• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث رسولﷺ “اے اللہ معاویہ کو ھادی ومھدی بنا دے” پر وارد باطل اعتراضات کا مدلل رد: (اسد الطحا وی)

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
حدیث رسولﷺ “اے اللہ معاویہ کو ھادی ومھدی بنا دے” پر وارد باطل اعتراضات کا مدلل رد :
(بقلم : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی )​


امام ترمذی اپنی سنن میں روایت نقل کرتے ہیں :
3842- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
(الكتاب: الجامع الكبير - سنن الترمذي)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ ان کو ھادی ومھدی بنا دے،یعنی یہ خود ہدایت یافتہ ہوں اور ان کے سبب لوگ بھی ہدایت پائیں
اس روایت پر دو بنیادی اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں
۱۔ اس روایت کی سند منطقع ہے کیونکہ اس روایت کے بنیادی راوی ؛ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ کی صحابیت ثابت نہیں یا مختلف فیہ ہے
لہذا حدیث مرسل یا منقطع ہے
۲۔ اس روایت کے مرکزی راوی سعید بن عبدالعزیز اختلاط کا شکار ہو گئے
نیز
کبھی یہ روایت سعید بن عبدالعزیز اپنے شیخ ربیعہ بن یزید سے بیان کرتا ہے
اور کبھی يونس بن ميسرة بن حلبس سے بیان کرتا ہے لہذا سند میں اضطراب ہے اور روایت ضعیف ہے شدید
ان اعتراضات کے جوابات ہم بلترتیب پیش کرتے ہیں
اس روایت پر منقطع کی جرح سب سے پہلے امام ابن عبدالبر نے کی تھی جنہوں نے اپنی اس سند سے باقی محدثین کو حیران کر دیا تھا یہ جرح کر کے
امام ابن عبدالبر اس روایت کو نقل کر کے فرماتے ہیں
؛ (1445) عبد الرحمن بن أبي عميرة.
وَقَالَ الوليد بن مسلم: عبد الرحمن ابن عمرة أو عميرة المزني. وقيل عبد الرحمن بن أبي عمير المزني.
وقيل عبد الرحمن بن عمير أو عميرة القرشي، حديثه مضطرب، لا يثبت في الصحابة، وهو شامي. روي عن ربيعة بن يزيد عنه أنه سمع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول ... وذكر معاوية اللَّهمّ اجعله هاديا مهديا، واهده واهد به، ومنهم من يوقف حديثه هذا ولا يرفعه، ولا يصح مرفوعا عندهم
ولید بن مسلم نے کہا (اس روایت کی سند میں ) عبدالرحمن بن عمرہ یا عمیرہ المزنی اور کہا گیا عبد الرحمن بن ابی عمیر المزنی
اور کہا گیا عبدالرحمن بن عمیر یا عمیرہ القرشی
حدیث میں اضطراب ہے اسکی صحابیت ثابت نہیں ہے یہ شامی ہے
ان سے ربیعہ بن یزدی نے بیان کیا کہ انہوں (عبد الرحمن بن ابی عمیرہ)
نے نبی کریم سے سنا کہ وہ معاویہ کے بارے دعا کرتے : اے اللہ ان کو ھادی ومھدی بنا دے
یہ مرفوع صحیح نہیں
الجواب :
امام ابن عبدالبر کی بات دلائل کثیرہ کے سامنے باطل اور فاحش خطاء ہے
جو پہلی علت اپنی طرف سے امام ابن عبدالبر نے کی کہ کبھی ابن عمیر اور کبھی عمیرہ کہا گیا تو یہ کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ سند میں راوی تبدیل ہو گیا ہو
ایسے تو کثیر صحابہ ہیں جنکی کنیت یا لقب میں اختلاف ہے تو عمیر یا عمیرہ کے فرق سے سند پر اعتراض کرنا یہ تو عجیب سی بات کر دی امام ابن عبدالبر نے جس پر انکا رد آگے محدثین سے آئے گا
اور
امام ابن عبدالبر نے بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے یہ کہہ دیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عمیرہ چونکہ وہ شامی ہیں انکی صحابیت ثابت نہیں
اسکے لیےچاہیے تھا کہ امام ابن عبدالبر کو کوئی دلیل دینی چاہیے تھی یا کوئی ایسی سند بیان کرتے جس سے معلوم ہوتا کہ یہ ارسال کرتے ہیں
لیکن دلائل اسکے برعکس ہیں
حضرت عبدالرحمن بن عمیرہ صحابی رسولﷺ ہیں اور سند صحیح سے انہی سے اس روایت میں سماع ثابت خود نقل بھی کیا ہے امام ابن عبدالبر نے اور پھر کہا کہ یہ مرفوع ثابت نہیں اسکی وجہ نہ محدثین کو سمجھ آئی اور نہ ہی مجھے سمجھ آئی
جب صحابی رسول خود کہہ رہے ہیں میں نےرسولﷺ سے سنا تو معاذاللہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں
یا نچلے کسی راوی کا وھم ہے ؟ یہ بات بتانے میں بھی سکوت کیا
اب دلائل پیش کرتےہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عمیرہ صحابی رسولﷺ ہیں اور سند صحیح ہی سے اسی روایت میں سماع بھی ثابت ہے
امام أبو بكر بن أبي عاصم الشيباني (المتوفى: 287هـ)
اپنی تصنیف الآحاد والمثاني میں اس روایت کو اپنی سند صحیح سے بیان کرتےہیں
1129 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، * *نا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُو مُسْهِرٍ* * قَالَا: نا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مُعَاوِيَةَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ
محمد بن عوف (ثقہ ) کہتے ہیں مجھے بیان کیا مروان بن محمد (ثقہ) اور ابو مسھر(ثقہ ثبت ناقد رجال ) نے انہوں نے کہا مجھے بیان کیا سعید بن عبدالعزیز (ثقہ ) نے ربیعہ بن یزید (ثقہ ) سے وہ عبدالرحمن بن ابی عمیرہ (صحابی رسولﷺ) سے وہ کہتے ہیں میں نے سنا نبی کریمﷺ سے
سید نا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ ان کو ھادی ومھدی بنا دے،یعنی یہ خود ہدایت یافتہ ہوں اور ان کے سبب لوگ بھی ہدایت پائیں
(الكتاب: الآحاد والمثاني)
سند صحیح سے سمع کی تصریح کر دی صحابی رسولﷺ حضرت عبد الرحمن بن عمیرہ سے سمع کے الفاظ سے
اب دیگر کتب حدیث سے ثبوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ)
اپنی سند صحیح سے بیان کرتے ہیں
1914 - وَأَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ ح
ابو محمد بن عبداللہ بن محمد بن ناجیہ (ثقہ ثبت ) وہ کہتےہیں مجھے بیان کیا احمد بن ابراہیم الدروقی (ثقہ ثبت ) نے مجھے بیان کیا امام یحییٰ بن معین (ثقہ ثبت نقاد ) نے مجھے حدیث بیان کی ابو مسھر (ثقہ ثبت نقاد ) نے
(نوٹ : یاد رہے یہ روایت امام یحییٰ بن معین بھی بیان کرتے تھے )
اس سند کے بعد ایک اور سند بیان کرتے ہیں
1915 - قَالَ ابْنُ نَاجِيَةَ , وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ الْكَلْوَذَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو لِمُعَاوِيَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ وَلَا تُعَذِّبْهُ»
ابن ناجیہ کہتے ہیں اور مجھے بیان کی محمد بن زرق (ثقہ ) نے مجھے بیان کی روایت ابو مسھر (ثقہ ثبت نقاد) نے انہوں نے سعید بن عبدالعزیز (ثقہ ) نے انہوں نے ربیعہ بن یزید (ثقہ ) سے اور انہوں نے عبدالرحمن بن ابی عمیرہ (صحابی رسولﷺ) سے جو کہ نبی کریمﷺ کے اصحاب میں سے ایک تھے آگے وہی حدیث مبارکہ ہے ۔۔۔۔۔
(الكتاب: الشريعة)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح امام طبرانی اپنی مسند الشاميين میں سند صحیح سے روایت کرتے ہیں
334 - حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، ثنا أَبُو مُسْهِرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِمُعَاوِيَةَ «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ»
اس میں بھی سماعت کی تصریح ہے اور اسی طرح کثیر کتب احادیث میں سماعت کی تصریح کے ساتھ یہ روایت وارد ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو امام ابن عبدالبر کا یہ کہنا کہ عبد الرحمن بن ابی عمیرہ کا سماع نبی کریم سے ثابت نہیں یہ بات انکے سب سے بڑے تسامیحات میں سے ایک ہے اور جو بات انکی دلائل کثیرہ کے برعکس ہے
اب محدثین سے تصریح کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ صحابی رسول ﷺ ہیں
۱۔ امام بخاریؒ
امام بخاری نے اپنی تصنیف التاریخ الکبیر جو سماع و ملاقات کے لیے لکھی تھی راویان کی اس میں یہ روایت نقل کرکے ثابت کیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عمیرہ صحابی رسولﷺ ہیں اور ان سے سماع کیا ہے
791 - عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني ، يعد في الشيامين، قال أبو مسهر حدثنا سعيد بن عبد العزيز عن ربيعة بن يزيد: عن ابن أبي عميرة قال النبي صلى الله عليه وسلم لمعاوية: اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به، وقال عبد الله عن مروان عن سعيد عن ربيعة: سمع عبد الرحمن سمع النبي صلى الله عليه وسلم - مثله.
(تاریخ الکبیر بخاری )
۲۔ امام ابن ابی حاتمؒ
1296 - عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني، له صحبة يعد في الشاميين
عبدالرحمن بن ابی عمیرہ المزنی انہوں نے صحبت (رسولﷺ) پائی ہے
(الجرح والتعدیل )
۳ ۔امام ابن سعد:
3746- عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني.
وكان من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -
حضرت عبدالرحمن یہ اصحاب رسول میں سے تھے
(ابن سعد الطبقات)
۴۔ امام ذھبی
3281- عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني صحابي عنه خالد بن معدان والقاسم أبو عبد الرحمن ت
امام ذھبی فرمتے ہیں عبدالرحمن بن ابی عمیرہ المزنی یہ صحابی رسول ہیں
(الکاشف الذھبی )
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی ، امام سیوطی ، امام ابو نعیم ، امام بغوی اور جمہور محدثین اتفاق سے حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ کو صحابی رسول ﷺ میں شمار کیا ہے
تو اس روایت پر انقطع اور منطقع یا مرسل کی جرح باطل ہے امام ابن عبدالبر کی یہ بات کسی نے قبول نہ کی
******************
دوسرا اعتراض ؛
کہ اس روایت کے مرکزی راوی سعید بن عبدالعزیز اختلاط زدہ راوی ہیں یہ روایت قبل اختلاط ہے یا بعد ؟ یہ بات مبہم ہے
نیز
کبھی یہ روایت سعید بن عبدالعزیز اپنے شیخ ربیعہ بن یزید سے بیان کرتا ہے
اور کبھی يونس بن ميسرة بن حلبس سے بیان کرتا ہے لہذا سند میں اضطراب ہے اور روایت ضعیف ہے شدید
الجواب ؛
امام سعید بن عبدالعزیز سے یہ روایت بیان کرنے والے
شاگرد درج ذیل ہیں
۱۔ امام ابو مسھر (ثقہ ثبت ناقد رجال)
۲۔ مروان بن محمد الدمشقی (ثقہ )
۳۔ الولید بن مسلم (ثقہ)
اس روایت کو امام سعید بن عبدالعزیز کے یہ تینوں شاگرد یہ حدیث بطریق ربیعہ بن یزید ہی سے بیان کرتے ہیں
لیکن ولید بن مسلم کا ایک شاگرد جسکا نام
“زيد بن أبي الزرقاء”
جسکو وھم ہوا وہ یہ روایت اپنے شیخ ولید بن مسلم ثنا سعید بن عبدالعزیز ثنا (ربیعہ بن یزید) کی بجائے “يونس بن ميسرة بن حلبس”
کانام لے لیتا ہے
جبکے یہ راوی ثقہ ہے لیکن اسکو کبھی کبھار وھم ہو جاتا تھا جیسا کہ امام ابن حبان اسکو ثقات میں لا تے ہوئے لکھتے ہیں :
زيد بن أبي الزرقاء الرملي أبو محمد يروي عن سفيان الثوري روى عنه ابنه هارون بن زيد بن أبي الزرقاء الرملي وأهل الشام “يغرب” مات بعد سنة مائتين
زید بن ابی الزرقاء یہ سفیان وغیرہ سے روایت کرتے ہیں ان سے اسکا بیٹا ھارون بن زید یہ اہل شام سے ہے اور غریب (روایتیں ) بیان کرتا تھا
یعنی ایسی سند سے روایت بیان کر دیتا تھا جو اسکے علاوہ کوئی اسکے شیخ سے بیان نہ کرتا تھا
)الثقات بن حبان)
یہ یہ راوی زید بن ابی الرزقاء ایسا واحد راوی ہے جو اپنے شیخ ولید بن مسلم سے سعید بن عبدالعزیز کے طریق سے ربیعہ بن یزید کی بجائے یونس کا نام لے لیا لیکن اسکے علاوہ
ولید بن مسلم (جو کہ سعید بن عبدالعزیز کا تیسراشاگرد ہے )
اس سے اسکا ایک اور شاگرد یہی حدیث ولید بن مسلم سے بطریق سعید حدثنا ربیعہ بن یزید کے نام ہی سے بیان کرتا ہے جو کہ بالکل صحیح اور دوسرے راویان کے موافق ہے
جیسا کہ امام مسلم اپنی مسند میں ولید بن مسلم سے یہ روایت لاتے ہیں ؛
17895 - حدثنا علي بن بحر، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة الأزدي، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ذكر معاوية، وقال: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به
اس سند میں ولید بن مسلم اپنے شیخ سعید بن عبدالعزیز کے طریق سے ربیعہ بن یزید ہی کے طریق سے بیان کرتا ہے
(مسند احمد )
جیسا کہ سعید بن عبدالعزیز کا پہلا شاگرد
ابو مسھر
اور
دوسرا شاگرد مروان بن محمد بیان کرتا ہے سعید بن عبدالعزیز سے ربیعہ بن یزید کے طریق سے
اب آخری اعتراض یہ رہہ گیا کہ :
یہ روایت سعید بن عبدالعزیز کے اختلاط سے قبل ہے یا بعد
تو اس پر ہم امام ابو مسھر جو کہ ناقد رجال ہیں اور خود سعید بن عبدالعزیز کے خاص شاگرد ہیں ان سے تفصیل پیش کرتے ہیں جس سے اس باطل اعتراض کی عمارت بھی زمین بوس ہو جائے گی
امام ابو مسھر ہی یہ جرح بیان کرتے ہیں اپنے شیخ سعید بن عبدالعزیز کے بارے وہ کہتے ہیں :
5377 - سَمِعت يحيى يَقُول قَالَ أَبُو مسْهر كَانَ سعيد بن عبد الْعَزِيز قد اخْتَلَط قبل مَوته وَكَانَ يعرض عَلَيْهِ قبل أَن يَمُوت وَكَانَ يَقُول لَا أجيزها
ابو مسھر کہتے ہیں سعید بن عبدالعزیز اپنی موت سے قبل اختلاط کا شکار ہو گئے تھے(یعنی موت کے بالکل قریب) اور موت واقع ہونے سے پہلےان پر (احادیث) پیش کی جاتی تو وہ اسکی اجازت نہ دیتے تھے
(تاريخ ابن معين (رواية الدوري)
امام امام ابو مسھر بیان کرتے ہیں جب اختلاط جو کہ انکی موت سے کچھ وقت پہلے ظاہر ہوا تو جب ان سے روایات کے لیے حدیث پیش کی جاتی تو وہ انکار کر دیتے تھے اختلاط وقع ہونے کی وجہ سے
تو امام مسھر خود جب اپنے شیخ کے بارے تصریح کر دی ہے انکو اختلاط انکی موت واقع ہونے سے فقط قبل ظاہرہوا تو جب وہ ان سے احادیث بیان کرتے ہیں تو قبل اختلاط سنی ہوئی بیان کرتے ہیں
اس پر اور دلائل مضبوط پیش کرتے ہیں تاکہ مذید اعتراضات کا راستہ ہی بند کر دیا جائے
امام ابوحاتم کہتے ہیں :
حدثنا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول كان أبو مسهر يقدم سعيد بن عبد العزيز على الأوزاعي.
امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ ابو مسھر سعید بن عبدالعزیز کو الاوزاعی پر مقدم یعنی ترجیح دیتے تھے
(الجرح والتعدیل )
اگر امام ابو مسھر جو خود اپنے شیخ پر اختلاط کی جرح بھی کرتے ہیں وہ اپنے اختلاط زدہ شیخ سے سماع قبول اختلاط نہ کیا ہوتا تو وہ امام اوزاعی جیسے ثقہ ثبت امام پر کیسے ترجیح دیتے ؟
اور یہ بھی ثابت ہے کہ امام سعید بن عبدالعزیز الاوزاعی کے فوت ہونے کے دس سال تک زندہ رہے جیسا کہ ابو مسھر بیان کرتا ہے جسکو امام یحییٰ بن معین بیان کرتے ہیں :
سَمِعت يحيى يَقُول قَالَ أَبُو مسْهر بقى سعيد بن عبد الْعَزِيز بعد الْأَوْزَاعِيّ عشر سِنِين قَالَ يحيى قَالَ لي أَبُو مسْهر وَولد فِي زمن الْأَوْزَاعِيّ
ابو مسھر نے کہا کہ سعید بن عبد العزیز، اوزاعی کے بعد دس سال زندہ رہے ۔یحیی نے کہا مجھ سے ابومسھر نے کہا اور اوزاعی کے زمانے میں پیدا ہوا تھا۔
(التاریخ بن معین بروایت الدوری )
اور امام ابو مسھر نے کتنا عرصہ امام سعید بن عبدالعزیز کی صحبت پائی وہ بھی انہوں نے بیان کردیا ہے
چناچہ امام الفسوی اپنی تصنیف المعرفہ التاریخ میں سند صحیح سے بیان کرتے ہیں :
حدثنا عبد الرحمن بن عمرو قال: حدثنا أبو مسهر قال: جلست إلى سعيد بن عبد العزيز بن أبي يحي التنوخي ثنتي عشرة سنة، ومات سنة سبع وستين ومائة.
امام ابو مسھر کہتے ہیں کہ میں امام سعید بن عبدالعزیز کے ساتھ ۱۲ سال بیٹھا (یعنی ۱۲ سالے کے عرصے تک حدیث کا سماع کیا اور صحبت میں رہا )
اوران (سعید بن عبدالعزیز ) کی وفات 167ھ میں ہوئی
(المعرفة والتاريخ)
یعنی ابو مسھر کا سماع سعید بن عبدالعزیز سے 155ھ میں ہو گیا تھا
اور اسکے ۱۲ سال بعد امام سعید بن عبدلعزیز 167ھ میں فوت ہوئے بقول امام ابو مسھر کے
اور یہ روایت امام ابو مسھر ان سے انکی وفات سے 12 سال پہلے سن چکے تھے
تبھی امام ابو مسھر کے علاوہ ولید بن مسلم اور مروان بن محمد نے بھی ان سے قبل اختلاط ہی سماع کیا تھا
ان مضبوط تصریحات کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ یہ قبل اختلاط نہ ہو
اور دوسری بات ہم نے تحقیق کے شروع میں نوٹ کرائی تھی کہ یہ حدیث امام یحییٰ بن معین جیسا قلیل الروایت امام بھی بیان کرتے ہیں ابو مسھر سے
اور امام یحییٰ بن معین جو کئی لاکھ احادیث کے حافظ اور رجال اور علل کے متشدد امام تھے
انکے بارے امام ابن سعد کہتے ہیں :
یحییٰ بن معین :
ویکنی ابا زکریاء وقد کان من کتاب الحدیث وعرف به وکان لا یکاد یحد
امام یحییٰ بن معین سب سے زیادہ لکھنے والے تھے اور کتابت حدیث کے ساتھ مشہور تھے لیکن انکا حدیث بیان کرنا بہت ہی کم ہے
(طبقات ابن سعد ، برقم : 3570)
اس سے معلوم ہوا امام یحییٰ بن معین جو بھی حدیث بیان کرتے ہیں اپنی متشدد اور محتاط طبیعت کی وجہ سے وہ یقینن صحیح حدیث ہی کو بیان کرتے تھے
اسی طرح امام یحییٰ بن معین یہ حدیث ابو مسھر کے طریق سے سعید بن یزید سے باسند ربیعہ بن عزید سے متصل بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث بالکل صحیح تھی انکی نظر میں
کیونکہ امام یحییٰ بن معین امام ابو مسھر کے شاگرد تھے اور ان سے احادیث قبول کرتے بھی تھے اور جال پر بھی اوپر ہم امام یحییٰ بن معین سے ہی قول نقل کر چکے ہیں
اسی طرح امام یحیییٰ بن معین ہی سے ابو مسھر کے طریق ہی سے سعید بن عبدالعزیز کے طریق دے روایات لی ہیں
130 - حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، {فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيْبَةً} [النحل: 97] " قَالَ: «الْقَنَاعَةُ»
199 - حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ قَالَ: «الْمَسَاجِدُ مَجَالِسُ الْكِرَامِ»
(الجزء الثاني من حديث يحيى بن معين الفوائد)
اخر میں ہم امام ابن حجرعسقلانی کا اس روایت کا دفاع اور ابن عبدالبر کا رد پیش کر دیتے ہیں جو وہ اپنی آخری زندگی کےدور میں لکھی گئی کتاب الاصابہ میں فرماتے ہیں :
وهذه الأحاديث وإن كان لا يخلو إسناد منها من مقال فمجموعها يثبت لعبد الرحمن الصحبة. فعجب من قول ابن عبد البر: حديثه منقطع الإسناد مرسل، لا تثبت أحاديثه، ولا تصحّ صحبته.
وتعقبه ابن فتحون، وقال: لا أدري ما هذا، فقد رواه مروان بن محمد الطاطري، وأبو مسهر، كلاهما عن ربيعة بن يزيد- أنه سمع عبد الرحمن بن أبي عميرة أنه سمع رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلّم يقول.
قلت: قد ذكر من أخرج الروايتين، وفات ابن فتحون أن يقول: هب أنّ هذا الحديث الّذي أشار إليه ابن عبد البر ظهرت له فيه علّة الانقطاع، فما يصنع في بقية الأحاديث المصرّحة بسماعه من النبيّ صلى اللَّه عليه وسلّم، فما الّذي يصحّح الصحبة زائدا على هذا؟ مع أنه ليست للحديث الأول علّة الاضطراب، فإن رواته ثقات، فقد رواه الوليد بن مسلم، وعمر بن عبد الواحد، عن سعيد بن عبد العزيز، فخالفا أبا مسهر في شيخه، قالا «1» : عن سعيد عن يونس بن ميسرة، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة. أخرجه ابن شاهين، من طريق محمود بن خالد عنهما. وكذا أخرجه ابن قانع من طريق زيد بن أبي الزرقاء، عن الوليد بن مسلم.
اور یہ حدیث اگر انکی اسناد کسی مقال سے خالی نہیں جیسے کہ انکا مجموعہ مل کر عبد الرحمن بن ابی عمیرہ کے لیے صحابیت ثابت کرتی ہیں
اور امام ابن عبدالبر کے اس قول پر بہت تعجب ہے جو انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اور عبدالرحمن کی صحابیت ثابت نہیں
اور تعقب کیا ہےامام ابن فتحون نے امام ابن عبدالبر کا یہ کہہ کہ
مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا بات کی ہے (ابن عبدالبر نے )
تحقیق کے ساتھ روایت کیا ہے مروان بن محمد اور ابو مسھر نے اس حدیث کو ربیعہ بن یزید کے طریق سے
اسکے بعد امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں
قلت : یعنی میں کہتاہوں
تحقیق کے ساتھ ذکر کیا ہے ان روایات کو درج کرکے امام ابن فتحون نے کہا ہے کہ اس روایت پر جو اشارہ کیا ہے منطقع ہونے کا اامام ابن عبدالبر نے لیکن اسکے علاوہ اور کوئی اعتراض وارد نہ کیا ابن عبدالبر نے
جیسا کہ اور روایات میں سماع کی تصریح ہے نبی کریمﷺ سے اور جو انکی سماع کی تصحیح کرتے ہیں وہ کون لوگ ہیں ؟ (جنکو امام ابن عبدالبر نے نظر انداز کیا )
پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں اضطراب کی علت ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اس روایت کے تمام رواتہ ثقہ ہیں
اورولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے سعید سے اور انہوں نے مخالفت کی ہے جو ربیعہ کی بجائے یونس سے بیان کرتے ہیں
جسکو زید بن ابی زرقاؑء (صاحب غریب ) سے
(الإصابة في تمييز الصحابة)
خلاصہ تحقیق:
حضرت عبد الرحمٰن بن ابو عمیرہ کی صحابیت کثیر اسناد سے ثابت ہے جس میں سمع کی تصریح ہے
اور ابو مسھر کا سماع سعید بن عبدالعزیز سے ۱۲ سال پر محیط ہے انکی وفات سے پہلے
انکی تصریح کے مطابق
اور تین شیوخ اسکو صحیح طریق سے بیان کرتے ہیں
ولید بن مسلم سے اسکا نچلا شاگرد اسکو یونس کے طریق سے بیان کرنے میں خطاء کی ہے
جس میں سعید بن عبدالعزیز کا کوئی قصور نہیں جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی کا کلام گزر چکا ہے
تو اس روایت پر بنیادی دو اعتراضات باطل ثابت ہوئے
تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی 4 اپریل 2020
 
Top