• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث ثقلین کا مفہوم :حافظ شبیر صدیق حفظہ اللہ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
حدیث ثقلین کا مفہوم : حافظ شبیر صدیق


رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ یہودیوں کے کل بہتر(72) فرقے بنے تھے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ان تہتر (73) فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ حق پر ہوگا اور باقی سب صراط مستقیم سے بھٹک جائیں گے۔ جو فرقہ ہمیشہ راہ حق پر قائم رہے گا اس کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''راہ حق پر چلنے والے لوگ وہ ہوں گے جو میرے راستے پر اور میرے صحابہ کرام کے راستے پر چلنے والے ہوں گے۔''(جامع الترمذی: 2641)
اس حدیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ بہتر فرقے مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے مگر صراط مستقیم سے ہٹ چکے ہوں گے۔ وہ قرآن و حدیث کو ماننے کا اقرار تو کرتے ہوں گے مگر ان سے معنی اور مفہوم اپنی مرضی کا تراشتے ہوں گے۔ زیرنظر مضمون میں ہمارا مقصد ان فرقوں سے متعلق بحث کرنا نہیں بلکہ ایک حدیث کی وضاحت کرنا مقصود ہے جس سے بعض لوگ اپنی مرضی کا معنی و مفہوم لے کر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس سے متعلقہ بحث کریں گے۔
حدیث ثقلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:


’’ أَنَا تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَینِ: أَوَّلُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیہِ الْھَدْيُ وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوا بِہِ فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ۔ ثُمَّ قَالَ: وَأَھْلُ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي‘‘

''میں تم میں دو ثقل چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلا ثقل اللہ کی کتاب ہے۔ اس ثقل میں ہدایت اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ مضبوطی اختیار کرو۔'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کے حوالے سے لوگوں کو ابھارا اور ترغیب دلائی۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ''اور (دوسرا ثقل) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔'' (صحیح مسلم: 2408) ایک دوسری روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ'عِتْرَتِي' کے الفاظ ہیں۔ عترتی سے مراد بھی اہل بیت ہی ہیں۔ (مسند احمد: ۳/۱۴)

ایک غلط استدلال:
اس حدیث سے بعض لوگ ایک غلط استدلال کرتے ہیں، بلکہ یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے تمام مذہب کی بنیاد اس حدیث کا دوسرا حصہ ہے۔ اگران کے مذہب سے اہل بیت کا ذکر نکال دیا جائے تو ان کی پوری کی پوری مذہبی عمارت زمین بوس ہوجائے۔ ان حضرات کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ جس طرح کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اسی طرح اہل بیت کی اتباع و پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اہل بیت میں سے جو بھی شخص جو بھی بات کہے اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث کی آڑ میں وہ سادہ لوح عوام میں اپنے نظریات پھیلاکر انھیں اپنا مذہب اختیار کرنے کی رغبت دلاتے ہیں۔ علم حدیث میں فہم و فراست نہ رکھنے والے افراد ان کے اس حملے کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت برباد کربیٹھتے ہیں۔

غلط استدلال کا رد:
مذکورہ حدیث سے ان حضرات نے جو استدلال لیا ہے وہ شرعی نصوص کے خلاف ہے۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں اور حدیث کے الفاظ پر غور کرتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسّک کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اہل بیت کے بارے میں صرف ان کی عزت و توقیر اور ان کے ساتھ محبت کرنے کی وصیت کی ہے۔ اس بات کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کے ساتھ اپنی سنت کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَینِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہٖ‘‘ (موطا امام مالک: 899/2)
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رکھوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔''
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ گروہ اس حدیث کو پکڑ کر تو بڑا ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ اہل بیت کی اطاعت کرنا بھی قرآن کریم کی اطاعت ہی کی طرح ہے مگر اس موقف کا حامل فرقہ اس حدیث کو پس پشت ڈال دیتا ہے جس میں خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کا حکم ہے۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے:

’’ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 42)
''فتنوں کے دور میں تم میرے اور میرے صحابہ کرام کے طریقے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔''

یہ بات بھی یاد رہے کہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کے بارے محدثین علمائے کرام کا منہج یہ ہے کہ ان کی اتباع صرف اسی معاملے میں کی جائے گی جو نبیﷺ کی سنت کی مطابقت میں ہوگا یا پھر آپﷺ کی سنت کی مخالفت میں نہیں ہوگا۔ اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی اسی منہج کے مطابق کی جائے گی۔ البتہ ہمارا اس حدیث کو یہاں بیان کرنے کا مقصد ان حضرات کو یاد دہانی کرانا ہے کہ اگر ہر معاملے میں اہل بیت کی اطاعت واجب ہے تو پھر خلفائے راشدین کی اطاعت تو بالاولیٰ واجب ہے، اس لیے کہ خلفائے راشدین کے ذکر کے ساتھ تو رسول اللہﷺ نے سنت کا لفظ بھی ذکر کیا ہے جو اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منقول نہیں ہے۔ اس لیے ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ خلفائے راشدین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی عزت و توقیر کریں اور ان کے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں۔
امام مناویؒ حدیث کے الفاظ ((عِتْرَتِي اَھْلِ بَیْتِي)) کے ذیل میں لکھتے ہیں: ''رسول اللہﷺ کی ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم کتاب اللہ کے اوامر کی پیروی کرو، اس کی نواہی سے اجتناب کرو اور میرے اہل بیت کے طریقے سے رہنمائی لو اور ان کی سیرت کی اقتداء کرو تو تم ہدایت پاجائو گے اور گمراہ نہیں ہوگے۔''

(فیض القدیر للمناوي: 36/11)
یعنی اوامر و نواہی میں اطاعت صرف کتاب اللہ کی ہے۔ اہل بیت کے طریقے سے صرف راہنمائی لی جائے گی تاکہ کتاب و سنت کا جو فہم ہے اسے صحیح طرح سے سمجھا جاسکے۔ واللہ اعلم

لفظ ''عترتی'' سے مراد تمام اہل بیت ہیں؟

درج بالا حدیث کی وضاحت میں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ لفظ ''عترتی'' سے مراد کون لوگ ہیں۔ ائمہ محدثین نے اس حوالے سے جو وضاحت کی ہے وہ درج ذیل ہے:
امام حکیمؒ فرماتے ہیں: ''عترتی'' سے مراد باعمل علماء ہیں، اس لیے کہ وہ قرآن سے جدائی اختیار نہیں کرتے۔ باقی رہے وہ لوگ جو جاہل ہیں یا علمائے سوء ہیں تو وہ اس مقام افضلیت سے بہت دور ہیں۔ اصل چیز تو یہ دیکھی جاتی ہے کہ کون ساشخص اچھے خصائل سے آراستہ ہے اور اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے ہوئے ہے۔ علم نافع اہل بیت کے علاوہ اگر کسی اور کے پاس ہو اور چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی اتباع کرنا بھی ہم پر لازم ہے۔
(فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیہ: 2984/5)
امام طحاویؒ فرماتے ہیں: عترۃ سے مراد نبیﷺ کے اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو آپﷺ کے دین پر قائم ہیں اور آپﷺ کے اوامر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ (فتاویٰ یسألونک: 164/2)

ملاعلی القاریؒ لکھتے ہیں: ''عترۃ سے مراد اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو اہل علم ہیں، آپﷺ کی سیرت پر مطلع ہیں، آپ ﷺ کے طریقے سے واقف ہیں اور آپﷺ کے اوامر اور سنت کو جانتے ہیں۔'' (فتاویٰ یسألونک: 164/2)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن اہل بیت کی اطاعت کی جائے گی ان سے مراد وہ اہل بیت ہیں جو اہل علم ہیں اور نبیﷺ کے طریقے پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔ اگر کسی شخص کا نسب نامہ اہل بیت سے تو جاملتا ہے مگر وہ بدعات و خرافات میں لت پت ہے تو اس کی اطاعت تو کجا ان بدعات و خرافات کی بناپر اس سے بیزاری کا اعلان بھی کیاجائے گا۔
اہل بیت سے محبت جزوایمان ہے
اہل السنہ والجماعہ (اہل الحدیث) کا ہمیشہ یہ منہج رہا ہے کہ نبیﷺ کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی سے محبت بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ افضل الامّہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر ایک عام صحابی تک سب سے محبت کرنا ہم پر فرض ہے۔ البتہ صحابہ و صحابیات میں سے بعض شخصیات ایسی ہیں جو بہت زیادہ محبت کی مستحق ہیں۔ جس طرح ایک شخص محبت تو اپنے سب رشتے داروں سے کرتا ہے مگر بعض سے کچھ زیادہ ہی محبت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں محبت تو تمام صحابہ کرام سے ہے مگر نبیﷺ کی اہل بیت کے بارے میں خاص وصیت کی بنا پر وہ ہماری بہت زیادہ محبت کے مستحق ہیں۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ یہ وصیت فرمائی ہے۔ یہ تاکید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کے اہل بیت کی عزت و توقیر کی جائے، ان کا احترام بجالایا جائے اور ان کے ساتھ دلی محبت کی جائے۔''
(حدیث الثقلین وفقھہ للدکتور علی السالوس: 25/1)

اہل بیت کون...؟
محترم قارئین! درج بالا حدیث کے ذیل میں اس بات کی وضاحت بھی فائدے سے خالی نہیں کہ اہل بیت میں کون کون سے افراد آتے ہیں۔ اس نزاع کو حل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک مخصوص گروہ اپنے افکار و نظریات کے پیش نظر چند ایک افراد کو اہل بیت میں شمار کرتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ بعض صحابیات سے بغض و عناد کی بنا پر وہ گروہ انھیں اہل بیت میں سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس گروہ کا موقف یہ ہے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} سے مراد صرف سیدنا علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ وہ ازواج مطہرات کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے۔ ان کا یہ موقف کئی وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔
اگر آیت کا سیاق و سباق دیکھ لیا جائے تو یہ بات باآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ اس آیت کا اصل مصداق ازواجِ مطہرات ہی ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث کے بہت سارے دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
یہ حضرات صحیح مسلم کی ایک حدیث اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ حدیث یوں ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن سیدنا علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو اپنے اوپر لی ہوئی چادر میں لیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی
: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} ''اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم سے غلاظت کو دور کردے اور تمھیں بالکل پاک و صاف کردے۔'' (صحیح مسلم: 2424)
ان کا استدلال یہ ہے کہ نبیﷺ نے صرف ان چاروں کو چادر میں داخل فرمایا اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ اگر کوئی اور بھی اہل بیت میں شامل ہوتا تو نبیﷺ اس کو بھی چادر میں داخل کرتے۔
ان کا یہ استدلال دلائل سے عاری اور بالکل بے معنی ہے۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس موقع پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کرنے پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ تم تو اہل بیت ہو ہی البتہ یہ بھی اہل بیت میں سے ہیں۔
(المستدرک للحاکم: 278/3)
شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں: ''حدیث الکساء سے سورۃ الاحزاب کی اس آیت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ یہ چاروں شخصیات بھی شامل ہیں، اس لیے کہ اہل بیت میں اصل ازواجِ مطہرات ہی ہیں۔'' (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:280/4)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل بیت میں اصل ازواجِ مطہرات ہیں۔ اسی طرح اہل بیت میں وہ تمام لوگ بھی ہیں جن کے لیے صدقے کا مال حلال نہیں۔ واللہ اعلم

محض دعویٰ محبت فائدہ نہیں دے گا
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اہل بیت کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا نسب بھی ان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اہل بیت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا مگر وہ اپنے آپ کو ''سید'' کہلوانا شروع کردیتے ہیں۔ سید کہلوانے کا عام سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق بھی اہل بیت کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اہل بیت سے نہ تو محض دعویٰ محبت سود مند ہے اور نہ ہی زبردستی ان کے ساتھ تعلق جوڑنا کچھ فائدہ دے گا۔ بلکہ یہ محبت اسی وقت فائدہ دے گی جب ان سے حقیقی محبت ہوگی اور شرعی دلائل کی روشنی میں ان کے نقشِ قدم پر چلا جائے گا۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ((مَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ)) ''جس شخص کے عمل نے اسے پیچھے چھوڑ دیا اس کا نسب اسے آگے نہیں پہنچاسکے گا۔'' (صحیح مسلم: 2699) یعنی کامیاب ہونے کے لیے عمل صالح کا ہونا ضروری ہے۔ ایسا عمل جو قرآن و حدیث کے مطابق ہو نہ کہ اپنی خواہشات پر مبنی ہو۔
 
Last edited:
Top