• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدود اللہ کا نفاذ یا پھر۔۔۔!

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
حدود اللہ کا نفاذ یا پھر۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدلله الحكم العدل الفرد الصمد الذي اذا حكم فهو احكم الحاكمين واذا أرحم فهو أرحم الراحمين واذا أخز فهو قوي العزيز المتين- والصلوة والسلام على النبي الكريم الصادق الوعد الامين.الداعي الى توحيد رب العالمين.المبعوث رحمة للعالمين.وعلى آله وصحبه اجمعين. اما بعد:
بے شک شریعت الہی کا نفاذ اہم ترین فرا ئض میں سے ایک ہے اور اس سے اسلام معاشرے میں بگاڑ کا سدباب ہوتا ہے۔
لیکن اگر اس کا نفاذ غیر متعلقہ لوگ ،یعنی جن کو اس کام کا ذمہ دار دین اسلام نے نہیں بنایا اگر وہ اس کام میں طبع آزامائی کریں گے تو یہ مقدس کام فتنہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
یہاں یہ ضروری بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ قرآن و حدیث اور فہم سلف صالحین کی تعلیمات کے مطابق حدود اللہ کا نفاذ مسلم حکمرانوں اور سلاطین کا کام ہے۔ یعنی ایسے افراد کا کام ہے جو زمین پر حکومت دیئے گئے ہیں۔ان کے علاوہ ملک میں موجود کسی گروہ یا تنظیم کا یہ ہر گز کام نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسکے مکلف ہیں۔
اور اگر بالفرض حکمران وقت حدود اللہ کے نفاذ میں کاہلی کا شکار ہوں تو بھی کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یہ فریضہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنے طور پر اس کام میں لگ جائے۔ بلکہ اس مسئلے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران وقت کو نصیحت کرتے رہیں اور حدود اللہ نفاذ کی اہمیت و فوائد سے آگاہ کرتے رہیں ، جیسا کہ الشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ الہہ اور امام الدعوہ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ نے مسئلہ نفاذ حدود اللہ میں منہج حقہ پیش کیا ہے۔ (اس بارے محمد بن عبد الوھاب ، ایک مظلوم اور بدنام مصلح نامی کتاب کا مطالعہ نہایت مفید ہے)

لیکن المیہ یہ ہے کہ، آپ حضرات اکثر انٹرنیٹ پر یا سی ڈی وغیرہ میں ایسے شارٹ ویڈیو کلپس دیکھتے ہوں گے کہ جس میں کوئی تنظیم یا گروہ کسی مسلمان کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر یا ویسے ہی، ہاتھوں کو جکڑ کر بٹھایا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے چند نقاب پوش افراد جذباتی ہو کر نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہوتے ہیں اور حدود اللہ کے نٖفاذ کا شور مچا رہے ہوتے ہیں کہ’’ ہم فلاں شخص پر فلاں مسلمان پر جاسوسی کی حد، قتل کی حد یا گستاخی رسول کی حد نافذ کر نے لگے ہیں ، یہ بندہ جوآپ کے سامنے بیٹھا ہے ، یہ جاسوس ہے، قاتل ہے یا گستاخ رسول ہے۔۔۔‘‘

یہاں ایک بات مز ید ذہن نشین فرما لیں کہ جس مسلمان شخص پر حد کا نفاذ ہوجائے تو وہ اپنے گناہ کی سزا دنیا میں پانے کی وجہ سے آخرت میں پاک ہوجاتا ہے، اس کا وہ جرم دھل جاتا ہے۔
مگر آجکل ہائی ڈیفی نیشن ویڈیوز میں اس جکڑے گئے مسلمان آدمی کو گھیرے ہوئے لوگ اس پر الزام لگاتے ہوئے اور اس کی سزا سناتے ہوئے ،نعرے بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یا تو اسے بری طرح دردناک انداز میں ذبح کر دیا جاتا ہے یا پھر پوری کلاشن کی مگزین خالی کر دی جاتی ہے حالانکہ یہ کام ایک گولی سے بھی ممکن ہوتا ہے۔ یہ نقاب پوش حد نافذ کرنے کے دعویدار اسے غلیظ ناموں سے پکارتے ہیں اور حد کے نفاذ کے بعد اسکی لاش کو گولیوں کی بوچھاڑ سےمسخ کر دیتے ہیں ، اور نہایت بھیانک لہجے میں اس لاش کو کوستے اور ٹھڈے تک مارنا شروع کر دیتے ہیں

ایسا مسلمان مرد یا عورت جس پر حد نافذ کر دی گئی ہو، وہ پاک ہوتا ہے اور اگر کوئی اس مرد یا عورت کی تحقیر یا تذلیل کرتا ہے تو اسے اس واقعہ سے عبرت لینی چاہیے کہ جب زمانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شادی شدہ عورت کو زنا کی پاداش میں رجم کیا گیا تو اسکے خون کے چھینٹے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر پڑے تو انہوں نے اس عورت کو کوسنا شروع کر دیا کہ تیرے پلید خون نے مجھے آلودہ کر دیا ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کی سخت سرزنش فرمائی۔

مگر یہاں ایسی ویڈیوز میں حدود اللہ کے نفاذ کے کام سے لیکر ملزم کے انجام تک ، سب کچھ خود شریعت اسلامیہ کے اصولوں برخلاف چل رہاہوتا ہے۔ اور قسم کے حدود اللہ کے نفاذ کے نام پر قتل وغارت کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں!!!

آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ وہ کیسے ؟

تو اس پر میں چند سوالات آپکی خدمت میں رکھوں گا:

اسلام نے حدود اللہ کا نفاذ ان افراد کے ذمہ لگایا ہے جو زمین سلطہ دیئے گئے ہیں، کیا ان کے پاس سلطہ ہے؟
اس مسلمان کو جسے حد کے نام پر قتل کیا جارہا ہے ، اس پر مکمل الزام کیا تھا؟
اس کا کیس کس عدالت میں چلا اور کب چلا؟
اسکے اس فعل پر کس کس نے گواہی دی اور کتنی گواہیاں درج ہوئیں؟
اس شخص نے اپنی صفائی میں کیا کہا، یا اسے صفائی کا موقع دیا گیا ؟
عدالت نے اس شخص کے مجرم ہونے کا فیصلہ کیا کیا، اور کیا سزا سنائی؟
کن لوگوں نے اس پر عمل درآمد کروایا یا حد کو نافذ کیا اور اس مجرم قرار دیئے ہوئے شخ کو قتل کیا؟

اب اگر آپ انٹرنیٹ پر موجود تمام پرائیویٹ گروہوں اور تنظیموں کے ویڈیو کلپس نکال کر ، سب کا جائزہ لے لیں ، تو آپ بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ حدود اللہ نفاذ کے آخری مرحلے کے سوا باقی تمام مراحل آپ کو ویڈیو میں نظر نہیں آئیں گے۔​
حق تو یہ تھا کہ جہاں حد کے نفاذ کی فلم بندی کی گئی وہی پر باقی مراحل بھی فلمائے جاتے ، تاکہ عام مسلمان بھی جان لیتا کہ یہ جس کو قتل کیا جا رہا ہے یہ واقعی ہی اس کا حقدار ہے۔
آخر ایسا کیوں نہیں کیا گیا، مکمل کیس کی ویڈیو کیوں نہیں بنائی گئی، یا یہ چند منٹ کی عدالت کہ جس میں نہ گواہ پیش ہوئے نہ ملزم کو صفائی کا موقع ملا ہو ، بس نفاذ ہی دکھایا گیا ہو، یہ کس دین کا طریقہ ہے کم از کم اسلام کا یہ طریقہ نہیں اسلام ایسی کرتوتوں سے بری ہے۔
مگر ایسا نہیں ہوتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا یا پھر دال ہی ساری کالی ہے ۔

آپ تمام کلپس اٹھا کر دیکھ لیں چند منٹوں میں ایک آدمی جلدی سے کھڑے کھڑے ،اس جکڑے ہوئے مسلمان پر الزام اور فیصلہ سنا کر فورا اسے وحشیانہ طریقہ سے قتل کر دیتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

اس سے کئی باتوں کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو وہ شخص بے قصور تھا مگر کسی عداوت میں اسے شریعت کے نام پر اپنے نفس کی تسکین کی گئی،
اس شخص کے خلاف کوئی گواہ نہیں تھا اور محض ظن اور گمان بد کی بنیاد پر اسے قتل کر دیا گیا ، جو کہ اسلام کے بالکل مخالف اور ظلم ہے۔
یا پھر اس بیچارے کا جرم اتنا تھا ہی نہیں کہ اس پر اسے قتل کیا جاسکے اور اگر اپنی ہی عدالت میں یہ تنظیم کیس چلاتی تو وہ بری ہوجاتا یا کم سزا پا تا ، اسی لئے با ہر ہی با ہر اسے اپنی مرضی کی سزا سے دوچار کر دیا گیا۔
ایسے ویڈیو کلپس سے اسلام اور جہاد ہی کی بدنامی ہی ہوگی، سیکیولر اور لادین حلقوں کو زبان درازیوں جواز ہی فراہم ہوگا، اور غیر مسلم اسلام کو چاہے قبول ہی کیوں نہ کرنا چاہتے ہوں مگر ایسی نامکمل اور بے ہنگم ویڈیوز دیکھ کر اسلام سے متنفر ہی ہوں گے۔ مسلمانوں میں خوف و وحشت ہی پھیلے گی۔ اللہ کی پناہ۔

اے اہل ایمان ، آپ سے درخواست ہے کہ اللہ کے لئے شریعت اسلامی کے نفاذ کے نام پر فتنہ پھیلانے والوں اور مسلمانوں کا ناحق قتل کرنے والوں کو پہچانیئے اور ان کے کسی ایسے عمل میں تا ئید یا تعریف کے ساتھ شریک یا حمایتی بننے سے اجتناب کیجئے ، یہ نہ ہو کہ کل جب یہ لوگ اس اللہ کے سامنے پکڑے جائیں تو انکے حمایتیوں میں آپ کا نام بھی پکارا جائے ، کیونکہ کراما کاتبین تو بہرحال سب لکھ رہے ہیں ، چاہے آپ پاکستان میں بیٹھے یا کئی اور انکی حمایت و تائید کر رہے ہیں۔​

میرے ذمہ تو محض پہنچانا تھا۔۔۔

اے اللہ گواہ رہنا میں نے پہنچا دیا
اے اللہ گواہ رہنا میں نے پہنچا دیا
اے اللہ گواہ رہنا میں نے پہنچا دیا

وما علینا الاالبلاغ المبین
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/2696-muhammad-bin-abdul-wahab-aik-mazloom-aur-badnam-muslih.html
اس لنک پر موجود کتاب کے صفحات ۳۶ سے ۴۲ تک پڑھ لیجیے۔ پھر یہ بھی لکھ دیجیے گا کہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے عورت کو سنگسار کروایا تو اس وقت کونسا سلطہ امام صاحب کے پاس تھا؟
اللہ اکبر کبیرہ ۔ محترم بھائی اگر آپ یہ بھی بتا دیتے کہ کس سے سنگسار کروایا تو سب کے لئے آسانی ہوجاتی۔۔۔
چلیں میں آسانی کا باعث بنتا ہوں یہ بتا کر۔۔۔۔۔

بھیا ، محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ نے حاکم سے یہ نیک کام کروایا۔ ۔ ۔کیونکہ شیخ اس کی ریاست کے سرکاری مفتی کی حیثیت رکھتے تھے۔
الشیخ نے خود نافذ نہیں کہ بلکہ ایک ایسے حاکم سے نافذ کروائی کہ جس کو وہ پہلے اپنی دعوت سے قائل کر چکے تھے۔

سلطہ نظر آیا ؟
نہیں تو زرا یہ پورا اقتباس ، جس میں یہ نفاذ والا واقع لکھا ہے ، یہاں پیسٹ فرما دیں ، ساری جھوٹی قلعی کھل جائے گی ان شاء اللہ
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کیا وہ حاکم خلیفہ تھا؟ کیا اس کے دور میں حدود اللہ نافذ تھیں؟ یا وہ کسی دوسرے کے ماتحت تھا؟ یا وہ کسی کا باجگذار تھا؟ یا کوئی اور حاکم اس کے اوپر تھا؟ اور جو اس کےاوپر حاکم تھا کیا وہ خلیفہ تھا؟ کیا اس نے حدود اللہ نافذ کر رکھی تھیں؟
اور سرکاری مہمان یا سرکاری مفتی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ آپ خود ہی فیصلہ کریں اور بقول آپ کے
یہاں پیسٹ فرما دیں ، ساری جھوٹی قلعی کھل جائے گی ان شاء اللہ
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
کیا وہ حاکم خلیفہ تھا؟ کیا اس کے دور میں حدود اللہ نافذ تھیں؟ یا وہ کسی دوسرے کے ماتحت تھا؟ یا وہ کسی کا باجگذار تھا؟ یا کوئی اور حاکم اس کے اوپر تھا؟ اور جو اس کےاوپر حاکم تھا کیا وہ خلیفہ تھا؟ کیا اس نے حدود اللہ نافذ کر رکھی تھیں؟
ایک اور علمی لطیفہ ، بھائی میں آپ کا ساتھ انجوائے کر رہا ہوں۔۔ہہہہ

زرا خود اس بات پر غور کریں کہ آپ نے لکھا کیا ہے؟
سمجھ آئے تو مجھے بھی بتا دیجئے گا؟

یعنی اب ایک بیچارے علاقے کے حاکم نے جب شریعت نافذ کر ہی دی ، تو آپ نے اس سے سلطہ ہی چھین لیا۔ گڈ۔

کوئی اور تاویل سوچئے۔۔ :)
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
ھھھ، ہہہہ ہوہوہوہو سے کام نہیں چلنا جناب،

آپ اس بات کا ثبوت دو کے محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے خود شریعت نافذ کی تھی ، نہ کہ انکے علاقے کے حاکم نے۔۔۔
اگر آج کوئی وزیراعظم یا صدر کسی اسلامی ملک کا حدود اللہ کا نفاذ کر دے تو وہ بھی تو خلیفہ نہیں ، تو آپ اس پر کیا کہیں گے؟
اور افغانستان میں جیسا مشہور ہے کہ ملا عمر مجاہد جو کہ صرف افغانستان کا حاکم تھا ، اس نے جو نافذ کر رکھا تھا، وہ کیا تھا۔

فضولیات ، آئین بائین شائین کی بجائے ، جواب عنایت فرمائیں۔ نوازش
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ھھھ، ہہہہ ہوہوہوہو سے کام نہیں چلنا جناب،

آپ اس بات کا ثبوت دو کے محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے خود شریعت نافذ کی تھی ، نہ کہ انکے علاقے کے حاکم نے۔۔۔
اگر آج کوئی وزیراعظم یا صدر کسی اسلامی ملک کا حدود اللہ کا نفاذ کر دے تو وہ بھی تو خلیفہ نہیں ، تو آپ اس پر کیا کہیں گے؟
اور افغانستان میں جیسا مشہور ہے کہ ملا عمر مجاہد جو کہ صرف افغانستان کا حاکم تھا ، اس نے جو نافذ کر رکھا تھا، وہ کیا تھا۔

فضولیات ، آئین بائین شائین کی بجائے ، جواب عنایت فرمائیں۔ نوازش
علی ولی صاحب گفتگو کرنے کے بھی کچھ آداب ہوتے آپ ذرا اپنی گفتگو تو ملاحظہ فرمائیں:
ھھھ، ہہہہ ہوہوہوہو سے کام نہیں چلنا جناب،
اگر آج کوئی وزیراعظم یا صدر کسی اسلامی ملک کا حدود اللہ کا نفاذ کر دے تو وہ بھی تو خلیفہ نہیں ، تو آپ اس پر کیا کہیں گے؟
پہلے تو اس بات کا ثبوت دیں کے کسی اسلامی ملک میں لوگوں کی گردنوں پر طاغوتی قوانین مسلط کرنے والے کسی بھی صدر اور وزیر اعظم نے کسی بھی اسلامی ملک میں حدود اللہ کا نفاذ کیا ہوا ہے۔ستّر سالوں میں جس ملک میں سود کو حرام نہ قرار دیا گیا ہو،شراب خانے کھلے ہوئے ہوں اور پارلیمنٹ کی طرف سے قانون سازی کے ذریعے شراب کی فروخت کو حلال قرار دیا گیا ہو،بدکاری اور فحاشی کے اڈے سرکاری سرپرستی میں قائم ہوں اور حکومتی اراکین ان کو چلانے والے ہوں ۔ اور ان اڈوں میں جاکر یا ان طوائفوں کو اپنے گھروں بلا کر بدکاری اور عیاشی کرنے والے ہوں ۔تو ایسے بدترین جانوروں سے بدتر لوگوں کے بارے میں حدود اللہ کی نفاذ کے بارے میں سوچنا یا سوال کرنا نہایت ہی عجیب بات ہے۔صرف اس بارے میں سوچیں کے ان بدکار طاغوتوں کو جو کہ لوگوں کی گردنوں پر خود بھی مسلط ہیں اور انہوں نے طاغوتی قوانین کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ جن سے اس ملک کے ججز لوگوں کی جان ومال اور عزتوں کے فیصلے کررہے ہیں۔ ان کو کس طرح ہٹایا جائے۔آج اس فکر کی اہم ترین ضرورت ہے۔

اور افغانستان میں جیسا مشہور ہے کہ ملا عمر مجاہد جو کہ صرف افغانستان کا حاکم تھا ، اس نے جو نافذ کر رکھا تھا، وہ کیا تھا۔
انداز گفتگو دیکھیں اس طرح پوچھا گیا ہے جیسے کہ دادیاں اپنے پوتوں کو سلاتے وقت سوالات کرتی تھیں۔اچھا میرے بچوں یہ تو بتاؤ ۔۔۔ وہ تو بتاؤں۔ادب وتہذیب اور شائستگی کا دامن آپ اپنے ہاتھ سے بالکل چھڑاچکے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کیسی عظیم شخصیت کے بارے میں سوال کررہے ہیں ۔ وہ عظیم شخصیت جس نے دنیائے کفر سے ٹکر لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولادوں کی اپنی اولادوں سے زیادہ حفاظت کی ۔ وہ عظیم شخصیت جس نے اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر صحابہ کرام کی بیٹیوں کی حفاظت کی ۔ وہ عظیم شخصیت جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوتوں کی حفاظت میں اپنے بیٹے کٹوادیے۔اپنے گھروں کو جلوادیا۔اپنے ملک کا سکون تارج کروادیا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولادوں کے تحفظ میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں برتی ۔ وہ عظیم شخصیت جس نے پاکیزہ لفظ ’’امیرالمومنین‘‘کی لاج رکھتے ہوئے دنیا بھر کے صلیبیوں ، اور ان کے ایجنٹوں سے ٹکر لیتے ہوئے ااسلام کی عزت بڑھائی ۔ جس نے جہاد کو جلا بخشی ۔ جس نے اس لفظ کو پاکیزگی بخشی۔جس نے اس پاکیزہ لفظ ’’امیرالمؤمنین‘‘کی لاج رکھ لی۔جب ملعون کمال اتاترک یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ نے ترکی سے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کیا تو یہ پاکیزہ لفظ تاریخ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ایسی عظیم شخصیت جس نے اس لفظ ’’امیرالمؤمنین‘‘کا دوبارہ احیاء کیا ۔یاد رکھو اسے سوال کرنے والے علی ولی امیرالمؤمنین ملا عمر المجاہد حفظہ اللہ صرف افغانستان کے حاکم نہیں وہ پوری دنیا کے مومنین کے امیر ہیں ۔ ملا عمر حفظہ اللہ پوری دنیا کے مجاہدین کے امیرالمؤمنین ہیں، ساری دنیا کے مجاہدین چاہے وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں سب کے سب انہیں اپنا امیرالمؤمنین تسلیم کرتے ہیں ۔ ان کی ہاتھ پر بیعت ہیں ۔یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امیرالمومنین ملا محمدعمر حفظہ اللہ کو عطا فرمایا فرمایا ہے۔جس پر ہم اللہ کا شکرادا کرتے ہیں۔
علی ولی صاحب آپ نے پوچھا اس نے جو نافذ کررکھا تھا۔وہ کیا تھا۔مسلمانوں سے یہ سوال کرنے کے بجائے ریڈلی سے پوچھوں کہ وہ کیا تھا۔ عبدالحمید (جان واکر)حفظہ اللہ سے پوچھو کہ امیرالمؤمنین ملا عمر کیا تھا؟ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ان مجاہدین سے پوچھو کہ جنہوں نے اسلام قبول کرنے بعد امیرالمومنین کی طرف ہجرت کی ۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ وہ کیا تھا۔اور اس نے کیا نافذ کررکھا تھا۔ضرور پوچھنا کہیں تمہیں حالت کی تنگی ایسا نہ کرنے پر مجبور نہ کردے ۔
ذرا اس مضمون پر بھی نظر دوڑالیجئے گا ان شاء اللہ فائدہ ہوگا
ملا عمر کا جہاد۔۔۔ جہادِ شرعی کی ایک صالح ترین مثال ہے
کچھ دیر کیلئے ہم اِن معترضین کو درست بھی مان لیں کہ مسلم حکمران کے بغیر جہاد درست نہیں....
تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اِن حضرات کو افغانستان کی امارتِ اسلامی کے تحت ہونے والے جہاد کی تو ضرور ہی حمایت کرنی چاہیے تھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں یہ افغانستان میں جہاد سے "روکنے" کیلئے ہی اپنی یہ 'دلیل' سب سے زیادہ ذکر کرتے ہیں!
ظاہر ہے افغانستان میں ملا عمر کی قیادت میں باقاعدہ ایک اسلامی حکومت موجود تھی۔ جو عدل اور جو امن اِس حکومت نے ملک کے طول و عرض میں قائم کر کے دکھایا اُس کا فی زمانہ تصور تک شاید کہیں نہ ہو سکتا ہو۔ اَب کسی فقہ کی کتاب کے اندر یہ تو لکھا ہوا نہیں کہ کسی حکومت کے معتبر ہونے کی شروطِ شرعیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ہاں سے پاس شدہ ہو! اِس ایک 'شرط' کے علاوہ ویسے کونسی شرط تھی جو ملا عمر کی حکومت نے پاس نہیں کر لی تھی؟ یہاں تک کہ آپ کے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" نے اور "مکہ مدینہ کے بادشاہ" نے اِس کو باقاعدہ تسلیم کر رکھا تھا! پھر جب امریکہ کی جانب سے اس پر سراسر ایک ظالمانہ و جارحانہ حملہ ہوا تو ہمارے اِن حضرات نے، جو جہاد کیلئے "اسلامی حکومت" کی شرط عائد فرمایا کرتے ہیں، کیوں نہ امارتِ اسلامی افغانستان کے اعلانِ جہاد کے حق میں فتوائے عام صادر کیا؟
یہاں پر؛ اِن میں سے کچھ اصحاب کمال کا ایک نکتہ اٹھاتے ہیں (معلوم نہیں ملا عمر کی امارت کو شرعی ریاست مانتے بھی ہیں یا نہیں، البتہ اپنی انگریز کے قانون پر چلنے والی ریاست کو 'شرعی' مانتے ہیں!) اور وہ یہ کہ ملا عمر کی ریاست "اسلامی دولت" کیلئے اس لئے 'کوالیفائی' نہیں کرتی کہ جب امریکہ نے اُس سے اسامہ کو مانگا تو اُس نے اسامہ کو اُس کے سپرد کیوں نہیں کر دیا! اِن میں سے بعض اصحاب اِس بات کو سرے سے گول کرتے ہوئے کہ ملا عمر کی امارت ایک اسلامی امارت تھی جس کو افغانستان پر حملہ آور صلیبی افواج کے خلاف اعلانِ جہاد کرنے کا پورا پورا حق حاصل تھا، ساری بحث اس پر لے آتے ہیں کہ اگر یہ اسلامی امارت ہو بھی (یعنی مانتے نہیں کہ یہ اسلامی امارت تھی!) تو بھی اُس کا اعلانِ جہاد اِس وجہ سے باطل ہو جاتا ہے کہ وہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہ کر کے 'جارحیت' کی مرتکب ہو بیٹھی تھی!
سوال یہ ہے، کیا واجب تھا کہ ملا عمر اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرتے؟ اور کیا یہ اِس درجہ کا واجب تھا کہ اس کے عدمِ اداءکی صورت میں ملا عمر کا پورے کا پورا جہاد ہی باطل ٹھہرایا جائے؟ یعنی، ہمارے اِن نکتہ وروں کے خیال میں، یہ ہرگز کافی نہیں کہ ملا عمر یہ اعلان کر دیں، اور جوکہ اُنہوں نے کیا، کہ اسامہ نے اگر دنیا میں کسی بھی انسان کے ساتھ کوئی زیادتی کر دی ہے تو اس کے ثبوت لائے جائیں، اور وہ اسلامی شریعت کے مطابق اس پر پوری پوری عدالتی کارروائی کرنے پر تیار ہیں۔ اب کیا اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا اعلان نادرست ہے، اور اِس پر اصرار کر لینے کے باعث اور اِس قضیہ میں ہر قسم کے پریشر اور دھونس کو رد کر دینے کے باعث ملا عمر کا جہاد "باطل" ہو گیا؟ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ملا عمر کی یہ نہایت اصولی و منصفانہ پیشکش امریکہ کی تکبر سے تنی ہوئی گردن کیلئے ناقابل قبول تھی۔ لیکن یہ سمجھ آنا نہایت دشوار ہے کہ ہمارے اِن مفتیانِ کرام کیلئے یہ بات کیوں ناقابل قبول ہے! اب ظاہر ہے اگر فریقِ دیگر (یعنی امریکہ) ملا عمر کی اِس پیشکش کو قبول کرتا، شیخ اسامہ کی کسی زیادتی کا ثبوت لاتا، شیخ اسامہ اُس کے بالمقابل اپنا مقدمہ بیان کرتے اور اپنی وجوہات سناتے اور اپنی صفائی میں جو کہنا چاہتے کہتے، اور پھر عدالت اسلامی شریعت کے اصولوں کے مطابق اُن کا فیصلہ کرتی.... تو جا کر یہ نوبت بھی آتی کہ ہمارے یہ مفتیانِ کرام کم از کم اُس عدالتی فیصلے کے اندر ہی کچھ کیڑے نکال دکھاتے۔ کم از کم، کوئی تو اعتراض نکلتا جو امارتِ اسلامی کی قائم کردہ عدالت یا اُس کے 'فہمِ شریعت' پر لگایا جا سکتا! مگر ظاہر ہے امریکہ نے اس کی نوبت ہی نہیں آنے دی؛ اُس کی جانب سے تو 'آپشن' ہی ایک دیا جا رہا تھا کہ: اِس مسئلہ پر امارتِ افغانستان کو صاف صاف 'ہینڈزاَپ' کرنا ہو گا۔ البتہ جہاں تک اصولوں کا تعلق ہے ، تو ملا عمر کو آخر کیوں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک مسلم باشندے پر عائد کئے گئے الزامات کے ثبوت مانگیں اور ان الزامات کو اپنی شرعی عدالت کے اندر پیش کرنے کی یقین دہانی کرائیں، مگر دوسری طرف ملزم کو اپنے دفاع اور اپنی صفائی اور اپنی وجوہات پیش کرنے کا بھی پورا پورا موقع دیں، اور پھر ان کی عدالت اسلامی اصولوں کی رو سے اس قضیہ کا ایک بے لاگ فیصلہ کرے؟ ملا عمر اگر اِس بات پر اصرار کریں تو آخر یہ کیوں صحیح نہیں ہے؟
یہاں تک، بتائیے ملا عمر کی کیا غلطی ہے؟ ملا عمر یہ نہایت معقول و منصفانہ پیشکش کرنے میں کیوں حق بجانب نہیں ہیں؟
اب آگے چلئے۔ امریکہ پوری رعونت کے ساتھ ملا عمر کی امارتِ اسلامی افغانستان پر حملہ کر دیتا ہے اور اپنے بی ففٹی ٹو بمباروں اور اپنے ڈیزی کٹروں کے ساتھ مسجدوں اور اذانوں کے اِس دیس کو شرق تا غرب خون میں نہلا دیتا ہے۔ یہاں؛ ملا عمر کو اپنے اِس دیس کے دفاع کا حق کیوں نہیں ہے؟
آخر وہ کونسا پوائنٹ ہے جہاں سے ملا عمر کا جہاد باطل ہو جاتا ہے؟
غرض کسی وقت یہ حضرات تجاہل عارفانہ سے کام لے کر امارتِ اسلامی افغانستان کو 'حکومت' کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتے، اور پھر کسی وقت جب دیکھتے ہیں کہ اِن کی بیان کردہ "نو من تیل" والی یہ شرط بھی یہاں تو پوری ہوتی نظر آتی ہے (یعنی اُن کا یہ شرط لگانا کہ اسلامی حکومت دنیا میں کبھی ہو کر دے تو یہ حضرات اُس کے قتال کو "جہاد" کی ڈگری عنایت فرمائیں) یوں اس کو "جہاد" مانے بغیر اب تو کوئی 'اصولی' مفر بھی اِن کے پاس نہیں رہ گیا ہے، تو پھر پینترا بدل کر یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ ملا عمر نے امریکہ کے 'اسامہ کو سپرد کرنے' کے مطالبہ کے سامنے فوراً سر تسلیم خم کیوں نہیں کر دیا (اور اِن کے اپنے 'شرعی جمہوری' حکمرانوں کی 'یس سر' والی ریت اِس بے دردی کے ساتھ کیوں توڑ ڈالی!)
یہ حضرات، جوکہ اَب تک جہاد کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور ہر ہر پہلو سے اِس کو 'باطل' قرار دے چکے ہیں....، کبھی پسند فرمائیں تو ہمارے علم میں اضافہ کریں کہ ملا عمر پر امریکہ کی بات من و عن مان لینا کیوں واجب تھا اور مدعی و مدعا علیہ کو اسلامی شرعی عدالت کے روبرو، اپنا دعویٰ و جوابِ دعویٰ دائر کرنے کا حق دینا، اور اِس عدالتی کارروائی پر اصرار کرنا ملا عمر کے حق میں کیونکر ایک گردن زدنی جرم ہے؟
اب اِس کے بعد جنگ ہو جاتی ہے۔(۱) ملا عمر حفظہ اللہ ونصرہ اِس جنگ میں اللہ کے فضل سے آج تک ڈٹے رہتے ہیں، اُن کے اِس پورے جہاد کے اندر بتائیے غلطی کہاں ہے؟
ذرا اس گواہی پر بھی غور کرلینا:
ون ریڈلی وہ برطانوی صحافی خاتون ہیں جو 28 ستمبر2001ء کو افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے طالبان کی قید میں چلی گئی تھیں اور 10 دن تک طالبان کی قید میں رہیں ۔ اسی قید نے انہیں کفر کی زندگی سے آزادی دلوائی۔ قید سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کر لیا۔ آج کل وہ اسلام اور امت مسلمہ کے مسائل کی انتہائی سرگرم ترجمان ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں جدھر بھی جاؤں اسلام کی روشنی پھیلا دوں اور اسلام کے لیے لوگوں نے جو تعصب کی آ گ پھیلا دی ہے اسے بجھادوں۔
ون ریڈلی اپنی قید کے دوران ہوئے ایک دلچسپ واقعہ کو اس طرح سناتی ہیں کہ " ہماری جیل میں مرد کم ہی آتے تھے، بس قید خانہ کے دروازہ پر مرد پہرے دار رہتے تھے۔ ایک بار میں نے اپنا زیر جامہ دھو کر سکھانے کے لیے قید خانے کے ایک حصے میں پھیلا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک افسر میرے پاس آیا اور زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کو کہا، میں نے ہٹانے سے صاف انکار کر دیا، اس پر انہوں نے ایک کپڑا اس کے اوپر ڈالوا دیا، لیکن مجھے انہیں پریشان کرنے میں مزا آتا تھا، میں نے وہ کپڑا اوپر سے ہٹا دیا اور کہا ، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے، اگر ان کے اوپر کپڑا ڈال دو گے تو یہ خشک کیسے ہو گا؟ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا ایک شخص میرے پاس آیا، تعارف کرایا گیا کہ یہ افغان نائب وزیرخارجہ ہیں۔ انہوں نے بھی مجھ سے میرے زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہاں ہمارے پہرے دار ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں فاسد خیالات آسکتے ہیں ۔ اس وقت میں سوچتی رہی کہ یا خدا! یہ کیسے لوگ ہیں؟ چند گھنٹوں بعد امریکا و برطانیہ بھرپور طاقت کے ساتھ ان کے ملک پر حملہ کرنے والے ہیں اور یہ صرف اس خوف سے مجھ سے میرے کپڑے ہٹانے کے لیے گفت گو کرنے آرہے ہیں کہ کہیں ان کے پہرے داروں کے دل میں فاسد خیالات نہ آجائیں۔
امریکی حملے کے دوسرے روز طالبان فوجی ون ریڈلی کے پاس آئے اور کہا کہ ہم تمہیں حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچا دیتے ہیں ۔ ون ریڈلی حیران تھیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں، موت ان کے سروں پر کھڑی ہے اور یہ اسے حفاظت سے یہاں سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں؟ اس کے بعد وہ بحفاظت اُسے سرحد تک لائے اور پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔
ون ریڈلی کہتی ہیں کہ میں الله کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں طالبان کی قید میں تھی، اگر کسی اور قوم کی قید میں ہوتی تو میرا حال گوانٹاناموبے اور ابو غریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا حال دیکھ کر وہ الله کا شکر ادا کرتی ہیں کہ وہ امریکا کی قید میں نہیں تھیں.بشکریہ اپنی زبان اردو
میرے خیال سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
 
Top