• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث رسول ﷺ کتاب اللہ ہے اور اس کا انکار کفر ہے!!!

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
أن عبد الله بن عمرو بن العاص يحدث أنه سيكون ملك من قحطان
ترجمہ داؤد راز
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔
جب یہ حدیث عبداللہ بن عمرو بیان کریں تو یہ حدیث رسولﷺ نہیں اور جب یہ حدیث ابو ھریرہ بیان کریں تو حدیث رسولﷺ
اصل بات یہ ہے کہ اس بادشاہ کا ایک نظریہ تھا کہ جو اس کے مفادات سے ٹکرائے ایسے حدیث رسولﷺ نہیں مانا جائے اس لئے اس حدیث سے انکار کیا گیا اور ایک اور حدیث اس کے مقابلے پر فوری طور سے پیش کردی گئی کہ
یہ خلافت قریش میں رہے گی
اگر یہ حدیث رسولﷺ ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی تقریر میں حضرت ابو بکر ضرور اس حدیث کی دلیل دیتے لیکن حضرت ابو بکر نے قریش کےخلافت کے حق پر اعلیٰ نسب ہونے کی دلیل دی
پھریہ کوئی ایک بار نہیں ہوا کہ اس بادشاہ نے اپنے مفادات سے ٹکراتی ہوئی حدیث رسولﷺ کا انکار کیا ہو بلکہ اس طرح کا ایک قصہ تو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بھی بیان کیا ہے کچھ اس طرح کہ
غزوْنا غزاةً . وعلى الناسِ معاويةُ . فغنِمْنا غنائمَ كثيرةً . فكان ، فيما غنِمْنا ، آنيةً من فضةٍ . فأمر معاويةُ رجلًا أن يبيعَها في أُعطياتِ الناسِ . فتسارع الناسُ في ذلك . فبلغ عبادةَ بن َالصامتِ فقام فقال : إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهى عن بيعِ الذهبِ بالذهبِ والفضةِ بالفضةِ والبُرِّ بالبُرِّ والشعيرِ بالشعيرِ والتمرِ بالتمرِ والملحِ بالملحِ إلا سواءً بسواءٍ . عينًا بعينٍ . فمن زاد أو ازداد فقد أرْبى . فردَّ الناسُ ما أخذوا . فبلغ ذلك معاويةَ فقام خطيبًا فقال : ألا ما بالُ رجالٍ يتحدَّثون عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أحاديثَ . قد كنا نشهدُه ونصحبُه فلم نسمعْها منه . فقام عبادةُ بنُ الصامتِ فأعاد القصةَ . ثم قال : لنحدّثنَّ بما سمعْنا من رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليه وسلَّمَ وإن كره معاويةُ ( أو قال : وإن رغِمَ ) . ما أُبالي أن لا أصحبَه في جُندِه ليلةً سوداءَ . قال حماد : هذا أو نحوه .
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1587
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ہم معاویہ کے ساتھ مل کر ایک جنگ لڑی تو ہمیں بہت ذیادہ غنیمتیں حاصل ہوئی اورہماری غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے معاویہ نے ایک آدمی کو انھیں بیچنے کا حکم دیا لوگوں کی تنخواہوں میں لوگوں نے اس کو خریدنے میں جلدی کی یہ بات حضرت عبادہ بن صامت کو پہنچی تو آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ" میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ سونے کی سونے کے ساتھ چاندی کی چاندی کے ساتھ کھجورکی کھجور کے ساتھ اور نمک کی نمک کے ساتھ برا بر برابر اور نقد بہ نقد کے علاوہ بیع کرنے سے منع فرماتے تھے جس نے ذیادہ دیا یا ذیادہ لیا تو اس نے سود کا کام کیا تو لوگوں نے لیا ہوا مال واپس کردیا یہ بات جب معاویہ کو پہنچی تو کھڑے ہوکر کہا " ان لوگوں (یعنی عبادہ بن صامت) کا کیا حال ہے جو رسول اللہﷺ سے احادیث روایت کرتے ہیں حالانکہ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے اس بارے رسول اللہﷺ سے نہیں سنا اس پر عبادہ بن صامت کھڑے ہوئے اور پھر اس حدیث رسولﷺ کو دھرایا اور فرمایا ہم نے وہی بیان کیا جو رسول اللہﷺ سے سماعت کیا اگرچہ اس سے معاویہ کو برا ہی کیوں نہ لگے یا معاویہ کی ناک خاک آلود ہو ، مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں اس کےلشکر میں تاریک رات میں اس کے ساتھ نہ رہوں ،حماد نے ایسا ہی کہا
ایسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ اس طرح بیان کیا ہے
كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية
ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: 'کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟' اس پر عبادہ نے جواب دیا: 'اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے'۔
مصنف ابن ابی شیبہ، جلد7، صفحہ 510-511؛ طبع قاہرہ
امید ہے اب آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی کہ اس روایت میں عبادہ بن صامت کی بیان کی گئی حدیث رسول ﷺ ہی سے انکار کیا گیا ہے اب یہاں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
حضرت عبادہ بن صامت نے اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہی نہیں ۔ لہذا معاویہ کا ان کی بات کا انکار کرنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیسے ہوسکتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اصل بات یہ ہے کہ اس بادشاہ کا ایک نظریہ تھا کہ جو اس کے مفادات سے ٹکرائے ایسے حدیث رسولﷺ نہیں مانا جائے اس لئے اس حدیث سے انکار کیا گیا اور ایک اور حدیث اس کے مقابلے پر فوری طور سے پیش کردی گئی کہ
یہ خلافت قریش میں رہے گی
اگر یہ حدیث رسولﷺ ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی تقریر میں حضرت ابو بکر ضرور اس حدیث کی دلیل دیتے لیکن حضرت ابو بکر نے قریش کےخلافت کے حق پر اعلیٰ نسب ہونے کی دلیل دی
یہ بادشاہ تو روافض کے دلوں پر بے شک رہتی دنیا تک مونگ دلتا ہی رہے گا۔ اور شاید مقدر ہی آپ کا ایسا لکھ دیا گیا ہے کہ دلوں میں بغض و نفرت کا طوفان چھپائے اس دنیا میں آتے جائیں اور اپنے ہی حسد کی آگ سے جلتے مرتے جائیں۔ اُن عظیم ہستیوں کو صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی سعادت اور نعمت کبریٰ بھی ملی، ان کے ایمان کی بھی ہمارے والے قرآن نے گواہی دے دی، اور اب جبکہ وہ اس دنیا سے جا چکے تو ان کے اربوں کھربوں چاہنے والے، ان سے محبت کرنے والے اور ان جیسا ایمان لانے والے اپنے دلوں میں ان کی محبت کی شمعیں جلاتے رہے ہیں اور رہتی دنیا تک جلاتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔

لہٰذا آپ کی یہ چاند پر تھوکنے کی کوششیں دیکھ کر ہم فقط مسکرا سکتے ہیں۔

آپ کا یہ فرمانا کہ:

اگر یہ حدیث رسولﷺ ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی تقریر میں حضرت ابو بکر ضرور اس حدیث کی دلیل دیتے
غالباً صحت حدیث کو جانچنے کا کوئی نیا شیعی پیمانہ ہے۔ کسی حدیث کو کسی موقعے پر پیش نہ کرنا، اس کے گھڑنے کی دلیل ہے، بہت خوب۔
کیا خیال ہے رافضیوں کے قرآن پر بھی اس کی تطبیق دے کر دیکھیں؟ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ "اپنا" قرآن لے کر واپس چلے گئے تھے کہ اب تم اس کی شکل تک نہ دیکھ سکو گے؟

ہم تو نسخ کے بھی قائل ہیں، بعض صحیح احادیث میں بظاہر تعارض ہو اور دونوں پر بیک وقت عمل ممکن نہ ہو تو تطبیق اور ترجیح کے بھی قائل ہیں۔ لہٰذا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا کسی دوسرے صحابی کی حدیث کا انکار کرنا، اس کے ثبوت کا انکار کرنا ہے نہ کہ خود حدیث کا۔ کیونکہ انہیں وہ خود سنی ہوئی حدیث کے متعارض معلوم ہو رہی تھی۔ یہاں تو آپ کسی ایک حدیث کے ثبوت کے انکار کو انکار حدیث قرار دیتے ہیں۔ اب ذرا یہ بھی ملاحظہ کیجئے:

"اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ مکمل قرآن جمع کیا ہے، سوائے حضرت علی کے اور دوسرے ائمہ کے کسی نے نازل کیا گیا مکمل (قرآن) جمع اور حفظ نہیں کیا۔ (اصول کافی، کتاب الحجۃ)

یہ ہوتا ہے انکار قرآن۔ اگر آپ اسے انکار قرآن نہیں مانتے اور اس کی لچر تاویلات اور بے ہودہ تشریحات کے ذریعے کلینی یا اپنے امام باقر کو عقیدہ تحریف قرآن سے بری الذمہ قرار دلوا لیتے ہیں، تو اس سے بہت کم درجہ کی جائز تاویل سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی آپ کے لگائے گئے الزام سے بری قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہے کہ نہیں؟

پھریہ کوئی ایک بار نہیں ہوا کہ اس بادشاہ نے اپنے مفادات سے ٹکراتی ہوئی حدیث رسولﷺ کا انکار کیا ہو بلکہ اس طرح کا ایک قصہ تو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بھی بیان کیا ہے کچھ اس طرح کہ
ایک ہی واقعہ کے مکرر بیانات کو کئی واقعات باور کروانا، روافض کی دیانت کا عمدہ نمونہ ہے۔
اور ذرا آپ اپنے گریبان میں بھی جھانکتے چلیں کہ بار بار بلکہ متواتر روایات سے تحریف قرآن کا ثبوت آپ کی کتب میں موجود ہے، مثلاً
"ہمارے علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن میں تبدیلی و تغیر پر دلالت کرنے والی احادیث صحیح اور متواتر ہیں۔ (فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب : ص 30)

اور اپنے علماء کے اتفاق، صحیح بلکہ متواتر روایات کی موجودگی کے باوجود جب آپ تحریف قرآن کے عقیدہ سے انکار کرتے ہیں، تو ایک لمحہ کو بھی کبھی سوچا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا کرنے، ان کو سب و شتم کرنے کے لئے آپ کس طرح سے رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، اور اس کے مقابلے میں کئی سو گنا اپنے قبیح ترین عقیدہ سے، کئی گنا زیادہ زیادہ اور پختہ دلائل میسر ہونے کے باوجود کیسے اس سے براءت کا اظہار کرتے ہیں؟ کیا منافقت اور دوغلے پن کی اس سے بھی بڑی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
أن عبد الله بن عمرو بن العاص يحدث أنه سيكون ملك من قحطان
ترجمہ داؤد راز
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔
کسی چیز سے لا علم ہونا یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اپنی جہالت کے باوصف علمی مباحث میں دوسروں سے ٹکرانا یہ بہت بڑی مصیبت ہے ۔اس سے قبل حافظ ابن حجر اور علامہ عینی جیسے علما سے نقل کیا جاچکا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی ۔ اب ان علماء کی تردید صرف اپنے ذوق فاسد کی بنا پر تو نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے لیے قوی دلیل ہونی چاہیے جس میں حضرت عبداللہ سے یہ روایت مرفوعا ثابت ہو ۔
ذوق فاسد اس لیے کہا کہ ’’ تحدیث ‘‘ کا لفظ کہیں بھی حدیث کے مرفوع ہونے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس کا معنی تو مجرد ’’ بیان کرنا ‘‘ ہے ۔ چاہے وہ مرفوع حدیث ہو ، موقوف ہو ، مقطوع ۔۔۔ حتی کہ یہ لفظ ’’ تحدیث ‘‘ صرف احادیث کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ کے لیے بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے ۔ لہذا صرف ’’ صیغہ تحدیث ‘‘ کو حدیث کے مرفوع ہونے پر دلیل بنانا اور پھر اس پر اصرار کرنا جہل مرکب کا شاخسانہ ہے ۔
جب یہ حدیث عبداللہ بن عمرو بیان کریں تو یہ حدیث رسولﷺ نہیں اور جب یہ حدیث ابو ھریرہ بیان کریں تو حدیث رسولﷺ
کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی نسبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے ۔ جبکہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نہیں کی ۔ اس سے حیرانی کس بات پر ہے ؟
ایک ہی مفہوم و معنی بعض دفعہ مرفوع بھی ہوتا ہے موقوف بھی ۔ لیکن جس شخص کو اس کے مرفوع ہونے کا علم نہیں وہ( کسی دوسری مرفوع روایت کی بنیاد پر ) اس موقوف کو نہ مانے تو اس کو انکار حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینا صحابہ دشمنی کا بین ثبوت ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس بادشاہ کا ایک نظریہ تھا کہ جو اس کے مفادات سے ٹکرائے ایسے حدیث رسولﷺ نہیں مانا جائے اس لئے اس حدیث سے انکار کیا گیا اور ایک اور حدیث اس کے مقابلے پر فوری طور سے پیش کردی گئی کہ
یہ خلافت قریش میں رہے گی
اگر یہ حدیث رسولﷺ ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنی تقریر میں حضرت ابو بکر ضرور اس حدیث کی دلیل دیتے لیکن حضرت ابو بکر نے قریش کےخلافت کے حق پر اعلیٰ نسب ہونے کی دلیل دی
آپ کی یہ اصل تو نقل سے بھی گئی گزری ہے ۔ اگر کسی چیز کو کسی کا نظریہ قرار دینے کا یہی پیمانہ ہے تو پھر شیعہ حضرات کا اپنے من پسند عقل ونقل سے بالا تر اصولوں سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کرنا انکار حدیث کیوں نہیں کہلاتا ؟
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو صحابی تھے ، کاتب وحی تھے ، فقہاء صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے علم و فضل کی بنیاد پر کسی حدیث کی نسبت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں سمجھا تو یہ بات سمجھ آنے والی ہے ۔
لیکن ایک ایسا شخص اٹھ کر جس کو لفظ حدیث اور تحدیث کا معنی ہی معلوم نہیں کس بنیاد پر حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( الأئمۃ من قریش ) کا انکار کرنے کی جرأت کرتا ہے ؟
اگر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے ہم عصر چند صحابہ سے اختلاف کرنے کی وجہ سے اس قدر بھی حق نہیں رکھتے تو پھر شیعہ رافضیوں کویہ حق کس نے دیا جبکہ وہ جمیع صحابہ کرام سے اختلاف نہیں بلکہ عداوت رکھتے ہیں ۔ ؟
پھریہ کوئی ایک بار نہیں ہوا کہ اس بادشاہ نے اپنے مفادات سے ٹکراتی ہوئی حدیث رسولﷺ کا انکار کیا ہو بلکہ اس طرح کا ایک قصہ تو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بھی بیان کیا ہے کچھ اس طرح کہ
غزوْنا غزاةً . وعلى الناسِ معاويةُ . فغنِمْنا غنائمَ كثيرةً . فكان ، فيما غنِمْنا ، آنيةً من فضةٍ . فأمر معاويةُ رجلًا أن يبيعَها في أُعطياتِ الناسِ . فتسارع الناسُ في ذلك . فبلغ عبادةَ بن َالصامتِ فقام فقال : إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ينهى عن بيعِ الذهبِ بالذهبِ والفضةِ بالفضةِ والبُرِّ بالبُرِّ والشعيرِ بالشعيرِ والتمرِ بالتمرِ والملحِ بالملحِ إلا سواءً بسواءٍ . عينًا بعينٍ . فمن زاد أو ازداد فقد أرْبى . فردَّ الناسُ ما أخذوا . فبلغ ذلك معاويةَ فقام خطيبًا فقال : ألا ما بالُ رجالٍ يتحدَّثون عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أحاديثَ . قد كنا نشهدُه ونصحبُه فلم نسمعْها منه . فقام عبادةُ بنُ الصامتِ فأعاد القصةَ . ثم قال : لنحدّثنَّ بما سمعْنا من رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليه وسلَّمَ وإن كره معاويةُ ( أو قال : وإن رغِمَ ) . ما أُبالي أن لا أصحبَه في جُندِه ليلةً سوداءَ . قال حماد : هذا أو نحوه .
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1587
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ہم معاویہ کے ساتھ مل کر ایک جنگ لڑی تو ہمیں بہت ذیادہ غنیمتیں حاصل ہوئی اورہماری غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے معاویہ نے ایک آدمی کو انھیں بیچنے کا حکم دیا لوگوں کی تنخواہوں میں لوگوں نے اس کو خریدنے میں جلدی کی یہ بات حضرت عبادہ بن صامت کو پہنچی تو آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ" میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ سونے کی سونے کے ساتھ چاندی کی چاندی کے ساتھ کھجورکی کھجور کے ساتھ اور نمک کی نمک کے ساتھ برا بر برابر اور نقد بہ نقد کے علاوہ بیع کرنے سے منع فرماتے تھے جس نے ذیادہ دیا یا ذیادہ لیا تو اس نے سود کا کام کیا تو لوگوں نے لیا ہوا مال واپس کردیا یہ بات جب معاویہ کو پہنچی تو کھڑے ہوکر کہا " ان لوگوں (یعنی عبادہ بن صامت) کا کیا حال ہے جو رسول اللہﷺ سے احادیث روایت کرتے ہیں حالانکہ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے اس بارے رسول اللہﷺ سے نہیں سنا اس پر عبادہ بن صامت کھڑے ہوئے اور پھر اس حدیث رسولﷺ کو دھرایا اور فرمایا ہم نے وہی بیان کیا جو رسول اللہﷺ سے سماعت کیا اگرچہ اس سے معاویہ کو برا ہی کیوں نہ لگے یا معاویہ کی ناک خاک آلود ہو ، مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں اس کےلشکر میں تاریک رات میں اس کے ساتھ نہ رہوں ،حماد نے ایسا ہی کہا
ایسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ اس طرح بیان کیا ہے
كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية
ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: 'کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟' اس پر عبادہ نے جواب دیا: 'اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے'۔
مصنف ابن ابی شیبہ، جلد7، صفحہ 510-511؛ طبع قاہرہ
یہاں بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں ہے بلکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ۔ اور کذب سے مراد یہاں خطا ہے ۔ ( کما ہو شائع ذائع في لغة أهل الحجاز )گویا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرنے میں غلطی لگی ہے ۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتے رہے ہیں ان سے احادیث سنتے رہے ہیں ہم نے ایسی کوئی بات نہیں سنی ۔
دراصل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان چند صحابہ کرام میں سے ہیں جن کے نزدیک ربا الفضل منع نہیں تھا صرف ربا النسیئۃ ان کے نزدیک ممنوع تھا ۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ انہیں ربا الفضل والی احادیث نہیں ملیں ۔ یہی مسئلہ حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا تھا ۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

إن ابن عباس ومعاوية وغيرهما رخصوا في الدرهم بالدرهمين وكانوا متأولين أن الربا لا يحرم إلا في النساء؛ لا في اليد باليد ...
وليس لأحد أن يتبع زلات العلماء كما ليس له أن يتكلم في أهل العلم والإيمان إلا بما هم له أهل؛ فإن الله تعالى عفا للمؤمنين عما أخطئوا كما قال تعالى: {ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا} (البقرة:286)، قال الله: «قد فعلت» (1)، وأمرنا أن نتبع ما أنزل إلينا من ربنا ولا نتبع من دونه أولياء وأمرنا أن لا نطيع مخلوقا في معصية الخالق ونستغفر لإخواننا الذين سبقونا بالإيمان؛ فنقول: {ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان} الآية (الحشر:10).
وهذا أمر واجب على المسلمين في كل ما كان يشبه هذا من الأمور.
ونعظم أمره تعالى بالطاعة لله ورسوله؛ ونرعى حقوق المسلمين؛ لا سيما أهل العلم منهم كما أمر الله ورسوله.
ومن عدل عن هذه الطريق فقد عدل عن اتباع الحجة إلى اتباع الهوى في التقليد وآذى المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا: فهو من الظالمين. ومن عظم حرمات الله وأحسن إلى عباد الله كان من أولياء الله المتقين ( مجموع الفتاوى (32/ 238)


اور صحابہ کے اس آپسی اختلاف کو انکار حدیث پر منتج کرنا یہ صرف عداوت صحابہ کا ایک اظہار ہے ورنہ شروع سے لے کر آج تک یہ فقہی و غیر فقہی اختلافات نقل در نقل چل رہے ہیں راجح و مرجوع کی بحثیں تو موجود ہیں لیکن کسی نے بھی اس کو ’’ انکار حدیث ‘‘ کا نام نہیں دیا ۔
اور اگر یہی انکار حدیث ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کئی مسائل میں دیگر صحابہ کرام سے اختلاف کیا ہے تو کیا ان کے اس اختلاف کو مخالفت حدیث پر محمول کیا جائے گا ؟
علامہ شوکانی کی نیل الأوطار میں ہے :
عن علي - عليه السلام - حين سمعه: لا تزيدوا في الأذان ما ليس منه ثم قال بعد أن ذكر حديث أبي محذورة وبلال قلنا: لو كان لما أنكره علي وابن عمر وطاوس سلمنا فأمرنا به إشعارا في حال لا شرعا جمعا بين الآثار انتهى.
وأقول: قد عرفت مما سلف رفعه إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - والأمر به على جهة العموم من دون تخصيص بوقت دون وقت وابن عمر لم ينكر مطلق التثويب بل أنكره في صلاة الظهر ورواية الإنكار عن علي - عليه السلام - بعد صحتها لا تقدح في مروي غيره، لأن المثبت أولى ومن علم حجة، والتثويب زيادة ثابتة فالقول بها لازم. ( نيل الأوطار ج 2 ص 46 )

اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ :
اذان میں تثویب ( الصلاۃ خیر من النوم کہنا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کا انکار کرتے ہوئے اس کو بدعت قرار دیتے تھے ۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہیں ہوسکا ۔ لہذا جسے علم ہے اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی اس کی بات پر جس کو علم نہیں ۔
لیکن اس بات کو بنیاد بنا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو '' منکر حدیث '' کہنا یہ مریض ذہن کی نشانی ہے ۔
امید ہے اب آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی کہ اس روایت میں عبادہ بن صامت کی بیان کی گئی حدیث رسول ﷺ ہی سے انکار کیا گیا ہے اب یہاں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
ایک روایت ہماری طرف سے بھی سنیں ( تسلی کی امید بالکل نہیں ہے ) :
حافظ ابن عساکر اپنی سند کے ساتھ تاریخ دمشق میں بیان کرتے ہیں :
أنبأنا أبو علي الحداد أنا أبو نعيم الحافظ نا سليمان بن أحمد الطبراني نا موسى بن هارون الحمال نا إسحاق بن راهوية نا أبو أسامة (1) نا أبو سنان عيسى بن سنان عن يعلى بن شداد قال ذكر معاوية الفرار من الطاعون في خطبته فقال عبادة أمك هند أعلم منك فأتم خطبته ثم صلى ثم أرسل إلى عبادة فنفذت رجال الأنصار معه فاحتسبهم ودخل عبادة فقال له معاوية ألم تتق الله وتستحيى من إمامك فقال عبادة أليس قد علمت أني بايعت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ليلة العقبة أني لا أخاف في الله لومة لائم ثم خرج معاوية عند العصر فصلى العصر ثم أخذ بقائمة المنبر فقال أيها الناس إني ذكرت لكم حديثا على المنبر فدخلت البيت فإذا الحديث كما حدثني عبادة فاقتسموا منه ۔ ( تاريخ دمشق ج 26 ص 195 )
اس حکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اسی صحابی حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک خطبہ کے اندر لغزش کی طرف نشاندہی کی تو حضرات معاویہ رضی اللہ عنہ گھر جاکر جب دیکھا تو حضرت عبادۃ بن صامت کی بات کو درست پایا چنانچہ عصر کے وقت تشریف لائے اور بر سر منبر اعلان کیا کہ لوگو !
میری بیان کردہ بات کے مقابلے میں عبادۃ کی بات درست ہے لہذا تم ان سے علم حاصل کرو ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق جب بادشاہ وقت نے عبادہ بن صامت کی رسول اللہﷺ کی حدیث کو نہ مانا یا انکار کیا تو عبادہ بن صامت نے نے ارشاد فرمایا
" ہم نے وہی بیان کیا جو رسول اللہﷺ سے سماعت کیا اگرچہ اس سے معاویہ کو برا ہی کیوں نہ لگے "

یعنی اس حدیث کے بیان کرنے پر بادشاہ کے ناراض ہونے کا کیا مطلب نکلتا ہے؟

اور اس کے بعد دو عربی محارے بھی ارشاد فرمائے

1- وإن رغِمَ
ما أُبالي أن لا أصحبَه في جُندِه ليلةً سوداءَ .

لغة أهل الحجاز میں یہ محارے کس موقع پر استعمال کئے جاتے اور ان کا معنی کیا بنتا ہے اگر یہ بھی ارشاد فرمادیں تو ہم کم علموں کے علم میں اضافہ ہو شکریہ
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
بعض بھائی کہتے ہیں کہ لہجہ درست ہونا چاہیے بعض کہتے ہیں کہ اکاونٹ بین نہیں کرنا ۔ اس رافضی کا بغض بھی واضح ہے تو پھر یہ حل ہو سکتا ہے کہ اس سے بات نہ کی جائے ورنہ اس ساری بات کا کیا مقصد ہے جبکہ اس کا مقصد ہی سمجھنا نہیں بلکہ تنقید و تنقیص ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق جب بادشاہ وقت نے عبادہ بن صامت کی رسول اللہﷺ کی حدیث کو نہ مانا یا انکار کیا تو عبادہ بن صامت نے نے ارشاد فرمایا
" ہم نے وہی بیان کیا جو رسول اللہﷺ سے سماعت کیا اگرچہ اس سے معاویہ کو برا ہی کیوں نہ لگے "
یعنی اس حدیث کے بیان کرنے پر بادشاہ کے ناراض ہونے کا کیا مطلب نکلتا ہے؟
اور اس کے بعد دو عربی محارے بھی ارشاد فرمائے
1- وإن رغِمَ
ما أُبالي أن لا أصحبَه في جُندِه ليلةً سوداءَ .
لغة أهل الحجاز میں یہ محارے کس موقع پر استعمال کئے جاتے اور ان کا معنی کیا بنتا ہے اگر یہ بھی ارشاد فرمادیں تو ہم کم علموں کے علم میں اضافہ ہو شکریہ
کسی حدیث کے بارے میں یہ اختلاف ہو جانا کہ یہ حدیث رسول ہے کہ نہیں ؟ یہ اختلاف صحابہ کے دور سے لیے کر آج تک چلا آرہا ہے ۔ اس کو کسی نے بھی انکار حدیث کا نام نہیں دیا ۔
یہ صرف آپ کا کمال بروزن ضلال ہے ۔
اور پھر اختلاف کی صورت میں بعض دفعہ لہجے میں شدت آجانا ہے یہ طبعی اور فطری امر ہے ۔ لیکن بعد والوں کے لیے جائز نہیں کہ اس طرح کی باتیں لے کر '' حقد دفین '' کو باہر نکالنے کے بہانے ڈھونڈتے رہیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کسی حدیث کے بارے میں یہ اختلاف ہو جانا کہ یہ حدیث رسول ہے کہ نہیں ؟ یہ اختلاف صحابہ کے دور سے لیے کر آج تک چلا آرہا ہے ۔ اس کو کسی نے بھی انکار حدیث کا نام نہیں دیا ۔
یہ صرف آپ کا کمال بروزن ضلال ہے ۔
یعنی صحابہ دور میں جب صحابی کوئی حدیث رسول ﷺ بیان کرتے تو اس میں اختلاف کیا جاتا لیکن اس کو انکار حدیث کا نام نہیں دیا جاتا لیکن ایک بات تو ہے کہ صحابی کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین بھی نہیں کیا جاتا تھا اب ایسے کیا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ منکر حدیث بھی ہر ہر حدیث رسول ﷺ جو صحابہ نے بیان کی اس پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کرتے
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کا فلسفہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن آج کے دور میں یہ فرق آگیا ہے کہ حدیث کے تمام راویوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے لیکن جب بات کسی صحابی تک آتی ہے تو کہا جاتا ہے صحابہ کلھم عدول لیکن صحابہ کے دور میں یہ نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کے قول کے مطابق اگر کوئی صحابی کوئی حدیث رسول ﷺ بیان کرتے تو اس میں اختلاف کیا جاتا تھا
آپ کا اقتباس کے آخری جملے کو میں در گزر کرتا ہوں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اور پھر اختلاف کی صورت میں بعض دفعہ لہجے میں شدت آجانا ہے یہ طبعی اور فطری امر ہے ۔ لیکن بعد والوں کے لیے جائز نہیں کہ اس طرح کی باتیں لے کر '' حقد دفین '' کو باہر نکالنے کے بہانے ڈھونڈتے رہیں ۔
یہی لہجے کی شدت اب بھی آجاتی ہے جب کوئی منکر حدیث کسی صحابی کی بیان کی ہوئی حدیث کو حدیث رسولﷺ ماننے سے انکار کرتا ہے یہ ایک عام سا مشاہدہ ہے جو آپ نے بھی ملاحظہ فرمایا ہوگا
لیکن بعد والوں کے لئے یہ جائز نہیں لیکن بعد والے تو اس سے بھی ذیادہ شدت اختیار کرتے ہیں کہ صحابہ کی بیان کی ہوئی حدیث رسولﷺ کو جو نہ مانے اس پر منکر حدیث اور کفر تک کے فتوے لگا دئیے جاتے ہیں
اگر بعد والوں سے آپ کی مراد اس دور کے لوگ صحابہ کے دور میں کیئے گئے انکار حدیث پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے تو اس پر دلیل چاہئے قرآن حدیث سے نہ کہ اقوال امام سے
 
Top