگر بعض قراء توں کو تسلیم کرتا ہو مثلاً روایت حفص کو مانتا ہو اور دیگرکا انکار کرتا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل شقیں ہیں:
الف: کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کا تواتر ثابت نہ ہو، اِس وجہ سے اِنکار کرتا ہو اس پر تکفیر نہ ہوگی۔
ب: اس کو دیگر قراء توں کا تواتر سے ثابت ہونا معلوم نہ ہو جیساکہ عام طور پرعوام کو دیگر قراء توں کا علم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کو ان کا علم ہوتا ہے جو ان کو پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں، ایسی لا علمی کی وجہ سے انکار پر بھی تکفیر نہ کی جائے گی، البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیا جائے گا۔
ج: تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کرے تب بھی تکفیر نہیں کی جائے گی، کیونکہ حقیقتاً یہ تواتر ضروری و بدیہی نہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے اِنکار پر تکفیر نہیں کی جاتی، البتہ یہ سخت گمراہی کی بات ہے۔(فقہی مضامین:۱۱۸)
وللتفصیل فلیراجع الیٰ:
(١) شرح الطیبہ لأبی قاسم النویری﷫ (٢) دِفاع قراء ات اَز قاری طاہر رحیمی صاحب﷫
(٣) مقدمہ شرح سبعہ قراء ات اَز اِمام القراء محی الاسلام پانی پتی﷫
الجواب صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتبہ
اَحقر محمود اَشرف غفراللہ لہ۔۔۔۔۔۔خلیل الرحمن غفراللہ لہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بندہ اِس جواب سے متفق ہے۔ قراء اتِ عشرہ کا انکار بڑی گمراہی ہے، لیکن جیساکہ میں جناب مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کے نام ایک خط میں لکھ چکا ہوں،کہ قراء ت حفص کے سوا کسی اور قراء ت میں قرآن کریم کے نسخے تیار کرکے چھاپنا ’ہمارے علاقے‘ میں بالکل مناسب نہیں ہے کہ اس سے تشویش فکر اور اِنتشار کا اَندیشہ ہے۔ رسم عثمانی میں تمام قراء ات کی گنجائش پہلے سے موجود ہے۔ اس لیے اس طرح کا کام جس سے انتشار ہو، اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ واﷲ سبحانہ وتعالیٰ أعلم
محمد تقی عثمانی ﷾
دارالافتاء ، دارالعلوم کراچی نمبر ۱۴​
٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب :قرآن کریم اللہ جل شانہ کا کلام برحق ہے۔ جہاں اس پر عمل کرنا اُمت کے لیے لازم ہے وہاں اس کو تجوید و صحت لفظی کے ساتھ پڑھنا فرائض دین میں سے ہے۔ کسی کتاب کو بشمول کتب اَحادیث کے اس کے مخارج کے ساتھ پڑھنا لازم نہیں۔ مگر قرآن کریم کی امتیازی شان ہے کہ اس کو اس کے صحیح مخارج کے ساتھ پڑھنا لازم ہے۔
حضور ختمی مرتبت صلوات اللہ تعالیٰ علیہ وسلامہ کے فرائض منصبی میں جہاں تعلیم کتاب، تشریح آیات و تزکیہ قلوب شامل ہے وہاں آپ کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات و طریق قراء ت بھی داخل ہے۔
کما قال اﷲ تعالیٰ شانہ:
’’یَتْلُوْا عَلَیْہِم ئَایٰتِہِ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘(آل عمران:۱۶۴)
ماہنامہ’ رُشد‘ کے ذِمہ داران نے علم قرآن کے اس پہلو کو، جو علوم القراء ات سے تعلق رکھتا ہے اور اُمت کی بے اعتنائی کا شکا رہے، سامنے رکھ کر ’رُشد‘ کا قراء ات نمبر جاری کیا جس کی جلد دوم میرے پیش نظر ہے۔
میں اس شاندار کارنامے پر اِدارے کے ہر مخلص ساتھی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی یہ علمی و دینی کاوش قبول فرمائے اور اُمت مسلمہ کو قرآن مجید کی کماحقہ تلاوت وذوق مطالعہ کی طرف متوجہ فرمائے۔ آمین
مفتی محمد ابراہیم القادری الرضوی
خادم دارالعلوم اہل سنت وجماعت غوثیہ رضویہ سکھر​
٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب: غالباً ۱۵ ؍نومبر۲۰۰۹ء سے ایک دو دن پہلے جامعہ لاہور الاسلامیہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’رُشد‘ کا علم قراء ات پر خاص نمبر اور مروّجہ قراء اتِ قرآنیہ کے متعلق ایک استفتاء بھی موصول ہوا، ماہنامہ میں قراء ات پر اچھے خاصے تحقیقی مضامین اور فتاویٰ جات موجود ہیں۔ ہم نے جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتوے سے اِتفاق کیا ہے، جو درج ذیل ہے۔
قراء اتِ عشرہ ساری کی ساری متواتر ہیں (اگرچہ قراء اتِ سبعہ کے تواتر پر تو اجماع و اتفاق ہے اور قراء اتِ ثلاثہ کے تواتر میں کسی قدر اختلاف ہے۔ کما صرح بہ حکیم الأمۃ العلامۃ أشرف علي تھانوی في تنشیط الطبع (ص:۷،۱۵) قرآن مجید کی قراء توں کا تواتر سے مروی ہونا ہی کافی ہے، الگ سے دلیل کی ضرورت نہیں ، کیونکہ فرمان ایزدی ہے: ’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَــہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘(الحجر:۹) نیز اثبات قراء ات حدیث سبعہ اَحرف پر موقوف نہیں (بلکہ تواتر ہی کافی ہے) وفي شرح الطیبۃ لأبي قاسم النویري: (ضابط) کل قرائۃ تواتر نقلھا ووافقت العربیۃ مطلقا ورسم المصحف ولو تقدیرا فھي من الأحرف السبعۃ وما لا تجتمع فیہ فشاذ۔ (ج۱:ص۱۲۳) اور اقول شاذہ اور فاذہ سے قراء ات متواترہ کی نفی عقل اور نقل کے خلاف ہے۔
جہاں تک منکر قراء ات کے حکم کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب لکھتے ہیں:
(١) قرآن یا اس کے کسی جزو کے انکار کا حکم کفر ہے۔
(٢) کوئی اگر بعض قراء توں کو تسلیم کرتا ہو مثلاً روایت حفص کو مانتا ہو اور دیگر کا انکار کرتا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل شقیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الف: کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کا تواتر ثابت نہ ہو، اس وجہ سے انکار کرتا ہو اس پر تکفیر نہ ہوگی۔
ب: اس کو دیگر قراء توں کا تواتر سے ثابت ہونا معلوم نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر عوام کو دیگر قراء توں کا علم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کو ان کا علم ہوتا ہے جو ان کو پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوئے ہوں، البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کہا جائے گا۔
ج: تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی اِنکار کرے تب بھی تکفیر نہیں کی جائے گی، کیونکہ حقیقتاً یہ ضروری و بدیہی نہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے انکار پر تکفیر نہیں کی جاتی، البتہ یہ سخت گمراہی کی بات ہے۔ (فقہی مضامین:۱۱۸)
وللتفصیل فلیراجع إلیٰ :
(١) شرح الطیبۃ لابی قاسم النویری(٢) دفاع قراء ات از حضرت مولانا قاری محمد طاہر رحیمی﷫
(٢) مقدمہ شرح سبعہ قراء ات اَز امام القراء محی الاسلام پانی پتی واﷲ أعلم بالصواب
اَحقر ذوالفقار علی
دارالافتاء جامعہ صدیق اکبرt ، ٹنڈوالہ یار (سندھ)​
٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب: قرآن کریم کی قراء اتِ عشرہ متواترہ ہیں، جن کے نقل پر اَز صحابہ تا مؤلفین کتب اتنی بڑی تعداد میں راوی حضرات موجود ہیں جن کا حصر ناممکن ہے۔ خود سرکار دوعالمﷺ نے صحابہ کرام﷢ کو مختلف لہجوں اور طریقوں سے قرآن کریم پڑھنے کی اِجازت عطا فرمائی جس کی تفصیل علامہ جزری﷫ کی النشر في القراء ات العشروغیرہ میں موجود ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو، نبی اکرمﷺ کا فرمان مبارک ہے:
’’إِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ‘‘۔ (صحیح البخاري:۴۹۸۸)
’’یعنی قرآن کریم سات احرف پر نازل ہوا، جو طریقہ بھی آسان لگے اس کے مطابق پڑھو۔‘‘
رہی بات اس ثبوت کی کہ ہر قرا ء ت کسی سند سے منقول ہے یا نہیں، تو اس کا ثبوت علمائے قرا ء ت کے پاس مختلف کثیر اَسانید کی صورت میں موجود ہے، اور اس سے اَندازہ ہوتا ہے کہ اَحادیث کی سندیں الگ ہیں اور قرا ء ت کی سندیں الگ ہیں اور یہی سندیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ قراء اتِ متواترہ ہیں۔ البتہ آسانی کی غرض سے متأخرین علماء (مثلاً دانی﷫ وغیرہ) نے دو ،دو راوی ہر قاری کے منتخب کرکے ان کی روایات کو زیادہ پھیلایا تاکہ لوگ بآسانی مختلف قراء ات کو یاد کرسکیں اور اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ جو ان قراء ات کا اِنکار کرے وہ بالاجماع گمراہ ہے اور صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ واﷲ أعلم۔
مفتی حماد رضا نوری
دارالعلوم احسن البرکات
شارع مفتی محمد خلیل خان برکاتی
نزد ہوم اسٹیڈ ہال، حیدر آباد​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب: قراء اتِ سبعہ کامتواتر ہونا باجماع اُمت ثابت ہے۔ اس کا اِنکار موجب ِکفر و ضلالت ہے اور بقیہ قراء ات ثلاثہ کے متواتر ہونے میں قدرے اختلاف(۱) ہے۔
٭ فتاویٰ شامی میں ہے:
’’القرآن الذي یجوز بہ الصلاۃ بالإتفاق ھو المضبوط في مصاحف الأئمۃ التي بعث بھا عثمان إلی الأمصار وھو الذي أجمع علیہ الأئمۃ العشرۃ وھذا ھو المتواتر جملۃ وتفصیلاً، فما فوق السبعۃ إلی العشرۃ غیر شاذ، وإنما الشاذ ما وراء العشرۃ، وھو الصحیح… الخ ‘‘ (ا۱؍۴۷۶)
شرح فقہ ا لأکبر میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:
’’أو أنکر آیۃ من کتاب اﷲ أو عاب شیئاً من القرآن …
قلت وکذا کلمۃ أو قرائۃ أو زعم أنھا لیست من کلام اﷲ تعالیٰ کفر یعني إذا کان کونہ من القرآن مجمعاً علیہ… الخ‘‘ (شرح فقہ الأکبر:۲۰۵)
واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب وعلمہ أتم وأحکم
عبدہ محمد محمد جان النعیمی عفی عنہ
دارالافتاء، دارالعلوم مجدّدیہ نعیمیہ،
ملیر کراچی پاکستان​
نوٹ: (۱) اختلاف کا حوالہ نہیں دیا گیا جبکہ ذیل کے فتاوی میں قراء ات عشرہ کو متواتر کہا گیا ہے۔ (ادارہ)
٭_____٭_____٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جو اب: قرآن کریم اللہ جل شانہ کا کلام برحق ہے۔ جہاں اس پر عمل کرنا اُمت کے لیے لازم ہے وہاں اس کو تجوید وصحت لفظی کے ساتھ پڑھنا فرائض دین میں سے ہے۔ کسی کتاب کو بشمول کتب اَحادیث کے اس کے مخارج کے ساتھ پڑھنا لازم نہیں۔ مگر قرآن کریم کی امتیازی شان ہے کہ اس کو اس کے صحیح مخارج کے ساتھ پڑھنا لازم ہے۔
حضور ﷺ کے فرائض منصبی میں جہاں تعلیم کتاب، تشریح آیات و تزکیہ قلوب شامل ہے وہاں آپ کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات و طریق قراء ت بھی داخل ہے۔ کما قال اﷲ تعالیٰ جل شأنہ:
’’ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ئَایٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ‘‘
(آل عمران:۱۶۴)
ماہنامہ ’رُشد‘ کے ذِمہ داران نے علم قرآن کے اس پہلو کو جو علوم القراء ات سے تعلق رکھتا ہے اور اُمت کے بے اعتنائی کا شکا رہے۔ سامنے رکھ کر ’رُشد‘ کا قراء ات نمبر جاری کیا جس کی جلد دوم میرے پیش نظر ہے۔
میں اس شاندار کارنامے پر اِدارے کے ہر مخلص ساتھی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی یہ علمی و دینی کاوش قبول فرمائے اور اُمت مسلمہ کو قرآن مجید کی کماحقہ تلاوت وذوق مطالعہ کی طرف متوجہ فرمائے۔ آمین
مفتی محمد ابراہیم القادری الرضوی
خادم دارالعلوم اہل سنت وجماعت غوثیہ رضویہ، سکھر​
 
Top