• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث خلافت راشدہ کے بعد

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
۔خلافت راشدہ کے سیاسی حالات اور فرقوں کا ظہور وشیوع:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد جب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے تو بعض قبائل دینی ذمہ داریوں کا جوا اتار کر ٓزاد منش ہوگئے ، چنانچہ بعض قبیلے ایسے تھے جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا بعض اسلام سے اس لئے منحرف ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی دین بھی اپنی موت مر چکا ہے حتیٰ کہ بعض گمراہ شعراء نے اس ضمن میں اشعار بھی نظم کئے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حالات میں وہی کچھ کیا جس کی ایک غیور و جسور تجربہ کار قائد سے توقع کی جاسکتی ہے، چنانچہ آپ نے اس فتنہ کو سر اٹھاتے ہی کچل دیا اور اس کے جراثیم کو بڑا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جو لوگ دین اسلام پر حملہ آور ہوئے تھے خائب وخاسر لوٹے اوران کی گردنیں احکام خداوندی کے آگے جھک گئیں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو سال اوعرر چند ماہ مسند خلافت پر متمکن رہے اس قلیل مدت میں اسلام کا جھنڈا سر زمین فارس و روم پر لہرانے لگا آپ نے قرآن عزیز کی جمع وتدوین کا کا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نامہ سر انجام دیا اور حدیث کے بارے میں احتیاطی اقدامات کئے ۔
جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین منتخب فرمایا فاروقی عہدمیں اسلامی فتوحات کا دائرہ شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً ہر جانب وسعت پذیر ہوا ۔ ملک شام و مصر اور جزیدہ اسلامی حکومت کے زیر نگین ہوئے آپ دس سال اور چند ماہ خلافت کے منصب پر فائز رہے آپ کے عہد میں نہ قوی شخص آپ کے صبرو تحمل کا امیدوار ہو سکتا تھا اور نہ کمزور آدمی آپ کے عدل و انصاف سے مایوس رہ سکتا تھا آپ نے احدیث نبویہ کو منافقین کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا آپ نے صحابہ کو حفظ قرآن اور حدیثیں کم روایت کرنے کا مشورہ دیا غرض یہ کہ جملہ امور و افعال سنت نبوی کے زیر اثر تھے۔
خلافت فاروقی کے دوران مسلمانوں میں حد درجہ وحدت اور شیرازہ بندی پائی جاتی تھی جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسند خلافت کو رونق بخشی تو اسلامی فتوحات کا دائرہ مزید پھیلا آپ نے جمع شدہ قرآن کریم کی نقلیں کروائیں اور ان کو اطراف ملک بھیج کر اس اختلاف کا خالتمہ کر دیا جو مسلمانوں کی تفریق کا باعث بننے والا تھا۔
آپ بارہ سال تک خلافت کے فرائض سرانجام دیتے رہے پہلے چھ سال کا مل امن وامان اور خوش حالی و فارغ البالی میں گزرے خلافت عثمانی کے نصف ثانی میں کچھ لوگوں نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ اپنے اقارب کو کلیدی مناصب تفویض کررہے ہیں غیر مسلموں نے اس زریں موقع سے فائدی اٹھایا اور مسلمانوں کو خلیفہ کے بر خلاف بغاوت پر آمادہ کر کے فتنہ کی آگ بھڑکائی۔ دراصل ان کا مقصد یہ تھا کہ ملسمانوں میںؓ نزاع وجدال پیدا کر کے ملت کا شیرازہ پرا گندہ کر دیا جائے چنانچہ ان لوگوں نے مختلف سنٹروں کے لوگوں کو حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف برانگیختہ کیا جس کے نتیجہ میں حضرت عثمان شہادت سے سرفراز ہوئے،شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قصر اسلام کی بنیادیں ایسی ہلیں کہ پھر انہیں وہ استحکام دوبارہ نصیب نہ ہوسکا ،ملت اسلامی کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شک خلیفہ بن گئے مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو ایک دن بھی امن و سکون کا میسر نہ آیا اور نہ ہی تمام اسلامی بلاد آپ کے زیر نگیں ہوئے ۔ملک شام شروع سے ہی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیر تسلط تھا جو اب قصاص عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دعویٰ لے کر کھڑے ہوگئے اور بیعت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کر دیا۔چنانچہ دونوں کے درمیان مہلک لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہواجن میں کثیر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مارے گئےبے پناہ لڑائیوں کا سلسلہ جنگ صفین پر جا کر ختم ہوا۔اس جنگ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رفقاء میں ایک فریق نے تحکیم کے فیصلہ کو قبول کر لیا دوسرے انکار پر مصر رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ بھائی بھائی بن کر گئے مگر جب لوٹے تو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
جنگ صفین کے بعد ملت اسلامیہ تین فرقوں میں بٹ گئی۔



۱۔ خوارج:

یہ لوگ تحکیم (حکم بنانا،کسی کو ثالث مقرر کرنا)قبول کرنے کو کفر تصور کرتے تھے ان کا کہنا یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہمنوا تحکیم قبول کرنے کی بناء پر کافر ٹھہرے اس لئے کہ ان کے خیال میں حکم خداوندی کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔


۲۔ شیعہ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے ان لوگوں کو شیعہ (گروہ علی)کہا جانے لگا۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقت میں تحکیم کے فیصلے کو قبول کر لیا تھا ۔امامت کے بارے میں یہ خصوصی عقائد رکھتےہیں جو کسی دوسرے فرقے میں نہیں پائے جاتے۔


۳۔ جمہور:
یہ وہ لوگ تھے جو خروج و تشیع دونوں قسم کی بدعت سے آلود نہ ہوئے ان کا ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اور دوسرا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہمنوا تھا تیسرا غیر جانب دار تھا جو کسی کے ساتھ بھی شریک نہ ہوا۔
خوارج کا گروہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گروہ کے لئے مستقل خطرہ بن گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ جنگوں میں الجھے رہے اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مزید تقویت ملی یوں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لشکر رفاداری میں بے نظیر تھا ابھی زیادہ عرصہ نہ گرنے پایا تھا کہ تین خارجی حضرت علی ،امیر معاویہ، اور عمر بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگیا ۔خوارج سمجھتے تھے کہ تینوں اشخاص مسلمانوں کے لئے باعث فتنہ ہیں اس لئے ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔حضرت عمرو بن العاص اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو اس شازش سے زندہ بچ نکلے مگر خارجی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کو عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے شہید کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے بالاتفاق ان کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی آپ چھ ماہ چند روز تک مسند خلافت پر فائز رہے بعد ازاں مسلمانوں کو خون ریزی سے بچانے کے لئے ۴۱ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے ۔۴۱ ہجری اسی لئے ''عام الجماعۃ'' کہا جاتا ہے کہ اس سال لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر جمع ہوگئے تھے مگر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہونے کے باوجود شیعہ و خوارج کے جذبات فرونہ ہوئے بخلاف ازیں دونوں فریق اپنے عقائد و نظریات میں مبالغہ وافراط سے کام لیتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں مستقل گروہ بن گئے اور انہوں نے حدیث وفقہ پر خاصا اثر ڈالا اب ہم شیعہ و خوارج میں سے ہر ایک کے متعلق ایک جداگانہ فصل قائم کر کے ان کے مشہور عقائد و تعلیمات کا ذکر کریں گے۔ اور بتائیں گے کہ انہوں نے حدیث نبوی پر کیا اثرات ڈالے۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
خوارج اور خلافت کے بارے میں ان کے نطریات:

یہ وہی فرقہ ہے جس نے حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تحکیم قبول کرنے کی بنا پر ان کے خلاف خروج کیا تھا یہ عجیب بات ہے کہ پہلے انہوں نے تحکیم کو قبول کیا اور اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا تھا جب کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قبول کر نے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے بدترین نتائج سے انہیں آگاہ کیا تھا مگر خوارج بضد ہوئے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات نہ مانی۔
خوارج کے عام نظریات:

خوارج کی رائے میں خلافت کا انعقاد آزادانہ انتخاب سے ہوتا ہے جب امام ایک دفعہ منتخب ہوجائے تو وہ اس سے نہ دست بردار ہوسکتا ہے نہ کسی کو حکم ٹھہرا سکتا ہے خلافت کا تعلق نہ کسی خاص گھرانہ سے ہے اور نہ کسی خاص قبیلہ کے ساتھ قبیلہ قریش کی بھی اس میں کچھ تخصیص نہیں خوارج کے نزدیک کافر وفاسق دونوں میں کچھ فرق نہیں بخلاف ازیں جو شخص بھی حدود اللہ سے تجاوز کرتا ہے وہ فاسق ہے اور فاسق ان کے نزدیک کافر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خوارج کی رائے میں عمل جزوایمان ہے اس لئے کبائر کا ارتکاب کرنے والا ان کی نگاہ میں کافر ہے۔
خوارج حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت کو تسلیم کرتے تھے اس لئے کہ ان کا انتخاب صحیح طور پر تھا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی سالوں کو وہ درست تسلیم کرتے تھے کیونکہ ان میں وہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی استوار کردہ راہ پر گامزن رہے۔ جب آپ نے اپنے اقارب کو کلیدی مناصب تفویض کئے تو خوارج آپ کے خلاف بھڑک اٹھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت بقول خوارج تحکیم کو قبول کرنے تک درست تھی جب آپ نے جنگ صفین میں اپنے اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان حکم مقرر کر لئے تو کافر ٹھہرے (نعوذباللہ من ذالک)۔خوارض اس کی دلیل یہ دیتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدا کے دین میں اشخاص و رجال کو حکم بنایا۔ حالانکہ فیصلہ صادر کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کرتے تھے۔
''ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون''(المائدہ:۴۴)
''اور جوخدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں''
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوارج کی نگاہ میں جبراً خلافت پر قابض ہوئے تھے اور اس لئے غاصب تھے ان کا زاویہ نگاہ یہ تھا کہ جو شخص امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تعاون کرے اور حضرت عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بیزاری کا اظہار نہ کرے وہ کافر اور مباح الدم ہے۔ بنابریں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہمنوا اور اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقاء نیز حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جو شخص بھی ان تمام لوگوں سے اظہار براءت نہیں کرتا خوارج کی رائے میں کافر اور مباح الدم ہے۔
کچھ یوں نظرآتا ہے کہ خوارج دراصل درشت طبع اور سنگدل قسم کے بدوی لوگ تھے اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں قرآن نے کہا ہے۔
''الاعرب اشد کفرا ونفاقا واجدرالا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ''(التوبہ:۷۹)

''بدوی لوگ کفر ونفاق میں نہایت سخت ہیں اور اس لائق ہیں کہ جو چیز اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر اتاری ہے اس کی حدود سے آگاہ نہ ہوں''۔
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو نور نبوت سے مستنیرہوئے تھے اور جنہوں نے صحیح طور سے قرآن کریم کا فہم و ادراک حاصل کیا تھا ان میں سے کوئی بھی خوارج میں موجود نہ تھا اس لئے خوارج کا ظواہر قرآن سے دھوکہ کھا جانا کچھ عجب نہیں اور اگر وہ قرآن عزیز میں فکر ونظر کی زحمت گوارا کرتے تو انہیں ایسی آیا ت ضرور مل جاتیں جن میں حکم بنانے کی ہدایت کی گئی ہے مثلاًقرآن حکیم میں فرمایا:
''فابعثو حکما من اھلہ وحکما من اھلھا ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھا''(النساء:۳۵)
''پس ایک ثالث خاوند کے گھر والوں میں سے بھیجو اور ایک ثالث بیوی کے گھر والوں میں سے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو توفیق سے ہمکنار کردے گا''۔
اس آیت سے مستفادہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کو فیصلہ کرنے کے لئے ثالث بنانا جائز ہے اور جن دوشخصوں کوحکم (ثالث)بنایا جائے گا وہ قرآن کریم ہی کی روشنی میں فیصلہ صادر کریں گے نیز فرمایا:
''فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول''( النساء:۵۹)
''اگر کسی بات میں تمہارے یہاں نزاع پیدا ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو''۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
فقہ الخوارج:

خوارج حدیث نبوی سے بالکل بیگانہ تھے وہ دوسرے مسلمانوں سے حدیث کی نقل وروایت اس لئے نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کے نزدیک جھوٹے تھے یہی وجہ ہے کہ خوارج کی فقہ نہ صرف شرعی احکام کے خلاف بلکہ نصوص قرآنی سے بھی متصادم ہے فقہ خوارج کے چند مسائل ملاحظہ ہوں۔
۱۔بعض خوارج کے نزدیک تیمم ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے حتیٰ کہ جو شخص کنویں کے نزدیک بیٹھا ہو وہ بھی تیمم کر سکتا ہے۔
۲۔نماز جو مسلمانوں پر فرض ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ایک رکعت فجر کو اور ایک رکعت عشاء کے وقت پڑھ لی جائے۔
۳۔ حج سال بھر کے تمام مہینوں میں کیا جاسکتا ہے۔
۴۔غیر خوارج کے بچے اور ان کی عورتیں بھی مباح الدم ہیں۔
۵۔دختردرازی اور پوتی کے ساتھ نکاح جائز ہے۔
خوارج کے یہ فقہی مسائل اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ وہ قرآنی نصوص سے آشنانہ تھے۔ اس جہالت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خوارج عام مسلمانوں کی روایت کردہ احادیث کو تسلیم نہیں کرتے تھے حالانکہ وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور قرآن کے صحیح فہم و ادراک دونوں سے کورے تھے مگر یہ بات تمام خوار پر صادق نہیں آتی بلاشبہ متاخرین خوارج میں بڑے بڑے محدثین و فقہاء پیدا ہوئے اور بقول ابن الصلاح امام بخاری جیسے نقاد حدیث نے ان کی نقل و روایت کو بنظر استحسان دیکھا مثلاً امام بخاری عمران بن حطان کی مرویات سے احتجاج کرتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خوارج کے نزدیک جھوٹ بولنا کفر کے مترادف ہے کیونکہ کبیرہ کا مرتکب ان کے نزدیک کافر ہے اور کذب بھی کبائر میں شامل ہے۔
خوارج اور وضع حدیث:

ایک طرف تو خوارج کا ذب کو کافر قرار دیتے تھے اور دوسری جانب ان میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے جو اپنے باطل عقائد کی ترویج واشاعت کے لئے حدیثیں وضع کر کے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب منسوب کر دیا کرتے تھے محدث ابن الجوزی اپنی کتاب الموضوعات کے مقدمہ میں ابن لہیعہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک خارجی نے وضع الحدیث سے توبہ کرلی تھی اور وہ کہا کرتا تھا کہ ''یہ احادیث دین کا سر چشمہ ہیں اس لئے ذرا دیکھ لیا کرو تم کس شخص سے اپنا دین اخذ کر دہے ہو ہماری حالت تو یہ تھی کہ جس بات کو پسندکرتے اس کے متعلق حدیث گھڑ لیا کرتے تھے''۔(موضوعات ابن الجوزی)
مشہور محدث عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب منسوب کر رکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں میری کوئی حدیث ملے تو اسے کتاب اللہ پر پرکھ لیا کرو۔ اگر کتاب اللہ سے ہم آہنگ ہو تو اسے میری بیان کردہ حدیث ہی سمجھو حالانکہ اس کو خوارج اور زنادقہ نے وضع کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب منسوب کر دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک ظاہر پرست اور عام اہل اسلام کی مرویات کو ٹھکرادینے والی قوم سے یہ بات کچھ بعید نہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ خوارج کی ساختہ پر داختہ احادیث شیعہ موضوعات کے مقابلہ میں نہایت کم ہیں اس کی تین وجوہ ہیں ۔
۱۔خوارج کا ذب کی تکفیر کرتے تھے اس لئے کذب ان میں بہت کم پایا جاتا ہے ۔
۲۔چونکہ خوارج غیر مہذب اور درشت طبع قسم کے دیہاتی لوگ تھے اس لئے دیگر اقوام مثلاً ایرانیوں اور یہودیوں کو اپنی قوم میں سمونے کے لئے تیار نہ تھے بخلاف ازیں عجمی لوگ شیعہ میں گھس آئے تھے اور انہوں نے بکثرت احادیث وضع کی تھیں ۔
۳۔خوارج اپنے اعداء وخصوم کے مقابلہ میں اپنے اسلحہ اور قوت و شجاعت سے کام لینے کے عادی تھے وہ شیعہ کی طرح تقیہ سے آشنا نہ تھے بلکہ اعلانیہ اپنے عقائد کا اظہار پوری بے باکی سے کرتےتھے اس لئے وہ اپنے دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لئے جھوٹ کا سہارا نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ ان کی نگاہ میں کافر تھے اور کفر سے بڑھ کر عیب و نقص اور کیا ہوسکتا ہے؟وہ تلوار کے دھنی تھے اور بلامحابا اسے استعمال کرتےتھے۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
مندجہ صدر عوامل ومحرکات کے پیش نظر دیگر فرقہ ہائے اسلامی کے مقابلہ میں خوارج کے یہاں حدیث میں دروغ گوئی کی قلت پائی جاتی ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خوارج کا دامن وضع حدیث کی آلودگی سے پاک ہے۔ بلاشبہ ان میں حدیثیں وضع کرنے والے موجود تھے یہ دوسری بات ہے کہ ان کی تعداد کم تھی۔
شیعہ اور ان کے افکار و معتقدات:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کسی اور کے حق میں خلافت کی وصیت نہیں فرمائی تھی کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا ۔اسی طرح کسی روایت صحیحہ سے ثابت نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بھی اس کا دعویٰ کیا تھا اور اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قسم کی وصیت کا علم ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا کہ آپ صحابہ سے اس کا ذکر نہ فرماتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وصیت نافذ کرنے میں ذرا بھی لیت ولعل نہ کرتے بخلاف ازیں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالترتیب حضرات ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کے دست حق پر بیعت کی تھی ۔
شیعان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ چند صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوجوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد آپ کے جانشین ہیں ایک تو اس لئے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد آپ کے قریبی رشتہ دار ہیں دوسرے یہ کہ آپ سابق الاسلام تھے اور غزوہ بدر اور دیگر غزوات میں شرکت کرچکے تھے ،تیسرے یہ کہ آپ جگر گوشہء رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خاوند تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں موجود جو دیگر فضائل اور اوصاف پائے جاتے تھے وہ اس پر مزید ہیں مثلاً یہ کہ آپ حد درجہ شجاع اور اس کے ساتھ ساتھ مفتی اور قاضی بھی تھے اس میں آپ کو ضرب المثل کی حد تک شہرت حاصل تھی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ متاخر الاسلام تھے آپ فتح مکہ کے دن حلقہ بگوش اسلام ہوئے غزوہ بدر میں قریش مکہ کی امداد کے لئے حاضر ہوئے تھے ،مزید براں وہ ان خصوصیات سے عاری تھے جو جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرہ امتیاز تھیں۔ مگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعوان و انصار نے ملت کے شیرازہ کو پراگند گی سے بچانے کےلئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کا اظہار نہ کیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی اسی طرح وہ جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت سے بھی پیچھے نہ رہے۔ جب حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے امت میں فتنہ بازی کا ظہور ہوا تو شیعان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باصرار ان کو خلافت کی زمہ داریا ں ان کو سنبھالنے کے لئے ان کو کہا جس وقت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصاص عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوئے تو ان کے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان لڑائیوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا جس کا سلسلہ جنگ صفین پر جاکر ختم ہوا۔جنگ صفین کے بعد شیعی فکر نے ایک نیا رخ بدلا اور بکثرت زنادقہ منافقین اور ارباب بدعت و اہواء دین میں فساد و بگاڑ پیدا کرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعوان و انصار کے ساتھ مل گئے ۔ یہ لوگ آگے چل کر شیعہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وصیت پر خلافت کا اولین استحقاق رکھتے ہیں ،یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصی کہا کرتے تھے ،ان کا زاویہ نگاہ یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد خلافت کا حق ان کے بیٹوں کو پہنچتا ہے اور جو شخص ان کو ان کے جائز حق سے محروم دکھتا ہے وہ غاصب وظالم ہے۔ اسی عقیدہ کے زیر اثر وہ جناب شیخین(حضرت ابو بکرو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی شان میں گستاخی کرنے لگے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حق غصب کیاہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد پھر وہ حضرت حسن اور پھر حضرت حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت کے قائل تھے حضرت حصین کی شہادت کے بعد وہ مختلف الرائے تھے کہ خلافت کا حقدار کون ہے؟ شیعہ کی ایک جماعت کے مطابق خلافت کے مستحق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے بیٹے محمد بن حنفیہ تھے۔ جب کہ دوسرا گروہ خلافت کو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں محدود قرار دیتا تھا۔ اور اس اعتبار سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ان کے بیٹے علی زین العابدین کو مستحق خلافت قرار دیتا تھا پھر زین العابدین کے بعد ان کے بہٹے محمد الباقر ،امام باقر کی وفات کے بعد شیعہ کے یہاں پھر اختلاف رونما ہوا شیعہ کی ایک جماعت زید بن علی کے حق میں تھی جن کو زید یہ کہا جاتا ہے۔ بخلاف ازیں دوسرا گروہ محمد باقر کے بیٹے جعفر صادق کو مستحق خلافت خیال کرتا تھا ۔
شیعہ کے تمام فرقوں میں زید یہ فرقہ اعتدال پسند اور مبالغہ اامیزی سے پاک تھا یہ شیخین سے اظہار براءت نہیں کرتے تھے ان کے خیال میں خلافت اولاد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں محدود ہے جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن اطہر سے ہو ۔ ان کے نزدیک امام کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ اس کے اوصاف بیان کردئے جائیں ،نام لے کر امام کا تعین نہیں کیا جاتا امام جعفر صادق کے متبع بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں چنانچہ اولاد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے جو بھی اوصاف امامت کے ساتھ متصف ہو اس کی تائید و حمایت ان پر واجب ہے بہر کیف شیعہ تین بڑے بڑے فرقوں میں بٹ گئے۔
۱۔کیسانیہ:یہ محمد بن حنفیہ کی امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
۲۔امامیہ جعفریہ:یہ امام جعفر صادق کو امام سمجھتے ہیں۔
۳۔امامیہ زیدیہ:یہ حضرت زید بن علی بن حسین کی امامت کے قائل ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
۔رجعت:

شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ زندہ مگر پوشیدہ ہیں وہ لوٹ کر آئیں گے اور جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر گئی ہے اسی طرح اسے عدل وانصاف سے معمور کردیں گے۔ شیعہ کا فرقہ کیسانیہ اس بات کا معتقد ہے کہ امام بن حنفیہ رضویٰ کے پہاڑوں پر زندہ موجود ہیں ان کی ایک جانب شیر اور دوسری جانب چیتا ہے، فرشتے ان سے ہم کلام ہوتے ہیں صبح وشام ان کے پاس بافراغت رزق آتا ہے وہ اس وقت تک موت سے ہمکنار نہ ہوں گے جب تک وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر نہ دیں۔ جس طرح وہ ظلم وہ جور سے پر ہوچکی ہے۔
۲۔نبوت:
شیعہ کے بعض فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد نبوت کے منصب پر فائز تھے بعض شیعہ کا خیال ہے کہ جبرئیل غلطی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب رسالت کا پیغام لائے دراصل انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب بھیجا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شکل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتی جلتی تھی بعض شیعہ اس غلطی کی وجہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو لعنت ملامت کا مستحق گردانتے بلکہ ان کی تکفیر بھی کرتے ہیں۔
۳۔ الوھیت:
شیعہ میں سے ابن سبا حمیری کے اتباع واعوان الوہیت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قائل ہیں کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا تھا ''آپ ہی وہی ہیں''حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا مطلب؟کہنے لگے ''آپ الہ ہیں''حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر تعجب کیا اوران کو آگ میں جھونک دیا شیعہ کا ایک فرقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی الوہیت کا عقیدہ رکھتا ہے۔
۴۔تقیہ:
تقیہ کے معنی بچاؤ حاصل کرنے اور پوشیدہ رہنے کے ہیں ،شیعہ کی یہ عادت تھی کہ جو شخص مسند اقتدار پر فائز ہوتا اس کی اطاعت کرتے اور جو امام بقول ان کے پوشیدہ ہے اس کا حال اصحاب اقتدار پر ظاہر نہ ہونے دیتے پوشیدہ طور پر اپنی دعوت و تبلیغ کا کام بھی جاری رکھتے جب ان کے اعوان وانصار کی تعداد کافی ہوجاتی تو انقلاب برپا کرنے کے لئے قوت حاکمہ کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتے شیعہ کے نزدیک تقیہ ایمان کا ایک لازمی جزو ہے باطل تاویلات کا سہارا لے کر وہ اس کو قرآن کریم کی آیات سے ثابت کرنے کی سعی لاحاصل بھی کرتے ہیں مثلاً قرآن کریم میں فرمایا:
''اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا''
''ان لوگوں کو دگنا اجر دیا جائے گا کہ انہوں نے صبر کیا''۔
شیعہ کے نزدیک صبر سے مراد اس آیت میں تقیہ پر صبر کرنا مراد ہے۔
حدیث نبوی پر تشیع کے اثرات:

شیعہ کے اکثر عقئد و افکار اس قسم کے ہین کہ ان کی موجودگی میں شیعہ کے کفر میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی مثلاً شیعہ کا یہ عقیدہ کہ اللہ کی ذات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں حلول کر آئی ہے ،یا یہ عقیدہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد نبوت کے منصب پر فائز تھے اسی طرح شیعہ قرآن کریم کی تاویلات باطلہ کرتے اور کہتے ہیں کہ قرآن عزیز کے ستر بطن ہیں۔
شیعہ کی دروغ بافی:

ان شیعہ نما اعدائے دین نے اپنے اپنے اغراض مقاصد اور اپنے عقائد و نظریات کی تائید میں حدیثیں وضع کرنا شروع کردیں ۔ ان وضع کردہ احادیث کا تعلق زیادہ تر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قدر و منزلت اور امیر معاویہ کی تنقیرو تنقیص کے ساتھ ہے ،چنانچہ موضوعات پر مشتمل کتب ایسی احادیث سے مملو ہیں۔ مثال کے طور پر ہم امام جلال الدین سیوطی کی کتاب ''اللانی المصنوعہ فی الاحادیث''سے چند احادیث نقل کرتےہیں۔
۱۔جو شخص مرجائے اور اس کے دل میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بغض ہو تو یہودی مرتا ہے یا نصرانی۔
۲۔اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں تجھے نبوت کے ساتھ مختص کرتا ہوں۔ حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، سات باتوں کی بناء پر لوگ تجھ سے عداوت رکھیں گے ،اور قریش میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جھگڑا نہ کر سکے گا، آپ قریش میں سب سے پہلے ایما لائے ،آپ خدا کے عہد کو پورا کرنے ولے اور خدا کے حکم پر سب سے زیادہ قائم رہنےوالے ہیں۔(یہ طویل حدیث ہے)
۳۔ میرے بعد ایک فتنہ بپا ہوگا ، اگر تم میں سے کوئی اسے پالے تو دو چیزوں کو ہاتھ سے نہ جانے دے ،ایک کتاب اللہ اور دوسرا علی بن ابی طالب، اس حدیث کے آخر میں ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے بعد جانشین ہوں گے۔
۴۔ ہر بنی کا ایک وصی ہوتا ہے میرے وارث اور وصی علی ہیں۔
۵۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مرض وفات میں مبتلاء ہوئے تو آپ کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا موجود تھیں آپ نے فرمایا ''میرے دوست کو بلاؤ''ان دونوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہلا بھیجا اور وہ تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا چنانچہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر چلے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر دونوں کو حکم دیا کہ میرے دوست کو بلاؤ اب انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلالیا آپ آئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں کچھ نہ کہا جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا میرے دوست کو بلاؤ اب انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا آپ آئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عائشہ و حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کو چلے جانے کا حکم دیا۔ اور وہ چلیں گئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کاغذ اور دوات لائیے چنانچہ آپ لکھوتے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے گئے حضرت جبرائیل گواہ قرار پائے پھر کاغذ لپیٹ لئے گئے راوی کا بیان ہے کہ لکھنے لکھوانے اور شہادت دینے والے کے سوا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ میں صحیفہ میں درج کردہ مضمون سے واقف ہوں اس کی بات تسلیم نہ کیجئے۔(اللالی المصنوعہ ج ۱ص ۳۲۳تا ۳۶۷)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
اور اس قسم کی دیگر احادیث موضوعہ جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصی ہونے یا ان کی خلافت ونبوت کا اثبات ہوتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے شیعی اکاذیب کی تردید:

یوں نظر آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصی بالخلافت ہونے کا معاملہ خود ان کے زمانہ میں بھی مشہور ہو چکا تھا چنانچہ بعض صحابہ نے اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت بھی کیا تھا آپ نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خلافت سے متعلق میرے حق میں کوئی وصیت نہیں فرمائی۔
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی تحریری دستاویز ہے؟ فرمایا نہیں ایک روایت یوں ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے کو اگایا اور روحوں کو پیدا کیامیرے پاس کوئی تحریر نہیں ہے صرف اللہ کی کتاب یا فہم و ادراک جو خدا وند تعالیٰ کسی مسلم کو عطال کر دے ، البتہ میرے پاس ایک رسالہ ہے میں نے پوچھا اس رسالے میں کیا ہے؟ فرمایا اس میں دیت کے احکام اور قیدیوں کو آزاد کرنے سے متعلق مسائل مندرج ہیں نیز یہ کی کسی مسلم کو کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔(بخاری کتاب العلم)
مندرجہ صدر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو اسرار وحی سے کوئی ایسا راز بھی بتایا گیا تھا جس کا علم دوسروں کو نہ ہو؟ اس سوال کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت وخلافت کے بارےمیں لوگوں کی زبانی کچھ باتیں سنی ہوں گی۔ جب انہوں نے یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کی تو آپ نے صریحا اس سے انکار کیا بلکہ ایک روایت کے مطابق حلف بھی اٹھایا ۔ آپ نے استثنا کے طور پر جس رسالہ کا ذکر کیا ہے اس کا شیعی عقائد کے ساتھ کچھ تعلق نہیں یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے اور بعض میں کچھ زائد الفاظ بھی ہیں مگر کسی روایت میں مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں وصیت فرمائی تھی یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی خصوصی راز بتایا تھا۔ (فتح الباری کتاب العلم ج ۱ص۱۸۲)
اس کی دلیل وہ روایت بھی ہے جو ابن عساکر نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ آئے تو ابن الکواء اور قیس بن عبادہ نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا ذرا یہ بتائیے کہ مسلمانوں کے خلفہ بن کر آپ یہ سفر طے کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو باہم لڑارہے ہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے ساتھ کوئی عہد کیا ہے؟ اگر کیاہے تو بتائیے ہم آپ کی بات مان لیں گے اس لئے کہ ہم آپ پر اعتماد کرتے اور آپ کو راست باز اور امین سمجھتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد کا تعلق ہے اس کا جواب نفی میں ہے آپ نے میرے ساتھ کوئی عہد نہیں کیا میں آپ پر سب سے پہلے ایمان لایا تھا اب آپ پر جھوٹ باندھنے میں پہل کیسے کر سکتا ہوں ؟ اگر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی عہد کیا ہوتا تو میں ابو بکر و عمر کو منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کیوں کھڑا ہونے دیتا؟ اگر میرے پاس میری چادر کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی میں ان دونوں کے خلاف جنگ آزما ہوتا مگر بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ قتل ہوئے نہ اچانک فوت ہوئے بخلاف ازیں آپ نے حالت مرض میں چند دن اور راتیں بسر کیں مؤذن آپ کے پاس حاضر ہوکر نماز کی اطلاع دیتا اور آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے حالانکہ میں اس وقت موجود ہوتا تھا جب ازواج مطہرات میں سے ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام مقررنہ کرنے کا مشورہ دیا تو آپ نہ مانے اور ناراض ہوئے آپ نے فرمایا(تم ان عورتوں کی طرح ہو جو حضرت یوسف کو بہکارہی تھیں)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سفر آخرت فرمایا تو ہم نے اپنے معاملات پر غور فرمایا اور جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمارے دینی امور کے لئے منتخب کیا تھا ہم نے اس کو دنیوی امور کے لئے (خلافت )جن لیا اس میں شبہ نہیں کہ نماز اسلام کی اصل واساس اور دین کا ستون ہے چنانچہ ہم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی جس کے وہ ہر لحاظ سے اہل تھے ہم میں سے دو آدمیوں نے بھی اس میں اختلاف نہیں کیا جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانشین قرار پائے اور ان کی ہموار کردہ راہ پر گامزن رہے چنانچہ ہم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی اور ہم میں سے دو آدمی بھی اس میں مختلف الرائے نہ ہوئے۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوئے تو مجھے اپنی قرابت وسبقت اور عظمت و فضیلت یاد آئی میں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص میرا حریف نہیں ہوسکتا دوسر ی جانب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات سے پہلے یہ سوچا کہ جو شخص بھی میرے بعد خلیفہ بنے گا اور کسی گناہ کا ارتکاب کرے گا تو میں قبر میں ہوتے ہوئے بھی اس کے گناہ میں برابر کا شریک ہوں گا ۔ اس لئے آپ نے اپنی اولاد کو حق خلافت سے محروم کر دیا آپ نے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی مقرر کردی ، جن میں سے ایک میں بھی تھا جب یہ ممبران جمع ہوئے تو میں نے سوچا کہ میرے ساتھ انصاف نہیں کیا جا گا ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے عہد لیا کہ جو شخص بھی خلیفہ منتخب ہوگا ہم لوگ اس کی اطاعت کریں گے پھر عبدارحمن نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی جب میں نے اپنے معاملہ پر غور کیا تو محسوس کیا کہ میں ہونے والے خلیفہ کی اطاعت کا عہد کر چکا ہوں چنانچہ میں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی میں نےمقدور بھر ان کی اطاعت کا دم بھرا ان کے لشکروں میںامل ہو کر غزوات میں شریک ہوا جب عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے کچھ دیتے تو میں لے لیتا جب لڑنے کا حکم دیتے تو میں اس کے لئے تیار ہو جاتا ۔ ان کے سامنے اپنے درہ کے ساتھ لوگوں کو سزا دیتا ۔جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوئے تو میں نے پھر اپنے معاملہ پر غو رکیا میں نے دیکھا کہ جن دو خلیفوں (ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم)کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز پرھانے کا حکم دے کر ان کی امامت کی جانب اشارہ فرمایا تھا وہ اب دنیا میں موجود نہیں اور جن کے لئے عبدالرحمن نے عہد لیا تھا وہ شہادت پاگئے چنانچہ اہالیان مکہ ومدینہ اور کوفہ والوں نے میری بیعت کر لی لیکن ہوا یہ کہ ایک اور شخص (امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) درمیان میں کود پڑا جو نہ میرے جیسا تھا اور نہ میری طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قریبی عزیز تھا وہ مجھ جیسا علم وفضل بھی نہیں رکھتا تھا اور میں ہر اعتبار سے خلافت کا اس سے زیادہ مستحق تھا۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی ص۱۱۹)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
مندرجہ صدر روایت بشرط صحت ان تو ہمات کا خاتمہ کر دیتی ہے جو شیعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وصیت کے بارے میں پھیلا رکھے ہیں اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ شیعہ کی یہ بات غلط ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماغاصب تھے۔ صحیح بخاری کی سابق الذکر روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
سابق الذکر بیانات اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ شیعہ مطلب براری کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھوٹ باندھنے میں کچھ باک محسوس نہیں کرتے تھے اس سے بڑھ کر یہ کہ جو شخص بھی سلطنت و اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا وہ شیعہ کا لبادہ اوڑھ لیا کرتا تھا ۔ مختار بن ابی عبید ثقفی ہی کو دیکھئے پہلے وہ خارجی تھا پھر عبداللہ بن زبیر کا پیرو بن کر زبیری کہلایا آخر میں کیسانی شیعہ بن گیا اور محمد بن حنفیہ کی دعوت دینے لگا پھر اس دعوت سے اس نے ذاتی مفاد حاصل کیا اور حدیثیں وضع کرنے لگا۔
مختار ثقفی کے بارے میں منقول ہے کہ جب اس نے کوفہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ایک حدیث دان سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر ایک ایسی حدیث وضع کیجئے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میرے بعد ایک خلیفہ ہوگا جو میرے بیٹے (حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا قصاص لے گا۔ اس حدیث کے گھڑنے کے عوض میں آپ کو دس ہزار درہم اور اس کے علاوہ خلعت سواری اور خادم عطا کروں گا اس شخص نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر تو ایسی حدیث وضع نہی کر سکتا البتہ کسی صحابی کے نام سے گھڑلوں گا آپ معاوضہ میں جو کمی کرنا چاہیں کردیں مختار کہنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جو روایت منقول ہوگی اس میں زیادہ تاکید ہوگی اور اس پر عذاب بھی سخت ملے گا۔(الملل النحل ج ۱ص۹۷،نیز اللالی المصنوعہ ج۲ ص۴۶۸)
شیعہ کی ملمع سازی:


شیعہ نے حدیث نبوی کے سلسلہ میں فریب دہی کا ایک طریقہ یہ نکالا کہ اسانید صحیحہ کو جان پہچان کر ان کے ساتھ ایسی حدیثیں وضع کر کے چسپاں کر دیں جو ان کے نظریات کے ساتھ جمیل کھاتی ہیں اس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کیں کہ ان احادیچ کی اسانید صحیح اور درست ہیں ۔مثلاً شیعہ کے دو راوی سدی اور ابن قتیبہ کے نام سے موسوم ہیں اور وہ ان سے روایت کرتے ہیں ،اسماء الرجال سے بے خبر شخص یہ گمان کر سکتا ہے کہ یہ دونوں اہل السنت کے دو مشہور محدث ہیں ،وہ نہیں جا نتا کہ دو شیعہ راوی بھی اسی نام کے ہیں جو حد درجہ کے غالی شیعہ ہیں ۔
محدیثین نے شیعہ کے دجل و فریب کا پردہ چاک کیا اور لوگوں کو حقیقت حال سے روشناس کرایا کہ سدی نام کے دو راوہ ہیں ایک سدی کبیر جو ثقہ راوی ہے اور دوسرا سدی صغیر جو کذاب اور رضاع ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ابن قتیبہ نام کے بھی دو راوی ہیں ایک ابن قتیبہ شیعہ ہے اور دوسرا عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ اہل السبت اور ثقہ راوی ہے اس پر بس نہیں شیعہ نے اباطیل پر مشتمل کتب خود تصنیف کر کے ان کو اہل السنت علماء کی طرف منسوب کر دیا مثلا کتاب سرالعارفین شیعہنے مرتب کی اور اسےامام غزالی کی تصنیف قرار دیا۔
شیعہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علمی معلومات کو ناقابل اعتماد ٹھہرانے کے سلسلہ میں بھی اہم پارٹ ادا کیا ہے اور وہ یوں کہ شیعہ نے اقاویل باطلہ اور نظریات فاسدہ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب منسوب کر دیا اور ان کی تائید میں حدیثیں وضع کرنے سے بھی احتراز نہ کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محدیثین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال وفتاویٰ کو تسلیم نہیں کرتے بجرز ان اقوال کے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل بیت یا اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مثلا عبیدہ سلمانی یا شریح اور ابو وائل سے مروی و منقول ہوں۔(اعلام الموقعین ج۱ص ۱۶)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس جنگ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رفقاء میں ایک فریق نے تحکیم کے فیصلہ کو قبول کر لیا دوسرے انکار پر مصر رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ بھائی بھائی بن کر گئے مگر جب لوٹے تو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔
میرے بھائی اس جملہ کا ایک مرتبہ پھر مراجعہ علمیہ کر لیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جنگ صفین کے بعد ملت اسلامیہ تین فرقوں میں بٹ گئی۔
کیا شیعہ کاتعلق ملت اسلامیہ سے ہی تھا ؟
کیا ابن سبا کی روحانی و معنوی ذریت کا تعلق امت اسلامیہ سے ہو سکتا ہے ؟
ذرا غور کیجیے گا کہ خوارج کون لوگ تھے اور ان کی ابتدائی فکر جن لوگوں کے ہاتھوں جنم لیتی ہے ان لوگوں کا مجوس یا ابن سبا کی روحانی اولاد کے ساتھ کیا تعلق تھا ؟
 
Top