• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث بخاری نمبر 3 کی تشریح درکار ہے

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم
محترم علماء کرام سے گذارش ہے کہ ہیڈنگ کی صورت میں دی گئی عبارت کے بارے میں ارشاد فرمائیں کہ

جب وحی کا نزول نہیں ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کی عبادت کرتے تھے اور کس ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے۔
اس طویل حدیث میں یہ بھی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان کو خوف محسوس ہوا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو تسلی دی۔


ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ` نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور
کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔

@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ، دین ابراہیمی کی باقیات بعض لوگوں میں موجود تھیں ، ورقہ بن نوفل وغیرہ جیسے لوگ اسی طرح کے دیندار تھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم خضر حیات صاحب
السلام علیکم

صرف سمجھنے کیلئے اس پر مزید سوال کر رہا ہوں۔ اس کو بحث نہ سمجھا جائے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت سے واقف تھے اور یقیناً فرشتوں کے وجود سے بھی آگاہ ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان کا خوف کیوں محسوس ہوا۔
ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو تسلی دے رہی ہیں۔
اور بریلوی حضرات کا یہ عقیدہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دن سے نبی تھے اعلان 40 سال کی عمر میں کیا کس طرح ثابت ہوتا ہے۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت سے پہلے پتا تھا کہ میں نبی آخری الزماں ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت سے واقف تھے اور یقیناً فرشتوں کے وجود سے بھی آگاہ ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان کا خوف کیوں محسوس ہوا۔
اس طرح کے معاملات میں ذرا کھل کر رائے دینا مشکل ہے ، جو کچھ بیان ہوگیا ، اس پر اکتفا کرلینا کافی ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں سے واقف بھی ہوں ، لیکن اس بات کا دعوی کسی کا نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی ، اور اس کی کیفیات سے بھی واقف تھے ، خالی کمرے میں انسان آہٹ سے ڈر جاتا ہے ، پہاڑوں کے اندر غار میں اس طرح کا واقعہ پیش آنا ، اس کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نارمل نہ رہنا ایک فطری سی بات ہے ۔
ویسے حدیث میں جس ڈر اور خوف کا ذکر ہے ، اس سے کیا مراد ہوسکتا ہے ، علماء نے اس حوالے سے کئی ایک احتمالات ذکر کیے ہیں ۔
اور بریلوی حضرات کا یہ عقیدہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دن سے نبی تھے اعلان 40 سال کی عمر میں کیا کس طرح ثابت ہوتا ہے۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت سے پہلے پتا تھا کہ میں نبی آخری الزماں ہوں۔
یہ بات درست نہیں ۔
دوسری بات : اگر پتہ بھی ہو ، پھر بھی اچانک وحی کا نزول ، فرشتے کا ہمکلام ہونا وغیرہ ان واقعات کی وجہ سے وہ کیفیت پیدا ہونا جس کا احادیث میں ذکر ہے ، ایک طبعی بات ہے ۔
ہاں البتہ جس کا دعوی یہ ہو کہ حضور کو شروع سے بعثت کا پتہ بھی تھا ، اور یہ بھی پتہ تھا کہ آئندہ آپ کے ساتھ یہ حالات پیش آنے والے ہیں ، اسے آپ کے سوالات کے جوابات دینے چاہییں ۔
صحیح بخاری میں وارد حدیث نمبر 3 جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے ، کافی تفصیلی ہے ، اسے مکمل ملاحظہ کرنے سے صورت حال کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے ۔
ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ پر حق منکشف ہو گیا اور آپ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ خدا کی قسم آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ ( انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے ) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اوّل تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس ( معزز راز دان فرشتہ ) ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ( حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔( صحیح البخاری ، حدیث نمبر 3 )​
 
Top