• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج کی حقیقت اور اس کا کردار

شمولیت
دسمبر 01، 2016
پیغامات
141
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
71
حج کی حقیقت اور اس کا کردار

حج اسلام کا چوتھا رکن ہے اور انسان کی بندگی اورعبادت کا پہلا اور قدیم طریقہ ہے اس کے لفظی معنیٰ ”قصد اور ارادہ“ کے ہیں حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمان مکہ میں جمع ه‍وتے ہیں، یہ سب حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں جو اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے لے کر اب تک زمان ومکان کی پابندیوں سے بالا تر ہوکر ایک مشترک بنیاد پر جمع ہوکر حج ادا کرتے ہیں
حج کی حقیقت:
حج کی حقیت رب کی رحمتوں اور برکتوں کے مرکز خاص میں حاضری،حضرت ابرہیم علیہ السلام کی طرح دعوت پر ”لبیک“کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا ہے ۔ یعنی حضرت ابراہیم واسماعیل علیھما السلام کی پیروی میں اللّہ تعالی کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا اور فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کے ساتھ اپنی گرد جھکا دینا اور اس معاہدے کو اسی طرح بجالانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجالائے تھے۔ یہی ملت ابراہیمی اور روح اسلام ہے۔ جس کو حاجی ان مقدس اعمال اور قدیم دستوروں کے مطابق حج میں اپنے عمل اور کیفیت کو مجسم کرکے ظاہر کرتے ہیں۔ انہی کی طرح بن سلے اور سادہ کپڑے پہنتے ہیں۔ مقررہ دنوں تک سر کے بال نکالتے اور ترشواتے ہیں۔ دنیا کے عیش ونشاط اور تکلف کی زندگی سے دور رہتے ہیں۔ اور جس طرح رب کی پکار پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ”لبیک“ کہا تھا وہی نعرہ ان کی زبانوں پر ہوتا ہے۔ یہ خدمت کی آمادگی کا ترانہ او توحید کی صدا ان تمام مقامات اور حدود میں بلند کرتے ہیں جہاں جہاں ان دونوں بزرگوں کے نقش قدم پڑے تھے۔ سات دفعہ بیت اللّہ کا طواف کرتے ہیں، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں،قربان گاہ میں پہنچ کر قربانی کرتے ہیں اور عرفات کے میدان میں جمع ہوکر اپنی تمام گزشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں۔(سیرت النبي ﷺ ٢٦٠/٥)
حج کا کردار انسان کی دینی زندگی میں:
(1) اللہ حاجیوں کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے: ”من حج فلم یرفث ولم یسفق رجع من ذنوبه کیوم ولدته امه“(بخاری ومسلم)
(2) قبولیت دعا: ”الحجاج والعمار وفلاح دعاھم فاجابوہ واسئلوہ فاعطاھم“ (رواہ البزار)
(3) تقرب الہی:”وما تقرب الی عبدی بشئی احب الی مما افترضته علیه“(بخاری)
(4) جہنم سے آزادی: ”ما من یوم اکثر من الا یعتق اللّه فیه عبدا من النار من یوم عرفة“(مسلم)
حج کا کردار انسان کی دنیوی زندگی میں:
(1) حج در حقیقت عالم اسلام کی ایک مشترکہ سالانہ دینی تقریب ہے۔ جس میں اطراف عالم سے ہر ملک کے نمائندے شریک ہوتے ہیں، امن وآشتی کے گہوارے میں باہم ملاقات وتعارف اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ربط استوار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سننے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، امت مسلمہ کی اجتماعی مشکلات کے تدارک کے لیے مؤثر حل تلاش کرتے ہیں۔ شعائر اسلام کے احیاء کلمة اللہ کی سر بلندی کے لیے مل جل کر کوشش کرتے ہیں تاکہ رب کا دین رب کی زمین پر قائم اور غالب رہے۔(مجموعة رسائل ص:٥٦١)
(2) سفر حج میں تجارت کرتے ہیں۔
(3) سفر حج میں صنعت وحرفت سیکھتے ہیں۔
(4) حج میں اسلامی وانسانی اخوت اور عالمی برادری کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
(5) آخرت کی یاد دہانی: حج کو قیامت سے بھی مشابہت ہے عرفات کا اجتماعی میدان حشر کا نمونہ ہے لباس احرام کفن سے مشابہ ہے۔ سورة الحج کی ابتداء میں قیامت کا تذکرہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا ایک اہم مقصد فکر آخرت بھی ہے۔
(6) حج کے لیے آنے والے بہت سے منافع حاصل کرتے ہیں۔ حج ایک تجارت کا موسم ہے اور عبادت کا زمانہ ہے،اور ایک باہمی تعارف واجتماع کا زمانہ ہے، یہ تعاون وجماعت بندی کا زمانہ بھی ہے۔ حج ایک ایسا فریضہ ہے جس میں دنیا وآخرت ہر دو جمع ہوتے ہیں۔(تفسیر فی ظلال القرآن:٢٧٧/٦)
حج کے بعض اخلاقی مصالح:
(1) حج کے ذریعہ سے انسان اپنے تمام ذمہ داریوں کا احساس کرسکتا ہے۔ حج اس وقت کرسکتا ہے، جب اہل وعیال کے نفقہ سے رقم بچتی ہو۔
(2) ہر ملک کی زبان اسکی زبان ہے تاہم اس کی ایک عمومی زبان بھی جو اس ملک کی زبان ہے، جہاں دنیا بھر کے ہر ملک سے مسلمان آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور اس زبان کو بولنے اور سیکھنے پر کچھ نہ کچھ مجبور ہوتے ہیں، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہر مسلمان قوم جو کوی زبان بھی بولتی ہو وہ اس ملک کی زبان سے اور زبان سے نہ سہی تو الفاظ سے آشنا ہوتی ہے اور یہ اسلام کی ایک عالمگیر اخوت کی ایک مضبوط کڑی ہے۔
(3) مساوات اسلام کا سنگ بنیاد ہے، اگر چہ نماز بھی محدود طریقہ پر اس مساوات کو قائم کرتی ہے، لیکن پوری وسعت کے ساتھ اس کی اصل نمائش حج کے زمانہ میں ہوتی ہے۔
(4) بہت سی اخلاقی خوبیوں کا سر چشمہ کسبِ حلال ہے، چونکہ ہر شخص حج کے مصارف میں مال حلال سرف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(سیرت النبی:جلد:٥/ص ٢٩٧-٢٩٨)
الغرض حج اسلام کا صرف مذہبی رکن نہیں، بلکہ وہ اخلاقی،معاشرتی، اقتصادی، سیاسی یعنی قومی وملی زندگی کے ہر رخ اور ہر پہلو پر حاوی ہے اور مسلمانوں کی عالمگیر بین الاقوامی حیثیت کا سب سے بلند مظاہرہ ہے‌-
مراجع ومصادر:
(1)تفسیر فی ظلال القرآن (جلد ٦)
مؤلف: سید قطب شہید ؒ
(2) سیرت النبی ﷺ(جلد:٥)
مؤلف: سید سلیمان ندوی ؒ
(3) مجموعۃ رسائل
مؤلف: عبد اللہ بن زید المحمود
(4) ارکان اربعہ
مؤلف: سید ابو الحسن علی ندوی ؒ

تحریر: حافظ عبد الکریم کڑموری
 
Top