• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سبعۃ أحرف اور اس کا مفہوم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارے ہاں سبعۃ أحرف کا کُل موجود ہے یا بعض؟
قرآن مجید کے آغاز سے انتہاء تک مختلف احکامات نازل ہوتے رہے اورکچھ منسوخ کئے جاتے رہے اسی طرح عرضۂ اخیرمیں غیر فصیح وجوہ کو منسوخ کیا گیا اور صرف فصیح وجوہ کوباقی رکھا گیا ۔جیسے کچھ قبائل حَتّٰی کو عَتّٰی اور تَعْلَمُوْنَ کو تِعْلَمُوْنَ پڑھتے تھے ۔
مزید وضاحت
سبعۃ أحرف کا کل موجود یا بعض اس بارہ میں علماء دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ سبعہ احرف کا کل موجود ہے اور بعض کہتے ہیں کہ سبعہ احرف کا کل موجود نہیں بلکہ بعض ہے۔
ان دونوں باتوں میں بظاہر تضاد وتناقض کی شکل نظر آرہی ہے لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں۔ اس بات کو اگر اسی طرح سمجھ لیا جائے تو تضاد اور اشکال حل ہو جاتا ہے کہ سبعہ احرف سے مراد سبعہ اوجہ یا سبعہ لغات یا سبعہ قراء ات ہیں تو کوئی شک نہیں کہ یہ سبعہ لغات یا اوجہ یا قراء ات اب بھی ساتوں کی ساتوں قر آن میں موجود ہیں۔ البتہ ساتوں انواع میں سے ہر نوع کے تحت واقع ہونے والا جمیع اختلاف اس وقت موجود نہیں، وجہ واضح ہے کہ بہت سارا اختلاف عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکاہے ۔ اس لحاظ سے سبعہ احر ف کا بعض موجود ہے۔
چنانچہ ایک لحاظ سے سبعۃ أحرف کل موجود ہے اور ایک لحاظ سے بعض۔
سبعہ احرف میں اصلاً سات طرح کا تغیر فی الکلمات مراد ہے یہ اصل اب بھی ساتوں شکلوں میں موجود ہے۔ البتہ ہر وجہ نوع کے تحت آنے والا مکمل اختلاف اب معمول بہا نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا اِجازت نبوی کے بغیر صحابہ قرآن میں لغات استعمال کرتے تھے ؟
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جب اہل عرب کو ان کی لغات پر قرآن پڑھنے کی اجازت مل گئی تو ہر وہ شخص جو قرآن پڑھتا اپنی مرضی سے جس طرح چاہتا وہ تلفظ او ر ادا اختیار کرلیتا۔
وضاحت
اس بات میں عموم نہیں تھا ۔بلکہ جید صحابہ کرام حتی کہ تمام قبائل کے لوگ تلفظ میں اتنا اختیار رکھتے تھے جتنا نبیﷺنے ان کو دیا ہوتا اورنبیﷺبھی اتنا اختیار رکھتے تھے جتنا اللہ نے ان کو دیا تھا آگے چل کر ان شاء اللہ اس پڑ بھی بحث کریں گے کہ قراء ات میں اختیارات صرف اللہ کی طرف ہوتے تھے آپﷺاپنی مرضی سے کوئی رد وبدل نہ کر سکتے تھے اس بات پر چند عبارتیں اور اقوال پیش کیے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ کھل کر واضح ہوسکے۔
(١) مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اہل عر ب کو اجازت اس بات کی دی گئی کہ جو اختلاف قراء ت نبیﷺسے ثابت ہے وہی پڑھا جائے ، اس میں عموم نہیں تھا، یہ تغیر وتبدل ہر کسی کے لئے نہ تھا بلکہ اس کے لئے تھا جس کو نبیﷺنے اجازت بخشی تھی ، اسی پر اکثر ائمہ سلف وخلف ہیں۔ (تحفۃ الأحوذی:۱؍۵۵۱)
(٢) علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کہا ہے:
سیدنا ابی بن کعب اور سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہمانے کسی لفظ کامرادف نبیﷺسے سیکھا ہوتاتواس لفظ کی جگہ استعمال کر لیتے تھے، تو ظاہر بات یہ ہے کہ ان دونوں نے نبیﷺسے سنا کہ آپ کسی لفظ کی جگہ اس کا فلاں مرادف استعمال کرتے ہیں۔ یہی وہ متنوع اور معروف اختلافات ہیں جنہیں قراء ات کہاجاتا ہے۔ اور یہی بات ارباب اہل الشان کے ہاں مشہور ہے۔(عون المعبود:۱؍۵۵۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کے نزول کی ابتداء مکہ میں ہوئی یا مدینہ میں؟
مناسب ہے کہ اس تفصیل میں جانے سے پہلے چند ایک باتیں شیخ الدکتور محمد سالم محیسن رحمہ اللہ کی کتاب ’رحاب فی القرآن الکر یم‘سے نقل کی جائیں۔
الد کتور محمد سالم محیسن رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ قراء ات کا نزول مکہ میں شروع ہوا یا مدینہ میں اس کے متعلق اہل علم کے دو اقوال ہیں:
قول اوّل: قراء ات مکہ میں نازل ہوئیں اس کے بارے میں متعدد شواہد اور قرآئن موجود ہ ہیں۔
قول ثانی: قراء ات مدینہ میں نازل ہوئیں ۔ اس موقف کو اختیار کرنے والوں نے مخاصمات صحابہ کے واقعات کو بنیاد بنا کر یہ بات کہی ہے۔
تعقیب وترجیح
میں سمجھتا ہوں پہلا موقف زیادہ واضح ہے کہ قراء ات کا نزول مکہ میں ہوا یہ قول راجح ہے اور اسی پر قلب مطمئن ہوتا ہے ۔ اور اس پرکوئی اعتراض بھی وارد نہیں ہوتا ہے۔
رہی دوسرے موقف کی بات تواس پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے یہ قول مرجوح ہے ۔ اعتراض یہ ہے کہ ۸۳ سے زیادہ سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں ۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ سبعۃ أحرف کے مطابق نازل ہوئیں، کیونکہ کسی قوی سند تو کیا ضعیف سے بھی ان سورتوں کے دوبارہ مدینہ میں نازل ہونے کا ثبوت نہیں ملتا ۔پس ان مکی سورتوں کا دوبارہ نازل نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ قراء ات مکہ میں نازل ہوئیں۔ (رحاب فی القرآن الکریم:۲۲۲،۲۲۴)
شیخ محمد سالم رحمہ اللہ کا موقف کا درست معلوم ہوتا ہے کہ قراء ات کے نزول کی ابتدا مکہ میں ہو چکی تھی اب ہم اس پر مزید کچھ قرائن وشواہد پیش کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ دلیل اوّل
جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ آپﷺنے آسانی ٔ امت کی خاطر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور یہ دعا کوئی ایک موقع یا ایک وقت میں نہیں کی بلکہ متعدد بارکی ہے اورمواقع بھی مختلف معلوم ہو رہے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ آپﷺسے اس بارہ میں جو روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ مختلف الا لفاظ ہیں ۔ اور روایت کرنے والے صحابہ بھی الگ الگ ہیں۔ اس کے متعلقہ روایات میں سے صرف ایک روایت پر ہم بحث کریں گے۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت جو ’’مسلم‘‘ میں ہے کہ نبیﷺاضاء ۃ بنی غفار کے قریب جبرائیل﷤سے ملے تو آپ نے آسانی امت کی سفارش کی…إلی آخرہ
إضاء ۃ بنی غفار کس جگہ کو کہتے ہیں ؟پہلے اس کی وضاحت ضروری ہے۔
مؤرخین اور علماء دو حصوں میں تقسیم ہیں:
ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ جگہ مدینہ کے قریب ہے جیسے طبرانی رحمہ اللہ اور ابن احجر رحمہ اللہ وغیرہ اور کئی دیگر علماء کا قول ہے کہ یہ جگہ مکہ کے قریب ہے۔
(١)محقق تاریخ دمشق’’ علی شیری ‘‘نے لکھا ہے کہ اضاء ۃ بنی غفار مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے۔ (تاریخ دمشق:۴۷؍۲۴۲)
(٢) اضا ء ۃ بنی غفار موضع قرب مکۃ(خلاصۃ الوفا باخبار دار المصطفی:۱؍۳۰۳)
’’اضاء ۃ بنی غفار مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہم اضاء ۃ بنی غفار کے ارد گرد جگہوں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ اضاء ۃ بنی غفار مکہ کے قریب ہے یامدینہ کے؟
(١) إضاء ۃ فوق سرف(معجم البلدان:۱؍۴۲۶)
’’اضاء ۃ سرف کے اوپر جگہ کا نام ہے ۔‘‘
گویا کہ سرف اوراضاء ۃ قریب قر یب ہیں۔ اب سرف کی وضاحت چاہے۔
(٢)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’سرف، یقرب مکۃ ،مذکورۃ فی الحدیث‘‘
’’سرف مکہ کے قر یب ہے ، حدیث میں اس کا ذکر ہے۔‘‘ (تبصرۃ المنتبہ بتحریر المشتبہ:۱؍۱۹۵)
(٣) سرف مکہ کے قریب جگہ کا نام ہے نبیؐ کی میمونہ رضی اللہ عنہاسے شادی یہیں ہوئی تھی اور میمونہ رضی اللہ عنہانے اسی جگہ وفات پائی اور وہی دفن ہوئیں اسی جگہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺکے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔(الاعلام للزر قانی:۷؍۳۴۲)
(٤) محقق تاریخ دمشق علی شیری کہتے ہیں:
’’التناضب عند موضع لبنی غفارٍ ،قرب سرف‘‘
’’تناضب بنی غفاراور سرف کے قریب ایک جگہ ہے۔ گویا یہ تیسری جگہ ہے جو سرف اور اضاء ۃکے قریب ہے۔‘‘
(٥) میمونہ بنت حارثہ رضی اللہ عنہا(زوجۃ النبیﷺ) کے قبر وادی سرف اور اضاء ۃ بنی غفار کے ما بین یعنی(الثُنِیَّہ) جگہ پر ہے۔ (مکہ کے اطراف میں) چو تھی جگہ (الثنیۃ) ہے۔ سرف میں ان کی شادی نبیﷺسے ہوئی۔ پس وہ سرف میں فوت او ردفن ہوئیں۔ (اخبار مکۃ للفاکہی:۷؍۳۷۷)
(٦) حافظ ابن کثیر نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی ہجرت إلی المدینۃکے بارے میں لکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبیﷺسے پہلے بیس آدمیوں کے ہمراہ ہجر ت کی آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کرنے والوں کو کہا تھا کہ مقام سرف سے اضاء ۃ بنی غفار کے قریب تناضب مقام پر اکٹھے ہو جائو مزید تفصیل کے لئے دیکھیں۔ (سیرت ابن کثیر:۲؍۲۲۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ بحث
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ مذکورہ اقوال میں چار جگہوں کا نام آیا ہے ، یہ چار مکہ کے قریب واقع ہیں۔
آپﷺکا اضاء ۃ بنی غفار پر یا اس کے قریب آنا مکی زندگی میں معلوم ہوتا ہے ورنہ مدنی زندگی میں آپﷺکا یہاں تشریف لانا بالکل ثابت نہیں ہو رہا۔
(٧) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺمکہ سے غروب شمس کے قریب نکلے پس آپﷺنے سرف میں آ کر نمازپڑھی یہ موضع مکہ سے ۹ میل کے فاصلہ پر ہے۔(أخبار مکۃ:۷؍۳۷۸)
(٩) علامہ فاکہی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب آپﷺسفر طائف کے لئے تشریف لے گئے تواس وقت آپﷺإضاء ۃ بنی غفار کے قریب تشریف لائے تھے۔ اور جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺسے ملاقات کی تھی۔ آپﷺسے ملاقات کی تھی ۔ آپﷺنے آسانی امت کی خاطر قرآن کے تلفظ میں سہولت کی دعا کی تھی۔ اور نخلہ یمانیہ میں جنات کامسلمان ہونا مشہور واقعہ ہے۔ (أخبار مکۃ:۷؍۴۶۵)
نوٹ: آپﷺکا اضاء ۃ بنی غفار اور قرب وجوار میں تشریف لانا کئی بار ثابت ہے۔
(ا) میمونہ رضی اللہ عنہا کا نبیﷺکے ہاتھ یہ بیعت کرنا۔
(ب) نبیﷺکی میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی۔
(ج) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں آپﷺکاغروب شمس کے قریب تشریف لانا۔
(د) سفر طائف کے لئے جاتے وقت وہاں تشریف لانا۔
اگر اضاء ۃ بنی غفار یاسر ف نامی جگہ مدینہ کے قریب ہو تو غروب شمس سے کچھ وقت پہلے چل کر مدینہ کے قریب پہنچ کر آپﷺکا نماز ادا کر کے عقل سے بعید چیز ہے۔ لہٰذایہ مکی زندگی کا واقع سمجھا جائے گا۔
خلاصۂ بحث یہ کہ نبیﷺکا مکہ کے قرب وجوار میں خصوصاً اضاء ۃ بنی غفار کے قریب آنا مکی زندگی کے واقعات میں سے ہے۔ انہی سفروں کے دوران آپﷺکی جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اورآپﷺنے قراء ات قرآن میں آسانی کی درخواست فر مائی۔لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ قراء ات کے نزول کے ابتدا مکہ سے ہوچکی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلیل ثانی
آپﷺنے دعا جو فرمائی تھی وہ آسانی امت کی دعا کہ نہ آسانی قریش کی۔
جو شخص مدینہ میں نزولِ قراء ات کی ابتدا کا دعویدار ہے اسے چاہیے کہ واضح کرے کہ مکی زندگی میں اسلام لانے والوں کو کیا آپﷺایک ہی تلفظ پرمجبور کر کے قرآن پڑھاتے تھے جو لوگ مکی زندگی میں مکہ اور دیگر عرب علاقوں سے حاضر ہوتے تھے۔ یہ سب ایک قراء ت او رتلفظ کو اپنا سکتے تھے تو بعد میں ہونے والے مسلمان بھی سیکھ سکتے تھے دوسرے لفظوں میں یہ کہیں گے کہ پھر آسانی اُمت کی دعا کرنے کا معنی اورمقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
یہاں وضاحت کرتے چلیں کہ امت میںعجمی اورعربی سب شامل ہیں۔ قراء ت قرآن جہاں عرب کا مسئلہ تھا بعینہ عجم کا بھی، کیونکہ قراء ات پڑھاتے وقت یہ بات تجر بات میں آئی ہے کہ بعض طلبہ کو اختلاف قراء ات پر زبان سیدھی کر نے کے لئے کافی محنت ومشقت کرنا پڑتی ہے خصوصاً تسہیل ، تقلیل ، بعض جگہ نقلِ حرکت وغیرہ میں مسائل ہیں۔
مکی زندگی میں مکہ باہر سے آنے والے حضرات کے نام جو مسلمان ن ہوئے مورخین اور سیرت نگاروں لکھے ہیں۔ چنانچہ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:
طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ، حماد ازدی، یمن کے باشندے اسعد بن ضرار ہ قبیلہ ازد شنوء ۃ یثرب سے ، عوف بن حارث(بنی نجار) رافع بن مالک ( بنی زریق) ، عتبہ بن عامر بن حدیرہ (بنی سلمہ) عقبہ بن عامر( بنی حرام بن کعب) ،حار ث بن عبد اللہ بن راب (بنی عبید بن غنم) اور سوید بن صامت یہ سب مکی زندگی میں مسلمان ہوئے۔ (الرحیق المختوم:۲۱۴)
مکی زندگی کے اوائل اور اواخر میں مسلمان ہونے والے بہت سے لوگ غیر قریشی تھے۔ اگروہ سب لغت واحد کے مطابق قرآن سیکھ سکتے تھے تو بعد والوں کے لئے دعا کر نے کی ضرورت نہ تھی معاذ اللہ ! نبیﷺکی دعا کیا بے فائدہ سمجھی جائے گی ؟ مزید لکھتے ہیں:
ایک بات کی اور وضاحت کرتے چلیں کہ سبعہ احرف کا نزول بتدریج ہوتا رہا ہے۔شروع شروع میں ایک قراء ات پھر دو پھر تین پھر چار او رآخر میں سات قراء ات تک اجازت مل گئی ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے مضمون کے شروع میں حدیث ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر۲۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کا واقعہ
آپ رضی اللہ عنہ کو نبیﷺنے بارہ سنۂ نبوت میں مدینہ کا معلم بنا کر بھیجا ، چونکہ یثرب سے ۱۲ آدمی اسلام قبول کرنے کے لئے آئے آپﷺنے مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ان کے ساتھ بھیج دیا۔ آپ رضی للہ عنہ اسعد بن ضرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہرے، مدینے والے آپ کو (المقری) ’پڑھانے والا‘ کہا کرتے تھے ۔ آپﷺنے مصعب رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی کہ اہل یثرب کو قرآن پڑھایا کرنا۔(تاریخ طبری:۱؍۱۱۶)
نوٹ: اسلام میں سب سے پہلے (المقری) کا لفظ سیدنا مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کے لئے بولا گیا۔
وضاحت
قبائل مکہ اورمدینہ میں لغت عرب کا کافی اختلاف تھا۔ اگر مصعب﷜ان کو قریشی لغت پڑھاتے تو ان پر گراں گذرتا بلکہ ہمارا یہ خیال ہے کہ ان لوگوں کو مصعب رضی اللہ عنہ انہیں کی لغت پر قرآن پڑھاتے تھے۔کیا ایسے شخص کونبیﷺاستاد بنا کر بھیجیں گے جو سامعین کو اپنی گفتگو ہی نہ سمجھا سکے اورقبول اسلام کے لئے آئے لوگوں پر تلفظ کے معاملہ میں مشقت ڈال دے۔ بلکہ ان لوگوں کوانہی کی لغت پر قرآن پڑھایا جاتا تاکہ زیادہ زیادہ سے لوگوں کا دل قرآن اور اسلام کی طرف مائل ہو سکے اور انہیں دین سیکھنا او رسمجھنا آسان لگے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان رضی اللہ کا قراء ات کو جلانا اور مصاحف عثمانیہ پر ایک بحث
مستشرقین اورمنکرین قراء ات وحدیث نے اس مسئلے کو ہمیشہ توڑ مروڑ کے پیش کیا یہ لوگ یا تو اہل تشیع کی روش پر کار بند ہیں یا محض ہٹ دھر می کی بنیاد پر کتمان حق کر رہے ہیں۔
جس طرح شیعہ نے اَصحاب رسولﷺکو بدنام کرنے کے لئے اِیڑی چوٹی کا زور لگایا بعینہٖ منکرین حدیث و قر اء ات نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات پر بہت بڑا الزام لگایا کہ انہوں نے قراء ات متواترہ اوروحی الٰہی کو جلا دیا تھااور بعض نے غلط فہمی کے بنا پر یہ کہہ دیا کہ انہوں نے صرف لغت قریش کو باقی رکھا باقی لغات کو جلادیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن قراء ات نہایت دقیق مسائل کا حامل ہے اسی طرح اس کے متعلقہ جو معلومات واقوال ملتے ہیں انہیں بھی فراخ دلی کے ساتھ واضح کرنا ہو گا نہ کہ حق کو دبانے کے لئے کے بعض کو چھوڑ دیا جائے۔لہٰذا اس بحث میں دو اقوال پر بحث کی جائے گی ایک یہ کہ انہوں نے تمام قراء ات کو ختم دیا دوسرا یہ کہ انہوں نے علاوہ لغت قریش کے باقی سب کو جلا دیا تھا۔ (طحاوی ودیگررحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بحث:
مستشرقین کے اعتراضات پر بھی کئی طرح کے اعتراضات وارد ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بات نہایت کمزور اوردلائل غیر واضح ہیں۔
مصاحف عثمانیہ میں اختیار کیا جانے والا رسم الخط بذات خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس الزام سے بری ہیں ۔ اسی طرح جلیل القدر صحابہ کی وہ کمیٹی جنہوں نے نے قرآن مجید کی کتابت خلافت کے حکم پر مکمل کی وہ بھی اس سے بری ہیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مجید لکھوائے تھے ان کو اعراب ونقاط اور دیگر علامات وغیرہ سے بالکل خالی رکھا، کیونکہ ان چیزوں کے استعمال سے کلمات کا تلفظ مقید ہو جاتاتھا یہ قرآن چونکہ متفق علیہ تھے اس لیے جو اعراب ان پر لگادیا جاتا وہ صحیح سمجھا جاتا تھا اور باقی اختلافات قراء ات کاسراسر انکار ہونا تھا۔
چنانچہ رسم قر آن پر قلم اٹھانے والی ہستیوں نے اس مسئلہ پر اپنی کتابوں میں وضاحت فرمائی ہے۔ صحابہ کرام کے قلم اللہ کے حکم سے اس طرح چلے کہ ایسا رسم الخط تیا رہوا جس سے قراء ات کے تمام منقول اختلافات اَخذ ہو سکتے تھے لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محافظ سبعہ قراء ات ہوئے۔ اسی طرح زید بن ثابت﷜اور دیگر صحابہ بھی قرآن مجید کے محافظ ہیں۔
باقی رہی دوسری بات کہ صرف لغت قریش کو باقی رکھاگیا اس کی بھی کوئی دلیل نہیں،کیونکہ ہماری قراء ات وروایات میں اِمالہ وتسہیل اور دیگر کئی طرح کے اختلافات بلا شبہ لغت قریش نہیں ہیں بلکہ دیگر قبائل مثلا اہل نجد اسد، تمیم، قیس، وغیرہ کے لغت ہیں۔یہ اب تک موجود کیوں ہیں؟ دنیا کے تمام ممالک میں ناقلین قراء ات اس پر کیوں عمل پیرا ہیں؟جس ہستی مقدس نے حفاظت کا دعوی کیا تھا وہ اپنی کتاب کی حفاظت سے عاجز آگیا؟معاذ اللہ
کچھ لوگوں کو صحیح بخاری کی روایت سے غلط فہمی ہو گئی جس کا پس منظر’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فاکتبوہ بلغۃ قریش‘‘ ابن حجربیان کرتے ہیں:
کہ التابوت کی تا میں اختلاف ہوا کہ اس گول ۃ سے لکھا جائے یا لمبی تاسے۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے جب مسئلہ رکھا گیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کو قریش کے لغت پر لکھو۔ انہوں نے لغت قریش پر کتابت کا حکم دیا تھا نہ یہ کہ باقی لغات کو ختم کر کے قریش کی لغت کوباقی رکھنے کا گویا کہ انداز تحریر اس طرح کا اختیار کیا گیا کہ ایک ہی طرح کے رسم سے تمام ناقلین اپنے اَساتذہ سے ثابت اور منقول اختلافات کو نکال لیں۔ تاکہ اُمت فتنے میں نہ پڑے او ر سبعہ احرف کا محفوظ ومامون رہیں۔
 
Top