محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ۰ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ۰ۣ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۱۰۶ وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَۃِ اللہِ۰ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ۱۰۷ تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ۰ۭ وَمَا اللہُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِيْنَ۱۰۸ وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۰ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۱۰۹ۧ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۱۰
جس دن بعض منہ سفید اور بعض منہ کالے ہوں گے جن کے منہ کالے ہوں گے(ان سے کہا جائے گا) کہ تم ایمان لاکر کافر ہوگئے تھے۔ سو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب (کامزہ)چکھو۔(۱۰۶) اورجن کے منہ سفید ہوں گے ۔ سو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے ۔ وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔(۱۰۷) یہ اللہ کی آیتیں ہیں۔ ہم تجھے ٹھیک ٹھیک ان کو پڑھ کرسناتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔(۱۰۸) اوراللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔(۱۰۹)تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہے کہ حکم دیتے ہو اچھی باتوں کا اورمنع کرتے ہو بری باتوں سے اورا یمان رکھتے ہو اللہ پر۱؎ اوراگراہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ بعض ان میں سے مسلمان ہیں اور اکثر بے حکم ہیں۔(۱۱۰)
جس دن بعض منہ سفید اور بعض منہ کالے ہوں گے جن کے منہ کالے ہوں گے(ان سے کہا جائے گا) کہ تم ایمان لاکر کافر ہوگئے تھے۔ سو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب (کامزہ)چکھو۔(۱۰۶) اورجن کے منہ سفید ہوں گے ۔ سو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے ۔ وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔(۱۰۷) یہ اللہ کی آیتیں ہیں۔ ہم تجھے ٹھیک ٹھیک ان کو پڑھ کرسناتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔(۱۰۸) اوراللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔(۱۰۹)تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہے کہ حکم دیتے ہو اچھی باتوں کا اورمنع کرتے ہو بری باتوں سے اورا یمان رکھتے ہو اللہ پر۱؎ اوراگراہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ بعض ان میں سے مسلمان ہیں اور اکثر بے حکم ہیں۔(۱۱۰)
۱؎ اس آیت میں تمام مسلمانوں کو فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی کے لیے آمادہ کیا ہے مگر خود تبلیغ کی حدود کیا ہیں؟ یہ ایک سوال ہے۔قرآن حکیم نے تبلیغ واشاعت کو دو لفظوں سے تعبیر کیا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ یعنی نیکی، بھلائی اور سچائی کی تلقین اور برائی سے اظہار نفرت وتحقیر۔ظاہر ہے یہ دولفظ انتہا درجہ کی وسعت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہیں۔ معروف کا اطلاق نیک اقدام پر ہوسکتا ہے اور منکر کا ہربرے اقدام پر۔چونکہ ان دولفظوں میں فرد وجماعت کی تمام نیکیاں اوربرائیاں آجاتی ہیں اس لیے جواب بالکل آسان اور واضح ہے کہ تبلیغ کی حدود فرد وجماعت کی تمام وسعتوں پر حاوی ومحیط ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسی پاکیزہ اوربلند عادات رکھنے والی جماعت کا نام ہے جس کاہرفرد مبلغ ہے، صالح ہے اور مصلح ہے اورپھر تبلیغ کا طریق صرف پندوموعظت ہی نہیں بلکہ طاغوت کے خلاف جنگ بھی اس مفہوم میں داخل ہے مسلمان صرف محراب ومنبر ہی میں محدود رہ کر اعلاء کلمۃ اللہ کا سامان پیدا نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی وہ دار ورسن کو بھی دعوتِ امتحان دیتا ہے ۔ اس کا امکان تبلیغ صرف پرشور جلسے اور ہنگامہ خیز مجمعے ہی نہیں ہوتے بلکہ سیف وسنان کے مرکز اور توپ وتفنگ کے میدان بھی اس کے دائرۂ فتوحات میں شامل ہیں۔ وہ صرف قلم وزبان کو ہی جنبش نہیں دیتا بلکہ وقت پڑنے پر نیزہ، بھالا اور برچھی سب اس کے اشارہ پر رقص کناں ہوتے ہیں۔حدودِ تبلیغ