• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج اور عمرہ کی قبولیت کے لیے کیا مسجد نبوی جانا ضروری ہے ؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری معلومات کہ حد تک سید فیض ایک داعی ہیں، اور میرا مؤقف یہ ہے کہ داعی کو داعی ہی لکھا جائے، شیخ کا رتبہ اس سے کئی بلند ہے!
Adv. Faiz Syed
B.Sc, M.C.A., B.G.L, LL.B.

Founder & President, Islamic Research Centre, Aurangabad. President Al-Kitab Education & Welfare Society, Aurangabad.
President, Ilm Foundation, Aurangabad.
President, Zakat Foundation, Aurangabad.
President, Azam Ali Syed Public Library, Aurangabad.
Managing Director, Al-Huda Educational Foundation Pvt. Ltd.
President, Janseva Credit Co-Operative Society Ltd, Br. Aurangabad (A Non Interest Based Islamic Banking System)
Shura Member, All India Dawah Centres Association – AIDCA

Born: 12-Dec-1979


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری معلومات کہ حد تک سید فیض ایک داعی ہیں، اور میرا مؤقف یہ ہے کہ داعی کو داعی ہی لکھا جائے، شیخ کا رتبہ اس سے کئی بلند ہے!
Adv. Faiz Syed
B.Sc, M.C.A., B.G.L, LL.B.

Founder & President, Islamic Research Centre, Aurangabad. President Al-Kitab Education & Welfare Society, Aurangabad.
President, Ilm Foundation, Aurangabad.
President, Zakat Foundation, Aurangabad.
President, Azam Ali Syed Public Library, Aurangabad.
Managing Director, Al-Huda Educational Foundation Pvt. Ltd.
President, Janseva Credit Co-Operative Society Ltd, Br. Aurangabad (A Non Interest Based Islamic Banking System)
Shura Member, All India Dawah Centres Association – AIDCA

Born: 12-Dec-1979



وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


بھائی اس سلسلے میں شیخ @اسحاق سلفی بھائی سے بھی رہنمائی لے لیتے ہیں :


ایک سوال اور بھی ذہن میں آیا ہے کیا ڈاکٹر ذاکر نائک کے لئے بھی شیخ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی اس سلسلے میں شیخ @اسحاق سلفی بھائی سے بھی رہنمائی لے لیتے ہیں :
ایک سوال اور بھی ذہن میں آیا ہے کیا ڈاکٹر ذاکر نائک کے لئے بھی شیخ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی !
پہلی بات تو یہ آپ نے مجھے ’’ شیخ ‘‘ لکھا ۔۔حالاں کہ بندہ محض ایک طالب علم ہے۔۔ہاں اگر اہل باطل مقابل ہو تو اپنی پوزیشن دوسری ہوگی؛
مجھ فقیر سے ۔۔مشہور دعاۃ کے بارے پوچھنا نہیں بنتا۔۔یعنی میں اس مقام پر نہیں کہ محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک جو مشہور داعی ہیں ،انکے بارے
’’ شیخ ‘‘ ہونے ۔۔یا۔۔نہ ہونے کا فیصلہ کروں ۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
هل الحج لا يصح إلا بزيارة مسجد الرسول- صلى الله عليه وسلم-، وكذلك السلام عليه؟
الحج مستقل ما له تعلق بالزيارة ولا يربط بالزيارة الحج إذا أداه المؤمن على ما شرعه الله تم حجه ولو ما زار المدينة، أما زيارة المدينة سنة، زيارة المسجد النبوي سنة نافلة من زار فله أجر ومن ترك فلا شيء عليه لقوله- صلى الله عليه وسلم-: (لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد، المسجد الحرام، ومسجدي هذا, والمسجد الأقصى)، وقال- عليه الصلاة والسلام-: (صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام، وصلاة المسجد الحرام خير من مائة صلاة في مسجدي هذا)، فدل ذلك على أن زيارة المسجد سنة فيها مضاعفة للصلاة ولكن ليست واجبة، الواجب إتيان المسجد الحرام للحج والعمرة هذا هو الواجب مرة في العمرة، إذا حج مرة واعتمر مرة، سقط عنه زيارة المسجد بعد ذلك، وإذا أتى المسجد الحرام للعمرة والحج ولو مرات كثيرة هذا سنة، تزود من الحج مرات ومن العمرات مرات هذا شيء مطلوب ومشروع, وهكذا زيارة المسجد النبوي إذا زاره للصلاة فيه والقراءة والتعبد مشروعة ولو تكرر، وهكذا المسجد الأقصى ولكنه دون المسجدين الصلاة فيه بخمسمائة صلاة، مسجد القدس كل هذه السنة زيارتها, ولو تكررت كثيرا لكن الواجب زيارة المسجد الحرام للحج والعمرة فقط، هذا هو الواجب،مرة في العمر، الحج مرة والعمرة مرة، والبقية كلها نافلة، بعد الحج مرة واحدة والعمرة مرتين كلها نافلة, وزيارة المسجد النبوي نافلة, وزيارة المسجد الأقصى نافلة ما فيه فرض، إلا إذا نذر قال نذر لله أن أصلي في المسجد النبوي يكون واجباً حتى يؤدي النذر، أو قال نذر لله علي أن أصلي في المسجد الأقصى يكون واجبا، أو نذر لله أن يصلي في المسجد الحرام يكون واجباً بالنذر لقول النبي- صلى الله عليه وسلم-: (من نذر أن يطيع الله فليطعه)، ولا شك أن الصلاة في المسجد النبوي طاعة, والمسجد الأقصى طاعة، فلا بأس أن يؤدي ولو بشد الرحل، أما لو قال لله عليه أن يصلي ركعتين في مسجد قباء, أو في مسجد دمشق بغير المسجد الأقصى ما يجوز له، وليس عليه شد الرحل، ليس له شد الرحل في هذا لأن الرسول نهى عن هذا شد الرحل، يصلي في أي مسجد ويكفي، لكن إذا خصص الثلاثة، يلزمه شد الرحل، المسجد الحرام، المسجد الأقصى، المسجد النبوي، لقول النبي- صلى الله عليه وسلم-: (من نذر أن يطع الله فليطعه)، وقوله- صلى الله عليه وسلم-: (لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد، المسجد الحرام، ومسجدي هذا والمسجد الأقصى)، فلو نذر صلاة في أي مكان لم يلزمه الوفاء, أو الصوم إلا في هذه الثلاثة، المسجد الحرام، مسجد النبي، المسجد الأقصى.

اس فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ حج(اور عمرہ ) مستقل علیحدہ عبادت ہیں،
اور مسجد نبوی کی زیارت کا حج سے کوئی تعلق نہیں۔
حج جیسا کہ اللہ نے اس کاطریقہ مقرر فرمایا ہے اس طرح ادا کرنے پر مکمل ہوجاتا ہے ،خواہ مدینہ کی زیارت نہ بھی کرے ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کیا مسجد نبوی کی زیارت نہ کرنے سے حج ناقص رہ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض حاجی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب تک حاجی مسجد نبوی کی زیارت نہ کرے، ان کا حج ناقص ہوتا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیارت مسجد نبوی سنت ہے، واجب نہیں ، نہ ہی اس کا حج کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ بلکہ سنت یہ ہے کہ ہر سال مسجد نبوی کی زیارت کی جائے لیکن یہ حج کے وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((لا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي ھذا وَمَسْجِدِ الْأَقْصَی)) (متفق علیہ)
’’تین مساجد کے علاوہ کسی مقام کی طرف ثواب (زیارت، فضیلت) کی غرض سے سفر نہ کیا جائے۔ مسجد الحرام کی طرف، میری اس مسجد کی طرف اور مسجد اقصیٰ کی طرف۔‘‘
نیز آپﷺ نے فرمایا:
((صَلَاۃٌ فِی مَسْجِدِی ہَذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ)) (متفق علیہ)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز، مسجد حرام کے علاوہ باقی مقامات پر ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔‘‘
اور جب مسجد نبوی کی زیارت کی جائے تو اس کے لیے مشروع یہ ہے کہ ریاض الجنہ میں دو رکعت نماز نفل ادا کی جائے۔ پھر نبیﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی الله عنہا پر سلام پڑھا جائے۔ جیسا کہ جنت البقیع کی زیارت اور اس جگہ مدفون صحابہ وغیرہم کے لیے سلام اور دعا اور رحمہ الله کہنا مشروع ہے۔ جیسا کہ نبیﷺ ان کی زیارت کیا کرتے تھے اور آپﷺ، صحابہ کرامرضی الله عنھم کو یہ سکھلایا کرتے تھے کہ جب وہ قبروں کی زیارت کریں تو یوں کہیں :
((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَإِنَّا إِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِکُمْ لَـلَاحِقُوْنَ ، نَسْأَلُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ))
’’اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں ۔ ہم اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ سے عافیت چاہتے ہیں ۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ جب آپ جنت البقیع کی زیارت کرتے تو یوں فرماتے:
((وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ، اللّٰھم اغْفِرْلاھل بَقِیعِ الْغَرْقَدِ))
’’اللہ تعالیٰ ہم میں سے پہلے چلے جانے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں ، سب پر رحم فرمائے۔ اے اللہ بقیع غرقد والوں کو معاف فرما۔‘‘
اور جو شخص مسجد نبوی کی زیارت کرے اس کے لیے یہ بھی مشروع ہے کہ مسجد قبا کی زیارت کرے اور اس میں دو رکعت نفل ادا کرے۔ کیونکہ نبیﷺ ہر ہفتے کے دن وہاں جاتے اور اس مسجد میں دو رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ نیز آپﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے گھر میں اچھی طرح طہارت کرے پھر مسجد کو آئے اور اس میں نماز ادا کرے تو عمرہ کی مانند ہے۔‘‘
یہی وہ مقامات ہیں جن کی مدینہ منورہ میں زیارت کرنا چاہیے۔ رہیں سات مساجد اور مسجد قبلتین اور ایسے ہی دوسرے مقامات جن کی زیارت کے متعلق بعض مولفین نے مناسک میں ذکر کیا ہے۔ ان کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی ان پر کوئی دلیل ہے اور مومن کے لیے دائمی طور پر بدعت کو چھوڑتے ہوئے صرف سنت کی اتباع ہے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلداول -صفحہ 136
محدث فتویٰ (فتاویٰ جات: جدید مسائل فتویٰ نمبر : 7940 )
 
Top