محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
حج بدل کے احکام اور ضوابط :
الحمد للہ:
بہت سے لوگ حج بدل میں تساہل سے کام لیتے ہیں، جبکہ حجِ بدل کیلئے خاص ضوابط، شرائط اور احکامات ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں، اللہ تعالی سے امید ہے کہ ان سے فائدہ ہوگا:
1- حجۃ الاسلام (فرض حج) کی ہر لحاظ سے طاقت رکھنے والے شخص کی جانب سے حج بدل نہیں کیا جاسکتا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات پر اجماع ہے کہ فرض حج کی طاقت رکھنے والے شخص کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج نہیں کرسکتا، ابن منذر کہتے ہیں: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس پر حجۃ الاسلام ہو اور وہ اسکے ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو اسکی طرف سے کیا جانے والا حج کفایت نہیں کریگا" انتہی
" المغني " ( 3 / 185 )
2- حج بدل ایسے مریض کی جانب سے کیا جائے گا جس کے شفا یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بدنی طور پر عاجز ہو، یا میت کی طرف سے حج بدل کیا جائے گا، کسی غریب، یا سیاسی اور امنی طور پر عاجز شخص کی جانب سے حج بدل نہیں کیا جاسکتا۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ حج میں میت، اور شفایابی سے مایوس عاجز کی جانب سے نیابت کی جاسکتی ہے، قاضی عیاض نے مالکی فقہاء کی ان احادیث -جن میں میت کی جانب سے روزہ رکھنا اور حج کرنے کا ذکر ملتا ہے-کی مخالفت میں انکی جانب سے ایک عذر پیش کیا ہے کہ یہ روایت مضطرب ہے، اور یہ عذر باطل ہے، کیونکہ حدیث میں کوئی اضطراب نہیں، اور اسکے صحیح ہونے کیلئے امام مسلم کا اپنی صحیح میں ذکر کرنا ہی کافی ہے"
" شرح النووي على مسلم " ( 8 / 27 )
جس حدیث کی جانب نووی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ بعض مالکی علماء اس پر اضطراب کا حکم لگایا ہے، وہ حدیث یہ ہے:
عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک خاتون نے آکر کہا: "میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی صدقہ میں دی تھی، اور پھر وہ فوت ہوگئیں"، تو آپ نے فرمایا: (تمہیں تمہارا اجر مل گیا ہے، اور وراثت کی وجہ سے لونڈی تمہارے پاس پھر واپس آگئی ہے) اس نے کہا: "اللہ کے رسول! میری والدہ پر ایک ماہ کے فرض روزےتھے، تو کیا میں یہ روزے انکی طرف سے رکھوں؟"آپ نے فرمایا: (اسکی طرف سے روزے رکھو) پھر اس نےکہا: "میری والدہ نے کبھی بھی حج نہیں کیا ، تو کیا میں اسکی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟" آپ نے فرمایا: (اسکی طرف سے حج کرو) مسلم (1149)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتےہیں:
"حج میں نیابت کے قائلین تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ کسی کی طرف سے فرض حج نہیں کیا جاسکتا، سوائے فوت شدگان، یا فالج کے مریضوں کے، چنانچہ ان میں وہ مریض شامل نہیں ہوسکتے جن کے شفا یاب ہونے کی امیدہے، اور نہ ہی مجنون ؛ اس لئے کہ اسکے افاقہ کی امید ہے، نہ ہی قیدی؛ اس لئے کہ وہ جیل سے باہر بھی آسکتا ہے، اور نہ ہی فقیر؛ اس لئے کہ وہ بھی غنی ہوسکتا ہے" انتہی
" فتح الباری " ( 4 / 70 )
دائمی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:
کیا کوئی مسلمان جس نے پہلے اپنا حج کیا ہوا ہو چین سے تعلق رکھنے والے اپنے کسی رشتہ دار کی طرف سے حج کرسکتا ہے ؟ کیونکہ وہ شخص حج کی ادائیگی کیلئے سفر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا مسلمان جس نے اپنا حج ادا کر لیا ہے وہ کسی دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے، جیسے کہ وہ عمر رسیدہ ہے، یا ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس سے شفا یاب ہونے کی امید نہیں، یا وہ فوت ہوچکا ہے؛ اس بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں، اور اگر جس کی طرف سے حج کا ارادہ ہے وہ کسی عارضی رکاوٹ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہیں کرسکتا مثلاً: ایسی بیماری اسے لاحق ہے جس سے شفا یابی کی امیدہے، یا کوئی سیاسی عذر ہے، یا سفر کیلئے راستہ پر امن نہیں وغیرہ ؛ تو ایسی شکل میں اس کی جانب سے حج کرنا کافی نہیں ہوگا" انتہی
شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز.... شيخ عبد الرزاق عفيفی... شيخ عبد الله بن قعود.
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (11/51)
3- مالی طور پر عاجز شخص کی طرف سے حج بدل نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے کہ غریب آدمی سے حج ساقط ہو جاتا ہے، جبکہ حج بدل بدنی طور پر عاجز شخص کی طرف سے کیا جاسکتا ہے۔
دائمی فتاوی کمیٹی کے علماء سے پوچھا گیا:
کیا کسی کیلئے جائز ہے کہ وہ مکہ سے دور رہائش پذیر اپنے کسی رشتہ دار کی طرف سے عمرہ یا حج کرے؟ اور اسکے پاس مکہ آنے کیلئے وسائل نہیں ہیں، لیکن بدنی طور پر وہ خود طواف وغیرہ کر سکتا ہے۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"آپ کے سوال میں مذکور رشتہ دار پر حج اس وقت تک واجب نہیں جب تک وہ مالی طور پر حج کی طاقت نہ رکھتا ہو، اور اس کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ اگر وہ خود مشاعر تک پہنچ جائے تو وہ خود ہی انکی دائیگی کر سکتا ہے، جبکہ حج و عمرہ میں نیابت میت یا جسمانی طور پر عاجز شخص کی طرف سے ہوتی ہے " انتہی
شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز.... شيخ عبد الرزاق عفيفی... شيخ عبد الله بن غديان.
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (11/52)
4- کوئی شخص بھی اس وقت تک کسی کی طرف سے حج نہیں کرسکتا جب تک اس نے اپنی طرف سے حج نہ کر لیا ہو، اور اگر اس نے اپنا حج کرنے سے پہلے کسی کی طرف سے کیا تو وہ اُسی کی طرف سے ہوگا ، کسی دوسرے کی طرف سے نہیں ہوگا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علماء نے کہا:
"کسی انسان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے حج کرنے سے پہلے کسی کی طرف سے حج کرے، اس کی دلیل ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: "میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں"آپ نے فرمایا: (کیا توں نے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟)اس نے کہا: "نہیں" آپ نے فرمایا: (پہلے اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا)" انتہی
شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز... شيخ عبد الله بن غديان
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (11/50)
5- ایک خاتون کسی مرد کی طرف سے حج کرسکتی ہے، جیسے کہ مرد کسی خاتون کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علماء نے کہا:
"حج میں نیابت جائز ہے، بشرطیکہ نیابت کرنے والے نے پہلے اپنا حج کر لیا ہو، ایسے ہی اس عورت کیلئے بھی حج ضروری ہے جسے آپ رقم اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ آپ کی والدہ کی طرف سے حج کرے، اس لئے کہ عورت حج میں کسی دوسری عورت یا مرد کی طرف سے نیابت کر سکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دلائل ثابت ہیں"انتہی۔
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (11/52)
6- کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ ایک حج دو یا زیادہ افراد کی طرف سے کرے، ہاں عمرہ اپنے لئے کر لے یا کسی اور کیلئے اور حج کسی تیسرے شخص کیلئے کر سکتا ہے۔
دائمی کمیٹی کے علماء کہتے ہیں:
"حج میں میت یا ایسے زندہ کی طرف سے نیابت جائز ہے جو حج کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اور کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک حج کرکے دو شخصوں کی جانب سے کردے، اس لئے کہ حج صرف ایک شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے، لیکن اگر حج ایک شخص کی طرف سے ہو اور عمرہ کسی اور کی طرف سے کرے تو یہ جائز ہے ، بشرطیکہ ا س نے اپنا حج یا عمرہ پہلے سے کیا ہوا ہو" انتہی
شيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز.... شيخ عبد الرزاق عفيفی... شيخ عبد الله بن غديان..... شيخ عبد الله بن قعود.
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (11/58)
7- کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ حج بدل کا مقصد مال لینا ہو، بلکہ مقصد حج اور مشاعر مقدسہ میں پہنچ کر اپنے بھائی کی طرف سے حج کر کے اس پر احسان کرنا ہو۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں:
"حج میں کسی کی طرف سے نیابت کرنا سنت رسول میں موجود ہے، اس لئے کہ ایک خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اورکہا: اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں پر فریضہ حج میرے والد پر ابھی باقی ہے، اور وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا تو کیا میں اسکی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: (ہاں)،
اور حج میں رقم کے بدلے میں نیابت کرنے کے بارے میں یہ ہےکہ : اگر انسان کا مقصد صرف رقم کا حصول ہے تو اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتےہیں : "جس نے صرف اس لئے حج کیا کہ کھانے پینے کو مل جائے گا، تو اس کیلئے آخرت میں کچھ نہیں ہے"اور جو اس لئے رقم لیتا ہے تا کہ حج کر سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے نیابت کرنے کیلئے رقم وصول کرتے ہوئے نیت یہ ہو کہ یہ رقم اس کیلئے حج کے دوران مددگار ہوگی، اور یہ بھی نیت کرے کہ جس کی طرف سے حج کر رہا ہے اسکی ضرورت پوری ہوگی، اس لئے کہ جو حج بدل کروا رہا ہے وہ ضرورت مند ہے، اور اسے خوشی ہوتی ہے جب اسے کوئی حج بدل کرنے والا مل جاتا ہے، اس لئے حج بدل کرنے والے کو حج کی ادائیگی کے ذریعے احسان کی نیت کرنی چاہئے" انتہی
" لقاءات الباب المفتوح " ( 89 / السؤال 6 )
ایسے انہوں نے کہا:
"بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کی طرف سے حج صرف اور صرف مال کمانے کی غرض سے کرتے ہیں، اور یہ ان کیلئے حرام ہے؛ اس لئے کہ عبادات کو دنیا کمانے کی غرض سے نہیں کیا جاسکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ . أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہے تو ہم ایسے لوگوں کو دنیا میں ہی ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے دیتے ہیں اور وہ دنیا میں گھاٹے میں نہیں رہتے [١5] یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ حصہ نہیں۔ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ برباد ہوجائے گا اور جو عمل کرتے رہے وہ بھی بے سود ہوں گے۔ ہود/ 15، 16
( فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ )
ترجمہ: پھر لوگوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں : ''اے ہمارے پروردگار! ہمیں سب کچھ دنیا میں ہی دے دے۔'' ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ بقرہ/200
اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے سے کوئی ایسی عبادت قبول نہیں کرتا جس کامقصد اللہ کی ذات نہ ہو، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت گاہوں کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے سے روکا ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: (جب تم کسی کو دیکھو کہ مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہے، تو تم اسے کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے)، چنانچہ اگر عبادت گاہ کو جائے تجارت بنانے پر اس کے خلاف بد دعا کی جارہی ہےکہ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے ، تو اس شخص کے بارے میں کیا خیا ل ہے جس نے عبادت کو ہی ذریعہ تجارت بنا لیا، گویا کہ اس نے حج کو سامانِ تجارت بنا دیا ہے، یا جیسے اس نے کسی کا گھر یا دیوار بناتے ہوئے اس نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت دیکھائی ہے!! آپ دیکھو گے کہ جسے آپ نائب بنانا چاہتے ہو وہ اس پر بھاؤ لگانا شروع ہوجاتا ہے، کہ یہ رقم تو تھوڑی ہے!، مجھے فلاں شخص اس سے زیادہ دے رہا تھا!، یا فلاں نے مجھے حج کیلئے اتنی رقم دی تھی!، وغیرہ وغیرہ ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس شخص نے عبادت کو ایک پیشہ بنا لیا ہے، اسی لئے حنبلی فقہاءنے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ : کسی شخص کو اجرت دے کر حج بدل کروانا درست نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو شخص بھی حج مال کے حصول کیلئے کرتا ہے اس کے لئے آخرت میں کچھ بھی نہیں، ہاں اگر کسی دینی مقصد سے وہ رقم لیتا ہے ، مثال کے طور پر اسکی نیت ہے کہ میں اپنے بھائی کی طرف سے حج کر کے اسے فائدہ پہنچاؤں گا ، تو ٹھیک ہے، یا اسکا مقصد مشاعر میں پہنچ کر زیادہ سے زیادہ عبادت، ذکر کرنا ہوتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ نیت درست ہے"
جو لوگ حج میں نیابت کرنے کیلئے کسی سے رقم لیتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نیت خالص کر لیں، انکا مقصد بیت اللہ کا حج کرنا ہو، اللہ کا ذکر اور دعائیں کرنا انکا مقصد ہونا چاہئے، اور ساتھ میں ایک مسلمان کی حاجت کو پورا کرنابھی مقصد میں شامل ہونا چاہئے، انہیں چاہئے کہ مال کمانے کی نیت سے دور ہوجائیں ، لہذا اگر انکی نیت صرف مال کمانا ہے تو ان کیلئے نیابت کرتے ہوئے رقم کی وصولی درست نہیں ہے، چنانچہ جوں ہی انکی نیت درست ہوگی تو جو کچھ بھی انہیں دیا جائے گا وہ اسی کا ہے، اِلاّ کے باقی بچ جانے والی رقم کی واپسی کیلئے شرط لگا دی جائے" انتہی
" الضياء اللامع من الخطب الجوامع " ( 2 / 477 ، 478 )
جاری ہے ---------