• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سبعۃ أحرف اور اس کا مفہوم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منکرین کا اعتراض قرآن کے خلاف
قرآن یہ کہتاہے کہ وحی کو منسوخ کرناصرف اللہ کے اختیار میں ہے نہ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت محمدﷺیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اختیار میں ۔ چنانچہ ان کا موقف قرآن کے سراسر خلاف ہے۔ ہم قرآن آیات کی روشنی میں نسخ وحی کے مسئلہ پر وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔
نسخ وحی صرف اللہ کے اختیار میں
دلیل اوّل:
فرمانِ الٰہی ہے:
’’مَا نَنْسَخَ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَأتِ بِخَیْرٍ مِنْہَا اَوْمِثْلِہا‘‘ (البقرۃ:۱۰۶)
’’ جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی کی مثل لے آتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں نسخ وحی کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی ہے۔
دلیل ثانی
دوسر ے مقام پر فرمایا:
’’وَإذَا تُتْلٰی عَلَیھِم اٰیتُنَا بَینتٍ قَالَ الَّذِینَ …… عَذَابَ یَومٍ عَظِیم‘‘(یونس:۱۵)
’’ اورجب ان پر ہی ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں کہتے ہیں وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے کہ ( اے نبیﷺ) اس قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن لے آؤ یااس میں رد وبدل کردو۔ فرما دیجئے میرے لائق نہیں کہ میں اسے اپنے پاس سے بدل دوں میں تو وحی کا پیروکار ہوں اگر میں نے نافرمانی کی تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وضاحت
وحی میں تبدیلی یاکسی کلمے یا آیت کا بدلنا نبیﷺکے اختیار میں نہیں ہے۔
دلیل ثالث
تیسرے مقام پر فر مایا:
’’وَلَوتَقُولَ عَلَینَا بَعضَ الأقَاوِیْل۔ لَأٔخَذْنَا مِنْہُ بِالیَمِین۔ ثُمَّ لَقَطَعنَا مِنْہُ الوَتِیْن۔ فَمَا مِنْکُم مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِین ‘‘(الحاقۃ:۴۴۔۴۷)
’’ اگر نبیﷺہماری طر ف من گھڑت باتیں کہتے ہیں ( یا منسوب کرتے) توہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے،پھر ہم ان کی شہہ رگ بھی کاٹ دیتے اورتم میں سے کوئی ہمیں اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘
آیات کا مفہوم آسانی سے واضح ہے اگر عثمان رضی اللہ عنہ نے کثیر تعداد میں متواتر قراء ات کوجلا دیا اورکسی صحابی نے کوئی اعتراض نہ کیا ۔ بلکہ اس الزام سے نہ صر ف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بلکہ تمام صحابہ جو اس وقت موجود تھے سب کی شخصیت مجروح قرار پائے گی۔( العیاذ باللہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دفاع سبعۃ احرف اور دفاع عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام ابن حزم رحمہ اللہ کی شاندار تقریر
امام ابن حزم رحمہ اللہ(۲۸۴ھ تا ۲۵۶ھ )فرماتے ہیں:
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے وقت میں خلیفہ بنے جب تمام جزیرۃ العرب مسلمانوں، قرآنوں ،مسجدوں اور قاریوں سے بھرا ہوا تھا اسی طرح تمام مصر، کوفہ بصرہ وغیرہ میں اتنے قاریان قرآن تھے کہ ان کا شمار سوائے اللہ رب العزت کے کوئی نہیں کرسکتا ۔یہ کہنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو صرف ایک قراء ت پر جمع کیا تو یہ باطل ہے آپ رضی اللہ عنہ اس کام پر قادر نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کبھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا ۔ ہاں انہوں نے متفق ہوکر چند قرآن لکھے اور ہر سمت ایک قرآن بھیج دیا کہ اگر وہم کرنے والا وہم کرے یا بدلنے والابدلنے کی کوشش کرے تو متفق علیہ قرآن کی طرف رجوع کر لیا جائے۔ اور یہ کہنا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف مٹا دیئے تو ایسا کہنے والا جھوٹا ہے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ساعت اسلام میں نہ رہتے اور اسلام سے خارج ہو جاتے یہ ساتوں حروف ہمارے ہاں موجود ہیں۔ جیسے تھے ویسے ہی قائم ہیں۔ مشہور ومنقول اور ماثور قراء توں میں محفوظ وثابت ہیں۔ والحمد ﷲ رب العالمین(الملل والنحل:۲۱۸، ۲۱۹، مترجم:مطبوعہ المیزان)
ابن حزم رحمہ اللہ کایہ کہنا کہ وہ ساتوں حروف اب بھی موجود ہیں،سے مراد یہ ہے کہ عرضۂ اخیرہ میں جوباقی رکھے گئے وہ اب موجود ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہہ سکتے تھے کہ ہمیں آپ کی ثقاہت، عدالت، امامت اور جلالت علمی پر پورا اعتماد ہے، لہٰذا آپ چند قرآن لکھ کر دیں، لیکن انہوں نے نہایت احتیاط سے کام کیا اورکئی ایک صحابہ ( ۱۲ صحابہ) کو آپ کا معاون مقرر کر دیا۔لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کہ سبعہ احرف کو ختم کرنا بہتان عظیم ہے۔ بالفرض اگر یہ کام انہوں نے کیاتھا تو آخر کس نے انہیں یہ اِجازت دی ؟ اللہ نے یا اس کے رسول نے؟ کہ وہ قراء ات جو بحکم الٰہی نازل ہوئیں نبیﷺ کی خو اہش اور دعاکا نتیجہ تھیں آپﷺنے صحابہ کو پڑھائیں کہ ان کو جلا دیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عثمان رضی اللہ عنہ کا مصاحف جلانا
اس میں کوئی شک نہیں کہ متفق علیہ قرآن مجید کہ جن کی تعداد چھ یا سات یا آٹھ تھی۔ ان کی کتابت مکمل ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے باقی تمام قرآنوں کو ایک جگہ جمع کیا او رجلا دیا۔
میرے خیال میں مستشرقین یہیں سے بے مقصد دلیل اخذ کرتے ہیں کہ انہوں نے سبعۃ احرف کو جلا دیا تھا۔ یاد رہے کہ ان جلائے گئے قرآنوں میں جہاں فصیح وجوہ درج تھیں وہیں غیر فصیح منسوخ کلمات اور منسوخ آیات اسی طرح تفسیری کلمات تفسیر ی جملے بھی تھے ۔ ان کو جلا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بہت اچھاکام کیا تاکہ آئندہ کوئی ان قرآنوں سے تفسیری جملوں کو غیر فصیح اور منسوخ کلمات اور آیات کو قراء ت کا حصہ سمجھ کر روایت نہ کرے۔
کیونکہ آرمینیا کے محاذ پر جاری جنگ کے دوران جو قراء ات میں اختلاف ہوا تھا اس کا سبب یہ ساری چیزیں تھیں ، اسی اختلاف کو سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ لے کر بارگاہ خلافت میں پہنچے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسئلہ کا حل نکالنے کی گذارش کی ۔
نوٹ: جو آیات منسوخ تھیں، یا غیر فصیح وجوہ عرضئہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں اور کئی صحابہ کو ان کاعلم نہ ہو سکا یہ منسوخ اشیاء بلاشبہ عرضۂ اخیرہ سے پہلے سبعۃ أحر ف کا حصہ تھیں۔
یہاں سے مستشرقین نے محسن اُمت وجامع القرآن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مشکوک قرار دینے کے لئے رافضی فتنہ کا ساتھ دیا۔ او رکہا کہ انہوں نے سبعۃ احر ف جلا دیئے تھے، لیکن مستشرقین نے جان بوجھ کر اُمت کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی اگر وہ کہتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ سبعہ احرف جلائے جو عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تو میرا خیال ہے کہ پھر کسی قسم کا اشکال اور تردد باقی نہ رہتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصۂ بحث
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو سبعۃ احرف جلائے وہ عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے۔ البتہ جن قراء ات ، لغات یا وجوہ کی منشاء الٰہی نے باقی رکھا وہ اُس زمانے سے لے کر آج تک محفوظ ومامون ہے۔ اوران پر ہمیشہ خالق کائنات کی حفاظت رہے گی۔قرآن مجید کامعاملہ توایسا ہے کہ اس میں کسی آیت کو اگر بدلنے کی کبھی بھی ناکام کوشش ہوئی تو ایسا کرنے والے کو ہمیشہ ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ متن میں تبدیلی کرنے والے توکیا اس کے غلط مطالب ومعانی نکالنے والے ذلیل ورسوا ہو گئے اگر امت کے کثیر تعداد میں قراء ات نقل کرنے والے افراد غلط بات پر قائم ہوتے تو کب سے ان کی شکلیں مسخ ہو چکی ہوتیں۔
بعض لوگوں کے بے تکے اعتراضات اور انکار قراء ت پر تعجب ہوتا ہے کہ ان قراء ات متواترہ کے علاوہ کئی قراء ات کو اکثر مفسرین نے اپنی تفسیروں میں درج کیا ہے۔ جلیل القدر محدثین نے بھی اپنی کتب میں بعض کئی ایک کلمات کو درج کرتے ، پڑھتے پڑھاتے اور ان قراء ات کو تحریری شکل میں زینت قرطاس بناتے تو کیا اصول ہے کہ ان کی تحریر تو جائز، لیکن ان کے ساتھ تلاوت کرنا اور پڑھنا پڑھانا ناجائز؟
دوسرا یہ کہ جن حضرات نے قراء ات کی حفاظت میں عمر گذار دی ان قراء ات کا استعمال کر کے تفسیری اشکالات حل کرتے رہے کیا ان کے لئے کچھ اجر وثواب کی اُمید بھی رکھنی چاہیے؟ان لوگوں کا کیا بنے گا؟ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں مختلف قراء ات پر عمل ہو رہا ہے۔ مثلا ملک مصر میں روایت ورش اور حفص عام ہے اور ان روایتوں میں قرآن بھی موجود ہیں اسی طرح روایت قالون ، دوری بصری وغیرہ میں قرآن مجید چھپے ہوئے ہیں (راقم الحروف کی لائبریری میں موجود ہیں۔الحمد للہ اور سوڈان ، ایتھوپیا وغیرہ میں امام دوری بصری کی روایت عام پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ تیونس میں روایت قالون عام ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بعض لوگ سوائے روایت حفص کے باقی روایات سے ناواقف ہیں اسی طرح وہاں پربھی عامۃ الناس ہمارے ہاں عام ہونے والی روایت حفص سے ناواقف ہیں وہ اپنی نمازوں میں بھی پڑھتے ہیں کون فتوی دے سکتا ہے کہ یہ تمام لوگ ثواب سے خالی ہیں؟ اور ان کی نماز یں بھی ضائع ہو رہی ہیں کسی شخص نے اگرکوئی علم پڑھا نہیں یا اس کے رموز واسراء سے بالکل ناواقف ہے تو اس کے نہ ماننے سے علم کی حقانیت اور وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ( اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصاحف عثمانیہ کے ساتھ اساتذہ کا بھیجا جانا
علامہ خلف الحسینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن شہروں میں بھیجا، لیکن اس سے کام ختم نہیں ہوا
اس مصحف کو اس زمانے کے رسم الخط کے مطابق بغیر نقطوں اوراعراب کے لکھا گیا ان نسخوں کا اس حالت پر پڑھنا صرف پڑھے لکھے لوگوں کے بس میں تھا اور عوام کو پڑھانے کے لئے ذہین استادوں کی ضرورت تھی۔ اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ہر نسخے کے ساتھ ایک متبحر اور موثق حافظ اور جید قار ی کو بھی بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو قراء ت کی تعلیم،مطالب کے فہم اور اس کے اَحکامات پر عمل کرنے کی تعلیم دے سکے۔روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ مدینہ کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کو قرآن کے ساتھ مکہ میں ، مغیرہ بن شہاب مخزومی رضی اللہ عنہ کو شام میں، ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ تابعی کو مصحف کے ساتھ کوفہ میں اور عامربن عبد القیس رضی اللہ عنہ کو قرآن کے ساتھ بصرہ میں بھیجا ان لوگوں نے قرآن مجید جس طرح رسو ل اللہﷺکی زبان مبارک سے سنا یا ان کے اصحاب سے حاصل کیا ویسا ہی اس خطے کے لوگوں کو سکھایا اور بعد میں تابعین نے ان سے حاصل کیا اسی لیے قراء تِ قرآن کو عام طور پر ان سے نسبت دی جاتی ہے۔ بعض نے کہا کہ آپ نے ایک مصحف بحرین اور یمن میں بھیجا لیکن ان مصاحف کے ساتھ کن اساتذہ کو بھیجا ٰاس کا تذکرہ نہیں مل رہا۔(دلیل الحیران :۴۳ ، وتاریخ المصحف:۶۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعۃ احرف میں حکمتیں اور فوائد
(١)اُمت محمدیہ کے لئے تلفظ میں سہولت وتخفیف
سبعۃ احرف پر قرآن مجید کا نزول حکمتوں او رفوائد سے بھرا ہوا ہے چند ایک کی وضاحت یہاں پر کی جار ہی ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ امت کی آسانی ۔ یہ نبی کی حد درجہ خواہش تھی جس کے لیے آپﷺنے متعدد بار کئی مواقع پر دعا فرمائی۔چونکہ اہل عر ب کے ہاں باہمی بول چال تلفظ وادا اور لہجات میں کافی فرق تھا اور ان میں حد درجہ کی لسانی تعصب بھی موجود تھا اگر انہیں ایک ہی لہجے کا مکلف بنا دیا جاتا تو ان کے لئے انتہائی مشقت والا کام ہوتا وحی الٰہی نے شفقت فرماتے ہوئے ان کو اپنی لغات پر تلاوت کی اجازت دی۔
امام ابن الانباری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اگر اہل عر ب ایک لغت پر قرآن مجید پڑھتے تو ان پر یہ مشکل امر تھا اور اس طرح ان کو ایک حرف پر مجبور کرنا فتور کاسبب بنتا۔ (عون المعبود:۱؍۵۵۰)
یہاں یہ وضاحت کرناضروری ہے کہ اجازت ملنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اہل عرب جس طرح چاہیں قر آن کا تلفظ اور اپنی مرضی سے اختیار کریں۔ بلکہ اجازت اس حد تک تھی جتنی وحی نے دی یہ اجازت سماع نبوی پر موقوف تھی اگر اِجازت عامہ سمجھیں توبخاری ،مسلم کی یہ روایت :
خذوا القرآن من أربعۃ (صحیح بخاری) اقرأ القرآن من أربعۃ (صحیح مسلم)
’’یعنی چار صحابہ (ابن مسعود ،سالم مولی ابی حذیفۃ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے قرآن پڑھو ان کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔‘‘
ایک بات مزید یہ کہ اگر نبیﷺساری زندگی اہل عرب کو قرآن کا تلفظ سکھانے میں صرف کر دیتے تو اسلام کے باقی اَحکام ومسائل ان کو کس وقت سکھاتے؟ چونکہ قرآ ن کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے اس لیے لوگوں کو سہولت دی گئی تاکہ ہر کوئی تلاوت قرآن کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو سکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)تالیف قلوب
قراء ات کے نزول سے آسانی دے کر زیادہ زیادہ سے لوگوں کی دلجوئی اور ان کے دلوں کوقر آن اور اسلام کی طرف مائل کرنا مقصد تھا کہیں تعصب کی بنا پر کتاب اللہ سے بے رغبت نہ ہو جائیں۔
(٣)اعجاز قرآن
نزول قراء ات سے قرآن کے اعجاز کو چار چاند لگ جاتے ہیں کہ باوجود کلمات میں تغیر ہونے کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں آتا، بلکہ ایک قراء ت دوسری کے مفہوم کی تبیین اور خوب وضاحت کرتی ہے اس طرح ایک کتاب کئی معجزات کی حامل کہلاتی ہے ایک قراء ات ایک معجزہ دوسری دوسرا معجزہ۔
کلمات قرآنیہ کی دو قسمیں ہیں:
متفق علیہ اور مختلف فیہ۔پوری دنیا میں تمام ناقلین کے ہاں اختلافی کلمات میں ایک ہی طرح کا اختلاف ہے۔ یعنی اگردو قراء تیں ہیں تو سب کے ہاں دو اگر کسی کلمہ میں تین یا چار ہیں تو تمام ناقلین کے ہاں اتنی ہی ہوں گی۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک ملک میں اختلاف کچھ او ردوسرے میں کچھ یہ بھی اعجاز قرآن ہے، جیسے مٰلک اور مَلک میں پوری دنیا کے قراء کے ہاں دوقراء تیں ہیں، تیسر ی نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤)مثل قرآن لانے کا چیلنج
جیسا کہ یہ بحث پیچھے گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سات حرفوں کی اجازت دی پھرچیلنج کیا سبعۃ احرف کا نزول نہ ہوتا تو قریش کے علاوہ سب لوگ یہ اعتراض کر سکتے تھے کہ قرآ ن کونسا ہماری لغت پر نازل ہوا؟پھر یہ چیلنج قریش کے لئے ہے ہمارے لیے نہیں۔ عالم الغیب نے اس اعتراض کے ہونے سے پہلے ہی قرآن میں آسانی کر دی اوردیگر لغات پربھی قرآن نازل کر دیا ۔ اے اہل عرب اب یہ آپ کی لغات پر نازل ہوچکا ہے لہٰذا اب اس کے مثل بناکے لاؤ۔
(٥)معنوی خوبیاں
قراء ات کے نزول سے قرآنی آیات کے مفہوم میں بہت سی معنوی خوبیاں پیدا ہو گئیں ۔ ایک معنی دوسرے کی موافقت و وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦)حل الاشکالات
قراء ات کے نزول سے بہت سارے مسائل میں پیدا ہونے والے اشکالات حل ہوئے کتنے ہی احکام ومسائل میں اختلاف ختم ہو گیا اور امت فتنے سے محفوظ ہو گئی ۔ جیساکہ لاہب اور لیہب کی بحث پیچھے گذر چکی ہے۔
(٧)دو اختلافی حکموں کا جمع ہونا
یعنی دونوں مرادفات سے دو مختلف مسئلے ثابت ہو رہے ہیں۔ جیسے یطَّہَّرْنَ (سورۃ البقرۃ) میں ایک قراء ت بالتشدید ہے اور دوسری بالتخفیف (یَطْہُرْنَ)۔ تخفیف والی قراء ات انقطاع کے بعد جما ع کے جواز پر دلالت کرتی ہے اورتشدید والی غسل یعنی اچھی طرح پاک صاف ہونے کے بعد۔
(٨)ایک دوسرے کے بدل دو شرعی مسائل کا بیان
ایک کی جگہ دوسری قراء ات استعمال کرنے سے دو علیحدہ علیحدہ شرعی مسئلے واضح ہوتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں۔ جیسے أرْجُلَکُم إلَی الکَعْبَین اور أرْجُلِکُم إلَی الْکَعْبَیْن
 
Top