• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث اگر حجت ہے، تو پھر اس کا منزل من اللہ ہونا ضروری ہے:

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10154004_690959490971414_219790734010065963_n (1).jpg


حدیث اگر حجت ہے، تو پھر اس کا منزل من اللہ ہونا ضروری ہے:

اللہ تعالی فرماتا ہے:

اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٣﴾ (سورۃ الاعراف)

صرف اس چیز کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ کسی ولی کا اتباع مت کرو۔


اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حدیث حجت ہے اور اس کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے تو پھر یقیناً حدیث وحی ہے، کیونکہ آیت بالا کی رُو سے صرف وحی کا اتباع لازم ہے اور غیر وحی کا اتباع حرام ہے۔

حدیث کے حجت ہونے کے دلائل:

دلیل اول :

آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اور قوم کو مخاطب کیا: ''اے قوم میں اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے قرآن مجید دیا گیا ہے''۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی یا اس قسم کے الفاظ ہوں گے جن سے آنحضرت ﷺ نے قوم کو مخاطب کیا ہو گا۔ اگر یہ الفاظ حجت ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اگر یہ الفاظ حجت نہیں تو پھر لازم آئے گا کہ نہ آپ رسول ہیں نہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ آپ کی رسالت اور قرآن مجیدپر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ یہ الفاظ حجت ہوں۔ جب تک یہ الفاظ حجت نہ ہوں، قرآن بھی حجت نہ ہو گا اور یہ الفاظ حدیث کے الفاظ ہیں۔ لہٰذا حدیث کا حجت ہونا لازمی ہے۔

دلیم دوم:

قرآن کے معنی و مفہوم کو آج بھی سمجھا جا رھا ہے اور علماء کی طرف رجوع کیا جاتا ہے آیاتی قرآنی سے استنباط مسائل ھمیشہ جاری و ساری ھے جو لوگ احادیث کو حجت نہیں مانتے وہ لوگ بھی اپنے علماء سے رجوع کرتے ہے اب یہ عمل عہد رسالت میں بھی جاری تھا اور لوگ ضرور نبیﷺ سے رجوع کیا کرتے ہونگیں یہ تو ہوا نہیں ہونگا کہ نبیﷺ جب قرآنی آیات سنایا کرتے تھے اور صحابہ کہ دیا کرتے تھے کہ آپ صرف قرآنی آیات پڑھ دیا کریں تفسیر اور استنباط مسائل ھم خد کر لیا کرے گے آپ کی تفسیر ھم پر حجت نہیں ۔۔ یہ بات ناممکن ہے تو ہھر قرآن کی تفسیر کے لئے حدیث حجت ہونا ظاہر ہے۔۔

ایک شبہ:

یہاں بعض لوگوں کو ایک شبہ بھی پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ آپ کی تفسیر صرف آپ کی زندگی میں حجت ہے، آپ کے انتقال کے بعد آپ کے خلیفہ کی تفسیر حجت ہو گی کیونکہ وہی اس وقت مرکز ملت ہو گا۔ اور تفسیر کا تعلق مرکز ملت سے ہے۔ منصب رسالت سے نہیں۔ یہ شبہ بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ گویا رسالت کا منصب مرکز ملت کے منصب سے کم درجہ ہے۔ یہ عقلاً اور شرعاً محال ہے۔ اور اگر بالفرض محال تسلیم بھی کر لیا جائے کہ مرکز ملت کی تفسیر حجت ہو گی تو بہرحال قرآن کے علاوہ ایک دوسری چیز حجت مانی گئی، اور یقیناً مرکز اولین یعنی رسول کی تشریح سے کم درجہ کی چیز ہو گی۔ جب یہ حجت ہو سکتی ہے تو مرکز اولین یعنی رسول کی تشریح سے کم درجہ کی چیز ہو گی، جب یہ حجت ہو سکتی ہے۔ تو مرکز اولین یعنی رسول کی تشریح کا حجت ہونا زیادہ قرین عقل ہے۔

دلیل سوم:

رسول صاحب وحی ہوتا ہے، اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کی حدیث وحی الٰہی ہوتی ہے لہٰذا آیت بالا کی رُو سے اس کا اتباع لازمی ہے اور اس طرح ہم کسی قسم کے شرک میں مبتلا نہیں ہوتے۔ لیکن جو لوگ مرکز ملت کی تشریح کو حجت شرعی سمجھتے ہیں اور اس کی اتباع کو لازمی قرار دیتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ آیا ان کی یہ تشریح وحی ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر وہ یہ کہیں کہ وحی نہیں ہوتی تو پھر آیت بالا کی رُو سے اس کا اتباع حرام اور حرام کو حلال بلکہ فرض سمجھنا شرک اور کفر کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا قرآن کی تشریح کے لئے صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ اس کی تشریح بھی وحی ہو، ورنہ اس کا اتباع حرام بلکہ شرک ہو گا۔ اور وحی صرف رسول کے پاس آتی ہے۔ لہٰذا صرف رسول کی تشریح حجت ہو گی کسی اور کی تشریح حجت نہیں ہو گی، یعنی حدیث رسول حجت شرعیہ ہے۔ لہٰذا وحی ہے۔

دلیل چہارم:

کیا قرآن خود مکتفی ہے، ہرگز نہیں بلکہ اس کو سمجھنے کے لئے لغت کی ضرورت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں، خصوصاً اس صورت میں کہ اسلامی حکومت اس جگہ قائم ہو جہاں کی مادری زبان عربی نہ ہو اور مرکز ملت عربی سے ناآشنا ہو۔ ایسی صورت میں قرآن کو سمجھنے کے لئے عربی لغت کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ پس ثابت ہوا کہ قرآن کفایت نہیں کرتا بلکہ اپنی تشریح کے لئے دوسری چیز کا محتاج ہے۔ اور یہ حجت ہے۔ اور جب یہ چیز حجت ہے تو وہ چیز حجت کیوں نہ ہوجو قرآن کی شرعی لغت ہے یعنی حدیث۔ لغت میں کسی لفظ کی تشریح یا معنی کسی ایک آدمی یا چند آدمیوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں، وہ آدمی بھی معصوم نہیں ہوتے کہ ان سے غلطی نہ ہو۔ پھر اکثر وہ مجہول ہوتے ہیں۔ مزید برا ان کے بیان کردہ معانی کاتب لغت تک سندا نہیں پہنچتے۔ پھر لغت کا مؤلف ضروری نہیں کہ صادق القول اور راسخ فی العلم ہو۔ اگر باوجود ان تمام عوارض کے لغت کے مندرجات حجت ہوں تو کتنے افسوس کا مقام ہے کہ معصوم، الصادق المصدوق، صاحب وحی، انسان کامل، معلوم و معروف شخصیت کے بیان کردہ معانی جو صادق القول اور راسخین فی العلم نے باسند باوثوق معروف و مشہور، صادق القول، مسلمہ استادوں سے حاصل کر کے جمع کئے ہوں، حجت نہ ہوں۔ پھر یہ افسوس اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے جب کہ ان معانی پر امت کا عملا اجماع ہو۔ وہ معانی مخبر صادق تک نقلا بھی مشہور و متواتر ہوں اور عملا بھی متواتر ہوں۔ پھر بھی وہ تو حجت نہ ہوں اور حجت ہو تو وہ لغت کہ نہ باسند ہے اور نہ یہ ضروری ہے ہے کہ اس کا مؤلف مسلم یا شرع باوقار عالم ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ متعصب، غیر مسلم یا کم علم مُلّا ہو۔
دلیل پنجم: لغت زمانہ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ لہٰذا کسی لغت کو حجت قرار دیا جانا اور کس کو نہیں اس مشکل کا حل سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اس لغت کو حجت مانا جائے جو مہبط وحی نے بتائی اور وحی کے اولین مخاطبین نے سمجھی اور اس وقت بولی جاتی تھی جب قرآن عزیز اتر رہا تھا۔

دلیل ششم:

ہر فن اور ہر علم کی ایک اصطلاح ہوتی ہے بعض اوقات لغت میں کچھ معنی ہوتے ہیں اور اصلاح میں کچھ۔ ایسی صورت میں اصطلاحی معنی ہی منشاء کلام کو سمجھنے کے لئے حجت ہوتے ہیں۔ نہ کہ لغوی معنی۔ ایک شخص گو وہ کتنا ہی بڑا ادیب کیوں نہ ہو، علوم ریاضی، علوم طبیعات، علوم طب وغیرہ کی کتابوں کو نہیں سمجھ سکتا، اس لئے کہ وہ فنی اصطلاح سے ناواقف ہوتا ہے اس کے لئے لغت کا علم بیکار ہی ہو گا بلکہ مزید حرانی کا موجب۔ جب قرآن چونکہ علوم شرعیہ کا منبع ہے، لہٰذا اس کی بھی کوئی نہ کوئی اصطلاح ہونی چاہیے۔ مثلاً زکوٰۃ کے لغوی معنی کچھ اور ہیں اور شرع میں کچھ اور۔ اور شرع میں وہی معنی معتبر ہیں جو کہ اصطلاحاً مشہور و معروف ہیں۔ اور اصطلاح بھی اس شخص کی مستند مانی جائے گی جس پر قرآن نازل ہوا یا جن کے زمانہ میں قرآن نازل ہوا۔ کیونکہ مردر ایام سے اصطلاح بھی بدل جایا کرتی ہے۔ الغرض حدیث قرآن کے اصطلاحی معانی بیان کرتی ہے۔ لہٰذا تشریح قرآن کے لئے وہی حجت ہے اور بس۔

دلیل ہفتم:

لغت میں ایک ہی لفظ کے دو دو تین تین، چار چار بلکہ دس دس بیس بیس معانی دیئے ہوتے ہیں۔ اگر قرآنی تشریح کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو قرآن بازیچہ اطفال بن جائے گا کوئی کچھ معنی کرے گا اور کوئی کچھ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ الحاد کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ اختلافات کا ایک سیلاب عظیم ہو گا۔ اور امت مختلف فرقوں میں بٹ جائے گی جیسا کہ من مانی تفسیر کرنے سے فی الواقع ہو چکا ہے اور مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا وجود اس کا عملی ثبوت ہے۔ ان فرقوں نے حدیث کا براہِ راست انکار کرنے کے بجائے اس کو ٹالنے کے لئے چور دروازے تلاش کئے۔ کبھی قرآن کو بطورِ حجت پیش کیا اور اس کے معانی وہ اختیار کر لئے جو حدیث کے خلاف تھے اور پھر بطور فخر کےکہنے لگے کہ ہمارے قول کی دلیل قرآن ہے۔ بھلا قرآن کے مقابلہ میں حدیث کیسے مانی جائے گی؟ کبھی اپنی عقل ناقص کو معیار بنا کر حدیث کو خلاف عقل سمجھ لیا اور اس طرح حدیث سے نجات حاصل کر لی۔ اس اختلاف اور الحاد کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کے ہر لفظ کے ایک معنی مقرر ہوں اور یہ کون کر سکتا ہے سوائے رسول کے کیونکہ رسول ہی ایسی شخصیت ہے جس پر سب جمع کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حدیث حجت ہو۔ اور قرآن کی وہی تشریح قابل تسلیم ہو جو حدیث میں بیان کر دی گئی ہو۔ پس ثابت ہوا کہ حدیث حجت ہے لہٰذا منزل من اللہ ہے۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:

اس مشکل کا حل بعض لوگوں نے یہ بتایا ہے کہ مرکز ملت کی تشریح ہر شخص کو تسلیم کرنی ہو گی۔ لہٰذا اختلاف و الحاد کا کوئی امکان نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جبری اتفاق ہو گا۔ اس سے ذہنی اختلاف دور نہ ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ ذہنی اختلاف عملاً پھوٹ پڑے اور بڑے بڑے فتنوں کا موجب بن جائے۔ مثلاً خارجی اور سبائی تحریکیں۔ اور ان کی ایک حد تک کامیابی یا بقا اسی ذہنی اختلاف کا نتیجہ تھیں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ تاریخ اس بات کی تائید نہیں کرتی کہ مرکز ملت نے کوئی تشریح کی ہو اور کبھی اس کو چیلنج نہ کیا گیا ہو بلکہ بارہا ایسا ہوا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے تاریخ کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ تیسرے یہ کہ اگر ایک مرکز ملت اپنے زمانہ میں ایک آیت کے کچھ معنی کرے، دوسرا مرکز ملت کچھ اور۔ تیسرا مرکز ملت کچھ اور معنی کرے۔ اور اسی طرح معنی بدلتے رہیں تو کیا یہ سب تشریحات صحیح مانی جائیں گی؟ کیا ہر تشریح کا لوحی من السماء ہو گی۔ کیا یہ تمام تشریحات شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرھا کی مصداق نہ ہوں گی۔ اور ایک غیر مسلم ان میں سے کون سی تشریح کو قرآنی تشریح خیال کرے گا؟ فرض کیجیے کہ ایک مرکز ملت پانچ وقت کی نماز فرض قرار دے، اور دوسرا مرکز ملت تین وقت کی نماز فرض مانے تو ہم سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں تشریحات صحیح ہیں۔ کوئی غلط نہیں جیسا کہ تقلیدی مذاہب میں ہوا اور ہو رہا ہے۔ ایک ہی چیز ایک مذہب میں حلال، دوسرے میں حرام اور دونوں اپنے اپنے دائرہ میں حق پر، اب اگر کوئی حرام کھا رہا ہے تو کھاتا رہے ہمیں بولنے کی کیا ضرورت، وہ ہمارے لئے حرا م ہے لیکن اس کے لئے حلال ہے۔ اس کو نادانی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ کتنا عجیب اور کس قدر مضحکہ خیز وہ سماں ہو گا جب ایک ہی زمانہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف مراکز ملت قائم ہو جائیں اور ہر ایک اپنی اپنی تشریح کرتا رہے۔ حلال و حرام کا فرق ہو۔ اختلافات بعیدہ ہوں لیکن ہم پھر بھی یہی کہیں کہ سب ٹھیک ہیں۔
ذرا غور فرمائیے، وہ وقت کتنا عجیب ہو گا جب کہ ایک مرکز ملت کسی لفظ کی تشریح کرے اور اتفاق سے وہ لفظ لغت اضداد سے ہو۔ اور دوسرا مرکز ایسے معنی کرے جو پہلے کی ضد ہو۔ کیا یہ صورت ظہور پذیر نہیں ہو سکتی۔ ضرور ہو سکتی ہے۔ پھر کیا یہ صورت حق ہو گی؟ نہیں بالکل باطل ہو گی۔ عقل سلیکم کسی ایک معنی اور اس کی ضد دونوں کو صحیح نہیں مان سکتی۔ لہٰذا مرکز ملت کے معنی حجت نہیں ہو سکتے اور نہ اس سے اختلاف و الحاد کا سدباب ہو سکتا ہے۔ یہ مرکز ملت کا مفروضہ اصول ہی بالکل مضحکہ هیز ہے۔ کاش یہ لوگ غور کرتے۔

چوتھی بات اس سلسلہ میں یہ بھی غور طلب ہے کہ جب کوئی مرکز ملت ہی نہ ہو جیسا کہ آجکل ہے تو پھر اختلاف و الحاد کو روکنے کی کیا صورت ہو گی؟ اختلاف اور الحاد کے سدباب کے لئے کوئی ایسا ذریعہ ہونا چاہیے جو عارضی نہ ہو بلکہ مستقل اور دائمی ہو۔ مرکز ملت اول تو اس مرض کی دوا نہیں۔ اور پھر مستقل اور دائمی نہ ہونے کی وجہ سے اس کو علاج کہنا کسی صورت سے صحیح نہیں۔ اس کا سدباب وہ ہی چیز کر سکتی ہے جو خود دائمی اور مستقل ہو اور وہ سوائے حدیث کے اور کچھ نہیں۔ لہٰذا حدیث کے حجت ہونے میں کیا شبہ رہا اور جب وہ حجت ہوئی تو آیت زیر عنوان کی رو سے وحی ہوئی۔

دوسرا شبہ اور اس کا ازالہ:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی تشریح آپ کرتا ہے لہٰذا ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں لیکن یہ محض دعوی ہی دعوی ہے حقیقت اس کے خلاف ہے

مثلا اللہ تعالی فرماتا ہے:

اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ۔
صلوٰۃ قائم کر۔


صلوٰۃ کسے کہتے ہیں۔ اس کی تفصیل نہیں۔ قرآن میں جب اس کی تشریح تلاش کرتے ہیں تو عجیب حیرانی ہوتی ہے۔

ایک جگہ ارشاد ہے:

اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ۔
صابرین پر اللہ تعالی کی طرف سے صلوٰۃ ہوتی ہے اور رحمت۔


دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

وَصَلِّ عَلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ (سورۃ التوبہ:۱۰۳)۔
ان پر صلوٰۃ بھیجیے بیشک آپ کی صلوٰۃ ان کے لئے باعث سکون ہے۔


ایک جگہ اللہ تعالی کی طرف سے صلوٰۃ نازل ہو رہی ہے، دوسرے آیت میں بندے کو حکم ہو رہا ہے کہ صلوٰۃ نازل کرو، اب کوئی کیا سمجھے۔

ایک جگہ ارشاد ہے:

اَقِيْمُوا الدِّيْنَ (سورۃ الشوری:۱۳)۔
دین قائم کرو۔


ہو سکتا ہے کہ صلوٰۃ کے معنی دین کے ہوں۔ اور اس آیت میں صلوٰۃ کی تشریح دین سے کی گئی ہو۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:

وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ (سورۃ الرحمن:۹)۔
وزن قائم کرو۔


لہٰذا صلوٰۃ کے معنی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں۔

پھر ارشاد ہوتا ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ (سورۃ ھود:۱۱۴)
یعنی دن کے دونوں اطراف اور کچھ رات کے وقت بھی صلوٰۃ قائم کرو۔


اس آیت سے معلوم ہوا کہ صلوٰۃ ایسی چیز ہے جو مسلسل قائم نہ رکھی جائے، بلکہ وزن اور رات کے بعض اوقات میں قائم کی جائے۔

''صلوٰۃ'' کے معنی کولہے ہلانے کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے اگر کوئی اَقِمِ الصَّلٰوۃَ کے معنی یہ کرے کہ ''ناچ کی محفل قائم کرو'' اور ثبوت میں یہ آیت پیش کرے:

اِنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ (سورۃ محمد۳۶)
دنیا کی زندگی بس لہو و لعب ہی تو ہے۔


اور جب دنیا کی زندگی لعب و لہو ٹھہری تو دنیا میں محفل رقص و سرود قائم کرنا ہی اَقِمِ الصَّلٰوۃَ کا منشا ہے تو بتائیے اس کی تردید کیسے ہو سکتی ہے؟

دوسری مثال اور دلیل ہشتم:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ
زکوٰۃ دو۔


دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ﴿١٢﴾ وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً ۖ وَكَانَ تَقِيًّا ﴿١٣﴾ (سورۃ مریم)

یعنی اے یحییٰ کتاب کو قوت سے پکڑ لو اور ہم نے یحییٰ کو بچپن میں ہی حکم دے رکھا تھا۔ اور اپنی طرف سے مہربانی دی تھی اور زکوٰۃ دی تھی اور وہ متقی تھے۔


اس دوسری آیت میں زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی کے ہیں۔ تو پہلی آیت کے معنی ہوئے ''پاکیزگی دو''۔ تو یہ معنی سراسر باطل ہیں اور اگر پہلی آیت میں ذکوٰۃ سے مراد ٹیکس ہے تو دوسری آیت کے معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ٹیکس دیتا تھا۔ اور یہ بالکل مضحکہ خیز ہے۔

ان دونوں مثالوں سے واضح ہوا کہ قرآن اکثر مقامات میں تشریح اصطلاحی کا محتاج ہے۔یعنی ایک استاد کی ضرورت ہے جو اسے پڑھائے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرے۔ اور وہ استاد سوائے رسول کے اور کون ہو سکتا ہے؟ کیونکہ یہ منصب رسول کو خود اللہ تعالی نے دیا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ۔۔۔۔ ﴿٢﴾ (سورۃ الجمعہ:۲)

اللہ نے ان میں ایک رسول مبعوث کیا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔


اب اگر پڑھانے میں تشریح حائل نہیں ہے تو پھر رسول کا تلاوت کر دینا کافی تھا۔ لیکن محض تلاوت پر اکتفا نہیں کی گئی بلکہ تلاوت کا منصب بتانے کے بعد تعلیم کا منصب بھی بتایا گیا۔ کیونکہ رسول ﷺ اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ لہٰذا اس کی تشریح بھی من جانب اللہ ہونی چاہیے اور یہی وہ چیز ہے جس کو وحی خفی کہا جاتا ہے۔ اب اس کے حجت ہونے میں کیا شبہ رہ گیا۔

دلیل نہم:

قرآن مجید کی بہت سی آیات بالکل ناقابل عمل اور ناقابل تشریح ہیں، جب تک ان کی وہ تشریح تسلیم نہ کی جائے جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے، مثلاً اللہ تعالی فرماتا ہے:

اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ (سورۃ البقرۃ:۱۹۷)۔

حج کے چند مہینے معلوم ہیں۔


معلوم کے معنی ہیں ''بتایا گیا'' قرآن میں تو ان کے نام نہیں بتائے گئے اگر بتائے گئے ہیں تو کہاں ہیں؟ ظاہر ہے کہ سوائے حدیث کے یہ نام کسی نے نہیں بتائے۔ عرض یہ کہ بغیر حدیث کے یہ آیت ناقابل عمل ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُۥ(التوبہ:36)

آیت مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین بارہ مہینوں اور چار محترم مہینوں پر مشتمل ہے لیکن قرآن ان چار محترم مہینوں کے نام بتانے سے قاصر ہے۔ بتائیے کن مہینوں کو حرمت والے مہینے سمجھا جائے اگر یہ کہا جائے کہ رواج کے مطابق مان لیا جائے تو بھی ٹھیک نہیں کیونکہ کفار تو ان مہینوں کو بدل دیا کرتے تھے جیسا کہ خود قرآن مجید نے بتایا ہے:

اِنَّمَا النَّسِيْءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ (التوبہ 37)

تو پھر مہینوں کا تقرر کفار کے ہاتھ میں رہا نہ اللہ کے ہاتھ میں رہا، نہ رسول کے ہاتھ میں، نہ مرکز ملت کے ہاتھ میں، جس مہینہ کو کافر حرمت والا کہہ دیں بس ہم بھی اس کی حرمت کریں کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ (البقرۃ: 194)

یعنی کفار کسی مہینے کی حرمت کریں تو تم بھی بدلہ میں حرمت کرو۔

گویا قرآن کی آیت کفار کی محتاج ہوئی جو عمل کفار کا وہی قرآن کا منشا۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ (سورۃ الحج 28)

یعنی معلوم شدہ دنوں میں اللہ کا نام ذکر کریں۔


قرآن پھر ساکت ہے کہ ان ایام کی تشریح کرے، اب بتایئے اس پر کس طرح عمل ہو؟

(۴) حروف مقطعات کیوں واقع ہوئے ہیں، ان کی تشریح سے قرآن خاموش ہے۔ اور جو لوگ ان حروف کی تشریح قرآن سے کرتے ہیں، وہ سوائے تک بندی کے اور کچھ نہیں۔ اول تو یہی نہیں معلوم کہ یہ حروف الفاظ کے پہلے حروف ہیں، پھر اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے تو قرآن میں یہ کہاں ہے کہ فلاں جگہ جو ''ص'' استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد صابر ہے۔ یا فلاں لفظ ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ۱۶۴ۙ وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّاۗفُّوْنَ۱۶۵ۚ (سورۃ الصافات)

اور ہم میں سے ہر ایک کا مقام معلوم ہے۔ اور ہم صف باندھنے والے ہیں۔


معلوم نہیں ان آیات کا متکلم کون ہے؟ پوری سورت پڑھ جایئے کہیں اس جملہ کا متکلم نظر نہیں ملے گا۔

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ (سورۃ البقرۃ:196)

اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو۔


معلوم نہیں یہ حج کیا چیز ہے؟ اور عمرہ کیا چیز ہے؟ اور ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ (سورۃ مریم:64)

ہم نہیں نازل ہوتے مگر تیرے رب کے حکم سے۔


اس آیت میں متکلم اللہ ہے کیونکہ اس سے اوپر کی آیت میں مسلسل جمع متکلم کا صیغہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے استعمال کیا ہے، لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نازل نہیں ہوتا مگر رسول کے رب کے حکم سے۔ گویا اللہ کا بھی کوئی حاکم ہے جس کے حکم سے وہ نازل ہوتا ہے۔ (نعوذ باللہ)۔

غرض یہ کہ اس قسم کی بیسیوں گھتیاں ہیں۔ ان کو کن سلجھائے؟ اگر یہ کام مرکز ملت کے سپرد کر دیا جائے تو مختلف ادوار میں بلکہ ایک ہی زمانہ کے مختلف مراکز میں حج کے مختلف مہینے ہوں گے۔ ایام معلومات مختلف ہوں گے۔ حروف مقطعات کی مختلف تشریحات ہوں گی۔ ایک ہی آیت کے مختلف متکلم مان لئے جائیں گے۔ مسلمان خواہ کچھ بھی کہیں غیر مسلم تو ان مختلف تشریحات کو دیکھ کر ہنسنے کے سوا اور کیا کرے گا ان گتھیوں کا بس ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ خود آنحضرت ﷺ ہی اس کو حل کریں، لہٰذا حدیث حجت ہوئی اور آیت زیر عنوان کی رُو سے وحی ہوئی۔

دلیل دہم:

اسی طرح قرآن مجید کی متعدد آیت پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا مثلا اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ (البقرۃ:15)

اور جہاں سے تو نکلے اپنے منہ کو مسجد حرام کی طرف پھیرے اور جہاں کہیں بھی تم ہو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لو۔


اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر وقت ہر حال میں منہ کعبہ کی طرف رہنا چاہیے۔
کیا یہ ممکن ہے؟ آخر یہ حکم کس وقت کے لئے ہے؟ کون بتائے؟ کس طرح اس پر عمل ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ (سورۃ البقرۃ:۲۸۲)

جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کر لیا کرو۔


بتائیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے خریدتے وقت ہر دوکاندار و خریدار گواہ کر لیا کریں؟ کیا یہ حکم قرآنی ممکن العمل ہے؟ اللہ تعالی فرماتا ہے:

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:31)

اے بنی آدم ہر مسجد کے قریب اپنی زینت لے لیا کرو۔


اس آیت پر کس طرح عمل کیا جائے؟ زینت لباس بھی ہے۔ زیورات بھی ہیں۔ میزیں اور کرسیاں بھی ہیں۔ فرض و فروش، جھاؤ و فانوس بھی۔ کیا یہ سب چیزیں لے کر مسجد کے قریب جانا چاہیے؟

غرض کہ اس قسم کی بہت سی آیت ہیں جو ناقابل عمل ہیں جب تک ان کے معنی اور موقع و محل متعین نہ ہو، اور یہ چیزیں کون متعین کر سکتا ہے سوائے رسول ﷺ کے؟ لہٰذا حدیث حجت ہوئی۔ اور آیت زیر عنوان کی رو سے وحی ہوئی۔ تلک عشرۃ کاملۃ

مندرجہ بالا دس دلائل سے ثابت ہوا کہ حدیث حجت ہے۔ لہٰذا آیت زیر عنوان کی رُو سے حدیث وحی ہوئی، ورنہ غیر وحی کا اتباع لازم آئے گا۔ اور یہ آیت کے خلاف ہے -

https://www.facebook.com/AntiMunkireHadith/posts/690967037637326:0
 
Top