• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث اللھم اجعلہ مھدیا وہادیا۔ کی تحقیق

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
حدیث
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ الْأَزْدِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ مُعَاوِيَةَ، وَقَالَ: " اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ "
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے حضرت امیرِ معاویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "اے اللہ! اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے ہدایت لوگوں تک پہنچا "۔
(مسند احمد بن حنبل 18055، سنن الترمذی 3842)
مسند احمد بن حنبل میں اس کی سند ہے: علی بن بحر قال حدثنا ولید بن مسلم حدثنا سعید بن عبدالعزیز، عن ربیعہ بن یزید عن عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ۔
جبکہ سنن الترمذی میں اس کی سند کچھ یوں ہے۔ حدثنا محمد بن یحییٰ قال حدثنا ابو مسہر عن سعید بن عبدالعزیز عن ربیعہ بن یزید عن عبدالرحمٰن بن ابی عُمیرہ۔
شیخ البانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے(مسند احمد اردو مکتبہ رحمانیہ رقم 18055)۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے(سنن الترمذی رقم 2842)شعیب ارناؤط نے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے سعید بن عبدالعزیز کے جس پر اس حدیث کا دارومدار ہے جو کہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا ۔ یہ ابو مسہر اور یحییٰ بن معین نے کا قول بھی ہے۔(مسند احمد تحقیق شعیب ارناؤط جلد 29 صفحہ 426 رقم 17895)
راویوں کا احوال
عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ:صحابی ہیں اور ان سے آئمہ ستہ میں سے صرف ترمذی نے روایت لی ہے۔ ترمذی نے ان سے صرف یہی روایت لی ہے جو کہ زیرِ بحث ہے۔ ان سے جُبیر بن نفیر ، خالد بن معدان، ربیعہ بن یزید الدمشقی ، قاسم ابو عبدالرحمٰن ، یونس بن میسرہ بن حلبس نے روایت لی ہے۔ ابنِ سعد نے اپنے طبقات میں شامی صحابہ میں ان کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ شام میں آبسے تھے ۔ اور آپ نے معاویہ کے بارے میں یہ حدیث بیان کی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ مزنی ہیں۔ اہل ِ شام میں ان کا شمار ہے ۔ ولید بن مسلم نے کہا ہے کہ یہ عبدالرحمٰن بن عمیرہ ہیں اور بعض نے بیان کیا ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی عمیر مزنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ عبدالرحمٰن بن عمیر یاعمیرہ قریشی ہیں ان کی روایت کردہ حدیث مضطرب ہے اور ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں۔ ۔۔۔۔ بعض نے ان کی حدیث (زیرِ بحث) کو موقوف بیان کیا ہے اور بعض نے مرفوع بیان کیا ہے۔ ۔۔۔۔ ان سے قریش کی بزرگی میں بھی ایک حدیث مروی ہے اور ابو عمر نے بیان کیا ہے کہ ان کی حدیث منقطع السند اور مرسل ہے نہ تو ان کی حدیثیں پایہ ثبوت تک پہنچی ہیں اور نہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے۔(اسد الغابہ اردو جلد 2 صفحہ 435، عربی جلد 3 صفحہ 474 طبعہ دارالعلمیہ بیروت لبنان)
ابن حجر الاصابہ میں زیرِ بحث حدیث بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"ابن قانع کی روایت میں دوسرے الفاظ کا مفہوم منقول ہے۔ امام بُخاری نے اسے تاریخ میں ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ مجھ سے ابو مسہر نے بیان کیا، پھر اسے عنعنہ کے ساتھ ذکر کیا، اس میں یہ نہیں : "صحابی رسول تھے"۔ اور بطریق مروان عن سعید نقل کیا ہے اس میں فرماتے ہیں انہوں نے عبدالرحمٰن سے اور انہوں نے نبیﷺ سے سنا۔ ابن سعد کا قول ہے ولید بن مغیرۃ دمشق کے شیخ سے عن یونس بن میسرۃ بن حلبس روایت کرتے ہیں، فرمایا:" میں نے عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ المزنی کو فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: بیت المقدس میں ہدایت کی بیعت ہو گی"۔ ان کی ایک اور حدیث جو امام احمد نے بطریق جبیر بن نفر عن عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :"سوائے شہید کے ہر مسلمان جس کی جان اللہ تعالیٰ قبض کرتا ہے، اگرچہ اسے پوری دنیا اور اس کی چیزیں مل جائیں، لوٹنے کی تمنا نہیں کرتا"۔(تاریخ الکبیر جلد 6 صفحہ 61)۔ابن عاصم اور ابن السکن نے بطریق سوید بن عبدالعزیز بحوالہ عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ ایک اور روایت کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس کے بعد ابن حجر کلام کرتے ہیں کہ علامہ ابن عبدالبر کی بات پہ تعجب ہے کہ ان کی حدیث منقطع الاسناد مرسل ہے، ان کی احادیث ثابت نہیں اور ان کے صحابی ہونے کی بات صحیح نہیں۔ ابن فتحون ان کا تعقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں مجھے معلوم نہیں یہ کیا بات ہے؟ جبکہ اسے مروان بن محمد الطاہری اور ابومسہر دونوں نے بواسطہ ربیعہ بن یزید نقل کیا کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ کو فرماتے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا"(الاصابہ اردو جلد 3 صفحہ 422)
مزی نے تہذیب الکمال میں لکھا ہے کہ "عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ المُزنی ، ان کو ازدی کہا گیا مگر یہ وہم ہے، بلکہ وہ مُزنی ہیں ازدی نہیں ہیں، اور اِن کے بھائی محمد بن ابی عمیرۃ صحابی ہیں "۔ (تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 17 صفحہ 321)

2۔ربیعہ بن یزید الایادی: انہوں نے شعبی، عبداللہ بن عمرو العاص ، عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ ، عبدالملک بن مروان بن حکم، عمر بن عبدالعزیز، معاویہ بن ابی سفیان ، نعمان بن بشیر، واصلہ بن اسقع اور ابو کبشہ وغیرہ سے روایت کی ہے۔ جبکہ آپ سے روایت لینے والے حضرات میں سعید بن عبدالعزیز ، رجاء بن حیوۃ، عبدالرحمٰن بن عمرو الاوزاعی، یزید بن ابی حبیب المصری شامل ہیں۔آپ سے آئمہ ستہ نے روایات لی ہیں۔
ابن سعد نے انہیں شامیوں کے چوتھے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے۔ (طبقات ابن سعد اردو۔ طبعہ نفیس اکیڈیمی کراچی جلد 7 صفحہ 297 ) ابن ابی حاتم نے جرح و تعدیل جلد 3 صفحہ 474 پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ذھبی نے دارقطنی کے حوالے سے انہیں معتبر کہا ہے۔ اور یہ ذکر کیا ہے کہ ربیعہ افریقہ کے محاذ پر جنگ کے لیے گئے جہاں بربریوں کے ہاتھوں ان کی شہادت (123 ھجری میں) ہوئی (سئیر العلام والنبلاء جلد 5 صفحہ 239 )احمد بن عبداللہ العجلی ، محمد بن عمار الموصلی، یعقوب بن شیبہ، یعقوب بن سفیان اور نسائی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں۔ ۔ (تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 9 صفحہ 149)

3۔سعید بن عبدالعزیز:ان سے بخاری کے علاوہ آئمہ خمسہ نے روایات لی ہیں ۔ یہ دمشقی ہیں اور اوزاعی کے بعد دمشق کے مفتی بنے ۔انہوں نے ایک بڑی تعداد سے روایت کی ہے جن میں ربیعہ بن یزید، اوزاعی، عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز، قتادہ بن دعامہ ، محمد بن عجلان، زھری، ابو زبیر مکی، مکحول، نافع ، اور ابو یوسف (معاویہ کے دربان) شامل ہیں ۔ جبکہ ان سے روایات لینے والوں میں ابواسحاق الفزاری، بقیہ بن ولید، سعید بن مسلمہ الاموی، سفیان ثوری، شعبہ، عبداللہ بن مبارک، ابو مسہر، عبدالرحمان بن مہدی، عبدالرزاق بن ھمام، اور یحییٰ بن سعید شامل ہیں۔ ابن سعد نے انہیں شامیو ں کے پانچویں طبقہ میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ انشاء اللہ ثقہ ہیں اور 70 برس کی عمر میں 167 ھجری میں فوت ہوئے۔(طبقات ابن سعد ۔ جلد 7 صفحہ 299)۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے والد کے حوالے سے کہا کہ شام میں اوزائی اور سعید بن عبدالعزیز سے ذیادہ حدیث میں کوئی شخص صحیح نہیں۔ اسحاق بن منصور نے ابن معین، ابو حاتم اور عجلی کے حوالے سے کہا کہ ثقہ ہیں۔نسائی نے کہا کہ ثقہ ثبت ہیں۔ ابو مسہر نے کہا کہ وفات سے قبل ان کو اختلاط ہو گیا تھا۔ سلیمان بن سلمہ الخبائری نے کہا کہ ان کی وفات 168 ھجری میں ہوئی۔ (تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 10 صفحہ 539)

4۔ولید بن مسلم الدمشقی ۔ مولی بنی اُمیہ : اس سے آئمہ ستہ نے روایت لی ہے۔ اس نے ابن ابی فروۃ، حنظلہ بن ابی سفیان الجمحی، سعید بن عبدالعزیز، سفیان ثوری، اوزاعی، ابن جریج، لیث بن سعد، محمد بن راشد مکحولی، وحشی بن حرب، یزید بن ربیعہ، وغیرہ سے روایت کی ہے اور اس سے احمد بن حنبل، اسحاق بن ابی سرائیل، اسحاق بن راہویہ، علی بن المدینی، وغیرہ نے روایت لی ہے۔
ابن سعد نے اسے شامیوں کے چھٹے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ثقہ اور کثیر الحدیث ہیں ۔ ابن ابی سعد بیان کرتے ہیں کہ ولید خمس کے قیدیوں مین سے ہیں پھر یہ اولاد ِ مسلمہ بن عبدالملک الاموی کے قبضہ میں چلے گئے۔ پھر جب بنو ہاشم نے ان سے حکومت چھین لی اور وہ شام کی طرف بھاگ گئے تو دوسرے غلاموں کے ساتھ خمس کے غلام بھی اپنے ساتھ لے گئے ولید بن مسلم اور آپ کے خاندان والے صالح بن علی کے قبضہ میں گئے صالح نے انہیں اپنے صاحبزادے فضل کو ہبہ کر دیا اور فضل نے سب کو آزاد کردیا، پھر ولید آل مسلمہ کے پاس سوار ہو کر گئے اور اپنا نفس ان سے خرید لیا۔ آپ نے عہدِ ہارون میں 194 ھجری میں حج کیا اور حج سے واپسی پر دمشق پہنچنے سے پہلے فوت ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد جلد 7 صفحہ 300)
امام احمد کہتے ہیں مین نے اہل شام مین اس سے زیادہ عقل مند شخص نہیں دیکھا۔ ابن مدینی کہتے ہیں یہ اہل شام سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہے اس کے پاس بہت زیادہ علم تھا۔ ابو مسہر کہتے ہیں ولید تدلیس کرتا تھا، بعض اوقات یہ کذاب راویوں کے حوالے سے بھی تدلیس کر لیتا تھا۔ دحیم کہتے ہیں اس کی پیدائیش 119 ھجری میں ہوئی تھی۔ امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہے۔ ابو عبید آجری کہتے ہیں میں نے امام ابو داؤد سے صدقہ بن خالد کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بولے: یہ ولید بن مسلم سے زیادہ ثبت ہے، ولید نے امام مالک کے حوالے سے دس ایسی روایات نقل کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے،ان میں سے چار روایات نافع سے منقول ہیں۔ ابو مسہر بیان کرتے ہیں کہ ولید نے ابو سفر کے حوالے سے امام اوزاعی کی حدیث حاصل کی تھی اور ابن ابو سفر کذاب ہے۔ وہ (ولید) اس میں یہ کہتا ہے کہ امام اوزاعی نے یہ کہا ہے۔ (میزان الاعتدال جلد 7 صفحہ 254 اردو ترجمہ مکتبہ رحمانیہ )
ابن حجر نے ولید بن مسلم کو مدلس کہا ہےاور کہا ہے کہ
موصوف بالتدلیس الشدید مع الصدق۔ (طبقات المدلسین لابن حجر صفحہ 51 رقم 127 طبع اُردن)
دارقطنی نے بھی اس کی تدلیس کی مثالیں دی ہیں (تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 31 صفحہ 97)یہی وجہ ہے کہ دارقطنی نے اِسے اپنی ضعفاء والمتروکون میں ذکر کیا ہے (ضعفاء والمتروکین صفحہ 415 رقم 631 طبعہ مکتبۃ المعارف ریاض ، سعودی عرب)۔

ابن حجر نے کہا ہے کہ :آٹھویں طبقہ کا "ثقہ" راوی ہے مگر بہت ذیادہ تدلیس تسویہ کرنے والا ہے(تقریب التہذیب اردو مکتبہ رحمانیہ جلد دوم صفحہ 281)
ابن جوزی نے اِسے اپنی ضعفاء والمتروکین میں ذکرکیا ہے ۔ ( جلد 3 صفحہ 187 طبعہ دارلکتب العلمیہ لبنان)۔
احمد اسماعیل الشکوکانی اور صالح بن عثمان اللحام کی تحقیق سے چھپنے والی معجم اسامی الرواۃ میں جو کہ شیخ ناصر الدین البانی (و 1999 عیسوی) کے ان اقوال پر مشتمل ہے جو کہ انہوں نے اپنی تحقیق میں استعمال کیے۔ اس میں ولید بن مسلم کے بارے میں طویل بحث کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ دونوں محققین اس کی روایت سے احتجاج نہیں کرتے تاوقتیکہ وہ حدیث مسلسل ہو یا پھر سماع ہو ۔ اللہ ہی جانتا ہے ۔ (جلد 4 صفحہ 371) پھر اسی صفحہ پر مزید لکھا ہے کہ ابوحاتم نے علل (جلد 1 صفحہ 412) میں لکھا ہے کہ یہ ضعیف الحدیث ہے۔
محدث ابو اسحاق الحوینی اپنی معجم الرجال میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ اس سند میں ولید بن مسلم کی عنعن کی وجہ سے آفت ہے۔ پھر اگلے حوالے میں مزید لکھتے ہیں کہ اس نے تدلیس تسویہ کی ہے اور اپنے شیخ سے صراحت نہیں کی۔ مزید لکھتے ہیں کہ ثقہ ہے ، اس میں تدلیس تسویہ کا عیب تھا اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ : ولید شدید غلطی کرتا تھا۔ مزید ایک جگہ فوائد ِ عمرو سمرقندی صفحہ 148 کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس سند میں علت یہ ہے کہ اس میں ولید بن مسلم کی تدلیس ہے۔ مزید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ سند ضعیف ہے ،تاوقتیکہ ولید بن مسلم کی صراحت نہ ہو۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ بقیہ بن ولید اور ولید بن مسلم دونوں تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں(ولید بن مسلم) قبیح قسم کی تدلیس کرتا تھا جو کہ تدلیس تسویہ ہے۔
5۔علی بن بحر:ا س سے ابی داود اور ترمذی نے روایت لی ہے اس نے ایک بڑی جماعت سے روایت لی ہے جس میں عبدالرزاق، دراوردی، عباس بن سہیل بن سعد الساعدی ، عیسیٰ بن یونس، معتمر بن سلیمان، ولید بن مسلم شامل ہیں، جبکہ اس سے روایت لینے والوں میں بھی کافی نام ہیں، بخاری نے اس سے تعلیقی روایت کی ہے، جبکہ اس کے علاوہ ابو داود، ابن حنبل، احمد بن ابی خیثمہ، زُھلی، موسیٰ بن عبدالرحمٰن، ابو حاتم رازی اور ابو زرعہ رازی نے اس سے روایت لی ہے۔
محمد بن سعد نے اس کا ذکر بصرۃ کے آٹھویں طبقہ میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ کبھی آپ سے حدیث لکھ لی جاتی ہے۔ آپ بصرہ میں 234 ھجری میں فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد جلد 7 صفحہ 216)
عبدالخالق بن منصور نے یحییٰ بن معین ، ابو حاتم، عجلی م، دارقطنی اور حاکم کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ ثقہ ہے۔ ابن حبان نے اسے اپنے ثقات میں بھی ذکر کیا ہے۔(تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 20 صفحہ 325)
(نوٹ: ولید بن مسلم پر ملزوم ِ تدلیس ہونا اس حدیث پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے اپنے شیخ سے حدثنا کہہ کر روایت لی ہے)

6۔ ابو مسہر:ان کا نام عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی ہے ۔ ان سے آئمہ ستہ نے روایت لی ہے ۔ انہوں نے ایک بڑی جماعت سے روایت لی ہے جس میں بقیہ بن ولید، سعد بن عبدالعزیز، سفیان بن عیینہ، صدقہ بن خالد ، عیسیٰ بن یونس، شامل ہیں۔ بخاری نے ان سے کتاب الادب میں روایت لی ہے۔ اس کے علاوہ ان سے ابن حنبل، احمد بن نصر مقرئی، ابو زرعہ دمشقی، ابو حاتم رازی، ابن زنجویہ، زہلی، ھشام بن عمار، ابن معین شامل ہیں۔
ابن سعد نے انہیں شامیوں کے ساتویں طبقہ میں ذکر کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ آپ کو دمشق سے رقہ عبداللہ بن ہارون کے پاس لایا گیا اور عبداللہ نے آپ سے قرآن کے بارے میں پوچھا تو فرمایا قران اللہ کا کلام ہے اس پر مامون نے تلوار اور چمڑا منگوایا تاکہ آپ کی گردن اڑا دی جائے پھر جب آپ نے جان جاتی ہوئی دیکھی تو کہہ دیا کہ قرآن مخلق ہے ۔مامون نے آپ کو چھوڑ دیا اور کہا اگر آپ تلوار منگوانے سے قبل اقرار کر لیتے تو میں آپ کی بات مان لیتا اور آپ کو آپ کے گھر بھیج دیتا لیکن اب آپ میرے پاس سے جانے کے بعد کہہ دیں گے کہ میں نے قتل کے ڈر سے اقرار کر لیا تھا ۔ پھر حکم دیا کہ انہیں بغدید لے جاکر جیل میں مرتے دم تک بندرکھو چنانچہ آپ کو رقہ سے بغداد 218 ھجری میں لایا گیا اور اسحٰق بن ابراہیم سے قبل آپ کو جیل میں بند کردیا گیا جہاں چند ایام گزرنے کے بعد آپ کا انتقال ہوا۔ (طبقات ابن سعد جلد 7 صفحہ 302)
ابوبکر بن ابی خیثمہ یحییٰ بن معین، ابو حاتم اور عجلی کےحوالے سے کہتے ہیں کہ ثقہ ہے۔ ان کی پیدائش 140 ھجری بتائی جاتی ہے۔

7۔ محمد بن یحییٰ الذُہلی: ان سے بخاری اور آئمہ اربعہ نے روایت لی ہے۔ مسلم نے ان سے روایت نہیں لی ہے۔ انہوں نے ایک بہت بڑی تعداد سے روایت لی ہے اور ان سے بھی ایک بڑی تعداد نے روایت لی ہے۔
ابن جارود بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن سہل بن عسکر نے کہا: کہ میں ابن حنبل کے پاس تھا کہ زہلی داخل ہوئے تو احمد کھڑے ہو گئے، اور لوگوں پر تعجب کیا پھر کہا:" ابو عبداللہ کی طرف جاؤ اور اس سے (حدیث ) لکھو"۔احمد بن حنبل نے کہا کہ میرے نزدیک وہ امام الحدیث ہیں۔ ابن ابی حاتم اپنے والد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں اور امام ہیں، اہل زمانہ کے امام ہیں، نسائی نے کہا ثقہ مامون ہیں۔ ابن خراش نے کہا کہ وہ آئمہ علم میں سے ہیں۔ خطیب بغدادی نے کہا کہ اپنے دور کے معروف اماموں میں سے ایک تھے، حافظ متقن ، ثقات مامونین، زھری کی حدیث کے ماہر ہیں ۔ (تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 26 صفحہ 617)

مزید تخریج و تحقیق
تاریخ الکبیر (امام بخاری): جلد 5 صفحہ 240 یہاں امام بخاری نے یہ حدیث ذکر کی ہے اور ابن ابی عمیرۃ یا اس حدیث کے بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔
الآحاد والمثانی (ابن ابی عاصم): رقم 1129 (الآحاد والمثانی عربی طبعہ دار الرایہ ، ریاض، سعودی عرب)
تاریخِ بغداد (خطیب): جلد 1 صفحہ 207
علل المتناہیہ ( ابن جوزی): رقم 441: ابن جوزی نے یہ حدیث ایک اور سند سے بیان کی ہے کہ آپ نے معاویہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا کہ یہ ابھی چھوٹی عمر کے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے نبی ﷺ کو کہتے سنا ہے کہ اللہ اس کو ہادی و مہدی بنا ۔رقم 442 میں یہی حدیث مزید ایک اور سند سے بیان کی ہےجس میں یحییٰ بن معین ابو مسہر عن عبدالعزیز سے روایت کررہے ہیں ۔ ان دونوں اسناد میں جو ابن جوزی تک پہنچی ہیں محمد بن اسحاق کذاب ہیں۔ جب کہ رقم 443 میں ابن جوزی کی سند ابو القاسم طبری سے ابو مسہر عن سعید بن عبدلعزیز سے آگے جاتی ہے ۔ اس سند میں اسماعیل بن محمد ہے جسے دارقطنی نے ضعیف کذاب کہا ہے۔ اس لیے یہ دونوں اسناد بھی ضعیف ہیں۔
معجم الصحابہ (ابن قانع) : جلد 2 صفحہ 146 (معجم الصحابہ لابن قانع مکتبہ الغربا الاثریہ)
سُنّہ(الخلال): رقم 699،697
معجم الاوسط (طبرانی): رقم 660، طبرانی نے یہ حدیث سعید بن عبدالعزیز عن یونس بن میسرہ بن حلبس عن عبدالرحمٰن بن ابی عمیرۃ نقل کی ہے (معجم الاوسط جلد 1 صفحہ 333 رقم 656 طبعہ دارلحرمین ، قاہرہ، مصر)۔ میسرۃ بن حلبس شامی تھے اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ انہوں نے معاویہ کع دیکھا ہے۔ جمہور نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ان کو عباسی انقلاب کے بعد عبداللہ بن علی کی دمشق آمد سے پہلے 132 ھجری میں قتل کیا گیا ۔(تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال جلد 32 صفحہ 548)
حلیۃ الاولیاء (ابو نعیم): جلد 8 صفحہ 358 (حلیۃ الاولیاء طبعہ دارلفکر مکتبٹ الخانجی ، قاہرہ مصر)
تحفۃ الاشراف(جمال الدین مزی) : رقم 9708 جلد 6 صفحہ 490 (تحفۃ الاشراف طبع دارلغرب الاسلامی ، بیروت، لبنان)
اسد الغابہ (ابن اثیر ): اردو جلد 2 صفحہ 435
الانابہ (مغلطائی):طبعہ مکتبہ الرشد ، ریاض ، سعودی عرب جلد 2 صفحہ 23 : ابو عمر نے (الاستیعاب جلد 2 صفحہ 843) میں کہا ہے کہ ان کی حدیث مضطرب ہے اور ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے۔ ربیعہ بن یزید نے ان سے حدیث روایت کی ہے (یعنی زیرِ بحث حدیث ) جس کی سند ان کے نزدیک صحیح نہیں۔ ان سے فضیلت ِ قریش میں علی بن زید نے حدیث بیان کی ہے جو مرسل ہے اور ثابت نہیں ، نہ ان کی صحبت ثابت ہے۔ ابو نعیم ، ابن قانع ، ابن مندۃ ، ابن حبان نے انہیں صحابی شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ حمص میں آنے والے صحابہ میں سے تھے۔
اطراف المسندالمعتلی (ابن حجر) : 5869 جلد 4 صفحہ 268(اطراف مسند احمد بن حنبل طبع دار ابن کثیر، بیروت، لبنان)
علل الحدیث (ابن ابو حاتم رازی): رقم 2601 ابن ابی حاتم نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے حدیث کے بارے میں پوچھا جو کہ ولید بن مسلم نے سعید بن عبدالعزیز سے انہوں ننے یونس بن میسرہ بن حلبس سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عمیرہ الازدی سے روایت کہی ہے کہ میں رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ نے معاویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : "اے اللہ! اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے ہدایت لوگوں تک پہنچا "۔
میرے والد نے کہا : مروان اور ابو مسہر نے سعید بن عبدالعزیز سے انہوں نے ربیعہ بن یزید سے اور انہوں نے ابن عمیرۃ سے انہوں نے معاویہ سے روایت کی کہ مجھے (یعنی معاویہ کو) نبیﷺ نے یہ بات کہی۔
میں نے اپنے والد سے کہا : کیا یہ ابن ابی عمیرۃ ہیں یا ابن عمیرۃ ؟ انہوں نے کہا نہیں یہ ابن ابی عمیرۃ ہیں۔
پھر میں نے سنا کے میرے والد نے یہ کہا : یہ ولید کی غلطی ہے، اور یہ ابن ابی عمیرۃ ہی ہے ، انہوں نے یہ حدیث نبیﷺ سے نہیں سنی۔ (علل الحدیث لابی حاتم صفحہ جلد 6 صفحہ 280 طبعہ مکتبہ ملک الفہد، ریاض ، سعودی عرب)

سلسلہ احادیثِ صحیحہ(شیخ البانی): جلد 4 صفحہ 615 (عربی طبع مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع، ریاض، سعودی عرب) رقم 1969، (اردو ، طبع انسار السُنۃ پبلیکیشنز ، لاہور) جلد 5 صفحہ 173 ۔ البانی صاحب نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اس کے مزید طریق کی نشاندہی بھی کی ہے۔
مصادر و مراجع
اُردو کتب:
1۔مسند احمد بن حنبل، مکتبہ رحمانیہ لاہور
2۔ جامع ترمذی، نعمانی کتب خانہ، لاہور
3۔ طبقات ابن سعد، نفیس اکیڈیمی، کراچی
4۔ اسد الغابہ، المیزان، لاہور
5۔ الاصابہ، مکتبہ رحمانیہ، لاہور
6۔میزان الاعتدال، مکتبہ رحمانیہ ، لاہور
7۔ تقریب الہتذیب، مکتبہ رحمانیہ ، لاہور
8۔ سلسلہ احادیثِ صحیحہ، انصار السنہ پبلیکیشنز، لاہور
9۔ حلیۃ الاولیا، دارلاشاعت، کراچی

عربی کُتب:
1۔ مسند احمد بن حنبل، تحقیق شعیب ارنوؤط، عادل مرشد طبع مؤسئہ الرسالہ
2۔ جامع الکبیر ترمذی، تحقیق بشار معروف عواد، دارلغرب اسلامی
3۔ تہذیب الکمال فی الاسماء الرجال، تحقیق بشار معروف عواد، مؤسہ الرسالہ
4۔ میزان الاعتدال ، دارلمعرفہ بیروت لبنان
5۔ تقریب التہذیب ، ، دار النشور والاسلامیہ والاوقاف، سعودی عرب
6۔ الانابہ فی المعرفۃ الصحابہ ، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب
7۔ الاصابہ فی التمییز الصحابہ ، مکتبہ العصریہ ، بیروت، لبنان
8۔ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان
9۔ معجم الصحابہ للبغوی، مکتبہ دارالبیان، کویت
10۔تاریخ الکبیر امام بخاری، آن لائن ایڈیشن، kitabklassik.com
11۔ تاریخِ بغداد ، تحقیق، ڈاکٹر بشار معروف عواد، دارلغرب الاسلامی
12۔الآحاد والمثانی، دارلرایۃ ریاض، سعودی عرب
13۔معجم الصحابہ ابن قانع، مکتبہ الغرباء الاثریہ
14۔ معجم الاوسط للطبرانی، دارالحرمین ، قاہرہ ، مصر
15۔حلیۃ الاولیا لابی نعیم، دارلفکر، مکتبۃ الخانجی، قاہرہ، مصر
16۔تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف، دارلغرب الاسلامی
17۔ اطراف المسند المتعلی لابن حجر، دار ابن کثیر
18۔ علل الحدیث لابی حاتم، مکتبۃ الملک الفہد، ریاض، مصر
19۔ سئیر العلام والنبلاء ، تحقیق شعیب ارنوؤط، مؤسہ الرسالہ
20۔ سلسلۃ الاحادیثِ صحیحہ ، شیخ ناصر الدین البانی، مکتبۃ المعارف النشر التوزیع، سعودی عرب

تمت بالخیر
**************
تحقیق: مُحمد سعید عمران (اسلام آباد)
رابطہ:0336-1519659، 0306-5492369
ای میل :
saeedimranx2@gmail.com
فیس بُک: facebook.com/saeedimranx2?ref=bookmarks
سکربڈ:scribd.com/user/9258749/Muhammad-Saeed-Imran
 
Top